ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی، :

فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ مردود ہے/ فلسطینی سرزمین تمام فلسطینیوں کی ہے/ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فلسطینی مسئلہ کا منصفانہ حل یہ ہےکہ فلسطینی عوام ریفرنڈم کے ذریعہ حکومت تشکیل دیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی، ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےآج صبح  فلسطینی انتفاضہ کی حمایت میں پانچویں بین الاقوامی کانفرنس میں شریک سفراء، اسلامی ممالک کے پارلیمانی سربراہوں، دنیا کے مختلف ممالک کے ممتاز علماء و مفکرین اور اسلامی ممالک کی ممتاز شخصیات کے اجتماع میں علاقہ کے حالات، فلسطینی ملک کے شرائط اور علاقائی اقوام کے خلاف مغربی ممالک اور صہیونیوں کی سازشوں کے متعلق اہم خطاب بیان فرمایا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب کا کامل متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن‌ الرحیم

السلام علیكم و رحمة‌ الله
الحمدلله رب‌ العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و علی من تبعهم باحسانٍ الی یوم الدین.
قال الله الحكیم: أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ ﴿٣٩﴾  الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللهِ كَثِیرًا وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ ﴿٤٠﴾

تمام عزیز مہمانوں اور محترم حاضرین کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں، تمام موضوعات کے درمیان جو موضوع سب سے اہم ہے اور جس کی طرف پورے عالم اسلام کی ممتاز سیاسی اور مذہبی شخصیات کو توجہ مبذول کرنی چاہیے وہ مسئلہ فلسطین ہے مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے اہم اور ممتاز مسئلہ ہے اسلامی ممالک کے مشترکہ موضوعات میں مسئلہ فلسطین سب سے پہلا اور نمایاں مسئلہ ہے مسئلہ فلسطین خصوصی اہمیت اور شرائط کا حامل ہے :

اول: ایک مسلمان ملک کو مسلمانوں سے  غصب اورچھین کر مختلف اور گوناگوں  ممالک سے لائے گئے غیر قانونی اور غاصب افراد کے حوالے کیا گیا ہے۔

دوم: تاریخ میں یہ واقعہ مسلسل ظلم و ستم ، قتل عام ، توہین اور سنگین جرائم کے ہمراہ انجام دیا گيا ہے۔

سوم: مسلمانوں کا قبلہ اول اور بہت سے دینی و مذہبی مراکز اس ملک میں موجود ہیں جن کی تخریب اور توہین کا سلسلہ  اب بھی جاری ہے۔

چہارم: عالم اسلام کے حساس ترین نقطہ میں غاصب و جعلی حکومت کو تشکیل دیا گیا، جس نے آغاز سے لیکر اب تک دنیا کی سامراجی اور ظالم طاقتوں کے لئے سیاسی ، نظامی اور فوجی چھاؤنی کا نقش ایفا کیا ہے اور مغربی سامراجی طاقتیں اسلامی ممالک  کی پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کرنے اوراسلامی ممالک میں اختلاف ڈالنے کے لئے اس غاصب حکومت کے وجود سے استفادہ کرتی ہیں  اور امت اسلامی کے پہلو میں خنجر گھونپنے کے لئے اس سے استفادہ کرتی ہیں۔

پنجم:  صہیونزم انسانی معاشرے کے لئے  بہت بڑا سیاسی ،اقتصادی اور اخلاقی خطرہ ہے اس نے دنیا کے دیگر علاقوں پر تسلط اور قبضہ جمانے کے لئے اس نقطہ کو اپنا مرکزی وسیلہ اور محور قراردیا ہے۔

ان نقاط پر دیگر نقاط کا بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے: اس سلسلے میں اسلامی ممالک نے اب تک جو انسانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں۔ مسلمان قوموں اور حکومتوں کی ذہنی پریشانی؛ کئی ملین آوارہ فلسطینیوں کا رنج و الم جن میں بعض 60 سال گزرنے کے بعد بھی عارضی کیمپوں میں زندگی بسر کررہے ہیں ، عالم اسلام میں اہم تمدن کی تاریخ کے دور کا خاتمہ ووو۔۔۔

آج ان دلائل  پر ایک اور بنیادی، کلیدی اور اساسی نکتہ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے اور وہ علاقہ میں جاری اسلامی بیداری کی تحریک ہے جس نے پورے علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس نے امت اسلامی کی سرنوشت میں ایک نئے اور تازہ باب کا آغاز کردیا ہے اور بیشک یہ عظیم عوامی تحریک اس حساس اور اہم نقطہ میں اسلامی اقتدار، انسجام اور پیشرفت کا اہم مجموعہ پیدا کرسکتی ہے اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد  اور پختہ عزم کے ذریعہ اس تحریک کے علمبردار، مسلمانوں کی حقارت، کمزوری اور پسماندگی کے دور پر خط بطلان کھینچ دیں گے اسلامی بیداری کا بہت بڑا حصہ مسئلہ فلسطین کا مرہون منت ہے۔

غاصب صہیونی حکومت کی منہ زوری اور ظلم و ستم اور اس کے ساتھ امریکہ سے وابستہ مزدور ، ظالم وجابر حکمرانوں کی ہمراہی ایک طرف، اور دوسری طرف فلسطینی و لبنانی مقاومت کا دلیرانہ مقابلہ اور لبنان کی 33 روزہ جنگ اور غزہ کی 22 روزہ لڑائی میں فلسطین اور لبنان کے مؤمن جوانوں کی معجزنما کامیابی ، منجملہ وہ اہم عوامل تھے جن کی بنا پر مصر ، تیونس ، لیبیا اور علاقہ کے دیگر ممالک میں  عوامی لہر اور طوفان آگیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کی سر سے پاؤں تک مسلح حکومت کو لبنان کی نابرابر اور غیر منصفانہ جنگ میں لبنان کے دلیر و شجاع مجاہدوں کے ہاتھوں سخت ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اس کے بعد اس نے اپنی کند شمشیر کو غزہ کے غیور اور فولادی مسلمانوں کے خلاف آزمایا اور وہاں بھی اسے سنگين شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

علاقہ کے موجودہ حالات کا تجزيہ و تحلیل کرتےوقت  ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مبذول کرنی چاہیے اور ہر فیصلہ کی سچائی کو اس معیار پر پرکھنا چاہیے لہذا یہ ایک دقیق فیصلہ اور اہم بات ہے کہ آج مسئلہ فلسطین کی دوچنداں اہمیت ہوگئی ہے اور فلسطینی قوم کو علاقہ کے موجودہ شرائط کے پیش نظر اسلامی ممالک سے  زیادہ  سے زیادہ توقع کاحق ہے۔

ہمیں ماضی اور حال پر نظر رکھتے ہوئے آئندہ کے لئے روڈمیپ تیار کرنا چاہیے اس وقت میں کچھ اہم موضوعات کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کو 6 دہائياں گذر چکی ہیں، اس خونی اور ہولناک واقعہ کےتمام اصلی مجرم پہچانے جا چکے ہیں اور برطانیہ کی سامراجی حکومت ان میں سر فہرست ہے جس نے سیاسی ، فوجی ، اقتصادی اور ثقافتی ذریعہ سے غاصب صہیونی حکومت کی مدد کی اس کے بعد بعض مغربی اور مشرقی سامراجی حکومتیں اس عظیم ظلم میں شریک ہوگئیں۔ غاصب صہیونی حکومت کے بےرحم پنجوں میں فلسطینیوں کا قتل عام شروع ہوا اور وہ ظلم و ستم کے ذریعہ اپنے خانہ و کاشانہ سے باہر نکال دیئے گئے، اخلاق و تمدن اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے ہاتھوں جو المیہ اس دور میں رونما ہوا اس کا ایک فیصد حصہ بھی آج تک میڈیا اور ذرائع ابلاغ  میں  سامنے نہیں آیا۔ مغربی میڈیا، ذرائع ابلاغ ، سینما، ٹیلیویزن  اور مغربی فلمی اداروں نے ابھی اس ہولناک المیہ کی تصویر کشی نہیں کی اور نہ ہی انھوں نےکسی کو ایسا کرنے کی اجازت دی، ایک قوم بڑے آرام کے ساتھ اور بڑی خاموشی کے ساتھ  اپنے وطن سے بے وطن  اور اپنے گھر سے بے گھرکردی گئی، ابتداء میں تھوڑی بہت مزاحمت ہوئی جسے بے دردی اور قساوت کے ساتھ کچل دیا گیا، اکثر مصریوں اور غیر فلسطینیوں  نے اسلامی جذبے کے تحت مدد کی کوشش کی جنھیں ضروری حمایت نہ مل سکی جس کے نتیجے میں ان کی کوششیں مؤثر ثابت نہ ہوسکیں۔

اس کے بعد غاصب صہیونی فوج کی کچھ عرب ممالک کے ساتھ  رسمی طور پرجنگ بھی ہوئی، مصر ، شام اور اردن نے اپنی قوجوں کو میدان میں بھیجا لیکن  امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی طرف سے غاصب صہیونی حکومت کی بے شمار فوجی ، اقتصادی اور دفاعی امداد کی وجہ سےعرب فوجوں کو شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عرب ممالک نہ صرف فلسطینیوں کی کوئی مدد نہ کرسکے بلکہ انھوں نے ان جنگوں میں اپنی سرزمین کا کچھ حصہ بھی کھو دیا۔

فلسطین کے ہمسایہ عرب ممالک کی ناتوانی آشکار ہونے کے بعد منظم مسلح اور مزاحمتی گروہوں کو تشکیل دیا گيا،اور پھر کچھ عرصہ کے بعد آزادی فلسطین تنظیم کو تشکیل دیا گیا یہ بجلی کا شعلہ تھا جو کچھ عرصہ تک اچھی طرح چمکتا رہا لیکن بعد میں اس کی چمک بھی ماند پڑ گئی اور یہ شعلہ بھی بجھ گیا، اس ناکامی کو متعدد علل و اسباب اور وجوہات کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی اصلی اور سب سے بڑی علت یہ تھی کہ ان کے پاس  اسلامی ایمان و عقیدہ نہیں تھا اور وہ عوام سے بھی دور تھے۔ فلسطین کے دشوار اور پیچیدہ مسئلہ کو بائيں بازو کی آئیڈیا لوجی اور نیشنلزم کےاحساسات کی ضرورت نہیں تھی وہ چیز جو میدان میں ایک قوم کو شکست ناپذیر جذبہ اور جوش و ولولہ فراہم کرسکتی تھی وہ اسلام ، جہاد اور شہادت تھی، انھوں نے اس راہ کا صحیح ادراک نہیں کیا، میں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں میں آزادی فلسطین تنظیم کے ایک ممتاز رکن سے سوال کیا کہ آپ حق پر ہیں اور حق پر ہونے کی وجہ سے آپ اسلام کا پرچم کیوں نہیں بلند کرتے، تو اس کا جواب یہ تھا کہ ہمارے درمیان عیسائی بھی ہیں اور بعد میں اس شخص کو صہیونیوں نے ایک عرب ملک میں قتل کردیا تھا انشاء اللہ ، الہی رحمت و مغفرت اس پر نازل ہو، لیکن اس کا یہ استدلال ناقص اور ناتمام تھا، میرے خیال میں ایک مؤمن عیسائی مزاحمت کار ان ناپائدار اور غیر مؤمن افراد کی نسبت  ایسے مجاہدین  کے ہمراہ بہتر انداز میں لڑ سکتا ہے جو ایمان اور پاک احساسات سے سرشار ہوں اور جنھیں عوامی حمایت بھی حاصل ہو۔

پختہ دینی ایمان کے فقدان اور عوام سے دوری نے انھیں بتدریج  غیر مؤثر بنادیا، البتہ ان کے درمیان دلیر ، شجاع، غیور اور شریف افراد بھی موجود تھے لیکن اس کے باوجود  آزادی فلسطین تحریک کے منتظمین کسی دوسرے راستے پر نکل گئے، ان کے انحراف کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کو بہت نقصان پہنچا اور وہ آج بھی مسئلہ فلسطین کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، انھوں نے بھی بعض خیانتکار عرب حکومتوں کی طرح مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالدیا اور مزاحمت کو نظر انداز کردیا انھوں نے نہ صرف مسئلہ فلسطین پر کاری ضرب لگائی بلکہ اپنے آپ کو بھی سخت  نقصان پہنچایا۔ عرب عیسائی شاعر کے بقول:

لئن اضعتم فلسطیناً فعیشكم            طول الحیاة مضاضات و آلامٌ

اس طرح ان کی منحوس عمر کے 32 سال بیت گئے۔۔ لیکن ناگہاں دست قدرت نے تاریخ کےورق کو پلٹ دیا، اور ایران میں 1979 ء مطابق (1357 ہجری شمسی ) میں انقلاب اسلامی کی کامیابی نے علاقہ کے حالات کو دگرگوں کردیا اور تاریخ کے ایک نئے صفحہ کو باز کردیا۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے عالمی سطح پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوئے اور انقلاب اسلامی کی کامیابی سےسامراجی طاقتوں کی پالیسیوں کو جہاں زبردست دھچکا لگا وہیں  انقلاب اسلامی سے  اسرائیل کو سب سے زیادہ اور آشکارا نقصان پہنچا ، ان ایام میں اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات ان کے اضطراب اور پریشانی کا مظہر تھے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے پہلے ہفتہ میں تہران میں اسرائیلی سفارتخانہ بند کردیا گیا اور اس کے سفارتکاروں کو ایران سے نکال دیا گیا ، اسرائیلی سفارتخانہ کی جگہ سرکاری طور پر آزادی فلسطین تنظیم کے حوالے کردی گئی اور آج بھی فلسطینی سفارتخانہ اسی جگہ موجود ہے۔ حضرت امام ( خمینی رہ) نے اعلان کیا کہ انقلاب اسلامی کا ایک ہدف فلسطینی سرزمین کو آزاد کرانا  اور اسرائیلی سرطا نی جرثومہ کو ختم کرنا ہے انقلاب اسلامی کی طاقتور موجیں ان ایام میں جہاں پہنچیں  وہ اپنے ہمراہ یہ پیغام بھی لے گئیں کہ فلسطین کو آزاد ہونا چاہیے۔ انقلاب اسلامی کے لئے دشمنوں کی جانب سے مسلسل پریشانیاں اور مشکلات پیدا کرنا جن میں امریکہ و برطانیہ کے اشارے اور عرب کی رجعت پسند حکومتوں کی پشتپناہی کے ذریعہ  صدام کی طرف سےایران کے خلاف 8 سالہ جنگ بھی شامل ہے  لیکن دشمنوں کی طرف سے یہ مشکلات بھی اسلامی جمہوریہ ایران سے فلسطینی دفاع کے جذبہ کو نہیں چھین سکیں۔

اس طرح فلسطین کی رگوں میں خون کی تازہ لہریں دوڑ گئیں، فلسطین کے مسلمان مجاہدگروہ اٹھ کھڑے ہوئے  لبنان کی اسلامی مقاومت نے دشمن  اور اس کے حامیوں کے مقابلے میں ایک نیا محاذ کھول دیا فلسطین نے عربی حکومتوں اور اقوام متحدہ جیسے  عالمی اداروں اور مغرب کی سامراجی طاقتوں کی طرف ہاتھ  نہیں پھیلایا کیونکہ وہ غاصب صہیونی حکومت کے جرم میں شریک ہیں بلکہ فلسطین نے اپنے جوانوں ، اپنے گہرے اسلامی ایمان اور اپنے فداکار مردوں اور عورتوں پر اعتماد اور بھروسہ کیا۔

یہ امر تمام فتوحات اور کامیابیوں کی اصلی کلید ہے۔

گذشتہ تین دہائیوں میں مسلسل پیشرفت اور کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ اسرائیل کو 2006 ء میں لبنان کی جنگ میں ذلت آمیز شکست اٹھانا پڑی اور2008 ء مطابق ( 1387 ہجری شمسی ) میں غزہ میں اسرائیلی حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔جنوب لبنان سے اسرائیل کا فرار ، غزہ سے اسرائيل کی پسپائی ، غزہ میں اسلامی مقاومت کی حکومت کی تشکیل  اور ایک جملہ میں یوں عرض کروں کہ انسانوں کے مایوس اور ناامید مجموعہ کا امید ، خود اعتمادی اور مزاحمت کے جذبے سے سرشار ہونا حالیہ تیس برسوں کے اہم کارناموں میں شامل ہے۔

یہ کلی اور اجمالی تصویر اس وقت کامل ہوجائے گی جب مزاحمت کو ختم کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی سازشوں کا صحیح انداز میں  ادراک کرلیا جائے اور اسرائیل کے نامشروع وجود کو تسلیم کرنے والے گروہوں اور حکومتوں کو صحیح ڈھنگ سے پہچان لیا جائے۔

اس سازش کا آغاز جمال عبد الناصر کے نالائق اور خائن جانشین کے ہاتھ سے کیمپ ڈیوید معاہدے کی صورت میں  ہوا جس نے ہمیشہ مقاومت کے فولادی عزم کو کمزور کرنے کے لئے فریب سے کام لیا، کیمپ ڈیویڈ کے ذلت آمیز معاہدے میں پہلی بار ایک عرب حکومت نے سرکاری طور پر فلسطین کی اسلامی سرزمین کے صہیونی ہونے کو تسلیم کیا اور ایسی یادداشت پر دستخط کئے جس میں  اسرائيل کو یہودیوں کا قومی گھر قراردیا گیا تھا۔

اس کے بعد1993 ء ( مطابق1372 ہجری شمسی) میں  اوسلو قرارداد، اس کے بعد امریکہ اور بعض یورپی سامراجی طاقتوں کی طرف سے اس کے تکمیلی منصوبے فلسطین کے کمزور ، ناتواں اور سازشی گروہوں کے دوش پر رکھے گئے اور اس دوران دشمن کی پوری کوششیں یہ رہی کہ وہ جھوٹے اور فریب پر مبنی وعدوں کے ذریعہ فلسطینی عوام کو مزاحمتی تحریک سے دست بردار کردے اور سیاسی میدان میں انھیں بیہودہ بازی میں مشغول بنادے۔ان تمام معاہدوں اور قراردادوں کا غیر معتبر ہونا بہت جلد آشکار ہوگیا اور صہیونیوں اور ان کے حامیوں نےبارہا ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھے گئے معاہدوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اس منصوبہ کا مقصد صرف یہ تھا کہ بے ایمان ، کمزور ، لالچی اور دنیا پرست افراد کے ذریعہ فلسطینی عوام کے اندر دو دلی اور بدگمانی پیدا کردی جائے اور اس طرح تحریک مزاحمت کو نابود اور ختم کردیا جائے۔

اب تک ان تمام خیانتکار کھیلوں میں ، فلسطینی قوم اور اسلامی گروہوں کا دینی اور مذہبی جذبہ زندہ رہا ہے انھوں نے اللہ تعالی کی مدد و نصرت سےدشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جیسا کہ اللہ تعالی نے نصرت کا وعدہ کیا ہے: وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُهُ ، إِنَّ اللهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ، اللہ تعالی کی مدد و نصرت ان کے شامل حال رہی ہے، دشمن کی طرف سےغزہ کےمکمل محاصرے کے باوجود غزہ میں استقامت و پائداری،  اللہ تعالی کی نصرت تھی؛ حسنی مبارک کی فاسد و خائن حکومت کا زوال ، اللہ تعالی کی نصرت تھی، علاقہ میں اسلامی بیداری کی موج کا جاری ہونا، اللہ تعالی کی مدد و نصرت ہے۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے منحوس و منافق چہرے سے نفاق کی چادر کا اترنا ، اور علاقائی قوموں میں ان کے بارے میں  نفرت کا زیادہ سے زیادہ ہونا،  اللہ تعالی کی مدد و نصرت ہے؛ اندرونی اور بیرونی سطح پر صہیونی حکومت کے لئے مسلسل اور بیشمار سیاسی ، اقتصادی ، سماجی مشکلات سے لیکر عالمی سطح پر اس کی تنہائی ، رائے عامہ حتی یورپی یونیورسٹیوں میں صہیونی حکومت کے بارے میں شدید نفرت، یہ تمام موارد اللہ تعالی کی مدد و نصرت کا مظہر ہیں۔

آج صہیونی حکومت ہمیشہ کی نسبت سب سے زیادہ منفور، سب سے زیادہ کمزور اور سب سے الگ تھلگ ہوگئی ہے اور اس کا حامی امریکہ بھی ہمیشہ کی نسبت سب سے زيادہ مشکلات کے دلدل میں گرفتار ہوکر رہ گيا ہے۔گذشتہ ساٹھ  سال سے فلسطین کے واقعات کا کلی و اجمالی صفحہ ہمارے سامنے ہے اور اس پر نگاہ رکھتے ہوئے اور اس سے درس لیتے ہوئے مستقبل کے پروگرام کو منظم کرنا چاہیے۔

دو نکتے سب سے پہلے واضح ہونے  چاہییں:

اول: ہمارا مدعا فلسطین کی آزادی ہے، نہ فلسطین کے کچھ حصہ کی آزادی، ہر ایسا منصوبہ جو فلسطین کو تقسیم کرنے والا ہو وہ کلی طور پر مردود ہے دو حکومتوں کا منصوبہ حق بجانب منصوبہ نہیں ہے" اقوام متحدہ میں فلسطینی حکومت کی رکنیت قبول کرنے کا مطلب صہیونیوں کے مطالبات تسلیم کرنا ہےیعنی فلسطینی سرزمین پر غاصب صہیونی حکومت کو تسلیم کرنا ہے یہ منصوبہ بر حق نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ فلسطینی عوام کے حقوق کو پامال کرنا ، آوارہ وطن فلسطینیوں کے حق کو نظر انداز کرنا اور حتی 1948 کی سرزمین پر ساکن فلسطینیوں کے حقوق کو اس سے خطرہ لاحق ہے اس منصوبہ کے تحت کینسر کا غدود باقی رہےگا امت اسلامی بالخصوص علاقائي قوموں کے لئے اسرائیل کا دائمی خطرہ موجود رہےگا، د سیوں برس کےآلام و مصائب کی تکرار اور شہیدوں کا خون پائمال ہوجائےگا۔

فلسطین سے متعلق ہر منصوبہ کو اس اصل پر استوار ہونا چاہیے کہ" پورا فلسطین سب فلسطینیوں کے لئے" فلسطین، فلسطین " نہر سے بحر تک ہے حتی ایک بالشت کمتر نہیں، البتہ یہ نکتہ بھی مخفی نہیں رہنا چاہیے کہ فلسطینی عوام نے جس طرح غزہ میں عمل کیا ہے فلسطینی سرزمین کا جتنا حصہ آزاد کرنا ممکن ہو اتنا آزاد کریں اور اپنی منتخب حکومت کے ذریعہ اس حصہ کا انتظام و انصرام خودسنبھال لیں  لیکن انھیں نہائی ہدف کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

دوسرا نکتہ: یہ ہے کہ اس اعلی ہدف تک پہنچنے کے لئے حرف نہیں بلکہ عمل  کی ضرورت ہے، نمائشی کام نہیں بلکہ سنجیدگی لازمی ہے، جلد بازی اور بے صبری کے بجائےصبر و تدبیر ضروری ہے، طویل آفاق کو دیکھنا چاہیے قدم بقدم ، توکل و امید اور پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیےمسلمان قومیں اور حکومتیں ، لبنان و فلسطین اور دیگر  ممالک میں مزاحمتی گروہ  اس عام مجاہدت میں اپنا نقش اور اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور اللہ تعالی کے اذن سے مزاحمتی جدول کو پر کرسکتے ہیں۔

مسئلہ فلسطین کے حل اور اس کہنہ زخم کو ٹھیک کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک روشن ، منطقی، رائے عامہ اور عالمی سیاسی اصولوں پر استوار منصوبہ پیش کیا ہے جس کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے ہم نہ ہی اسلامی ممالک کی فوجوں کی کلاسیکی جنگ کی تجویز پیش کرتے ہیں اور نہ ہی یہودی مہاجر ین کو سمندر میں پھیکنے کی تجویز پیش کرتے ہیں، اور نہ ہی اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی حکمیت و ثالثی کی تجویز پیش کرتے ہیں ہم فلسطینی قوم کے ریفرنڈم کی تجویز پیش کرتے ہیں فلسطینی قوم بھی دوسری ہر قوم کی طرح اپنی تقدیر کا فیصلہ کرسکتی ہے اور اپنے ملک کے نظام اور حکومت کو منتخب کرسکتی ہے فلسطین کے تمام مسلمان، عیسائی اور یہودی جہاں کہیں ہوں فلسطین کے اندر ہوں  یا مہاجر کیمپوں میں ہوں وہ ریفرنڈم میں شرکت کریں  نہ وہ لوگ جنھیں دوسرے ممالک سے لاکر فلسطین میں آباد کیا گیا ہے وہ نہیں بلکہ اصل فلسطینی منضبط ریفرنڈم میں حصہ لیں اور فلسطین کے آئندہ نظام کوتشکیل دیں اور فلسطینی عوام کے ہاتھوں تشکیل شدہ حکومت اور نظام  غیر فلسطینی مہاجروں کی قسمت کا فیصلہ کرے جو عرصہ دراز سے فلسطین میں ساکن ہیں، یہ ایک جامع ، منطقی اور منصفانہ منصوبہ ہے جس کا عالمی رائے عامہ آسانی  کے ساتھ  ادراک کرسکتی ہے اور اسے مستقل قوموں اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے البتہ اس بات کی توقع نہیں ہے کہ صہیونی  اس منصوبہ کو آسانی کے ساتھ قبول کرلیں گے اور یہی مرحلہ ہے جہاں قوموں ، حکومتوں  اور مزاحمتی گروہوں کا نقش وکردار ظاہر ہوتا ہے فلسطینی قوم کی حمایت کا سب سے اہم رکن غاصب دشمن کی پشتپناہی ختم کرنا ہے اور اسلامی ممالک کی یہ اہم ذمہ داری ہے اب جبکہ قومیں اپنے طاقتور نعروں کے ساتھ میدان میں آگئی ہیں  اس صورت میں مسلمان حکومتیں کیوں غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں؟ مسلمان حکومتوں کی سچائی اور صداقت کی سند یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی، اقتصادی اور آشکار و پنہاں روابط کو اسرائیل کے ساتھ ختم کردیں اور وہ حکومتیں جن کے ہاں اسرائیلی حکومت کے سیاسی اور اقتصادی شعبے اور دفاتر موجود ہیں وہ فلسطینی عوام کی حمایت کا دعوی نہیں کرسکتی ہیں اور ان کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کسی بھی نعرے کو سنجیدگی اور حقیقت پر مبنی تصور نہیں کیا جائے گا۔

اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے گذشتہ برسوں سے جہاد کی سنگين ذمہ داری کو اپنے دوش پر اٹھا رکھا ہے، آج بھی انھیں اسی ذمہ داری کا سامنا ہے۔ ان کی منظم مزاحمتی تحریک مسئلہ فلسطین کو اپنے ہدف سے قریب تر کرنے میں  فلسطینی قوم کا ایک فعال اور متحرک بازو بن سکتی ہے فلسطینی عوام کی شجاعانہ و دلیرانہ مزاحمت و مقاومت عالمی سطح پر قانونی اور قابل تعریف و قابل تحسین ہے فلسطینی اپنے غصب شدہ ملک کی آزادی کے لئے جد وجہد کررہے ہیں لہذا دنیا میں صہیونی نیٹ ورک کے علاوہ ان پر دہشت گردی کا الزام کوئی وارد نہیں کرسکتا۔ صہیونی نیٹ ورک کے الزامات بھی بیہودہ اور بے معنی ہیں اور عالمی سطح پران کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ صہیونی حکومت اور اس کے حامی اصلی اور حقیقی دہشت گرد ہیں؛ فلسطینیوں کی مزاحمت دہشت گردوں کے خلاف ہے اور ان کی حرکت انسانی اور مقدس حرکت ہے۔

مغربی ممالک کے لئے بھی سزاوار ہے کہ وہ بھی اس مسئلہ پر حقیقی اور منصفانہ نگاہ ڈالیں، مغربی ممالک آج دوراہے پر کھڑے ہیں یا انھیں اپنی طولانی مدت کی منہ زوری سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے اور فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرلینا چاہیے اور اس وقت انھیں صہیونیوں کے منہ زور اور انسانی حقوق کے خلاف نقشہ کی پیروی ترک کردینی چاہیے یا انھیں مستقبل قریب میں مہلک وار اور سنگين ضربات کی انتظار کرنی چاہیے۔ یہ مہلک ضربات اسلامی علاقہ میں ان کے فرمانبردار حکمرانوں کے زوال تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔

بلکہ جس دن امریکی اور یورپی قوموں کو پتہ چل گيا کہ ان کی اقتصادی، سماجی اور اخلاقی مشکلات کا اصلی سبب ان کی حکومتوں پر بین الاقوامی صہیونزم کے تسلط کی وجہ سے ہے اور ان کے حکام اپنے ذاتی و شخصی اورحزبی مفادات کی خاطر امریکہ و یورپ میں صہیونیوں کی خون چوسنے والی منہ زور کمپنیوں کے سامنے تسلیم ہیں تو اس صورت میں امریکی و یورپی قومیں ایسا جہنم درست کریں گی کہ ان کے لئے اس جہنم سےنجات پانا مشکل ہوجائےگا۔

امریکی صدر کا یہ اعلان ہے کہ اسرائيل کی سلامتی اس کے لئے ریڈ لائن ہے اس ریڈ لائن کو اس کے لئے کس نےدرست کیا ہے؟ اس کے سامنےامریکی قوم کے مفادات ہیں یا اوبامہ خود امریکی صدارتی انتخابات کے دوسرے دور کے لئے صہیونی کمپنیوں کی مالی اور اقتصادی حمایت و پشتپناہی چاہتا ہے ؟ تم لوگ کب تک اپنی قوم کو فریب دیتے رہو گے؟ جس دن امریکی قوم کو پتہ چل گیا کہ تم نے اپنے مفادات اور ظاہری اقتدار میں باقی رہنے کے لئے صہوینوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوئے ہو اور تم نے قوم کے عظیم مفادات کو صہیونیوں کے لئے قربان کیا ہے تو اس وقت قوم تمہارے ساتھ کیا سلوک کرےگی؟

محترم حاضرین اور میرے عزیز بھائی  اور بہنیں جان لیں کہ اوبامہ اور اس جیسوں کی اس ریڈ لائن کو علاقہ کی مسلمان قومیں اپنے ہاتھوں سے توڑ دیں گی  اور صہیونی حکومت کے لئے ایران کے میزائل اور مزاحمتی گروہ خطرہ نہیں ہیں جبکہ وہ ان کو روکنے کے لئے دفاعی میزائل سسٹم نصب کررہے ہیں ؛ حالانکہ  انھیں حقیقی اور لا علاج خطرہ ، اسلامی ممالک کے جوانوں ، مردوں اور عورتوں کے اس پختہ عزم سے ہے جو نہیں چاہتے کہ امریکہ و یورپ اور ان کے آلہ کار حکمراں ان پر حکومت کریں اور انھیں ذلیل و رسوا کریں۔ البتہ جب ایرانی میزائلوں نے دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس کیا تو وہ بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔

فاصبر ان وعد الله حق ولا یستخفنّك الذین لا یوقنون .
والسلام علیكم و رحمة الله

700 /