ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت امام خمینی (رہ) کی چوبیسویں برسی کے موقع پر اہم خطاب

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّة الله فى الأرضين.

اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں یہ موقعہ عنایت فرمایا اور زندگی دی کہ ہم اپنے ہر دلعزیز اور عظیم الشان رہنما حضرت امام خمینی (رہ) کی ایک اور برسی پر آپ کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کریں اور محبت، الفت و اخلاص کے گل آپ کے قدموں میں نثار کریں۔ یقینا امام خمینی (رہ) کی یاد ہماری قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ اور تازہ رہتی ہے لیکن 14 خرداد مطابق 4 جون کی تاریخ حضرت امام خمینی (رہ) سے ایرانی قوم کی قلبی وابستگی کا خاص مظہر ہے۔ اس سال یہ ایام ہمارے امام معصوم حضرت موسی ابن جعفر علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم شہادت سے متصل ہیں، اسی طرح انہی ایام میں پندرہ خرداد 1342 ہجری شمسی (مطابق 5 جون 1963) کے تاریخی واقعہ کی پچیسویں برسی بھی ہے۔ پندرہ خرداد کا واقعہ بہت اہم واقعہ اور ایک نیا موڑ تھا۔ میں مختصر طور پر اس سلسلےمیں کچھ معروضات پیش کروں گا اور اس کے بعد اپنے اصلی اور ضروری موضوع کی طرف آؤں گا۔

پانچ جون 1963 کی تاریخ علماء اور عوام کی تحریک کا نقطہ آغاز نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی بڑے اہم واقعات رونما ہوئے۔ دو فروردین 1342 مطابق 22 مارچ 1963 کو مدرسہ فیضیہ میں دینی طلبہ کے زد و کوب کئے جانے اور بزرگ عالم دین آیت اللہ گلپائگانی مرحوم کی توہین کا واقعہ پیش آیا۔ اس سے چند ہفتے قبل تہران کے بازار میں مظاہرے ہوئے جہاں مرجع عالی قدر آیت اللہ الحاج سید احمد خوانساری کی توہین کا واقعہ پیش آیا۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ 1963 عیسوی کے آغاز میں ہی علماء کی تحریک اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ جابر و ظالم حکومت کے سیکورٹی اداروں نے علماء اور دینی طلبہ کے خلاف تشدد آمیز اقدامات شروع کر دئے تھے، تاہم اس کے باوجود پانچ جون کا واقعہ تحریک انقلاب کا بڑا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 5 جون 1963 کو ایسا واقعہ رونما ہوا جس سے علمائے دین سے عوام کا عمیق قلبی رشتہ اور بھی برملا ہو گیا۔ اس سال عاشور کے دن جو 13 خرداد مطابق 3 جون کو پڑا تھا، امام خمینی (رہ) نے مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا۔ اس کے بعد جب امام خمینی (رہ) کو گرفتار کر لیا گیا تو 5 جون تک خاص طور پر تہران، قم اور دیگر شہروں میں عظیم عوامی اشتعال پھیل گیا۔ طاغوتی شاہی حکومت نے اپنی فوج، پولیس اور سیکورٹی اداروں سب کی مدد سے عظیم عوامی تحریک کو کچلنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ تو پندرہ خرداد مطابق پانچ جون کو عظیم عوامی تحریک شروع ہوئی، جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ علمائے کرام اور مراجع عظام کی صنف سے جس کے نمائندہ امام خمینی (رہ) تھے، عوام کا کتنا گہرا قلبی رشتہ ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہی ہے، یہی قلبی رشتہ ہے جو تحریک کی پیشرفت، عروج اور پھر کامیابی کا ضامن بنتا ہے۔ جہاں بھی تحریک کا سرچشمہ عوام ہوں، عوامی حمایت سے تحریک آگے بڑھ رہی ہو، وہاں اس تحریک کو دوام ملے گا، لیکن اگر تحریک سے عوام کا رشتہ نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ایران میں آئینی انقلاب کے بعد ایسے ہی کچھ واقعات ہوئے، جدوجہد کا آغاز ہوا، بائيں بازوں کے گروہوں کی جانب سے اور قوم پرست گروہوں کی جانب سے بھی تحریک چلائی گئی لیکن یہ سب تاریخ ایران کی ناکام تحریکیں ثابت ہوئیں۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ جب عوام میدان میں اترتے ہیں اور تحریک کو عوامی احساسات و جذبات، عوامی افکار اور عوامی شراکت کا سہارا مل جاتا ہے تو وہ تحریک دوام پاتی ہے اور کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ پانچ جون کے واقعے سے یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچی، ثابت ہو گیا کہ عوام، علمائے کرام کی پشت پر ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی گرفتاری کے خلاف تہران اور دیگر علاقوں میں وہ قیامت خیز احتجاج ہوا کہ حکومت کے سیکورٹی ادارے پوری قوت کے ساتھ میدان میں اترے اور وحشیانہ سرکوبی کا عمل شروع ہو گیا۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے اور تہران کی سڑکیں اس قوم کے نوجوانوں اور صاحب ایمان بندگان خدا کے خون سے رنگین ہو گئیں۔ پندرہ خرداد کے واقعے سے ڈکٹیٹر کا خونخوار اور بے رحمانہ چہرہ آشکارا ہو گیا۔

15 خرداد مطابق پانچ جون کے واقعے میں ایک اور اہم نکتہ بھی تھا جس پر ہمارے نوجوانوں اور عزیز عوام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ بڑی اہم باتیں ہیں۔ وہ اہم نکتہ یہ تھا کہ تہران اور دیگر مقامات پر اس بے رحمی سے ہونے والے قتل عام پر عالمی تنظیموں میں سے کسی نے بھی نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں میں سے کسی ایک نے بھی منہ نہیں کھولا، کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ عوام اور علمائے کرام میدان میں تنہا رہ گئے۔ مارکسسٹوں، کمیونسٹ حکومتوں اور بائیں بازوں کے گروہوں نے تو پانچ جون کی عوامی تحریک کی مذمت تک کر دی۔ کہا کہ یہ ایک فیوڈل تحریک ہے۔ وہ قوم پرست گروہ جو جدوجہد کا بڑا دم بھرتے تھے، انہوں نے بھی تحریک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اندھی اور بے ہدف تحریک ہے، یہ انتہا پسندانہ اقدام ہے! راحت طلب اور عافیت پسند افراد جب بھی میدان جہاد میں اپنے لئے کوئی گوشہ عافیت تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں فورا مجاہد و با ایمان افراد کو انتہا پسند کہنے لگتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ قیام کرنے والے لوگ انتہا پسند ہیں اور ان کے یہ اقدامات کھلی ہوئي انتہا پسندی ہے۔ امام خمینی (رہ) اور ایرانی عوام میدان میں تنہا رہ گئے لیکن آپ نے حقیقی معنی میں رہبر آسمانی کے مصداق، پرعزم اور مضبوط قوت ارادی کے مالک رہنما کی مثال عوام اور تاریخ کے سامنے پیش کر دی۔

امام خمینی (رہ) رحمت اللہ علیہ کے اندر تین باتوں پر پختہ یقین تھا اور اسی یقین سے انہیں حوصلہ اور استقامت کا جذبہ ملتا تھا۔ اللہ پر یقین، عوام پر یقین اور خود اپنی ذات پر یقین۔ ان تینوں باتوں کا یقین امام خمینی (رہ) کے تمام فیصلوں اور جملہ اقدامات میں موثر نظر آتا تھا۔ امام خمینی (رہ) دل کی گہرائیوں سے عوام کو مخاطب کرتے تھے اور عوام تپاک جاں سے ان کی آواز پر صدائے لبیک بلند کرتے تھے۔ امام خمینی (رہ) کی آواز پر عوام میدان میں نکل آئے اور بے جگری کے ساتھ ڈٹ گئے اور نتیجے میں وہ تحریک جس کے لئے دنیا کے کسی گوشے سے ہمدردی کی آواز نہیں نکلی اور کسی نے مدد کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا، بتدریج فتح و کامرانی کی جانب گامزن ہو گئی اور سر انجام فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوئی۔

امام خمینی (رہ) کے اندر ان تین چیزوں کے یقین کی میں کچھ اور وضاحت کرنا چاہوں گا۔ یہ بڑے اہم نکات ہیں، اگر یہ ہمارے دل میں اتر گئے تو ہماری آنکھوں کے سامنے آگے کا راستہ واضح اور روشن ہو جائےگا۔

اللہ پر یقین اور توکل کے سلسلے میں امام خمینی (رہ) اس آیہ شریفہ کے حقیقی مصداق تھے: «الّذين قال لهم النّاس انّ النّاس قد جمعوا لكم فاخشوهم فزادهم ايمانا و قالوا حسبنا الله و نعم الوكيل».(۱) «حسبنا الله و نعم الوكيل» پر امام خمینی (رہ) کا گہرا اعتقاد تھا اور آپ اپنے پورے وجود سے اس پر عمل پیرا نظر آتے تھے۔ امام خمینی (رہ) کو اللہ پر بے پناہ اعتماد تھا، انہیں اللہ کے وعدوں پر پورا یقین تھا، وہ اللہ کی خوشنودی کے لئے حرکت کرتے تھے، کام کرتے تھے، کلام کرتے تھے اور اقدام انجام دیتے تھے۔ آپ کو پورا یقین تھا کہ «ان تنصروا الله ينصركم»(۲)اللہ کا وعدہ ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔

عوام پر یقین و اعتماد کی بات کی جائے تو امام خمینی (رہ) ملت ایران کی حقیقی معنی میں شناخت رکھتے تھے۔ آپ کو یقین تھا کہ یہ قوم گہرے ایمان اور دانشمندی و شجاعت سے آراستہ ہے اور اگر اسے با لیاقت رہنما مل جائیں تو یہ قوم مختلف میدانوں میں خورشید کی مانند چمکنے کی صلاحیت رکھتی ہے، امام خمینی (رہ) کو اس کا پورا یقین تھا۔ اگر کسی زمانے میں شاہ سلطان حسین جیسے نااہل افراد باعث بنے کی ملت ایران اپنے آپ میں الجھ کر رہ جائے تو دوسرے دور میں نادر قلی جیسے شجاع شخص کو قیادت ملی اور اس نے شجاعت کے ساتھ ملت ایران کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی تو اسی قوم نے دہلی سے بحیرہ اسود تک افتخار آمیز کارنامے رقم کئے۔ امام خمینی (رہ) نے تاریخ میں ان حقائق کا مشاہدہ کیا تھا، اس کی اور بھی مثالیں دیکھی تھیں اور آپ کو اس حقیقت پر پورا ایقان و اطمینان تھا۔ وہ ملت ایران کو خوب پہچانتے تھے اور عوام پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ عوام کی قوت ایمانی کو جس پر دنیا پرستوں کے افکار کی گرد جمی ہوئی تھی امام خمینی (رہ) نے اسے پہچانا اور اس دائمی جذبے کو نئی شکوفائی عطا کی۔ آپ نے عوام کی دینی حمیت کو جگایا اور عوام اسقامت و بصیرت کا نمونہ بن گئے۔ عوام کی نگاہ میں امام خمینی (رہ) سب سے زیادہ محبوب اور مقبول شخصیت کے مالک تھے جبکہ عوام دشمن طاقتیں بہت آگ بگولہ رہتی تھیں۔ استعماری طاقتوں کے سامنے امام خمینی (رہ) کا جہاد کبھی رکا نہیں، اس کی وجہ یہی تھی کہ استکباری طاقتیں عوام کی فلاح و بہبود کی دشمن تھیں اور امام خمینی (رہ) عوام کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے تھے۔

اپنی ذات پر یقین اور خود اعتمادی کے تعلق سے دیکھا جائے تو امام خمینی (رہ) نے پوری ایرانی قوم کے اندر کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا کیا۔ عوام کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے سے قبل امام خمینی (رہ) نے خود اپنی ذات کے اندر یہ یقین پیدا کیا ہے کہ ہمارے اندر کچھ کر دکھانے کی صلاحیت و طاقت موجود ہے۔ آپ نے اپنی ذاتی صلاحیتوں پر بھرپور یقین و اعتماد کا حقیقی معنی میں مظاہرہ کیا۔ جون سنہ انیس سو ترسٹھ میں عاشور کے دن امام خمینی (رہ) نے مدرسہ فیضیہ میں طلبہ اور اہل قم کے درمیان بیٹھ کر محمد رصا شاہ کو للکارا جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کی مدد سے ملک پر مطلق العنانیت کے ساتھ حکومت کرتا تھا، امام خمینی (رہ) نے شاہ کو دھمکی دی کہ اگر تو اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو میں ایران کے عوام سے کہوں گا کہ تجھے ملک سے نکال باہر کریں! یہ جملہ کون کہہ رہا ہے؟ قم میں رہنے والا ایک عالم دین! جس کے پاس نہ تو کوئی ہتھیار تھا، نہ ساز و سامان، نہ پیسہ، نہ کوئی عالمی پشت پناہی۔ صرف اللہ پر ایمان اور خود اعتمادی کی دولت تھی جس کی مدد سے آپ اس میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ جب امام خمینی (رہ) جلا وطنی سے واپس آئے اسی بہشت زہرا (تہران کا مرکزی قبرستان) میں بختیار کی حکومت کو انتباہ دیا اور اعلان کر دیا کہ میں بختیار حکومت کو مزہ چکھا دوں گا، میں حکومت کی تشکیل کروں گا۔ یہ خود اعتمادی تھی۔ امام خمینی (رہ) کو اپنی ذات پر اور اپنی توانائيوں پر پورا یقین و اطمینان تھا۔ یہی یقین امام خمینی (رہ) کے عمل، آپ کے کلام اور پھر ملت ایران میں منعکس ہوا۔ میرے عزیزو! سو سال سے ہم ایرانی عوام کو یہی تلقین کی جاتی رہی کہ آپ تو کچھ کر ہی نہیں سکتے، ملک چلانا آپ کے بس کی بات نہیں ہے، پروقار زندگی گزارنا آپ کے بس میں نہیں ہے، تعمیر و ترقی کا کام اپنے ہاتھ سے انجام دینا آپ کے بس کی بات نہیں ہے، علم و دانش کے میدان میں پیشرفت آپ کا کام نہیں ہے، نہیں کر سکتے، نہیں کر سکتے! اور ہم کو بھی یقین ہو چلا تھا۔ قوموں پر تسلط قائم کرنے کا دشمنوں کا ایک حربہ انہیں یہ باور کرا دینا ہے کہ وہ کچھ کر ہی نہیں سکتیں۔ اس طرح قومیں مایوس ہو جائیں گی اور کہیں گی کہ ہم خود تو کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ اسی حربے کے نتیجے میں ملت ایران سیاست کے میدان میں، علم و دانش اور اقتصاد کے میدان میں دوسرے تمام میدانوں میں سو سال پیچھے چلی گئی۔ امام خمینی (رہ) نے حالات کو منقلب کر دیا، بڑی طاقتوں کے اس حربے کو کند کر دیا، ملت ایران کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ بحال کیا، اسے اس کی شجاعت سے آشنا کیا، اس قوم کے اندر عزم و قوت ارادی پیدا کی، خود باوری پیدا کی، عوام کے اندر توانائیاں حرکت میں آئیں، ہم آگے بڑھے اور ہم نے اقدام کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملت ایران ان تمام میدانوں میں جن کی طرف میں اشارہ کروں گا، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

اللہ تعالی کی ذات پر یقین، عوام کی صلاحیتوں وتوانائیوں پر یقین اور اپنے آپ پر یقین، یہ تین یقین امام خمینی (رہ) کے تمام فیصلوں، تمام اقدامات اور تمام پالیسیوں کا محور قرار پائے۔ تحریک کے آغاز میں انہی تین یقینوں سے امام خمینی (رہ) کو قوت ملی، جلاوطنی کے دور میں بھی یہی ہوا، جب امام خمینی (رہ) پیرس گئے تب بھی یہی عالم رہا اور جب آپ کی وطن واپسی ہوئی تب بھی انہی یقینوں سے امام خمینی (رہ) کو طاقت ملی اور ان مخصوص حالات میں آپ تہران تشریف لائے۔ فروری انیس سو اناسی کے واقعات، داخلی آشوب کے واقعات، اسلامی جمہوری نطام کے اعلان کا مرحلہ، دنیا کے ظالمانہ نظام کے سامنے ثابت قدمی سے ڈٹ جانے کا مرحلہ، نہ شرقی نہ غربی کے شجاعانہ نعرے کا مرحلہ، مسلط شدہ جنگ کا مرحلہ اور امام خمینی (رہ) کی اس دس سالہ زندگی کے تمام واقعات، ہر جگہ اور ہر موقعے پر امام خمینی (رہ) کے اس یقین کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کے فیصلے، آپ کے اقدام اور آپ کی پالیسیوں کی بنیاد یہی تینوں یقین ہوتے تھے۔

زندگی کے آخری لمحات تک کبھی بھی کسی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی گفتگو اور آپ کے کسی بھی عمل میں اضطراب، پس و پیش، تھکن اور شکست کے آثار نہیں دیکھے۔ دنیا کے بہت سے انقلابی رہنما جوانی کا دور گزر جانے کے بعد بڑھاپے میں، تردد اور تامل کا شکار ہو جاتے ہیں، کنزرویٹیو طرز عمل اختیار کر لیتے ہیں، کبھی کبھی تو اپنے اصلی نعرے بھی واپس لے لیتے ہیں۔ لیکن امام خمینی (رہ) کی زندگی کے آخری برسوں کے خطاب سنہ 1963 کے خطابوں سے بھی زیادہ انقلابی جوش سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ آپ پر بڑھاپا آ گیا تھا لیکن آپ کا جوش و جذبہ جوان تھا، آپ کا ذہن و دل جوان تھا، یہ وہی استقامت ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ «و ان لو استقاموا على الطّريقة لاسقيناهم ماء غدقا».(۳) ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے : «انّ الّذين قالوا ربّنا الله ثمّ استقاموا تتنزّل عليهم الملائكة» (۴)

یہ تینوں یقین باعث بنے کہ امام خمینی (رہ) ہمیشہ جوان رہیں، ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہیں اور آپ کے افکار و نظریات اور آپ کا طرز عمل اس قوم کے لئے ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ یہ یقین رفتہ رفتہ ہمارے عوام کے اندر، ہمارے نوجوانوں کے اندر اور مختلف طبقات کے اندر سرایت کرتا گیا، ہمہ گیر ہوتا گیا۔ امید کی کرن پیدا ہوئی، خود اعتمادی میں اضافہ ہوا، اللہ پر توکل کا جذبہ بڑھا اور مایوسی و قنوطیت کے بادل چھنٹ گئے، ظلمت و تاریکی کی چادر چاک ہو گئی، کج فہمی اور کج اندیشی کا سلسلہ ختم ہو گیا، ایرانی عوام کے جذبات بدلے، ارادے بدلے تو اللہ نے ان کے حالات کو بدل دیا۔ «انّ الله لايغيّر ما بقوم حتّى يغيّروا ما بانفسهم»؛(۵) ایرانی عوام نے اپنے راستے، اپنی روش اور اپنے جذبات میں اصلاح کی تو اللہ نے بھی ان کی مدد فرمائی، ان کی نصرت کی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ اغیار پر منحصر ایران آزاد و خود مختار ریاست میں تبدیل ہو گیا۔

پہلے برطانیہ اور پھر امریکا پر پہلوی طاغوتی حکومت کا انحصار جو روسیاہ قاجاریہ حکومتوں سے زیادہ نفرت انگیز حکومت تھی، ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہمارے نوجوانوں کو بہت کچھ بتانے کی ضرورت ہے۔ ان کا انحصار اور غلامانہ وابستگی شرمناک صورت اختیار کر چکی تھی۔ انقلاب کے بعد امریکا کے ایک سینیئر سفارت کار نے خود یہ بات لکھی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم شاہ کو ڈکٹیٹ کرتے تھے کہ تم کو فلاں چیز کی احتیاج ہے اور فلاں چیز کی ضرورت نہیں ہے! وہی کہتے تھے کہ فلاں کام انجام دیجئے، فلاں سے رابطہ منقطع کر لیجئے، فلاں مقدار میں تیل پیدا کیجئے اور اس مقدار میں فروخت کیجئے، کسے بیچئے اور کسے نہ بیچئے! یہ ملک امریکا کی پالیسی کے مطابق، امریکا کے تیار کردہ دستور العمل کے مطابق اور اس سے پہلے برطانیہ کی سیاست اور روڈ میپ کے مطابق چلتا تھا۔ یہ غلام ملک خود مختار بن گیا، سربلند ایران کی حیثیت سے ابھرا، اس ملک پر پہلے فاسد، خائن، دنیا پرست، مادی و حیوانی شہوتوں میں غرق لوگوں کی حکمرانی تھی، لیکن اب یہاں عوام کے نمائندوں کی حکومت قائم ہوئی، زمام مملکت عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔ ان تین عشروں میں عوامی نمائندوں کی حکمرانی رہی، ملکی سیاست و معیشت ان کے ہاتھوں میں رہی۔ ان نمائندوں کے اندر جو بھی کمزوریاں اور خامیاں تھیں وہ سب اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت مسلمہ تھی کہ وہ سب عوام کے نمائندے تھے، یہ ایسے افراد تھے جنہوں نے صرف اپنی جیب بھرنے کی فکر نہیں کی۔ پہلے کے وہ لالچی، خبیث اور دشمن کے سامنے سر بسجود سیاستداں ہٹ گئے اور ان کی جگہ عوامی نمائندوں کو ملی۔ علم و دانش کے میدان میں پسماندگی میں مبتلا ہمارا یہ ملک علمی میدان میں پیشرفتہ ملک بن گيا۔ انقلاب سے قبل علمی میدان میں ہماری کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی نہیں تھی لیکن آج دوسرے بھی ہمارے بارے میں کہتے ہیں اور عالمی تحقیقاتی ادارے ایران کے بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ اس ملک کی علمی ترقی کی رفتار دنیا کی علمی ترقی کی اوسط رفتار سے گیارہ گنا زیادہ ہے۔ یہ معمولی بات ہے؟ علمی تحقیقاتی اداروں کا اندازہ ہے کہ آئندہ چند سال کے دوران، سنہ دو ہزار سترہ تک ایران علم و سائنس کے میدان کی ترقی کے اعتبار سے عالمی سطح پر چوتھی پوزیشن حاصل کر لیگا۔ کیا یہ چھوٹی بات ہے؟ علم و سائنس کے میدان میں جو ملک بالکل خالی ہاتھ تھا وہ اس عظیم مقام پر پہنچ گیا! ہمارا تو یہ عالم تھا کہ کہیں کوئی سڑک اور ہائی وے تعمیر کرنا ہوتا، ایک ڈیم یا کوئی کارخانہ قائم کرنا ہوتا تو ہمیں دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑتی تھی، باہر سے انجینیئر آکر ہمارے ڈیم بناتے تھے، سڑکیں تعمیر کرتے تھے اور کارخانے لگاتے تھے۔ آج ہمارے نوجوان بغیر دوسروں کی کوئی مدد حاصل کئے ہزاروں کارخانے، پل، سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کر چکے ہیں۔ اس وقت تعمیراتی میدان میں ہماری توانائیاں اور ٹکنالوجی اپنے اوج پر پہنچ چکی ہے۔ کیا مناسب ہوگا کہ ہم ان چیزوں کو نظر انداز کر دیں۔

صحت عامہ اور میڈیکل سائنس کے شعبے میں دیکھا جائے تو اگر ذرا سی بھی پیچیدگی ہو تو ہمارے بیمار کو یورپ کے اسپتالوں میں جانا پڑتا تھا، اگر پیسہ ہوتا تو جاتا اور اگر نہ ہوتا تو موت کو گلے لگاتا! آج یہ عالم ہے کہ ہم ملک میں لیور اور پھیپھڑے کے ٹرانس پلانٹیشن جیسے انتہائي پیچیدہ آپریشن انجام دے رہے ہیں۔ تہران میں ہی نہیں بلکہ دور دراز کے علاقوں کے اسپتالوں میں بھی۔ اب اس میدان میں ملت ایران کو دوسروں کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس انتہائی اہم شعبے میں ایران اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہے۔

ملک کے بہت سے خطے ایسے تھے جو انقلاب سے قبل انتہائی بے توجہی کا شکار تھے۔ انقلاب سے پہلے میں نے مختلف شہروں اور علاقوں کے دورے کئے، دور دراز کے علاقوں پر ذرہ برابر توجہ نہیں دی جاتی تھی، لیکن آج پورے ملک میں سہولیات فراہم ہو چکی ہیں، دور دراز کے دیہاتوں اور شہروں میں کام ہوا ہے۔ آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں علاقے میں بجلی، سڑک یا اس جیسی دیگر سہولیات نہیں ہیں۔ انقلاب سے قبل اگر ان علاقوں میں کسی ایک جگہ اس طرح کی سہولیات ہوتیں تو بڑے تعجب کی بات مانی جاتی تھی۔ انقلاب سے قبل ملک کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں طلبہ کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی، آج ہماری ‏آبادی دگنی ہو گئي ہے لیکن طلبہ کی تعداد بیس گنا بلکہ تیس گنا بڑھ گئی ہے۔ اسے کہتے ہیں علم و دانش کے شعبے پر توجہ۔ طلبہ کی کثرت، اساتذہ کی کثرت اور یونیورسٹیوں کی کثرت قابل قدر ہے۔ دور دراز کے شہروں میں بھی ایک، دو اور بعض میں تو پانچ حتی دس تک یونیورسٹیاں ہیں۔ انقلاب سے قبل کے زمانے میں ایسے صوبے تھے جہاں دس ہائی اسکول نہیں تھے۔ آج انہی صوبوں میں ہر شہر کے اندر کئی کئی یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ یہ ملت ایران کی عظیم پیشرفت ہے جو اسلامی انقلاب کی برکت اور نوجوانوں اور عہدیداروں کی بلند ہمتی کا ثمرہ ہے جو ہمیں ان چونتیس برسوں میں حاصل ہوا ہے۔ یہ بہت اہم تبدیلیاں ہیں۔ انقلاب کی برکت سے، ملک میں بڑے پیمانے پر بنیادی تنصیبات کی تعمیر عمل میں آئی۔ ہزاروں صنعتیں لگائی گئیں، اہم کارخانے تعمیر کئے گئے۔ جو مصنوعات ہم احسان تلے دب کر دوسروں سے خریدتے تھے آج وافر مقدار میں ملک کے اندر تیار ہو رہی ہیں۔ ان چیزوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب انہی تینوں یقینوں کا ثمرہ ہے جو امام خمینی (رہ) نے اس قوم کے اندر ڈالا؛۔ اللہ پر یقین، عوام الناس پر یقین اور اپنی ذات پر یقین!

ہم یہ باتیں غرور کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے نہیں بیان کرتے، صرف اپنے آپ کو خوش کرنے کے لئے نہیں کرتے کہ کہیں؛ الحمد للہ ہمیں بڑی کامیابی ملی اور اب سارا معاملہ ختم! نہیں، ابھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم طاغوتی دور کے ایران سے وطن عزیز کی موجودہ صورت حال کا موازنہ کریں تو یہ افتخارات صاف نظر آئیں گے، لیکن اگر ہم مطلوبہ اور شایان شان مقام و منزلت کے اعتبار سے اپنی موجودہ پوزیشن کو دیکھیں، اسلام کے مطلوبہ ملک اور اسلام کے پسندیدہ معاشرے کے سامنے اپنی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں، اس معاشرے کے سامنے جہاں دنیاوی وقار بھی ہے، مادی رفاہ بھی ہے اور ایمان و اخلاق بھی ہے اور سب کچھ مناسب مقدار اور معیار کے مطابق ہے تو ہم محسوس کریں گے کہ منزل ابھی کافی دور ہے۔ میں یہ باتیں صرف اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے عوام اور ہمارے نوجوان محسوس کر سکیں کہ اس راستے کو ہم انہی تینوں یقینوں کی مدد سے طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں اور بلند ترین چوٹی تک رسائی حاصل کر لینے تک ہمارا یہ سفر جاری رہ سکتا ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابھی ہمارے سامنے طویل سفر ہے لیکن اس کی توانائی اور اس کی طاقت ہمارے اندر موجود ہے۔ یہ باتیں صرف اس لئے بیان کی جا رہی ہیں کہ اگر دشمن ہمارے اندر مایوسی اور قنوطیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی دشمنی اور عناد ہے ورنہ ہمارے حالات بڑے امید افزا اور حوصلہ بخش ہیں۔

ہمارے سامنے نقشہ راہ اور روڈ میپ واضح ہے۔ ہم باقاعدہ منصوبہ رکھتے ہیں، ہمارا روڈ میپ کیا ہے؟ ہمارا روڈ میپ وہی امام خمینی (رہ) کے اصول ہیں۔ وہی اصول جن کی مدد سے پسماندگی کی شکار قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن سرفراز قوم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ایسے اصول ہیں جو اس پورے سفر میں آئندہ بھی ہمارے کام آئیں گے اور ہمارے راستے کا تعین کریں گے۔ امام خمینی (رہ) کے اصول بالکل واضح اور روشن ہیں۔ الحمد للہ امام خمینی (رہ) کی تقاریر اور آپ کی تحریریں بیس سے کچھ زیادہ جلدوں میں ہمارے پاس ہیں۔ ان کا خلاصہ امام خمینی (رہ) کے وصیت نامے میں موجود ہے، کوئی بھی رجوع کر سکتا ہے۔ ہم اسے مناسب نہیں جانتے کہ امام خمینی (رہ) کے نام سے متمسک رہیں لیکن آپ کے اصولوں کو فراموش کر دیں، یہ غلط ہے۔ امام خمینی (رہ) کا نام اور ذکر ہی کافی نہیں ہے، امام خمینی (رہ) اپنے اصولوں کے ہمراہ اور اپنے راستے کے ساتھ اس قوم کے لئے جاوداں سرمائے کا درجہ رکھتے ہیں۔ دستور العمل ہمارے پاس ہے، امام خمینی (رہ) نے یہ دولت ہمارے حوالے کر دی ہے۔ امام خمینی (رہ) کے اصول بالکل واضح ہیں۔

داخلی سیاست کے سلسلے میں امام خمینی (رہ) کا اصول ہے عوام الناس پر تکیہ اور قوم کا اتحاد، حکمرانوں کا سادہ زیست ہونا اور عوامی انداز میں زندگی بسر کرنا، عہدداروں کا قوم کے مفادات کے لئے ہمیشہ فکرمند رہنا اور ملک کی ترقی کے لئے عمومی اور اجتماعی سعی و کوشش جاری رکھنا۔ خارجہ سیاست کے شعبے میں امام خمینی (رہ) کا اصول تسلط پسند طاقتوں کے سامنے استقامت، مسلم قوموں کے درمیان باہمی اخوت، تمام ملکوں سے برابری کی بنیاد پر تعلقات، علاوہ ان ملکوں کے جنہوں نے ملت ایران سے دشمنی برتی ہے اور اسے زخم لگائے ہیں، صیہونزم کے خلاف پیکار، فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد اور ظالموں کے استبداد کے مقابلے میں دنیا کے مظلوموں کی کمک و اعانت سے عبارت ہے۔ امام خمینی (رہ) کا وصیت نامہ ہماری نگاہ کے سامنے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی تحریریں، آپ کے فرمودات اور وہ کتابیں ہمارے ہاتھ میں ہیں جن میں امام خمینی (رہ) کے ان فرمودات کو جمع کیا گيا ہے۔

ثقافت کے شعبے میں حضرت امام خمینی (رہ) کا اصول مغربی بے راہروی کی مخالفت، جمود و رجعت پسندی کی نفی، ریاکاری کی نفی، اخلاقیات اور اسلامی احکام کے بھرپور دفاع اور معاشرے میں فسق و فجور کی ترویج کے سد باب پر استوار ہے۔

معیشت کے سلسلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کا اصول قومی اقتصاد پر استوار ہے، خود کفائی پر استوار ہے، پیداوار اور تقسیم کے سلسلے میں سماجی انصاف پر استوار ہے، محروم طبقات کی مدد و اعانت پر استوار ہے، مالکانہ حقوق کا احترام کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی نفی پر استوار ہے، امام خمینی (رہ) سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کی مخالفت کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی مالکیت کے حق کے حامی بھی تھے، سرمایہ کے احترام، کام اور محنت کے احترام پر تاکید کرتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ عالمی معیشت میں خود کو فنا نہیں کر دینا چاہئے بلکہ قومی معیشت کے لئے 'خود انحصاری' ضروری ہے۔ یہ سب معاشی شعبے میں امام خمینی (رہ) کے بنیادی اصول ہیں، امام خمینی (رہ) کی تقاریر اور بیانوں میں یہ نکات نمایاں ہیں۔ ملک کے حکام سے امام خمینی (رہ) کو ہمیشہ یہ توقع رہتی تھی کہ مدبرانہ فہم و فراست اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ پوری دلچسپی سے امور کو چلائیں تاکہ ان اصولوں کو جامہ عمل پہنا سکیں اور ملک کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوں۔ یہ امام خمینی (رہ) کا روڈ میپ ہے۔ ملت ایران نے اپنی بلند ہمتی سے، اپنے نوجوانوں کی مدد سے، اس روڈ میپ کے سہارے، اپنے دل کی گہرائیوں میں موجود قوت ایمانی کے ذریعے، اپنے قائد کی یاد کے سہارے خود کو اس مطلوبہ پوزیشن کے قریب پہنچا سکتی ہے۔ ملت ایران آگے بڑھ سکتی ہے۔ جو توانائیاں ایرانی قوم کے اندر ہیں، جو صلاحیتیں اس قوم میں پائی جاتی ہیں، ملک میں بحمد اللہ جو باصلاحیت افراد موجود ہیں، ان کے سہارے انقلاب کے تیس سال سے زیادہ عرصے کے تجربات کی روشنی میں مقتدرانہ انداز میں اور بلند حوصلے کے ساتھ اپنے راستے پر آگے بڑھ سکتی ہے اور دیگر مسلم اقوام کے لئے رول ماڈل کی حیثیت سے خود کو پیش کر سکتی ہے۔

چند جملے انتخابات کے سلسلے میں عرض کرنا ہیں جو ان دنوں ہمارا سب سے اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ عزیز بھائیو اور بہنو! عظیم ملت ایران! انتخابات ان تینوں یقینوں کا مظہر ہیں جو امام خمینی (رہ) میں موجود تھے اور جن کا ہمارے اندر بھی موجود ہونا ضروری ہے۔ انتخابات اللہ پر یقین کا مظہر ہیں کیونکہ یہ فریضے کا درجہ رکھتے ہیں، یہ ہمارا فریضہ ہے، تکلیف شرعیہ ہے کہ ہم ملک کی تقدیر اور سرنوشت کے تعین میں اپنا کردار ادا کریں، قوم کے ہر فرد پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے۔ انتخابات عوام پر یقین و اعتماد کا مظہر بھی ہیں، انتخابات کے ذریعے عوام ملک کے حکام کا تعین کرتے ہیں۔ انتخابات خود اعتمادی اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کا بھی مظہر ہیں۔ کیونکہ بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنے والا ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ ملک کی تقدیر کے تعین میں اس نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات اللہ پر یقین کا بھی مظہر ہیں، عوام پر یقین کا بھی مظہر ہیں اور خود اعتمادی کا بھی آئینہ ہیں۔

انتخابات کے معاملے میں سب سے اہم چیز ہے سیاسی جہاد اور سیاسی کارنامے کا سرانجام پانا، عوام کا مجاہدانہ انداز میں انتخابات میں شرکت کرنا۔ جہاد سے کیا مراد ہے؟ جہاد سے مراد وہ قابل فخر عمل ہے جو پورے جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیا جائے۔ آٹھ امیدوار جو میدان میں ہیں ان میں کسی ایک کے بھی حق میں آپ نے ووٹنگ کی ہے تو در حقیقت آپ نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں بھی ووٹ ڈالا ہے۔ یہ اسلامی نظام اور انتخابی نظام کے حق میں ڈالا جانے والا ووٹ بھی ہے۔ یہ جو آپ انتخابات میں شرکت کرتے ہیں، خواہ امیدوار کی حیثیت سے یا ووٹر کی حیثیت سے، جیسے ہم اور آپ، جس حیثیت سے بھی شرکت ہو، اس میدان میں قدم رکھنا اسلامی جمہوریہ پر اعتماد اور انتخابی نظام پر اعتماد کا آئینہ ہے جبکہ دوسرے درجے میں آپ کا یہ ووٹ اس شخص کے حق میں پڑنے والا ووٹ ہے جس کے بارے میں آپ بھائیوں اور بہنوں یا اس بندہ حقیر نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ ملک کا مستقبل سنوارنے کے سلسلے میں دوسروں سے زیادہ مفید واقع ہوگا۔

بیرون ملک ہمارے دشمن بیچارے اس آس میں بیٹھے ہیں کہ انتخابات کو اسلامی جمہوری نطام کے خلاف ایک چیلنج میں تبدیل کر لے جائیں گے، جبکہ انتخابات تو اسلامی نظام کے لئے سنہری موقعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی دلی تمنا یہ ہے کہ انتخابات میں جوش و جذبے کی حرارت پیدا نہ ہو تا کہ انہیں یہ کہنے کا موقعہ مل جائے کہ عوام الناس کو اسلامی نظام سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ان کی دوسری آرزو یہ ہوگی کہ انتخابات کے بعد ہنگامہ کھڑا ہوجائے، فتنہ پھیل جائے۔ جیسا کہ سنہ دو ہزار نو کے پرشکوہ انتخابات کے بعد انہوں نے فتنہ پھیلا دیا تھا۔ ملت ایران کے دشمن ان اہداف کے لئے کوشاں ہیں لیکن وہ بہت بڑی بھول میں ہیں۔ انہوں نے ہمارے عوام کو پہچانا ہی نہیں ہے۔ اس قوم کے دشمنوں نے 'تیس دسمبر دو ہزار نو' (وہ تاریخ جب ملک میں دسویں صدارتی انتخابات کے بعد آشوب پھیلانے والے کچھ فتنہ پرور عناصر کی سرگرمیوں کے خلاف پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئي اور ملک گیر سطح پر اسلامی جمہوری نظام کی حمایت میں مظاہرے ہوئے) کو فراموش کر دیا ہے۔ جو لوگ اس خیال میں ہیں کہ ملک کے اندر ایک بڑی اکثریت لا تعلق بلکہ اسلامی جمہوری نظام کی مخالف ہو گئی ہے انہیں یہ یاد نہیں ہے کہ چونتیس سال سے ہر دفعہ گیارہ فروری کو ملک کے تمام شہروں میں عوامی سیلاب کی شکل میں لوگ نکلتے ہیں اور اسلامی جمہوری نظام کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے امریکا مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔

ہمارے دشمن، انتخابات کا جوش و جذبہ ختم کر دینے کے مقصد سے اپنے تھنک ٹینکس کو اپنے ذرائع ابلاغ اور ترجمانوں کی پشت پر پوری طرح متحرک کر دیتے ہیں جو نئے نئے شوشے تیار کرکے ذرائع ابلاغ کو دیتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ انتخابات صرف دکھاوے کے لئے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ انتخابات آزادانہ طریقے سے نہیں ہو رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ عوام کی نظر میں انتخابات قانونی نہیں ہیں۔ وہ نہ تو ہمارے عوام کو پہچانتے ہیں، نہ ہمارے انتخابات کی انہیں کوئی شد بد ہے، نہ اسلامی جمہوری نظام کی حقیقت سے وہ آگاہ ہیں اور اگر انہیں تھوڑی بہت حقیقت معلوم ہوتی ہے تو اس کے بارے میں بھی دروغ گوئی کرتے ہیں اور اس دروغ گوئی میں انہیں کبھی کوئی تامل نہیں ہوتا۔

دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ مختلف امیدواروں کو معروف امیدواروں سے لیکر غیر معروف امیدواروں تک سب کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ آکر قومی میڈیا اور سرکاری ذرائع ابلاغ کا مساویانہ انداز میں استعمال کریں؟ دنیا میں کہاں یہ انتظام ہے؟ کیا امریکا میں یہ سہولت ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں یہ سہولت ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر دو تین بڑی سیاسی جماعتوں کا رکن ہوا اور اس امیدوار کو بڑے سرمایہ داروں، کمپنیوں کے مالکوں، دولت و ثروت کے مافیاؤں کی پشتپناہی حاصل ہوئی تب تو وہ اپنے ایجنڈا کا پرچار کر سکتا ہے اور اگر یہ پشت پناہی اس کے پاس نہ ہوئی تو انتخابی امیدوار کو کوئی پلیٹ فارم ملنا محال ہوتا ہے۔ امریکا میں ہونے والے الیکشن پر جس کی بھی نظر ہے وہ اس بات کی تصدیق کرے گا، میں باقاعدہ نظر رکھتا ہوں۔ کچھ افراد ایسے تھے جنہیں صیہونیوں کی حمایت حاصل نہیں تھی، دنیا کے خونخوار سرمایہ دارانہ نیٹ ورک کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، انہوں نے لاکھ کوشش کر ڈالی مگر انتخابی میدان میں قدم نہیں رکھ سکے۔ انہیں نہ تو میڈیا کا کوئي پلیٹ فارم ملا اور نہ کسی ٹی وی چینل نے کوئی موقعہ نہیں دیا، کیونکہ ایک ایک سیکنڈ کے لئے بہت بڑی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ عالم ہے کہ انتخابی امیدواروں کو ایک پیسہ بھی خرچ کئے بغیر مساویانہ طور پر گھنٹوں تک مختلف پروگراموں میں عوام سے خطاب کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے! دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے؟

انتخابات کے میدان میں اترنے کے لئے ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے قانون کی پابندی۔ قانون کے مطابق آگے آنا ہوگا۔ کچھ افراد میدان میں نہیں اتر پاتے۔ قانون نے شرطوں کا تعین کر دیا ہے، صلاحیتوں کا پیمانہ واضح کر دیا گیا ہے، صلاحیتوں کو کون سے افراد پرکھتے ہیں ان سے سب واقف ہیں، یہ پورا عمل قانون کے مطابق طے پاتا ہے۔ بیرونی دشمن ان تمام حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے، مہمل بیانی اور الزام تراشی کرتا ہے، جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کچھ بے تقوی گلے اور بے تقوا زبانیں بھی وہی باتیں رٹنے لگتی ہیں۔ ملت ایران انشاء اللہ توفیق خداوندی سے اپنی عظیم شراکت سے، اپنی استقامت و پائیداری اور اپنے عزم راسخ سے ان تمام حربوں کا جواب دیگی اور ملت ایران کا جواب بڑا محکم اور دنداں شکن جواب ہوگا۔

چند باتیں محترم امیدواروں کی خدمت میں عرض کرنا ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران محترم امیدوار تنقیدیں کر رہے ہیں جو ان کا حق ہے، جو چیز بھی ان کی ںظر میں قابل تنقید ہے اس پر تنقید کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ دھیان رہے کہ یہ تنقید محنت طلب اور افتخار آمیز مستقبل کی تعمیر کے عزم و ارادے کا آئینہ ہونا چاہئے، شبیہ خراب کرنے، منفی باتیں کرنے اور زیادتی کے مترادف نہیں ہونا چاہئے۔ اس نکتے پر سب توجہ رکھیں۔ کوئی بھی امیدوار میرا منظور نظر نہیں ہے۔ اسی لمحے سے غیر ملکی میڈیا اپنا عناد نکالتے ہوئے کہے گا کہ ان کی نظر میں تو فلاں امیدوار تھا۔ جبکہ یہ قیاس آرائی سراسر غلط ہے۔ کوئی بھی امیدوار میرا مد نظر امیدوار نہیں ہے۔ میں حقائق بیان کر رہا ہوں۔ ہمارے جو بھائی عوام کی حمایت اور توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انصاف کو مد نظر رکھ کر بات کریں، بیشک تنقید کریں لیکن یہ تنقید شبیہ خراب کرنے کی کوشش نہ ہو، بالکل نمایاں کاموں کے یکسر انکار کے معنی میں نہ ہو جو موجودہ حکومت کے دور میں یا گزشتہ حکومتوں کے دور میں انجام پائے ہیں، جس دور میں موجودہ امیدواروں جیسے ہی کچھ افراد اقتدار میں آئے اور انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے شب و روز کام کیا۔ تنقید مثبت پہلوؤں کے انکار کا نام نہیں ہے۔ تنقید یہ ہے کہ انسان مثبت پہلوؤں کو بیان کرے اور ساتھ ہی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی برملا کرے۔ آج ہمارے ملک میں جو بھی اقتدار میں آئے گا اسے 'صفر' سے کام کا آغاز نہیں کرنا ہے، ہزاروں نمایاں کارنامے انجام دئے جا چکے ہیں۔ ان گزشتہ برسوں میں، مختلف حکومتوں کے ادوار میں ہزاروں کی تعداد میں بنیادی تنصیبات کی تعمیر کی گئی ہے۔ علم و دانش کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے، صنعت کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے، بنیادی ڈھانچے سے متعلق اہم ترین کام انجام پا چکے ہیں، مختلف شعبوں کے تعلق سے بڑے اہم امور کے بارے میں منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کا کام انجام دیا جا چکا ہے۔ ان چیزوں کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے، آگے جو کام کرے وہ یہیں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اتنے عظیم کام جو انجام پائے ہیں ہم آج اقتصادی مشکلات اور گرانی کی وجہ سے سب کا انکار نہیں کر سکتے۔ سب کی نفی کر دینا درست نہیں ہے۔ بیشک اقتصادی مشکلات ہیں، مہنگائی ہے، انشاء اللہ اب جو اقتدار میں آئے گا، دعا ہے کہ وہ ان مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہو، ان گرہوں کو کھول سکے، یہ ایرانی عوام کی آرزو ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مشکلات کے حل کے لئے ہمارے پاس کوئی طریقہ موجود ہے تو تاحال جو کچھ انجام دیا گيا ہے سب کے انکاری ہو جائیں! ایک اور اہم بات یہ کہ انتخابی امیدوار ناقابل عمل وعدے نہ کریں۔ میں تمام امیدواروں سے کہنا چاہوں گا کہ اس انداز سے بیان دیں کہ اگر آئندہ سال اسی جون کے مہینے میں آپ کی آج کی گفتگو کو نشر کر دیا جائے تو آپ کو شرمسار نہ ہونا پڑے۔ ایسے وعدے کیجئے کہ بعد میں اگر آپ کو یہ وعدے یاد دلائے جائیں تو آپ کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑے، دوسروں کو بلا وجہ قصوروار ٹھہرانے کی کوشش نہ کرنا پڑے۔ وہی وعدہ کیجئے جسے آپ پورا کر سکتے ہوں۔

ہمارے ملک میں آئین کی رو سے صدر جمہوریہ کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں۔ آئین میں صدر کو جو اختیارات دئے گئے ہیں ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ملک کا بجٹ صدر کے ہاتھ میں ہے، تمام اجرائی شعبے اس کے اختیار میں ہیں، قوانین کے نفاذ کا پورا سسٹم اس کے ہاتھ میں ہے، ملک کے ہر صاحب نظر اور با لیاقت شخص کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار اس کے پاس ہے، مختلف میدانوں میں صدر کے ہاتھ بالکل کھلے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں صدر کے لئے بس ایک ہی پابندی ہے اور وہ ہے قانون کے دائرے میں عمل کرنا۔ قانون اس کے لئے حدود کا تعین کرتا ہے اور یہ کوئی قید اور محدودیت نہیں ہے، قانون تو ہدایت کرنے والا عامل ہے، ہاتھ باندھ دینے والی چیز نہیں ہے۔ قانون راستہ دکھاتا ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا چاہئے؟!

جو لوگ آج عوام کے سامنے اپنی باتیں پیش کر رہے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ باتیں کریں جن کی عوام کو ضرورت ہے اور جن پر وہ عمل کرنے کی توانائی بھی رکھتے ہیں۔ وعدہ کریں کہ سوجھ بوجھ اور دانشمندی کے ساتھ کام کریں گے۔ کسی بھی شعبے سے متعلق ان کے پاس کئی پروگرام ہے تو پیش کریں، وعدہ کریں کہ اس میدان میں ثابت قدمی اور لگن کے ساتھ کام کریں گے، وعدہ کریں کہ اپنے عظیم فریضے کی ادائیگی کے لئے آئین میں موجود تمام صلاحیتوں اور امکانات کا بھرپور استعمال کریں گے، وعدہ کریں کہ ملکی حالات کو بہترین انتظامی صلاحیت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، وعدہ کریں کہ اقتصادی مسئلے پر، جو اغیار کی جانب سے ہم پر مسلط کر دی جانے والی ایک مشکل ہے، پوری توجہ دیں گے، وعدہ کریں کہ حاشیہ آرائی نہیں کریں گے، وعدہ کریں کہ اپنے قریبی افراد کو کھلی چھوٹ نہیں دیں گے، وعدہ کریں کہ مختلف بہانوں سے اغیار کے مفادات کو ملت ایران کے مفادات پر ترجیح دینے کی کوشش نہیں کریں گے۔ بعض افراد اس غلط تجزئے کی بنیاد پر کہ اگر دشمنوں کو امتیاز اور مراعات کی سوغات دے دی جائے تو ان کا غصہ کم ہو جائے گا، عملی طور پر ان کے مفادات کو ملک کے قومی مفادات پر ترجیح دینے لگتے ہیں، یہ غلط ہے۔ دشمن کا سارا غصہ اس بات پر ہے کہ آپ موجود ہیں، اسلامی جمہوریہ کا وجود قائم ہے، غصہ اس بات کا ہے کہ عوام کے ذہنوں میں اور ملک کے منصوبوں میں امام خمینی (رہ) کا وجود قائم ہے، غصہ اس بات پر ہے کہ چودہ خرداد مطابق 4 جون کا دن جو امام خمینی (رہ) کی رحلت کا دن ہے، پورے ملک میں اتنے عقیدت و جذبات کے ساتھ کیوں منایا جاتا ہے۔ دشمن کو ان باتوں پر غصہ آتا ہے۔ لہذا دشمن کے غصے کا جواب قومی قوت و اقتدار کے ذریعے دینے کی ضرورت ہے۔

اگر قوم مقتدر اور مضبوط ہو، اپنی ضرورتیں خود پوری کر لے، اپنی مشکلات کا ازالہ خود کر لے، آج جو اقتصادی مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، اس کا حل نکال لے اور معیشت کو سنوار لے تو اس قوم کے سامنے دشمن ڈھیر ہو جائے گا۔ ضرورت ہے عزم و ارادے کی، اللہ پر ایقان و اطمینان کی، عوام کی صلاحیتوں پر اعتماد کی، خود اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کی، یہ انتخابی امیدواروں کے لئے بھی ضروری ہے اور عوام الناس کے لئے بھی لازمی ہے۔

میرے عزیزو! میرے بھائیو! دس دن بعد بہت بڑا امتحان (صدارتی انتخابات) در پیش ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کی مدد سے اس عظیم امتحان میں بڑا با برکت اور درخشاں نتائج کا حامل کارنامہ انجام پائے گا۔ «و لا حول و لا قوّة الّا بالله العلىّ العظيم».

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) آل عمران: ۱۷۳

۲) محمد: ۷

۳) جن: ۱۶

۴) فصلت: ۳۰

۵) رعد: ۱۱