ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا انیس بہمن کی مناسبت سے فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم (1)

میں آپ عزیز بھائیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے انتہائی اہم اور حساس ادارے یعنی فضائیہ اور دفاعی  فضائی فورس کے انتہائی اہم اور حساس امور کے اہلکاروں کو خوش آمدیدپیش کرتا ہوں۔ آج کا دن فضائیہ کے نام سے موسوم ہے اس دن کی مناسبت سے آپ سب کو ، اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے تمام اہلکاروں اور ایئر ڈیفنس شعبہ سے تعلق رکھنے والے تمام کارکنوں اور آپ کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ترانہ پیش کرنے والی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اپنا پروگرام بہترین شکل میں پیش کیا۔
انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کا واقعہ اہم تاریخي واقعہ ہے جس کی یاد آپ ہر سال مناتے ہیں، یہ واقعہ ایک شیریں واقعہ کی یاد تازہ کرنے سے کہیں زیادہ با عظمت اور بلند و بالا ہے۔ بیشک یہ ایک  اہم، شریں  اور تاریخی واقعہ ہے، بہت ہی پسندیدہ اور دلنشیں واقعہ ہے اور مناسب بھی ہے کہ انسان اس قسم کے واقعات کو ہمیشہ زندہ رکھے، لیکن یہاں مسئلہ اس سے کچھ بالاتر ہے۔ انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کا واقعہ یادگار اور تاریخی واقعہ ،بامعنی اور اہم مضمون پر مشتمل واقعہ ہے۔ یعنی یہ واقعہ جو رونما ہوا اور شاہی نظام سے تعلق رکھنے والی فضائیہ کے جوان اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے واضح طور پر شجاعت، شہامت اور دلیری کے ساتھ  آکر حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیعت کا اعلان کیا، میں خود اس تقریب میں موجود تھا، ان میں سے بعض نے اپنے شناختی کارڈ اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے اور اسے دکھا رہے تھے، اس کے کچھ معنی ہیں یہ عمل ایک اہم مضمون پر مشتمل ہے، جسے ہمیشہ اور تا ابد یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک انقلابی ذمہ داری ہے۔ وہ مضمون کیا ہے؟ وہ مضمون یہ ہے کہ انقلاب کا پیغام، ایک برحق ، جذاب اور پرکشش پیغام تھا جس نے ملک بھر میں ایسے دلوں کو اپنی طور جذب کرلیا جن میں بیماری اور خود غرضی نہیں تھی ایسے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیاجو آگاہ اور بیدار تھے ؛

 

یہاں تک کہ شہنشاہی فضائیہ جیسے ادارے میں بھی یہ پرکشش پیغام پہنچ گيا جو اس زمانے میں حکمراں اداروں کا بڑا پسندیدہ اور محبوب ادارہ تھا بلکہ یہ ادارہ امریکہ کا بھی بڑا محبوب اور پسندیدہ ادارہ تھا اس دور میں فضائیہ کو امریکیوں کی طرف سے بھی اور ملک کے اندر ان کے آلہ کاروں کی جانب سے بھی بہت زیادہ نوازا جاتا تھا ، جو بد قسمتی سے اس دور میں ملک کےتمام امور کے مالک تھے، ، فضائیہ پر بڑی مہربان نظریں تھیں اور بڑی عنایتیں کی جاتی تھیں۔ لیکن یہی فضائیہ انقلاب کی حقانیت سے اس قدر متاثراور متحرک ہوئی کہ اس نے یہ عظیم کارنامہ انجام دے دیا۔ یعنی فضائیہ کے اہلکاروں نے دن کی روشنی میں، بے شمار اہلکاروں کی موجودگی میں، گوناگوں خطرات کے باوجود، ایران روڈ  پہنچ کر حضرت امام خمینی (رہ) کی بیعت کی، ترانہ پپیش کیا، اپنے ہاتھوں میں اپنے شناختی کارڈ لیکر کھڑے ہو گئے۔ یہ اس واقعہ کا انتہائی اہم پہلو ہے۔ انقلاب کی وہ غیر معمولی کشش اور وہ عجیب حقیقت جو اس انقلاب کے اندر پوشیدہ تھی اور دلوں کو اپنی جانب مائل کر لیتی تھی، ہمیں اس کی شناخت ہونی چاہیے اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔
ملک کے علاوہ دنیا میں بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ اس انقلاب کے اندر یہ توانائی اور صلاحیت موجودتھی کہ ملک کے ہر شعبہ اور ہر پہلو میں  اپنا نفوذ پیدا کرے اپنا اثر دکھائے ، لوگوں کے دلوں میں اتر جائے، دلوں میں بس جائے، مثال کے طور پر عوام  شہروں میں ہی نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی باہر نکلتے تھے اور ایک جگہ سے دوسرے جگہ تک احتجاجی مارچ کرتے تھے اور انقلاب کے حق میں، حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے حق میں نعرے لگاتے تھے، ظالم و ڈکٹیٹر شاہی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے تھے۔ اس طرح پوری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی یہی کیفیت اور یہی جذبہ دیکھنے میں آیا، البتہ تدریجی طور پر، یعنی ساری دنیا میں، ایشیا میں، افریقہ کے دور دراز کے علاقوں میں، یہاں تک کہ لاطینی امریکہ میں قومیں یہ دیکھ کر جوش و خروش اور ولولہ  میں آ جاتی تھیں کہ ایک قوم ایسی بھی نظر آئی ہے جو امریکہ کے سامنے اور امریکہ کی منہ زوری کے جواب میں اس شجاعت اور اس دلیری کا آشکارا مظاہرہ کر رہی ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو عرب ممالک میں رہتے تھے لیکن وہ ریڈیو ایران کی فارسی نشریات کو اتنا سنتے تھے کہ انہوں نے فارسی زبان سیکھ لی۔ جذابیت اور کشش اسے کہتے ہیں یہ انقلاب کی کشش تھی جس نے دلوں کو، عوامی گروہوں کو، دانشوروں کو، نوجوانوں کو، یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کو اپنی طرف مائل کر لیا،جو دشمن کے جو دشمن کے وسیع تبلیغاتی پروپیگنڈے کے جال میں نہیں پھنسے تھے، یہ صورت حال ہر جگہ دیکھنے میں آئی۔ جب یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ ایک قوم ظلم و استبداد کے خلاف، رعب و دبدبے اور دھمکیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے تو ان قوموں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوتا تھا جو امریکہ اور مغربی ممالک کے رعب و دبدبے اور دھمکیوں سے پریشان تھیں، یہ قومیں  انقلاب کی حامی بن جاتی تھیں اور اس کی جانب مائل ہو جاتی تھیں۔ یہ چیز ہر جگہ نظر آتی تھی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ چیز دنیا کے مستضعفین میں، افریقہ میں، ایشیا میں، دور افتادہ علاقوں میں، لاطینی امریکہ میں، تقریبا ہر جگہ نظر آتی تھی۔ اس کی ہمیں مکمل اطلاعات ملیں۔ بہت سے لوگ جاتے تھے آتے تھے رفت و آمد کا سلسلہ رہتا تھا۔ انقلاب کی تاثیر اور حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے نام کی تاثیر کو انسان نمایاں طور پر دیکھ سکتا تھا۔
خوب، اس انقلاب کے سامنے اور اس کے مد مقابل کون تھا؟ اس کے مد مقابل وہ طاقتیں تھیں جن کے خلاف یہ عظیم انقلاب اور شاندار تحریک عمل میں آئی تھی۔ ان طاقتوں میں سر فہرست امریکی حکومت تھی۔ یہ طاقتیں اس بات سے سخت پریشان اور آشفتہ تھیں کہ یہ عظیم اور وسیع تحریک روز بروز ان کے زیر تسلط اقوام میں پھیلتی جا رہی ہے، وہ طاقتیں اپنا رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئيں اور انہوں نے سخت رد عمل کا مظاہرہ بھی کیا۔ ان کے ذہن میں سب سے پہلا حل یہ آیا کہ اس عظیم سرچشمے کو بند کر دیا جائے، اس مرکز اور اس محور کو ختم کردیا جہاں سے یہ لہریں اٹھ رہی ہیں، تاکہ دوسری جگہوں پر یہ تحریک خود بخود ختم ہو جائے۔ چنانچہ انھوں نے اتنا دباؤ ڈالا جتنا ان سے ممکن ہوسکا۔
اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکہ کی عداوت اور دشمنی پہلے دن سے ہی شروع ہو گئی تھی، اس بات  کو نوجوان ذہن نشین کر لیں۔ امریکیوں نے جو بھی ممکن تھا ، وہ انھوں نے انجام دیا ۔ یعنی حقیقت میں امریکہ ہر میدان میں اور ہر سطح پرجو کچھ کرسکتا تھا وہ اس نے کیا ، امریکہ جیسی حکومت ایک قوم کے خلاف اور ایک ملک کے خلاف فوجی سطح پر، اقتصادی سطح پر، سکیورٹی کی سطح ، ثقافتی سطح پر، جو کر سکتی تھی وہ انے انجام دیا ۔ جو کچھ اامریکہ کے بس میں تھا وہ اس  نے کیا اور آج بھی کر رہا ہے۔ انہیں عداوت اور دشمنی انقلاب سے تھی اور آج بھی ہے، ان کی دشمنی ان لوگوں سے تھی جنہوں نے اس انقلاب کو برپا کیا اور فروغ دیا ۔ بعض لوگ جو تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امریکہ کو کچھ افراد سے عداوت اور دشمنی ہے، یہ غلط ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ کو حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے عداوت تھی اور آج علی خامنہ ای سے عداوت ہے۔ ان کی عداوت اور دشمنی  بذات خود اس انقلاب ، اس تحریک اور اس کے مضمون سے ہے۔ انہیں دشمنی استقامت، استقلال، خود مخۃاری  اور عزت نفس پر استوار اس فیصلے اور مؤقف سے ہے، ان کی دشمنی ان لوگوں سے ہے جنہوں نے استقلال ، آزادی اور خودمختاری جیسی چیزوں کو قبول کیا اور ان کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔ یہ دشمنی ماضی میں بھی تھی، آج بھی ہے اور اس کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ جو قوم برسوں سے اپنے مؤقف پر ثابت قدم کے ساتھ کھڑی ہے اور مشکلات اور  سختیوں کا سامنا کر رہی ہے، ان کی نظر میں وہ قابل نفرت ہے۔ بعض امریکی سیاستدانوں نے بہت بڑی غلطی  کا ارتکاب کیا اور  انہوں نے زبان سے اعلان بھی کر دیا، ان حالیہ برسوں میں ان کی زبان سے یہ بات پھسل گئی اور صریحی طور پر انہوں نے کہا کہ وہ ایرانی قوم کے دشمن ہیں، ایرانی قوم کے خلاف ہیں۔ آج بھی امریکی اور ان کے اتحادی جو اقدامات انجام دے رہے ہیں ان کا مقصد ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اور ایرانی قوم کی  تحقیر و تذلیل کرنا ہے۔
البتہ ، وہ بہت بڑی غلطی فہمی کا شکار ہیں، ان کا تجزیہ غلط ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ امریکی اس علاقے کے حوادث و واقعات اور خاص طور پر ہمارے عزیز ملک کے مسائل کا تجزیہ کرنے میں بڑی غلط فہمی اور اسٹراٹیجک خطا کا شکار ہیں  اور انہی غلطیوں کی وجہ سے انہیں مسلسل  ناکامی اور شکست کا سامنا ہے، اور انھیں پیہم ضربیں لگ رہی ہیں، لگاتار نقصان پہنچ رہاہے۔
ابھی چند روز قبل ایک امریکی عہدیدار (2) کہتا ہے کہ ایرانی پھنس گئے ہیں، ایٹمی مسائل کے سلسلے میں مذاکرات کی میز پر ایرانیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی محاسباتی غلطی ہے۔ ایرانی پھنسے نہیں ہیں۔ ان شاء اللہ آپ 22 بہمن مطابق گیارہ فروری، انقلاب کی سالگرہ کے موقعہ پر مشاہدہ کریں گے کہ ایرانی عوام کیا کریں گے اور کس طرح انقلاب کے جشن میں شرکت کے لئےباہر نکلیں گے۔ تب واضح ہو جائے گا کہ کیا حقیقت میں ایرانی قوم کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں؟ ایرانی قوم کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں اور اسے یہ قوم بارہا ثابت بھی کر چکی ہے اور آئندہ بھی اس کا ثبوت فراہم کرتی رہے گی۔ ایرانی حکام کا بھی یہی حال ہے۔ ان شاء اللہ ملک کے حکام اپنی ذہانت اور خلاقانہ صلاحیتوں کی مدد سے، اپنی شجاعت و جرئت کی مدد سے ثابت کر دیں گے کہ ایرانی قوم کے ہاتھ  کھلے ہیں بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ امریکہ یہ تصور اور خیال کرتا ہے کہ اس نے ایران کو کسی گوشے میں بندکر دیا ہے۔ اس نے ایرانی قوم کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ جی نہیں، آپ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں! مشکل میں  آپ پھنسےہوئے ہیں ، مشکل سے آپ دوچار ہیں۔ ہمارے علاقے کے تمام حقائق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس علاقے میں بھی اور دوسرے علاقوں میں بھی امریکہ اپنے اہداف  تک پہنچنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ امریکہ کو شام میں شکست و ناکامی ہوئی، امریکہ کو عراق میں پسپا ہونا پڑا، امریکہ کو لبنان میں شکست سے دوچار ہونا پڑا، امریکہ مسئلہ فلسطین میں بھی ناکام رہا، امریکہ کو عزہ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، افغانستان اور پاکستان کے سلسلے میں بھی  امریکی پالیسیاں ناکام رہیں۔ امریکہ کو پوری دنیا میں نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، دوسرے علاقوں میں بھی امریکہ کا یہی حال ہے۔ امریکہ کو یوکرائن میں بھی شکست و ناکامی کا سامنا ہے۔ تو یہ امریکہ ہےکہ شکست جس کا مقدر بن گئی ہے۔ کئی برسوں سے امریکہ کو پیہم اور لگاتار شکست اور ناکامی کا سامنا ہے!۔


اسلامی جمہوریہ ایران ترقی  وپیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ آج کے اسلامی جمہوریہ ایران کا پینتیس سال پہلےکے اسلامی جمہوریہ ایران سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ آج ایران کے پاس تجربات کا بیشمار ذخیرہ ، نمایاں کارناموں کی طویل فہرست ، بے مثال پیشرفت و ترقی کی عظیم دولت ہے، ایران کا علاقے میں گہرا اثر و رسوخ ، ایرانی  نوجوانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں انقلاب کے اصول اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ کیا یہ ادنی اور معمولی چیزیں ہیں؟ یہ واقعات موجود ہیں اور یہ سچے حقائق ہیں۔
امریکی حکام مختلف مسائل کے سلسلے میں اسی محاسباتی غلطی کا شکار ہیں۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے، ایرانی عوام کی بلند ہمتی اور پائمردی سے اور آپ جوانوں کے بلند حوصلوں کی بدولت ملک بھر میں ہر جگہ، ہر شعبہ میں اسی قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں جن کا ذکر ابھی فضائیہ کےمحترم کمانڈر نے بھی کیا ، دشمن کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں اور بائیکاٹ کے باوجود ملکی پیمانے پر ہر ادارے میں پیشرفت اور ترقی کے سلسلے میں کوششیں اور سرگرمیاں جاری ہیں ، ہم نے علم و سائنس کے میدان میں ترقی کی ہے، ہم نے ٹکنالوجی کے میدان میں پیشرفت حاصل کی ہے، ہم مختلف سماجی میدانوں میں آگے بڑھ رہے ہیں، مختلف اورگوناگوں تجربات حاصل کررہے ہیں جن  کی بدولت اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس معلومات کے قیمتی ذخیرہ مسلسل اور لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم دشمن کی طرف سےخلل ایجاد کرنے اور رخنہ ڈالنے کے باوجود آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں، پیشرفت اور ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ ہمارا دشمن ناکام ہو گیا ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ انقلاب کے اس عظیم تناور درخت کی جڑوں کو کاٹ دے۔ وہ اسلامی جمہوری نظام کو برداشت کرنے پر ہرگز تیار نہیں تھا۔ لیکن آج وہ اسی اسلامی جمہوری نظام کو برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ وہ مختلف اور گوناگوں سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور عسکری معاملات میں  جہاں تک ممکن ہوسکے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن سب کچھ بے سود ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پورے استحکام  اور طاقت و قدرت کے ساتھ ترقی کی شاہراہ  پر گامزن ہے۔
انہوں نے ایٹمی معاملے کو ایک نمونے کے طور پر ہاتھ میں لے لیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاملےمیں بے دست و پا ہوکر رہ گیاہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

 میں یہیں پر یہ بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو معاہدہ قبول کرنے کے لائق ہو، میں اس کے حق میں ہوں، البتہ میں برے معاہدے کے حق میں نہیں ہوں۔ امریکی بھی بار بار یہ جملہ دہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ " برے معاہدے سے معاہدہ نہ کرنا بہتر ہے۔" جی ہاں، ہمارا بھی یہی مؤقف ہے۔ ہم بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں کہ برے معاہدے سے معاہدہ نہ کرنا بہتر ہے  ایسا معاہدہ بے کار ہےجو قومی مفادات کے خلاف ہو، جو عظیم ایرانی قوم  کی تحقیر اور تذلیل کا باعث ہو ۔
دوسری بات یہ ہے کہ سبھی اچھی طرح اس بات کو جان لیں اور سمجھ لیں کہ ہمارے حکام ، ہماری مذاکراتی ٹیم اور ہماری حکومت سب کے سب دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا حربہ سلب کرنے کی تلاش و کوشش کر رہے ہیں ۔ سب کی یہ کوشش ہے کہ اس مکار اور عیار دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا ہر بہانہ چھین لیں۔ اگر وہ کامیاب ہوئے تو بہت بہتر! لیکن اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے تو سب جان لیں، ہمارے دشمن بھی اس بات کو سن لیں اور دنیا میں ہمارے دوست بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایسے بہت سے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعہ دشمن کے اس حربے کو کند اور غیر مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم  یہ سوچ لیں کہ پابندیاں واقعی بہت بڑا اور مؤثر حربہ ہے۔ جی ایسانہیں، اگر ہم ہمت سے کام لیں، اگر ہم اپنے موجودہ وسائل سے بھر پور استفادہ کریں ،اور بحمد اللہ یہ جذبہ موجود بھی ہے، تو پابندیوں کے حربے کو اگر دشمن کے ہاتھ سے خارج نہ بھی کیا جا سکا تو کم سے کم کند اور سست تو ضرور کر دیا جائےگا۔
اس سلسلے میں تیسری  بات یہ ہے کہ صدر جمہوریہ نے چند روز قبل اپنے ایک خطاب کے دوران ایک اچھے نکتہ کی طرف اشارہ کیا اور وہ یہ ہے کہ مذاکرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں  فریق مشترکہ نقطہ تک پہنچنے کی تلاش و کوشش کریں (3)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک فریق یک طرفہ طور پر یہ کوشش نہ کرے کہ سب کچھ اسی کی توقع اور مرضی کے مطابق ہو اور اس کی ہر بات کو اسی کی مرضی اور منشاء کے مطابق پورا کر دیاجائے جیسے وہ چاہتا ہے اسی طرح کام ہوجائے ۔ امریکیوں کی یہی روش اور یہی طریقہ  ہے۔ امریکی اور چند یورپی ممالک جو کسی بچے کی طرح امریکہ کی پیروی کرتے ہیں وہ حقیقت میں بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں،وہ یورپی ممالک جو امریکہ کے تابعدار اور پیروکار ہیں وہ  اسٹرایٹجک غلطی کر رہے ہیں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کاور وہ تمام مسائل کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حل کرنے کی تلاش کررہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل  غلط اور یہ طریقہ درست نہیں ہے، یہ مذاکرات کا طریقہ نہیں ہے۔ ایران نے کچھ ایسے اقدامات انجام دئیے ہیں جو معاہدے کو قریب لا سکتے تھے، متعدد اقدامات انجام دئیے ہیں۔ یورینیم کی افزودہ کرنے مشینوں کی توسیع اور ترقی کا کام روک دیا ہے۔ اس کام کو کچھ عرصہ کے لئے روک دینا  ضروری سمجھا گیا ۔ بیس فیصد کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی کے عمل کو متوقف کردیا گیا جو حقیقت میں ایک عظیم کارنامہ ہے، بیس فیصد  کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کی ٹیکنالوجی کا حصول ایک بہت بڑی کامیابی تھی، جو لوگ اس شعبے کے ماہر ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانچ فیصد کی سطح سے بیس فیصدکی سطح تک پہنچنا، بیس فیصدسے زیادہ گریڈ تک پہنچنے سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ہمارے ذمہ دار اور فرض شناس جوانوں نے یہ قابل فخر کارنامہ انجام دے دیا لیکن چونکہ مذاکرات کا تقاضا یہ تھا کہ اسے روک دیا جائے لہذا اسے روک دیا گیا۔ اراک کے ری ایکٹر کو جو اپنی جگہ پر بہت اہم اور قابل تعریف کارنامہ اور بہت بڑی تکنیکی کامیابی ہے، فی الحال روک دیا گيا ہے۔ فردو کے ایٹمی مرکز میں بھی کام روک دیا گيا ہے جبکہ فردو ایٹمی پلانٹ ہمارے ماہرین اور ملکی سائنسدانوں کے عظیم شاہکاروں میں سے ایک شاہکار ہے، اس کے ذریعہ ہمارے ماہرین نے سنٹری فیوج مشینوں کے تحفظ کو یقینی بنا دیا ہے، مذاکرات کے لئے فردو میں کام اس وقت رکا ہوا ہے۔ ایران نے مذاکرات کے لئے کتنے بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ یعنی ایران نے منطقی طریقہ سے عمل کیا ہے، ایران نے معقول روش کے مطابق کام کیا ہے۔ اب مد مقابل فریق منہ زوری دکھا رہا ہے اپنی بات مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے، ٹیکس اور باج لینے کی کوشش کررہا ہے، اب اگر اس مرحلے پر ہمارے حکام استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ بالکل حق پر ہیں۔ اس پر کوئی ان کی سرزنش نہیں کر سکتا، انہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور وہ استقامت کا مظاہرہ کر بھی رہے ہیں، مزاحمت کر رہے ہیں۔ ابتدا ہی سے اسلامی جمہوریہ ایران نے  مختلف امور میں، عقل و منطق کے مطابق عمل کیا۔ ہم نے مسلط کردہ جنگ کے  دور میں بھی عقل و منطق کو اپنے اقدامات کی بنیاد بنایا۔ ہم نے قرارداد نمبر598 کو قبول کرنے میں بھی عقل و منطق کے مطابق عمل کیا، جنگ کے بعد اب تک جو گوناگوں مسائل پیش آئے ہیں ہم نے ان میں بھی  ہمیشہ عقل و منطق کے مطابق کام کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے کبھی بھی ایسا کام نہیں کیا جو عقل و منطق کے خلاف ہو  ۔ ایٹمی معاملے میں بھی عقل و منطق کے مطابق عمل کیاجا رہا ہے۔ لیکن دوسرا فریق، عقلی و منطقی بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہمارا دوسرا فریق غیر منطقی باتوں اور منہ زوری پر زور دے رہا ہے اور رعب و دبدبہ  کا مظاہرہ کررہا ہے، وہ خود بھی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیا ہے اور ہم کامیاب ہوگئے  ہیں کیونکہ ایران نے ایٹمی مشینوں کو مزید ترقی دینا بند کر دیا ہے، فلاں چیز کو روک دیا ہے، فلاں مرکز کو بند کر دیا ہے، وہ صحیح کہتے ہیں۔ایران نے مذاکرات کے منطقی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے  یہ اقدامات انجام دئیے ہیں۔ لیکن اب وہ منہ زوری دکھا رہے ہیں ٹیکس اور باج طلب کررہے ہیں رعب و دبدبہ ڈال رہے ہیں ظاہر ہے کہ ایرانی قوم کسی کے رعب و دبدبہ میں آنے والی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی دھمکیوں سے مرعوب ہونے والی ہے۔
ہماری حکومت کے اہلکاروں نے جو کام شروع کیا ہے اور جس کے لئے وہ محنت اور تلاش و کوشش کر رہے ہیں، حقیقت میں اپنا پسینہ بہا رہے ہیں، وقت لگا رہے ہیں، انرجی صرف کر رہے ہیں۔ میں بھی اس کام سے متفق ہوں اگر ایک اچھا معاہدہ ہو جاتا ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔ میں بھی اس سے متفق ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایرانی قوم بھی اچھے معاہدے کے حق میں ہے جس میں ایرانی قوم کے حقوق اور اس کی عزت و آبرو کو مد نظر رکھا گیا ہو، اس کے احترام اور وقار کا خیال رکھا گیا ہو، اس کے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہو۔ ایرانی عوام ایسے معاہدے کی حمایت کریں گے۔ لیکنن  ان باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایرانی قوم کے وقار اور عزت کا خیال رکھنا لازمی ہے اور سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کی پیشرفت کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔  ایرانی قوم کو دشمنوں کے رعب و دبدبے میں آنے اور ان کی دھمکیاں سننے کی قطعی  طور عادت نہیں ہے، وہ کسی کے زور کے سامنے جھکنے والی اور ٹیکس  ادا کرنے والی نہیں ہے، چاہے سامنے امریکہ ہو یا دوسرے ممالک ہوں۔ ایک دور تھا جب امریکہ اور سابق سوویت یونین نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اتحاد قائم کیا تھا، حالانکہ ان کے درمیان متعدد آپسی اختلافات تھے۔ منہ زوری اور طاقت دکھاتے تھے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ہرگز ان کے دباؤ میں نہیں آیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح ملی، اسلامی جمہوریہ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ آج بھی ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کسی کےدباؤ میں نہیں آئے گا۔
یہ بات جو سننے میں آرہی ہے کہ کہتے ہیں، "کچھ عرصہ کے لئے کلی باتوں کے بارے میں اتفاق کر لیا جائے اور پھر اس کے بعد جزوی باتوں کے بارے میں اتفاق کیا جائے"۔ یہ بات مجھے نہیں پسند ہے، یہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔ دوسرے فریق کے طور طریقوں سے جو تجربہ ہمیں ملا ہے اس کے مد نظر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جزوی امور پر اتفاق بعد میں ان کے لئے بہانہ بنانے کا بہترین ذریعہ بن جائے گا۔ اگر معاہدہ کرنا ہے تو کلی امور اور جزوی امور دونوں پر اتفاق ایک ہی مرحلے میں ہو اور معاہدے پر دستخط کئے جائيں۔ کلیات پر الگ معاہدہ ہو اور پھر انہیں کلیات کی بنیاد پر جن میں کچھ مبہم چیزیں بھی ہیں، جن کی الگ الگ تشریح اور تفسیر کی جا سکتی ہے، وہ جزوی اور تفصیلی امور کی جانب بڑھیں گے، جی نہیں، یہ منطقی روش نہیں ہے۔
جو بھی معاہدہ ہمارے اور دوسرے فریق کے درمیان طے ہونا ہے وہ بالکل واضح، روشن، صاف ، شفاف  اور غیر قابل تاویل ہو جس کی الگ الگ تشریح کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق جو فریب ،دھوکہ دہی اور سودے بازی کے ذریعہ اپنا ہدف پورا کرنے کی کوشش میں ہے، اسےایک بار پھر مختلف امور کے بارے میں بہانے تلاش کرنے کا موقع مل جائے اور نئی نئی پیچیدگیاں پیدا کرے۔ نہیں، یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا حربہ چھین لیا جائے۔ اگر اس میں کامیابی ملے تو اچھا ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ حقیقت میں پابندیوں کا حربہ دشمن کے ہاتھ سے چھین لیا جائے۔ معاہدہ اس طرح سے ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو پھر ایرانی قوم، ایرانی حکام اور حکومتی اہلکاروں کے پاس بہت سے راستے موجود ہیں، ان راستوں کو طے کیا جانا چاہیے تاکہ دشمن کی پابندیوں کا حربہ سست، غیر مؤثر  اور کند ہو جائے۔
انشاء اللہ 22 بہمن مطابق 11 فروری اسلامی انقلاب کی سالگرہ ک موقع پر ایرانی قوم ثابت کر دیگی کہ جو بھی ایرانی قوم کو تحقیر کرنے کی کوشش کرے گا، اسے ایرانی قوم کی منہ توڑ جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے میں پوری قوم اور تمام ہمدرد افراد متفق ہیں کہ کسی بھی ملک کے لئے قومی وقار کا مسئلہ بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ اگر عزت باقی ہے تو سلامتی بھی ہوگي، سلامتی ہوگی تو ترقی کا راستہ بھی عملی طور پر ہموار ہوجائے گا۔ ورنہ اگر کسی قوم کو حقارت میں مبتلا کر دیا جائے تو اس کا سب کچھ کھلونا بن جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کی سکیورٹی، حتی اس کا سرمایہ، ہر چیز کھلونا بن جائے گا۔ قومی عزت و وقار کی حفاظت ہونی چاہیے۔ ایرانی حکام کو اس حقیقت کا اچھی طرح  ادراک ہے۔ ایرانی عوام انشاء اللہ 22 بہمن کو اپنی بھر پور شرکت کے ذریعہ، اپنی طاقت و قوت کا مظاہرہ کریں گےاور اپنے پختہ اور راسخ عزم کے بہترین جلوے پیش کریں گے اوردشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔
پروردگارا! ایرانی قوم کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں محفوظ رکھ، ہم سب کو اپنی ہدایت و راہنمائی مرحمت فرما۔ پروردگارا! مسلط کردہ جنگ اور اس سے پہلے اور اس کےبعد کے شہیدوں کو، مسلح افواج اور فضائیہ کے تمام شہدا کو پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے عظیم  راہنما کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ محشور فرما جو اس عظیم تحریک کے روح رواں تھے۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے سربراہ جنرل حسن شاہ صفی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
2- ڈیویڈ کوہن‌
3- صوبہ زنجان کے عوام سےخطاب مورخہ
۱۳۹۳/۰۷/۲۹ہجری شمسی