ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے رضاکار فورس بسیج کے ڈھائی ہزار کمانڈروں کی ملاقات

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم ‌الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین۔.
محترم بھائیوں اور بہنوں ، آپ کی آمد باعث شرف ہے اور آپ نے اپنی زندہ سانسوں اور محبت سے لبریز قلوب  اور بالخصوص ہمارے محترم سربراہوں– جناب  جعفری اور جناب نقدی – کی تقاریر نے اس امام بارگاہ کو بسیجی خوشبو سے معطر کر دیا ۔ بسیجی خوشبو کا احساس کرنا چاہیے، سونگھنا چاہیے،  اس عجیب اور مبارک وجود کی حقیقت کو صحیح سے سمجھنا چاہیے۔  روز بسیج کے موقع پر آپ سب کو مبارک باد بھی پیش کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ  آپ بھائیوں اور بہنوں میں سے ہر ایک اور اسی طرح وہ لوگ  جو آپ کی سرپرستی میں ہیں، حضرت صاحب الزمان (ارواحنا فداہ) کی رضایت آپ سب کی شامل حال ہو، آپ سے راضی ہوں، آپ کے لئے دعاگو ہوں اور انشاء اللہ دنیا و آخرت میں اپنے دلوں، جانوں اور جسموں میں یہ مقدس انوار لئے محشور ہوں۔
فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہاں چند مطالب پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ وجود بسیج، ایک ابتکاری وجود ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ممالک اور دوسرے علاقوں میں عوامی مزاحمتی فورسز کا وجود نہیں ہے؛ کیوں نہیں، یہ سب ہمیں معلوم ہے لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں مزاحمتی فورسز – مغرب و مشرق میں اور اس طرح دوسری جگہ– معمولاً گھٹن ، دباؤ  اور جدوجہد کے ماحول سے مربوط ہیں؛ جب یہ جدوجہد کا زمانہ ختم  ہوا ، یا تو انہی مزاحمتی گروہ  نے اقتدار حاصل کرلیا یا ان کی مدد سے دوسرے لوگ اقتدار تک پہنچے،  یہ مزاحمتی قوت ختم ہوجاتی ہے اور لوگوں کہ یہ گروہ ختم ہوجاتے ہیں؛ دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے؛ جو لوگ افریقا، یورپ، ایشا اور  مختلف ممالک میں عوامی مزاحمت سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں۔ وہ زمانہ فرض کریں جب فرانسویوں کا الجزائر پر غلبہ تھا، لوگوں کے مزاحمتی گروپس بنے، کئی سال لڑے بھی – شاید تقریباً آٹھ سال ، دس سال، شدید جنگ لڑی – بہت زیادہ سختیاں بھی اٹھائیں لیکن جب ایک انقلابی حکومت بن گئی، پھر ان گروپس کا نام و نشان ہی نہیں تھا؛ ان میں سے کچھ اقتدار تک پہنچے، بعض نے گروہ بنالئے، [لیکن] مزاحمتی گروہ کے نام سے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ یا مثلاً فرانس میں جس زمانے میں جرمنی کا قبضہ تھا، مزاحمتی گروپس تھے – بائیں، دائیں، متوسط- خوب  لڑے بھی لیکن  جب تسلط ختم ہوا اور حکومت بنی، پھر ان گروپس  کا کچھ پتہ نہیں چلا؛ ختم ہوگئے، صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ میں نے عرض کیا یا تو اقتدار تک پہنچ جاتے تھے – اور وہی لوگ جب اقتدار تک پہنچتے تھے تو اقتدار کی آفتوں  میں گھر جاتے تھے؛  میں نے اس چیز کو اپنی آنکھوں سے بعض ممالک میں دیکھا ہے؛ وہی لوگ  جنہوں نے اہم مورچوں، خاک  اور زمین پر کئی سال جدوجہد کی تھی تاکہ حکومت تک پہنچ جائیں ، پھر اپنے اقتدار کے زمانے  میں اُسی طرح کے کام انجام دینے لگے مثلاً پرتغال کے کمانڈر کی طرح رویہ اختیار کرتے ہیں، جو ان سے پہلے اس ملک پر حاکم تھا  ؛ ان کا رویہ بھی اُن ہی کے رویے کی طرح تھا، کوئی فرق نہیں تھا؛ ان کی جدوجہد کا ہدف حکومت تک پہنچنا تھا؛  اس بات کا میں نے خود کئی بار مشاہدہ کیا ہے – اور اس طرح ہوتا ہے، حقیقت میں چہرے تبدیل ہوتے ہیں؛ یا پھر  ایسا نہیں ہوتا، دوسرے لوگ اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں،  یہ لوگ مثال کے طور پر پارٹی بناتے ہیں؛ انہی ممالک میں موجود بعض پارٹیوں کی طرح کہ حقیقت میں اُن پارٹیوں کی جدوجہد بھی صرف اقتدار تک پہنچنے کیلئے تھی۔ آج مغربی سیاسی پارٹیاں اور پوری دنیا میں اِن ہی کی پیروی کرنے والی پارٹیوں کا مقصد اقتدار ہے؛ یعنی ایک پارٹی جدوجہد کرتی تاکہ حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لے؛ پھر ایک اور پارٹی جدوجہد کرتی تاکہ حکومت کو اِن کے ہاتھوں سے چھین لے۔ یعنی آج پارٹیاں – جنہیں دنیا میں سیاسی پارٹیوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے – حقیقت میں اُس پارٹی کے عقیدے کے مطابق اعلی مفاہیم و  معارف تک  پہنچنے کا زمینہ نہیں ہیں،  اُس طرح نہیں ہے جیسا کہ  انقلاب کے شروع میں ہمارے ذہنوں میں پارٹی کا تصور تھا،  آج دنیا میں ایسا نہیں ہے؛ ہدف یہ ہے کہ ایک پارٹی ہو – ایک انجمن یا ایک  مجموعہ کی طرح – جو خود کو اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کرے؛ جب اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہی پہلی حکومت کی طرح ہوجاتے ہیں؛ کوئی فرق نہیں رہتا۔ لہذا مزاحمتی گروہ کامیابی کے بعد منحل ہوجاتے تھے، ختم ہوجاتے تھے۔  ایسا کہ کوئی مزاحمتی پارٹی، مسلسل  روانی ، ایک جوش مارتے ہوئے دریا کی طرح کامیابی کے دور میں بھی باقی رہے اور دن بہ دن  ترقی کی منازل طے کرے، اُن کی معلومات میں اضافہ ہو، ملک کی ضرورت کے مطابق مختلف  جہتوں میں اجتماعی طور پر شرکت کرے،  مقدار اور کیفیت کے لحاظ  پیشرفت کرے،  جدید مطالب تک دسترسی پیدا کرلے،  نئی وجود میں آنے والی جنگوں میں اپنا کردار پیش  کرے،  جس طرح کہ ہماری بسیج ہے، یہ دنیا میں بے نظیر ہے؛  دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں۔
یہ بھی امام کا ہنر تھا؛  امام (رضوا ن اللہ علیہ ) نے عام لوگوں سے بسیج کو بنایا۔  بسیج، عوام سے الگ کوئی اور چیز نہیں؛ مختلف  حصوں میں بٹے ہوئے انسانوں کا نام ہی بسیج  ہے-  یونیورسٹیوں، کھیتوں، مارکیٹوں میں، بے شمار سسٹمز میں چاہے کوئی عہدے دار ہوں یا عہدہ دار  نہ ہو– لیکن بسیجی ہیں،  بسیجی مجموعہ کا حصہ ہیں۔ بسیج حقیقت میں لوگوں کی اکثریت میں سے ایک خصوصی انتخاب  کا نام ہے؛ لوگوں کا ایک نمائندہ  ہے؛ یہ ہے بسیج۔ اسے امام (رضوان اللہ علیہ) نے بنایا اور یہ دن بہ دن ترقی کی منازل طے کر رہا ہے؛ انہوں نے ان ہی لوگوں کے ذریعے بہت ہی عجیب،  عظیم اور نمایاں  چیزیں ظاہر کیں۔  ہمارے سپاہیوں میں سے بہت سے کمانڈرز – یا تو شہید ہوگئے ہیں، یا الحمد للہ زندہ ہیں،  کہ اُن لوگوں  سے حیرت انگیز چیزیں سننے کو ملتی ہیں یا اُن کی تحریروں میں پڑھتے  ہیں – یہ بسیجی ہیں؛ شروع میں یہ لوگ بسیجی کی حیثیت سے آئے، ان پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں تھی؛ دفاع مقدس کے مرحلے میں بسیج کے عنوان سے شرکت کی پھر  اُن کی صلاحیتیں اُجاگر ہوئیں پھر یہ عظیم سرداروں میں تبدیل ہوگئے جیسے شہید باقری، شہید کاظمی، شہید بروجردی ، وغیرہ، وغیرہ، وغیرہ؛  یہ تو میدان جنگ کی بات ہے ۔ علمی میدان میں بھی ایسا ہی ہے؛ ان میں سے بہت سے ایسے افراد جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں بڑے بڑے کام کئے ہیں یا بسیجی تھے یا اب تک بسیجی ہیں؛ چاہے ان کا نام  بسیجی تنظیم میں درج  ہی نہ ہو، [لیکن] خود کو بسیجی سمجھتے ہیں؛  یہی ایٹمی توانائی کے شہداء – رضایی نژاد، احمدی روشن، شہر یاری، علی محمدی، وغیرہ، وغیرہ – وہی لوگ جنہوں نے اعلی ایٹمی توانائی کے  فنی مسائل میں  اپنا کردار ادا کیا کہ ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، حقیقت میں یہ لوگ  بسیج کے اجزاء ہیں۔ بسیج کی ایک واضح تعریف ہے: لوگوں کی اکثریت جو بلند الٰہی ہدف اور  بغیر تھکن کے ہر اس میدان میں موجود ہوتے ہیں جہاں ضرورت ہوتی ہے؛  اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتے ہیں، ہر چیز کی بازی لگا دیتے ہیں اور  اس راستے میں کسی چیز بھی نہیں ڈرتے؛ یعنی اپنے جانوں کو ہتھیلی پر لیئے رہتے ہیں۔ اچھا یہ بات کہنے میں تو آسان ہے کہ "فلاں اپنی جان ہتھیلی پر لئے ہوئے ہے" لیکن  عملی میدان میں اتنا آسان نہیں ہے۔ بسیجی وہ ہوتا ہے جو اس مشکل کام کے لئے – یعنی اپنی جان سے گزر جانے کےلئے، یہاں تک کہ بعض اوقات اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہے؛ یہ ہیں بسیج کے معنی۔ یہ ہمارے ملک کی خصوصیات میں سے ہے،  یہ اسلامی انقلاب سے مخصوص اورجمہوری اسلامی سے مربوط ہے۔
خوب، بسیج کی ایک خصوصیت حاضر ہونا ہے اور اسے باقی رہنا چاہیے؛ فوجی، علمی ، ہنری میدانوں میں – اچھا شہید آوینی ایک بسیجی ہے؛ فرض کریں  فلاں  ذمہ دار ہنرمند،  چاہے وہ بصارتی فنون ، شعر، ادبیات اور اس طرح کے دوسرے فنون میں دلچسپی رکھتا ہو، یہ ایک بسیجی ہے – چاہے ٹیکنالوجی میں  ہو، چاہے آج کل کے اقتصادی مسائل ہوں  کہ میں نے خود حکومت سے سفارش کی کہ بسیج رضاکارانہ طور پر اقتصادی مسائل کے حل کے لئے حاضر ہے کہ اپنا کردار پیش کرے۔  البتہ یہاں پر بسیج کے محترم سربراہ اور سپاہ محتاط رہے کہ  اقتصادی میدانوں میں کئی جگہ پھسلنے کا امکان ہے؛ "جب کیچڑ زیادہ ہوجاتی ہے تو  ہاتھی بھی پھسل جاتے ہیں"( )،  بہت خیال رکھیں۔ میں بعد میں اشارہ کروں گا، دشمن کی چالوں میں سے ایک یہی اقتصادی اور مالی مسائل  ہیں  اور ایسے دوسرے مسائل کہ جن  پر کڑی نظر رکھنی چاہیے، بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ جیسا کہ انسان ہمیشہ امتحان کی حالت میں ہے، یہ جان لیں؛  اور آپ جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں واضح ہے۔  یعنی انسان اگر بعلم باعورا بھی بن جائے – جس کی خداوند عالم کی بارگاہ سے کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی تھی اور جو بھی دعا مانگتا تھا قبول ہوجاتی – اور یہاں تک پہنچ جائے، پھر بھی لڑکھڑا سکتا ہے، ممکن ہے کہ لڑکھڑا جائے۔  ایک ایسا راستہ ہے کہ جس کے ذریعے آپ اوپر جا رہے ہیں؛  اس اوپر جانے والے راستہ پر ہر لحظہ ، ہر لمحہ  اور ہر قدم پرآپ کے پیروں کے نیچے ایک  کھائی ہے ؛ ہر لمحے؛ جتنا بھی اوپر چلے جائیں وہ کھائی  مشکل، دشوار اور خطرناک تر ہوتی جائے گی؛  احتیاط کرنی چاہیے کہ میں اس  احتیاط کے بارے میں بھی بیان کروں گا۔ خوب، پس زیادہ سے زیادہ حاضر ہونا بھی – اُن تمام فیلڈز میں جس کا ذکر کیا یا ذکر نہیں کیا بسیجیوں کے حضور کے قابل ہے –خصوصیات میں سے ایک ہے۔
بسیج کے حاضر ہونے کا مطلب لوگوں کا حاضر ہونا ہے؛ جب کوئی بسیجی ایک جگہ موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران حاضر ہے – اُسی طرح کہ جیسے عرض کیا – بسیج ملت ایران کیلئے   مثال  اور نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے، پوری ملت ایران کے لئے ایک علامت ہے۔ خوب، یہ بات بھی معلوم ہے کہ یہ حاضر ہونا بھی  آئیڈیلز کے دفاع کے لیے ہے،  اقدار کی حفاظت  کے لئے ہے،  انقلابی اور قومی شناخت کی حفاظت کے لئے ہے، اس قوم و ملک کی مدد کرنے کے لئے ہے تاکہ اپنے شایان شان مقام تک پہنچ سکے  اور انقلاب کی برکت سے اُس کی نقشہ کشی کرلی گئی ہے اور اُس کی طرف گامزن ہے؛ بسیج کا حاضر ہونا ظاہراً اس معنی میں ہے؛ اسکا دفاع کرنا چاہیے۔
اچھا، جب ہم کہتے ہیں کہ دفاع کرنا چاہیے، ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے  کیا کسی حملے کا سامنا ہے جو دفاع کریں؟  کیا کوئی دشمن ہے کہ جس کے مقابلے میں دفاع کرنا چاہیے؟ ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے۔ آپ لوگ اس  سوال کے جواب کو واضح طور پر جانتے ہیں ؛ جی ہاں، دشمن ہے؛ غدار( )،  چالاک،  حیلہ گر، بے ایمان، شیطان صفت دشمن  جو اس عظیم تحریک کے سامنے کھڑا ہے؛ وہ دشمن کون ہے؟ استکبار۔
البتہ  آج کل استکبار کی علامت امریکا ہے؛ ایک زمانے میں برطانیہ تھا۔ یہ دشمن بیکار نہیں ہے؛ مصروف ہے؛  ہمیشہ سرگرم ہے۔ ہمارے عزیز سردار جعفری نے اپنی گفتگو کے شروع میں جو تجزیہ پیش کیا،  یہ مکمل طور پر صحیح تجزیہ ہے۔  آج استکباری تحریک اور  اقدار، قومی آزادی اور شناخت کی تحریک (جس کا مظہر انقلاب اسلامی یا جمہوریہ اسلامی ہے)کے مابین عالمی تنازعہ ہے ؛  دنیا میں آج اس نام سے جنگ ہے؛ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے تنازعات نہیں ہیں؛ کیوں نہیں، بالاخر کتے بھی ایک مردار کیلئے  آپس میں لڑ جاتے ہیں، ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں، یہ بھی ہے لیکن اصلی لڑائی یہ ہے ، اصلی راستہ اور محاذ یہ ہے؛ لہذا دشمن کا وجود ہے، دشمن حساس ہے۔
عرض کیا کہ آج کل استکبار کا مظہر امریکا ہے؛  لیکن یہ استکبار کی سیاسی مشینری ہے،  استکبار کی صرف سیاسی مشینری ہی نہیں بلکہ  کبھی  اس کا مالی نظام زیادہ اہم اور مؤثر ہوتا ہے؛ [مثلاً] یہ بڑی بڑی کمپنیاں اور گروپس اور دنیا کے امیر ترین افراد  جو بنیادی طور  پر صہیونی ہیں؛ یہ استکباری گروپ ہے؛ یہ ہمیشہ سرگرم ہیں۔ حقیقت میں مال بھی اور طاقت بھی، مال اور طاقت؛ اب ایک مثلث بنائی ہے مال، طاقت ، دھونس و دھمکی( )۔پہلے جب ہم یہ کہتے تھے کہ زر، زور اور تزویر تو اس سے ہماری مراد مذہبی دھونس و دھمکی ہوا کرتی تھی تھی۔ یعنی ایسے عناصر جو دین کا لبادہ اوڑھ کر آتے ہیں  اور راستہ صاف کرتے ہیں تاکہ مال و دولت کے لشکر داخل ہوں۔ لیکن آج دھونس و دھمکی سے ہماری مراد صرف مذہبی دھونس و دھمکی نہیں، سیاسی دھونس و دھمکی بھی ہے ؛ یعنی سیاسی سسٹمز، ڈپلومیسی سسٹمز، بہت ہی شدت سے تزویر، سازشوں اور پلاننگ میں لگے ہوئے ہیں؛ ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ آتے ہیں، اپنی بانہوں کو کھول کر استقبال کرتے ہیں اور اسی حالت میں  جیسا کہ آپ نےبعض فلموں میں دیکھا ہے،  جس کو گلے لگاتے ہیں  اُسی کے دل میں چھرا گھونپ دیتے ہیں۔  بنابریں  آج کل سیاسی اور ڈپلومیٹک تزویر بھی ہےکہ جس سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اچھا، یہ ایک دشمن ہے، یہ دشمن مختلف شکلوں میں ظاہر ہوسکتا ہے۔  ہمیں ان سب باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؛ یعنی ہمیں ہمیشہ اس چیز کی تکرار کرنی چاہیے، مشق کرنی چاہیے، جب تک نہ جان لیں کہ کیا کام کرنا چاہیے اس چیز کو فراموش نہ کریں؛ ہم سب – ملک کے سیاستدان،  ذمہ داران، آپ  بسیجی اور تمام وہ لوگ جو  ایکٹو ، فکر کرنے والےاور کام کرنے والے ہیں – ان سب کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ایک قسم کی دشمنی، سخت دشمنی ہے؛ بمب گراتے ہیں، گولیاں مارتے ہیں، دہشت گرد بھیجتے ہیں۔ دشمنی کی دوسری قسم ، نرم دشمنیاں ہیں کہ میں نے چند روز قبل اثر و رسوخ پیدا کرنے  کے مسئلے کو پیش کیا؛ اثر و رسوخ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ یہ اثر و رسوخ جو ہم کہتے ہیں، یہاں کچھ لوگ آگے سے جواب دیتے ہیں؛ آقا اثر و رسوخ ایک گروہی مسئلہ ہوگیا ہے، پارٹی بازی کی گئی ہے؛ مجھے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ٹھیک ہے، اپنی جماعت سے استفادہ نہ کریں، اثر ورسوخ کے بارے میں بیہودہ گفتگو نہ کریں، ضروری محتوا کے بغیر اثر ورسوخ کے بارے میں بات نہ کریں ؛ ان سب باتوں سے ہمیں سروکار نہیں لیکن ہر بات کہی جاتی ہے،  ہر کام  اہم [ہوتا ہے]، اثر و رسوخ کی اصل حقیقت سے غفلت نہ ہو؛  ہمیں غفلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دشمن اثر و رسوخ کے درپے ہے۔ میں ابھی اثر و رسوخ کی تھوڑی وضاحت کرتا ہوں کہ اثر و رسوخ کیا ہے اور کس طرح ہوتا ہے؛  ہم اصل قضیہ کو فراموش نہ کریں۔ ایک جماعت دوسری جماعت پر تہمت نہ لگائے؛ یہ کہے کہ جناب آپ نے جو کہا اس سے مراد یہ ہے، دوسرا کہے نہیں آپ نے جو کہا اس کا مطلب یہ ہے، بہت اچھا، اس کا جو بھی مطلب تھا۔ بالاخرحقیقت فراموش نہ ہو؛ دشمن اثر و رسوخ کے لئے مستقل پلاننگ کر رہا ہے۔
اثر و رسوخ دو طرح کا ہوتاہے: ایک موضوعی اثر و رسوخ ہے، انفرادی اثر و رسوخ ہے؛ اور ایک   گروہی اثر و رسوخ ہے۔ موضوعی اثر و رسوخ کی بہت سی مثالیں ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ فرض کریں کہ  آپ کے پاس کوئی سسٹم ہے، آپ اُس کے مسئول ہیں؛ آپ کے سسٹم میں ایک آدمی  کو بھیجتے ہیں جس کے چہرے پر ماسک یا میک اپ ہوتا ہے؛ جب تک وہ اپنا کام انجام دے، آپ سمجھتے ہیں دوست ہے جبکہ وہ دوست نہیں ہوتا،  کبھی جاسوس نکلتا ہے ایسا بہت کم ہوتا ہے؛ یعنی اس کی سب سے سادہ مثال جاسوسی ہے،  مخبر ہے؛ کبھی اُس کا کام جاسوسی سے بڑھ کر ہوتا ہے، آپ کے ارادوں کو بدل دیتا ہے۔ آپ ایک منیجر ہیں، ایک مسئول ہیں، فیصلے کرنے والے ہیں، آپ کوئی بہت بڑا کام انجام دے سکتے ہیں، اگر آپ نے اس کام کو اس طرح انجام دیا تو یہ دشمن کیلئے سودمند ہے، وہ آکے ایسا کام کرتا ہے کہ آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتے ہیں؛ یعنی آپ کے فیصلوں میں مداخلت۔ تمام سسٹمز میں ایسا ہے؛ صرف سیاست میں ایسا نہیں ہے، روحانی اور مذہبی اداروں میں بھی ہمیشہ سے موجود ہے۔  آقا سید حسن تھامی مرحوم جو ہمارے ملک کے بڑے علماء میں سے تھے اور بیرجند میں رہتے تھے، بیرجند چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کرلی؛  بہت بڑے عالم تھے، اگر قم یا نجف میں ہوتے تو حتماً مرجع تقلید بن جاتے؛ بہت ہی دانا انسان تھے۔ انہوں نے خود مجھ سے نقل کیا؛  اُس وقت جب عراقی انگریزوں سے لڑ رہے تھے – ۱۹۱۸ میلادی میں؛ تقریبا سو سال پہلے – اُس وقت  کے مراجعین میں سے ایک کے پاس ایک نوکر تھا جو بہت ہی اچھا آدمی تھا، طالبعلموں سے بہت اچھی طرح ملتا، باتیں کرتا، سب کو جانتا تھا، سب کا دوست تھا؛ انہوں نے اس کا نام بھی بتایاجو مجھے یاد نہیں۔ اُنہوں نے کہا جب انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور عراق میں داخل ہوئے تو آخری جگہ جہاں وہ داخل ہوئے وہ نجف تھی، طالبعلموں کو خبر ملی کہ فلاں آقا کا وہ نوکر، انگریزں کا ایک افسر ہے! کہنے لگے کہ میں نے یقین نہیں کیا؛ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ پھر کہنے لگے کہ میں بازار حویش – نجف کا مشہور بازار- میں جا رہا تھا،  میں نے دیکھا کہ سات ، آٹھ یا دس افراد ، انگریزوں کے افسر اور سپاہی گھوڑے پر بیٹھے آرہے ہیں – اُس زمانے میں گھوڑے پر سفر کیا جاتا تھا- ایک افسر اُن سب سے آگے آگے تھا؛ خوب، میں کنارے کھڑا ہوگیا تاکہ یہ لوگ گزر جائیں؛ جب میرے نزدیک پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہ افسر جو آگے تھا، گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے کہنے لگا: آغا آسید حسن آپ کے کیا حال ہیں! میں نے دیکھا تو یہ وہی شخص تھا جو فلاں مرجع کا نوکر تھا؛ ہم کئی سالوں سے اس کو وہاں دیکھ رہے ہیں۔ کبھی اس طرح کا اثر و رسوخ ہوتا ہے؛ اسے شخصی اثر و رسوخ کہتے ہیں؛ کسی کے گھر یا سسٹم میں گھس جاتے ہیں۔ سیاسی نظاموں میں تو الی ماشاء اللہ اس کی بہت سی مثالیں ہیں؛ ممکن ہے آج بھی ہو؛ یہ بہت ہی خطرناک ہے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک اثر و رسوخ وہ ہے جو گروہی شکل میں پایا جانے والا اثر و رسوخ  ہے۔ یعنی لوگوں کے درمیان مختلف نیٹ ورکز بچھا رہے ہیں؛ پیسے کے ذریعے اب یہاں پر پیسے اور اقتصادی امور کا کردار  واضح ہو جائے گا۔ خاص طور سے دو ذریعے [ہیں] پیسہ اور دوسرے جنسی کشش  (Sexual attraction)۔ لوگوں کو گھیرتے ہیں،  ایک دوسرے کے قریب لاتےہیں؛  ایک جھوٹا اور جعلی ہدف سامنے رکھتے ہیں اور با اثر افراد کو ، ایسے لوگ جو معاشرے کیلئے مؤثر ہوں،  اپنے مخصوص راستے پر بلاتے ہیں۔  وہ مخصوص راستہ کیا ہے؟ وہ آپ کی آرزؤں، یقین ، نگاہوں اور لائف اسٹائل کو تبدیل کرنا ہے؛  ایسا کام کرتے ہیں کہ جس پر انہوں اثر و رسوخ کرلیا ہے ، جو اثر و رسوخ کے زیر اثر آچکا ہے، یہ شخص  بالکل اسی طرح سوچے جس طرح آمریکائی سوچتے ہیں؛  یعنی ایسا کام کرتے ہیں کہ آپ ایک مسئلہ کو بالکل اسی طرح دیکھیں جیسے ایک امریکی دیکھتا ہے  البتہ ایک امریکی سیاستدان کو، امریکا کے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں – آپ اسی طرح تشخیص دیں جس طرح  C.I.A کا ایک اعلیٰ افسر تشخیص دیتا ہے؛ اور نتیجہ میں آپ وہی چاہتے ہیں جو اُن کا مورد نظر ہے۔ اسی وجہ سے وہ آسودہ خاطر ہیں؛ اس چیز کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ خود کو خطرے میں ڈالیں ، میدان عمل میں آئیں، آپ خود اُن کے لئے کام کر رہے ہیں؛ ہدف یہ ہے، اثر و رسوخ کا مقصد یہ ہے؛ گروہی اثر و رسوخ، میڈیا کا اثر و رسوخ ، وسیع اثر و رسوخ، نہ کہ شخصی۔  اگر یہ اثر و رسوخ اُن لوگوں کے ذریعے پھیلے جو ملک کی تقدیر، سیاست اور مستقبل پر گہرا اثر رکھتے ہیں  تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا؟ آرزوئیں بدل جائیں گی، اقدار بدل جائیں گے،  مطالبات بدل جائیں گے، اعتقادات تبدیل ہوجائیں گے۔
آج جو آپ دیکھ رہے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین کے مسئلہ میں ایک ملت پر آشکارا ظلم ہو رہا ہے؛  اسے دیکھ رہے ہیں؛ یہ آپ کی دید ہے۔ وہ جس پر اپنے گھر میں – ایک فلسطینی عرب ، چاہے مسلمان ہو یا عیسائی – ظلم ہو  رہا ہے،  امریکی نقطہ نگاہ سے وہ سزا کاٹ رہا ہے ۔ آپ کی نظر میں وہ مظلوم ہے؛  جب آپ کے دیکھنے کے انداز کو بدل دیگا تو آپ بھی اُس کی طرح دیکھنے لگیں گے اور کہیں گے کہ اسرائیل  اپنے شناخت کا دفاع کر رہا ہے! کیا اوباما نے نہیں کہا؟  اُس وقت جب یہ لوگ غزہ کی مظلوم عوام پر دن رات بمباری کر رہے تھے،  بے یارو مددگار لوگوں کے گھروں، زندگیوں، کھیتوں، بچوں ، اسکولوں اور ہسپتالوں  پر حملے کر رہے تھے، امریکا کے صدر نے کہا کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے! یعنی اس طرح دیکھتے ہیں۔  اس طرح سے نیٹ ورکنگ کرتے  ہیں اور جال بچھاتے ہیں  کہ اگر کوئی مثلاً ایران یا کسی دوسرے ملک میں رہ رہا ہو  تو اُس کے دیکھنے کا انداز بدل جائے؛ اثر و رسوخ کے معنی یہ ہیں؛ دیکھیں یہ کتنا خطرناک ہے ۔
اور اثر و رسوخ کا ہدف بھی کون لوگ ہیں؟ خاص طور سے خواص، با اثر شخصیات،  فیصلے کرنے والے یا فیصلے بنانے والے افراد، اثر و رسوخ کا ہدف یہ لوگ ہیں؛  کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں پر اثر و رسوخ پیدا کیا جائے؛ اسی لئے  اثر و رسوخ خطرہ ہے؛ اثر و رسوخ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں آغا زید چاہتا ہے  کلمہ اثر و رسوخ سے جماعتی استفادہ کرے،  اس سے مسئلے کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی۔  اب استفادہ کرے یا نہ کرے، غلط کر رہا ہے جو اپنی جماعت سے استفادہ کر رہا ہے؛ حقیقت میں قضیہ یہ ہے؛ اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
اور اطراف میں ہونے والے دوسرے کام اس اثر و رسوخ کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں؛  ایک وہ چیز جو اس اثر و رسوخ  کے لیے مددگار ہے، وہ  اُن لوگوں کا کیڑے نکالنا ہے جو  بنیادوں، صحیح نگاہوں اور اقدار  پر اصرار کرتے ہیں؛ اس سے اثر و رسوخ کی تکمیل ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ وہ لوگ جو بسیج میں کیڑے نکالتے ہیں اور اُس پر  انتہاپسندی، سختی اور نہ جانے کس کس طرح کی تہمت لگاتے ہیں، اثر و رسوخیوں کے ساتھ مل کر آگاہانہ کام کر رہے ہیں، اُنکا ہاتھ بٹا رہے ہیں؛ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا، مجھے نہیں معلوم لیکن حقیقت میں یہ ایک طرح کی مدد ہے۔ وہ لوگ جو مختلف شعبوں، مختلف انداز سے  بسیج پر انتہاء پسندی، شدت پسندی وغیرہ وغیرہ  کی تہمت لگاتے ہیں حقیقت میں اثر و رسوخ  کے کام کی تکمیل کر رہے ہیں؛  اثر و رسوخ کا پروجیکٹ ان کے ذریعے مکمل ہو رہا ہے؛  کیونکہ بسیج ایک  بلند مستحکم دیوار کا حصہ ہے؛ بسیج ایک مضبوط دیوار ہے؛ اس دیوار کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔
میں سفارش کرتا ہوں، نصیحت کرتا ہوں اُن تمام افراد کو جو مختلف جگہوں پر گفتگو کرسکتے ہیں، اور بات چیت کرسکتے ہیں، اس بات کی کوشش نہ کریں کہ ملک کی اصلیت اور انقلاب کی اصلی بنیادوں کو کمزور کریں؛  جیسے ہی کسی نے اصلیت کی بات کی تو فوراً نہ کہیں کہ یہ انتہاء پسندی کی بات کر رہا ہے یاشدت پسندی کر رہا ہے، یا کیا کر رہا ہے، یا اپنی پارٹی کی بات [کر رہا ہے]؛ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اصلیت میں خرابی نہ نکالیں، انتہاء پسندی کی تہمت نہ لگائیں؛  انقلاب  کی روشن دلیلوں کا انکار نہ کریں؛ انقلاب کی کچھ روشن دلیلیں ہیں؛  انقلاب میں کچھ واضحات اور محکمات ہیں۔ خوب، امام کے بیانات پر مشتمل بیس سے زیادہ جلدیں ہیں؛ امام انقلاب کا مظہر تھے،  امام انقلاب کے ترجمان تھے، انقلاب کے حقائق کو بیان کرنے والے تھے۔ غور سے دیکھیں اور مشاہدہ کریں کہ امام (رہ) نے کن چیزوں پر  اعتماد کیا ہے۔  انقلاب کے دلائل کا انکار نہ کریں، یہ بہت ہی اہم چیزیں ہیں۔
میں بسیج کو بہت اہم ادارہ سمجھتا ہوں؛ بسیج کو ایک بہت ہی اہم ، مؤثر ، اور ایسا بابرکت وجودسمجھتا ہوں جس کا مستقبل روشن ہے؛  میری نظر میں یہ جو کوششیں کی جا رہی ہیں، کام انجام دیئے جا رہے ہیں، خراب کاریاں پیدا کی جا رہی ہیں، یہ بسیج کو سست نہیں کرسکتے؛ بسیج کی جڑیں انشاء اللہ دن بہ دن پھیلتی ہی جائیں گی۔ ایک دن بسیج ایک نازک اور باریک پودا تھا؛ آج ایک تناور درخت ہے اور خدا کے فضل سے اس سے بھی اچھا اور وسیع ہوگا، لیکن ہوشیار رہیں کہ اس تناور درخت کو آفتیں نہ گھیر لیں۔ یہاں اب میں آپ سے مخاطب ہوں؛ ہوشیار رہیں۔ کبھی ایک درخت کو کاٹنے کے لیے آری لاتے ہیں ، اُس آری کو روکا جاسکتا ہے لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آفت درخت کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے، اس کا علاج بہت سخت ہے۔
بسیجیوں کی آفتوں میں سے ایک غرور ہے۔ ہم جو ابھی بسیجی ہیں – فاتحین اور پرچمدار کی حیثیت سے, ٹوکری میں موجود پھول کی حیثیت سے، ہماری بہت ساری تعریفیں موجود ہیں، اتنی تعریفیں موجود ہیں– دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں؛ یہ آفت ہے؛ یہ آفت ہے۔ جتنے بڑے ہو رہے ہیں، جتنا اوپر جا رہے ہیں، آپ کی تواضع میں اضافہ ہونا چاہیے؛ خدا کی بارگاہ میں آپ کے خشوع میں اضافہ ہو۔ آپ دیکھئے کہ میں اور آپ بھی استغفار کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں: استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ؛  اپنے استغفار کے طریقے کو دیکھیں اور امام سجاد کے استغفار کو بھی دیکھیں۔ ہم بھی دعا کرتے ہیں؛ اپنی دعاؤں میں التماس کو ملاحظہ کریں کس طرح کا ہے، اُن مناجات میں امیر المومنین کے  التماس کرنے یا دعای عرفہ میں امام حسین کے التماس کرنے یا صحیفہ سجادیہ میں امام سجاد کے التماس کرنے کو دیکھیں؛ وہ کہاں، ہم کہاں؛  اُن کی دعاؤں میں التماس ہم سے ہزار گنا زیادہ ہے؛  وہ استغفار میں بہت سنجیدہ ہیں۔ امیر المومنین اپنے اُس مقام، عظمت ،بندگی اور تقویٰ کے باوجود دعائے کمیل میں خدا سے خوف  کو بیان کر رہے  ہیں! جتنا بھی اوپر چلے جائیں، خود کو خدا اور اُس کی مخلوق کے سامنے [چھوٹا شمار کریں]؛  دعائے مکارم الاخلاق میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم جتنا زیادہ لوگوں کی نظروں پر اوپر چلے جائیں، اِلّا حَطَطتَني عِندَ نَفسي مثِلَها ( )؛ لوگوں کے سامنے ہمارا  مقام جتنا بھی اونچا ہوجائے، تو ہم اپنے نفس میں خود کو اتنا ہی نیچے  دیکھیں۔  اپنی ذمہ داریوں کو دیکھیں، اپنی کوتاہیوں کو دیکھیں،  اپنی کمزوریوں اور نقصانات پر نگاہ رکھیں،  ہم میں کم نقائص تو نہیں، میں اپنی بات کر رہا ہوں، آپ جوان ہم سے بہتر ہیں لیکن نقائص سب میں ہیں؛ ہمیں اپنے نقائص کی طرف زیادہ [توجہ کرنی چاہیے]۔ لہذا غرور آفتوں میں سے ایک ہے۔ ہوشیار رہیں،  بسیجی  اور فدائی ہونے کی وجہ سے یا میں اپنی جان دینے کیلئے حاضر ہوں، اس غرور  میں گرفتار نہ ہوجائیں۔
دوسری آفت غفلت ہے۔ غرور کے نتیجے میں جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہی غفلت ہے۔ جب انسان اپنی طاقت، توانائی اور اقداروں  پر بہت گھمنڈ کرنے لگتا ہے،  آسودہ خاطر ہوکر غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ غفلت نہ کریں، غفلت سے دوچار نہ ہوں۔ آپ کی نگاہیں اور آنکھیں کھلی اور دقیق [ہوں]۔
ایک اور آفت – کہ میں ابھی اسی پر اکتفاء کرتا ہوں– زرق برق زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا؛ ایک طرح کا مقابلہ ہے: زرق برق زندگی کے پیچھے دوڑنا،  عیش و عشرت کے وسائل کے پیچھے رہنا، اچھی زندگی اور زیادہ  درآمد کے چکر میں رہنا۔ مقابلے کی ایک دوڑ ہے، دنیاوی لوگ اس مقابلے میں ماہر ہیں؛ اس مقابلہ میں کچھ لوگ زیادہ ہوشیار ہیں، آگے بڑھتے ہیں تاکہ کڑوڑ پتی بن جائیں ، بعض لوگوں میں اتنی ہوشیاری نہیں ہوتی۔ لیکن دنیاوی لوگ مقابلہ میں ہیں، جو دنیا پرست ہیں۔ اس مقابلے میں شامل نہ ہوں۔ اُس کے پاس اتنا ہے ، اُس نے اتنا کما لیا، میرے ہاتھ خالی ہیں، میرے پاس بھی ہونا چاہیے، ایسی باتیں نہ کریں؛ نہیں یہ صرف بسیج کی آفات میں سے نہیں بلکہ ہر مومن کے لیے ایک آفت ہے۔ ہم نے بہت سے اچھے لوگوں کو دیکھا،  بہت عقیدت مند تھے،  لیکن جب زرق برق دنیا اور اس طرح کی دوسری چیزوں میں گرفتار ہوئے ،  آہستہ آہستہ آہستہ اُن کی تیزی میں کمی آگئی، اُن کی توانائیاں کم ہوگئیں، اُن کے جذبات ماند  پڑ گئے۔  جب جذبات کمزور ہوجائیں تو ارادے بھی ضعیف ہوجاتے ہیں۔ جب ارادہ ضعیف ہوجائے تو عمل میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔ ہاتھ سے نکل گئے۔ یہ ہوتی ہیں آفتیں۔
آج بسیج کی ترجیحات کیا ہیں؟ سب سے پہلے مرحلہ میں تقویٰ اور طہارت؛  تقویٰ اور طہارت۔ تمام وہ لوگ جو اہل معنا تھے – بزرگان معنویت – ہم کبھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو  اُنہوں نے یہی تاکید کی کہ گناہ نہ کریں۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آغا کون سا ذکر پڑھیں مثلاً جو بہت ہی اچھا ذکر ہو جس سے ہم اعلیٰ مقام تک پہنچ جائیں؟ وہ جواب دیتے : سب سےپہلی بات! گناہ نہ کریں۔ یہ پہلا قدم ہے اور اگر  یہ قدم صحیح اٹھالیا گیا تو آپ کی بہت سی مشکلات – ذہنی، روحانی اور مادی مشکلات – حل ہوجائیں گی۔  سب کو گناہوں کا سامنا ہے، ہر کسی سے لغزش کا امکان ہے؛ میں نے عرض کیا: ہوشیار رہیے۔ اگر آپ اسی طرح ہوشیار رہے –یہ خود سے ہوشیار رہنا اس اپنے آپ سے ہوشیار رہنے کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ جس کا قرآن میں اتنا ذکر آیا ہے، یعنی اپنے آپ سے ہوشیار رہیں کہ گناہ نہ کریں، سرپیچی نہ کریں -  تو خداوند متعال آپ کی مدد کرے گا۔ آپ کو مضبوط رکھے گا۔ خود کو گناہوں سے بچانا خدا کی رحمت نازل ہونے کا باعث ہے، زندگی میں برکت کا باعث ہے، انسان کی زندگی، عمر، لمحات،  اوقات میں تقویٰ کی وجہ سے برکت ہوتی ہے۔ یہ میری پہلی نصیحت ہے۔
میری دوسری نصیحت بصیرت، بصیرت۔ امیر المومنین (علیہ السلام) کے اس جملے کو میں نے تقاریر میں کئی دفعہ  کہا ہے: الا ... وَ لا یَحمِلُ هَذَا العَلَم اِلّا اَهلُ البَصَرِ و الصَّبر ( )، پہلے اہل بصیرت،  جو صحیح نگاہ رکھتے ہیں، بصیرت رکھتے ہیں،  مسائل کو سمجھتے ہیں۔ بصیرت کو دن بہ دن بڑھانا چاہیے، ہمیں اندرونی مسائل کو سمجھنا چاہیے، ہمیں اس کی خبر ہونی چاہیے کہ آج کل کیا ہو رہا ہے، وہ کون سی جگہیں ہیں جہاں کبھی کبھی انسان دشمن کا احساس کرتا ہے اور وہ کون سی جگہیں ہیں جہاں انسان آسودہ خاطر اور مطمئن دل کے ساتھ چل سکتا ہے۔ بصیرت؛  دنیا میں اپنے مقام کو پہچاننا؛ ہم آج کہاں ہیں؟
کچھ لوگوں کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ خود کو ذلیل کریں۔  قوم کو ذلیل کریں ؛ آغا ہماری کوئی حیثیت نہیں! اس چیز کو مختلف زبانوں سے بیان کرتے ہیں، شروع ہوجاتے ہیں فلاں ملک یا فلاں ملک کے لوگوں یا کسی ملک کے رویے کی تعریف کرنا شروع کر دیتے ہیں، کہ حقیقت  میں ایسا ہے بھی نہیں،  زیادہ تر سینما پر دکھانے والی اُن فلموں کی طرح [ہے]۔  فلم میں دکھاتے  ہیں کہ جب پولیس آتی ہے اور کسی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے، اُس سے پہلے ہی کہہ دیتی ہے کہ  ہوشیار رہنا؛ جو کچھ بھی کہو گے ممکن ہے کہ کورٹ میں تمہارے خلاف استعمال کیا جائے؛ یعنی یہ پولیس کتنی شریف ہے  ایک ملزم – ایسا آدمی جس کے مجرم ہونے کا امکان ہے -  کو پہلے ہی سے نصیحت کر رہی ہے کہ خیال رکھنا تمہارے منہ سے کوئی اضافی بات نہ نکلے  جو کورٹ میں تمہارے خلاف جائے؛  مغربی پولیس ایسی ہوتی ہے؟ امریکی پولیس ایسی ہے؟  یہ ہالیورڈ کی بنی ہوئی فلمیں ہیں۔ امریکی پولیس جب کسی کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال دیتی ہے، ہتھکڑی باندھنے کے بعد اُسے مارتے ہیں، گولی مارتے ہیں، قتل کر دیتے ہیں؛ ایک شخص کو جیب میں کھلونے والی بندوق  رکھنے کی وجہ سے گولی مارکے قتل کر دیتے ہیں۔ یہ پولیس ہے؟ سینما پہ دکھائے جانے والی فلمیں  جھوٹ کو سجا کر پیش کرتی ہیں؛  کورٹ کو، پولیس کو، حکومت کو، نظام کو، وغیرہ، وغیرہ کو؛ خوب فلم ہے۔ بعض لوگوں کا مضمون لکھنا، کچھ لکھنا، بولنا، ہالیورڈ کی انہی فلموں کی طرح ہے؛ کوشش کرتے ہیں کہ جو چیز دوسروں کے پاس نہیں ہے، اُنہیں ان سے آراستہ کریں،  اُن کی سجاوٹ کریں؛ حقیقت میں ہماری ملت میں احساس کمتری ایجاد کرنا چاہتے ہیں؛ نہیں جناب، ایسا نہیں ہے؛ ہماری قوم ایک عظیم قوم ہے، اس نے خود کو کامیابی کے ساتھ بڑے بڑے امتحانات   سے نکالا ہے، بڑے بڑے کام بھی کئے ہیں؛  ہماری قوم ایسی قوم ہے کہ جب جنگ میں اسیر گرفتار کرتی ہے تو اُس اسیر کو نہیں مارتی، اُسے قتل نہیں کرتی، اس کا علاج کرتی ہے؛  اپنے تھرماس سے اُسے پانی پلاتی ہے؛ ہماری قوم ایسی قوم ہے۔  چند برے افراد جن پر فلاں ملک کے جاسوسی ہونے کا الزام تھا – کہ اُن کے جاسوس ہونے کا امکان بھی  تھا – سمندر سے پکڑتے ہیں، یہاں لاتے ہیں، پھر اُنہیں نئے لباس دے کر اپنے اپنے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ہماری قوم ایسی قوم ہے۔ رویےمیں، مہربانی میں، انصاف میں، پھر شجاعت میں۔  ہماری قوم ایسی قوم ہے جس نے چند دہائیوں سے ذلت کے ہار کو  اپنی گردن سے اُتارا دیا ہے، اس نے عزت کی بلندیوں پر بات کرکے دکھایا؛ ہم ایسی قوم کے حامل ہیں؛ کوئی مذاق نہیں۔ مختلف ممالک، دنیا کے طاقتور ممالک سر جوڑ کر بیٹھے کہ ایران اسلامی کے ساتھ کیا  کیا جائے؛ جی ہاں، یہ ایک قوم کی طاقت ہے؛ مادی طاقت، فوجی طاقت، سیاسی طاقت، گفتاری طاقت، اخلاقی طاقت؛ ایسا نہیں کہ کوئی کمزوری نہیں ہے، بہت سی کمزوریاں بھی ہیں لیکن ہماری توانائیاں، ہماری اقدار،  ہماری درخشندگی کم نہیں؛ قوم کی تذلیل کیوں کرتے ہیں؟ بعض لوگوں نے اپنی عادت بنالی ہے کہ ہمیشہ ملک کی، قوم کی اور مسئولین کی تذلیل کرتے ہیں؛  بصیرت یہ ہے کہ انسان جان لے، ان حقائق کو درک کرلے، اپنے مقام، اپنے ملک کے مقام، اپنی قوم کے مقام،  انقلاب کے مقام، اُس خط مستقیم اور صراط مستقیم کے مقام کو جان لے جسے امام نے اس ملک میں رائج کیا ہے؛ ان سب کے مقامات کو جان لے؛ یہ بصیرت ہے۔
آمادگی،، کمر کسنا،  جانے کو تیاررہنا؛ یہ بھی ضروری شرائط میں سے ہے اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے بسیجی بھائیوں اور بہنوں کو یہ نصیحت کروں؛  آمادہ رہنا تھا( )۔ بہت شکریہ ، بہت شکریہ۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ تیار ہیں؛ ( )بہت خوب، کافی ہے۔ آپ نے بھی اپنی تھکن اُتار لی( )کب سے خاموش تھے  ( ) کچھ نعرے لگا کر آپ کی تھکن اُتر گئی؛ اب دھیان دیں:
آج دنیا میں جو لڑائی چل رہی ہے ایک حقیقی لڑائی ہے۔  مقابلے میں جو لوگ ہیں وہ ایسے ہیں کہ انسانی اقدار سے بہت دور ہیں، بہت زیادہ۔ لہذا ہمارے اطراف میں ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں کہ  ہم اُن کے معاملے میں لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سب سے پہلے فلسطین کا قضیہ ہے، فلسطین کا مسئلہ،  فلسطین کا مسئلہ چھوٹا مسئلہ نہیں ہے۔ اچھا، فلسطین پر تسلط سے اب تک تقریباً ساٹھ یا ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے؛ ان لوگوں- فلسطینیوں-  کی چند نسلیں گزر گئیں  لیکن فلسطینی اہداف باقی ہیں؛  دشمن کی کوشش ہے کہ وہ فلسطین کے اہداف کو نابود کردے؛ فلسطین کے اہداف باقی ہیں۔ افسوس کے ساتھ عرب حکومتیں  ایک دوسرے کے معاملات میں اتنے اُلجھے ہوئے  ہیں کہ اُنہیں فرصت نہیں یا وہ نہیں چاہتے – ایک دوسرے سے کترانا یا بہت سے دوسرے تحفظات ؛ آمریکا اور دوسروں سے ہم پیمان ہونا - کہ مسئلہ فلسطین پر سوچیں؛  فلسطین کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے،  ہم مسئلہ فلسطین کو نہیں چھوڑ سکتے۔  آج  مغربی کناروں میں مردم فلسطین کا انتفاضہ  شروع ہوگیا ہے، لوگ لڑ رہے ہیں؛  استکباری لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والے فیصلے بالکل ظالمانہ  فیصلے ہیں۔ جس کے گھر پر حملہ ہوگیا ہو اور وہ اپنے گھر میں جانی و مالی لحاظ سے محفوظ نہ ہو – آتے ہیں گھر کو بلڈوزر سے مسمار کر دیتے  ہیں، چھوٹے چھوٹے شہر بناتے ہیں، کھیتوں کو نابود کرتے ہیں – جب وہ پتھر سے حملہ کرتا ہے تو کہتے ہیں یہ دہشت گرد ہے! [لیکن] وہ سسٹمز جنہوں نے اس انسان کی زندگی، امنیت، عزت، دولت، انسانوں کی اس دنیا، سب کو اس طرح نابود کر دیا ہے، اُسے مظلوم کہتے ہیں کہ اپنا دفاع کر رہا ہے! اچھا، یہ بہت ہی [عجیب ہے]، یہ ہماری آج کی دنیا کے عجائبات میں سے ہے۔ کوئی آکر ایک گھر پر قبضہ کرلیتا ہے اور مالک مکان کو باہر نکال دیتا ہے اور اُس پر مسلسل ظلم کرتا ہے، اس سے کہتے ہیں کہ اپنا دفاع نہ کرے،  اور وہ اپنا دفاع کر رہا ہے؛  وہ بیچارہ مالک مکان  جس کا امن ختم ہوچکا ہے، گھر بھی ہاتھ سے نکل گیا، بیوی، فرزند، عزت ، حیثیت اور تمام چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، یہ اگر پلٹ کر اُسے ایک گالی دیدے  یا اُس کی طرف ایک پتھر پھینک دے تو اسے دہشت گرد کہتے ہیں! یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟ یہ کوئی چھوٹی غلطی ہے؟ یہ کوئی چھوٹی خطا ہے؟ کیا ایسا چھوٹا ظلم ہے کہ جس سے  صرف نظر کیا جا ئے؛ نہیں اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنی پوری قدرت کے ساتھ جہاں تک اور جیسے بھی ہوسکے گا مردم فلسطین کی تحریک کا دفاع کریں گے۔
ہمارے اطراف میں جو دوسرے مسائل ہیں ، وہ بھی اسی طرح ہیں، وہ مسائل بھی زیادہ تر اسی طرح کے ہیں جو آج کل اُٹھ رہے ہیں،  ایسے مسائل ہیں کہ جن میں انسان کی منصفانہ اور عادلانہ قضاوت ایک چیز ہے، مغربیوں کی خباثت آلود خود غرضانہ  اور اُن کے سیاستدانوں اور اُن کی میڈیا چینلیز کی قضاوت ایک دوسری چیز ہے۔  جیسے بحرین کا مسئلہ، جیسے یمن کا مسئلہ، جیسے شام کا مسئلہ۔
بحرین کے مسئلے میں، بحرین کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟ بحرین کے لوگ کہتے ہیں کہ ملک کے ہر ہر شہری کو حکومت چننے کے لیے ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے ، ہر شخص کا ایک ووٹ ہو۔ ٹھیک، کیا آپ نہیں کہتے "ڈیموکریسی"؟ کیا آپ لوگ نہیں کہتے کہ ہم ڈیموکریسی کا مظہر ہیں؛ ہم ڈیموکریسی کا دفاع کرنا چاہتے ہیں؟ بہت اچھے، اس سے واضح ڈیموکریسی کوئی ہوگی؟  انہیں فقط یہ حق نہیں دیتے بلکہ ان پر دباؤ ڈالتے ہیں، ان کی توہین کرتے ہیں، اُنہیں ذلیل کرتے ہیں؛ ایک قوم کی اکثریت کو – یہ لوگ اکثریت میں ہیں؛ وہ لوگ جو یہ بات کر رہے ہیں؛ ۷۰ یا ۸۰ فیصد ہیں-  وہ ظالم اقلیت  جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، جو چاہتی ہے ان کے ساتھ کرتی ہے؛ یہاں تک کہ ان کے مقدسات کی توہین کرتی ہے۔ اس محرم میں جو بھی منبر پہ جاتا، جو بھی مصائب پڑھتا، جو بھی علم لگاتا، جو بھی نوحے پڑھتا اسُ پر حملہ کرتے؛ اگر کوئی یزید پہ لعنت بھیجتا – سبحان اللہ – تو اُس پر حملہ کرتے کہ یزید پر کیوں لعنت بھیج رہے ہو! اچھا، ان کی عزت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یزیدی ہیں، یزید کے وکیل ہیں؛اسلام کی پوری تاریخ میں یزید سے زیادہ خبیث  اور بے غیرت کوئی نہیں ملتا، کیا اس پر لعنت نہیں بھیجنی چاہیے؟ اُن لوگوں پر خدا کی لعنت ہو  جو پیغمبر، اولاد پیغمبر اور پیغمبر کے خاندان کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کا رویہ ہے؛ یہ بحرین ہے۔
یمن؛ چند مہینوں سے مسلسل یمن کے لوگوں پر ایسے ہی بمباری کر رہے ہیں۔ گھر،  کاشانہ، ہسپتال، اسکول پر ایسے ہی [بمب] پھینک رہے ہیں۔ ایسے لوگ جن کا کوئی قصور نہیں، جنہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا،  اُن پر بمباری کر رہے ہیں؛ ایسے میں ڈیموکریسی اور حقوق بشر کی دعوایدار تنظیمیں  اور ان جیسے دوسرے، ان لوگوں کی مسلسل حمایت اور دفاع کر رہے ہیں ؛ ظالم دنیا یہ ہوتی ہے؛ ایسی دنیا جس کے مقابلے میں آپ لوگ کھڑے ہوئے ہیں، وہ استکبار جس کے خلاف آپ نعرے لگاتے ہیں، وہ ایسی ہے۔
شام کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے؛  کہ کچھ روز قبل شام کے مسائل کے بارے میں گفتگو کی ہے؛  جو میڈیا سے ٹیلی کاسٹ بھی ہوچکی ہے؛ یہ لوگ خبیث ترین اور شقی ترین دہشت گردوں کا دفاع کر رہے ہیں، اُن کی مدد کر رہے ہیں؛ چاہے شام ہو یا عراق۔  براہ راست مدد یا کسی واسطے کے ذریعے۔ اس بات پر مصر ہیں کہ شام کی حکومت حتماً اس طرح  کی ہو ، اس طرح کی نہ ہو۔ اچھا، کس حق کی بنیاد پر؟ ہر قوم کو اپنی تقدیر، اپنی حکومت اور اپنے سربراہوں کو خود انتخاب کرنا چاہیے۔ آپ کون ہوتے ہیں؟  اپنے خبیث اور آلودہ مقاصد کی خاطر  دنیا کے اُس کونے سے آتے ہیں ؛ استکباری دنیا اس طرح کی دنیا ہے۔ اس دنیا کے مقابلے میں با بصیرت انسان کو پتہ ہے کہ اُسے کیا کرنا چاہیے،  وہ سمجھتا ہے کہ  اُس کی پوزیشن کتنی حق سے قریب ہے۔
بسیج دوسروں کو یہ بات سمجھا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاسی پوزیشن – کہ آج ہماری حکومت کے سرکاری اور سیاسی مسئولین  اور ہمارے سسٹمز کی شام، عراق، بحرین، یمن اور فلسطین کے بارے میں ہماری پوزیشن بالکل روشن اور آشکار ہے- کتنی منطقی پوزیشن ہے کہ جسے ایک عاقل اور عادل انسان  اختیار کر سکتا ہے۔
بسیج، اسلامی جمہوری نظام کے لیے ایک برکت ہے، ایک  ذخیرہ ہے، ایک خزانہ ہے؛  نہ ختم ہونے والا خزانہ؛  جیسا کہ یہ نہ مٹنے والی قوم ہے؛  ایک خزانہ ہے۔ اور میں آپ سے عرض کروں، خدا کی توفیق سے ایران کی قابل احترام قوم اولاً اس قیمتی خزانہ کی حفاظت کرے گی، ثانیاً  اسے  نکالے گی، ثالثاً ان ہمتوں ، ارادوں اور بصیرتوں کی مدد سے  ترقی کے بلند مقام تک  حتماً پہنچے گی جو اس کے پیش نظر ہے۔ اور دشمن دیکھنے پر مجبور ہوگا اور تماشا کریگا  اور ایران کی ترقی کو دیکھے گا؛ اور اُن سے کچھ بن بھی نہ پڑے گا۔ اور انشاء اللہ اسی طرح ہوگا۔ خدا کی رحمت ہو امام خمینی پر کہ جنہوں نے ہمارے سامنے اس راستہ کو رکھا۔  خدا کی رحمت ہو ہمارے عزیز شہداء پر جنہوں نے خود فدا ہوکر ہمیں عملی درس دیا اور ہمیں سمجھا گئے کہ  کس طرح عمل کرنا چاہیے۔ اور خدا کی رحمت ہو آپ دوستوں پر کہ  الحمد للہ آج اپنی آمادگی کے ذریعے اپنی قوم کو خوش کیا   اور اُنہیں امیدوار کیا۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌