ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی:

دشمن کے راستہ میں ایک قدم بھی نہیں بڑھانا چاہیے

رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی شب حوزۂ عملیۂ قم  کے ممتازوبرجستہ اساتذہ ، طلبہ اور فضلا  کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ، "علم " کو دینی درسگاہوں اور حوزات علمیہ کی حقیقی شناخت قرار دیا اورحوزۂ علمیہ کی اس شناخت  کے عملی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حوزہ کے اخلاق و تعلیم و تربیت کے نظام ، دشمن کی شناخت اور دیگر  شعبوں  میں نئے سوالات  اور نئے شبہات  کے استقبال ، اظہارِ خیال کی آزادی ، رجعت پسندی سے اجتناب ، علمی خود اعتمادی ، منطقی و عقلی روش  سے استفادہ  کرنے کے بارہ میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ۔

چار گھنٹہ پر محیط اس ملاقات میں رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی نے " علم " کو دینی درسگاہوں اور حوزاتِ علمیہ کا اصلی ستون قرار  دیتے ہوئے فرمایا: حوزاتِ علمیہ کی بنیاد " علم " پر استوار ہے لہٰذا حوزۂ علمیہ کو " علم محوری " کے اصول پر کاربند رہنا چاہیے ۔

حضرت آیۃ اللہ الظعمی خامنہ ای نے کھلی آغوش اور خندہ پیشانی سے سوالات اور مختلف شبہات کے استقبال کو حوزۂ علمیہ کی علمی شناخت  کے عملی اقدامات کا حصّہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا: " علم " نئے نئے سوالات کو جنم دیتا ہے ، علم " سوال و جستجو " ہے  لہٰذا علم محور مجموعوں منجملہ حوزۂ علمیہ کو سوال اور شبہہ کا کھلی آغوش سے استقبال کرنا چاہیے ۔

رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی نے  طولِ تاریخ میں  حوزاتِ علمیہ میں رائج انتہائی سنجیدہ علمی مباحثات اور بحث و جدل  کی طرف اشارہ کرتے ہوتے  فرمایا:حوزۂ علمیہ کے مختلف شعبوں میں اس سنّت ِ حسنہ کی تقویت ہونا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " سوال "  کے خاتمہ کو علم و دانش کے خاتمہ  کا عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: کسی بھی علمی بحث کے بارہ میں سوال  کرنے،  اسے نئی روش اور اسلوب میں پیش کرنے میں کوئی  حرج نہیں ہے ، حتّیٰ اگر وہ چیز جو سوال کے عنوان سے پیش کی جا رہی ہے سراسر غلط بھی ہو تو بھی علمی راہ و روش  سے اس کا جواب دینا چاہیے ۔

 رہبرِ معظّم انقلاب  اسلامی نے اظہارِ خیال و بیان کی آزادی کو  حوزۂ علمیہ میں رائج ایک اور سنّت ِ حسنہ سے تعبیر کیا اور مذکورہ سنّت میں مزید  گہرائی و عمق پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا: اظہارِ خیال و بیان کی آزادی کسی چیز کے علمی ہونے کا خاصہ ہے ، علمی میدان میں رجعت پسندی اور تحجر  بالکل بے معنیٰ ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  اس نظریہ کو ایک عظیم بہتان اور الزام تراشی قرار دیا  کہ حوزۂ علمیہ میں اظہارِ رائے کی آزادی  اور آزادانہ تنقید  کا ماحول  نہیں پایا جاتا ، اس سلسلہ میں آپ نے مزید فرمایا: موجودہ دور میں حوزۂ علمیہ میں فکر و نظر کی آزادی  ماضی سے کہیں زیادہ ہے لیکن مختلف سطحوں پر اس کی گہرائی و گیرائی  پر مزید توجّہ  دینے کی ضرورت ہے ، تمام شعبوں کے صاحبانِ فکر ونظر اپنی آراء و تجاویز، اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کریں۔

حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے خود باوری ، علمی خود اعتمادی کو حوزۂ علمیہ کی علمی شناخت  کی بقا کے ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا: حوزۂ علمیہ میں علمی نظریات کے تصادم میں " علم " کو سب سے بڑا اور اونچا مقام حاصل ہونا چاہیے ، البتّہ زہد و تقویٰ ، خضوع و خشوع  بھی دینی  درسگاہوں کی اصلی شناخت ہے  لیکن چونکہ  " علم "  کو  کسوٹی کے معیار پر پرکھا جاسکتا ہے لہٰذا حوزۂ علمیہ میں ان افراد کو سب سے بڑے رتبہ پر فائز ہونا چاہیے جو علمی اعتبار سے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہوں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزہ کے علمی اخلاق کے بارے میں علمی انصاف و علمی و تحقیقی کاموں میں کاوش و محنت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: حوزۂ علمیہ کے اساتذہ کو اپنی تمام تر فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ وہ نئے نئے علمی نظریّات کی داغ بیل ڈال سکیں اور حوزۂ علمیہ  جدید تعلیمی نظام کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے ۔

رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی نے قومی اور بیرونِ ملک  کے علمی  معاشرہ سے حوزۂ علمیہ کے فعّال  وسرگرم رابطہ کو  حوزہ کی علمی  بنیاد کے استحکام  کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئےفرمایا: حوزۂ علمیہ قم کو مختلف یونیورسٹیوں، ملک  اور بیرونِ ملک کے دیگر حوزوں سے باقاعدہ رابطہ رکھنا چاہیے ، اس دور کے پیشرفتہ وسائل  اس رابطہ  میں تیزی اور آسانی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔

حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے غیر علمی طریقوں سے مخالف نظریات و آراء کی  سرکوبی کی ممانعت کو حوزۂ علمیہ کی ایک دوسری حسین سنّت  قرار دیتے ہوئےفرمایا: حوزۂ علمیہ میں  مخالف آراء و نظریات  کو باطل کرنے کے لئے غیر علمی  طریقوں سے استفادہ نہ کیا جائے ۔

موصوف نے عقلی استدلال  کو حوزۂ عملیہ  کی علمی روش کی بنیاد قرار دیا اور تکفیر ( کفر کے فتووں)کو غیرعلمی روش قرار دیتے ہوئے فرمایا: غلط افکار و نظریات  کا بھی علمی استدلال کے ذریعہ منہ توڑ جواب دیجئے ۔

رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی نے  تحقیق و تدبّر پر مبنی تعلیم کو حوزۂ علمیہ کی علمی ماہیت و حقیقت کے لئےضروری قرار دیتے ہوئےفرمایا: حوزۂ علمیہ کے اساتذہ کو ابتدائی تعلیمی دور سے ہی طلبہ میں مطالعہ ، غوروفکر اور تحقیق کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف علوم منجملہ فلسفہ  میں حوزۂ علمیہ کی " تحقیق محوری" کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا : علمِ فقہ اگر چہ حوزۂ علمیہ کی ریڑھ کی ہڈّی ہے لیکن ترجیحات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے تفسیرِ قرآن ، تبلیغی فنون اور انسانی علوم جیسے دیگر شعبوں میں بھی ماہر افراد کی تربیت کی جانی چاہیے ۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے علم کے فروغ میں  جدید ٹیکنالوجی  کے استعمال پر زور دیا اور اخلاق و تربیت کے نظام کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حوزۂ علمیہ کو اپنی سرحدوں کے باہر کے وسیع میدان بالخصوص ملک کے تعلیمی و تربیتی نظام میں زیادہ  مؤثّر و فعّال کردار ادا کرنا چاہیے۔

موصوف نے اس مقصد کے حصول کو " تعلیم و تربیت اور اخلاق " کے میدان میں ماہر افراد کی تربیت کا مرہونِ منّت قرار دیا اور حوزۂ علمیہ کے ذمّہ داروں کو نصیحت کی کہ وہ اس ضرورت پر خصوصی توجّہ دیں۔

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر اور باہر رائے عامّہ پر اثرانداز ہونے والے نئے نئے وسائل اور ان کے ذریعہ شبہات اور سوالوں کی بے پناہ یلغار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حوزۂ علمیہ کی سنگین ذمّہ داریوں کی طرف توجّہ دلائی اور اس سلسلہ میں حوزۂ علمیہ میں نئے شعبوں کے قیام پر زور دیا  جس کے لئے منصوبہ بندی  کی جائے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمِ دین  کےحصول  کے خواہاں بااستعداد مزید افراد کو حوزہ کی طرف راغب کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلہ میں حوزہ علمیہ میں انجام پانے والے مثبت اور اہم اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حوزہ کی موجودہ لائق اور سنجیدہ انتظامیہ جسے مراجعِ عظام کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے ،  ان اقدامات  کی انجام دہی  میں اس کی تاثیرسراسر واضح و آشکار ہے ۔

رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے حوزہ کی اعلیٰ کونسل اور حوزہ کی انتظامیہ  کوکمزور کرنے سے اجتناب پر زور دیتے ہوئے فرمایا: سبھی کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ "جامعۂ مدرّسین" جیسے دیرینہ ادارے کمزور نہ ہوں ۔

حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی سامراج بالخصوص امریکہ و صیہونزم کی جانب سےدینداری کے فروغ کے بارے میں دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صیہونزم کے عالمی نیٹ ورک  کے  ذریعہ    پیغمبرِ اسلام(ص) کے تصویری خاکے اور قرآن سوزی  جسیی مذموم اور توہین آمیز سازشیں اور ناپاک حرکتیں ، اسلام دشمن عناصر کی خباثت کی علامت ہیں ، ہمیں انہیں کم نہیں سمجھناچاہیے ۔

یہ فطری بات ہے کہ حوزۂ علمیہ ان مذموم و شرمناک حرکتوں کے مقابلہ میں خاموش نہیں رہ سکتا وہ پوری ہوشیاری کے ساتھ سامراجی طاقتوں کے ناپاک عزائم  کے خلاف اپنا موقف واضح کرتا ہے ۔

رہبرِ معظّم انقلاب اسلامی نے دشمن کی شناخت اور اس کے راستہ پر چلنے سے اجتناب کو ضروری قرار دیتے ہوئےفرمایا: پوری قوم منجملہ اہل حوزہ کو ہمیشہ ہی اس بات سے ہوشیار رہنا چاہیے ، انہیں دشمن کے من پسند راستہ میں  کوئی چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھانا چاہیے اور نہ ہی  ان کے حق میں کوئی بات کہنا چاہیے ۔

حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے ایک دوسرے حصّہ میں ، معنویّت ، توسّل ، گریہ و زاری تقویٰ اور دنیوی زرق برق سے بے رغبتی کو حوزہ کی اصل و اساس قرار دیا اور فرمایا: اگر علمی ، منطقی اور عقلی امور کی پیشرفت کے تمام وسائل فراہم ہوں لیکن اخلاقی و معنوی امور کی طرف رجحان نہ پایا جاتا ہو تو یہ امور اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔

رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے حوزۂ علمیہ کے بزرگ  اور روشن ضمیر اساتذہ منجملہ امام خمینی (رہ) کی علمی سیرت اور اخلاق و معنویت کی طرف ان کی عملی دعوت اور نصیحت کی  طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوان کا دل نصیحت کو قبول کرنے اور معنویّت کے اعلیٰ  مراتب کو طے کرنے  کے لئے سازگار ہوا کرتا ہےاور ہمیں اس سازگار ماحول سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے ، اپنے قول و فعل سے طلّاب کو اخروی امور میں غور و فکرنیز خالصانہ نیت کے سا تھ حصولِ علم  کی دعوت دینا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حوزۂ علمیہ کے ممتاز اساتذہ و طلاّب سے ملاقات و گفتگو کو ایک یادگار، مفید اور لذت بخش لمحہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: حوزہ کے فضلا کی ساری باتیں ، ان کی تمام آراء و تجاویز انتہائی سنجیدہ اور دلچسپ تھیں۔

حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا: ان منصوبوں اور تجاویز میں موجودہ حالات اور حقائق کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے تا کہ انہیں عملی جامہ پہنایا جاسکے ، یہ اچھی اور مفید باتیں صرف ایک آرزو کی حد تک  باقی نہ رہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  بعض اساتذہ کی طرف سے حوزہ کے جامع علمی منصوبہ کی تدوین  کی تجویزکو سراہتے ہوئے فرمایا:اگر اس مشکل اور پیچیدہ کام کے مقدّمات فراہم ہو جائیں تو اس سے بلند مدّت  کی منصوبہ بندی بھی امکان پذیر ہو جائے گی ، اس کے علاوہ کم مدّت اہداف و مقاصد اور منصوبوں کابھی سنجیدگی سے  تعاقب کیا جاسکتا ہے ۔

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے حاضرینِ جلسہ میں سے ایک استاد کی جانب سے انسانی علوم کے بارہ میں  پیش کئے گئے خیالات  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انسانی علوم ، لازم و ضروری علوم ہیں لیکن انہیں اسلامی نظریۂ حیات پر استوار ہونا چاہیے ۔

رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئےفرمایا: حوزۂ علمیہ کو رائج انسانی علوم  سے واقفیت و آشنائی کے ساتھ اسلامی نظریۂ حیات پر مبنی انسانی علوم کو مدوّن و مرتّب کرنا چاہیے ۔

اس ملاقات کے آغاز پر  حوزۂ علمیہ قم ا ور یونیورسٹی کے مندرجہ ذیل  بارہ اساتذہ ، فضلا اور طلبہ نے فقہی، علمی ، فلسفی ، اجتماعی ،ثقافتی اور دیگر مسائل پر اپنے خیالات پیش کئے :  

 عبد الحسین خسرو پناہ

محمد رضا زیبائی نژاد

 محمد مہدی شب زندہ دار

  ہادی صادقی

علی صبّوحی طسوجی

 محمّد جعفر علمی

ابوالقاسم علی دوست

 غلامرضا فیّاضی

 محمد فتحعلی خانی

عبّاس کعبی

محمد مہدی مہندسی

احمد مبلّغی

مذکورہ حضرات نے اپنی گفتگو میں مندرجہ ذیل  آراء و تجاویز پیش کیں:

۔ حوزۂ علمیہ کے جامع علمی و تحقیقی منصوبہ کی تدوین  کی ضرورت

۔ حوزہ علمیہ میں عقلی علوم  اور ان کی مدیریت  پر خصوصی توجّہ

۔ اسلامی حکمت (فلسفہ و کلام ) کی تدریس کے لئے ایک مدرسہ کا قیام

۔ فقہ اور انسانی علوم کے فلسفہ کی نہج  پردیگر  علوم و امور  کے فلسفہ کے بارے میں مختلف مدارس کا قیام  

۔حوزۂ علمیہ کی مختلف سطوح پر معنوی و اخلاقی  امور کی حفاظت  اور تقویت  کی اہمیت  

۔حوزہ کے اعلیٰ دروس میں تحقیق کو محور و اساس قرار دینا

۔ حوزۂ علمیہ میں قرآن اور تفسیر  کے  مقام پر نظرِ ثانی   

۔ حوزہ علمیہ میں جدید ٹیکنالوجی اور I.T  کے استعمال پر نظرِ ثانی ، اس کے ساتھ ساتھ علم کی پیداوار پر مکمّل توجّہ

۔سطحی نظام کے بجائے جامع اور ہمہ گیرنظام  پر توجہ

۔جدید تعلیمی ٹیکنالوجی کے پیشِ نظر  حوزہ کے موجودہ تعلیمی نظام کی اصلاح

۔ملک کے دیگر علمی مراکز  بالخصوص دیگر مقامات کی دینی درسگاہوں سے حوزۂ علمیہ قم  کے نیٹ ورک کی تقویت

حوزہ میں نقادی اور  مباحثہ  کی فضا میں مزید وسعت و فروغ

۔ جدید ٹیکنالوجی اور پیشرفتہ وسائل کے ذریعہ ثقافت کے فروغ کے لئے بھر پور استفادہ کرنے پر تاکید  

دین کے خالص حقائق کی ترویج و اشاعت میں ہنر کو دنیاکی ایک حسین ، گویا اور یادگار زبان کے طور پر استعمال کرنا  

۔حوزۂ علمیہ کے جامع علمی منصوبہ کی تدوین

۔ انسانی حقوق، خواتین اور ان جیسے دیگر عالمی مسائل کے بارہ میں اسلام کا نقطۂ نظر  بیان کرنے کے لئے ایک سینٹر کا قیام

۔فقہی استنباط میں عصری  تقاضوں کو مدِّ نظر  رکھنے پر تاکید

۔مدیریت کے میدان میں جوان ، توانا اساتذہ کو موقع فراہم کرنا

۔اسلامی اصول  پر استوار انسانی علوم کی تدوین  

۔ تبلیغ کے امور کی تنظیم کے لئے آئین نامہ کی تدوین 

۔عالمِ اسلام کے ممتاز و برجستہ ماہرین کے نیٹ ورک سے حوزۂ علمیہ  کا مسلسل اور مضبوط رابطہ

۔دنیا کے مختلف مذاہب و مکاتب  سے  قریبی رابطہ کے لئے تحقیق

۔مخاطبین کی ضرورت کے مطابق جدید تبلیغی نظام  کا قیام 

۔ حوزہ میں تغییر و تحوّل کے لئے استاد کے ارتقائی کردار پر  تاکید  

۔ رفتار و کردار اور فکر و شعور میں عالمی سطح پر توجہ  

 

700 /