ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا خبرگان کونسل کے صدر اور ارکین سے خطاب

خبرگان کونسل کے سترہویں اجلاس کے اختتام کے بعد (1)

بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الأرضین.

محترم حضرات کو خوش آمدید عرض کرتاہوں۔ خبرگان کونسل کے محترم صدر جناب آقائ یزدی صاحب نے جو خاص فوائد بیان کئے ہیں (2) ان کے علاوہ بھی ایک خاص فائدہ ہے جو مجھ  سے مخصوص ہے اور وہ یہ ہے کہ میں ان جلسات میں، محترم حضرات اور معزز بھائیوں کی قریب سے زیارت کرتا ہوں۔ یہ ہمارے لئے ایک اچھا موقع ہوتا ہے اور اللہ تعالی سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو،  تمام حضرات کو ، تمام دوستوں کوکامیابی عطا کرے کہ یہ جو عظیم فرائض اور سنگين ذمہ داریاں ہم سب کے دوش پر ہیں،  ان شاء اللہ ان کو اچھے اور احسن طریقہ سے انجام دیں۔
میں سب سے پہلے جناب آقائ یزدی صاحب کو صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ خوب، ان کی شخصیت، ان کی ماضی میں خدمات اور موجودہ خدمات ،سب ایسی چیزیں ہیں جو اس انتخاب کو بالکل مناسب اور بجا ثابت کرتی ہیں۔ اللہ تعالی ان کو صحت و سلامتی عطا کرے  اور مختلف لحاظ اور تیاریوں کے حوالے سے ان کی مدد اور نصرت فرمائے تاکہ اپنے فرائض پر عمل کرسکیں ۔ جناب مہدوی مرحوم (3) رضوان اللہ علیہ کو بھی ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک ممتاز اور نمایاں شخصیت کے مالک تھے، اسلامی انقلاب سے قبل کی جدوجہد کے علاوہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اس طویل مدت میں بھی جناب مہدوی مرحوم نے ایک موثر و مجاہد شخصیت، سرگرم دینی رہنما اور عالم با عمل تھے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور ان پر اپنی رحمت اور مغفرت نازل فرمائے۔
بحمد اللہ یہ اجلاس داخلی انتخاب کے لئے منعقد ہوا، جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے، کہ یہ اجلاس بڑی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ منعقد ہوا جو ان اداروں کے لئے بھی ایک اچھا نمونہ ہے جن میں اندرونی اندرونی سطح پر اتنخاب ہوتا ہے،عام طور پرانتخابات میں مسائل پیش آتے ہیں لیکن یہ انتخاب بڑی متانت ،غیر ضروری اور منفی باتوں کے بغیر منعقد ہوا ،بحمد اللہ آپ نے بہت بڑا کام انجام دیا۔
ہمارے علاقے میں جو حالات حاکم ہیں بلکہ دنیا میں جو صورتحال حکمفرما ہے، اسلامی جمہوریہ ایران اور بعض سامراجی اور متکبر حکومتوں کے درمیان مختلف مسائل کے بارے میں جو چيلنج ہیں، چاہےوہ ایٹمی مسئلہ ہو یا دیگر مسائل ہوں، اسی طرح ملک کے اندر معیشت اور اقتصاد کے بارے میں بحث ہے ، اسلامی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے اور عوامی مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں مختلف حکام جو اقدامات انجام دے رہے ہیں، اسی طرح اسلام سے ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کا مسئلہ جو اس وقت سامراجی طاقتوں اور مغربی ممالک میں رائج  ہے،میری نظر میں ہم ان تمام مطالب اورمسائل کے بارے میں قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو نتیجہ ہم حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں سے ایک کامل اسلامی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے، اسلام کا مطالبہ دین اسلام کے مکمل نفاذ کا مطالبہ ہے۔ مجموعی طور پر انسان اسی نتیجے کو محسوس کرتا ہے۔
دین کی کم سے کم سطح اور دینی احکام کی کم ترین سطح پر اکتفا کر لینے کی بات اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔ ہماری اسلامی تعلیمات میں کم سے کم دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں دین کے بعض احکام پر عمل اور بعض احکام کو ترک کر دینے کی مذمت کی گئی ہے (4)۔ «اَلَّذینَ جَعَلُوا القُرءانَ عِضین» (۵) یا دوسری آیه‌ شریفه میں‌ ہے «وَ یَقولونَ نُؤمِنُ بِبَعضٍ وَ نَکفُرُ بِبَعض» (۶) یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے،جواسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہاں تک کہ دین کے بعض انتہائی اہم حصے جیسے عدل و انصاف کا قیام بھی کافی نہیں ہے کہ انسان اسی پر خوش ہو جائے کہ ہم تو عدل و انصاف کے قیام کی کوشش میں مصروف ہیں، عدل قائم کریں گے تو یہی اسلام کا نفاذ قرار پا جائے گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بیشک معاشرے میں انصاف کا قیام بہت ضروری اور انتہائی اہم مقصد ہے۔ قرآن مجید کے سورہ حدید کہ اس آیہ شریفہ سے؛ لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبِیِّنت وَ اَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتبَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط (۷) سے بادی النظر (8) میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رسولوں کو مبعوث کرنے اور کتابیں نازل کرنے اور معارف الہیہ کا بنیادی مقصد عدل و انصاف کا قیام ہے۔ چاہے اس جملے؛ «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط» کا کوئی بھی ہم معنی نکالیں۔ چاہے اس معنی میں لیں کہ «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط» یعنی «لِیُقیمَ النّاسُ القِسطَ» کہ 'ب' کے بارے میں کہیں کہ یہ باء متعدی ہے۔ یعنی لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی اور ماحول میں عدل و انصاف قائم کریں یا 'ب' کو 'سببیہ' تسلیم کریں۔ یعنی «لِیَقومَ النّاسُ بِسَبَبِ القِسط» لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کیا جائے۔ ان دونوں معانی یا جو دوسرے ممکنہ معانی ہو سکتے ہیں، جو بھی معنی مراد لیں اس سے معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی اسی عمل کو کافی سمجھے گا کہ ہم عدل قائم کر دیں اور اپنی ساری توانائی انصاف قائم کرنے پر صرف کر دیں۔ چاہے اسلام کے دیگر احکامات پر عمل نہ کریں ۔ ایسا ہرگزنہیں، آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے؛ «اَلَّذینَ اِن مَکَّنّهُم فِی الاَرضِ اَقامُوا الصّلوةَ وَ ءاتَوُا الزَّکوةَ وَ اَمَروا بِالمَعروفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَر»(۹) کہ روئے زمین پر صاحبان اختیار سے اللہ تعالی کا مطالبہ ہے۔ پہلا مطالبہ ہے؛ «اَقامُوا الصّلوة» پھر اس کے بعد «وَ ءاتَوُا الزَّکوةَ وَ اَمَروا بِالمَعروفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَرِ وَ للهِ‌ عاقِبَةُ الاُمور» (۱۰) ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم عدل پر توجہ دے رہے ہیں تو ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم نماز برپا کرنے کے سلسلے میں، نماز کی اہمیت کے سلسلے میں یا زکات کے بارے میں یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں غفلت سے کام لیں۔ بلکہ «اَنِ اعبُدُوا اللهَ وَ اجتَنِبُوا الطّاغوت» (۱۱) قرآن میں یہ لفظ اور یہ مفہوم کئی بار بیان کیا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء (ع)کو اپنی بندگی کا درس دینے اور انسانوں کو طاغوت سے دور رکھنے کے لئے بھیجا ہے۔ بنیادی کام یہ ہے۔ یا پھر اللہ تعالی نے سورہ شوری کی آیہ شریفہ میں حضرت نوح (ع)، حضرت ابراہیم(ع)، حضرت موسی(ع) اور دیگر انبیاء (ع)کو جو ہدایت کی ہے کہ اَن اَقیمُوا الدّین (۱۲)وہاں اقامہ دین مد نظر ہے۔ یعنی دین کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے؛ وَ لاتَتَفَرَّقوا فیهِ کَبُرَ عَلَی المُشرِکینَ ما تَدعوهُم اِلَیهِ اللهُ یَجتَبی اِلَیهِ مَن یَشآءُ وَ یَهدی اِلَیهِ مَن یُنیب (۱۳) یعنی پورے دین، دین کے تمام ارکان اور تمام اجزاء پر توجہ دی گئی ہے، جبکہ دنیا کے سرکش افراد، عالمی مستکبرین اس روش اور اس طرز عمل یعنی دین کے مکمل طور پر اور تمام اجزاء و ارکان سمیت نفاذ کے مخالف ہیں ؛ کَبُرَ عَلَی المُشرِکینَ ما تَدعوهُم اِلَیه (۱۴) اے رسول جس کی دعوت آپ دے رہے ہیں وہ مشرکین کے لئے بہت گراں اور ناگوار ہے۔ یا پھر سورہ احزاب کے آغاز میں آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے؛ یاَ ایُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللهَ وَ لا تُطِعِ الکفِرینَ و المنِفقینَ اِنَّ اللهَ کانَ عَلیمًا حَکیمًا (۱۵) یعنی اللہ تعالی علیم بھی ہے اور دنیا کےتمام امور ، دنیا کے تمام اجزاء و ذرات اور ان ذرات کے جملہ امور کا علمی احاطہ رکھتا ہے، اسی طرح اللہ حکیم بھی ہے؛ اس نے آپ کے راستے کو بڑے حکیمانہ انداز میں اس مجموعے کے اندر معین کر دیا ہے جس راہ پر آپ کو چلنا ہے۔ وَ اتَّبِع ما یوحی‌ اِلَیکَ مِن رَبِّکَ اِنَّ اللهَ کانَ بِما تَعمَلونَ خَبیرًا * وَ تَوَکَّل عَلَی اللهِ و کَفی‌ بِاللهِ وَکیلًا (۱۶) اے نبی آپ کے اس عمل کے خلاف عداوتیں سامنے آئیں گی۔ تو معاملہ یہ ہے۔
ہم جس اسلامی نظام کے دعویدار ہیں اور جس کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں، اس اسلامی نظام سے مراد ملک کے اندر موجود وہ تمام صورتیں ہیں جو عوام اور حکام کی عام رفتار اور نقل و حرکت کو منعکس کرتی ہیں۔ ہم انہی کو نظام کہتے ہیں۔ وہ تمام چیزیں جو عوام اور حکام کے عام طور پر فعل و عمل اور نقل و حرکت کا باعث بنتی ہیں، ان کی مجموعی صورت کو اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔ وہ نظام اسی وقت حقیقی معنی میں اسلامی ہوگا جب اس میں اسلام کے تمام اجزاء و ارکان محفوظ ہوں، اس میں اسلام کی ظاہری صورت اور عملی سیرت دونوں کی حفاظت اور پاسداری ضروری ہے۔ ظاہری صورت سے مراد یہی ہماری گفتگو، بیان اور سرگرمیاں ہیں جو ہم انجام دیتے ہیں۔ یہ ظواہر ہیں۔ سیرت اسلام یہ ہے کہ ہم ایک ہدف کو، ایک نصب العین کو، ایک منزل کو مد نظر رکھیں، معین کریں اور پھر اس منزل تک پہنچنے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس کی طرف  پیش قدمی کے لئے تلاش و کوشش کریں، آگے بڑھیں، اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ آگے کی سمت گامزن رہیں۔ ایسی صورت میں اسلامی سیرت کی پاسداری بھی ہو گی اور اسے رشد و تکامل بھی حاصل ہوگا۔ یعنی صرف ایک حد پر جاکر ٹھہر نہیں جائے گی۔ تو ان اہداف تک پہنچنے کے لئے ہمیں اس منصوبے کی ضرورت ہے۔
ہم آج اسلامی ںظام بلکہ واضح طور پر یوں کہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین اور سامراجی طاقتوں کی زبان سے جو چیز سن رہے ہیں اسے وہ 'رفتار کی تبدیلی' کا نام دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم نظام تبدیل کرنا نہیں چاہتے ہم رفتار  اور روش بدلنا چاہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی اور روش کی تبدیلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بعینہ وہی چیز ہے۔ اس سے مراد ہے اسلامی سیرت کی تبدیلی، یہی روش کی تبدیلی ہے۔ روش کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نصب العین کی جانب پیش قدمی کے عمل میں جن شرائط اور تقاضوں کی پابندی کرتے ہیں، انہیں ترک کر دیجئے، ان پر سمجھوتا کر لیجئے اور ان پر اتنی توجہ نہ دیجئے۔ روش اور طرز سلوک کی تبدیلی کا مفہوم یہی ہے ۔ یعنی وہی چیز جو بعض بیانات اور تحریروں میں دین کی کمترین سطح کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اگر اعلی اہداف و مقاصد میں کمی کی جائے تو یہ دین کی سیرت کی بربادی ہے ۔ کم سے کم دین کا مطلب دین کو حذف کر دینا ہے۔
اس صورت حال میں ہمارا مقصد اور حتمی طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ اسلام کامل کی فکر میں لگے رہیں۔ یعنی اس کوشش میں رہیں کہ حقیقت میں جہاں تک ہماری توانائي میں ہے ہم کام کریں اور ہماری توانائی اور طاقت میں جو نہیں ہے اللہ نے ہمیں اس کا حکم بھی نہیں دیا، ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے اور ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں پورے اور کامل اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے ۔ جب ہمارا ہدف یہ ہو تو پھر ایک مسئلہ پیش آئے گا جسے اسلام سے خفوزدہ کرنے کی کوشش کہتے ہیں، آج دنیا میں یہ بہت عام ہے۔ میرے خیال میں اسلام ہراسی کے مسئلے میں ذرہ برابر دفاعی رخ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیشک اسلام ہراسی کا مسئلہ موجود ہے اور اسلام سے لوگوں کو ڈرایا جارہا ہے ا موجود ہے، کچھ افراد ہیں جو عوام کو، معاشروں کو، نوجوانوں کو اور اذہان کو اسلام سے ہراساں کر رہے ہیں۔ یہ کون افراد ہیں؟ جب ہم گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ وہی مٹھی بھر توسیع پسند اور سرکش افراد ہیں جنہیں اسلام کی حکمرانی سے خوف ہے۔ جو سیاسی اسلام سے ڈرتے ہیں، معاشروں کے اندر زندگی میں اسلام کے غلبہ سے خائف ہیں۔ ان کے خوف کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اسلام ہراسی در حقیقت اسلام کے مد مقابل طاقتوں کی پریشانی ،سراسیمگی اور بدحواسی کا مظہرہے۔ حقیقت ماجرا یہ ہے۔ یعنی یہاں آپ نے محنت کی، ایرانی عوام نے فداکاری اور جانفشانی کام ظاہرہ کیا، زحمتیں اٹھائیں، جد و جہد کی اور اسلامی نظام کو اقتدار تک پہنچایا، پھر اسے مضبوط اور مستحکم بنایا، اس کی بنیادوں کو مضبوط کیا، مختلف حوادث کے سامنے اسے تحفظ عطا کیا، روز بروز اس کی قوت و طاقت میں اضافہ کیا، یہ چیز دنیا کی سرکش طاقتوں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ آج جو اسلام ہراسی ہے وہ در حقیقت ان کی گہری تشویش اور عمیق خدشات کا مظہر ہے، ان کی پریشانی کی علامت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کامیابی کے ساتھ اس منزل تک پہنچ گیا ہے۔
البتہ اس سب کے بعد بھی انہوں نے اسلام کو خوفناک بناکر پیش کرنے کی جو کوشش کی ہے اور انھوں نے جو اقدامات انجام دیئے ہیں ان سب کا نتیجہ برعکس ہوگا۔ کیونکہ اس طرح سے وہ اسلام کو نوجوانوں کے لئے تلاش و جستجو  اور سوال کا مرکز بنا رہے ہیں۔ یعنی دنیا کے عام انسانوں کو اگر ذرا سی توجہ دلائی جائے، انہیں ذرا سا متنبہ کر دیا جائے تو لوگ اس سوچ میں پڑ جائیں گے کہ صہیونی ذرائع ابلاغ میں، طاقتور اور دولتمند حلقوں سے وابستہ ٹی وی چینلوں میں اسلام کے خلاف جو یلغار ہو رہی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ اپنے آپ میں خود ہی سوال کا مقدمہ ہے اور ہماری نظر میں یہ سوال بڑی برکتوں کا حامل ہے، یہ سوال چیلنج کو موقع میں تبدیل کر سکتا ہے۔
ہمیں محنت کرنی چاہیے۔ یعنی اسلامی جمہوری نظام میں اہم اور بڑا کام یہ ہو سکتا ہے کہ ہم سب، جو جس جگہ پر بھی ہے اور وہ اس جگہ پرکچھ کام کرنے کی توانائی رکھتا ہے،سب لوگ کوشش کریں کہ حقیقی اسلام کو پیش کیا جائے، مظلوموں کے حامی اور ظالمین کے مخالف اسلام کو دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ یہی نوجوان جو یورپ میں ہیں، امریکہ میں ہیں یا دوسرے دور دراز کے علاقوں میں ہیں، اسلام کی اس خصوصیت سے جوش و ولولہ میں آ جائیں گے۔ اگر انھیں  معلوم ہو جائے کہ اسلام اس قوت، اس جذبے اور اس فکر کا نام ہے جو ظالموں  اور ستمگروں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں کام کرتی ہے، اس دین کے پاس باضابطہ طور پر لائحہ عمل موجود ہے اوروہ  اسے اپنا فریضہ سمجھتا ہے تو ان نوجوانوں کے اندر تلاطم برپا ہو جائے گا۔ اسلام عقل و منطق کا طرفدار ہے، اسلام عمیق ، دقیق اور گہرے نظریات کا حامل ہے، اسلام فکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے، وہ اسلام جس نے قرآن کریم میں عقل و فکر و لبّ (17) کو اتنی اہمیت دی ہے، ایسے اسلام کو ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ عقل و منطق  کو فروغ دینے والا اسلام، اشرافیہ ثقافت کی مخالفت کرنے والا اسلام، رجعت پسندی کا مخالف اسلام، اپنے توہمات اور خرافاتی باتوں کا فکری طور پر اسیر ہونے سے روکنے والا اسلام، کیونکہ کچھ لوگ ہیں جو انہیں چیزوں کو اسلام کا نام دیکر پیش کر رہے ہیں، ہمیں دنیا کے سامنےحقیقی اور خالص اسلام پیش کرنا چاہیے۔ ہمیں بتانا چاہیے کہ اسلام ان خصوصیات کا حامل  ہے ، اسلام غیر ذمہ دارانہ رفتار کے بجائے فرائض پر عمل پیرا  رہنے کا درس دیتا ہے۔ جی ہاں، آج بے شمار ادارے نوجوانوں کو غیر مناسب، غلط اور بدنظمی کی دعوت دے رہے ہیں۔ جس اسلام نے انسان کو فرض شناس قرار دیا ہے وہ انسان سے فرائض پر عمل آوری چاہتا ہے۔ زندگی کے امور میں نمایاں اسلام، سیکولر اسلام کے برخلاف ہے۔ سیکولر اسلام سیکولر عیسائیت کی مانند ہے جو کلیسا کے ایک گوشے میں جاکر خود کو مقید کر لیتا ہے، لوگوں کی عام زندگی کے  بارے میں اس کا کوئی منصوبہ اور عمل دخل نہیں ہوتا۔ سیکولر اسلام بھی ایسا ہی ہے۔ آج ایسے بھی افراد ہیں جو الگ تھلگ ہو جانے والے اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ ایسے اسلام کی دعوت جس کا لوگوں کی زندگی سے کوئی سر و کار نہ ہو۔ یہ اسلام لوگوں سے بس یہ چاہتا ہے کہ وہ مسجد کے ایک گوشے میں یا گھر کے اندر کچھ عبادت وغیرہ کر لیا کریں۔ لیکن ہمیں زندگی کے پلیٹ فارم پر پوری طاقت و قدرت  کے ساتھ موجود اسلام سے لوگوں کو متعارف کرانا چاہیے، کمزوروں کے سلسلے میں سراپا رحمت اسلام اور مستکبرین سے جہاد اور مقابلے کی دعوت دینے والے اسلام کا تعارف کرانا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ ایک فریضہ ہے جو ہم سب کے دوش پر ہے۔ ہمارے تبلیغاتی اداروں، ہمارے علمی اداروں، ہمارے دینی علوم کے مراکز سب کو چاہیے کہ وہ اس مقصد کے لئے کام کریں۔ اسلام پر جو آج شدید یلغار ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ جن لوگوں کی طرف سے یہ یلغار ہے، واضح ہے کہ یہ لوگ کون ہیں، کون سے ادارے ہیں اور کون سے حلقے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب سیاسی و اقتصادی قوت رکھنے والے ایک طاقتور گروپ سے وابستہ ہیں، جس میں زیادہ تر یہودی صہیونی ہیں اور اگر یہودی صہیونی نہیں تو غیر یہودی صیہونی ہیں۔ آج دنیا میں غیر یہودی صہیونی بھی موجود ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہمیں چاہیے کہ اس موقع کا بہتر اور اچھا استعمال کریں اور دنیا کے لوگوں کے ذہن میں اور نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال اجاگر کریں  کہ اسلام پر اتنی شدید یلغار کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں آپ سوچئے اور غور کیجئے! اس کے بعد ہم لوگوں کے سامنےحقیقی اسلام کو پیش کریں!
میرے خیال میں ہم علمائے دین، اہل علم حضرات اور وہ لوگ جو دینی امور میں مصروف عمل ہیں، اپنے تمام مسائل میں اس چیز کو اپنا مقصد بنا لیں، یعنی مکمل اسلام کا نفاذ اور اسلامی کے ساتھ جاری عداوتوں کا اس انداز سے مقابلہ کریں، تو ہمیں بڑی کامیابیاں مل سکتی ہیں۔
ہمارے سامنے عالمی چیلنج بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عالمی چیلنجوں کے بارے میں سطحی انداز میں فکر نہیں کرنی چاہیے۔ آج امریکہ کے ساتھ ہمارے کچھ مسائل ہیں یا بعض یورپی ملکوں سے ہمارے کچھ چیلنجز ہیں۔ آج ایٹمی معاملہ ہمارے لئےسب سے واضح اور نمایاں چیلنج ہے ۔ دوسرے بھی متعدد مسائل ہیں جو ان ملکوں اور ہمارے درمیان چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ اس مسئلے کی اصل کیا ہے۔ ہمیں اس کی تہہ تک پہنچنا چاہیے سطحی فکر سے دور رہناچاہیے۔
جن مشکلات کے ذمہ دار ہم خود ہیں ان کا بھی باریکی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ پابندیوں سے ہمیں نقصان پہنچا، ہماری معیشت کو ہمارے دیگر امور کو نقصانات ہوئے۔ یہ نقصانات کیوں ہوئے؟ اگر انسان اس کا غور اور باریکی سے جائزہ لے تو مشاہدہ کرے گا کہ یہ نقصانات تیل پر ہمارے انحصار کی وجہ سے پہنچے ہیں، یا اقتصادی میدان کے مرکز میں عوام کی عدم موجودگی یعنی معیشت کو حکومتی بنا دینے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں اور اصلی وجوہات کی نشاندہی کریں اور ان اصلی وجوہات کا تدارک کر لیں تو پابندیاں غیر مؤثر ہو جائیں گی یا ان کا اثر بہت محدود ہو جائے گا۔ دشمن اگر ہم پر پابندی لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، ہمارے تیل کو نشانہ بناتا ہے اور اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تیل کو اپنی زندگی میں اور اپنی معیشت میں بہت بنیادی مقام دے رکھا ہے، تیل پر ہمارا مکمل انحصار ہے۔ دشمن جب ہماری حکومت کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو مختلف حکومتی اداروں پر پابندیاں لگاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے حکومت سے وابستہ ہیں۔ ہم اقتصادی میدان میں مختلف عوامی طبقات کو شامل کر سکتے تھے۔ ہم نے انقلاب کے ابتدائی ایام میں غلطیاں کیں اور پھر ان غلطیوں پر اصرار کیا کہ سب کچھ حکومت کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، ضروریات زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی ہم نے حکومت کے حوالےکر دیا، تو اس کا نتیجہ یہی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کو حل کرنا چاہیے۔
میرے خیال میں اگر اس نہج پر سوچا جائے اور اس طرح کام کیا جائے تو مشکلات حل ہو جائیں گی۔ یعنی ہم مشکلات کے سلسلے میں مد مقابل فریق کی محبت اور مہربانی کے محتاج نہیں رہیں گے۔ ہمارے دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے ساتھ ہمارے جو چیلنجز ہیں اس کی فضا پر ہم حقیقی طور پراثر انداز ہو سکتے ہیں، منجملہ ان مذاکرات کے سلسلے میں بھی جو اس وقت جاری ہیں۔ سر دست یہی مذاکرات ہماری سفارتی سرگرمیوں پر اور ہماری خارجہ پالیسی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہیں۔ یہی بات، یہی معیار اور یہی منطقی روش میرے خیال میں ان مذاکرات کے سلسلے میں انتہائی مؤثرنتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
میں یہاں یہ بھی بتادوں کہ ایٹمی مذاکرات کے لئے صدر محترم نے جس ٹیم اور وفد کو مامور کیا ہے، اس کے ارکان امین اور بڑے اچھے افراد ہیں۔ بعض کو ہم قریب سے جانتے ہیں جو قابل اعتماد افراد ہیں۔ بعض دیگر کو ہم ان کی گفتار اور ان کی کارکردگی کے توسط سے بالواسطہ طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ امین بھی ہیں، ہمدرد بھی ہیں، محنت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ اس چیز کو منصفانہ طور پر بیان کرنا ضروری ہے۔ البتہ اس کے باوجود کہ یہ افراد اور یہ عزیز برادران بہت اچھے افراد ہیں، امین افراد ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ ملک کی بھلائی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی مجھے تشویش ہے۔ کیونکہ مد مقابل فریق، مکار اور فریب کارہے۔ جو چیزیں عام طور پر آنکھوں سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں، ان پر ان مکار اور عیار افراد اور حلقوں کی نظر رہتی ہے جو بظاہر بھاری بھرکم نظر آتے ہیں۔ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ لوگ بھی مکاری کریں گے۔ آج امریکہ مالیاتی طاقت، اقتصادی طاقت، سیاسی طاقت، عسکری طاقت، سکیورٹی کی طاقت، کے لحاظ سے بظاہر بھاری بھرکم نظر آتا ہے۔ ایسے میں اس حقیقت کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے کہ یہی امریکی قومی سسٹم، کمزور انسانوں کے خلاف موذیانہ کارروائیوں میں مصروف ہو سکتا ہے۔ جبکہ وہ حقیقت میں مصروف ہے، عیاری اور مکاری کرتا ہے، فریب دیتا ہے، پیٹھ میں خنجر گھونپتا ہے، صورت حال ایسی ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ چونکہ ان کے پاس ایٹم بم ہے، طاقتور فوجی وسائل ہیں تو انہیں کسی کو دھوکہ دینے اور فریب میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے، اتفاق سے انہیں اس کی ضرورت بھی ہے اور وہ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں، حقیقی دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ چیز ہماری تشویش کا باعث ہے۔ ہمیں دشمن کی سازشوں اور چالوں  کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ جب بھی مذاکرات کے اختتام کے لئے طے شدہ ڈیڈ لائن نزدیک آتی ہے، مد مقابل فریق کا لب و لہجہ بالخصوص امریکیوں کا لہجہ زیادہ سخت ،تند، اور تیز ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ یہ ان کا حربہ ہے، یہ ان کا مکر اور فریب ہے۔
آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ وہ جو بیان دیتے ہیں وہ بڑے گھٹیا اور پست ہوتے ہیں، ان کے بیان بیزاری اور بد دلی پر مبنی ہوتے ہیں۔ انہی ایام میں جب ایک صہیونی مسخرہ وہاں گيا اور اس نے خرافات بولنا شروع کیا (18) تو امریکی حکام نے خود کو الگ ظاہر کرنے کے لئے بیان دیئے۔ لیکن انہوں نے ایران کو بھی مورد الزام ٹھہرایا، ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ آج دنیا میں سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ طاقت اور وہ حکومت جو خبیث ترین دہشت گردوں (19)یعنی انہیں داعش وغیرہ کی حمایت کرتی رہی ہے، جس نے انہیں وجود بخشا ہے اور اب بھی جب وہ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم ان کا مقابلہ کر رہے ہیں، ان کی حمایت سے باز نہیں آتی، وہ امریکی حکومت اور اس کی اتحادی حکومتیں ہیں۔ علاقے میں جو لوگ اب بھی امریکہ کو گلے لگائے ہوئے ہیں، امریکی جن کی مدد کر رہے ہیں،امریکی جن کی پشت پناہی کر رہے ہیں، امریکی جن کا تعاون کر رہے ہیں، وہی دہشت گردی اور خبیث ترین اور خوں آشام دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں ۔ امریکہ اس غاصب صہیونی حکومت کی بھی حمایت کر رہا ہے جو سرکاری طور پر اپنے دہشت گرد ہونے کا اعتراف کرتی ہے امریکہ اس کی اعلانیہ اور آشکارا حمایت کر رہا ہے۔ دہشت گردی کا حقیقی مصداق یہی حکومت ہے۔ دہشت گردی کی حمایت کی بدترین شکل یہی ہے جس کے وہ مرتکب ہو رہے ہیں، دہشت گردوں کی حمایت خود کرتے ہیں اور الزام اسلامی جمہوریہ پر عائد کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی حامی ہے۔ ان باتوں پر توجہ دینی چاہیے۔
یہی خط جو امریکی سینیٹروں نے لکھا، اس خط میں انسان مختلف حقیقی  باتوں کو مشاہدہ کرسکتا ہے، یہ خط امریکی نظام میں سیاسی اخلاقیات کے زوال اور انحطاط کی ایک علامت ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ سقوط اور زوال کے مرحلے میں پہنچ گئےہیں۔ کیونکہ دنیا کی تمام حکومتیں بین الاقوامی سطح پر مسلمہ اور معتبر قوانین کے اعتبار سے اپنی ذمہ داریوں کی پابند رہتی ہیں۔ اگر کسی ملک میں کوئی حکومت اقتدار میں ہے، اور وہ کوئی معاہدہ کرتی ہے اور پھر وہ حکومت ختم ہو جاتی ہے اور ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ معاہدہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے، معاہدے کو کالعدم اور منسوخ نہیں کیا جاتا۔ امریکی نادان  سینیٹروں نے تو واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ اگر امریکہ کی موجودہ حکومت اقتدار سے ہٹی تو جو معاہدہ آپ کے ساتھ وہ کرے گی، جو وعدہ کرے گی وہ کالعدم اور منسوخ کردیا جائے گا۔ یہ سیاسی اخلاقیات کےزوال اور انحطاط کا بدترین مرحلہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی نظام ایسا نظام ہے جو حقیقت میں قابل اعتبار نہیں ہے اور یہ نظام جاری رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یعنی یہ سسٹم انتشار سے دوچار ہے کہ انسان اس کے اندر ان چیزوں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اور اس پر فخر سے کہتے ہیں؛ "ہم ایرانیوں کو سکھانا چاہتے ہیں، سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے قوانین کیا ہیں؟ ظاہر ہے ہمیں ان کے درس کی ضرورت نہیں ہے۔ معاہدہ ہو گیا تب بھی ہم خوب جانتے ہیں کہ کس طرح عمل کرنا ہے کہ وہ بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کہیں پھنسا نہ پائیں۔ اسلامی جمہوری نظام کے حکام اس سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کیسے کام کرنا ہے، ان کے سبق کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہہرحال ان کا طرز عمل یہی ہے، یہ ان کے حقیقی زوال اور  انحطاط کی علامت ہے۔
بہرحال ان تمام کاموں میں جو ہم انجام دے رہے ہیں، اپنی تمام کوششوں میں جو ہم کررہے ہیں ،ان تمام فیصلوں میں جو اقتصادی امور کے بارے میں ہم کر رہے ہیں اور ثقافتی مسائل کے بارے میں ہم جو منصوبے بنا رہے ہیں، اگر زندگی رہی اور نئے سال کا موقع آیا تو کچھ باتیں ہیں جنہیں اس وقت بیان کروں گا، تو ان تمام امور میں ہمیں ہرگز یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرنا ہمارا فریضہ ہے ، ہمیں اسلام کامل کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ نہ ہو کہ کسی معاملے میں کامیاب ہونے کے لئے ہم اسلامی اہداف و مقاصد میں کمی کرنا شروع کر دیں۔ نہیں، ہماری کامیابی اور ہماری پیشرفت کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے  ہم کامل اسلام کو عملی جامہ پہنائیں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالی بھی ہماری مدد کرے گا۔ یقینی طور پر اللہ تعالی کی مدد اور  نصرت کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ہم دین الہی کی نصرت کریں؛ "اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (20) اس سے بھی زیادہ واضح اور آشکار اور کیا بات ہوگی۔ ؛ «اِن تَنصُرُوا الله» یعنی دین خدا کی نصرت کیجئے؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (21) وَ لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (22) یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں انتہائی تاکید کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔ یہ اللہ تعالی کے محکم وعدے ہیں ان پر گہری توجہ رکھنی چاہیے؛ اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوء (23) اگر کوئي انسان اللہ تعالی کے وعدے کے پورا ہونے کے بارے میں یقین نہ کرے تو اس کا اللہ تعالی کے بارے میں یہ بہت بڑا سوء ظن ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ 'انّا فتحنا' میں ایسے لوگوں کو اپنے کو غیظ و غضب کا سزاوار قرار دیا ہے جو اس کے بارے میں براگمان اور سوء ظن رکھتے ہیں (24)۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں  کہ وہ ہمیں اور آپ کو یہ توفیق مرحمت فرمائے کہ اس سلسلے میں جو ہمارا فریضہ ہے اس پر ہم عمل کر سکیں، اس طرح کے عمل پر جو برکات الہیہ نازل ہوتی ہیں، انھیں ہمارے اور ہماری قوم کے شامل حال فرمائے۔ اللہ تعالی سےدعا کرتے ہیں کہ خداوند عالم ہمارے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی روح کو شاد و خوشحال فرمائے، شہدا کی ارواح طیبہ کو بھی شاد فرمائے جنہوں نے یہ راستہ ہمیں دکھایا اور ہمارے سامنے یہ راستہ کھولا اور ہمیں اس راستے پر گامزن کر دیا۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) خبرگان کونسل کے اراکین کا 19 اور 20 اسفند مطابق 10 اور 11 مارچ کو سترہواں اجلاس منعقد ہوا ،اجلاس کے بعد خبرگان کونسل کے اراکین نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات کی ۔اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل خبرگان کونسل کے نئے سربراہ آیت اللہ محمد یزدی نے اجلاس کے دستور العمل کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
2) خبرگان کونسل کے سربراہ نے کہا کہ تازہ واقعات اور حالات سے کونسل کے اعضا کا باخبر رہنا اس اجلاس کا اہم مقصد ہے۔ انہوں نے کہاکہ اجلاس کے چار سیشن ہوئے جو دو حصوں پر مشتمل تھے۔ پہلے حصے میں در پیش مسائل سے متعلق افراد (وزیر خارجہ اور پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے سربراہ) کو تقریر کی دعوت دی گئی۔ جبکہ یورپ میں اسلام کی صورت حال، ایران اور دیگر ملکوں میں حلال غذاؤں کے اسٹینڈرڈ اور ملک کی ثقافتی و اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
3) خبرگان کونسل کے سابق صدر آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی مرحوم
4) قرآن کی متعدد آیات ایسی ہیں جن میں اس بات کی مذمت ہوئی ہے کہ انسان دین کے بعض احکامات پر عمل کرے اور بعض کو ترک کر دے۔
5) سورہ حجر آیت نمبر 91، وہی لوگ جنہوں نے قرآن کو اجزاء میں بانٹ دیا ( ان میں بعض پر عمل کیا اور بعض کو ترک کر دیا)
6) سورہ نساء آیت نمبر 150 کا ایک حصہ؛ ( اور کہتے ہیں؛ "ہم بعض پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں")
7) سورہ حدید آیت نمبر 25 کا ایک حصہ؛ ( بیشک ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔)
8) ابتدائی نگاہ میں
9) سورہ حج آیت نمبر 41 کا ایک حصہ؛ (وہی لوگ جنہیں زمین میں اگر ہم استطاعت دے دیں تو نماز قائم کرتے ہیں، زکات دیتے ہیں، اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔)
10) سورہ حج آیت نمبر 41 کا ایک حصہ ( اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے)
11) سورہ نحل آیت نمبر 36 کا ایک حصہ (تاکہ وہ لوگ کہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔)
12) سورہ شوری آیت نمبر 13 کا ایک حصہ؛ (دین قائم کرو۔)
13) سورہ شوری آیت 13 کا ایک حصہ ( اور ان میں تفرقہ نہ ڈالو مشرکین کو وہ چیز جس کی آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، ان پر گراں گزرتی ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے راستے کی ہدایت فرماتا ہے، جو بھی توبہ کے دروازے سے داخل ہوتا ہے اللہ کی سمت جانے والے راستے کو طے کرتا ہے۔)
14) سورہ شوری، آیت نمبر 13 کا ایک حصہ؛ (وہ چیز جس کی آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، ان پر گزاں گزرتی ہے۔)
15) سورہ احزاب آیت نمبر 1 ( اے پیغمبر آپ اللہ کی مرضی کو دیکھئے کفار اور منافقین کی بات نہ مانئے، کہ خداوند عالم دانا و حکیم ہے۔)
16) سورہ احزاب، آیت 2 اور 3؛ (آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے، اس کی پیروی کیجئے، اللہ آپ کے تمام اعمال سے آگاہ ہے۔ اللہ پر بھروسہ کیجئے بھروسے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ )
17) عقل، فکر

18) صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دورہ امریکا اور امریکی کانگریس سے خطاب کی جانب اشارہ
19) سورہ محمد، آیت نمبر 7 ؛ (اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا۔)
20) سورہ محمد آیت 7؛ (تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔)
21) سورہ حج، آیت نمبر 40 کا ایک حصہ؛ (بیشک اللہ اس کی مدد کرے گا جو دین خدا کی مدد کر رہا ہے۔)
22) سورہ فتح، آیت نمبر 6 کا ایک حصہ؛ (اللہ کے بارے میں سوء ظن نہ رکھو)
23) سورہ فتح، آیت نمبر6 کا ایک حصہ؛ (وہ خدا پر سؤ ظن رکھتے ہیں))

24) وہی (منافق مرد اور عورتیں اور مشرک مرد اور عورتیں جنہوں نے اللہ کے سلسلے میں سوء ظن کا ارتکاب کیا ہے ان پر بری گردش ہے اور اللہ نے ان پر غضب نازل کیا، ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کر رکھا ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔)