ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے پورے ملک سے آئے ہوئے ہزاروں افراد کی ملاقات

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

 

آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں کہ جو ملک کے مختلف صوبوں سے، دور دراز علاقوں سے یہاں تشریف لائے ہیں اور آج آپ نے اس امام بارگاہ کو شہیدوں اور ان کی یادوں اور اپنے انقلابی جذبے کی خوشبو سے معطر کر دیا ہے۔  ان برادران کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ترانہ پڑھا اور گروہی شکل میں قرآن مجید کی تلاوت کی۔ البتہ یہاں پر سرگوشی کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور ہمارے عزیز برادران کی تلاوت کی آواز بعض افراد کو ٹھیک طرح سنائی نہیں دی، یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا، البتہ میں نے بہت توجہ سے اسے سنا اور استفادہ کیا۔ قرآن کریم کی آیات اور قرآن کریم کے کلمات، جہاں کہیں بھی ہوں، جس وقت بھی انکی تلاوت ہو رہی ہو اور پڑھے جارہے ہوں، معنویت اور روحانیت اور برکت کا سبب ہوتی ہیں، خاص طور پر یہ آیات جن کا ہمارے ان بھائیوں نے انتخاب کیا کہ جو سورہ احزاب کی آیات ہیں اور مشکلات میں امت مسلمہ کو واضح اور مستقیم راستہ دکھانے والی آیات ہیں، جو دشوار زمانے میں امت مسلمہ کے راستے کو روشن کرنے والی آیات ہیں۔ یہ اس بات کا پتہ بتاتی ہیں کہ اگر امت مسلمہ کسی بھی دور میں، کسی بھی مشکل موقع پر، من جملہ ان مشکلات میں کہ جنکا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے گرفتار ہوتی ہے تو اس سے نجات کی راہ کیا ہے، مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه، جب خدا سے عہد اور وہ معاہدہ یعنی مومنین کی جانب سے خدا سے کیا گیا عہد سچا ہو، تو تمام تر کام پیشرفت کریں گے، تمام تر مشکلات برطرف ہوجائیں گی۔ البتہ زندگی میں رکاوٹیں ہوتی ہیں، مشکلات ہوتی ہیں، کسی بھی قوم کے سامنے صاف ستھرا راستہ نہیں ہے، انہیں اپنے راستے کو اپنی ہمت، اپنی جدوجہد سے ہموار کرنا چاہئے، صاف کرنا چاہئے اور اپنے اہداف کی سمت حرکت کرنی چاہئے۔ وہ ملتیں کہ جو معنویت، مدنیت اور رفاہ و سعادت کے کمال پر پہنچی ہیں انہوں نے اس انداز میں حرکت کی ہے۔ یہ آیات ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہیں۔
خوب، ذیعقد کا مہینہ ہے، حرمت والے مہینوں میں پہلا مہینہ ہے، حرمت والا مہینہ یعنی احترام کے قابل مہینہ، یعنی وہ مہینے کہ جو پروردگار عالم کی نگاہ میں مِنهآ اَربَعَةٌ حُرُم۔ چار مہینے ہیں کہ جنہیں خداوند متعال نے دوسرے مہینوں کی نسبت اور زیادہ محترم قرار دیا ہے، احکام کے ایک مشخص شدہ پیرائے میں کہ یہ احترام کن چیزوں اور کن اوامر میں ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان الہی تعلیمات سے درس حاصل کریں۔
حرمت والا مہینہ کہ جو قابل احترام ہے اور عظیم عارف مرحوم حاج میرزا علی آقائے تبریزی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مطابق یہ وہ مہینے ہیں جن میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خداوند متعال کی جانب بیشتر توجہ اور عبادت کے زریعے اپنے آپ کو زندگی کے حساس اور اہم میدانوں میں داخل ہونے کے لئے آمادہ کریں۔ آج ملت ایران کے لئے، اس عظیم اور سرافراز ملت کے لئے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس نے جو قابل فخر راستہ اختیار کیا ہے اس راستے پر اپنی قدرت، تیز رفتاری، عزت اور سربلندی کے ساتھ آگے بڑھے اور حرکت کرے۔
آج کا یہ اجلاس بہت خاص اجلاس ہے، یعنی یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ہمارے عزیز عوام کے مختلف گروہ، مختلف صوبوں سے یہاں تشریف لائے ہیں، یہاں جمع ہوئے ہیں، ملک کے جنوب سے لے کر شمال مغربی علاقوں کے افراد، مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے، فارس، ترک، کرد، بلوچ سب ہی آج کے اس اجلاس میں موجود ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف اور متعدد اقوام پر مشتمل متحد ایران کا ایک ہدف ہے، ایک ہی راستہ ہے۔ جی ہاں، ممکن ہے کہ انکی زبانیں مختلف ہوں، مذاہب مختلف ہوں لیکن اس ملت کے اعلی اہداف یکساں ہیں، سب یہی چاہتے ہیں کہ ایران عزیز کو دنیا کے سامنے ایک مثالی اسلامی ملک کے طور پر پیش کریں۔ مثالی اسلامی ملک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ملک کے عوام صرف اور صرف نماز، روزہ، دعا اور توسل کرنے میں مشغول ہیں، نہیں ایسا نہیں ہے، یہ معنویت و روحانیت ہے لیکن اس روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی پیشرفت ہے، علمی پیشرفت ہے، عدل و انصاف کی توسیع ہے، طبقاتی فاصلے کم ہونا ہے، اشرافی گری کے بتوں اور نمونوں کا خاتمہ ہے، اسلامی معاشرے کی یہ خصوصیات ہیں۔ ایسے موقع پر اس طرح کے معاشرے میں عوام خوش نصیب ہے، امن و سکون کا احساس کرتے ہیں، اپنے اعلی اہداف کی جانب حرکت کرتے ہیں، خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور دنیاوی ترقی و پیشرفت بھی انکا مقدر ہوتی ہے، ملت ایران اس طرح کے معاشرے کی خواہاں ہے، شیعہ سنی کی بات نہیں ہے، کرد، فارس، بلوچ اور ترک کی بات نہیں ہے۔ سب لوگ یہی چاہتے ہیں، خوب یہ ایک مثالی نمونہ بن سکتا ہے، جب مثالی نمونہ بن جائے گا تو اس وقت دوسری مسلمان ملتوں کو بھی راستہ مل جائے گا۔
آج ہماری یہی مشکل ہے، عالمی استکبار اور استعمار، ایک دو صدی پہلے، انہوں نے اسی میں اپنا مفاد دیکھا کہ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کر دیئے جائیں۔ اسی میں مصلحت جانی، کیوں؟ کیونکہ ایسی صورت میں وہ دولت و ثروت لوٹ سکتے تھے، ان کی پشرفت و ترقی کہ جو انکا حق تھا اس سے روک دیا گیا، استحصال کیا گیا۔ عالمی طاقتوں نے جو علمی برکت حاصل کی ہوئی تھی اور جو ٹیکنالوجی ان کے پاس تھی اور جو اسلحہ انہوں نے بنایا تھا، ان کے سہارے ان کو اپنا ہدف بنایا اور افسوس کہ اس میں وہ بہت زیادہ کامیاب بھی رہے۔ یہ جو ہم نے انقلاب کے اوائل سے آج تک مسلمان ملتوں اور مسلمان حکومتوں کی جانب مسلسل دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، انہیں اتحاد کی دعوت دی ہے، وحدت کی، دشمن کی سازشوں کے مد مقابل استقامت کی دعوت دی ہے وہ اسی لئے ہے۔
جب ملت ایران اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچانے کے قابل ہوگئی کہ جہاں وہ اپنے آپ کو ایک حقیقی مسلمان ملت کے عنوان سے دنیا کے سامنے پہچنوا سکے، تو یہ اسلام کی عظیم تشہیر ہے، دوسری ملتیں بھی اسی سمت آئیں گی اور پھر پوری دنیا میں عظیم امت مسلمہ کی تشکیل عمل میں آئے گی کہ جو اسلام کی عزت و سربلندی اور اسلام کی ترویج کا سبب بنے گی، وہ اسلامی تہذیب کہ جس کا ہمیں انتظار ہے وہ مغرب کی فاسد اور مادی تہذیب پر غالب ہوجائے گی، اس دن اسکا احیاء ہوگا، آج اس کی ابتدا ہے، اس بات کی ابتدا ہے کہ ہم ملت ایران کے عنوان سے مثالی نمونہ بننے کی سمت جائیں۔ خوب، ہم سب کو ہمت کرنی چاہئے، عہدیداروں کو بھی ہمت کرنی چاہئے، پوری ملت ایران کو بھی۔ یہ ایک دو سال کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک طویل مدتی مسئلہ ہے۔ اس میں وقت لگے گا، اگر آپ اسلامی تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے اوج کا زمانہ چوتھی اور پانچویں صدی ہے کہ جب علمی لحاظ سے بھی غنی تھے، علماء، محققین، فلسفی، اور دوسرے دانشور حضرات دنیائے اسلام میں موجود تھے کہ جنہوں نے دنیا کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور مغربی دنیا ان میں سے اکثر جدتوں کی آج بھی مرہون منت ہے۔ خوب، آج البتہ ہماری رفتار تیز ہوگی، ہم انشاء اللہ جلد ہی اس نتیجے تک پہنچ جائیں گے، لیکن بالآخر اس میں وقت لگے گا۔
ہم نے انقلاب کے بعد ان ۳۷، ۳۸ سالوں میں اچھی پیشرفت کی ہے۔ حقیقت میں اگر کوئی منصفانہ فیصلہ کرے تو اغیار سے وابستہ عقب افتادہ گمنام اور امریکہ و برطانیہ کے پیروں تلے ذلیل ہونے والا ایران، آج کچھ اس طرح تبدیل ہو گیا ہے کہ امریکہ و برطانیہ اور بقیہ ممالک آج صفیں باندھ کر کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اس خطے میں موجود امکانات پر کسی بھی طرح قبضہ کر لیں، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے، یعنی عزت اسلامی اور اسلامی نظام کی عزت اور اسلامی ایران کی عزت اس انداز میں پھیل چکی ہے کہ جو لوگ کل تک مثلا طاغوتی دور میں ملت ایران اور دوسری ملتوں کی جانب حقارت بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے آج مجبور ہوگئے ہیں کہ اس کا سامنا ایک طاقتور حریف کے عنوان کے طور پر کریں۔ یہ ملت ایران کی عمومی پیشرفت ہے۔ ہم نے علمی لحاظ سے پیشرفت کی، سیاست میں پیشرفت کی، اسلام کے مورد نظر گونا گوں مسائل میں پیشرفت کی، سماجی عدل و انصاف کے لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں آج زمین سے آسمان تک تبدیلی آچکی ہے، البتہ اسلامی عدل و انصاف تک ابھی بہت فاصلہ باقی ہے، مطلوبہ عدالت تک ابھی بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ افسوس کہ آج اشرافیت، عیش و عشرت اور بعض انحرافات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں لیکن جب ہم انقلاب سے قبل کے زمانے سے موازنہ کرتے ہیں تو – آپ جوانوں نے تو انقلاب سے قبل کا زمانہ نہیں دیکھا، ہم نے اور جنہوں نے انقلاب سے پہلے کا زمانہ دیکھا ہے- ایران اور اسلامی ملک کی اس زمانے کی نسبت پیشرفت و ترقی بہت زیادہ برجستگی کے ساتھ نظر آتی ہے۔
خوب، اب اگر ہم اس مثالی نقطے تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو اس کا راستہ کیا ہے؟ جو بات میں دو لفظوں میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ، داخلی توانائی اور اس ملت کی اپنی صلاحیتوں پر تکیہ کیا جانا ہے۔ ہمارے پاس کافی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس ملت کے پاس استفادے کے قابل توانائیاں اور صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، یہ جو ہم نے منصوبہ بندی کی سیاست میں شرح نمو آٹھ فیصد رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس پورے منصوبے میں شرح نمو آٹھ فیصد تک پہنچے گا، وہ ملک کے اندر موجود ظرفیت کی وجہ سے ہے۔ منصوبے کے آغاز میں بعض افراد نے کہا کہ اقتصادی مسائل میں آٹھ فیصد نمو کا امکان نہیں ہے، بعد میں خود عہدیداران آئے اور انہوں نے ہم سے کہا کہ نہیں آپ نے جو لکھا ہے یہی درست ہے، آٹھ فیصد شرح نمو ممکن ہے، لیکن اس کے لئے کام کیا جانا چاہئے، صحیح سیاست اپنائی جانی چاہئے، صحیح منصوبہ بندی پر مبنی اسٹریٹجی کی ضرورت ہے، سستی کاہلی، بے روزگاری اور دوسرں پر اعتماد کر کے یہ کام نہیں کیا جاسکتا، صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ملک میں موجود توانائیوں کی وجہ سے ہے۔ ملک میں بہت زیادہ توانائیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ ہماری ۸۰ میلین کی آبادی میں سے ۳۰ فیصد سے زیادہ افراد کی عمریں ۲۰ سے ۲۵ سال کے درمیان ہے، بعض عنفوان جوانی میں ہیں، جوانی تحرک کا مظہر ہے، جوش و جذبے کا مظہر ہے، ہمارے ملک میں اتنے زیادہ جوان موجود ہیں، ان جوانوں کے درمیان، کئی میلین پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ، ماہر اور خلاقیت کے حامل افراد بھی شامل ہیں۔ ہمارے انفراسٹرکچر میں ان ۳۷ سالوں کے دوران بہت زیادہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں، ہم نے ملک میں مختلف شعبوں میں، بہت زیادہ موثر اور کار آمد انفراسٹرکچر بنایا ہے، ہم لوگوں سے میری مراد ملک کے بعض ذمہ داران ہیں، میں تو کسی کام کا نہیں ہوں، حرکت کرنے کے لئے، پیشرفت کرنے کے لئے، تمام چیزیں آمادہ ہیں.
خوب الحمداللہ یہ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ آپ انقلاب کے بعد کے ۳۰ سالوں کا بعض ممالک کہ جنکا میں نام نہیں لینا چاہتا موازنہ کریں، ۳۰ سال امریکی تسلط میں زندگی گذاری، حتی امریکہ سے نقد رقم بھی لی یعنی سالانہ فلاں رقم، کئی بیلین ڈالر امریکہ سے وصول کئے، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ۳۰ سال کے بعد رپورٹ دی کہ انکے دارالحکومت میں دو میلین افراد بے گھر ہیں جو قبرستانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی ملک پر امریکی اثر ورسوخ یا امریکی تسلط کا یہی نتیجہ ہے، خوب بنا بر ایں جو چیز اہم ہے وہ داخلی توانائیوں پر تکیہ کیا جانا ہے۔
بعض اوقات دشمن رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ جی ہاں یہ عقلمندانہ بات ہے کہ انسان تدبیر کے ساتھ جائے، ان رکاوٹوں کو ختم کرے، لیکن دشمن پر اطمینان نہیں کیا جاسکتا، اس کا ایک نمونہ یہی ایٹمی مذاکرات اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ہے کہ آج ہمارے ڈپلومیٹس اور وہ افراد کہ جو ان مذاکرات میں ابتدا سے آخر تک موجود تھے، یہی بات کر رہے ہیں کہ امریکہ نے معاہدہ توڑا ہے، امریکہ اپنے بظاہر پرسکون چہرے اور اپنے عہدیداروں اور وزیر خارجہ اور دیگر افراد کی چرب زبانی کے زریعے پس پردہ تخریب کاری کر رہا ہے، ہمارے ملک کے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہے، یہ بات خود مشترکہ جامع ایکشن پلان کے ذمہ دار افراد کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ بات ہے کہ جو میں تقریبا ایک سال پہلے ڈیڑھ سال پہلے سے مسلسل کہہ رہا ہوں کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ بعض افراد کے لئے اس بات کو قبول کرنا سخت تھا۔ لیکن آج خود ہمارے ذمہ داران کہہ رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کی ہی بات ہے، ہماری مذاکراتی ٹیم کے افراد کا یورپ میں اپنے فریق ممالک کے ساتھ اجلاس تھا، یہی بات ہمارے عہدیداروں نے ان سے کہی اور انکے کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے معاہدہ توڑا، یہ خلاف ورزی کی، یہ جو کام آُپ کو انجام دینے تھے آُپ نے انجام نہیں دیئے، پیٹھ پیچھے اس طرح سے تخریب کاری کی، ان کے پاس ان باتوں کا جواب نہیں تھا، مشترکہ جامع ایکشن پلان کو چھ ماہ ہوگئے، عوام کی معیشت پر اس کے کوئی واضح اثرات مرتب نہیں ہوئے، حالانکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان دراصل تمام پابندیاں ہٹائے جانے کے لئے تھا، اس لئے کیا گیا تھا تاکہ ظالمانہ پابندیاں ہٹائی جائیں۔ کیا اس موقع پر بتدریج پابندیاں ہٹائی جانے کی بات کی گئی تھی؟ ان دنوں بھی ذمہ داران ہم سے اور عوام سے یہی کہہ رہے تھے کہ طے یہ پایا ہے کہ جب ایران اپنے وعدوں پر عمل کرے گا، تمام پابندیاں ایک ساتھ ہٹا لی جائیں گی۔ خوب، اب جب اس وعدے کو چھ ماہ گذر گئے، پابندیاں ہٹائی نہیں گئیں، اس اسی میلین کی آبادی والے ملک کے لئے کیا یہ چھ سال کوئی کم مدت ہے؟ ان چھ مہینوں میں اگر امریکیوں کی یہ خباثت نہ ہوتی تو ہماری محترم حکومت بھی مختلف کام انجام دے سکتی تھی ؟ یہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ہمارے لئے ایک نمونہ بن گیا ہے۔ ایک تجربہ ہے، میں نے گذشتہ سال ایک عمومی گفتگو میں، یا پچھلے سال تھی یا ڈیڑھ سال پہلے، اسکی تاریخ مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں ہے، میں نے کہا تھا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اور یہ ایٹمی مذاکرات ہمارے لئے ایک مثال بن جائیں گے، دیکھتے ہیں امریکی اب کیا کرتے ہیں، یہ جو اس وقت اپنی چرب اور نرم زبان کے ساتھ آرہے ہیں، بعض اوقات خط لکھ رہے ہیں، اظہار عقیدت کر رہے ہیں، تعاون کا یقین دلا رہے ہیں، صلاح مشورے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ رہے ہیں، ایرانی عہدیداروں سے نرم لہجے اور چرب زنابی میں باتیں کر رہے ہیں، بہت خوب دیکھتے ہیں یہ عملی میدان میں کیا کرتے ہیں۔ اب یہ معلوم ہو گیا کہ یہ عملی میدان میں کیا کرتے ہیں، بظاہر وعدہ کرتے ہیں، چرب زبانی اختیار کرتے ہین لیکن عملی میدان میں سازشیں کرتے ہیں، تخریب کاری کرتے ہیں، کاموں کی پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، یہ ہے امریکہ، یہ ہے تجربہ۔ اب امریکی یہ کہتے ہیں کہ آئیں خطے کے مسائل کے بارے میں آپ سے بات کرتے ہیں، خوب یہ تجربہ ہمیں کہتا ہے کہ یہ کام ہمارے لئے مہلک زہر کی مانند ہے۔
اس تجربے نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم کسی بھی مسئلے میں اس کو مورد اعتماد قرار دے کر اس کے ساتھ بیٹھ کر بات نہ کریں۔ انسان بعض اوقات دشمن سے بات کرتا ہے لیکن وہ دشمن کہ جو اپنی بات پر ڈٹ جائے اور انسان اس پر اعتماد کر سکے کہ وہ کوئی بھی وجہ ہو اپنی زبان سے نہیں پھرے گا اور اپنے وعدوں پر عمل کرے گا۔ اس دشمن سے بات کی جا سکتی ہے، جی ہاں، لیکن جب یہ ثابت ہو گیا کہ دشمن نابکار دشمن ہے، ایسا دشمن ہے کہ جو عملی میدان میں اپنے وعدے سے پھرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور اپنا عہد توڑ دیتا ہے، اس کے بعد بھی جب ہم کہتے ہیں کہ بھئی کیوں اپنے وعدے سے پھر گئے، اس وقت بھی مسکراتے ہیں، اس وقت بھی اپنی نرم اور چرب زبان کھولتے ہیں اور اپنے عمل کی وضاحت کرنا شروع کردیتے ہیں، ایسے دشمن سے مذاکرات نہیں کئے جاسکتے۔ اس بات کی میں کئی سالوں سے تکرار کررہا ہوں کہ امریکہ سے مذاکارت نہ کریں اسکی یہی وجہ ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہندہ ہے کہ اس مسئلے میں ہماری مشکلات، خطے سے مربوط مسائل، دیگر گوناگوں مسائل، امریکہ اور امریکہ جیسے دیگر ممالک کی وجہ سے جو مشکلات ہیں، وہ مذاکرات کے زریعے حل نہیں کی جا سکتیں، ہمیں اپنے لئے ایک راستے کا انتخاب کرنا چاہئے، اپنے اس راستے پر چلیں، دشمن کو اپنے پیچھے پیچھے دوڑنے دیں، ہمارے سیاسی عہدیداران اور ڈپلومیٹس صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ امریکی تمام چیزیں حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ بھی دینا نہیں چاہتے، اگر آپ ایک قدم پیچھے ہٹے تو وہ ایک قدم آگے آئیں گے۔ یہ جو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ مذاکرات نہیں کریں گے، لیکن بعض افراد کہتے ہیں کہ مذاکرات میں تو کوئی مشکل نہیں ہے، مذاکرات میں مشکل یہیں پر ہے:
آپ کو آپ کے صحیح راستے سے منحرف کر دیں گے، آپ کے امتیازات چھین لیں گے، جب آپ نے مذاکرات کئے تو آپ کو ایک امتیاز دینا پڑے گا اور ایک امتیاز اس کے بدلے میں ملے گا، مذاکرات کے یہی معنی ہیں، مذاکرات مل بیٹھنے جمع ہونے، بات کرنے، گفتگو کرنے، ہنسی مذاق کرنے کا نام نہیں ہے، مذاکرات یعنی ایک چیز دو ایک لو، اور جو چیز آپ سے لینا چاہتا ہے اسے لے کر رہے گا، لیکن جو چیز اسے آپ کو دینی ہے وہ نہیں دے گا، دھونس جمائے گا، خوب مستکبر کے معنی یہی ہیں، عالمی استکبار کے معنی یہی ہیں، یعنی زور زبردستی، اپنے آپ کو برتر سمجھنا، اپنے قول کا پابند نہ ہونا، اپنے آپ کو پابند نہ سمجھنا، یہ استکبار کے معنی ہیں، اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے، خوب امام بزرگوار نے فرمایا: امریکہ شیطان بزرگ ہے، حقیقت میں یہ تعبیر بہت عمدہ تعبیر ہے، خداوند متعال شیطان کی بات کو نقل کرتا ہے کہ شیطان قیامت کے دن ان لوگوں کو کہ جو اس کی اطاعت کرتے تھے کہے گا: اِنَّ اللهَ وَعَدَکُم وَعدَ الحَقِّ وَ وَعَدتُکُم فَاَخلَفتُکُم، شیطان اپنے پیروکاروں کو کہے گا کہ خدا نے بالکل سچا وعدہ تم سے کیا تھا ، لیکن تم لوگوں نے خدا کے وعدے پر بھروسہ نہیں کیا، اس کی پابندی نہیں کی، میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا، تم میرے پیچھے چل پڑے، میں نے خلف وعدہ کیا، میں نے تم سے وعدہ کیا لیکن اس سے پھر گیا، شیطان اپنے پیروکاروں کی قیامت کے دن اس انداز میں ملامت کرے گا۔ اس کے بعد خداوند متعال شیطان کی بات نقل کرتا ہے کہ شیطان ان سے کہے گا  فَلا تَلومونی وَلوموا اَنفُسَکُم   مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو۔ یہ بات آج مکمل طور پر امریکہ پر صادق آتی ہے۔ اب شیطان روز قیامت گفتگو کرے گا، امریکی آج دنیا میں باتیں کرتے ہیں، وعدے کرتے ہیں، عمل نہیں کرتے، خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تنقید کرنے کا حق چھین لیتے ہیں، امریکہ کی ایسی سورتحال ہے۔ خوب پس دوسروں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
ملک کے مجموعی مسائل اور سیاست کے بارے میں جو باتیں کی گئی ہیں جوانوں کو چاہئے کہ وہ بیٹھیں اور ان پر غور و فکر کریں، یہ تجربات کا نتیجہ ہے، یہ دشمن کو پہچاننے اور صورتحال کو سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ یہ اس طرح نہیں ہے کہ انسان ایک بات کرے تاکہ کوئی آئے اور دوسری طرف سے جواب دے، نہیں ایسا نہیں ہے، نہیں، ان باتوں پر ہمارے عزیز جوانوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں ہوشیار اور با صلاحیت جوانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، بیٹھیں، تجزئیہ کریں، پھر راستہ معین ہوگا۔
راہ کیا ہے؟ راہ وہی ہے جو میں نے عرض کیا: اندرونی صلاحیتوں پر تکیہ کیا جانا، داخلی توانائیوں پر تکیہ کیا جانا، انہی جوانوں پر تکیہ کیا جانا، ان جوانوں کی خلاقیت پر تکیہ کیا جانا، جس کام کے یہ درپے ہوتے ہیں، جو علم یہ حاصل کرتے ہیں، تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے ٹیکنالوجی میں تبدیل کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت زیادہ استعداد موجود ہے۔ اعداد و ارقام بتاتے ہیں۔ البتہ یہ اعداد و ارقام چند سال پہلے کے ہیں۔ ہمارے پاس کئی لاکھ اسمال انڈسٹریز ہیں، یہ بہت اہم ہے، میں نے متعدد مرتبہ اپنی تقریروں میں اس بات کی تکرار کی ہے، ملک کے عزیز عہدیداران اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اقدامات انجام دیں اور چھوٹی اور متوسط کئی لاکھ انڈسٹریاں کہ جو اس وقت ملک میں موجود ہیں انکے احیاء کے لئے اقدامات کریں، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، خلاقیت پیدا ہوگی۔
ہم نالج بیسڈ اقتصاد پر تکیہ کریں گے، وہی اہم کام جس کا خوش قسمتی سے چند سالوں سے ملک میں آغاز ہوچکا ہے لیکن اس میں توسیع ہونی چاہئے۔ ہم داخلی پیداوار پر تکیہ کریں گے۔ میں نے داخلی پیداوار کے استعمال پر اتنی زیادہ تاکید کی ہے۔ اب بھی آپ کو کہہ رہا ہوں، ایران کی عزیز عوام کو کہہ رہا ہوں، داخلی پیداوار کا استعمال شروع کریں، ایرانی محنت کشوں کی ترویج کریں، ایرانی کاموں کی ترویج کریں۔ افسوس کے اس مسئلے کی حقیقیت اس طرح نہیں ہے۔ مختلف شعبوں میں، فرض کریں گھریلو اشیاء کے سلسلے میں، مقامی کارخانے کام میں مشغول ہیں، اچھی پائیدار اور غیر ملکی اشیاء کا مقابلہ کرنے والی، بعض اوقات غیر ملکی اشیاء سے بھی زیادہ اچھی، آپ بناتے ہیں لیکن جب بازار جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بازار غیر ملکی اشیاء سے بھرا ہوا ہے۔ کیوں؟ یہ سب کہاں سے آرہا ہے؟ میں جو ملکی سطح پر تیار کردہ اشیاء سے ملتی جلتی غیر ملکی اشیاء کا راستہ روکے جانے کی بات کرتا ہوں، وہ اسی لئے ہے، یہی راستہ ہے۔
اسمگلنگ کے موضوع پر، میں نے عہدیداروں کو کہا ہے کہ جناب، جب آپ اسمگلروں کو پکڑتے ہیں اور وہ اسمگل شدہ سامان جو کئی ٹن پر مشتمل ہوتا ہے اسے ملک میں لاتے ہیں، اس سامان کو سب کے سامنے آگے لگا دیں، اسمگلروں کو نقصان پہنچائیں، ملکی سطح پر تیار کردہ اشیاء سے ملتی جلتی اشیاء کو آگ لگا دیں۔ خوب معلوم ہے کہ جب غیر ملکی اشیاء لائی جاتی ہیں، چاہے وہ کسٹمز کے قانونی راستے سے آئیں یا چاہے وہ اسمگلنگ کے افسوس ناک طریقے سے لائی جائیں جو کہ بہت زیادہ ہیں۔ اس سے داخلی پیداوار کو نقصان پہنچے گا۔ جب داخلی پیداوار کو نقصان پہنچے گا، ایسی ہی صورتحال پیدا ہوگی جس کا ہمیں آج سامنا کرنا پڑرہا ہے، ہمارے جوان بے روزگار ہوں گے، نوکری کے زرائع کم ہوں گے، ملک پر کساد بازاری حاکم ہوجائے گی، عوام کی معیشت اور روز مرہ کی زندگی دشوار ہوجائے گی۔ یہ مسائل تو امریکہ اور یورپ کے ساتھ رابطے کے زریعے حل نہیں ہوپائیں گے، ان کو ہمیں خود حل کرنا چاہئے۔ یہ وہ کام ہیں کہ جو خود ہمیں انجام دیںے ہیں، یہی راستہ ہے۔
ہمارے ملک میں بہت زیادہ توانائیاں موجود ہیں، بہت زیادہ خلاقیت موجود ہے، یہ ۸۰ میلین کا ملک کہ البتہ اب اس کی آبادی ڈیڑھ سو میلین سے بڑھ سکتی ہے اور انشاء اللہ عہدیداران بھی جس طرح ہم نے بارہا اس بات کی تکرار کی ہے کہ اس سلسلے میں تعاون کریں کہ آج خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں جوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے یہ ضایع نہ ہو، نسل میں توقف پیدا نہ ہو، ملک کی آبادی کو آئندہ سالوں کے دوران بتدریج بڑھاپے کی طرف نہ لے جائیں۔ یہ آبادی، یہ ملک، اس طرح کی صلاحیتیں، یہ چار موسمی فصلوں کی نعمت سے سرشار ملک، یہ تمام چیزیں مادی لحاظ سے پیشرفت کر سکتی ہیں، عوام کی معیشت کی مشکلات حل ہو سکتی ہیں، یہی راستہ ہے۔
میں نے عوام کی معیشت کے مسائل کے بارے میں بہت زیادہ غور و فکر کی، عوام کی معیشت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہوں، البتہ جتنا بھی فکر کرتا ہوں، جتنا زیادہ ماہر اور اس مسئلہ سے آشنا افراد سے صلاح مشورہ کرتا ہوں، اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم داخلی مسائل پر تکیہ کریں۔ یہ کہ غیر ملکی تاجر آنا جانا کریں اور اسکا کوئی نتیجہ بھی نہ نکلے- اور آج تک اس کا کوئی فائدہ ہوا بھی نہیں ہے- اسکا کیا فائدہ؟ آج تقریبا ایک سال ہونے کو ہے مسلسل آنا جانا کر رہے ہیں، اور کوئی کام بھی انجام نہیں دیتے۔ اگر کوئی کام کرنا بھی چاہتے ہیں تو وہ ایران کی مارکیٹوں پر قبضہ ہے کہ جو بالکل ہمارے نقصان میں ہے۔ ان گروہوں کی آمد و رفت کا فائدہ سرمایہ گذاری کی صورت میں ہونا چاہئے۔ پیداوار کی شکل میں ہونا چاہئے۔ جہاں پر ہمیں نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے وہاں نئی ٹیکنالوجی لانے کی صورت میں ہو۔ اس طرح ہونا چاہئے۔ ایسا یا تو ہے ہی نہیں یا بہت کم ہے۔ ان باتوں کی عہدیداران کو رعایت کرنی چاہئے، اس کے پیچھے جائیں۔ یہ جو ہم نے کہا اقدام و عمل البتہ ابھی مشغول ہیں، انشاء اللہ اس کا نتیجہ سامنے آنا چاہئے، اسکا نتیجہ محسوس ہونا چاہئے تاکہ عوام محسوس کر سکیں، دیکھ سکیں، لمس کر سکیں، یہ ہے راستہ۔
البتہ ثقافتی اور معنوی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ باتیں کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس بحث میں داخل نہیں ہونا چاہتے، اس سلسلے میں بحث نہیں کرنا چاہتے، اس پر موقع آنے پر بحث کریں گے۔ اقتصادی اور معیشتی مسائل کے بارے میں یہی بحث ہے۔ اگر عوام کی معیشت کو درست کرنا چاہتے ہیں، انہیں جو مشکلات ہیں، جو طبقہ بندیاں ہیں، تو ہمیں ان کاموں کی جانب توجہ کرنی پڑے گی۔
ان میں سے ایک اہم مسئلہ داخلی فساد کا مسئلہ ہے۔ یہ کام جو آج مطرح ہوا ہے اور کہا گیا ہے اور ذمہ داروں نے بھی الحمداللہ صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اس فساد کا راستہ روکیں گے اور زیادہ خواہی اور زیادہ خوری اور بھاری رقومات پر مبنی تنخواہوں کا راستہ روکیں گے۔ اور بعض مقامات پر اس سلسلے میں اقدامات دیکھنے کو بھی ملے ہیں، بعض آرگنائزیشنز اور اداروں سے جو رپورٹ ہم تک پہنچی ہے، اس سلسلے میں عملی اقدامات کئے گئے ہیں۔ اس میں توسیع آنی چاہئے، اس کی چارہ جوئی کرنی چاہئے، اس کام کو ایسے ہی چھوڑ نہیں دینا چاہئے، اس فساد کا راستہ روکنا چاہئے۔
اشرافیت کا راستہ روکنا چاہئے، اشرافیت ملک کے لئے بلا کی مانند ہے۔ جب معاشرے کی بلندی پر اشرافیت پیدا ہو گی تو پھر نیچے کی جانب پھیلنا شروع ہوگی، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ وہ فلاں گھرانہ جس کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے، جب اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتا ہے یا اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے یا فرض کریں دعوت کرنا چاہتا ہے، تو وہ اشرافیہ کا انداز اپنانے پر مجبور ہے۔ جب اشرافیت ثقافت بن جائے، تو ایسے حالات ہی پیدا ہوں گے۔ اشرافیت کا راستہ روکنا ہوگا۔ عہدیداروں کا رویہ، ذمہ داروں کی باتیں، جو تعلیم دینے کا انداز ہے، ان تمام چیزوں کو اشرافیت کے خلاف ہونا چاہئے، اور یہ اسلام بھی اسی طرح ہے۔
یہ ملکی مسائل کے بارے میں میری گفتگو تھی۔ اقتصادی مسائل کے بارے میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں اور مسلسل یہ بات عوام کے سامنے بھی پیش کی ہے اور ذمہ داروں سے بھی عرض کی ہیں، وہ یہی ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ اپنے آپ پر تکیہ کریں، اپنے توانائیوں کی شناخت کریں، ملکی درد و غم شناختہ شدہ ہیں، ان کا علاج بھی شناختہ شدہ ہے، اس کے معالجے کے لئے منصوبہ بندی کریں اور آگے بڑھیں۔
خطے کے مسائل میں۔ یہ خطہ بھی آج شدید مسائل سے دوچار خطہ ہے۔ یہاں بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہاں بھی امریکی مداخلت ہے۔ جی ہاں، یہ جو سعودی عرب علی الاعلان غاصب صیہونی حکومت سے معاشقہ کر رہا ہے اور علی الاعلان  آمد و رفت کر رہا ہے، یہ امت مسلمہ کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کی مانند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کام سعودیوں نے کیا ہے- یعنی غاصب صیہونی حکومت سے ان کے آشکارا رابطے- یہ حقیقت میں اس خنجر کی مانند ہے جو امت مسلمہ کی پشت میں گھونپ دیا گیا ہو۔ انہوں نے بہت بڑی خیانت کی، یہ لوگ گناہ گار ہیں، لیکن یہاں بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔ چونکہ سعودی حکومت امریکہ کی تابع ہے، چونکہ امریکہ نے اسے مسخر کر لیا ہے، چونکہ اسکی نگاہیں امریکہ کے فرمان پر ٹکی رہتی ہیں، اس لئے اس نے یہ بڑی غلطی کی ہے، یہاں بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔
یا اگر آپ دیکھیں کہ یمن میں تقریبا ڈیڑھ سال سے بمباری کی جارہی ہے، کیا یہ مذاق ہے؟ ایک ملک کو، وہ بھی فوجی مراکز پر نہیں، بلکہ بازاروں پر، اسپتالوں پر، عوام کے گھروں پر، تقریبات پر، کھیل کے میدانوں پر، اسکولوں پر، اس انداز میں بمباری کر رہے ہیں ، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں، یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ نہ ماہ مبارک رمضان کا خیال کرتے ہیں، نہ حرمت والے مہینوں کا، نہ بچوں کا خیال کرتے ہیں، اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں، خوب یہ بھی بہت بڑا جرم ہے اور افسوس کہ سعودی حکومت ان جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، لیکن یہ سب کام بھی امریکی پشت پناہی میں ہو رہا ہے، امریکہ کے گرین سگنل پر، امریکی ہوائی جہازوں کے زریعے، اس اسلحے اور ایمیونیشن کے زریعے کہ جو امریکہ نے پہنچائی ہیں، یہی ہیں جو اس طرح کے امکانات فراہم کر رہے ہیں۔ حتی جب اقوام متحدہ اس مسئلے پر بات کرنا چاہتی ہے- اب ایک زمانے بعد ایک حق بات کرنا چاہتی ہے اور مذمت کرنا چاہتی ہے- اس کا منہ پیسے دے کر، دھمکیاں دے کر دبائو ڈال کر بند کر دیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے روسیاہ اور بدبخت سیکرٹری جنرل نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ دبائو ڈالا گیا مجھ پر۔ خوب دبائو ڈالا، اگر برداشت نہیں کرسکتے استعفی دے دو۔ کیوں اپنی جگہ بیٹھے ہو اور انسانیت سے خیانت کر رہے ہو؟ یہ انسانیت سے خیانت ہے۔ یہاں بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔
بحرین میں بھی اغیار کا ایک لشکر بحرین کے اندر داخل ہوتا ہے تاکہ بحرینی عوام پر دبائو ڈالا جا سکے، یہ سب کچھ بھی امریکہ کے گرین سگنل کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ خوب اب سعودی حکومت، ایسی حکومت ہے کہ جسے بچے چلا رہے ہیں، بچے جو حقیقت میں بیوقوف ہیں، حکومت انکے ہاتھوں میں ہے، لیکن جو چیز انسان مسائل کے تجزئیے سے، اور مسائل کے مشاہدے سے سمجھتا ہے حقیقت میں یہی ہے کہ یہ امریکی ایما پر ہو رہا ہیے اور امریکہ کی پشت پناہی میں ہورہا ہے۔
یہ تکفیری گروہ بھی اسی طرح ہیں۔ اب یہ دعوی کر رہے ہیں کہ تکفیری گروہوں کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے۔ البتہ اب بھی انکے خلاف کوئی صحیح کام انجام نہیں دیا ہے، بعض جگہوں پر حتی جو رپورٹس ہمیں موصول ہوئی ہیں انکے مطابق انہوں نے انکی مدد بھی کی ہے۔ لیکن ان گروہوں کی پیدائش میں بھی خود امریکہ کا ہاتھ ہے کہ جس کا بعض امریکی عہدیداروں نے بھی اعتراف کیا ہے، انہوں نے اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ داعش کی ہم نے مدد کی کہ وہ آئیں، امت امسلمہ کے اندر بھی اختلافات پیدا کریں اور اموی اور مروانی اسلام کی ترویج کریں۔ یہ وہابی اور تکفیری اسلام وہی اموی اسلام ہے، وہی مروانی اسلام ہے، ایسا اسلام ہے کہ جس کا حقیقی اسلام سے کئی میلوں کا فاصلہ ہے، اسلام کو انہوں نے بدنام کر دیا ہے۔ لیکن اب یہ خود انکے دامن گیر ہوگیا ہے۔ یہ فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ جو ہوا بوتا ہے وہی طوفان کاٹتا ہے، اب یہ آہستہ آہستہ یہ لوگ طوفان کاٹنا شروع کریں گے۔ لیکن یہ انکا قصور ہے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے یہ کام انجام دیئے۔
دوسرے مسائل میں بھی اسی طرح ہے۔ امریکی دعوی کرتے ہیں کہ خطے کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن درحقیقت صورتحال اس کے برعکس ہے، یہ لوگ خود ہی مشکلات پیدا کرنے یا ان میں اضافے کا سبب ہیں، مشکلات حل ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ خود خطے کے عوام کے ہاتھ میں ہو تو وہ اپنے مسائل حل کر لیں گے۔ ہم ایک بار پھر اسلامی ممالک کو دعوت دیتے ہیں، ان عرب ممالک کو دعوت دیتے ہیں جو ہمارے اردگرد موجود ہیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے، امریکہ انکو ایک ہتھیار یا آلے کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ایسا ہتھیار کہ جو غاصب صیہونی حکومت اور خطے میں امریکی منفعت کی حفاظت کر سکے۔ امریکہ کو درحقیقت ان سے کوئی محبت نہیں ہے، انکی دولت سے استفادہ کرتا ہے، انکی فوجوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، تاکہ حفاظتی پناہ گاہ بنا سکے، غاصب صیہونی حکومت اور اپنے مستکبرانہ اہداف کی اس خطے میں حفاظت کرسکے۔ یہ وہ کام ہیں جو وہ انجام دے رہا ہے۔
خطے کے مسائل کے سلسلے میں بھی، مسائل کا حل اسلامی ملتوں کے اتحاد، اسلامی حکومتوں کے اتحاد اور استکباری اور امریکی اور بعض یورپی ممالک کے مذموم اہداف کے مدمقابل استقامت سے عبارت ہے۔ بعض یورپی حکومتوں نے امریکہ کی اطاعت کرنے کی وجہ سے اپنا چہرہ خطے کے عوام کے سامنے خراب کر لیا ہے۔ خوب بعض یورپی حکومتوں کے لئے ہمارے عوام- ایرانی عوام- کی نگاہ مثبت تھی لیکن انہوں نے خود ہی امریکہ کی پیروی کر کے اپنی شرمناک حالت بنا لی ہے۔ ان کے اہداف کی شناخت ہونی چاہئے اور انکے مذموم اہداف کے مقبلے میں اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ قومیں یہ کام انجام دے سکتی ہیں البتہ ہماری قوم نے استقامت دکھائی ہے۔
یہ بات بھی عرض کرتا چلوں: ان تمام تر باتوں اور تفسیروں کے باوجود امریکہ خطے میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اسکی سازشیں افشاء ہورہی ہیں اور یہ معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہ رہا ہے۔ مختلف ممالک میں مداخلت کرنا چاہ رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ہمارا دشمن ہو اور دوسروں سے اسکی دوستی ہو، نہیں، آپ نے ترکی میں مشاہدہ کیا، البتہ یہ ابھی تک ہم پر ثابت نہیں ہوا ہے، لیکن بہت مظبوط الزام لگایا جا رہا ہے کہ ترکی میں ہونے والی اس بغاوت کے پیچھے امریکی منصوبہ بندی اور پلاننگ تھی۔ اگر یہ ثابت ہوگیا تو یہ امریکہ کی بہت بڑی رسوائی ہوگی۔ ترکی ایسا ملک ہے جسکے امریکہ کے ساتھ اچھے روابط تھے اور کہا جاتا تھا کہ خطے میں امریکی اتحادی ہے، لیکن ترکی کو بھی حتی بنانا نہیں چاہتے، چونکہ وہاں ایک اسلامی رجحان موجود ہے، یہ اسلام کے مخالف ہیں، اسلامی رجحان کے مخالف ہیں، لہذا بغاوت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، البتہ وہ ناکام ہوگئی، وہ لوگ مغلوب ہوگئے اور ترکی کے عوام کی آنکھوں میں منفور ہوگئے، دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہی ہے، عراق میں، شام میں بھی، دوسرے علاقوں میں بھی الحمد اللہ یہ لوگ کمزور ہوتے جارہے ہیں۔
اگر ہم یعنی ملت ایران خداوند متعال کے وعدے سے پر امید ہوں اور اسکے مقدمات فراہم کریں ، مشکلات برطرف ہوجائیں گی۔ خدا نے فرمایا ہے: اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم، اگر تم دین خدا کی نصرت کرو گے اور اسکے لئے زمینہ فراہم کروگے اور اسکی نصرت و مدد کروگے تو یقینا خداوند متعال بھی تمہاری مدد و نصرت کرے گا، اور جس کی خدا مدد کرتا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اسے کمزور نہیں کرسکتی، وہ دن بدن طاقتور ہوتا چلا جائے گا اور کامیابیاں اسکے قدم چومیں گی۔ امید کرتا ہوں کہ خداوند متعال ملت ایران کو تمام میدانوں میں- امن و امان کے میدان میں، اقتصاد کے میدان میں، فوجی، سیاسی، ثقافتی اور علمی میدانوں میں- ان شاء اللہ تعالی کامیاب کرے گا اور ملت عزیز کو ہر روز پہلے سے زیادہ خوش بخت اور کامیاب قرار دے۔


والسّلام‌ علیکم‌ و رحمةالله و برکاته