ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

ایرانی عوام ، اپنی قدرتمندانہ آواز کی گونج، تیونس اور مصر کے عوام کی اسلامی بیداری میں مشاہدہ کررہے ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے خطبوں میں تہران کے مؤمن اور انقلابی  عوام کے ایک عظیم اور شاندار اجتماع سے خطاب میں اس سال عشرہ فجر اور 22 بہمن کو جوش و جذبہ کے لحاظ سے مختلف اور متفاوت قراردیا اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد  ملک میں عمیق، اساسی اور بنیادی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کی استقامت و پائداری کی برکت سے حالیہ 32 برسوں میں ان تبدیلیوں کا سلسلہ مسلسل و پیہم جاری رہا ہے اور اب ایرانی عوام  کئی برسوں کی مجاہدت اور تلاش و کوشش  کےبعد اپنی مظلومانہ لیکن قدرتمندانہ آوازکی گونج شمال افریقہ بالخصوص تیونس اور مصرکے عوام کی اسلامی بیداری میں مشاہدہ کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تہران یونیورسٹی اور اس کے اطراف کی سڑکوں پر نماز جمعہ میں شریک مؤمنوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا اورنماز جمعہ کے پہلے خطبے میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے کے شرائط اور دنیا کے سیاسی  حالات پرانقلاب اسلامی کی کامیابی کے اثرات کا تجزيہ اور تحلیل کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کی منہ زور اور مستکبر طاقتوں نے مشرق وسطی کے حساس ، اہم اور  اسٹراٹیجک  علاقہ میں اپنےوسیع  مفادات کی حفاظت کے لئےایک اہم اور دقیق نقشہ اور منصوبہ بنا رکھا تھا اور کئی برسوں تک وہ اس منصوبہ پر عمل کرنے میں کامیاب بھی رہے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تمام حالات اور شرائط تبدیل ہوگئے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل مشرق و سطی کے لئے سامراجی اور منہ زور طاقتوں کے نقشہ اور منصوبہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: مغربی سامراجی اور منہ زور طاقتوں نے مشرق وسطی کے ممالک کے لئے جو منصوبے بنا رکھے تھے وہ ان خصوصیات پر مشتمل تھےکہ  ایکدوسرے کے دشمن اور کمزورممالک وجود میں لائيں، ان ممالک پرمغرب کے مطیع اور فرمانبردار حکام حکمرانی کریں ،اقتصادی اعتبار سے مصرف کرنے والے ممالک کی سطح پر رہیں  ، علمی لحاظ سے پسماندہ رہیں، ثقافتی میدان میں مغربی ممالک کے پیروکاررہیں، فوجی لحاظ سے کمزور ضعیف رہیں، اخلاقی لحاظ سے فاسق و فاجراور مذہبی لحاظ سے معمولی سطح پر باقی رہیں ، یہ ایسی  خصوصیات تھیں جو مشرق وسطی کے ممالک کے لئے مغربی سامراجی اور منہ زور طاقتوں نے تیار کررکھی تھیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) جیسے عظيم فقیہ، حکیم، مجاہد،شجاع ، نڈر، نافذ الکلام شخص کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کو مشرق وسطی کے حساس اور اسٹراٹیجک علاقہ میں سامراجی طاقتوں کے نقشہ کی ناکامی اور اس کے درہم و برہم ہونےکا اصلی عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: اس عظیم انسان کی تربیت اور اس کا حضور و ظہور یقینی طور پر الہی کام تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کی طرف سے آمادگي اور حضرت امام خمینی (رہ) کی وسیع حمایت کو انقلاب اسلامی کی کامیابی کی راہیں ہموار کرنے میں مؤثر قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے تداوم اور کامیابی میں امام (رہ) اور ایرانی قوم پہاڑ کی مانند استوار رہے دشمن محاذ نے اسلامی انقلاب کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش و جد و جہد کی لیکن دشمنوں کو شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی شکست کے لئے، سڑکوں پر بلوے و بحران ، قومی عداوتیں اور نفرتیں ، کودتا، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ، اقتصادی پابندیاں اور گذشتہ 32 برسوں میں مسلسل نفسیاتی جنگ کو دشمنوں کے منصوبے اور اقدامات قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن نےاپنے ان تمام اقدامات میں تین اہداف کا پیچھا کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی اور اسلامی نظام کو حالیہ 32 برسوں میں دشمنوں کی طرف سے ناکام بنانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن نے فیصلہ کررکھا تھا کہ اگر انقلاب اسلامی کے مقابلے میں اسےشکست و ناکامی ہوتی ہے تو اس  صورت میں ، انقلاب کا استحالہ کیا جائے یعنی اسلام کی ظاہری شکل و صورت باقی رہے لیکن اس کی روح اور اس کے باطن کو ختم کردیاجائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 1388 ہجری شمسی کے فتنہ کو دشمن کا آخری حربہ اورنمائشنامہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس منصوبہ کا نقشہ بنانے والے اور اس کی ہدایت کرنے والے ملک کی سرحدوں سے باہر بیٹھے ہوئے تھے اور بیٹھے ہوئے ہیں بعض لوگ ملک کے اندر جاہ و مقام اور حب دنیا کے لئے ان کی سازشوں کا شکار ہوگئے اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان کا تعاون کرنے لگے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے تیسرے ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن نے یہ عزم کرکھا تھا کہ اگر ان کی تمام کوششوں کے باوجود اسلامی نظام باقی رہا تو ایسے ضعیف اور کمزور افراد کو تیار کریں جو اس میں نفوذ پیدا کرسکیں جو ملک کے مسائل میں اصلی حریف بن جائیں  اور ایسا نظام لائیں جو ضعیف اور کمزور ہو اور امریکہ کے خلاف کوئی قیام نہ کرے۔

رہبر معظم انقلاب سلامی نے ایران کی بیدار قوم، ملک میں اچھے اور ممتاز ماہرین اور لائق حکام کی موجودگی کو دشمنوں کی اپنے اہداف میں ناکامی کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی نے اپنی حقیقت و ماہیت کے پیش نظرملک کے اندر اساسی اور بنیادی تبدیلیاں لائی ہیں  اور امام (رہ) و قوم نے محکم و مضبوط بنیادوں پرانقلاب اسلامی کو استوار کیا ہے اور یہ عظیم حرکت جاری و ساری رہےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران میں رونما ہونے والی اساسی اور بنیادی تبدیلیوں کی تشریح اور پہلوی حکومت میں اسلام کی مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب نے پہلوی حکومت کی اس پالیسی کو 180 درجہ تبدیل کیا اور ملک و معاشرے کی ہدایت اور مدیریت کا محور اسلام کو قراردیا۔ پہلوی حکومت کی امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ شدید وابستگي میں تبدیلی اور دنیا میں ایران کے سیاسی استقلال کا مکمل حصول دوسرا محور تھا جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد حاصل ہوا اور جس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تشریح کی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: قوموں کے لئےیہ استقلال اور سیاسی عزت بہت زيادہ محبوب ، پسندیدہ اور جذاب ہے اور دیگر اقوام کا انقلاب کے بارے احترام اسی اہم مسئلہ کی بنا پرہے۔

رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کے سلطنتی ہونے اوراس میں  عوام کے کسی نقش کے نہ ہونےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے بعد حکومت کی بنیاد دینی عوامی حکومت پر رکھی گئی جبکہ پہلوی حکومت ، وراثتی حکومت تھی لیکن انقلاب نے حکومت کی بنیاد عوامی آراء پر رکھی  جس کے بعد حکومت میں عوام کا نقش نمایاں اور فیصلہ کن ہوگيا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی سے پہلے ڈکٹیٹر سکیورٹی حکمرانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی نے تنقید، اصلاح، یادآوری، مخالفت اور حتی اعتراض کی فضا کا راستہ ہموار کیا، اور یہ سلسلہ گذشتہ 32 برسوں میں جاری رہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی پیشرفت اور قومی خود اعتمادی کو انقلاب اسلامی کے دیگر نتائج قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی سے پہلے ملک علم وٹیکنالوجی کےلحاظ سےمکمل طور پر مغرب سے وابستہ تھا لیکن اب ملک میں علمی و ٹیکنالوجی ترقی کے ساتھ مختلف علمی شعبوں میں ممتاز ماہرین کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو دنیا میں بے مثال اورکم نظیر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی اور علاقائی سطح پر ایران کے مؤثر نقش کو انقلاب اسلامی کے دیگر نتائج میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: علاقائی اور عالمی مسائل پر ایرانی قوم کے اثر انداز ہونے اور اس کی عزت و عظمت کو دیکھ کر دشمن مبہوت ہو گئے ہیں اور وہ ہمیشہ ایران کے اثر و رسوخ کی بات کرتے رہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل میں تقلید محض سے نکلنے اور دشمنوں کی جانب سے ثقافتی یلغار کے منصوبہ کے بارے میں جامع نقشہ پیش کرنے کو انقلاب اسلامی کے دیگر نتائج شمار کرتے ہوئے فرمایا:  اسلامی جمہوریہ ایران ان عمدہ خصوصیات اور اصولوں کی بنا پر دنیا میں ایک نئے تمدن کی داغ بیل ڈال سکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کی توانائی اور اہمیت اور اس کے سیاسی ، اقتصادی، ثقافتی اور فوجی شعبوں میں دنیا کی دیگر قوموں کے لئے نمونہ عمل قرارپانے کی طرف ایک مغربی اہلکار کے اعتراف کو اسلامی نظام کی عظمت  قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے دشمنوں کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنےکےباوجود یہ واقعہ رونما ہوگیا ہے اور ایرانی قوم مختلف شعبوں میں دنیا کی دیگر قوموں کے لئے ایک عملی نمونہ بن گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دیگر قوموں کے لئے ایرانی قوم کے نمونہ عمل بننے میں مغربی ممالک کی بعض غلطیوں اور اشتباہات  کو مؤثر قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن کی طرف سے ایران کے ایٹمی معاملے  پر دباؤ اور اس کے مقابلہ میں ایرانی عوام اور حکام کی استقامت اور پائداری اس بات کا باعث بن گئی اور پوری دنیا کی سمجھ میں آگیا کہ ایران نے ایٹمی معاملے میں قابل توجہ پیشرفت حاصل کرلی ہے اور کسی قسم کا کوئی دباؤ ایرانی قوم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر پیٹرول کی پابندی اس بات کا با‏عث بن گئی کہ ایرانی حکام یٹرول کے میدان میں خود کفیل ہونے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہوگئے اور ایسا ہی ہوا آج ایران پیٹرول کے میدان میں خود کفیل ہوگیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: حکام کی رپورٹ کے مطابق اس سال 22 بہمن تک ایران مکمل طور پر پیٹرول کے میدان میں خود کفیل ہوجائے گا اور حتی پیٹرول برآمد کرنے پر بھی قادر ہوجائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک  کی طرف سے ایران کے پڑوس میں انتہا پسند اسلامی گروہوں کی تشکیل کو مغربی ممالک کے دیگر اشتباہات میں شمار کرتےہوئے فرمایا: مغربی ممالک کے ان اقدامات سے ایران نہ صرف کمزور نہیں ہوا بلکہ ایران مزید مضبوط بن گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: گذشتہ برس (1388 ہجری شمسی مطابق (2009 ء )  کے فتنے میں بھی دشمنوں نے اتنا شور اور ہنگامہ مچایا لیکن ایرانی قوم میدان میں اتر پڑی اور اس نے 9 دی مطابق تیس دسمبر کو اسلامی نظام کی حمایت میں پورےملک میں ریلیاں نکال کر دشمن کے منصوبہ کو ناکام بنادیا اور ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطبہ اول میں مزیدفرمایا: اگر ایک تحریک اور انقلاب دوسروں پر اثر انداز ہونا چاہے تو اس کے اندر مخصوص خصوصیات کا ہونا ضروری ہے اور ان خصوصیات میں استقامت اور پآئداری سب سے اہم ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی خصوصیات اور اہم اصولوں کے سلسلے میں قوم اور نظام کی ثابت قدمی اور پائداری کی وضاحت اور تشریح کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے آغاز سے ہی امام (رحمۃ اللہ علیہ) اور ایرانی قوم نے اس انقلاب کے اسلامی ہونے پر زور دیا لیکن عالمی سطح پر کچھ لوگوں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ اسلامیت، جمہوریت آپس میں جمع نہیں ہو سکتے تاہم امام (رحمۃ اللہ علیہ) اور ایرانی عوام نےان ہنگامہ آرائیوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنے مؤقف پر قائم اور استوار رہے اور اعلان کر دیا کہ ہمارا انقلاب،  اسلامی انقلاب ہے اور ہمیشہ اسلامی رہے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی  نے معاشرے میں اسلامی فضا اور ماحول کے استمرار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت اسلامی ماحول اگر انقلاب کے دور کی نسبت زیادہ نہیں ہے تو کم از کم اس دور کی مانند ضرور ہے اور آج ہمارے لائق اورقابل تعریف نوجوان اس سلسلے میں انقلاب کے دور کے بعض لوگوں سے بہت آگے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ 32 برسوں کے دوران معاشرے کو اسلامی ماحول سے دور کرنے کی بعض حلقوں کی ناکام کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام اور حکام، اسلام کے احکام  پر ثابت قدم ہیں اور آئندہ بھی ثابت قدم رہیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دینی جمہوریت کے سلسلے میں ثابت قدمی کو بھی انقلاب کی خصوصیات کے محفوظ رہنے کی ایک دلیل قرار دیتے ہوئےفرمایا: حضرت امام (رحمۃ اللہ علیہ) نے انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے ہی تاکید فرمائی کہ عوام اپنی رائے کا اظہار کریں اور عوام کی رائے تمام امور اور انتخابات میں آج تک جاری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ بتیس برسوں میں ملک میں تیس انتخابات کے انعقاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جنگ کے دوران بموں اور میزائلوں کی بارش میں بھی انتخابات ایک دن بھی مؤخر نہیں ہوئے اور جمہوریت کے سلسلے میں ثابت قدمی کی یہ حقیقی علامت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حالیہ دور کے صدارتی انتخابات میں الگ الگ سیاسی فکر کے افراد کی کامیابی کا ذکر کیا اور قوم کی رائے کے عمیق اورگہرے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: رہبری کو منصوب یا معزول کرنے کا اختیار رکھنے والی خبرگان کونسل کے انتخابات سے لیکر صدارتی، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات تک سب کچھ عوام کی رائے پر منحصر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سماجی انصاف کے سلسلے میں بھی استقامت و پائداری پر زوردیا اور سماجی انصاف کے قیام کو دوسرے تمام امور سے زیادہ  اہم اور مشکل قرار دیتے ہوئےفرمایا: ملک اس وقت جس مقام پر ہے وہ اس انصاف سے بہت دور ہے جس کا حکم اسلام نے دیا ہے البتہ اہم بات یہ ہے کہ سماجی انصاف کی جانب حرکت بدستور جاری ہے اور اس میں استحکام بھی پیدا ہوا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں روز مرہ کی زندگی کے وسائل اور مواقع کی مناسب تقسیم، حکام کے صوبائی دوروں، سبسڈی کو با مقصد بنانے کے منصوبے کو سماجی انصاف قائم کرنے کے لئے جاری اسلامی نظام کی کوششوں کا اہم نمونہ قرار دیتے ہوئےفرمایا:اگر حکام اور عوام کے تعاون اور بلند ہمتی کے نتیجے میں سبسڈی کو با مقاصد بنانے کے منصوبے پر عملدرآمد صحیح طور پر مکمل ہو جائے تو سماجی انصاف کے قیام کے عمل میں سرعت پیدا ہوجائےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزیدفرمایا: ہماری اور دیگر حکام کی زندگی کا معیارمعاشرے کے سب سے کمزور طبقے کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے جو نہیں ہے، لیکن حکام کی زندگی متوسط طبقے کی مانند ضرور ہے۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ظلم کی مخالفت اور دنیا کی سامراجی طاقتوں کے مقابلے کو بھی اسلامی انقلاب کی اہم خصوصیات میں شمار کیا جو گزشتہ 32 برسوں میں عوام اور حکام کی ہمت و حوصلے کے نتیجے میں آج تک جاری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اوائل میں اور گذشتہ تین عشروں کے دوران بعض حلقوں کی طرف سے ظلم کے خلاف جاری تحریک کوکمزور کرنے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان افراد کی پہلے یہ خواہش تھی کہ انقلابی نعروں کو بالای طاق رکھ دیا جائے اور امریکہ کے ساتھ روابط اور تعلقات بحال کیا جائے اور پھر رفتہ رفتہ ملک کو دوبارہ امریکی پالیسیوں کا تابع بنا دیا جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ 32 برسوں میں ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی شاندار استقامت و پائداری کو دیگرقوموں کی نگاہ میں ایران کی عظمت میں اضافہ کا باعث قرار دیتے ہوئےفرمایا:اس زحمت اور محنت ومشقت کا نتیجہ اللہ تعالی کی برکت و رحمت کی صورت میں نکلا اور اس کے اثرات اہستہ آہستہ ظاہر ہوئےاور ایرانی قوم دوسری قوموں کے لئے پرکشش نمونہ عمل بن گئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کےپہلےخطبے کو سمیٹتے ہوئےمزید فرمایا: ان مسائل اور حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ اس سال عشرہ فجر (12 بہمن حضرت امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی سے لیکر 22 بہمن اسلامی انقلاب کی فتح تک) کو زیادہ پرجوش طریقے سے منایا جائے گا اور 22 بہمن مطاقب نو فروری ( اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ) کے جلوسوں سے گذشتہ 32 سال کے افتخارات میں ایک اور سنہری باب کا اضافہ ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبے میں شمالی افریقہ کے تازہ واقعات خاص طور پر تیونس اور مصر کے حالات کو انتہائی اہمیت کا حامل اور حقیقی معنی میں ایک زلزلہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: اگر مصری قوم توفیق الہی سے اپنی تحریک کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کو نا قابل تلافی شسکت سے دوچار کر دیگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر کے حالات پر صیہونی حکومت کی بڑھتی ہوئی تشویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صیہونی دوسروں سے زیادہ بہتر اندازمیں سمجھتے ہیں کہ اگر مصر ان کا حلیف نہ رہا تو علاقے میں کتنی عظیم تبدیلی آ جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حضرت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی پیشین گوئی کو عملی جامہ پہننے میں کافی مدد ملے جائے گی۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیونس اور مصر کے حالیہ واقعات کے علل و اسباب کا جائزہ لیا اور مصر میں رونما ہونے والے حالات کے بارے میں مغربی ممالک کی جانب سے گمراہ کن تجزیوں کا حوالہ دیتے ہوئےفرمایا: عالمی تجزیوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تیونس اور مصر کے عوام کے قیام کی اصل وجہ اقتصادی اور مالی مسائل ہیں جبکہ اصلی وجہ تحقیر و توہین کا وہ احساس ہے جو تیونس اور مصر کے حکام کے کارناموں کی وجہ سے عوام کے اندر پیدا ہوا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیونس میں اقتدار کے دوران زین العابدین بن علی کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا: بن علی کا مکمل طور پر انحصار امریکہ پر تھا ، یہاں تک کہ بعض رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بن علی امریکہ کی خفیہ ایجنسی  سی آئی اے کے ساتھ منسلک تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزیدفرمایا: کسی بھی قوم کے لئےیہ برداشت کرنا بہت دشوار ہے کہ اس کا حکمراں امریکی اداروں کا با قاعدہ طور پرخدمت گار ہو۔ یہ حقیقت تیونس کے عوام کے قیام کی ایک اہم وجہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیونس میں دینی امور کی انجام دہی اور عوامی مقامات پر حجاب پر پابندی سمیت بن علی کی دین مخالف پالیسیوں اور کارروائیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تیونس کے عوام کے قیام کا ایک اہم ترین جذبہ، اسلامی جذبہ ہے جسے مغربی تجزیہ نگار چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس وقت تیونس میں ایک سطحی تبدیلی ہوئی ہے لہذا تیونس کے عوام کو چاہیے کہ وہ ہوشیاری اور دانشمندی کے ساتھ اپنے مفادات اور منفعت کی تشخیص کریں اور دشمن کے فریب میں ہرگز نہ آئيں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کےدوسرے خطبے میں مصر میں غیر معمولی حالات اور ماضی میں مصر کے درخشاں علمی، سیاسی اور دینی کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مصر پہلا اسلامی ملک تھا جو اٹھارہویں صدی میں مغربی ثقافت سے آشنا ہوا اور پہلا اسلامی ملک تھا جس نے مغربی ثقافت کے سامنے پائداری اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پوری تاریخ میں مصرکو اسلام کا حامی اور اسلامی دانشوروں کا اہم مرکز قرار دیتے ہوئےفرمایا: مصر کی سرزمین سید جمال الدین اسد آبادی جیسےشجاع اور عظیم اسلامی مجاہد اور ان کے شاگردوں منجملہ محمد عبدہ کی یاد دلاتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر کے سیاسی و فکری مقام و منزلت کی تشریح کی اور مصر کی خود مختاری کی تحریکوں اور اسرائیلی فوج کے ساتھ مصری فوج کی جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: ایسے درخشاں اور تابناک ماضی کا حامل مصر تیس سال تک ایسے شخص کے ہاتھوں میں رہا جو نہ صرف حریت پسند نہیں تھا اور صیہونیوں کا دشمن نہیں تھا بلکہ حریت پسندی کا دشمن اور صیہونیوں کا مددگار و خدمتگذار اور نوکرتھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا : نا مبارک کی حکومت کے دوران مصر کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ عالم عرب اور دنیائے اسلام سے کٹ گيا اور عالم اسلام میں ایک  نمونہ ملک کے درجے سے گرکر فلسطینیوں کے دشمن اور صہیونیوں کے مددگار ملک میں تبدیل ہو گیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کی 22  روزہ جنگ کے دوران حسنی مبارک کی غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف کارروائیوں اور غزہ کے ستمدیدہ عوام کے محاصرے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حسنی مبارک کے اس غیر انسانی عمل  سے مصری عوام کےصبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا کیونکہ حسنی مبارک کی حکومت اسرائیل کی حامی و مددگار حکومت اور امریکہ کی غلام  اور نوکرحکومت بن گئی تھی جس پر مصری عوام کو شدت کے ساتھ توہین کا احساس ہوا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر کے عوام کے درخشاں  اسلامی ماضی کی جانب اشارہ کیا اور مصر کے عوام کی تحریک کا ایک بنیادی سبب ان کے دینی اور اسلامی جذبات کو قرار دیتے ہوئےفرمایا: مصر کے عوام نے اپنی تحریک کا آغاز مساجد اور نماز جمعہ سے کیا، دینی نعرے بالخصوص اللہ اکبر کا نعرہ ان کی زبانوں پر ہے اور مصر کی سب سے طاقتور تنظیم بھی ایک اسلامی تنظیم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک کو مصر کے عوام کے قیام کے پیچھے کارفرما اسلامی جذبات کو علاقے کی دیگر مسلمان قوموں کے درمیان آشکارا ہو جانے کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اس تحریک کے لئے وہ صرف اقتصادی و معاشی علل و اسباب کا راگ الاپ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: البتہ معاشی بدحالی بھی، مصری عوام کی تحریک کا ایک سبب ہے جس کے اثر سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور مبارک کے امریکہ پر مکمل انحصار اور اس کی نوکری کا یہ نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے مصر کسی میدان میں ترقی نہیں کر سکا اور مصر کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ قاہرہ کے کئی لاکھ لوگ غربت و افلاس کی وجہ سے قبرستانوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکیوں نے مبارک جیسے غلام کو مالی پاداش اور انعام بھی نہیں دیا اور آج بھی اسے وہ کوئی صلہ دینے والے نہیں ہیں۔  اور جس وقت بھی حاکم مصر فرار کرےگا تو یقینی طور پر سب سے پہلا دروازہ جو مصری حاکم پر بند ہوگا وہ امریکہ کا دروازہ ہوگا، کیونکہ اس سے قبل تیونس کے مفرور صدرزین العابدین بن علی اور ایران کے مفرور شاہ محمد رضا پہلوی کے لئے امریکی دروازہ بند ہوچکا ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ واقعات ان افراد کے لئے عبرت کا باعث  ہیں جن کے دل امریکہ سے دوستی کے لئے بے چین ہیں۔ ان افراد کو غور کرنا چاہیے کہ امریکی اپنے نوکروں سے کیسے منہ پھیر لیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مصری عوام کے انقلاب کے مقابلے میں امریکہ اور اسرائیل کی سراسیمگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہموجودہ حالات سے نکلنے کے لئے کسی راہ کی تلاش میں ہیں اور اس نے مکر وفریب کا عمل شروع کر دیا ہے البتہ امریکہ اور مغرب کے اس ڈرامے کی کامیابی یا ناکامی کا دار ومدار مصری عوام کی کارکردگی اور ان کے فیصلوں پر منحصرہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطبے کے آخری حصے میں علاقائی عوام کے لئے عربی زبان میں خطاب کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں مصر کے موجودہ حالات کو مصری عوام اور ان کے دشمنوں کے درمیان جاری ارادوں کی جنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا:اس جنگ میں جو فریق بھی زیادہ مضبوط ارادے کا مالک ہوگا وہی کامیاب اور کامراں ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے مصر کے موجودہ حالات کو اپنے قابو میں کرنے اور مصر کے عوام کے انقلاب کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ مصری عوام کو اہداف و مقاصد کی تکمیل کے بارے میں مایوس کر نے کے لئے کوشاں ہیں۔ لہذا مصری عوام کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی پر توکل کریں اور اللہ تعالی کی طرف سےنصرت و مدد کے وعدہ پر یقین رکھیں اور ایک لمحے کے لئے بھی کسی شک کو اپنے دل میں راہ نہ دیں ، اللہ تعالی ضرور ان کی مدد اور نصرت کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصری عوام کے اتحاد و یکجہتی کو دشمنوں کے خلاف ان کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیتے ہوئے فرمایا: مصری عوام دشمن کی طرف سے اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنے والے نیرنگ و فریب کے بارے میں بیدار اور ہوشیار رہیں اور اپنے غیور نوجوانوں پر بھروسہ اور اللہ تعالی کی ذات پر توکل کرتے ہوئے ثابت قدمی اور پائداری کے ساتھ اپنے انقلاب کو منزل مقصود تک پہنچائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے سیاسی ڈرامے، دھوکہ بازی اور بیان بازی کے سلسلے میں مصری عوام کو ہوشیار رہنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: امریکی، جو کچھ دن پہلے تک مبارک کے اتنے بڑے حامی تھے، اب اس کی طرف سے مایوس ہو جانے کے بعد خود کو مصری عوام کا ہمنوا اور ہمدرد ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی پسند کے کسی دوسرےشخص کو اقتدار تک پہنچا دیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ نازک حالات میں مصر کے علمائے کرام خاص طور پر جامعۃ الازہر کے علماء کے کردار کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا: مصر کے علمائے کرام عوام کے اس انقلاب میں اپنا اہم اور تاریخی کردار ادا کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صیہونی فوج کے ساتھ مصری فوج کی دو جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: مصری فوج موجودہ حالات میں اپنا تاریخی نقش ایفا کرے اور مصری عوام کے ساتھ ملحق ہو جائے۔

700 /