ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے عید کی مناسبت سے بعض اعلی عہدیداروں کی ملاقات

بسم الله الرحمٰن الرحیم
آپ سب کو عید مبارک ہو۔اور یہ لفظ ’’مبارک‘‘ خدا کرے اپنے حقیقی معنی میں ہو۔ عید نوروز اورعید ولادت جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارک ہو؛ یہ عید آپ کو، آپکے اہل  خانہ، بچوں اور آپکی بیگمات کو مبارک ہو،اس میں کوئی شک نہیں کہ عہدیداروں کی بیگمات کےحصے میں ثواب الھی کابہت بڑا حصہ آیا ہے۔ یہ آپ کی بہت سی ذمہ داریوں ،مصروفیتوں، مشغلوں کو برداشت کرتی ہیں۔ لیکن عوام کے سامنے آپ آتے ہیں آپ کی عزت افزائی ہوتی ہے،عوام اورخواص آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان کا(آپکی  بیگمات کا) کوئی شکریہ ادا نہیں کرتا۔ میں ان (آپکی بیگمات اور بچوں) کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان کے صبر کے لئے بھی انکا شکریہ ادا کرتا ہوں اوراس تعاون کے لئے بھی جو وہ آپ کے ساتھ کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں آپ حضرات انشااللہ ان تمام عظٰیم ذمہ داریوں کو بہتر طور پر انجام دیں گے جو آپ کے کاندھوں پر ہیں۔
 عید نوروز ہم ایرانیوں کے لئے ایک اچھا موقع ہے۔ اس روز کی مطابقت تاریخ اسلام کے واقعات سے ہے کہ بعض لوگ اسکو عید غدیر کے مطابق جانتے ہیں اور بعض لوگ دیگر تاریخوں کے، میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا، ان باتوں سے قطع نظر  ہمارے خورشیدی سال کا یہ پہلا دن جناب پیغمبر اکرمﷺ کی ہجرت کے سال کے مطابق ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک اچھاموقع ہے۔ عیدیں اسی طرح ہوتی ہیں؛ انسان کے لئے ایک ابتدا اور ایک نئے دورکا آغاز کرتی ہیں۔ نئے دور میں داخل ہونے کا یہ احساس انسان میں نشاط اور تازگی پیدا کرتا ہے۔ انسان نئے پروگرام تیار کرتا اور اس کے تحت نئے کارنامے اور اختراعات انجام دیتا ہے۔ یہ عید بہت اچھی چیز ہے۔ یہی وجہ ہےکہ دنیا کی تمام قومیں اپنی سالانہ عیدوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ ممکن ہے کہیں ان عیدوں کے ساتھ مذہبی پہلو ہو جیسے عیسائیوں کی عید ہوتی ہے، اور ممکن ہے کہیں مذہب سے اس کا کوئی ربط ہی نہ ہو لیکن سال کا پہلا دن ہے(اس لحاظ سے اہم ہو) سال کا پہلا دن یعنی نیا دن، نیا کام اور نئی اختراعات اور ایجادات۔ نئے سال کا مطلب یہ ہوتا ہے۔ یہ امر انسان کے اندر ایک خوشگوار احساس پیدا کرتا ہے۔
عید نوروز کی ایک اور برکت یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے ملاقات کرتے ہیں اور ہم خیال ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جو آپ آج یہاں جمع ہوئے ہیں آپ میں سے بعض ملک کے عہدے دار ہیں؛ بعض کا تعلق ملک کی تین طاقتوں سے ہے اور بعض کا تعلق کچھ مراکز سے آپ سب یہاں جمع ہوئے ہیں اور تشریف فرما ہیں، آپ کا تعلق پارلیمنٹ انتطامیہ، قانون ساز جماعت،عدلیہ اور انقلابی مراکز سے ہے۔ آپ سب کا ساتھ جمع ہونا آپکے اتحاد اور یکجہتی کی نشاندہی کررہاہے۔ یہ ایک بہت اہم چیز ہے اور ایک ملک کے لئے یہ یکجہتی بہت ضروری ہے۔
قومی یکجہتی اور اتحاد ایک بڑا مسئلہ ہے اور الحمد للہ انقلاب کی ابتدا سے لیکر اب تک جمہوری اسلامی اس خصوصیت سے بہرہ مند رہی ہے۔ لیکن اس قومی اتحاد کے ساتھ جو اہم بات رہی ہے وہ ملک کے عہدے داروں کا ایک زبان، ہم فکر اور ہمدرد ہونا ہے۔ یہ بہت ضروری اور اہم بات ہے۔
اگرچہ نظریات اور طریقہ کار میں اختلاف ہونے سے اس یکجہتی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر انسان کا اپنا طریقہ ہوتا ہے؛ ممکن ہے کسی سیاسی، اقتصادی یا۔۔۔ مسئلےمیں آپ کا نظریہ کچھ ہو لیکن آپکے بھائی یا معاون کی  نظر کچھ اورہو۔ ایک شعبہ میں کام کرنے والے کا نظریہ دوسرے شعبہ میں کام کرنے والے کے نظریہ سے مختلف ہو۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ سمت، راستہ اور مقصد ایک ہونا چاہئے اور وہ مقصد محفوظ رہنا چاہئے؛ اور یہی امر عہدے داروں میں اتحاد پیدا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں قوم میں یکجہتی پیدا ہوتی ہے؛ اور یہ بہت ہی اچھی چیز ہے۔ اور ہمارا آج کا یہ جلسہ اسی ہم زبانی، ھمدردی آپسی تعاون اور انس و محبت کا مظہر ہے۔ اس کی قدر ومنزلت کو پہچانیں اور اسے غنیمت شمار کریں۔

میری نظر میں ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر ملک کا کوئی کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان سینتیس سالوں میں ہمیں بہت سے تجربات حاصل ہوئے ہیں؛ اگر ملک کے عہدے دارایک سمت میں ایک ہی مقصد میں کہ یہی ہمارے بنیادی، کلی اورانقلابی مقاصد ہیں، ہم خیال ہوجائیں تو سیکڑوں مسائل میں بھی طریقہ کار اور طریقوں میں اختلاف کا کوئی نقصان نہ ہوگا اور کام آگے بڑھتا رہےگا؛ یہ بات درست ہے اور ہم یہی چاہتے ہیں۔ اور الحمدللہ ہم دیکھ رہے کہ ہمارے درمیان یہ چیز موجود ہے؛ یعنی فوجی عہدے دار اور ملک کے بنیادی عہدے دار اس نظام کے بڑے مقاصد کے سلسلے میں ہم فکر، ہمدرد اور ہم خیال ہیں۔ اگرچہ ممکن ہے کہ انکے کام کا طریقہ مختلف ہو۔
عید نوروز کی برکت یہ بھی ہےکہ ہم لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں؛ مثلا اب تک ہم نے نوروزی صاحب(۱) کو نہیں دیکھا تھا آج الحمد للہ عید نوروز کی برکت سے انکی اوردیگر دوستوں کی زیارت کر پارہے ہیں؛ یہ بہت مناسب امر ہے۔
یہ ملاقات میرے لئے بہت اچھا موقع ہے۔ سب سے  پہلے تو میں مختلف شعبوں میں آپ حضرات کی زحمتوں اور کاوشوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خصوصاً اسی استقامتی معیشت کے سلسلے میں اسی سے متعلق ابھی جہانگیری صاحب کا ذکر خیر آٰیا ۔ یہ قرار پایا ہےکہ اس عظیم تحریک کے مرکزی دفتر کی کمان انہیں کے حوالے کی جائے اوروہاں انکا کلیدی کردار ہوگا۔ میرا اصرار اس بات پر ہے کہ یہ قیادت صحیح معنوں میں وقوع پذیر ہونی چاہئے؛ کیونکہ مراکز کی اپنی سیاست ہے، انکے اپنے کام ہیں وہ معمولی اور معیاری دونوں ہی قسم کےانجام دیتے ہیں۔ اس مقام پر کمانڈر کی ذمہ داری یہ ہے کہ دیکھے کہ کون ساکام اقتصادی سیاست کے دائرے میں آرہا ہے۔اور کون سا کام استقامتی معیشت سے جدا اور دور ہے اور کون سا کام استقامتی معیشت کے مخالف اور برعکس ہےان امور کا موازنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پس پہلے گروہ کی تقویت کی جانی چاہئے؛دوسرے گروہ کوحتیٰ الامکان استقامتی معیشت کے قریب لانے کی ضرورت ہے اور تیسرے گروہ سے مکمل طور پر دوری اوراس سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ یعنی توقع یہ ہے۔
بہر حال مجھے  اطلاع ہے کی یہ حضرات حقیقت میں کام کررہے ہیں اور مشغول ہیں۔ میں ان کا اور انکے معاون افراد کا شکرگزار ہوں کہ یہ افراد کام کر رہے ہیں اور زحمتیں اٹھارہے ہیں۔
ہم نےاس سال کو’’اقدام و عمل‘‘(۲)کا نام دیا ہے۔اقدام و عمل سے میری مراد یہ ہےکہ ملک کے ہر شعبے میں وسیع پیمانے پر کام کی شروعات کی جائے اور سال کے آخر میں ہمیں یہ رپورٹ دی جائے کہ مثلا یہ دس کام انجام پاگئے ہیں۔ فرض کریں کہ پیداوار اور صنعت کے میدان میں یہ کام انجام پائے یا علمی اور سائنسی میدانوں میں یہ کام انجام دئیے گئے، یا مثلا تجارتی (دیگر ممالک سے تجارت کے) میدان میں یہ کامیابیاں ملی ہیں۔ یعنی ہرکام مشخص اور منظم طور پر ہونا چاہئے۔ میری توقع یہی ہے اور امید کرتا ہوں کہ انشا اللہ یہ تمام  امور انجام پاجائیں گے۔
میرا خیال ہے کہ اس کام کے لئے جن افراد کو معین کیا گیا ہے وہ بہتر طور پر اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ بھی انشا اللہ ان سے تعاون اورانکی مدد کرے گی؛ دوسری تنظیمیں اور شعبے بھی اپنے لحاظ سے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انقلابی مراکز بھی اس سلسلہ میں واقعا ً اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بہرحال یہ مرکزیت، فکر وعمل کی مرکزیت ہے۔ کمانڈر ہونے کی خصوصیت، یہی یعنی فکر وعمل ہے۔ کمانڈر ہونےکا مطلب صرف ایک عملے کی سربراہی نہیں ہے کہ جس کا کام سب کو جمع کرنا ہو، بلکہ یہ کمان اور قیادت کا مرکز اور ہیڈ کوارٹر ہے۔ میں نے جس جلسے میں اس موضوع پر گفتگوکی تھی وہاں عملے کی قیادت اور ہیڈکوارٹر کے درمیان کا فرق بتایا تھا: ہیڈکوارٹر وہ مرکز ہے جہاں سے آپریشن انجام دئیے جانےکا حکم دیا جاتا ہے۔جیسے فوجی ہیڈکوارٹر میں ہوتا۔ یعنی مختلف گروہوں کو معینہ کام کو انجام دینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہیڈکوارٹر فکر و عمل دونوں کا مرکز ہے؛ یعنی حکم دیا جائے، اس کی پیروی کی جائے اور اس کے نتائج پر غور کیا جائے۔ ہماری توقع یہ ہے۔ انشا اللہ یہ کام انجام پائیں گے اور مجھے پوری امید ہے کہ انشا اللہ یہ کام انجام تک پہنچےگا۔
میری توقعات بہت زیادہ نہیں ہیں کیونکہ میں مشکلات اور رکاوٹوں سے باخبر ہوں۔مالی مشکل ہماری سب سے بڑی مشکل ہے۔ بہرحال اس کی نظارت کرنے کی ضرورت ہے یعنی دیکھیں کہاں کہاں بچت کرسکتے ہیں، بچت کریں اور بچائی ہوئی رقم کو ایسی جگہ استعمال کریں جہاں پرکمی ہے۔ ابھی ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں جہاں رقم خرچ ہونی ہے اور وہاں بچت بھی ہوسکتی ہے اور اسی طرح وسائل کی کمی کی نظارت کی جائے۔ ممکن ہے مراکز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے لیکن اگر ہمت سے کام لیں اور صحیح بندوبست اور خوش انتطامی کے ساتھ کام کریں تو  انشااللہ اس یہ کام انجام پاجائیگا۔
میرے خیال سے ہمارے یہاں مدیریت اور خوش انتطامی کی کمی نہیں ہے؛اںصاف کی بات یہ ہے کہ ہماری پاس بہترین منتظمین موجود ہیں مجھے سالوں سے اس کا تجربہ ہے؛ میں خود حکومت میں رہ چکا ہوں، حکومت سے باہررہ کر مختلف حکومتوں پر نظارت کرچکاہوں۔ حق اور انصاف یہ ہے کہ ہمارے پاس بہترین منتظمین  موجود ہیں۔ یہ لوگ جوش و جذبہ کے لحاظ سے بھی بہترین منتظم ہیں اور فکری اور عملی لحاظ سے بھی خوش انتظامی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہمارے پاس منتظمین کی کمی نہیں ہے۔ ہمیں مسلسل پیروی اور توجہ کی ضرورت ہے۔ توجہ اہم ہے، فیصلے کے وقت توجہ، حکم صادر کرتے وقت توجہ اور اس کو اجرا کرتے وقت توجہ۔
میں نے صدر محترم سے بھی کہا ہے۔ صدر کے پاس بہت کام ہوتے ہیں؛ جب لوگ دور سےدیکھتے ہیں تو صدارتی کاموں اور اس کی سرگرمیوں کو نہیں سمجھ پاتے۔ مختلف لحاظ سے ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ بہت سخت کام ہے۔ جب امام (رہ) قید حیات تھے اس وقت بعض لوگ ان کی خدمت میں آتے اور کچھ مسائل کی شکایت کرتے تھے کہ جناب فلاں جگہ ایسا ہوگیا،وہاں ایسا ہوگیا۔امام انکے جواب میں بار بار یہی کہتے تھے کہ ملک چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ مجھے ملک چلانے کا تجربہ ہے، واقعی یہ بہت سخت کام ہے۔اس لحاظ سے صدر جمہوریہ کی مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں،انکے معاون اول کا عہدہ بہت ہی اہم اور نمایاں منصب ہے، لہذا وہ انشا اللہ  اس میدان میں جبکہ انہیں پورے اختیارات حاصل ہیں، مہارت پیدا کرلیں گے۔ بہرحال ہماری توقع یہی ہےکہ کام انجام پاجائے۔
 حکومت اور مجلس شورائے اسلامی عوام کے مفاد اور انکی مشکلات کے حل کےلئے جو کام بھی انجام دیں گے میں اس سلسلہ میں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ انکا دفاع اور انکی حمایت کروں گا۔ اھم یہ ہےکہ انسان اس بات کا احساس کر لے کہ یہ کام جو انجام دیا جارہا ہے،قوم کے مفاد کی راہ میں ضروری ہے۔ پارلیمنٹ ،قانون ساز ادارے یا عدلیہ کی طرف سے انجام پانے والا کوئی بھی کام ہو اگر مجھے یہ احساس ہوجائے کہ وہ کام عوام کی خدمت اور خود انکے لئے ہورہاہے تومیں کھل کر اس کا دفاع کرونگا۔ وہ تمام اختیارات جو مجھ ناچیز کے پاس ہیں اس کا استعمال کرونگا۔ لیکن اس کام کی حمایت میں جو عوام کے مفاد اور ان کی مشکلات کو ختم کرنےکے خاطر انجام دیا جارہےہیں۔
بہتر یہ ہے کہ ہم خود پر بھروسہ کریں؛کام کی بنیاد یہی ہے۔ہم سب کو خوداعتماد بننے کی ضرورت ہے۔ دوسروں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اجنبیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے جوہری توانائی کے سلسلہ میں ہونے والی گفتگو کے دوران متعدد بار، شاید چار پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، یہ بات کہی تھی کہ امریکیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔(۳) اب آپ ان کی باتوں،انکے اظہارات خیال اور طریقہ کار کو ملاحظہ فرما رہے ہیں،خود ہی دیکھ رہے ہیں کہ ان کا دستخط کرنے کا مقصد مکمل طور پر وہی تھا جو میں نے بتایا تھا۔واقعی ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا۔ امریکی بد اخلاقی اور بد اعمالیوں کا نمونہ اور علامت ہیں۔ صرف وہی نہیں دوسرے بھی اسی کی طرح بد اخلاق اور بد رفتار ہیں۔ بہر حال ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں خود پر اعتماد کرنا چاہئے،خود پر بھروسہ کرنا چاہئے اور ہم جان لیں کہ ہم کرسکتے ہیں اور یہ بھی جان لیں کہ خدا ہماری مدد کریگا۔جناب امیرالمؤنین علیہ السلام فرماتے ہیں : فَلَمّا رَاَی اللهُ صِدقَنا اَنزَلَ عَلَینَا النَّصرَ وَ اَنزَلَ بِعَدُوِّنَا الکَبت؛(۴)
اگر صدق نیت اور خلوص کےساتھ میدان عمل میں وارد ہونگے تو خدا یقینا ہماری مدد فرمائیگا۔ بہرحال زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں،جب انفرادی زندگی میں نشیب وفراز ہوتے ہیں۔ تو اجتماعی زندگی اور ایک قوم کی زندگی کا کیا ذکر۔ کہیں کہیں انسان مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے ،کہیں اسے خراب حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کہیں آرام و بہتر حالات بھی اسے نصیب ہوتے ہیں۔ ہر قسم کے حالات آتے رہتے ہیں۔بہتر یہ ہوگا کہ ہم اس راستہ پر  جو صراط مستقیم ہے،چلتے رہیں اور آگے بڑھتے رہیں۔
بہر حال پروردگار سے آپ سب کی توفیق کا طلبگار ہوں۔اور ہمیشہ دعا کرتا ہوں، میں ملک کے عہدیداروں کے لئے ہمیشہ دعا کرتاہوں بلکہ ان تمام لوگوں کے لئے جو اس راہ میں  جدوجہد کررہے ہیں، جس جگہ،جس صورت میں  بھی کوشش کررہے ہیں، میں انکے لئے دعا کرتا ہوں۔ اگرچہ میری دعا کی کوئی اہمیت نہیں لیکن بہرحال دعا کرنا ہمارا فرض ہے اس کو انجام دیتے ہیں۔ آپ بھی کوشش کریں اور ہمت سےکام لیں، انشا اللہ مطلوبہ نتائج تک پہوچ جائینگے۔
میں پیداوار  کے مسئلہ پر تاکید کرتاہوں ،ملک کے اندر صنعت  پر سنجیدہ ہونےکی ضرورت ہے یعنی کام کی کلید یہی اندرون ملک کی صنعت اور پیداوار ہے۔وزارت صنعت کو تجارتی پیداوار اور زراعتی پیدا وار دونوں پر توجہ کرنی چاہئے۔انشا اللہ خدا آپ  کی  مدد فرمائے گا۔

۱۔صدر جمہوریہ کے معاون اول ۔
۲۔سال ’’اقتصاد مقاومتی؛اقدام و عمل ‘‘کی طرف اشارہ ہے۔
۳۔عوام کے مختلف گروہوں سے ملاقات کے وقت کے بیانات؛۱۸۔۶۔ ۱۳۲۹۴
۴۔نھج البلاغہ خطبہ ۵۶۔