ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا امام حسين (ع)کیڈٹ یونیورسٹی کے جوانوں سے خطاب

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلےمیں آپ تمام عزیز نوجوانوں کو اس بات پرمبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ حفاظت و پاسبانی کے عظیم میدان میں قدم رکھ رہے ہیں، ان عزیز جوانوں کو جو آج فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اور ان جوانوں کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو تعلیم کے میدان میں وارد ہو رہے ہیں۔ آپ عزیز نوجوانوں سے اس پرافتخار اسٹیڈیم میں میری یہ ملاقات ہمیشہ کی طرح مسرت بخش اور خوشحالی کا باعث رہی۔
یہ یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں سے مختلف ہے۔ علم، تعلیم، فکری و عقلی رشد ونمو اور شخصیت کی تعمیر تو تمام یونیورسٹیوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں، ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں ان اہداف کے لئے کام کیا جاتا ہے لیکن اس یونیورسٹی میں انقلاب کی پاسداری و حفاظت کا ہدف بھی مد نظر رہتا ہے۔ ویسے تو ہماری پوری قوم ، حکام بھی اور عوام بھی اسلامی انقلاب کی حفاظت و پاسبانی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، لیکن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا طے شدہ نصب العین ہی انقلاب کی حفاظت ہے۔ آپ عزیز نوجوان عین شباب و نشاط کے عالم میں خود کو اس بات کے لئے آمادہ کر رہے ہیں کہ خدمت کے پورے دور میں، بلکہ پوری زندگی کے دوران آپ اسلامی انقلاب کے محافظ و پاسباں بن کر رہیں گے، جس طرح آپ سے پہلے کی نسل نے، آپ کے اسلاف نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں انتہائی دشوار حالات اور میدانوں میں یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ آج کے پروگراموں میں ایک بڑا اچھا منظر یہی تھا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی گذشتہ نسل سے تعلق رکھنے والے افراد، جنہوں نے مقدس دفاع کا دور دیکھا ہے، جنہوں نے انقلابی تحریک کا زمانہ دیکھا ہے اور دل و جان سے پرخطر میدانوں میں سرگرمیاں انجام دی ہیں، بڑی دلچسپی کے ساتھ یہاں آئے اور حفاظت و پاسبانی کے میدان میں نئے نئے وارد ہونے والے نوجوانوں سے ان کا سامنا ہوا  پرچم کا تبادلہ ہوا، یہ ایک علامتی اور بہت بامعنی عمل تھا۔ ایک اور علامتی ملاقات میں ان شہیدوں کی ارواح کی منظر کشی کی گئی جنہوں نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران مختلف کارروائیوں اور مختلف آپریشنوں میں اسی طرح مقدس دفاع سے قبل اور اس کے بعد جام شہادت نوش کیا۔ وہ جانباز سپاہی جنہوں نے اپنی جوانی اور صحت و سلامتی کو راہ خدا میں قربان کر دیا اور بڑے سخت لیکن بہترین انجام والے امتحان سے دوچار ہوئے، انہیں بھی آپ نے دیکھا۔ جو لوگ ان ایام میں آپ کی طرح عنفوان شباب میں تھے آج سفید داڑھی میں آپ کے سامنے ہیں، جنہوں نے اپنی عمر کے دسیوں سال خدمت میں گزارے ہیں۔ یہ آپ نوجوانوں کے لئےبڑا اہم اور سبق آموز منظر ہے جو اپنے انقلاب کی حفاظت کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔
اس انقلاب نے ملک کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ تاریخ کے ظالم و جابر سلاطین نے صدیوں تک اس قوم پر گمراہانہ فکر اور طرز عمل مسلط کئے رکھا۔ انقلاب سے قبل کے ادوار میں انہوں نے اپنے استبداد اور خودسری پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اس پورے ملک اور پوری قوم کے وقار کو دشمنوں کے سامنے تار تار کیا۔ انقلاب آیا تو اس سے قوم کو اس تباہ کن دلدل سے نجات ملی۔ ہم صراط مستقیم پر پہنچ گئے۔ بیشک یہ صراط مستقیم ہمیں ہماری منزل تک پہنچائےگا، لیکن کب؟ کتنی مدت میں؟ کتنی محنت و مشقت کے بعد؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کتنی محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں، کتنی سنجیدگی سے آگے بڑھتے ہیں، کہاں تک صحیح پیش قدمی کرتے ہیں؟ اس کا انحصار ہماری ہمت پر ہے۔ تاہم انقلاب نے اس عظیم اور مظلوم قوم کے سامنے یہ راستہ پیش کر دیا ہے۔ آپ کے دوش  پر اسی انقلاب کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔
سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ آپ انقلاب کو اچھی طرح پہچانئے۔ آپ عزیز نوجوانوں کا ایک اہم کام یہی ہے کہ انقلاب کی فکری بنیادوں کی گہرائیوں کو اچھی طرح درک کیجئے ۔ ہم نے ایسے بھی کچھ افراد دیکھے جو جذبات میں آکر اس میدان میں اتر گئے، گہری فکری بنیاد ان میں نہیں تھی تو ہلکی سے آندھی انہیں اڑا لے گئی۔ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ اس وادی میں صرف وہی لوگ ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو انقلاب کی فکری بنیادوں کی گہرائی کا مکمل ادراک رکھتے ہوں۔ معصوم کا ارشاد ہے: «المؤمن كالجبل الرّاسخ لا تحرّكه العواصف»؛ کوئی بھی طوفان اور گرباد مؤمنین کے پائے ثبات میں جنبش پیدا نہیں کر سکتا، بس شرط یہ ہے کہ ان کے اندر چند خصوصیات موجود ہوں۔ ایک خصوصیت صحیح عقیدہ اور انقلاب کی فکری بنیادوں کا درست ادراک ہے ۔ یہ آپ سب کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ انقلاب جن تجربات سے گزرا ہے یعنی ان برسوں میں انقلاب کا یہ نظریہ جس طرح عملدرآمد کے مراحل طے کرتا ہو ا آگے بڑھا ہے اور انقلاب کی جو تاریخ سامنے آئی ہے اسے آپ اچھی پڑھئے اور سمجھئے۔ یہ انقلاب دنیا میں ہمیشہ بیان کی جانے والی عام باتوں کی طرح نہیں ہے، اس کے اندر تجربات اور عمل کا وسیع میدان موجود ہے۔ یہ آزمودہ انقلاب ہے۔ یہ وہ باتیں ہے جو عملی میدان میں صحیح ثابت ہو چکی ہیں۔ اگر ہمارے بزرگ حضرت امام خمینی(رہ)  نے ہمیں یہ درس دیا کہ اللہ پر توکل کرنا چاہیے، اللہ کے وعدوں پر حسن ظن رکھنا چاہیے، مسلسل جد و جہد اورکوشش کرنا چاہیے، اگر وہ فرماتے تھے کہ یہ کام کیجئے آپ کو کامیابی ملے گی تو عملی طور پر یہی سب کچھ رونما ہوا۔ صدر اسلام میں بھی یہی سب کچھ رونما ہوا۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: «فلمّا رأى اللّه صدقنا انزل بعدوّنا الكبت و انزل علينا النّصر».(
۱) اس قوم نے اپنی صداقت ثابت کر دی ہے، اپنی نیک نیتی ثابت کر دی ہے، یہ قوم میدان میں اتر پڑی اور اس نظریئے اور فکری اصول کا عملی طور پر اس نے تجربہ کیا۔ انقلاب کی تاریخ میں آپ اس حقیقت کو محسوس کیجئے!
غیر ملکی ذرائع ابلاغ ہماری معمولی خامیوں کو دوسروں کے سامنے ہی نہیں خود ہماری نظر میں، رائی کا پہاڑ بنا دینے پر کیوں آمادہ  رہتے ہیں، انہیں دس گنا بڑھا چڑھا کر کیوں پش کرتے ہیں؟! اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ کامیاب تجربہ ہمارے ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے ذہن سے اس بات کو نکال دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنے فکری اصولوں اور نظریات کا عملی تجربہ کر لیا ہے اور میدان عمل میں اس کی افادیت و حقانیت کو پرکھ لیا ہے۔ آپ انقلاب کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرکے اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ میں جنگ سے متعلق واقعات کا مطالعہ کرنے پر جو اتنی تاکید کرتا ہوں، مقدس دفاع کے واقعات سے واقفیت پر زور دیتا ہوں، بیت المقدس آپریشن اور خرم شہر کی آزادی کے بارے میں حقائق سے آشنائی کی سفارش جو کرتا ہوں اس کی یہی وجہ ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ وہ مراحل ہیں جہاں اللہ تعالی نے «انزل بعدوّنا الكبت»، «انزل علينا النّصر»؛ ہم پر فتح نازل فرمائی۔
اس کے بعد پاکیزگی نفس اور تہذیب نفس کا مرحلہ ہے۔ سب کو چاہیے کہ اپنی شخصیت کو سنواریں۔ میں اپنے نفس کی  تہذیب پر توجہ دوں اور آپ اپنی شخصیت کو سنواریں۔ البتہ مجھ جیسے افراد کے مقابلے میں آپ کا کام آسان ہے۔ کیونکہ آپ نوجوان ہیں، آمادہ ہیں، آپ کے وجود نورانی ہیں، آپ کے قلوب پاکیزہ ہیں، آپ بسانی سے اسلام کے پسندیدہ اور قرآن کے مطلوبہ نمونے کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں۔ یہ آپ کا فریضہ ہے، البتہ اس سلسلے میں اس یونیورسٹی اور پاسداران انقلاب فورس کے دیگر اداروں کے عہدیداروں، اساتذہ اور ذمہ دار افراد کے دوش پر بھی اہم ذمہ داریاں عائد ہیں جہاں ہمارے عزیز نوجوان تعلیم میں مصروف ہیں۔ اگر یہ ذمہ داری ادا کر دی گئی اور بتوفیق الہی اور باذن پروردگا ضرور یہ فریضہ انجام پائے گا، تو مستقبل وہی ہوگا جس کا میں بار بار تذکرہ کرتا ہوں، مستقبل درخشاں ،اطمینان بخش اور قابل اعتماد مستقبل ہوگا۔
ابتداء  سے لیکر اب تک اس انقلاب نے جو بھی قدم اٹھایا ہے وہ آئندہ کے بڑے قدم کی خوشخبری ثابت ہوا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سارے راستے بند ہو گئے ہوں، ہم کبھی مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوئے، ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ ہمارے سامنے کھل گیا۔ کبھی کبھار ایسا تو ہوا کہ ہم نے غفلت سے کام لیا، سستی دکھائی اور تیزی سے پیش قدمی نہیں کی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سارے راستے بند ہو گئے ہوں، ہمارا ہر قدم آگلے قدم کی خوشخبری ثابت ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میں آپ عزیزوں کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ چند دن بعد یعنی الیکشن والے دن ایرانی قوم جو قدم اٹھانے جا رہی ہے یہ بھی انہی بشارت دہندہ قدموں میں سے ایک ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کون امیدوار منتخب ہوگا، ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالی دلوں کو کس کی جانب موڑے گا، لیکن ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پولنگ والے دن عوام کثیر تعداد میں باہر نکلیں گے جو در حقیقت انقلاب کی امنگوں کی جانب قوم کی مقتدرانہ پیش قدمی ثابت ہوگی۔ اس دن ملک کی کامیابیوں کے باب میں ایک اور باب کا اضافہ ہوگا، اس سے ملک کا استحکام بڑھے گا، وقار بڑھے گا، عالمی ساکھ بڑھے گی، آپ کے دوست خوش ہوں گے اور دشمنوں کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
دو تین ہفتے بعد انتخابات ہیں۔ دشمن نے بہت پہلے سے اور اس وقت بڑی شدت کے ساتھ یہ کوشش کی ہے کہ عوام میں انتخابات کے سلسلے میں مایوسی اور سردمہری پیدا ہو جائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر عوام میں جوش و خروش رہا اور وہ اس میدان میں شاندار انداز میں وارد ہوئے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کی تو دشمن کو بڑا نقصان پہنچے گا۔
وہ ہمارے الیکشن کے بارے میں تجزيہ و تحلیل کرتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی پیشانی پر گوانتانامو کا بدنما دھبہ لگا ہوا ہے، پاکستان اور افغانستان کے پسماندہ دیہی علاقوں پر ہونے والے ڈرون حملے جن کی پیشانی اور دامن کے بدنما داغ ہیں، ہمارے علاقے کے دو مسلم ملکوں میں جنگ کی آگ اور ان پر غاصبانہ قبضہ جن کی بدنامی اور رسوائی کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں  جن کی جرائم پیشہ صیہونی حکومت کے لئے بے دریغ حمایت و وکالت ان کی شرمندگی اور شرمساری کا باعث بنی  ہوئی ہے، 'بشرطیکہ ان کو اس کا احساس ہو' یہ لوگ پروقار اور سربلند اسلامی جمہوریہ ایران پر تنقید کرتے ہیں! ان کے بیان جواب دینے کے قابل نہیں ہیں، ایرانی قوم  اور اس قوم کے باوقار حکام کے لئے لائق اعتنا نہیں ہیں۔ البتہ یہ چیز ایرانی قوم  اور ہم سب کے لئے سبق آموز ہے کہ ہمارے یہ انتخابات ان کے لئے کتنے اہم اور حساس ہو گئے ہیں۔ یہ صرف اسی دفعہ کے انتخابات کی بات نہیں ہے بلکہ تیس سال سے زیادہ عرصے کے دوران ہمارے یہاں جب بھی الیکشن ہوا ہے انہوں نے یہی ہنگامہ آرائی کی، شیطنت کی اور ہمیشہ انھیں توفیق الہی سے،  ایرانی قوم  سے منہ کی کھانی پڑی ،اس بار بھی انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔
بہرحال ہمیں اپنا کام منظم کرنا چاہیے۔ عوام انتخابی میدان میں اترنے والے امیدواروں کے بیانوں اور تقریروں پر توجہ دیں، غور کریں اور تشخیص دیں کہ کون سا امیدوار انقلاب کے لئے، ملک کے لئے، مستقبل کے لئے، قومی وقار کے لئے، مشکلات کے حل کے لئے، دشمنوں کے سامنے شجاعانہ اور مقتدرانہ انداز میں استقامت کی نظر سے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو دنیا کے مستضعفین کی نگاہوں میں نمونہ عمل کے طور پر پیش کرنے میں زیادہ محنت اور کامیاب کارکردگی انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ممکن ہے کہ کسی ایک شخص کی تشخیص دوسرے کی تشخیص سے مختلف ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ میں آپ سب کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کسی امیدوار کی حمایت کریں اور آپ کا دوست کسی اور امیدوار کو پسند کرے، یہ چیز آپ کے درمیان ٹکراؤ اور تصادم کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ملک کے سب سے اعلی رتبہ اجرائی عہدیدار کے انتخاب کے لئے جو بہت حساس اور اہم عہدہ ہے، قانونی لائحہ عمل موجود ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ آپ کسی امیدوار کی حمایت کریں اور میری نظر میں کوئی دوسرا امیدوار زیادہ موزوں معلوم ہو، آپ اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیں اور میں اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دوں۔ ظاہر ہے، اکثریت اور اقلیت کا اصول ہے، باقاعدہ ضوابط موجود ہیں، قانون موجود ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ تو عوام کو چاہیے کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے اپنے دلوں میں کدورت پیدا نہ ہونے دیں، صرف اس بات پر کہ کوئی شخص کسی امیدوار کو پسند کرتا ہے اور دوسرا شخص کسی اور امیدوار کو بہتر سمجھتا ہے۔ محترم امیدواروں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی مہم میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ ان باتوں کا خاص خیال رکھیں۔ اور ہر طرح کی کدورت اور منافرت سے دور رہتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ظرافت تو یہی ہے کہ جمود اور سکوت نہ ہو، جوش و جذبہ اور نشاط و تحرک ہو، گفت و شنید کا سلسلہ بھی رہے، گرما گرم بحثیں بھی ہوں لیکن نفرت اور کدورت پیدا نہ ہونے پائے، ایسا کرنا ممکن بھی ہے۔ اس نکتے پر محترم امیدواروں کی توجہ مبذول رہے تو بہت اچھا ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انتخابی مہم اور تبلیغ پر ضرورت سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا اور فضول خرچی، ہمیں اور عوام کو اس امیدوار کی مستقبل کی روش کی طرف سے ہوشیار اور چوکنا کر سکتی ہے۔ جو شخص بیت المال کا پیسہ استعمال کر رہا ہے یا بعض سرمایہ داروں کی مشتبہ دولت خرچ کر رہا ہے وہ عوام کے نزدیک قابل اعتماد امیدوار نہیں ہو سکتا، ان چیزوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انتخابی مہم میں، انتخابی نعروں میں، یہ بات اہم ہے کہ انقلاب اور اسلامی نظام کے عزت بخش، مقتدرانہ اور دانشمندانہ مؤقف اور پالیسیوں کی تقویت کو ضرور مد نظر رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے ان نعروں سے ملک کے باہر یا ملک کے اندر موجود بد نیت عناصر کو سبز چراغ دکھا رہے ہوں۔ دشمن تو بعض افراد پر اپنا کام کر ہی رہا ہے، خود انقلاب اور اسلامی نظام پر اور انتخابات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے اور ملک کے اندر کچھ بے تقوا آوازیں، زبانیں اور قلم دشمن کی انہی باتوں کو دہرا رہے ہیں جن کا مقصد عوام میں مایوسی پیدا کرنا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان باتوں کے فریب میں نہ آئیں۔ قوم کا مستقبل روشن ہے، اس انقلاب کا مستقبل پروقار درخشاں اور عزت و اعتبار کا حامل ہے، اس قوم اور اس ملک کا مستقبل ایسا ہے جو اللہ تعالی کی توفیق سے سب کے لئے نمونہ عمل قرار پانے والا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اس میدان میں موجود آپ جوانوں کو ، ہمارے تمام جانبازوں کو، تمام رضاکار نوجوانوں کو، مسلح فورسز سے تعلق رکھنے والے تمام سپاہیوں کو اس نورای سفر میں پیشقدم رکھےجو مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہیں یا تعلیمی ادوار سے گزر رہے ہیں ۔ ہمارے شہیدوں کی پاکیزہ ارواح اور ہمارے عظیم الشان رہنما حضرت امام خمینی (رہ) کی پاک و پاکیزہ روح کو ہم سب سے راضی و خوشنود رکھے اور حضرت ولی عصر امام زمانہ (عج) کی دعائیں ہمارے شامل حال فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته‌

1)نهج‌البلاغه، خطبه‌ى ۵۶