ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت امام خمینی (رہ) کی 26 ویں برسی کی عظیم الشان تقریب سے خطاب

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌(1)
والحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّةالله فی الأرضین. اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّاً و حافظاً و قائداً و ناصراً و دلیلاً و عیناً حتّی تسکنه ارضک طوعاً و تمتّعه فیها طویلاً. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذریّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقرّ به عینه و تسرّ به نفسه.

اپنی گفتگو کے آغاز میں کچھ باتیں حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (ارواحنا فداہ ) کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ منجی آخر الزمان کے بارے میں تمام ابراہیمی ادیان کا اتفاق ہے ؛ کہ ایسی ہستی آئے گی جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو نجات دلائے گی ،اس بات کو تمام ابراہیمی ادیان مانتے ہیں۔ اسلام میں اس منجی کا نام بھی واضح ہوگیا ہے ؛ اس غیر معمولی، اس عظیم اور الہی انسان کو تمام اسلامی مذاہب حضرت مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں شاید اسلامی فرقوں میں کوئی ایسا فرقہ موجود نہ ہو جس کا اس بات پر اعتقاد نہ ہو کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے اور وہ پیغمبر اسلام کی اولاد میں سے ہیں حتی ان کا نام اور کنیت بھی واضح ہے اس سلسلے میں شیعہ اعتقاد میں ایک خاص خصوصیت موجود ہے کہ وہ اس شخصیت کو خاص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور اس کو آئمہ اہلبیت (ع) میں سے گیارہویں امام ،حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتے ہیں۔ ان کی ولادت کی تاریخ شیعہ مؤرخین اور شیعہ متکلمین نے واضح طور پر بیان کی ہے؛دوسرے اسلامی فرقوں نے اس نظریہ کو بیان نہیں کیا ہے یا قبول نہیں کیا ہے لیکن شیعہ قطعی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ  امام مہدی (عج) کے وجود اور ولادت کو ثابت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے استبعاد کیا ہے  اور بعید سمجھا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ انسان پیدا ہواور اتنے طولانی عرصہ تک زندہ رہے ، یہ واحد استبعاد اور اشکال ہے جسے مخالفین نے حضرت مہدی (عج) کے وجود کے بارے میں بیان کیا ہے اور اس کا بار بار تکرار کیا ہے؛  لیکن قرآن کریم خود اس استبعاد اور اشکال کو اپنی صریح نص کے ساتھ برطرف کرتا ہے۔ حضرت نوح پیغمبر (علیہ السلام ) کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: فَلَبِثَ فیهِم اَلفَ سَنَةٍ اِلّا خَمسینَ عامًا؛ (2) یعنی حضرت نوح نے اپنی قوم کے درمیان 950 سال زندگی کی ہے نہ یہ کہ ان کی عمر اتنی تھی بظاہر معنی یہ ہے کہ حضرت نوح کی تبلیغی مدت اتنی تھی ؛ لہذا اس استبعاد اور اشکال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

شیعوں کے درمیان اس اعتقاد کی سب سے بڑی خاصیت امید آفرینی ہے ۔ شیعہ معاشرہ صرف ماضی میں اپنے ممتاز کارناموں پر متکی نہیں ہے ، بلکہ اس کی مستقبل پر بھی نظر ہے شیعہ عقیدے کے مطابق مہدویت کے مسئلہ پر اعتقاد رکھنے والا شخص  سخت ترین شرائط میں بھی  دل کو امید سے خالی نہیں سمجھتا، اس امید کا نور ہمیشہ موجود ہے ؛ وہ جانتا ہے کہ یہ تاریکی و ظلمت کا دورہ ، یہ ظلم و ستم کا دور یہ باطل اور ناحق تسلط پسندی کا دورہ یقینی طور پر ختم ہوجائے گا۔؛اس اعتقاد کے یہ سب سے اہم نتائج اور آثار ہیں۔ البتہ مہدویت کے بارے میں شیعوں کا اعتقاد یہیں تک محدود نہیں ہوتا ہے: بِیُمنِهِ رُزِقَ الوَری‌ وَ بِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الأرضُ و السَّماء؛ (3) ، مہدویت پر اعتقاد کا مسئلہ ایک ایسی اہمیت کا حامل ہے ، یہ درخشاں اور فروزاں شعلہ ،شیعہ معاشرے میں گذشتہ صدیوں میں بھی موجود رہا ہے اور اسی طرح موجود رہے گا اور انشاء اللہ منتظرین کے انتظار کا دور ختم ہوجائے گا۔ کل حضرت مہدی (عج) کی ولادت کی سالگرہ کا دن تھا ، آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کے اجتماع میں حضرت مہدی (عج) کی ولادت با سعادت کے سلسلے میں یہ مختصر باتیں پیش کیں۔

لیکن آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کےا س عظیم اور شاندار اجتماع  اور نیز ایرانی قوم  کے لئے 14 خرداد کی مناسبت سے جو موضوع میں نے آمادہ کیا ہے وہ حسب معمول ہمارے عظیم الشان امام (رہ) کے بارے میں ہے اس بارے میں ہم بہت سی باتیں عرض کرچکے ہیں لیکن اس عظیم شخصیت کے بارے میں بات کرنے کی جگہ اسی طرح باقی ہے، جس موضوع کی طرف میں آج آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں وہ موضوع  " امام (رہ)  کی شخصیت کی تحریف " کے عنوان سے ہے ۔ کیا شخصیتیں بھی قابل تحریف ہیں؟ معمول کے مطابق تحریف کے عنوان کو اور تحریف کی اصطلاح کو متون کی تحریف کے بارے میں استعمال کرتے ہیں؛ کیا شخصیتوں کو بھی تحریف کیا جاسکتا ہے؟ جی ہاں ؛ شخصیتوں کی تحریف یہ ہے کہ اس عظیم انسان کی شخصیت کے اصلی ارکان یا مجہول رہیں یا اس سے غلط معنی اخذ کئے جائیں یا اس کے انحرافی اور سطحی طور پر معنی کئے جائیں ؛  یہ تمام چیزیں شخصیت کی تحریف کے متعلق ہیں؛ جو شخصیت نمونہ عمل ہے وہ امام و پیشوا ہے، اس کی رفتار و گفتار آئندہ نسلوں کے لئے بھی راہنما اور ہادی ہے، اگر یہ شخصیت تحریف ہو جائے تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوگا، حضرت امام (رہ) پر صرف ایک محترم اور تاریخی شخصیت کے عنوان سے توجہ نہیں دینی چاہیے ؛ بعض افراد ایسا چاہتے ہیں ؛حضرت  امام (رہ) ایک محترم شخصیت ہیں اس ملک کی تاریخ میں کچھ عرصہ فعال و سرگرم رہے ، مفید رہے بعد میں اس دنیا سے اثھ گئے اور ان کا دور ختم ہوگیا؛ ہم ان کا احترام کرتے ہیں ، ان کا نام عزت سے لیتے ہیں صرف اتنا ہی ، بعض حضرت امام (رہ) کو اس طرح پہچنوانا چاہتے ہیں اور حضرت امام (رہ) کے بارے میں اس قسم کا تصور رکھتے ہیں ؛ یہ غلط ہے۔

حضرت امام خمینی (رہ) عظیم حرکت کے عینی مظہر ہیں جسے ایرانی قوم نے آغاز کیا اور اپنی تاریخ میں انقلاب پیدا کردیا؛ حضرت امام خمینی (رہ) ایک فکری، سیاسی اور سماجی مکتب کے بانی ہیں ایرانی قوم نے اس مکتب کو، اس راہ کو ،اور اس نقشہ کو قبول کیا؛ اور آگے کی سمت بڑھ رہی ہے، اس راہ پر گامزن رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس نقشہ کو درست پہچانا جائے؛ حضرت امام (رہ) کی درست پہچان اور ان کے اصولوں کی صحیح شناخت کے بغیر اس نقشہ راہ کی شناخت ممکن نہیں ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ہماری بحث حضرت امام خمینی (رہ)  کے فکری اصول سے متعلق ہے؛ سرسری و سطحی اور زمان و مکان سے متعلق فیصلوں کے بارے میں بحث نہیں ہے؛ بلکہ ہماری بحث حضرت امام خمینی(رہ) کے فکری اصول کی تشکیل کے بارے میں ہے اس کو ہم درست و صحیح پہچاننا چاہتے ہیں۔

البتہ حضرت امام (رہ) ایک عظیم فقیہ تھے؛ وہ ایک عظيم اور ممتاز فقیہ بھی تھے اور فلسفی بھی تھے، عرفان نظری میں بھی صاحب نظر تھے، ان مسائل اور شعبوں میں علمی اور فنی لحاظ سے وہ نامور اور معروف انسان شمار ہوتے تھے لیکن حضرت امام خمینی (رہ) کی ممتاز شخصیت  ان میں سے کسی کے ساتھ وابستہ نہیں ہے؛ بلکہ امام خمینی(رہ) کی اصلی شخصیت قرآن مجید کی اس آیت "  وَ جهِدوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه " (4) کے مضمون میں جلوہ گر تھی ؛ حضرت امام (رہ) اس علمی ذخیرہ کے ہمراہ فی سبیل اللہ مجاہدت کے میدان میں وارد ہوگئے۔اور اس مجاہدت کو اپنی عمر کے آخری لحظہ تک جاری رکھا اور ایک عظیم حرکت کو وجود عطا کیا؛ نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پورے علاقہ میں اور پورے عالم اسلام میں بلکہ ایک لحاظ سے پوری دنیا ایک عظيم انقلاب پیدا کیا اور ان کی یہ تحریک ایک بے نظیر اور بے مثال تحریک ہے۔

ملک میں حضرت امام (رہ) کے ذریعہ دو اہم اور بے نظیر کام محقق ہوئے؛ ایک ظالمانہ و غیر منصفانہ اور موروثی شاہی نظام کا خاتمہ ، جس کا ملک میں کئی ہزار سالہ سابقہ تھا اس قدیم، غلط اور بوسیدہ عمارت کا نظام ایسے افراد کے ہاتھ میں تھا جو میراث کے طور پر ایک سے دوسرے تک پنہچتا تھا، یا شمشیر اور طاقت کے زور پر حکومت پر قبضہ کرتے تھے اور پھر اسے ایک نسل سے دوسری نسل تک میراث کے طور پر منتقل کرتے تھے یہ ایک غلط اور غیر منطقی سلسلہ تھا جو ہزار سال سے ہمارے ملک میں جاری تھا؛حضرت  امام خمینی (رہ) کا پہلا کام یہ تھا کہ انھوں نے اس غلط عمارت کو منہدم کردیا اور کام کو ملک کے عوام کے سپرد کردیا۔

حضرت امام خمینی (رہ) کا دوسرا عظیم اور اہم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلام کی بنیاد پر حکومتی نظام قائم کردیا اور یہ قدم ہمارے ملک بلکہ صدر اسلام کے بعد اسلام کی پوری تاریخ میں بے مثال قدم تھا ۔ حضرت امام (رہ) کے عظيم جہاد کا ثمرہ ایسا ثمرہ تھا لہذا بجا ہے کہ کہا جائے " جاهَدَ فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه " (5) جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے؛  وَ جهِدوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه؛(6) جیسا کہ اولیاء دین کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ عظيم انسان بھی  " جاهَدَ فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه " کے مصداق ہیں۔

البتہ اپنی گفتگو کے ضمن میں یہ بھی عرض کردوں کے اس عظیم انسان کا جہاد صرف سیاسی، سماجی اور فکری جہاد نہ تھا بلکہ ان تمام جہادوں کے ساتھ اندرونی جہاد، جہاد با نفس اور اللہ تعالی کے ساتھ مسلسل اور دائمی رابطہ بھی تھا؛ یہ بھی درس ہے ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم فکری جہاد، علمی جہاد، سیاسی جہاد یا عسکری جہاد میں وارد ہوجائیں تو ہمیں حق حاصل ہوجائے کہ ہم اس جہاد سے منصرف ہوجائیں ۔ حضرت امام (رہ) اہل خشوع اور اہل بکاء تھے ، اہل دعا تھا، اہل توسل اور تضرع  تھے ، اسی شعبان کے مہینے میں مکرر اپنے خطاب میں مناجات شعبانیہ کے اس جملے کی تکرار کرتے تھے : " اِلهی هَب لی کَمالَ الِانقِطاعِ اِلیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضِیاءِ نَظَرِها اِلَیکَ حَتَّی تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّورِ فَتَصِلَ اِلی‌ مَعدِنِ العَظَمَة " (7) ، یہ ان کی رفتار تھی، یہ ان کا ہنگام سحر گریہ و نالہ تھا یہ ان کی دعا ، مناجات اور اللہ تعالی کے ساتھ مسلسل و پیہم رابطہ تھا اور یہ معنوی حالت اس عظیم انسان کے جہاد میں استمرار کا باعث بنی اور اس صورتحال کو بھی حضرت امام (رہ) کے فی سبیل اللہ جہاد کے ساتھ یاد رکھنا چاہیے۔

حضرت امام (رہ) کا فکری منظومہ  ایک سیاسی، سماجی اور فکری مکتب کے کامل خصوصیات کا حامل ہے جو سب سے پہلے ایک جہان بینی پر مبنی اور استوار ہے اور یہ جہان بینی توحید پر مشتمل ہے ، ان کی تمام سرگرمیاں اور ان کی پوری منطق توحید پر استوار تھی  جو تمام اسلامی افکار کی اساس اور بنیاد ہے۔

حضرت امام (رہ) کے فکری منظومہ کی دوسری خصوصیت ، جو حقیقی معنی میں ایک فکری مکتب شمار ہوتی ہے کہ حضرت امام خمینی (رہ) کا فکری منظومہ اپ ڈیٹ اور روزانہ کی بنیاد پر تھا؛ ایرانی اور انسانی معاشرے کے مبتلا بہ مسائل کو بیان کرتے تھے اور مخاطبین اس کو محسوس کرتے تھے ؛ حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب میں استبداد اور استکبار کی مخالفت حرف اول کی حیثیت رکھتا تھا؛ اور اس چیز کو ایرانی قوم بھی محسوس کرتی تھی اور دوسری مسلمان اور غیر مسلمان قومیں بھی محسوس کرتی تھیں ؛ اور اس دعوت کے فروغ کی اصل وجہ یہی ہے۔

حضرت امام (رہ) کے اس فکری مکتب کی دوسری خصوصیت یہ تھی  کہ یہ زندہ ، بانشاط ، پرتحرک اور سرگرم مکتب تھا؛ امام خمینی (رہ) کا مکتب،  بعض نظریہ پردازوں اور روشنفکر تھیوری سازوں کی طرح نہیں تھا جن کی محفل میں باتیں اور گفتگو تو اچھی ہے لیکن عمل کے میدان میں کارآمد نہیں ہے؛ حضرت امام (رہ) کی منطق، حضرت امام (رہ) کی فکر ، حضرت امام (رہ) کی راہ ، عملی راہ تھی ، جسے وہ  میدان عمل میں عملی جامہ پہناتے تھے؛ اسی وجہ سے وہ کامیاب بھی ہوئے اور پیشرفت بھی حاصل کی ؛ اور ان کی اس حرکت نے ہمارے ملک کی تاریخ کو بدل دیا۔ ایرانی قوم دوسروں کے زیر اثر اور تسلط میں رہنے کی عادی اور ہدف و امید سے خالی قوم تھی۔ ہماری قوم کو دانستہ اورعمدا پسماندگی میں مبتلا کر دیا گيا تھا۔ ہمارے اوپر دوسروں کی فکر و سوچ بھی مسلط کر دی گئی تھی، اغیار کی ثقافت بھی مسلط کر دی گئی تھی۔ ہمارے اقتصادی وسائل کو اغیار لوٹ رہے تھے اور ہمارے ملک کو اپنے مکروہ اور مذموم عادات و اطوار کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھے۔ ہماری قوم کی حالت یہ تھی ۔  حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اسے جوش و جذبے سے بھری ہوئی قوم، امید و نشاط سے معمور قوم، عمل و اقدام کی جرئت رکھنے والی قوم اور اعلی اہداف کی مالک قوم میں تبدیل کر دیا۔ البتہ ابھی ان اعلی اہداف اور مقاصد سے ہمارا فاصلہ کافی زیادہ ہے لیکن یہی کیا کم ہے کہ ہم گامزن ہیں، یہ کیا کم ہے کہ ہماری قوم کے اندر ترقی کی منزلیں طے کرنے کا جذبہ موجزن ہے، یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اعتماد ہے کہ وہ ان اہداف کو حاصل کر لیں گے، سماجی انصاف کو مکمل طور پر رائج کرنے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ ملک میں ثروت و پیشرفت لائیں گے۔ وطن عزیز کو پیشرفتہ اور اپنی تاریخی شناخت کے شایان شان قدرت و توانائی سے بہرہ مند ملک بنا دیں گے۔ آج ہمارے ملک میں یہ امید موجیں مار رہی ہے اور ہمارے نوجوان اس سمت میں آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ ہم عفلت و بے ہوشی کی حالت سے باہر نکل آئے ہیں، نیند سے جاگ چکے ہیں۔ یہ کارنامہ ہمارے عظیم رہنما  اور آپ کی تحریک نے سرانجام دیا ہے۔
اگر ایرانی قوم اعلی اہداف تک پہنچنا چاہتی ہے اور اس راستے پر اپنا سفر جاری رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ حضرت  امام خمینی (رہ) کے راستے کو اچھی طرح  پہچانے، آپ کے اصولوں سے صحیح طور پر آشنا ہو اورحضرت  امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں کوئی تحریف نہ ہونے دے۔ کیونکہ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف در حقیقت راہ امام خمینی (رہ) کے بارے میں تحریف اور ایرانی قوم کو صراط مستقیم سے منحرف کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر ہم نے امام خمینی (رہ) کے راستے کو فراموش کر دیا، اگر ہم اس راستے سے منحرف ہو گئے یا خدانخواستہ دانستہ طور پر اسے نظر انداز کر دیا تو ایرانی قوم چوٹ کھا جائے گی۔ یہ بات سب ذہن نشین رکھیں کہ عالمی استکبار کی لالچی کبھی سیر نہ ہونے والی نگاہیں ہمارے ملک پر لگی ہوئی ہیں۔ ایران جیسا بڑا ملک، دولتمند ملک، دنیا کے حساس چوراہے پر واقع ملک، دنیا کی عیار طاقتوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی لالچی اور حریصانہ نگاہیں ہٹی نہیں ہیں، ان کی طمع ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ تبھی پسپا ہوں گی جب آپ ایرانی عوام کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے، آپ اتنی ترقی کر لے جائیں کہ ان پر مایوسی طاری ہو جائے۔ اسی لئے حضرت  امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اگر امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی گئی یا اس کا صحیح تعارف نہ کرایا گيا، یا اسے غلط طریقے سے پیش کیا گيا تو ایرانی قوم کو یہ سارے بڑے خطرات اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اسی لئے امام ( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کو ملک کے حکام، انقلاب سے متعلق مفکرین، حضرت امام خمینی (رہ) کے پرانے شاگرد، امام خمینی (رہ) کے راستے سے گہری دلچسپی اورلگاؤ رکھنے والے افراد، تمام نوجوان، علمی شخصیات، یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں سے وابستہ افراد ایک سنجیدہ خطرے اور انتباہ کے طور پر لیں۔ یہ میری مقدماتی اور تمہیدی گفتگو تھی۔
حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی زندگی میں بھی آپ کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی کوششیں ہوئیں۔ ایک طرف دشمن تھے جو انقلاب کے ابتدائی ایام سے ہی اپنے عالمی پروپیگنڈے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کو دنیا کے معروف تاریخی انقلابات  جیسے انقلاب فرانس، سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب اور بعض دیگر انقلابات کے رہنماؤں  کے بارے میں ہم سنتے ہیں، ایک خشک اور سخت گیر انقلابی شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے انسان کے طور پر جو بالکل خشک مزاج، انتہائی تند خو، ہمیشہ چیں بجبیں رہنے والا، ہمیشہ دشمن سے لڑنے کے بارے میں سوچنے والا انسان ہے جس کے اندر کسی طرح کی لچک ، لطافت و نرمی نہیں ہے۔ حضرت امام خمینی (رہ)  کآ اس طرح تعارف کراتے تھے جو کہ غلط تھا۔ بیشک حضرت  امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے اندر قطعیت تھی، تزلزل نہیں پایا جاتا تھا، اپنے فیصلے میں پختہ عزم رکھتے تھے جس کے بارے میں ابھی میں عرض کروں گا، ، لیکن اس کے ساتھ ہی جذبات و احساسات کا مرقع بھی تھے۔ لطیف مزاج رکھتے تھے، محبتی انسان تھے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں اور خلق خدا خاص طور پر معاشرے کے مظلوم اور مستضعف طبقات کے حوالے سے محبت و الفت سے سرشار انسان تھے۔ دشمن نے انقلاب کے بعد روز اول سے عالمی سطح پر یہ غلط اور بےبنیاد پروپیگنڈہ کیا۔
ملک کے اندر بھی بعض لوگ نادانستہ طور پر اور بعض عمدا حضرت امام خمینی (رہ)  کی شخصیت کے بارے میں تحریف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی جب آپ زندہ اور قید حیات میں تھے۔ کچھ لوگ ایسی ہر بات جو انھیں پسندیدہ معلوم ہوتی تھی، حضرت امام خمینی (رہ) سے منسوب کر دیتے تھے، حالانکہ ان باتوں کا امام (رہ)  سے کوئی ربط نہیں ہوتا تھا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حد یہ ہو گئی کہ بعض باتیں اور اظہار خیال ایسے بھی سامنے آئے کہ ان میں جو تعارف امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا کرایا گيا اس کے مطابق وہ گویا کوئی لبرل انسان تھے اور سیاسی میدان میں اور اسی طرح فکری و ثقافتی میدان میں بھی کسی قید و شرط اور ضابطے کے قائل نہیں تھے۔ یہ بات بھی بالکل غلط اور خلاف حقیقت ہے۔ اگر ہم حقیقی معنی میں حضرت امام خمینی کی شخصیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ موجود ہے۔ اگر ہم اس راستے پر چلے جو میں ابھی عرض کروں گا، تو مسئلہ حل ہو جائے گا، ورنہ دوسری صورت میں کچھ لوگ آئیں گے اور اپنی پسند اور مرضی کے مطابق حضرت امام خمینی (رہ) کا تعارف کرائیں گے، کل کو کچھ اور لوگ آئيں گے تو وہ اپنے مزاج کے مطابق اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے پیش نظر اور اس وقت کی مصلحتوں کے مد نظر حضرت امام خمینی (رہ) کو کسی اور انداز میں متعارف کرائیں گے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ عوام کے درمیان حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی مقبولیت دائمی ہے۔ دشمن اسے ختم نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ملک کے اندر اور باہر کثیر تعداد میں لوگوں کے دلوں میں بسنے والی امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا خطرہ زیادہ سنگین ہے۔
اس تحریف کا راستہ روکنے کا واحد  طریقہ حضرت امام خمینی(رہ)  کے اصولوں کا بار بار مطالعہ ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے کچھ فکری اصول اور بنیادیں ہیں۔ یہ اصول اور یہ بنیادیں اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد کے دس سال میں اور اس سے قبل پندرہ سال کی تحریک کے دوران امام خمینی (رہ)  کے بیانات اور تقاریر میں مذکور ہیں۔ ان تقاریر و خطبات سے ان اصولوں کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں اور ان خطوط کو اگر ایک ساتھ جمع کر دیا جائے تو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کا ایک خاکہ سامنے آ جائے گا۔ یہی امام خمینی (رہ) کی شخصیت ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام فروعات کا مطالعہ کیا جائے۔ دیگر انسانوں کی طرح امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی زندگی میں بھی نشیب و فراز ہیں۔ بہت سے واقعات رونما ہوئے اور ہر واقعہ کا کچھ تقاضا بھی رہا۔ میں اصولوں کی بات کر رہا ہوں۔ ان چیزوں کی بات کر رہا ہوں کہ جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی مسلمہ باتیں ہیں۔ اسلامی حکومت کی تشکیل سے قبل کا دور ہو یا اسلامی حکومت کی تشکیل کا زمانہ ہو، یا مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کا دور ہو، یا اس کے بعد یا پہلے کے ادوار ہوں اس پوری مدت میں حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان مسلمہ اصولوں کو بار بار بیان کیا ہے۔ ان اصولوں میں بعض کو منتخب کرلینا اور بعض دیگر کو ترک کر دینا بھی درست نہیں ہے۔ میں آج ان میں سے پانچ  چھ اصول بیان کروں گا۔ تاہم یہیں یہ بھی کہتا چلوں کہ امام خمینی(رہ)  کے بنیادی اصول ممکن ہے کہ صرف اتنے ہی نہ ہوں۔ جو اہل نظر ہیں اور جو فکری توانائی کے حامل افراد ہیں وہ جائیں مطالعہ کریں، تلاش کریں، حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے خطبات کا تجزیہ کریں، بحمد اللہ ان کی تدوین ہو چکی ہے اور یہ خطبات موجود ہیں اور سب کی دسترس میں بھی ہیں، ان کے اندر سے اصولوں کو اخذ کریں۔ میں حضرت  امام خمینی (رہ) کے خطبات سے حاصل ہونے والے تمام اصولوں کو بیان نہیں کر پاؤں گا۔ صرف پانچ چھ  اصول بیان کروں گا۔ ان اصولوں میں سے صرف چند کو اپنا لینا درست نہیں ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ لوگ خود آگے بڑھیں اور مزید کچھ اصول تلاش کریں، تاہم آج میں جو اصول بیان کر رہا ہوں وہ امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر کے مسلمہ حقائق ہیں،حضرت امام خمینی (رہ) کے راستے کے بدیہی اصول ہیں۔
حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر میں سب سے پہلی چیز جو موجود نظر آتی ہے وہ خالص اسلام محمدی (ص) کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ہے۔ امام خمینی (رہ) نے خالص اسلام کو امریکی اسلام کی ضد قرار دیا ہے۔ امریکی اسلام کیا ہے؟ ہمارے زمانے میں، امام خمینی (رہ) کے زمانے میں اور تمام ادوار میں جہاں تک ہماری معلومات ہے، ممکن ہے آئندہ بھی یہی رہے کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں ہیں۔ ایک ہے لیبرل اسلام اور دوسرے رجعت پسندانہ اسلام۔ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان لوگوں کو جو لیبرل فکر رکھتے تھے یعنی دین کو، سماج کو، انسانوں کے سماجی روابط کو اسلام سے الگ رکھنے کے قائل تھے، ہمیشہ ان لوگوں کے زمرے میں رکھا جو دین کے سلسلے میں رجعت پسندانہ نظریہ رکھتے تھے۔ یعنی دین کے بارے میں ایسا قدامت پسندانہ نظریہ جو نئی فکر کے انسانوں کے لئے ناقابل فہم ہو، جو متعصبانہ طور پر غلط بنیادوں پر اور بنیاد پرستی پر زور دیتا ہو۔ حضرت امام خمینی (رہ) ان دونوں نظریات کے حامل لوگوں کا ہمیشہ ایک ساتھ ذکر کرتے تھے۔ آج اگر آپ غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ دنیائے اسلام میں ان دونوں شاخوں کے نمونے موجود ہیں اور دونوں کو دنیا کی توسیع پسند طاقتوں اور امریکہ کی حمایت و پشت پناہی حاصل ہے۔ آج منحرف گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ وغیرہ کو بھی امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، اور اسی طرح ایسے حلقوں کو بھی امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے جن کا نام تو اسلامی ہے لیکن اسلامی عمل اور اسلامی فقہ و شریعت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے عظیم قائد و رہمنا کی نگاہ میں خالص اسلام وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر (ص) پر استوارہو۔ جو روشن فکر کے ساتھ، زمان و مکان کے تقاضوں سے واقفیت کے ساتھ، مسلمہ علمی طریقوں اور روشوں سے اور دینی درسگاہوں میں تکمیل کے مراحل طے پانے والے عمل کے ذریعے اخذ کیا جاتا ہے اور حاصل ہوتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ استنباط کی خاص روش کو نظر انداز کر دیا جائے اور جو بھی چاہے قرآن کھولے اور اس روش کا استنباط کر لے جس کے ذریعے سماج کو چلانا ہے۔ نہیں، اس کا اپنا خاص طریقہ ہے۔ استنباط کی ایک خاص روش ہے۔ یہ علمی روش ہے۔ اس پر بڑا کام ہوا ہے۔ کچھ ہی لوگ ہیں جن میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ اس روش کے مطابق آگے بڑھیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی نظر میں خالص اسلام اسی کو کہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جسے بھی وہ روش اور طریقہ پتہ ہے وہ اس استنباط پر قادر ہو جائے گا۔ اس کے اندر روشن فکری بھی ہونی چاہیے۔ حالات اور زمان و مکان سے پوری آگاہی رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد خالص اسلام کا تعین کر پانا، اسے پہچاننا اور پہچنوانا ممکن ہوگا۔ درباری ملاؤں کا اسلام، حضرت امام خمینی (رہ)  ان علماء کے لئے ہمیشہ یہی اصطلاح استعمال کرتے تھے، داعشی اسلام ہے۔ دوسری جانب صیہونی جرائم پر خاموش رہنے والا، امریکی جرائم پر سکوت اختیار کرنے والا، امریکہ اور بڑی طاقتوں کے آسرے پر اور ان کے اشارے کا منتظر رہنے والا اسلام ہے۔ یہ سب ایک ہی زمرے میں آتے ہیں۔ ایک منزل وہ آتی ہے جہاں یہ سب پہنچ کر ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں یہ سب مسترد کر دیئے جانے کے قابل ہیں۔ جس اسلام پر حضرت امام خمینی (رہ)  تاکید کرتے ہیں وہ ان سب کے مد مقابل نظر آتا ہے۔ جو شخص امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے نقش قدم پر چلنے والا ہے اسے چاہیے کہ حد بندی کرے۔ رجعت پسند اسلام کے سامنے بھی اور لیبرل اسلام کے سامنے بھی اپنی حد بندی کرے اور حقیقی اسلام کو پہچانے اور اس پر عمل کرے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا ایک اصول یہ ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے حضرت امام خمینی(رہ) نے بس ایک آدھ بار بیان کر دیا ہو، حضرت امام خمینی (رہ) کے خطبات میں یہ چیز ہر جگہ نظر آئے گی۔
دوم :حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے اصولوں میں سے ایک اصول اللہ تعالی کی مدد اور نصرت پر اعتماد ہے۔ اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد، دوسری جانب دنیا کی مستکبر اور استبدادی طاقتوں کی طرف سے بے اعتمادی۔ یہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر کا حصہ ہے۔ اللہ تعالی کی قدرت پر توکل۔ اللہ تعالی نے مؤمنین سے وعدہ کیا ہے اور جو لوگ اس وعدے پر یقین نہیں رکھتے کلام خداوند میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے؛۔ وَ لَعنَهُمُ الله (۸) وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم (۹) جو لوگ «اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ سآءَت مَصیرًا» (۱۰) اللہ کے وعدے پر یقین، اللہ کے وعدے کی صداقت پر ایقان جس نے فرمایا ہے؛ «اِن تَنصُرُاللهَ یَنصُرکُم» (۱۱) امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر کا ایک ستون یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر یقین و توکل کیا جائے۔ اس کے برعکس دشمنوں، مستکبرین اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے بظاہر خوش وعدوں پر قطعی اعتماد نہ کیا جائے۔ یہ چیز امام خمینی (رہ) کے عمل میں، کردار میں اور تقاریر میں بالکل واضح دکھائی دیتی ہے۔ قدرت پروردگار پر تکیہ اور اس پر اعتماد کی وجہ سے امام خمینی (رہ) اپنا انقلابی مؤقف بالکل صریحی طور پر بیان کر دیا کرتے تھے۔ حضرت امام خمینی(رہ) واضح اور صریحی انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ جو نظریہ ہوتا تھا اسے کھلے الفاظ میں بیان کر دیتے تھے۔ کیونکہ اللہ پر توکل تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں اس کا اندازہ نہ رہا ہو کہ بڑی طاقتوں کو یہ بات بری لگے گی اوروہ چراغ پا ہو جائیں گی۔ وہ جانتے تھے۔ لیکن انھیں اللہ کی قوت پر، نصرت خداوندی پر اور اللہ تعالی کی مدد پر کامل یقین اور اطمینان تھا۔ گوناگوں حوادث ہوئے لیکن کبھی امام خمینی (رہ) اس مسئلے میں کسی تکلف میں نہیں پڑے۔ دنیا کی سامراجی حکومتوں یا ان کی آلہ کار ریاستوں کے سربراہوں نے جو خطوط امام خمینی (رہ) کو لکھے ان میں سے غالبا دو کا جواب آپ نے دیا۔ امام خمینی (رہ) نے جوابی خط واشگاف الفاظ میں تحریر فرمایا جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے نشریاتی ادارے سے نشر بھی ہوا۔ حضرت امام خمینی(رہ)  ہمیشہ ادب و اخلاق کے ساتھ بات کرتے تھے لیکن انھوں ان خطوط میں اپنا موقف بالکل صاف طور پر اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا۔ امام خمینی(رہ) نے اپنا یہ جذبہ توکل، خون کی مانند قوم کی رگوں میں بھی جاری کر دیا۔ عوام کے اندر بھی توکل علی اللہ کا جذبہ موجزن ہو گیا۔ سب کو الہ تعالی کی مدد پر یقین ہو گیا۔ پورا ملک اس راستے پر چل پڑا۔ چونکہ امام خمینی(رہ) کو مستکبرین پر کوئی اعتماد اور یقین نہیں تھا اس لئے وہ ان کے وعدوں پر کبھی توجہ نہیں دیتے تھے۔ امریکی صدر ریگن نے جو بہت طاقتور صدر تھے، حضرت امام خمینی (رہ) کو خط لکھا، پیغام بھیجا، ایلچی بھیجا، مگرحضرت امام خمینی(رہ)  نے کوئی اعتنا نہ کی۔ ریگن کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ جو وعدہ ریگن نے کیا تھا امام خمینی نے بالکل اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا۔
ایک اور موقع پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں امریکہ کی اتحادی ایک حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ سیکڑوں ارب یا ایک ہزار ارب ڈالر کا معاملہ تھا، مگر امام خمینی (رہ) نے اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی، بالکل اعتماد نہیں کیا۔ آج ہم در پیش معاملات میں خود بھی اس چیز کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہماری سمجھ میں آ رہا ہے کہ کیوں مستکبرین پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ وہ نجی ملاقاتوں میں جو کچھ کہتے ہیں اس پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، یہ چیز ہم باقاعدہ محسوس کر رہے ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے اسے اپنے مکتب فکر کے بنیادی اصولوں میں قرار دیا؛ اللہ پر توکل مستکبرین کے سلسلے میں عدم اعتماد۔ البتہ یہ دنیا سے قطع تعلق کر لینے کے معنی میں بھی نہیں تھا۔ کیونکہ دنیا کے حکام مختلف مناسبتوں پرحضرت امام خمینی (رہ) کو تہنیتی پیغام بھیجتے تھے اور آپ ان پیغامات کا جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح کا معمول کی حد کا محترمانہ اور مودبانہ رابطہ بھی تھا مگر استکباری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں پر کوئی اعتماد نہیں کرتے تھے۔
سوم؛ حضرت امام خمینی (رہ) کا عوام کی قوت ارادی اور عوامی توانائی پر تکیہ کرنا اور حکومتوں سے امید لگانے کی مخالفت۔ یہ امام خمینی کی تحریک کا اہم اصول ہے۔ ان دنوں ایک غلط نظرئے کی بنیاد پر یہ کوشش ہو رہی تھی کہ ملک کے تمام اقتصادی امور حکومت کے سپرد کر دیئے جائیں، لیکن امام خمینی (رہ) بار بار انتباہ دے رہے تھے۔ یہ انتباہ آپ کی تقاریر اور بیانوں میں واضح طور پر موجود ہے؛ ان امور کو عوام کے سپرد کر دیجئے۔ انھیں عوام پر بڑا اعتماد تھا۔ اقتصادی مسائل میں بھی عوام پر بہت بھروسہ تھا اور دفاعی میدان میں بھی عوام پر انھیں بہت اعتماد تھا۔ اس پر سب توجہ دیں؛ امام خمینی (رہ)  روز اول سے فوج کے پشت پناہ رہے، جس شخصیت نے فوج کو منحل ہونے سے بچایا وہ امام خمینی (رہ)  کی ذات تھی۔ مگر اس کے باوجود آپ نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو تشکیل دیا، رضاکار فورس کو تشکیل دیا۔ دفاعی شعبے کو عوامی شعبہ بنا دیا۔ اقتصادی مسائل میں عوام پر تکیہ، دفاعی شعبے میں عوام پر اعتماد، تعمیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ جس کے تحت تعمیراتی جہاد شروع کیا گيا، تبلیغاتی شعبے میں عوام پر بھروسہ اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتخابات کا مسئلہ اور ملک اور سیاسی نظام کو چلانے میں عوام کی رائے اور ووٹوں پر اعتماد۔ ہمارے عظیم رہنما کی حاکمیت کا زمانہ دس سال کا ہے، دس سال کی اس مدت میں سے آٹھ سال تک جنگ رہی۔ شہروں پر بمباری ہو رہی تھی، تمام محاذوں پر جنگ جاری تھی۔ مگر اس دوران ملک میں تقریبا دس انتخابات ہوئے۔ کوئي بھی الیکشن اپنی معینہ تاریخ سے ایک دن بھی تاخیر سے نہیں ہوا۔ تمام مراحل میں، ہر طرح کے حالات میں حضرت امام خمینی (رہ) کی یہ تاکید رہی کہ انتخابات معینہ وقت پر ہوں۔ بعض ملکوں میں یہ دستور ہے کہ ایمرجنسی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے ایک دن کے لئے بھی ہنگامی حالات کا اعلان نہیں کیا۔ انتخابات کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ الیکشن کے دن سب سے پہلا ووٹ امام خمینی (رہ)  کا پڑتا تھا۔ عوام پر انھیں بڑا یقین تھا اور حقیقی معنی میں عوام کی رائے کا عوام کے ووٹوں کا اور عوام کے فیصلے کا دل سے احترام کرتے تھے۔ اگر عوام نے کسی مسئلے میں کسی کو منتخب کر لیا اور وہ بعض پہلوؤں سے امام خمینی (رہ) کو پسند نہیں ہے تب بھی امام خمینی (رہ) عوام کے ووٹوں کا احترام کئے جانے کے قائل تھے۔ عوام کا احترام کرتے تھے۔ ووٹوں کا ان کی نظر میں بہت اعتبار تھا۔ یہ بھی امام خمینی(رہ)  کے مکتب فکر کا ایک اصول ہے۔ حضرت امام خمینی(رہ)  نے اس معاملے میں اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عوام کو ملک کے حکام کا مالک قرار دیا۔ امام خمینی(رہ)  نے بارہا فرمایا کہ عوام ہمارے مالک ہیں۔ کچھ مقامات پر خود کو عوام کا خدمت گزار قرار دیا۔ کہتے تھے؛ "اگر مجھے قوم کا خادم کہا جائے تو یہ رہبر و قائد کہنے سے زیادہ بہتر ہے۔" یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں عوام، عوامی افکار، عوامی ووٹوں اور عوامی شراکت کا کتنا بلند مقام تھا۔ قوم نے بھی بہت مناسب رد عمل پیش کیا۔ میدان میں حاضر رہی۔ امام خمینی(رہ)  کی انگلی کا اشارہ ہوتے ہی عوام دل و جان سے میدان عمل میں اتر آئے۔ یہ جوابی سلوک تھا۔ امام خمینی(رہ) کو عوام پر اعتماد تھا اور عوام کو امام خمینی(رہ) پر بھروسہ تھا۔ حضرت امام خمینی (رہ) عوام کو چاہتے تھے اور عوام حضرت امام خمینی (رہ) سے محبت رکھتےتھے۔ یہ باہمی رابطہ ایک فطری امر ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) کا چوتھا اصول ملک کے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ امام خمینی (رہ) محروم و مستضعف طبقات کی حمایت پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ اقتصادی عدم مساوات کے شدید مخالف تھے۔ اشرافیہ کلچر کو سختی سے مسترد کر دیتے تھے۔ امام خمینی (رہ) حقیقی معنی میں سماجی انصاف کے طرفدار تھے۔ مستضعف طبقات کی حمایت شاید امام خمینی (رہ) کی تقاریر اور بیانات میں بہت زیادہ استعمال ہونے والے فقروں میں سے ایک ہے۔ یہ امام خمینی (رہ) کا روشن راستہ ہے۔ یہ امام خمینی(رہ)  کا مسلمہ اصول ہے۔ غربت کو جڑ سے ختم کر دینے کے لئے سب کو محنت کرنی چاہیے۔ سب یہ کوشش کریں کہ محروم اور پسماندہ طبقات محرومیت کی حالت سے باہر آجائیں۔ جہاں تک ملک کی توانائی اجازت دیتی ہے محروم طبقات کی مدد کی جائے۔ دوسری جانب امام خمینی (رہ) ملکی حکام کو عیش و عشرت اور پرتعیش زندگی کے بارے میں خبردار کرتےرہتے تھے۔ یہ نکتہ قرآن میں بھی آیا ہے؛ وَ سَکَنتُم فی مسکِنِ الَّذینَ ظَلَموا (۱۲) سب کو قصر نشینی کی عادت سے خبردار کرتے رہتے تھے۔ بار بار تاکید فرماتے تھے کہ کمزور طبقات کی وفاداری پر بھروسہ کیجئے۔ یہ بات امام خمینی (رہ)  بار بار کہتے تھے کہ یہ بوریا نشین، فقرا اور محروم طبقات ہی ہیں جو اپنی محرومیتوں کے باوجود میدان عمل میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور وہ شکوہ بھی نہیں کرتے۔ پرخطر میدانوں میں بھی اتر جاتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو زیادہ وسائل سے بہرہ مند ہیں۔ مختلف حالات میں اگر مشکلات پیش آجائیں تو وہ زیادہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ متوسط طبقات اور غریب طبقات کی وفاداری امام خمینی(رہ) کی نظر میں مسلمہ حقیقت تھی اور اس پر آپ بار بار تاکید بھی کرتے تھے۔ بیت المال کے صحیح استعمال پر تاکید کرتے تھے۔ اسراف سے اجتناب پر بہت تاکید کرتے تھے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے۔ سماجی انصاف کا مسئلہ، محروم طبقات کی حمایت، اشرافیہ کلچر سے دوری، شان و شوکت کی زندگی سے اجتناب اور اس ہدف کے لئے محنت بھی امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر کا اہم اصول ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) کا پانچواں اصول خارجہ پالیسی سے متعلق ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) آشکارا طور پر عالمی استکبار اور بین الاقوامی غنڈوں کے مخالف محاذ کا حصہ تھے اور اس سلسلے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ دنیا کی استبدادی طاقتوں، مستکبرین اور بین الاقوامی غنڈوں کے مقابلے میں مظلوموں کا ساتھ دیتے تھے، مظلوموں کی حمایت میں کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ اس مؤقف کو صریحی طور پر دو ٹوک انداز میں بیان بھی کرتے تھے اور اسے چھپانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے مظلوموں کی خلوص دل سے حمایت کرتے تھے۔ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) مستکبرین سے کسی مفاہمت کے قائل نہیں تھے۔ امریکہ کے لئے ' بڑے شیطان ' کی اصطلاح آپ کی ایک عجیب ایجاد تھی۔ بڑے شیطان کی اصطلاح کا عملی اور فکری دائرہ بہت وسیع ہے۔ جب آپ کسی شخص یا نظام کو شیطان مان چکے ہیں تو پھر یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ اس کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیسا ہونا چاہیے، اس کے بارے میں آپ کے تاثرات اور خیالات کیسے ہوں۔حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) آخر تک امریکہ کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ 'بڑے شیطان ' کی اصطلاح بھی آپ استعمال کرتے رہے اور تہہ دل سے اس پر یقین بھی رکھتے تھے۔ اس کے برخلاف ابتدائے انقلاب سے ہی کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس بات پر توجہ نہیں دیتے تھے کہ امریکہ طاغوتی اور شاہی حکومت کا پشتپناہ اور سرپرست ہے جسے ایرانی قوم نے سرنگوں کر دیا تھا۔ ایرانی قوم نے طاغوتی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو ملک کے اندر امریکیوں کی موجودگی، امریکیوں کی سرگرمیوں یہاں تک کہ بعض امریکی اداروں کی سرگرمیوں کے جاری رہنے کے حق میں تھے! عبوری حکومت اور امام خمینی (رہ) کے درمیان بنیادی اختلاف ہی اسی بات پر تھا۔ ہم قریب سے اس کا مشاہدہ کرتے تھے۔ وہ لوگ اس بات پر توجہ نہیں دے رہے تھے کہ امریکہ طاغوتی حکومت کا پشت پناہ ہے۔ جو اس وقت تو سرنگوں ہو چکی ہے لیکن اسے تقویت اور غذا پہنچانے والا نظام ابھی باقی ہے اوروہ اپنی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ اگر اسے موقع ملا اور اگر ایک بار پھر میدان اس کے ہاتھ میں آگیا تو دوبارہ اپنا کام شروع کر دے گا اور وار کرے گا۔ کمزوریوں کو تلاش کرے گا اور پھر انھیں کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس پر ان کی توجہ نہیں تھی۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اس حقیقت کو واضح طور پر دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ جاسوسی کے مرکز (تہران میں امریکی سفارت خانہ) پر طلبہ کا قبضہ ہو جانے کے مسئلے میں امام خمینی نے جو مؤقف اختیار کیا اس کی بنیاد آپ کی یہی فکر تھی۔ دنیا میں بعض لوگوں نے اس نکتے پر توجہ نہیں دی اور اس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑا۔ ہم اس وقت کسی کی ملامت اور سرزنش نہیں کرنا چاہتے، لیکن کچھ لوگوں کو یہ چوٹ کھانی پڑی۔ اس لئے کہ انھوں نے رجعت پسند اور سامراج نواز حکومت کو تو گرا دیا لیکن اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقت کو نظر انداز کر دیا۔ امام خمینی (رہ) نے پشت پناہی کرنے والے نظام کو روز اول سے ہی مد نظر رکھا، اس کا مقابلہ کیا۔ اسی لئے آخر تک امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) امریکہ اور اس ملک کے سیاسی و سکیورٹی اداروں کے خلاف اپنے مؤقف پر قائم رہے۔
دوسری جانب حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اس پورے عرصے میں فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھی، فلسطین کا دفاع کیا۔ فلسطین کا بھی دفاع کیا اور افغانستان کا بھی دفاع کیا۔ جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس وقت ہم امریکہ کی دشمنی کا شکار تھے لیکن پھر بھی ہمارے عظیم الشان رہنما نے ان حالات میں بھی سوویت یونین کے خلاف ٹھوس مؤقف اختیار کیا۔ ایسا دو ٹوک مؤقف تو بعض ایسی حکومتوں نے بھی نہیں اختیار کیا جو مغرب کی جانب جھکاؤ رکھتی تھیں۔ لیکن امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے کسی بھی تامل کے بغیر افغانستانی قوم کی حمایت کی۔ لبنان کے عوام کی حمایت کی۔ فلسطینیوں کی پورے خلوص کے ساتھ حمایت کی۔ سامراج سے مقابلے کے سلسلے میں یہ امام خمینی (رہ)  کی حکمت عملی ہے۔ اسی فکر کی بنیاد پر دنیا کے مسائل کی ماہیت کا صحیح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے بارے میں درست مؤقف کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ آج ہم عراق اور شام میں داعش دہشت گرد تنظیم کے ظالمانہ اور وحشیانہ طرز عمل کی جس سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں، امریکہ کے اندر ایف بی آئی کے ظالمانہ روئے کے بھی ہم اتنے ہی مخالف ہیں۔ یہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ ہم غزہ کے ظالمانہ محاصرے کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنے یمن کے مظلوم اور بے سہارا عوام پر ہونے والی بمباری کے مخالف ہیں۔ ہم بحرین میں عوام کے ساتھ کئے جانے والے سخت گیرانہ برتاؤ کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں۔ ہم افغانستان اور پاکستان میں عوام پر امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں کے بھی خلاف ہیں۔ یہ منطق اور یہ طرز فکر امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے وہاں دو فریق ہوں گے؛ ظالم اور مظلوم۔ ہم مظلوم کے طرفدار ہیں، ظالم کے مخالف ہیں۔ یہ ایک مستقل مؤقف ہے جسے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) صریحی طور پر بیان کرتے تھے۔ یہ ان کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسی وجہ سے آج بھی مسئلہ فلسطین ہمارے لئے بنیادی اور حیاتی مسئلہ ہے۔ یہ بات سب سن لیں! مسئلہ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے ایجنڈے سے کبھی خارج نہیں ہوگا۔ مسئلہ فلسطین اسلامی نقطہ نظر سے واجب و لازم جہاد کا میدان ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہمیں مسئلہ فلسطین سے جدا نہیں کر سکتا۔ ممکن ہے کہ کچھ ایسے عناصر ہوں جو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل نہ کریں۔ ان کا معاملہ الگ ہے۔ لیکن فلسطین کے عوام، فلسطین کی قوم اور فلسطینی مجاہدین کو ہمیشہ ہماری حمایت حاصل رہے گی۔
حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر کا ایک اور بنیادی اصول ملک کی خود مختاری اور استقلال  پر تاکید اور بیرونی تسلط کی نفی ہے۔ یہ بھی بہت اہم باب ہے۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجتماع میں سامعین کی خدمت میں عرض کیا تھا (13) کہ خود مختاری کا مطلب ایک قوم اور ملت کی سطح کی آزادی ہے ۔ یہ ہے خود مختاری کا مفہوم۔ اب اگر کچھ لوگ زبان سے ذاتی اور شخصی آزادی کے خوب نعرے لگائیں لیکن ملکی خود مختاری کے خلاف بات کریں تو یہ کھلا ہوا تضاد ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ افراد کی شخصی آزادی تو محترم ہو لیکن مخالفین اور اغیار کی پابندیوں کے مد مقابل ایک قوم کی آزادی، ملکی سطح کی آزادی محترم نہ ہو! یہ بالکل قابل فہم نہیں ہے۔ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو ملکی خود مختاری کی نفی کے لئے تھیوریاں پیش کرتے ہیں۔ خود مختاری کو کبھی تنہا ہو جانے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ کبھی اس نکتے پر قلم فرسائی کرتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ملکوں کی خود مختاری کا شمار اقدار میں نہیں ہوتا۔ اس موضوع پر تقریریں کرتے ہیں۔ یہ باتیں معاشرے کے اندر پھیلتی ہیں۔ کچھ لوگ اس نہج پر کام کرتے ہیں۔ یہ بہت غلط بدعت ہے۔ یہ بہت بڑی اور خطرناک غلطی ہے۔ حضرت امام خمینی (رہ) ملک کی خود مختاری کے قائل تھے۔ بیرونی تسلط کی نفی کرتے تھے۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران ہمارے دشمنوں نے وطن عزیز کے خلاف اور ہماری قوم کے خلاف جو پے در پے اقدامات انجام دیئے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس خود مختاری کو متاثر کریں۔ خواہ پابندیوں کے ذریعے، یا دھمکیوں کے ذریعے انھوں نے ہماری خود مختاری کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ سب کو چاہیے کہ ہوشیار رہیں اور دیکھیں کہ دشمن کے اہداف کیا ہیں۔ تو یہ بھی امام خمینی (رہ) کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول ہے۔
حضرت امام خمینی(رہ)  کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول جو آخری بات کے طور پر میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں، قومی اتحاد کا مسئلہ ہے۔ تفرقہ اندازی کی سازشوں پر خواہ وہ تفرقہ مذہب و مسلک کے نام پر ہو، شیعہ سنی اختلاف کے نام پرہو یا قومیتوں کی بنیاد پر، فارس، عرب، ترک، کرد، لر اور بلوچ کے نام پر ہو، پوری توجہ رہنی چاہیے۔ اختلاف اور تفرقہ انگیزی دشمن کی بہت بڑی اور اہم چال ہے اورحضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے شروع ہی سے قومی اتحاد اور عوام  کی یکجہتی پر حد درجہ توجہ دی اور یہ آپ کے اہم اصولوں میں ہے۔ آج ہمیں بھی اس راستے پر چلنا چاہیے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام میں تفرقے کے بیج بونا عالمی استکبار کی بہت اہم پالیسی کا حصہ ہے۔ امریکی اب اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ باقاعدہ شیعہ اور سنی کا نام لیتے ہیں۔ شیعہ اسلام اور سنی اسلام؛ پھر ان میں سے ایک کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے روز اول سے مسلکی اختلاف کے سلسلے میں بالکل مساویانہ مؤقف اختیار کیا۔ ہم نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ جو سنی ہیں بالکل ویسا ہی برتاؤ کیا جیسا برتاؤ ہم نے حزب اللہ لبنان کے ساتھ کیا جو شیعہ تنظیم ہے۔ ہم نے ہر جگہ ایک ہی نہج پر کام کیا ہے۔ ملک کے اندر ہمارے عظیم رہنما حضرت امام خمینی (رہ)  کا نظریہ یہ تھا کہ دنیائے اسلام کی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کا طرز عمل اور نقطہ نظر 'امت ساز' طرز عمل ہے۔ یہ جو امریکہ کے دوسرے درجے کے مہرے آکر 'ہلال شیعی' کی بات کرتے ہیں، اس سے تفرقہ انگیز سیاست کی بو آتی ہے۔ یہ جو امریکی اپنے تمام تر تبلیغاتی پروپیگنڈوں کے بر خلاف عراق و شام میں تفرقہ پھیلانے والے تکفیری گروہوں سے تعاون کر رہے ہیں، کبھی کبھی بعض موارد میں خاموشی سے اور خفیہ طور پر مدد کرتے ہیں جبکہ ان کے آلہ کار اورمہرے اعلانیہ طور پر مدد کر رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام و مسلمانوں  کے دشمنوں اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی نظر میں تفرقہ انگیزی کا معاملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر سب توجہ دیں! شیعہ بھی توجہ دیں اور اہل سنت بھی توجہ دیں۔ دشمن کے فریب میں نہ آئيں۔ وہ تسنن جس کی پشت پناہی امریکہ کرتا ہے اور وہ تشیع جو لندن کے سنٹر سے برآمد ہوتا ہے، دونوں ایک جیسے ہیں۔ یہ دونوں ہی شیطان کے بھائی ہیں۔ یہ دونوں ہی امریکہ، مغرب اور استکبار کے غلام ہیں۔
اس سال کے آغاز میں ہم نے ہمدلی اور ہم زبانی پر جو تاکید کی اور اس کے بعد بھی بارہا اس موضوع کا اعادہ کیا، اس کی وجہ یہی ہے۔ ملک کے اندر گوناگوں قومیتوں اور مسلکوں سے تعلق رکھنے والے عزیز بھائی اور بہنیں آپس میں متحد ہوکر مستحکم بازو بن جائیں، بالکل اسی طرح جیسے اب تک وہ متحد رہے ہیں۔ دشمن کو دنیائے اسلام کے حدود میں قدم رکھنے کا موقع نہ دیں۔ وسیع سطح پر اہل سنت بھائی اور اہل تشیع ایک ساتھ رہیں اور یہ یقین رکھیں کہ ایک دشمن موجود ہے جو اسلام کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے۔
میں نے حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر کے سات بنیادی اصول بیان کئے ہیں، البتہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے اصول انھیں سات تک محدود نہیں ہیں۔ دوسرے افراد بھی مطالعہ کریں، لیکن یہ نہ ہو کہ اگر کسی کو کوئی بات پسند آ رہی ہے تو اسے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے منسوب کر دے۔ ہم جس بات کو بھی حضرت امام خمینی (رہ) سے منسوب کر رہے ہیں وہ امام خمینی (رہ) سے متعلق مآخذ میں موجود ہونی چاہیے اور وہ بھی مکرر طور پر اور دائمی طور پر نظر آئے جس طرح یہ سات اصول نظر آتے ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی تقاریر کا آپ شروع سے لیکر آخر تک جائزہ لیجئے تو کئی سال کی ان تقاریر میں یہ نکات تواتر کے ساتھ نظر آتے ہیں، لہذا یہ اصول قرار پائيں گے۔ اسی نہج پر دوسرے لوگ بھی تلاش کریں، اصول اخذ کریں۔ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کسی کو بھی اپنے سے قریب یا دور انھیں اصولوں کی بنیاد پر کرتے تھے۔ ہم بھی کچھ لوگوں کو اپنے سے قریب یا دور کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اگر کسی کو اپنے سے قریب یا دور کریں تو انھیں اصولوں کی بنیاد پر کریں۔
سبھی یہ بات بھی سمجھ لیں کہ ہمارے دشمن جو الگ الگ روپ میں نظر آتے ہیں، کبھی اکڑ جاتے ہیں، کبھی مسکرانے لگتے ہیں، کبھی وعدے کرتے ہیں، کبھی دھمکیاں دیتے ہیں، ان کا اصلی مقصد ملک پر تسلط حاصل کرنا ہے ۔ دشمن چاہتا ہے کہ اس ملک پر اس کے مکمل تسلط کا دور پھر سے بحال ہو جائے۔ اسلام چونکہ اس صورت حال کے خلاف ہے اور دشمن کی اس سازش کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہے اس لئے وہ اسلام کے بھی دشمن ہیں۔ دشمنوں کی جانب سے اسلام کی مخالفت اس لئے ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام ان کے سامنے ایک محکم دیوار کی مانند ہیں۔ ہماری قوم کے وہ مخالف ہیں، کیونکہ ایرانی قوم مضبوط چٹان اور پہاڑ کی مانند ان کے سامنے کھڑی ہے۔ قوم کے اندر جو کوئی بھی دشمن کے مقابلے میں زیادہ استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے، دشمن اس کا زیادہ مخالف ہو جاتا ہے۔ مؤمن افراد کے وہ زیادہ مخالف ہیں، انقلابی اداروں اور تنظیموں سے ان کی دشمنی زیادہ ہے، حزب اللہی افراد اور مومن و انقلابی افراد سے ان کی دشمنی اور عداوت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ دشمنوں کو معلوم ہے کہ ان کے اثر و نفوذ کے راستے میں زیادہ بڑی رکاوٹ یہی طاقتیں ہیں۔ دشمن اپنا تسلط قائم کرنے کی فکر میں ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے ذریعے جاری اسلامی تحریک کو جو اس قوم کی ترقی و پیشرفت اور سربلندی کا سبب بنی ہے، روک دے۔ ایک پرانے امریکی سیاستداں نے کہا تھا کہ "تکفیری دہشت گرد گروہ ہم مغرب والوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ اگر موجود رہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ کیونکہ ایران ایک عظیم تمدن کی تشکیل کے لئے کوشاں ہے، البتہ اس سیاسی رہنما نے سامراج کا لفظ استعمال کیا تھا جو بالکل بے محل تھا، لہذا ہمیں چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنا سب سے بڑا مخالف اور سب سے اہم دشمن سمجھیں۔" اس بات سے 'امت واحدہ بنانے' کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ہمارے آج کے معروضات یہ تھے آپ عزیز بھائیوں کی خدمت میں پیش کئے آپ سب کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں  آپ دور دراز کے علاقوں سے اور مختلف شہروں سے، یہاں تشریف لائے۔ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کی تجھے قسم دیتے ہیں، اس عظیم اور لائق قوم پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پروردگارا! اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اس عظیم انسان پر، اس عظیم رہنما پر ،جس نے ہمارے لئے اس نورانی راستے کو تعمیر کیا۔ پروردگارا! ہمیں اس راستے کے سچے پیروکاروں میں شامل فرما اور اسی راستے پر ہمیں شہادت نصیب فرما ۔ پروردگارا ! حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مبارک کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱)  یہ تقریر حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مزار پر عقیدت مندوں کے عظیم اجتماع میں ہوئی۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل مزار کے متولی حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے حاضرین سے خطاب کیا۔
۲)  سوره‌ عنکبوت، آیت نمبر ۱۴ کا ایک حصہ
۳)  شرح اصول کافی، جلد ۱، صفحہ ۴
۴) سوره‌ حج، آیت نمبر 78 کا ایک حصہ
۵) بحارالانوار، جلد ۳۳، صفحہ ۱۸
۶)  سوره‌ حج، آیت نمبر 78 کا ایک حصہ
۷)  اقبال الاعمال، جلد ۲، صفحہ ۶۸۷
۸)  سوره‌ توبه، آیت نمبر 68 کا ایک حصہ
۹)  سوره‌ مجادله، آیت نمبر ۱۴ کا ایک حصہ
۱۰)  سوره‌ فتح، آیت نمبر 6 کا ایک حصہ
۱۱)  سوره‌ محمّد، آیت نمبر 7 کا ایک حصہ
۱۲)  سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر 45 کا ایک حصہ
۱۳)  ۱۳۹۳/۳/۱۴ہجری شمسی