ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت امام خمینی (رہ)کی پچیسویں برسی پر عوامی اجتماع سے خطاب

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَمواَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى‌ اَمواَلِهِم وَ اشدُد عَلى‌ قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى‌ یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (
۳)

میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں اس اہم اور یادگار دن کے موقع پر اپنی گفتگو اور بیان کو تین حصوں میں پیش کروں گا۔ اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ایک اہم حقیقت کا ذکر کروں گا، جس کی طرف توجہ دینا ہمارے لئے خاص طور پر ان ایام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دوسرے حصے میں اپنے عظیم اور بزرگ امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے پائدار مکتب فکر کی مختصر تشریح پیش کروں گا۔ حالانکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جا چکا ہے، ہم نے بھی بیان کیا ہے اور سنا بھی ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ مختصر تشریح ہمارے لئے بہت ضروری ہے تا کہ اس دنیا میں ہمارے عظیم الشان رہنما حضرت امام خمینی (رہ) نے جو بے مثال اور بے نظیر کارنامہ انجام دیا اس کی مختصر طور پر تصویر پیش کی جائے۔ تیسرے حصے میں دو اہم چیلنجوں کی طرف اشارہ کروں گا جو ایرانی قوم  اور اسلامی جمہوری نطام کو درپیش ہیں۔ ہماری صحیح اور درست سمت میں پیش قدمی اور صحیح راستے پر گامزن ہونے کے لئے ان دونوں چیلنجوں کا ادراک ہمارے لئے بہت ہی اہم اور بہت ہی ضروری ہے۔
میں نے پہلے حصے میں جس حقیقت کے بارے میں گفتگو کرنے کی بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی رحلت کو پچیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اس عظیم رہنما کے بارے میں گفتگو سننے اور حقائق جاننے کا ذوق و شوق  اور جوش و خروش ہرگز کم نہیں ہوا اور یہ صرف ہمارے وطن عزیز سے ہی مخصوص نہیں ہے،بلکہ پورے  عالم اسلام اور عالمی و بین الاقوامی سطح پر یہ حقیقت آج بھی موجود ہے۔ صرف ہمارے ملک میں نہیں جہاں انقلاب کی تیسری نسل نشونما اور رشد و بالیدگی کے مراحل میں ہے بلکہ عالم اسلام میں بھی موجود مواصلاتی ذرائع اور انٹرنیٹ کی ترقی کے اس دور میں جب نوجوان اپنے گرد و پیش سے بہت دور کے حقائق کے بارے میں آسانی سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں، یہ نوجوان اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور اس عظیم عمارت کے معمار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ حقائق معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی اور دینی جمہوریت کا نظریہ، ولی امر مسلمین کا نظریہ، یہ وہ موضوعات ہیں جو عالم اسلام کے فکری حلقوں کے لئے پر کشش اور  بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
ہمارے دشمنوں نے پہلے ہی دن سے وسیع پیمانے پر تلاش و کوشش  شروع کر دی تھی اور جیسے جیسے وقت گزرتا رہا انہوں نے ان کوششوں کا دائرہ مزید وسیع کردیا اور اسلامی جمہوری نظام اور اس کے عظیم بانی کو برا بھلا کہنے کے لئے، اس کے حامیوں کی توہین کرنے کے لئے سیکڑوں بلکہ ہزاروں ٹی وی چینل، ریڈیو نشریات اور انٹرنیٹ کو استعمال کیا ۔ لیکن ان چیزوں سے ہمیں مدد ملی، یعنی دنیا بھر میں سامعین اور مخاطب افراد کے اندر ہمارے بارے میں جستجو کا جذبہ بڑھا چنانچہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس عناد و دشمنی، الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنے کی وجہ کیا ہے اور جس عظیم حقیقت کو ان عداوتوں اور حملوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے اس کی اصل حقیقت اور ماہیت کیا ہے، یہ کون سی حقیقت ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ ہمارے دشمنوں نے تو بغض و عناد میں ہمارا نام اچھالا، ہمارے بزرگ امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) اور ہمارے اسلامی نظام کے خلاف باتیں بنائیں «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (
۴) یہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ انہوں نے اس نیت اور منصوبے کے ساتھ وسیع پیمانے پر یہ مہم شروع کی لیکن ان کی عداوت پر مبنی مہم نےسرانجام ہمارے لئے بہترین موقعہ فراہم کیا۔ کیونکہ اس مہم کے نتیجے میں ساری دنیا میں سامعین کے اندر جستجو اور کھوج کا جذبہ پیدا ہوا۔ اسلامی ممالک میں اور ہمارے علاقے میں اسلامی بیدار کی لہر موجزن ہوئی جس میں سامراج مخالف جذبات کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے، یہ خود اسی جستجو  اور تلاش کا مظہر ہے، یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ممکن ہے کہ مغربی اور امریکی انٹیلیجنس ادارے اپنے عہدیداروں کو یہ رپورٹ پیش کریں کہ انہوں نے ہمارے علاقے میں اسلامی بیداری کی لہر کو کامیابی سے کچل دیا ہے۔ اگر ان کی یہ سوچ ہے تو یہ ہمارے دشمنوں کی ایک اور اسٹراٹیجک غلطی اور غلط فہمی ہوگی۔ اسلامی بیداری کی لہر ممکن ہے کہ عالم اسلام کے بعض خطوں میں کچھ عرصے کے لئے کچل دی گئی ہو لیکن یہ طے ہے کہ اس کی جڑیں ابھی بھی مضبوط ہیں۔ اس کا آگے چل کر دائرہ مزید وسیع ہوجائے گا۔ علاقے کے مختلف ملکوں اور نوجوان نسل کے اندر پیدا ہونے والا یہ شعور، یہ ادراک اور یہ جذہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے آسانی کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہو۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کوششیں تو بہت ہو رہی ہیں، ممکن ہے کہ بعض خطوں میں وقتی طور پر یہ کوششیں کامیاب بھی ہوجائیں لیکن سرانجام ان تمام کوششوں کی ناکام ی یقینی ہے۔
آج پوری دنیا میں اور خاص طور پر عالم اسلام میں اسلامی اور دینی جمہوریت پر مبنی حقیقت کے بارے میں جو جستجو اور شوق و نشاط دیکھا جا رہا ہے اس کے وجود میں آنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی کامیابی کو پینتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس پینتیس سال کے عرصے میں دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اسلامی نظام کے ساتھ انتہائی سخت، معاندانہ اور تشدد آمیز سلوک کیا۔ انہوں نے فوجی اور عسکری کارروائي بھی کی، تبلیغاتی اقدامات بھی انجام دیئے، عداوت اور دشمنی پر مبنی اقتصادی پابندیاں بھی عائد کیں، اور پہلے ہی دن سے اقتصادی پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو روز بروز شدت اختیار کرتاگیا۔ انہوں نے سیاسی سطح پر بھی ریشہ دوانیاں کیں۔ دنیا کے سامراجی نظام نے اس پینتیس سال کے عرصے میں ہر وہ کارروائی کی ہے جو اس کے بس میں تھی۔ اسلامی جمہوریہ پر فوجی حملہ کرنے والے کی مدد کی ہے، ایران کے اندر اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کی ہر جگہ حمایت اور پشت پناہی کی ۔ اسلامی نظام کے خلاف وسیع پیمانے پر تبلیغاتی یلغار کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں تک ان سے ممکن ہوا انھوں نے اسلامی نظام کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگآنے کے اقدامات انجام دیئے۔ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور دشمن کی  اس ہمہ گير اقتصادی اور تبلیغاتی یلغار کی وجہ سے اسلامی نظام نہ تو ختم ہوا، نہ ہی اس کے پائے ثبات میں تزلزل پیدا ہوا، اور نہ ہی اس نے مغرب کو غنڈہ ٹیکس ادا کیا بلکہ ان کی معاندانہ کوششوں  کے باوجود اسلامی نظام روز بروز ترکی اور پیشرفت کی شاہراہ گامزن رہتے ہوئے مزید مضبوط اور قوی بن گيا۔ یہ ایسی چیز ہے جو جستجو اور شوق و ذوق  کا سبب بنتی ہے۔ سیاسی اور فوجی لحاظ سےدنیا کے تمام بڑے ممالک نے ملکر ایک ملک کے خلاف وسیع پیمانے پر سازش اور مخالفت  کا آغاز کردیا ، پینتیس سال سے یہ طاقتیں اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں، لیکن ایران کا اسلامی نظام دشمن کی وسیع معاندانہ کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہوا، بلکہ روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہی ہو تا رہا ہے، اس نظام نے نہ تو دشمن کو ٹیکس اور باج ادا کیا اور نہ ہی بڑی طاقتوں کی دھمکیوں پر کوئي توجہ دی اور نہ ہی انھیں قابل اعتنا سمجھا۔ مختلف میدانوں میں اسلامی جمہوریہ نے اپنی مقتدرانہ پوزیشن اور پائداری و دوام کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج جب اسلامی جمہوریہ کو لوگ دیکھتے ہیں تو انہیں نظر آتا ہے کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب کی دوسری اور تیسری نسل میں دسیوں لاکھ طالب علم، ہزاروں دینی طلبہ اور فضلا، کئي ہزار محقق، دسیوں ہزار یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے اساتذہ، ہزاروں ممتاز علمی و فکری شخصیات ،ہزاروں سیاسی رہنما، ثقافتی شعبے کی شخصیات، اقتصادی و پیداواری شعبے کے موثر افراد موجود ہیں، جن میں بعض کو عالمی شہرت بھی حاصل ہے،  آج ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ایسی ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران ، دشمن کی تمام اقتصادی پابندیوں کے باوجود خلاء میں اپنا راکٹ بھیجنے میں کامیاب ہوا، زندہ جانور کو فضا میں بھیجنے اور بحفاظت واپس لانے کا کامیاب تجربہ کیا ، اسلامی نظام ایٹمی انرجی کے شعبہ میں پیشرفت حاصل کررہا ہے ، بہت سی جدید ٹکنالوجیوں میں اس کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی علمی پیشرفت کی رفتار، دنیا کے معتبر اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق سائنسی پیشرفت کی اوسط عالمی رفتار سے تیرہ گنا زیادہ ہے، ایران دنیا کے مختلف ممالک کو سائنسی اور تکنیکی خدمات فراہم کر رہا ہے، عجیب و غریب پابندیوں کے باوجود ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کا انتظام چلا رہا ہے، علاقائی سیاست میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے، دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی حمایت یافتہ غاصب صیہونی حکومت کے مد مقابل اکیلے ہی ڈٹ کر مقابلہ کررہاہے اور اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ  ہر قسم کی سازش کو کرتے ہوئے مظلوم کی حمایت کر رہا ہے، ظاہر ہے کہ ہر بیدار مغز انسان کو یہ تلاش و جستجو ضرور ہوگی کہ آخر یہ کون سا ملک ہے، یہ کیسی سرزمین ہے جو اتنی عداوتوں کے باوجود اس قدر توانائيوں اور بقاء و دوام کی صلاحیتوں سے سرشار ہے؟ ایران کے بارے میں جستجو کی اصلی وجہ یہی ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ایران کی پیشرفت اور ترقی کے بارے میں یہ عملی نمونے ہیں۔
سیاسی و سماجی مسائل کو دیکھا جائے تو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے گزشتہ پینتیس سال میں ہمارے ملک میں جمہوریت کے بہترین مظاہر نظر آتے ہیں۔ پینتیس سال کے دوران ہمارے یہاں بتیس انتخابات منعقدہوئے، 32 ملک گیر انتخابات ہوئے، کیا یہ معمولی بات ہے؟ یہ ایک بے مثال اور بے نظیر نمونہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں پرشکوہ عوامی شراکت کے ساتھ منعقد ہونے والے انتخابات جمہوریت کے حقیقی آئینہ دار ہیں، یہ شراکت دنیا کی اوسط شراکت سے زیادہ اور اکثر اوقات تو بہت زیادہ ہوتی ہے، 70 فیصد، 72 فیصد کی شراکت ہمارے انتخابات کی اہم خصوصیت ہے۔ اس کے علاوہ جمہوریت کے دو اور نہایت اہم نمونے ہیں جنہیں دیکھنے کے ہم عادی ہو گئے ہیں، لیکن جب کوئی بیرونی مبصر اسے دیکھتا ہے تو اس کی نظر میں یہ چیز غیر معمولی، پرکشش اور انتہائی اہم محسوس ہوتی ہے۔ ان میں ایک بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری، اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے موقع پر عظیم عوامی ریلیاں اور دوسرے رمضان المبارک کے مہینےمیں یوم قدس کی مناسبت سے نکلنے والی عظیم عوامی ریلیاں ہیں ۔انقلاب کا جشن عوام پینتیس سال سے مسلسل اور پیہم ہر سال منا رہے ہیں۔ ماہ بہمن کے آخری دنوں میں شدید سردی کے باوجود عظیم و شاندار ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ یہ دیکھنے کے ہم عادی ہو گئے ہیں لہذا اس چیز کی عظمت و اہمیت ہمیں بہت زیادہ محسوس نہیں ہوتی مگر جب عالمی مبصر ان چیزوں کو مشاہدہ کرتے ہیں تو  حیران اور دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہ ان اسباب میں ہے جو جستجو  میں اضافہ کرتے ہیں اور دلچسپی رکھنے والے افراد، اہل تحقیق و مطالعہ کرنے والے افراد کے ذہنوں کے سامنے ایک نئی راہ پیش کرتے ہیں۔ یہ موجودہ دور کی ایک ٹھوس اور  اٹل حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کی توفیق اور خداوند متعال کی تائید سے اسلامی جمہوریہ ایران میں جو چیزیں رونما ہوئی ہیں ان کے بارے میں عالم اسلام کے نوجوانوں کے اندر، روشن خیال افراد کے اندر، اہل علم اور اہل نظر افراد کے اندر خاص کشش اور جستجو پائي جاتی ہے اور اس جستجو میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ پہلی بات کا حصہ ہے۔
یہ عظیم حقیقت عظیم معمار کا شاہکار ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بارے میں ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں۔ شاید بعض لوگ یہ خیال کریں کہ ہم مبالغہ آرائی کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنے بزرگ اور عظیم رہنما حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس میں کہیں کوئی مبالغہ نہیں ہے، یہ حقیقت کا ایک حصہ ہے۔ ہم نے جو تعریف کی ہے اور جو کچھ بیان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ہمارے عزیز اور عظيم رہنما حضرت امام خمینی (رہ) اس سے کہیں زیادہ بلند حقیقت و مفہوم کے حامل ہیں۔ آج جو کچھ  ایرانی کی نگاہ کے سامنے ہے اور اقوام عالم جو کچھ ملاحظہ کر رہی ہیں وہ حضرت امام خمینی (رہ) کے قدرت مند اور توانا ہاتھ کی تخلیق ہے۔ ہم اگر صحیح طریقے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں معمار کے نقشے کا علم ہونا چاہیے۔ اگر کسی معمولی اور عام سی عمارت کا نقشہ آپ کے پاس نہ ہو، اصلی نقشہ معلوم نہ ہو تو عمارت تعمیر کرنے والے لوگ کتنے ہی زبردست ماہر کیوں نہ ہوں ان سے غلطی کا امکان رہے گا۔ اصلی نقشے کا علم ہونا چاہیے کیونکہ اس نقشے کی بنیاد پر تعمیر و مرمت کا فن بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے جو نقشہ تیار کیا وہ ایسا نقشہ نہیں ہے جو انسان کے ذہن کی پیداوار ہو، یقینی طور پر اس نقشے کو اللہ کی مدد اور تائید بھی حاصل تھی۔ اس حقیقت کو خود حضرت امام خمینی (رہ)بھی جانتے تھے اور اس کی طرف باقاعدہ طور پر ان کی توجہ بھی مرکوزتھی۔ خود وہ کہتے تھے کہ جو کچھ رونما ہوا ہے اس میں اللہ تعالی کا ہاتھ ہے دست قدرت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بالکل صحیح سمجھا تھا اور آپ کی با بصیرت اور دور رس نگاہوں نے بالکل صحیح دیکھا تھا۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ اس نقشے سے پوری آگاہی رہے تا کہ ہم اس راستے پر گامزن رہ سکیں۔ اگر ہمیں نقشے سے واقفیت نہ ہوگی تو ہم بھٹک سکتے ہیں، جب ہم بھٹک گئے تو روز بروز جتنا آگے بڑھیں گے اصلی راستے اور صراط مستقیم سے اتنا ہی دور ہوتے چلےجائیں گے۔ جب ہم صحیح اور سیدھے راستے سے دور ہو گئے تو اہداف اور منزل سے بھی دور ہو جائیں گے۔ منزل اور ہدف تک پہنچنا ہے تو ضروری ہے کہ راستہ بھول نہ جائیں۔ راستہ گم نہ کریں، اس کے لئے ہمارے سامنے اصلی نقشہ ہونا چاہیے، ہمیں اس کی شناخت اور اس کا علم ہونا چاہیے۔ حضرت امام خمینی (رہ) کا تیار کیا ہوا نقشہ اور آپ کا نصب العین اسلامی علم و دانش کی بنیاد پر ایک سیاسی و شہری نظام کی تشکیل تھا ۔ اس کا لازمی مقدمہ یہ تھا کہ سلطنتی نظام جو بدعنوان بھی تھا، اغیار کا غلام بھی تھا اور حقیقت میں ایک آمرانہ نظام تھا، یہ تین خصوصیتیں اس سلطنتی نظام کے اندر نمایاں تھیں:ایک طرف یہ نظام مالیاتی و اخلاقی بدعنوانی اور کرپشن میں ڈوبا ہوا نظام تھا، تو دوسری جانب بڑی طاقتوں پر منحصر بھی تھا، کبھی برطانیہ کی غلامی تو کبھی امریکہ کی فرمانبرداری، یہ نظام اغیار کے مفادات کی حفاظت کے لئے ملک کے قومی مفادات کو قربان کرنے میں مصرف عمل تھا، اس کے ساتھ ہی ڈکٹیٹر اور آمرانہ نظام تھا، یہ نظام ظلم و استبداد پر استوار نظام تھا، عوام کی مرضی، عوام کی خواہشات کی اس سلطنتی نظام میں کہیں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر باقاعدہ ایک وسیع باب ہے، ایک کتاب ہے۔ جو عظیم ہدف حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اس بد عنوان اور ڈکٹیٹر نظام کی بیخ کنی تھی جو اغیار کا پٹھو تھا ، حضرت امام خمینی(رہ)  نے اس بد عنوان نظام کی بیخ کنی کے لئے کمر ہمت باندھ لی اور سلطنتی نظام ختم ہو گیا۔ ہمارے ملک میں تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شاہی نظام ختم ہو جائے اور اس کی جگہ کوئی اور شاہی نظام یا اسی سے ملتا جلتا کوئی نظام تشکیل پا جائے، ہدف یہ تھا کہ شاہی نظام میں جو برائیاں اور منفی باتیں تھیں ان کا خاتمہ ہو، حضرت امام خمینی رضوان اللہ نے یہی کیا اور ان برائیوں کا خاتمہ کر دیا۔ ، حضرت امام خمینی (رہ) کی تقاریر، آپ کی ہدایات اور آپ کا طرز عمل سب کچھ اسی ہدف کی جانب مرکوز نظر آتا ہے۔
اس سیاسی اور شہری نظام کی تعمیر میں دو بڑے بنیادی نکات ہیں اور یہ دونوں بنیادی نکات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، ایک طرح سے یہ ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ ایک ملکی امور کو جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے عوام کے سپرد کرنا ہے اور دوسرے یہ کہ تحریک اور یہ عمل اسلامی شریعت کے دائرے میں رہے جو خود بھی اسلام سے ہی ماخوذ تھا ، جمہوریت کی تحریک اور امور کو عوام کے ہاتھوں میں سونپنے کا عمل اسلامی ضوابط کے دائرے میں ہو۔ یہ دو باتیں ہیں اور ایک لحاظ سے ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔
کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے انتخابات کو مغربی ثقافت سے حاصل کیا اور پھر اسے اسلامی افکار اور اسلامی شریعت سے جوڑ دیا۔ نہیں، اگر انتخابات، جمہوریت اور عوامی رائے پر انحصار دین کا حصہ نہ ہوتا اور اسلامی شریعت سے ماخوذ نہ ہوتا تو امام خمینی (رہ) جو ہمیشہ علم و یقین کے ساتھ اور دو ٹوک انداز میں اپنی بات بیان کرنے والے انسان تھے، اسے بھی ضرور بیان کر دیتے۔ یہ چیز دین کا حصہ ہے، اسی لئے اسلامی شریعت کو پیرائے کے طور پر منتخب کیا گيا۔ اسی قانون سازی کے عمل میں، اجرائی امور میں، عہدیداروں کو معزول و منصوب کرنے میں، اس سیاسی و شہری نظام کے تابع عمومی عادات و اطوار سب میں اسلامی شریعت کی پابندی لازمی ہے۔ اس نظام میں جملہ امور جمہوری انداز میں انجام پاتے ہیں، یعنی عوام ہی پارلیمنٹ کے ممبران کا انتخاب کرتے ہیں، صدر جمہوریہ کا بھی انتخاب کرتے ہیں، وزراء کا انتخاب عوام بالواسطہ طور پر کرتے ہیں،  رہبر انقلاب اسلامی کے انتخاب اور اس کی کارکردگی پرنگرانی کے فرائض انجام دینے والی ماہرین کی کونسل کے ارکان کا انتخاب عوام کرتے ہیں اور ان کے توسط سے بالواسطہ طور پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کا انتخاب کرتے ہیں۔ تمام امور عوام کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی تحریک کی اصلی بنیاد ہے۔ حضرت امام خمینی(رہ) نے یہ جو عظیم عمارت تعمیر کی، یہ دو ستونوں پر استوار ہے۔ اسلامی شریعت کا التزام اور پابندی، اسلامی نظام کی روح و حقیقت ہے، اس پر سب کی توجہ ہونا چاہیے۔ اسلامی شریعت اگر معاشرے میں مکمل طور پر نافذ ہو جائے تو اس سے عام آزادی بھی مل جائے گی اور شہری و شخصی آزادی بھی حاصل ہو جائے گی۔ اسی طرح قوم کی آزادی کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا جسے خود مختاری کہا جاتا ہے۔ خود مختاری در حقیقت ایک قوم کی سطح پر پائی جانے والی آزادی کو کہتے ہیں، یعنی قوم ایسی ہو کہ کسی پر منحصر نہ ہو۔ ایک آزاد قوم کا مطلب ہے ایسی قوم جو کسی بھی صورت میں اپنے مخالفین، اپنے دشمنوں یا اغیار کے زیر اثر نہ ہو۔ اسی طرح معاشرے میں سماجی عدل و انصاف بھی قائم ہو جائے گا، معنویت کا قیام بھی عمل میں آئے گا، یہ چاروں اصلی اور کلیدی عناصر ہیں: آزادی، خود مختاری، انصاف اور معنویت۔ لہذا ہمارے بزرگ رہنما حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اسلامی شریعت پر حقیقی معنی میں تکیہ کیا جو اسلامی جمہوریہ کی روح ہے ۔ دینی جمہوریت پر تکیہ کیا جو در حقیقت ایک ذریعہ و وسیلہ ہے اور جو خود بھی اسلامی شریعت سے ماخوذ ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر میں کوئی بھی توانائی اور برتری جو طاقت کے زور پر حاصل ہوئی ہو وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں تسلط اور غلبے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بیشک طاقت و توانائی کا مفہوم ہے، اقتدار کا ایک مفہوم ہے، لیکن وہ اقتدار جو عوام کے انتخاب اور عوام کی رائے پر استوار ہو۔ ہتھیار اور زور زبردستی کے ذریعے حاصل ہونے والے اقتدار کی اسلام میں، اسلامی شریعت میں اور حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ عوام کے انتخاب سے حاصل ہونے والی قدرت و توانائی ہی قابل احترام ہے۔ پھر اس انتخاب کی مخالفت کسی کو نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں کسی کو بھی طاقت استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کا یہ اقدام فتنہ قرار پائےگا۔ حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے یہ نئی فکر دنیا کے سامنے پیش کی اور دنیا کی سیاست میں اس نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس نئے باب میں ایک اہم ترین عنصر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، مظلوم کی مدد اور ظالم کی مخالفت کرنا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا چاہیے اور آج ہمارے زمانے میں مظلومیت کی حقیقی مصداق فلسطینی قوم ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہمارے بزرگ رہنما حضرت امام خمینی (رہ) نے روز اول سے لیکر آخری  دم تک ہمیشہ فلسطین پر توجہ دلائی، اس پر دھیان دیا، اس کی حمایت کی اور وصیت کی کہ ایرانی قوم  اور ملک کے حکام اس مسئلے کو فراموش نہ کریں۔ مظلوم کی مدد اور ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جانا، ظالم کی ریشہ دوانیوں کی نفی، ظالم کے رعب و دبدبے سے متاثر ہونے سے انکار، اس کی ہیبت کے طلسم کو توڑ دینا، یہ بھی اس نظام اور امام خمینی (رہ) کے ذریعہ متعارف کرائے گئے نئے باب کے اجزاء ہیں۔ یہ اجمالی تصویر اور مختصر تعارف ہے اس سیاسی نظام اور اس مکتب فکر کا جو ہمارے عظیم الشان رہنما حضرت امام خمینی (رہ) نےملک میں شاہی نظام کے انہدام کے بعد نعم البدل کے طور پر پیش کیا اور جسے ملک کے عوام نے کھلے دل سے قبول کیا۔ یہ نیا باب دیگر سیاسی باتوں کی طرح صرف کتابوں کے اوراق تک محدود نہیں رہا بلکہ عملی زندگی میں اتر آیا، سماج میں منعکس ہوا، ایرانی عوام نے بھی بلند ہمتی کا ثبوت دیا، وفاداری کا ثبوت دیا اور قربانیاں دیکر اس کی حفاظت کی۔ اس نظام کی قوت و طاقت اور استحکام میں روز بروز اضافہ کیا اور خود کو اس منزل تک پہنچایا جہاں آج ہم موجود ہیں۔
حضرت امام خمینی(رہ) کامیاب ہوئے، امام خمینی(رہ) جو منصوبہ اور جو ہدف پورا کرنا چاہتے تھے اسے انہوں نے پورا کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عظیم کارنامہ آئندہ بھی جاری رہے گـا؟ جو نقشہ تیار کیا گیا اس کے خالی خانے، ظاہر ہے کہ اس کے کچھ سماجی و تاریخی خانوں کا خالی ہونا فطری امر ہے، یہ خانے پر ہوں گے یا نہیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اور آپ کہاں تک ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہم کہاں تک اس روشن راستے پر ثابت قدم رہتے ہیں اور کب تک اس پر گامزن رہتے ہیں۔ بیشک یہ چیز ممکن ہے، جو قوم آج ہماری نظروں کے سامنے ہے، اب تک جو تجربات حاصل ہوئے ہیں اور پینتیس سال کے اس عرصے میں جو عمل دیکھنے میں آیا ہے اور حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد پچیس سال کے عرصے میں جو سلسلہ رہا ہے، اس کے ذریعے اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ بیشک اس راستے پر گامزن رہنا ممکن ہے، نقشے کے خالی خانے بھی پر ہو جائيں گے اور یہ قوم اللہ تعالی کے اذن سے اور خداوند متعال کی نصرت و مدد سے بام عروج تک پہنچ جائےگی۔
البتہ دیگر بڑے اور عظیم اہداف کی طرح ہمارے اس راستے میں بھی کچھ چیلنج اور مشکلات ہیں، کچھ رکاوٹیں ہیں، ہمیں ان رکاوٹوں کے بارے میں شناخت ہونی چاہیے، تاکہ ہم آسانی سے انہیں عبور کر سکیں۔ اگر ہم رکاوٹوں سے واقف نہ ہوئے تو ایسی صورت میں یا ان رکاوٹوں کو عبور کرنا بہت دشوار ہوگا یا پھر سرے سے محال ہو جائے گا۔ میں اس باعظمت اور پرشکوہ نشست میں اور ملک کے عوام کے سامنے جو ان باتوں کو سنیں گے، یہ حقیقت عرض کر رہا ہوں۔ ہمارے نوجوان، ہمارے دانشور، ہمارے ممتاز مفکرین، ان تمام نکات کے بارے میں غور و فکر کریں، ان کا تجزیہ کریں، ان پر کام کریں، صرف ذہنی و لفظی بحث نہیں بلکہ باقاعدہ عملی کاوشیں انجام دیں، زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث و مباحثہ کریں۔ ہم جو باتیں عرض کر رہے ہیں یہ عناوین اور فصلیں ہیں جن پر ان شاء اللہ ہمارے نوجوان کام کریں گے جو ہم سے زیادہ بہتر اور آمادہ ہیں۔
میں نے دو چیلنجوں کے بارے میں عرض کیا کہ ایک چیلنج بیرونی اور دوسرا چیلنج اندرونی ہے۔ بیرونی چیلنج تو عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں ہیں، بلکہ صاف صاف یوں کہا جائے کہ امریکہ کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں ہیں، وہ ہمیشہ رخنہ اندازی کرتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خود ان کے اپنے بعض سیاسی مفکرین اپنے تجزیوں میں یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ ان منفی اقدامات کا کوئي فائدہ نہیں ہے، ان اقدامات سے عظیم لہر کا مقابلہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ رخنہ اندازی سے باز نہیں آتے۔ امریکیوں کی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے، امریکیوں کی سازش طشت از بام ہو چکی ہے۔ یہ امریکہ کی طویل مدت سازش ہے جو اس وقت امریکیوں کے بیانوں، تجزیوں اور رپورٹوں میں آشکارا ہو گئی ہے۔ امریکہ نے دنیا کے ممالک، دنیا کے لوگوں اور خطوں کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک قسم اس کے پیروکاروں کی ہے، جن میں فرمانبردار ممالک، فرمانبردار سیاسی و سماجی جماعتیں، فرمانبردار افراد اور احزاب شامل ہیں۔ ایک قسم ایسے ممالک اور لوگوں کی ہے۔ دوسری قسم ان ممالک کی ہے جو فرمانبردار نہیں ہیں، لیکن امریکہ کو ان سے مدارات کرنی ہوتی ہے۔ کچھ ممالک، کچھ شخصیات اور کچھ حلقے ایسے ہیں جو امریکہ کی جی حضوری نہیں کرتے مگر امریکہ کو ان کے ساتھ مدارات کرنی ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ امریکہ کے کچھ مشترکہ مفادات ہیں، ان سے عارضی طور پر امریکہ کی ایک طرح کی مفاہمت ہے۔ اس کی تشریح میں بعد میں کروں گا۔ تیسری قسم نافرمان ملکوں کی ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جو امریکہ کے دباؤ میں نہیں آتے۔ امریکہ کو غنڈہ گردی پر مبنی ٹیکس دینے پر تیار نہیں ہیں۔ ایک قسم اس طرح کے ممالک اور حلقوں کی ہے۔ امریکہ کی نظر میں دنیا کے تمام ممالک اور دنیا کی تمام سیاسی و سماجی تنظیمیں اور شہری و اقتصادی ادارے نمایاں اور معروف شخصیات سب کے سب انہیں تین قسموں میں کسی ایک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یا پوری طرح مطیع و فرمانبرار ہیں، یا خود مختار ہیں اور امریکہ ان کے ساتھ مدارات کرتا ہے یا نافرمان ہیں جو شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں، گستاخانہ روش پر چلتے ہیں، ان سے امریکہ ایک الگ انداز سے پیش آتا ہے۔
پہلی قسم کے ممالک اور جماعتوں کے ساتھ امریکہ کا رویہ مکمل حمایت پر مبنی ہوتاہے۔ البتہ یہ حمایت مفت کی نہیں ہے۔ امریکہ حمایت تو کرتا ہے لیکن انہیں چوس بھی لیتا ہے۔ در حقیقت ان کی توانائیوں اور ان کے وسائل کو اپنے مفادات کے لئے، اپنے اغراض و مقاصد کے لئے جی بھر کے استعمال کرتا ہے۔ ان سے ہر طرح کی خدمت لیتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، انہیں چوس لیتا ہے اور انہیں کوئی اہمیت بھی نہیں دیتا۔ البتہ ایسے کسی ملک نے کوئی ایسا اقدام کر دیا جو عرف عام میں مذموم مانا جاتا ہے تو اس اقدام کی مذمت نہیں کرتا بلکہ اس کا دفاع کرتا ہے، اس کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ استبدادی ممالک ہیں جہاں رجعت پسند حکومتوں کے ہاتھ میں زمام امور ہے، امریکیوں سے ان کے بڑے اچھے تعلقات ہیں، وہ امریکیوں کے سامنے سجدہ ریز رہتی ہیں، امریکہ کے سامنے دست بستہ کھڑی رہتی ہیں، اس کی کسی چوں و چرا کے بغیر اطاعت کرتی ہیں، ان کا تعلق اسی پہلی قسم اور صنف سے ہے۔ جب امریکیوں کو ان ممالک اور حکومتوں کے بارے میں بات کرنی ہوتی ہے تو انہیں ڈکٹیٹر حکومتیں ہرگز نہیں کہتے، وہ انہیں 'پدر مآب حکومتوں کا نام دیتے ہیں! یعنی ان کی آمریت کو چھپاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ ڈکٹیٹر نہیں ہیں، یہاں 'پدر مآبانہ' نظام ہے۔ سیاسی نظام میں پدر مآبانہ نظام کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے وہ ملک جہاں نہ کوئي پارلیمان ہو، نہ انتخابات کرائے جاتے ہوں، نہ کسی کو لب کشائی کی اجازت ہو، نہ قلم کی آزادی ہو، نہ اظہار خیال کی آزادی ہو، حکمراں کی مرضی کی ذرہ برابر بھی مخالفت ہوئی تو اس مخالفت کو شدت اور بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہو۔ ایسے ملک کو پدر مآبانہ ملک کہا جا سکتا ہے؟
معدوم صدام حسین اپنی زندگی کے ایک حصے میں ایسے ہی فرمانبرداروں اور تابعداروں کے زمرے میں شامل تھا، اس زمانے میں امریکی اس کی بے دریغ حمایت کرتے تھے، اس کی خوب مدد کرتے تھے ، امریکیوں نے اسے کیمیائی ہتھیار بھی دیئے، ہماری دفاعی نقل وحرکت کی تصاویر سیٹلائٹ کے ذریعے تیار کرکے اسے دیتے تھے، جنگ کے نقشے فراہم کرتے تھے، کیونکہ صدام ان کی خدمت کر رہا تھا، نافرمانی کرنے والے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف بر سر پیکار تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران تیسری قسم اور صنف سے تعلق رکھنے والا ملک ہے۔ ایک صنف ایسے ممالک کی ہے۔
دوسری قسم ہم نے عرض کیا کہ ان ممالک کی ہے جن کے ساتھ مدارات کرنا امریکہ کا منصوبہ اور اس کی پالیسی ہے۔ مدارات کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ فی الحال ان ممالک کے ساتھ امریکہ نے اپنے کچھ مشترکہ مفادات معین کر رکھے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ رکھتا ہے، مگر جیسے ہی موقعہ ملتا ہے ان کی پشت سے اپنا خنجر ان کے دل میں پیوست کر دیتا ہے، ان کا جگر چاک کر دیتا ہے، پھر ان کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ یہ کون سے ممالک ہیں؟ اس کی مثال یورپی ممالک ہیں۔ آج یورپی ممالک کی مثال یہی ہے۔ امریکہ ان سے مدارات بھی کرتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ان کے مفادات کا محافظ ہو، نہیں، جہاں ممکن ہوتا ہے انہیں دو لات  لگانے سے بھی نہیں چوکتا۔ اپنے اتحادی ملک کے سربراہ کی انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کرتا ہے (5)، موبائل فون کے ذریعہ جاسوسی کرواتا ہے، اس کی ذاتی زندگی کی بھی جاسوسی کرتا ہے اور اسے ذرہ برابر شرم بھی نہیں آتی۔ جب  راز فاش ہوجاتا ہے   تو کہہ دیتا ہے کہ معاف کیجئے گا۔ اب تو یہ کام ہو ہی گيا ہے، کوئی اور چارہ نہیں تھا، لہذا ایسا کیا گيا ہے! یعنی قاعدے سے معذرت خواہی کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ سیاسی مسائل کے سلسلے میں اس حقیر کا ادراک یہ کہتا ہے کہ یورپی ممالک بہت بڑی اسٹراٹیجک غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو انہوں نے خود کو امریکہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا ہے۔ امریکہ کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ امریکہ ان کے مفادات کا ہرگز خیال نہیں رکھتا اور نہیں رکھے گا، یہ سلسلہ آخر تک اسی طرح جاری رہے گا۔ تو یہ دوسری قسم کے ممالک ہیں۔
تیسری قسم میں وہ ممالک ہیں جو امریکہ کے دباؤ میں نہیں آتے۔ ان ممالک کے بارے میں امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ ان نافرمان ممالک کے خلاف ہر ممکنہ حربہ استعمال کیا جائے، جو بھی ممکن ہو کیا جائے، اس کی کوئی حد معین نہیں ہے۔ اگر کوئی ملک امریکہ کی نافرمانی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اس پر پابندیاں نہیں لگائی ہیں یا فوجی حملہ نہیں کیا ہے تو جان لیجئے کہ ضرور کوئی مشکل ہے۔ یعنی امریکہ کو کوئی بہت بڑی رکاوٹ نظر آ رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امریکہ کے پاس کچھ کرنے کی توانائی ہی نہیں، اگر اس کے لئے ممکن ہوتا تو ضرور یہ کام کرتا۔ اس نافرمان ملک کا واحد جرم یہ ہے کہ امریکہ کے سامنے سر جھکانے پر تیار نہیں ہے، ٹیکس اور باج دینا پسند نہیں کرتا، امریکی مفادات کو اپنے قومی مفادات پر فوقیت نہیں دینا چاہتا، ایسا ملک نافرمان قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے امریکی ہر ممکن کارروائي کرتے ہیں اور کوئی بھی اقدام کرنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا۔ ان کے لئے جو بھی ممکن ہو وہ کرتےہیں، اگر انہوں نے کوئی کارروائی چھوڑ دی ہے تو اس کی وجہ یقینی طور پر یہ رہی ہوگی کہ وہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں رہی ہوگی۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ امریکی جو اقدامات کرتے ہیں وہ کیا ہیں؟ اس وقت امریکیوں کے نزدیک فوجی حملہ ترجیحات سے نکل گیا ہے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ عراق کے معاملے میں اور افغانستان کے معاملے میں لشکر کشی کرکے انہیں نقصان اٹھانا پڑا، انہیں اندازہ ہوا کہ لشکر کشی سے جتنا نقصان نشانہ بننے والے ملک کو ہوتا ہے بسا اوقات اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ نقصان حملہ آور ملک کو اٹھانا پڑتا ہے، اس سے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ حقیقت صحیح طور پر ان کی سمجھ میں آ گئی ہے۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ فوجی حملے اور عسکری اقدامات سے منصرف ہو گیا ہے، اب دوسرے راستوں کو آزما رہا ہے۔ امریکہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس ملک سے دشمنی نکالنی ہے، اس کے اندر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے وہیں کے داخلی عناصر کو استعمال کرتا ہے۔ یہ معاملہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ نہیں ہے، وہ ساری دنیا میں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ہم اس کے متعدد نمونے دیکھ رہے ہیں۔ یا پھر وہ ملک کے اندر بغاوت کروا کے کچھ لوگوں کی پوزیشن مضبوط کر دیتے ہیں، بغاوت کروا کے اس حکومت اور اس نظام کو جو ان کی بات ماننے پر تیار نہیں ہے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، امریکیوں کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ ان کا ایک اور حربہ عوام کے ایک گروہ کو سڑکوں پر لے آنا ہے۔ اس علاقے میں مختلف جگہوں پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران جو رنگین انقلاب آئے ہیں وہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ جب کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو ظاہر ہے کہ حکومت کی تشکیل میں اگر ساٹھ فیصد رائے دہندگان نے حمایت میں ووٹ دیا ہے تو چالیس فیصد لوگ ایسے ہوں گے جن کے ووٹ اس حکومت کو نہیں ملے ہوں گے۔ امریکی انہیں چالیس فیصد لوگوں پر نظر رکھتے ہیں، ان کے درمیان سے کچھ افراد اور رہنماؤں کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہیں لالچ دیکر، پیسے دیکر یا ڈرا دھمکا کر اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ان چالیس فیصدعوام یا ان میں سے کچھ لوگوں کو ہی سہی سڑکوں پر لے آئيں۔ یہی رنگین انقلابات، یہ نارنگی انقلاب یا دوسرے انقلاب جو حالیہ کچھ برسوں کے دوران مختلف ممالک میں نمودار ہوئے ان کے پس پردہ امریکیوں کا ہاتھ تھا۔ آج یورپ کے ایک خطے میں (6) جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کے بارے میں ہم کوئی فیصلہ سنانا نہیں چاہتے لیکن جب انسان جائزہ لیتا ہے تو یہی دیکھتا ہے کہ امریکی سنیٹر، امریکی عہدیدار (7) ایک ملک کے خلاف ایک اقلیت کے مظاہرے میں نظر آتا ہے، آخر اس کا وہاں کیا کام ہے؟ مظاہرے میں جاتے ہیں۔ ان کا ایک حربہ یہ ہے کہ عوام کے ایک گروہ کو سڑکوں پر لاتے ہیں، سول نافرمانی کی صورت حال پیدا کرتے ہیں اور اس طرح اس حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیتے ہیں جو انہیں باج دینے پر تیار نہیں ہے۔ ان کا ایک اور حربہ ٹارگٹ کلنگ کرنے والی تنظیموں اور دہشت گرد گروہوں کو حرکت میں لانا ہے۔ انہوں نے یہ کام عراق میں کیا، افغانستان میں کیا، بعض عرب ممالک میں کیا۔ خود ہمارے ملک میں بھی یہ کام انجام دیا۔ دہشت گرد تنظیمیں تشکیل دلواتے ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں سائنسدانوں کو قتل کیا، ایٹمی انرجی کے ماہرین کو نشانہ بنایا اور شہید کیا۔ اس سے پہلے دوسرے افراد کو، سیاسی شخصیات کو، علمی ہستیوں کو، ثقافتی شعبے کی شخصیات کو علمائے کرام کو قتل کروایا۔ یہ تنظیمیں امریکہ کے سائے میں پھلتی پھولتی ہیں۔ جبکہ بعض تنظیمیں امریکہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے اس کے قریب ہو جاتی ہیں۔ آج منافقین (ضد انقلاب دہشت گرد تنظیم) امریکہ کی آغوش میں ہیں۔ وہ امریکہ کے سرکاری اجلاس میں، امریکی کانگریس کے کمیشنوں میں شرکت کرتے ہیں، وہی منافقین جنہوں نے یہاں ایران میں بے گناہ عوام کا قتل عام کیا، عظیم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی، علماء کو قتل کیا، سائنسدانوں کو نشانہ بنایا، سیاسی شخصیات کا قتل کیا، دھماکے کئے۔ آج وہ امریکیوں کے ساتھ ہیں۔ ان کا ایک اور حربہ اعلی قیادت کے اندر اختلافات پیدا کرنا ہے۔ یہ طریقہ بھی امریکی اپناتے ہیں۔ جو حکومت اور جو نظام ان سے تعاون نہیں کر رہا ہے اس کی اعلی سیاسی قیادت میں وہ اختلاف اور خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، موازی قیادت قائم کرتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر انہیں کامیابی نہیں مل پاتی لیکن بدقسمتی سے وہ بعض جگہوں پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ ان کا ایک اور حربہ یہ ہے کہ اپنے تبلیغاتی اداروں کی مدد سے لوگوں کے دلوں اور عوام کے ذہن کو ایمان و عقیدے سے منحرف کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کے دوسرے مختلف حربے ہیں۔ امریکی حکومت نے ہمارے وطن عزیز ایران کے سلسلے میں، ہمارے اسلامی ملک ایران کے سلسلے میں یہ سارے حربے استعمال کئے اور اللہ تعالی کے فضل سے انہیں ہر مرحلے پر شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پ‍ڑا۔ فوجی بغاوت، فتنہ پرور عناصر کی حمایت، عوام کو سڑکوں پر لانا، انتخابات کی مخالفت، خلیج پیدا کرنا، یہ ساری سازشیں انہوں نے کیں یا کرنے کی کوشش کی لیکن الحمد للہ ہر دفعہ انہیں شکست ہوئی، کیوں؟ اس لئے کہ ایرانی قوم بیدار تھی۔ اب میں بات کروں گا دوسرے چیلنج کی جو اندرونی چیلنج ہے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! ایرانی قوم کے لئے اندرونی چیلنج سے مراد یہ ہے کہ ہم خدانخواستہ اپنے عظیم الشان رہنما حضرت  امام خمینی (رہ) کی تحریک کی اصلی روح اور سمت کو نظر انداز کر دیں، اسے بھول جائيں اور ہاتھ سے گنوا دیں۔ یہ بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے۔ اپنے دشمنوں کی شناخت میں غلطی کر بیٹھیں، اپنے دوستوں کو پہچاننے میں غلطی کا شکار ہوجائیں  ، دوست اور دشمن محاذوں میں پہچان نہ کرپائیں، نہ سمجھ پائیں کہ دشمن کون ہے اور دوست کون ہے؟ یا اصلی اور معمولی دشمن کی شناخت میں ہم سے غلطی سرزد ہو۔ یہ بہت بڑے خطرات ہیں۔ عزیز بھائیو اور بہنو! تمام ایرانی عوام توجہ رکھیں کہ کبھی کوئی آپ سے عداوت و دشمنی کا سلوک کر رہا ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو اس کی دشمنی اصلی دشمنی نہیں ہے بلکہ کسی اور دشمن کے اقدامات کے زير اثر ہے، اصلی دشمن کوئی اور ہی ہے۔ آپ اس اصلی دشمن کو تلاش کیجئے۔ ورنہ اگر انسان اسی معمولی دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہو جائے تو ایک طرف اس کی طاقت بھی صرف ہوگی اور دوسری طرف وہ مطلوبہ نتیجہ بھی حاصل نہیں کر پائےگا۔
آج کل عالم اسلام کے مختلف خطوں میں ایک گروہ، تکفیری، وہابی اور سلفی گروہ کے نام سے ایران کے خلاف اور شیعوں کے خلاف سرگرم عمل ہے، بڑے مذموم اقدامات انجام دے رہا ہے، بڑی پست حرکتیں کر رہا ہے، لیکن یہ اصلی دشمن نہیں ہے، اس کو سب ذہن میں رکھیں۔ بیشک وہ معاندانہ اقدامات انجام دے رہا ہے، بہت بڑی حماقت کر رہا ہے۔ لیکن اصلی دشمن تو وہ ہے جو اسے اکسا رہا ہے اور اشتعال دلا رہا ہے، اصلی دشمن وہ ہے جو اس گروہ کو مالی مدد فراہم کر رہا ہے، اصلی دشمن وہ ہے جو اس گروہ کے اشتعال میں کوئی کمی آتے دیکھتا ہے تو گوناگوں طریقوں اور ذریعوں سے اسے پھر مشتعل کرتا ہے۔ اصلی دشمن وہ ہے جو ایرانی قوم اور اس جاہل و نادان گروہ کے مابین اختلاف کے بیج بوتا ہے، خلیج پیدا کرتا ہے۔ اصلی دشمن اغیار کےانٹیلیجنس اور سکیورٹی ادارے ہیں۔ لہذا ہم نے یہ بات بار بار کہی ہے کہ سلفی کے نام سے اور تکفیری کے نام سے جو بے عقل گروہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف لڑ رہے ہیں، ہم انہیں اپنا اصلی دشمن نہیں سمجھتے، ہم ان تنظیموں کو فریب خوردہ مانتے ہیں، ان سے ہمارا کہنا ہے: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (
۸) اگر تم غلطی کر رہے ہو، اگر تم خطا کر رہے ہو، اگر تم نے اپنے مسلمان بھائی کے قتل کے لئے کمر کس لی ہے تو ہم تم جیسے نادان اور جاہل کو ایسا نہیں سمجھتے کہ تمہارے قتل کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔ بیشک ہم اپنا دفاع ضرور کریں گے، جو بھی ہم پر حملہ کرے گا ہمارے آہنی ہاتھ کا اسے سامنا کرنا پڑے گا، یہ فطری امر ہے، لیکن ہمارا نظریہ یہی ہے کہ اصلی دشمن یہ نہیں ہیں، یہ تو فریب خوردہ افراد ہیں۔ اصلی دشمن وہ ہے جو پس پردہ ہے، اصلی دشمن وہ ہاتھ ہے جو ہماری نظروں سے بہت زیادہ پوشیدہ بھی نہیں ہے، وہ ہاتھ جو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی آستین سے باہر نکلتا ہے اور مسلمانوں کے گریبان گیر ہو جاتا ہے، انہیں ایک دوسرے سے لڑا دیتا ہے۔
ہمارے اندرونی چیلنج یہ ہیں: ملک کے اندرونی اختلافات میں الجھ کر رہ جانا، جزوی اور فروعی جھگڑوں میں پھنس جانا، ایک دوسرے کے مد مقابل اٹھ کھڑا ہونا، ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کرنا، یہ چیزیں ہمیں اصلی مسائل اور اصلی راستوں سے دور کر دیں گی۔ یہ اسی چیلنج کے مصادیق ہیں جس کا ہم نے ذکر کیا۔ قومی یکجہتی کا ختم ہو جانا ہمارے سامنے بڑا چیلنج ہے۔  غفلت اور جوش و جذبے سے عاری ہو جانا، کام اور محنت سے بھاگنا، مایوسی اور نامایدی کا شکار ہو جانا، ذہن میں یہ خیال بٹھا لینا کہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، یہ سوچنا کہ اب تک ہم کچھ بھی نہیں کر سکے ہیں۔ جبکہ حقیقت امر یہ نہیں ہے، حقیقت امر تو وہی ہے جس کا ذکر حضرت امام خمینی(رہ) نے کیا کہ "ہم سب کچھ کر سکتے ہیں"  (9) ۔ ہمارے اندر عزم ہونا چاہیے، قومی عزم اور مجاہدانہ تدبیر کے ذریعہ تمام مشکلات کو حل کیاجا سکتا ہے۔ یہ سارے ہمارے اندرونی  چیلنج ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ہمارے عزیز نوجوانوں کو، ممتاز شخصیات کو، علمائے کرام کو چاہیے کہ بیٹھ کر ان مسائل کا جائزہ لیں، یہ اہم موضوعات ہیں۔ ہمارے بزرگ رہنما حضرت امام خمینی(رہ) کا نام، اس عظیم انسان کی یاد اور اس عدیم المثال معمار کا نقشہ راہ ان تمام مسائل میں ہماری مدد کر سکتا ہے، ہمیں حوصلہ اور امید دے سکتا ہے، ہمارے اندر جوش و جذبہ بھر سکتا ہے، جیسا کہ آج تک ہم دیکھتے آئے ہیں اور اللہ تعالی کی توفیق سے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
پروردگارا ! اس عزیز قوم پر اپنی برکتیں نازل فرما۔ پروردگارا! اسلامی نظام کی امیدوں اور امنگوں کی عمارت تعمیر کرنے میں ہمارے عزیز نوجوانوں کی مدد و نصرت فرما۔ پروردگارا ہمیں کج روی اور انحراف سے محفوظ فرما، پروردگارا! ایرانی قوم کو دشمنوں سے زیادہ طاقتور بنا، اسے دشمنوں پر کامیابی اور فتح نصیب فرما ، ہمارے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف  کے قلب مقدس کو ہمارے لئے مہربان فرما، امام زمانہ کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما، حضرت امام خمینی (رہ)  اور شہداء کی ارواح مطہرہ کو پیغمبر اسلام کے ساتھ محشور فرما۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) سوره‌ حشر،آیت نمبر ۱۰ کا ایک حصہ
۲) سوره‌ یونس، آیت نمبر ۸۸ کا ایک حصہ
۳) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۲۴ اور آیت نمبر25 کا ایک حصہ
۴) سوره‌ طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) جرمنی
۶) یوکرائن
۷) جان مک‌ کین‌
۸) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۲۸
۹) صحیفه‌ى امام خمینی (رہ)، جلد ۱۹، صفحہ