ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قوم کے جوان ممتازطلباء کی آٹھویں کانفرنس سے خطاب

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

آپ جیسے افراد اور آپ جیسے اجتماع کے ساتھ ملاقات کی لذت اور شرینی بے مثل و نظیر ہے اور اس حقیر کی عمر میں اور اس عہدے کے پیش نظر کسی کے لئے بھی کوئی چیز اتنی لذت بخش نہیں ہوگی جتنی لذت آّ کے ساتھ ملاقات میں ہے۔

انسان کے لئے بہت کم ہی چیزیں ایسی ہوں گی جن کی لذت اور دلنشینی آپ جیسے افراد کے اجتماع سے ملاقات سے حاصل ہونے والی شیرینی جیسی ہو۔ ایسے ممتاز نوجوانوں کے ساتھ ملاقات کی شیرینی جو علمی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں اور ملک کے درخشاں اور تابناک مستقبل کی نوید بن گئے ہیں۔ ہم جیسے افراد کی نگاہیں آپ لوگوں پر لگی ہوئی ہیں۔ انشاء اللہ خداوند عالم آپ لوگوں کو ہمت اور توفیق عطا فرمائے کہ آپ اپنے ملک ، اپنے  عزیز وطن اور اپنے اس مایہ ناز آشیانے کو اپنی فکری قوت اور پختہ عزم و ارادے کے ساتھ  اس طرح تیار کریں  کہ وہ اس سرزمین اور یہاں کی تاریخ کے شایان شان بن جائے۔ آپ سب کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں۔ آج یہاں آپ لوگوں سے ملاقات پر مجھے بڑی خوشی اور مسرت حاصل ہوئی ہے۔
جناب آقائ ستاری کی تقریر سے بھی میں حقیقت میں بہت لطف اندوز اور بہت محظوظ ہوا ہوں۔ جناب عالی خود بھی ممتاز علمی شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کے والد شہید منصور ستاری بھی حقیقت میں فکری لحاظ سے بھی، علمی و عملی اعتبار سے بھی، جوش و جذبے، ایمان اور دشوار میدانوں میں بھرپور شراکت و تعاون کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے۔  اللہ تعالی ہمارے عزیز شہید ستاری کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے اور جناب عالی کی توفیقات میں بھی اضافہ کرے۔ جو باتیں آپ نے بیان کیں، وہ حقیقت میں  بہت ہی اہم اور دلچسپ تھیں، بالکل صحیح اور درست باتیں تھیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ ایلیٹ فاؤنڈیشن اور متاز شخصیات کا ادارہ پھلے پھولے اور پروان چڑھے، جو کئی سال تک ہمارے اصرار اور تاکید کے بعد بحمد اللہ وجود میں آیا اور اس نے اپنا کام شروع کر دیا، اور اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سرانجام دینے میں کامیاب ہو۔
ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں شایدمیری اصلی بات بھی یہی ہے؛ ایک نکتہ جس پر ملک کے ممتاز اور ایلیٹ  افراد کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، خود ایلیٹ اور ممتاز ہونے کا مسئلہ اور اس کا مفہوم ہے۔ اس مسئلے کا مدبرانہ اور عالمانہ انداز میں جائزہ لیجئے۔ اس سے مراد آپ کی صلاحیتوں اور سعی و کوشش کے لئے آپ کی ہمت و حوصلے کا ہونا ہے، وہ حوصلہ جس کا آپ نے مظاہرہ کیا ہے اور جس محنت کا ثبوت پیش کیا ہے، یہ ساری چیزیں، یعنی یہ استعداد، یہ ہمت اور یہ حوصلہ، آپ کو اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والا عطیہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کا رزق ہے۔: وَ اللهُ فَضَّلَ بَعضَکُم عَلى بَعضٍ فِى الرِّزق؛ (
۲) یہ ایسا رزق ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے۔ وہ استعداد اور ذہنی شعور، صلاحیت و توانائی جو آپ کے پاس ہے، اسی طرح وہ ہمت و حوصلہ جسے بروئے کار لاتے ہوئے آپ نے تعلیم حاصل کی، تحقیق کی، مطالعہ کیا، کام کیا۔ بہت سے افراد کے پاس استعداد ہوتی ہے لیکن ہمت و حوصلے کا فقدان ہوتا ہے۔ آپ نے حوصلے کو بھی استعمال کیا۔ بیٹھ کر پڑھائی کی، غور و فکر کیا، مطالعہ کیا، بحث و مباحثہ کیا جو اللہ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، ۔ ان ساری چیزوں کے لئے برداشت، تحمل اور مستقل مزاجی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمت اور مستقل مزاجی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے،اور یہ بھی اللہ تعالی کا رزق ہے۔
خوب ،جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ یہ استعداد و صلاحیت، حوصلہ ، ہمت اور مستقل مزاجی کہاں سے حاصل ہوئی ہے، تو ہمیں یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ اسے استعمال کہاں کیا جائے، اسے کہاں صرف کیا جائے۔ اللہ تعالی نے اس کا تعین خود ہی کر دیا ہے۔: هُدًى لِلمُتَّقین. اَلَّذینَ یُؤمِنونَ بِالغَیبِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ مِمّا رَزَقنهُم یُنفِقون؛ (
۳) انفاق کیجئے، یہ آپ کے لئے اللہ تعالی کا رزق ہے، اسے خرچ کیجئے۔ رزق کے انفاق کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی جیب سے پیسہ نکالے اور ضرورتمند کی مدد کر دے۔ یہ رزق اس سے کہیں زیادہ اہم ، بلند و بالا اور اس کی قدر و قیمت  اس سے کہیں زيادہ ہے، چنانچہ اس کا انفاق بھی زیادہ اہم اور قیمتی ہوگا، اس رزق کا انفاق کرنا چاہیے۔ علم کے رزق کے انفاق اور خرچ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے معاشرے کی خدمت کیجئے، اپنی تاریخ کی خدمت کیجئے، اپنے مستقبل کی خدمت کیجئے، اپنی قوم کی خدمت کیجئے۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ جو شخص ممتاز اور ایلیٹ قرار پایا ہے اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس رزق کے انفاق کا طریقہ یہ ہے کہ اسے آپ راہ خدا میں خرچ کیجئے، خدا کے بندوں کی فلاح اور بہبود کی راہ میں استعمال کیجئے۔ یہ بات بھی میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ احسان جتانے سے بھی اجتناب کیا جانا چاہیے، بیشک آپ یہ رزق جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے ان لوگوں پر صرف کرتے ہیں، جو عوام کہے جاتے ہیں لیکن آپ کو بھی مستقل طور پر عوام الناس کی خدمات حاصل رہتی ہیں۔ تو یہ ایک طرح کا دو طرفہ لین دین ہے۔ یہی روٹی جو آپ کھاتے ہیں، یہ لباس جو آپ پہنتے ہیں، دیگر وسائل جو آپ استعمال کرتے ہیں، یہ گاڑی جس سے آپ کی آمد و رفت ہوتی ہے، یہ سب کن لوگوں کی زحمتوں کے نتائج اور ثمرات ہیں؟ یہ ان افراد کی محنتوں کے ثمرات ہیں جن کے لئے ممتاز اور ایلیٹ کا عنوان استعمال نہیں کیا جاتا۔ وہ آپ کو ایک طرح سے خدمات فراہم کر رہے ہیں، تو آپ بھی اپنے انداز سے ان کی خدمت کیجئے، ممتاز اور ایلیٹ اسے کہتے ہیں  اگر اس انداز سے انفاق کیا گیا تو ہدایت پروردگار اور نصرت الہی کی شکل میں ثمرات حاصل ہوں گے۔ آپ دیکھئے اسی آیہ کریمہ میں" هُدًى لِلمُتَّقین"  ہے۔ یہ کتاب متقین کو ہدایت عطا کرتی ہے۔ متقین کون لوگ ہیں؟ وہی جو؛ الَّذینَ یُؤمِنونَ بِالغَیبِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ مِمّا رَزَقنهُم یُنفِقون۔ جب آپ یہ انفاق کریں گے تو ان افراد کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے جو اللہ تعالی کی ہدایت کے زمرے میں شامل ہیں۔ یہ ہدایت عملی مہارتوں کی توسیع کے سلسلے میں بھی ہوتی ہے اور علمی مہارتوں کو بروئے کار لانے کی روش کے سلسلے میں بھی ہوتی ہے، اللہ تعالی ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں بھی خلاء موجود ہے آپ اسے پہچان کر پر کرنے کے لئے اقدام کرتے ہیں، وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ کوئی بھی میدان ہو، اس سے فرق نہیں پرتا۔ آپ دیکھئے شہید چمران ایک ممتاز علمی شخصیت تھے۔ چمران کو سب ایک سپاہی، کمانڈر اور فوجی امور کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں، جبکہ چمران ایک ممتاز علمی شخصیت تھے۔ میں نے خود ان کی زبان سے بھی اور دوسروں سے بھی سنا ہے کہ آمریکہ  کے جن تعلیمی مراکز میں انہوں نے تعلیم حاصل کی وہاں وہ ممتاز طلبا میں شمار کئے جاتے تھے۔ وہ حقیقی معنی میں ایک ممتاز علمی شخصیت کے مالک تھے، لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب اس میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے تو انہوں نے اپنی علمی استعداد کو، اپنی علمی توانائیوں کو اور اپنی اسی بلند ہمتی کو دفاعی میدان میں استعمال کیا اور عظیم کارنامے انجام دیئے۔ ممتاز اور لیلیٹ شخصیت اسے کہتے ہیں ۔ اسی طرح شہید شہریاری بھی ایک ممتاز اور ایلیٹ شخصیت ہیں۔ شہریاری نے جو کام انجام دیا اس کا تعلق جنگ اور دفاع سے نہیں ہے۔ ایک جگہ ایسی تھی جہاں کام کرنے کی ضرورت تھی، ایک ضرورت کو پورا کرنے کا مسئلہ تھا، وہ اسی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف اور مشغول ہو گئے۔ اسی طرح ہمارے دیگر شہداء بھی ممتاز اور ایلیٹ شخصیت کے حامل  ہیں، جنہوں نے حقیقت میں اہم کارنامے انجام دئیے۔ تو جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ یہ سب الہی عطیہ ہے، اللہ تعالی کی نعمت ہے، اللہ تعالی کا رزق ہے، تو ہماری سمجھ میں آ جائے گا کہ اس الہی رزق کو کہاں خرچ کرنا چاہیے۔ آپ لوگوں سے یہ میری اصلی گزارش تھی ۔
علم و تحقیق کے بارے میں اس سے قبل ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں۔ کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اور بحمد اللہ یہ باتیں بے نتیجہ نہیں رہیں۔ گذشتہ دس بارہ سال کے عرصے میں ملک کے اندر صحیح سمت و جہت کے ساتھ ایک مہم انجام پذیر ہوئی۔ بحمد اللہ ہم پوری طرح آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ اور یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ میں نے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے لئے جو حکمنامہ جاری کیا ہے (4) اس میں بھی تاکید کی ہے کہ علمی تحریک کی پیشرفت کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آنا چاہیے، کیونکہ اگر کوئي بھی وقفہ پیش آچائے تو وہ پسماندگی کا باعث ضرور بنتا ہے۔ ہم ایک عالمی مقابلے میں شریک ہیں، پسماندگی کے شکار بھی ہیں، البتہ اب ہماری رفتار اچھی ہے، لیکن پسماندگی اتنی زیادہ ہے کہ اس رفتار سے بھی ابھی پوری تلافی نہیں ہو سکی ہے۔ ابھی ہم اس منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں جہاں ہمیں پہنچنا ہے۔ لہذا ہمیں یہ سلسلہ جاری رکھنا ہوگا، محنت جاری رکھنی ہوگی۔ یہ علمی تحریک بہت ضروری ہے۔ اگر یہ علمی تحریک اسی انداز اور انہیں شرائط کے ساتھ جاری رہے تو ملک کو وابستگی سے نجات مل جائے گي۔ ان شرائط میں سے ایک علمی محور پرکمپنیوں کا قیام ہے اور علمی محور معیشت کی طرف پوری طرح توجہ دینا ہے۔ یہ سب اس علمی تحریک کے شرائط اور ضروریات ہیں جو بحمد اللہ اپنے راستے پر آگے بڑھ رہی ہے۔
ہمارے عزیز جناب ستاری صاحب نے یہاں ایک بات  بالکل صحیح بیان کی کہ جو ملک اور جو معیشت زمین کے اندرونی ذخائر اور وسائل پر منحصر ہو اور جہاں ہوا کے جھونکے کے ساتھ آجانے والی دولت کی حکمرانی قائم ہو، وہاں نہ ممتاز صلاحیتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے، نہ تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، بلکہ ایسی صلاحیتوں کے مالک افراد کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جاتی۔ جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ زمین کے اندر تاریخی سرمائے کو ہم باہر نکال کر خام مال کی شکل میں فروخت کرتے رہیں گے، شہزادوں  کے نہج پر چلیں گے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اگر ہم شہزادوں کی طرح ملک کا نظم و نسق چلائيں گے ، جنہیں اپنے پیسے کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہے اور جو اپنا پیسہ جیسے بھی ممکن ہو خرچ کرتے ہیں، تو پھر نہ تو علمی لیاقت والے افراد کی نشاندہی کی ضرورت ہوگی اور نہ ان کی افادیت کے بارے میں ہم سوچیں گے اور نہ ہی علمی استعداد والے افراد کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک کا مستقبل ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جو زمین کے اندرونی ذخائر اور تیل کی پالیسیاں وضع کر رہے رہیں۔ آج یہی صورت حال ہے۔ ان کی پالیسی یہ ہے کہ کبھی تیل کی قیمت گرا دیں اور اچانک آپ دیکھیں گے کہ یکبارگی تیل کی قیمت بیس ڈالر کم ہو گئی ہے، کل تک مثال کے طور پر ایک سو پانچ ڈالر کے ریٹ پر بیچ رہے تھے مگر اب پچاسی ڈالر کی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ یہ سب عالمی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جو ملک اپنی معیشت کو ایسے منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے جو اس کے قومی مفادات کے دائرے کے باہر ہیں، اس ملک کا حال و مستقبل کیا ہوگا، آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کے انتظامی امور داخلی توانائیوں کی بنیاد پر انجام دئیے جانے چاہییں۔ جناب ستاری نےروئے زمین پر موجود سرمائے کی بالکل صحیح اصطلاح استعمال کی جس سے مراد ہماری اندرونی صلاحیتیں ہیں۔ ملک کا نظام ہماری افرادی قوت کی مدد سے، ہمارے نوجوانوں کی فکری صلاحیتوں کی مدد سے چلایا جانا چاہیے۔ اگر یہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت عزیز وطن کی معیشت یا مستقبل پر اپنا تسلط قائم کرنے پر کامیاب نہیں ہو سکے گی اور ہماری معیشت کے ساتھ  کھیل تماشا و ملعبہ (5) نہیں کر سکے گی۔ لہذا ہمیں علم و تحقیق کی طرف بڑھنا چاہیے، یہ کام بہت ضروری کام ہے۔
البتہ علمی پیداوار اور علمی ایجادات کے سلسلے میں ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اسے تحقیقی مقالات لکھنے تک محدود نہ سمجھا جائے۔ جو اعداد و شمار دیئے جاتے ہیں، شائع ہونے والے تحقیقی مقالات کے اعداد و شمار ہوتے ہیں، یہ تحقیقی مقالات دنیا کے اہم مجلات، رسالوں اور میگزینوں میں شائع ہوتے ہیں اور ان میں بعض تحقیقی مقالات حقیقت میں بہت اہم اور قیمتی بھی ہوتے ہیں، ان کی طرف لوگ رجوع بھی کرتےہیں اور یہ بہت اچھی چیز بھی ہے لیکن اسی پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ تحقیقی مقالات کے لئے ضروری ہے کہ کسی نئی ایجاد کے اندراج اور رجسٹریشن کا مقدمہ ثابت ہو۔ دوسری چیز یہ ہے کہ تحقیقی مقالات ملکی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھے جائیں، اس پر یونیورسٹیاں بھی دھیان دیں اور علمی و تحقیقاتی مراکز اور ادارے بھی اس نکتے پر توجہ مبذول کریں۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علمی پیشرفت، سب کی ذمہ داری ہے، یہ ایسا فریضہ ہے جو ملک کے تمام اداروں پر عائد ہوتا ہے۔ بیشک ممتاز اور ایلیٹ فاؤنڈیشن جیسے اداروں پر اس کی ذمہ داری زیادہ ہے، انہیں بہت سے ضروری امور انجام دینے ہیں لیکن ملک کی تمام یونیورسٹیوں بلکہ گوناگوں اداروں جیسے تعلیم و تربیت کے ادارے، وزارت تعلیم، دیگر مختلف اداروں میں ہر ایک تعاون کر سکتا ہے۔ یہ جامع علمی نقشہ راہ  ہے  جو پیش کیا جا چکا ہے مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کر سکتا ہے۔ ہمیں ملک کی یونیورسٹیوں کو ایک مکمل علمی زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے منسلک کردیناچاہیے۔ ایسا عظیم علمی نیٹ ورک قائم ہو جو ضرورت کے ہر شعبے کے لئے اور ہر پہلو سے علمی ایجادات اور علمی پیداوار کا کام انجام دے۔ ساتھ ہی وہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے بھی مددگار ثابت ہوں۔ ہمارے تحقیقاتی مراکز بھی، یونیورسٹیاں بھی، اسی طرح دیگر ادارے بھی جن کا علمی امور سے رابطہ ہے، ایک دوسرے سے تعاون کریں تو انشاء اللہ جو ہمارا مقصد اور ہدف ہے وہ حاصل ہو جائے گا۔ ہمارا ہدف یہی مکمل علمی نیٹ ورک اور علمی حلقہ زنجیر وجود میں لانا ہے۔
میں آپ تمام نوجوانوں کو سفارش کرتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہے آپ اپنا رابطہ اللہ سے مضبوط اور مستحکم کیجئے۔ آپ کے لئے جو بھی پروگرام ترتیب دیئے جائيں اسی سمت و جہت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ آپ نوجوانوں کے دل ابھی پاک و پاکیزہ ہیں، یہ پاکیزہ اور نورانی قلوب اللہ سے جتنا زیادہ قریب ہوں گے، اللہ سے جتنا زیادہ راز و نیاز کریں گے، خدا کی پناہ میں رہیں گے، خداوند عالم سے اپنا درد بیان کریں گے، آپ کے اندر یہ کیفیت جتنی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگی، یقین جانئے کہ مستقبل میں آپ کی کامیابیاں بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ اسی آیہ کریمہ : اَلَّذینَ یُؤمِنونَ بِالغَیبِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ مِمّا رَزَقنهُم یُنفِقون، (
۶) میں اس انفاق سے پہلے نماز قائم کرنے کا حکم ہے، نماز اللہ تعالی سے رابطے کا مظہر اور آئینہ ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب و کامراں  فرمائے، ہمارے عظیم الشان امام (رہ)  اور ہمارے عزیز شہیدوں کو آپ سب سے راضی و خوشنود فرمائے اوروہ آپ کے لئے دعا کریں۔ جیسا کہ میں بھی ہمیشہ آپ نوجوانوں کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں۔

والسّلام و علیکم و رحمةالله و برکاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) رہبر معظم  انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل سائنس و ٹکنالوجی کے امور کے نائب صدر اور ممتاز و ایلیٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر سورنا ستاری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) سوره‌ نحل، آیت ۷۱ کا ایک حصہ «اللہ تعالی نے رزق کے اعتبار سے تم میں بعض کو بعض دوسروں پر برتری دی ہے۔»
۳) سوره‌ بقره، آیه‌ ۲ اور آیه‌ ۳ کا کچھ حصہ «متقین کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں انفاق کرتے ہیں۔»
۴) ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے ارکان کی تقرری کا حکمنامہ مورخہ (۱۳۹۳/۷/۲۶ہجری شمسی مطابق18 اکتوبر 2014)

5) بازیچہ
6) سوره‌ بقره، آیه‌
۳؛ « جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔