ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا انتہا پسند تکفیریوں کےبارے میں عالمی کانفرنس میں شریک علماء سے خطاب

بسم ‏اللَّه ‏الرّحمن ‏الرّحيم‏

الحمد للَّه ربّ العالمين و صلّى اللَّه على سيّدنا و نبيّنا المصطفى الامين محمّد و آله الطّيّبين الطّاهرين المعصومين و على صحبه المنتجبين و التّابعين لهم باحسان الى يوم الدّين‏

میں سب سے پہلے اس کانفرنس میں شریک  معزز مہمانوں، حاضرین محترم اور مختلف اسلامی مذاہب کے علمائے کرام کو خوش آمدید پیش کرتاہوں اور انتہائی اہمیت کی حامل دو روزہ کانفرنس میں آپ کی فعال ، سرگرم اور مؤثر شرکت پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور قم کے بزرگ علماء و فضلا بالخصوص آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ سبحانی کا بھی شکریہ ادا کرناضروری سمجھتا ہوں ، جنہوں نے یہ نئی فکر پیش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ بحمد اللہ انہوں نے اس مہم کا پہلا قدم اٹھایا اور اس مہم کا سلسلہ آگے بھی جاری رہنا چاہیے۔ گزشتہ دو دنوں کے دوران مقررین کی تقاریر سے اجمالی طور پر میں مطلع ہوا۔ میں بھی اس سلسلے میں چںد نکات پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اجلاس تکفیری تحریک کے بارے میں بحث کے لئے منعقد ہوا ہے جو عالم اسلام کے اندر بڑی خطرناک اور نقصان دہ  تحریک کے طور پر فعال ہے۔ تکفیری تحریک ویسے تو کوئی نئی تحریک نہیں ہے، اس کا تاریخی ماضی ہے، لیکن گزشتہ چند سال سے استکبار کی سازشوں، علاقے کی بعض حکومتوں کی ثروت و دولت اور آمریکہ ، برطانیہ اور صیہونی حکومت جیسی استعماری طاقتوں کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں اس تحریک کا احیاء عمل میں آیا ہے اور اسے تقویت پہنچی ہے۔ یہ اجلاس، یہ کانفرنس اور آپ کی مہم، اس تحریک کا ہمہ جہتی مقابلہ کرنے کے لئے اہم ہے، صرف اس گروہ کا مقابلہ کرنے کے لئے نہیں جو آج داعش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج داعش کے نام سے جس گروہ نے اپنی شناخت بنائي ہے وہ تکفیری فکر کے "شجرہ خبیثہ" کی ایک شاخ ہے، یہ مکمل درخت نہیں ہے۔ اس گروہ نے جو فنتہ برپا کیا ہے، یہ 'کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی و بربادی ' (2) بے گناہوں کا خون بہانا، عالم اسلام میں تکفیری تحریک کے وحشیانہ اور ہولناک جرائم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تو اس مسئلے کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لینا چاہیے۔
آج عالم اسلام کی سطح پر ہماری طاقت و توانائی صیہونی حکومت کی سازشوں کا مقابلہ کرنے پر صرف ہونی چاہیے تھی، صہیونیوں نے بیت المقدس  اور مسجد الاقصی کے خلاف جو اٹھایا ہے، اس سے پورے عالم اسلام کو حرکت میں آ جانا چاہیے تھا، لیکن مجھے دلی افسوس ہے کہ ہم تکفیریوں کی پیدا کردہ مشکلات میں پھنس گئے ہیں جو سامراجی طاقتوں نے تکفیریوں کے ذریعہ عالم اسلام کے اندر پیدا کر دی ہیں۔ ہمارے پاس اس مسئلہ پر بحث کرنے کے علاوہ کوئی اور علاج اور چارہ بھی نہیں ہے۔ در حقیقت تکفیری فکر کے مسئلے کا علاج ایسا معاملہ ہے جو عالم اسلام کے علمائے کرام، اسلامی دنیا کی نمایاں شخصیتوں اور ممتاز دانشوروں پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ دشمن نے اپنے ہاتھ سے تیار کرکے اس 'دست ساز مشکل' کو عالم اسلام پر مسلط کر دیا ہے۔ لہذا ہم اس مشکل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اصلی مسئلہ، صیہونی حکومت کا مسئلہ اور فلسطین کا ہے۔ اصلی مسئلہ بیت المقدس کا مسئلہ ہے، اصلی معاملہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کا معاملہ ہے۔ ہمارے اصلی مسائل یہ ہیں۔
ایک ناقابل انکار نکتہ یہ ہے کہ تکفیری تحریک اور اس کی پشت پناہی کرنے والی حکومتیں پوری طرح استکبار اور صیہونزم کے عزائم و مقاصد کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کے اقدامات امریکہ ، یورپ کی استعماری حکومتوں اور غاصب صیہونی حکومت کے اہداف کے تناظر میں انجام پا رہے ہیں۔ موجودہ شواہد سے اس نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ تکفیری تحریک کا ظاہر تو اسلامی ہے لیکن وہ  عملی طور پر ان سیاسی استعماری و استکباری طاقتوں اور حلقوں کی خدمت کر رہی ہے جو عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں ان میں سے بعض شواہد کا ذکر کروں گا؛ ایک ثبوت تو یہ ہے کہ تکفیری تحریک نے اسلامی بیداری کی لہر کو منحرف کر دیا۔ اسلامی بیداری کی لہر امریکہ  مخالف، داخلی استبداد کے خلاف اور علاقے میں امریکہ کے آلہ کار حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی لہر تھی۔ یہ لہر عوامی لہر تھی جو شمالی افریقہ کے ملکوں میں استکبار کے خلاف اور امریکہ کے خلاف اٹھی تھی۔ لیکن تکفیری تحریک نے آمریکہ مخالف، استبداد مخالف اور استکبار مخالف اس عظیم لہر کا رخ مسلمانوں کے درمیان آپسی جنگ اور برادر کشی کی جانب موڑ دیا۔ اس علاقے میں جدوجہد کی فرنٹ لائن مقبوضہ فلسطین کی سرحدیں تھیں۔ تکفیری تحریک نے اس فرنٹ لائن کی جگہ بدل کر اسے شام اور دمشق کی مسجد جامع، بغداد کی سڑکوں، پاکستان کی سڑکوں اور شام کے مختلف شہروں میں پہنچا دیا۔ اب اسلامی ممالک کی یہ جگہیں فرنٹ لائن میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
آپ آج لیبیا کی صورتحال مشاہدہ کیجئے ، شام کی صورتحال کا جائزہ لیجئے، عراق کے حالات کو دیکھ لیجئے، پاکستان کی صورت حال کو دیکھئے۔ غور کیجئے کہ مسلمانوں کی توانائیاں اور تلواریں کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں؟ یہ مسلمانوں کی یہ توانائیاں صہیونی حکومت کے خلاف استعمال ہونی چاہییں تھیں۔ تکفیری تحریک نے اس مقابلہ آرائی کا رخ ہی موڑ دیا اور اسے گھروں کے اندر، ہمارے شہروں کے اندر اور اسلامی ممالک کے اندر پہنچا دیا۔ دمشق کی جامع مسجد کے اندر دھماکہ کرتے ہیں۔ بغداد میں عام شہریوں کے اجتماع  میں دھماکہ کرتے ہیں، پاکستان میں سیکڑوں لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بناتےہیں۔ لیبیا میں وہ حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ جن کا آپ آج خود مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ سب تکفیری تحریک کی کبھی فراموش نہ کی جانے والی مجرمانہ حرکات اورکارروائیاں ہیں۔ یہ حالت کس نے پیدا کی ہے۔ اس تکفیری مکتب فکر کی طرف سے جو اقدامات انجام پا رہے ہیں وہ در حقیقت امریکہ  کی خدمت ہے، برطانیہ کی مدد ہے، ایسے اقدامات ہیں جن سے امریکہ  اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں اور موساد کی مدد ہو رہی ہے۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ تکفیری مکتب فکر کے حامی اور اس کے طرفدار ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے صیہونی حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ صیہونی حکومت کے معاملے میں ان کی پیشانی پر کبھی بل نہیں پڑتا، لیکن اسلامی ملکوں کے معاملے میں، مسلم اقوام کے سلسلے میں، گوناگوں بہانوں سے، مختلف طرح کی سازشیں کرتے ہیں اورضربیں و چوٹیں وارد کرتےہیں ۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اس تکفیری تحریک نے اسلامی ملکوں میں، عراق میں، شام میں، لیبیا میں، لبنان میں، بعض دیگر اسلامی ممالک میں جو فتنہ انگیز مہم چلائی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ملکوں کی گراں قیمت بنیادی تنصیبات تباہ ہوکر رہ گئیں۔ آپ مشاہدہ کیجئے کہ کتنی سڑکیں، کتنی ریفائنریاں، کتنے معدنیات، کتنے ایئرپورٹ، کتنی شاہراہیں، کتنے شہر، کتنے گھر، ان ملکوں میں داخلی جنگوں کی وجہ سے اور اس برادر کشی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ ان تمام امور کو گذشتہ حالت پر لوٹانے میں کتنا سرمایہ، کتنا وقت اور کتنے وسائل درکار ہوں گے۔ یہ وہ خسارہ ہے جو ان چند برسوں کے دوران تکفیری تحریک نے عالم اسلام کو پہنچایا ہے۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ تکفیری تحریک نے دنیا میں اسلام کی شکل و صورت  مسخ کرکے رکھ دی ہے۔ ساری دنیا نے ٹیلی ویژن چینلوں پر دیکھا کہ کسی شخص کو بٹھاتے ہیں اور پھر تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیتے ہیں، جرم ثابت ہوئے بغیر اس کا گلا کٹ دیتے ہیں ؛ لا يَنهكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقاتِلوكُم فِى الدّينِ وَ لَم يُخرِجوكُم مِن دِيارِكُم اَن تَبَرّوهُم وَ تُقسِطوا اِلَيهِم اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطين } اِنَّما يَنهكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قاتَلوكُم فِى الدّينِ وَ اَخرَجوكُم مِن دِيارِكُم وَ ظاهَروا عَلى‏ اِخراجِكُم اَن تَوَلَّوهُم.(3) مگر یہ لوگ اس کے بالکل برخلاف عمل کر رہے ہیں۔ مسلمان کو قتل کیا، کوئی تعرض نہ کرنے والے غیر مسلم کو تلوار کے نیچے بٹھایا اور پھر اس کی تصویر ساری دنیا میں نشر کی، ساری دنیا نے اسے دیکھا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک شخص نے اسلام کے نام پر ایک شخص کو قتل کیا اور اس کے سینے کے اندر سے ہاتھ ڈال کر اس کا دل باہر نکالا اور دانتوں سے چبا ڈالا۔ اسے دنیا نے دیکھا اور یہ سب اسلام کے سر گیا۔ رحمت والے دین اسلام کو، عقل پسندی کے دین اسلام کو، منطقی دین اسلام کو، 'لا يَنهكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقاتِلوكُم فِى الدّين' کا سبق دینے والے اسلام کو، اس اسلام کو ان لوگوں نے اس انداز سے پیش کیا، اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے زیادہ نفرت انگیز فتنہ کیا ہو سکتا ہے؟ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے یہ تکفیری تحریک کا کارنامہ ہے۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ تکفیریوں نے اسلامی مزاحمتی محاذ کو اس کے حال پر اکیلا ہی چھوڑ دیا۔ غزہ پچاس دن تک اکیلا لڑتا رہا، پچاس دن تک اکیلا مزاحمت کرتا رہا۔ اسلامی حکومتیں غزہ کی مدد کے لئے آگے نہیں آئیں، مال و زر اور ڈالر غزہ کے لئے خرچ نہیں کیا، البتہ بعض نے صہیونی حکومت کی ضرور مدد کی۔ یہ بھی ایک دلیل ہے۔
تکفیریوں کا ایک اور برا کارنامہ اور مزید ایک دلیل یہ ہے کہ تکفیری تحریک نے پورے عالم اسلام میں مسلمان نوجوانوں کے جوش و خروش کو منحرف کر دیا۔ آج پورے عالم اسلام میں ایک جوش و جذبہ نظر آ رہا ہے، ان پر اسلامی بیداری نے اپنا اثر ڈالا ہے۔ وہ اسلام کے اعلی اہداف کے لئے خدمت انجام دینے پر آمادہ ہیں، مگر اس تکفیری تحریک نے اس جوش و جذبے کو غلط سمت میں موڑ دیا۔ غفلت اور جہالت کے شکار جوانوں کو مسلمانوں کے سر کاٹنے اور کسی بستی کے بچوں اور عورتوں کے قتل عام پر مامور کر دیا، یہ تکفیری تحریک کے گھناؤنے اور ہولناک برے اعمال ہیں۔ ان شواہد اور قرائن سے سرسری طور پر نہیں گزرا جا سکتا۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ تکفیری تحریک، سامراج کی خدمت کر رہی ہے، دشمنان اسلام کی مدد کر رہی ہے، آمریکہ  کی خدمت کر رہی ہے، برطانیہ کی خدمت کر رہی ہے اور صیہونی حکومت کی خدمت کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ بھی شواہد اور دلائل موجود ہیں۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امریکہ  کے ٹرانسپورٹ طیارے سے جنگی وسائل کی کھیپیں، عراق کے ان علاقوں میں پہنچائی جاری ہیں جہاں داعش گروہ موجود ہے اور جہاں اس گروہ کو ان وسائل کی ضرورت تھی، آسمان سے گرائیں، ان کی مدد کی۔ ہم نے سوچا شاید غلطی سے ایسا ہو گیا ہے۔ لیکن دوبارہ یہی واقعہ پیش آیا۔ مجھے جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق پانچ دفعہ یہ عمل انجام پایا ہے۔ پانچ دفعہ غلطی ہوتی ہے؟ اور دوسری طرف داعش مخالف اتحاد تشکیل دیتے ہیں جو کذب محض ہے۔ یہ اتحاد دوسرے معاندانہ اہداف کے حصول کی کوشش میں ہے۔ وہ اس فتنہ کو شعلہ ور رکھنا چاہتے ہیں۔ دو فریقوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں رکھیں، مسلمانوں کے اندر داخلی جنگ مسلسل جاری رہے، یہ سلسلہ چلتا رہے، ان کا ہدف یہ ہے۔ البتہ آپ یہ یقین رکھئے کہ وہ اپنے اس ہدف میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
کچھ اہم فرائض ہیں جنہیں انجام دیا جانا چاہیے۔ اس دو روزہ کانفرنس کے مختلف کمیٹیوں میں آپ نے طریقہ کار پر غور کیا، جائزہ لیا، کچھ فرائض کا تعین کیا۔ میں دو تین اقدامات کے بارے میں عرض کروں گا جنہیں ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک تو ہے تکفیری تحریک کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے تمام اسلامی مکاتب فکر کے علمائے کرام کی جانب سے ہمہ گیر، علمی و منطقی مہم کا آغاز ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ کسی ایک مکتب فکر سے مخصوص نہیں ہے۔ اسلام کا درد رکھنے والے، اسلام کو ماننے والے اور اسلام سے دلی ہمدردی رکھنے والے تمام مکاتب فکر اس فریضہ میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک عظیم علمی مہم کا آغاز ہونا چاہیے۔ وہ 'سلف صالح' (4) کی پیروی کے جھوٹے نعرے کے ساتھ میدان میں وارد ہوئے ہیں، تو ان کے اعمال و اقدامات سے 'سلف صالح' کی بیزاری کو دین کی زبان میں، علمی طریقے سے اور صحیح عقل و منطق کے ذریعے ثابت کیا جائے۔ نوجوانوں کو نجات دلائيے! کچھ لوگ ان گمراہ کن افکار سے متاثر ہو جاتے ہیں اور بیچارے اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں، یہ لوگ در حقیقت اس آیہ کریمہ؛ «قُل هَل نُنَبِّئُكُم بِالاَخسَرينَ اَعمالاً. اَلَّذينَ ضلَّ سَعيُهُم فِى الحَيوةِ الدُّنيا وَ هُم يَحسَبونَ اَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعاً»(5) کے مصداق ہیں۔ وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روز قیامت اللہ سے کہیں گے؛
«رَبَّنا اِنّا اَطَعنا سادَتَنا و كُبَراءَنا فَاَضَلّونَا السَّبيلا. رَبَّنا ءاتِهِم ضِعفَينِ مِنَ العَذابِ وَ العَنهُم لَعنًا كَبيرا»،(6) یہ بیچارے وہی لوگ ہیں۔ جو شخص دمشق کی مسجد میں ایک بزرگ مسلمان عالم دین کو قتل کر دے، وہ اسی زمرے میں قرار پائے گا۔ جو دین سے منحرف ہو جانے کا دعوی کرکے مسلمانوں کے سر کاٹ رہا ہے، اسی گروہ میں شامل ہے، جو پاکستان میں، افغانستان میں، بغداد میں، عراق کے مختلف شہروں میں، شام میں اور لبنان میں دھماکے کرکے بے گناہوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر رہے ہیں وہ اسی گروہ میں شامل ہیں جو روز قیامت کہے گا: «رَبَّنا اِنّا اَطَعنا سادَتَنا و كُبَراءَنا فَاَضَلّونَا السَّبيلا. رَبَّنا ءاتِهِم ضِعفَينِ مِنَ العَذابِ»(7) قرآن میں ایک اور جگہ پر اللہ تعالی فرماتا ہے؛«لِكُلٍ‏ّ ضِعفٌ»(8) اللہ اسے قبول نہیں کرے گا کہ «رَبَّنا ءاتِهِم ضِعفَينِ» بلکہ «لِكُلٍ‏ ضِعفٌ» سردار اور پیروکار دونوں کے لئے (دہرا عذاب ہوگا) «تَخاصُمُ اَهلِ النّار»(9) وہ آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے۔ تو ان نوجوانوں کو نجات دلانا چاہیے، انہیں بچانا چاہیے اور یہ علماء کا فرض اور ان کی ذمہ داری ہے۔ علما کا رابطہ دانشور طبقے سے بھی ہوتا ہے اور عوام سے بھی ہوتا ہے، انہیں چاہیے کہ کوشش کریں۔ اللہ تعالی اس کے بارے میں روز قیامت علماء سے سوال کرے گا کہ آپ نے کیا کیا؟ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک کام تو یہ ہے ۔
دوسرا قدم جو بہت ہی  ضروری ہے، امریکہ  اور برطانیہ کی استکباری پالیسیوں کے کردار پر روشنی ڈالنا ہے۔حقیقت سامنے لانا چاہیے۔ عالم اسلام کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکی پالیسیوں کا اس معاملے میں کیا رول ہے؟ تکفیری تحریک کے احیاء میں امریکہ ، برطانیہ اور صہیونی حکومت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کیا کردارہے؟ اسے سب ذہن نشین رکھیں۔ سب اس بات کو سمجھیں کہ یہ ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں، منصوبہ وہی بناتی ہیں، امدادکا کام وہی کرتی ہیں اور طریقہ کار وہی بتاتی ہیں۔ پیسے فراہم کرنا علاقے میں ان کی آلہ کار حکومتوں، ان کے گماشتہ حکمرانوں کا کام ہے، سرمایہ یہ لوگ دے رہے ہیں۔ سازشیں وہ کررہی ہیں اور ان بد بختوں کو تباہ کر رہی ہیں، عالم اسلام کو اس بحران میں گرفتار کر رہی ہیں۔ یہ بھی بہت ضروری کام ہے جو انجام پانا چاہیے۔
تیسرا کام جو حتمی طور پر انجام پانا چاہیے، مسئلہ فلسطین پر بھرپور توجہ ہے۔ ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ مسئلہ فلسطین، بیت المقدس  کا مسئلہ اور مسجد الاقصی کا مسئلہ فراموش کر دیا جائے۔ دشمن اسی کوشش میں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں غافل ہوجائے۔ آپ غور کیجئے، انہیں دنوں کے دوران صہیونی حکومت کی کابینہ نے فلسطینی ملک کےیہودی ہونے کا اعلان کر دیا، اسے ایک یہودی ملک قرار دے دیا۔ وہ مدتوں سے اسی کوشش میں تھے اور اب صریحی طور پر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ عالم اسلام پر طاری غفلت، مسلم اقوام اور عوام الناس پر چھائی بے خبری کے عالم میں صہیونی حکومت بیت المقدس پر قبضہ کر لینے کی کوشش میں ہے، مسجد الاقصی کو ہڑپ لینے کی تگ و دو میں ہے، فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور کر دینے کے در پے ہے، اس مسئلہ پر توجہ دینا چاہیے۔
تمام اقوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومتوں سے مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانے کا مطالبہ کریں۔ علمائے کرام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ مسئلہ فلسطین پر توجہ دیں۔ یہ ایک اہم اور بنیادی ذمہ داری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس معاملے میں اسلامی جمہوریہ ایران میں حکومت اور عوام میں مکمل ہم فکری اور ہم آہنگی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے، ہمارے عظیم القدر رہنما حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے روز اول سے ہی فلسطین کی حمایت اور صہیونی حکومت سے دشمنی کی پالیسی کا اعلان کر دیا اور اس پر عمل کیا جو آج تک  جاری ہے۔ پینتیس سال ہو گئے ہیں اور ہم اس راستے پر گامزن ہیں۔ عوام بھی دل سے، پوری رغبت سے ہمارے ساتھ ہیں۔ بعض اوقات ہمارے کچھ نوجوان رجوع کرتے ہیں اور کوئي جواب نہیں ملتا تو مجھے خط لکھتے ہیں، التجا کرتے ہیں کہ اجازت دیجئے ہم فرنٹ لائن پر جاکر صہیونی حکومت سے جنگ کریں۔ صہیونیوں کے خلاف جنگ کا انہیں عشق ہے۔ ہماری قوم،  صیہونیوں سے جنگ کی خواہشمند ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی کی توفیق اور پروردگار کے لطف سے ہم مسلکی اختلافات جیسے مسائل کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے جو مدد حزب اللہ لبنان کو دی کہ جو شیعہ تنظیم ہے، وہی مدد حماس اور جہاد اسلامی تنظیم  (10) کو بھی دی اور آئندہ بھی مدد دیتے رہیں گے۔ ہم فرقہ وارانہ محدودیتوں میں گرفتار نہیں ہوئے۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ یہ شیعہ ہے، وہ سنی ہے، یہ حنفی ہے وہ مالکی ہے، یہ شافعی ہے، وہ زیدی ہے۔ فلسطین کے ہر علاقہ کو ہتھیاروں سے لیس کیا جانا چاہیے۔
ہم نے اس اصلی اور کلیدی ہدف پر نظر مرکوز کی اور مدد کی، جس کے نتیجے میں ہم غزہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے بازو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، دیگر علاقوں میں بھی ہمیں کامیابی ملی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ میں آپ عزیز بھائیوں کی خدمت میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ امریکی رعب و دبدبے سے آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، دشمن کمزور پڑ چکا ہے۔ اسلام کا دشمن عالمی سامراج اس وقت ماضی کے تمام ادوار کی نسبت گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمزور حالت میں ہے۔ آپ یورپ کی استعماری حکومتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ اقتصادی مشکلات میں گرفتار ہیں، سیاسی مشکلات میں الجھی ہوئی ہیں، سکیورٹی سے متعلق مسائل سے دست و گریباں ہیں، آج یورپ کی استعماری طاقتیں گوناگوں مشکلات و مسائل کی شکار ہیں اور امریکہ  کی حالت تو ان سے بھی زیادہ ابتر ہے۔ اخلاقیاتی مشکلات، سیاسی مشکلات، شدید مالیاتی و اقتصادی بحران، دنیا بھر میں سپر پاور والی حیثیت خطرے میں پڑ چکی ہے، صرف عالم اسلام میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں۔ صہیونی حکومت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جو "نیل سے فراتتک "  کا نعرہ لگاتی تھی! چیخ چیخ کر یہ نعرہ لگاتے تھے، صاف طور پر کہتے تھے کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ ہماری ملکیت ہے۔ مگر یہی حکومت پچاس دنوں تک جاری جنگ غزہ میں فلسطینیوں کی سرنگوں کو فتح نہیں کر پائی۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے پچاس دن تک اپنی ساری طاقت جھونک دی کہ حماس اور جہاد اسلامی کی بنائی ہوئی سرنگوں کو مسمار کر دے، نابود کر دے، اپنے قبضہ میں لے لے، لیکن ناکام رہی۔ یہی وہ حکومت ہے جس کا دعوی تھا کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ ہمارا ہے۔ آپ دیکھئے کہ کتنی بدل چکی ہے، کتنی کمزور ہو گئی ہے۔ اسلام کے دشمن گوناگوں مشکلات میں گرفتار ہیں۔ عراق میں اسلام دشمن طاقتوں کو ناکامی کا سامنا ہے، شام میں بھی شکست و ناکامی سے دوچار ہیں، لبنان میں بھی شکست و ناکامی کا سامنا ہے، ان کا مختلف علاقوں میں ہدف پورا نہیں ہو سکا، مقاصد ناقص اور ادھورے رہ گئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایٹمی مسئلے میں امریکہ  اور یورپ کی استعماری حکومتیں متحد ہوئيں، انہوں نے اپنی ساری توانائی استعمال کر ڈالی کہ ایٹمی مسئلے میں اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں لیکن نہ تو کامیاب ہوئیں اور نہ ہی مستقبل میں کامیاب ہوں گی۔ یہ ہمارے مد مقابل فریق کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ آپ ان شاء اللہ روز بروز زیادہ طاقتور اور قوی ہوں گے، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور " وَ اللَّهُ غالِبٌ عَلى‏ اَمرِه" (11)

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‏

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) یہ کانفرنس 23 اور 24 نومبر کو آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی( کانفرنس کے صدر) اور آیت اللہ جعفر سبحانی (کانفرنس کے کنوینئر) کی کاوشوں سے قم میں منعقد ہوئی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کانفرنس کے نائب کنوینر اور منتظمہ کمیٹی کے سربراہ حجت الاسلام سید مہدی علی زادہ موسوی نے رپورٹ پیش کی۔ جس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دعائیہ جملہ "طیب اللہ انفاسکم" کہا اور اس کے بعد اپنا خطاب شروع کیا۔
۲) قرآن کے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 205 کی جانب اشارہ ہے جس میں کھیتیوں اور نسل کو تباہ کرنے والوں کا ذکر ہے۔
۳) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 8 اور 9 " اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے اور انصاف سے پیش آنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملات میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے دیار سے بے دخل نہیں کیا ہے۔ کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے اور اس عمل میں جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔"
۴) حقیقی معنی میں سنت پیغمبر(ص) کا اتباع کرنے والے۔
۵) سورہ کہف آیت 103 اور 104 " کہہ دیجئے! اے لوگو میں تمہیں سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے لوگوں سے باخبر کروں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں کوششیں رائیگاں چلی گئيں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔"
۶) سورہ احزاب آیت 67 اور 68 کے کچھ حصے "پروردگارا! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، پالنے والے! ان کے عذاب کو دگنا کر دے، ان پر لعنت بھیج، بہت بڑی لعنت"
۷) سورہ احزاب آیت 67 اور 68 کے کچھ حصے "پروردگارا! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، پالنے والے! ان کے عذاب کو دگنا کر دے، ان پر لعنت بھیج، بہت بڑی لعنت"
۸) سوره‌ اعراف، آیه‌ ۳۸کا کچھ حصہ « دونوں کے لئے دگنا عذاب ہے»
۹) سوره‌ ص، آیه‌ ۶۴ کا ایک حصہ؛ «...اہل دوزخ کا جھگڑا»
۱۰) فلسطین کی تنظیم جہاد اسلامی ۔

۱۱) سوره‌ یوسف، آیه‌ ۲۱ کا ایک حصہ؛ «... اللہ اپنے امور پر غالب ہے...»