ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عید بعثت اور نوروز کی مناسبت سے عوام سے خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد (صلّی الله علیه و آله) و علی اهل بیته الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین. اللهمّ صلّ علی علیّ بن موسی الرّضا ولیّک عدد ما فی علمک صلاة دائمة بدوام ملکک و سلطانک. اللهمّ سلّم علی ولیّک علیّ بن موسی الرّضا عدد ما فی علمک سلاماً دائماً بدوام ملکک و سلطانک و جبروتک.

ہم نئے سال کی تقریب کو ہر سال حضرت علی ابن موسی الرضا سلام اللہ علیہ کے حرم مطہر کے زیر سایہ منعقد کرتے تھے اور مشہد کے عزیز عوام اور ملک بھر سے مشہد میں حاضر ہونے والے عزیز زائرین کی شرکت سے ہماری تقریب آراستہ اور منور  ہوتی تھی، مگر اس سال ہم اس سے محروم ہیں۔

گر چه دوریم به یاد تو سخن میگوییم بُعد منزل نبود در سفر روحانی (۱)

(اگرچہ ہم دور ہیں لیکن تیری یاد میں گفتگو کرتے ہیں، روحانی سفر میں منزل کی دوری کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔)

میری نظر میں بہتر یہ ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہیں، دور سے ہی مخصوص صلوات بھیجیں؛ اَللَهُمَّ‌ صَلِّ‌ عَلیٰ‌ عَلیِّ‌ بنِ‌ موسَی‌ الرِّضَا المُرتَضَی الاِمامِ التَّقیِّ النَّقیِّ وَ حُجَّتِکَ عَلیٰ مَن فَوقَ الاَرضِ وَ مَن تَحتَ الثَّرَی الصِّدّیقِ الشَّهیدِ صَلاةً کَثیرَةً نامیَةً زاکیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً کَاَفضَلِ ما صَلَّیتَ عَلیٰ اَحَدٍ مِن اَولِیائِک.(۲)

میں عید سعید بعثت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج کا دن اہم ہے یہ دن  ہماری سب سے بڑی اسلامی عیدوں میں  شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح میں ایک بار پھر عید نوروز اور بہار کی آمد کی مناسبت سے بھی اپنے عزیز عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کا دن بہت  ہی عظيم دن  ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کی اہمیت کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے، علم ہونا چاہیے۔ پیغمبر اسلام (ص) کا مبعوث برسالت ہونا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالی نے دیگر انبیاء سے عہد اور  میثاق لیا ہے ۔ وَ اِذ اَخَذَ اللهُ‌ میثاقَ‌ النَّبِیّینَ لَما ءاتَیتُکُم مِن ‌کِتٰبٍ‌ وَ حِکمَةٍ ثُمَّ جاٰءَکُم رَسولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَکُم ‌لَتُؤمِنُنَّ بِه وَ لَتَنصُرُنَّه (۳) اس آیہ شریفہ کے مطابق اللہ تعالی نے پوری تاریخ میں اپنے انبیائے کرام سے یہ عہد لیا کہ آئندہ مبعوث ہونے والے رسول اسلام (ص) پرایمان بھی لائیں اور ان کی نصرت بھی کریں۔ ایمان کا مفہوم تو واضح ہے لیکن نصرت سے مراد یہ ہے کہ اپنے افراد کو، اپنی امت کو اپنے پیروکاروں کو رسول اسلام  کے بارے میں  آگاہ کریں اور انھیں ہدایت اور سفارش کریں کہ رسول اسلام (ص)  کی طرف مائل ہوں اور ان پر ایمان لائیں۔ پیغمبروں کی طرف سے یہ کمترین نصرت ہے۔ اللہ نے ان سے اس کا عہد اور میثاق  لیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن کی ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَّذی یَجِدونَه مَکتوبًا عِندَهُم فِی التَّوریٰةِ وَ الاِنجیل (۴) یعنی ہمارے پیغمبر کا نام، علامات اور خصوصیات اس توریت اور انجیل میں موجود تھیں جن میں تحریف نہیں ہوئي تھی۔ یا ایک اور آیت میں اللہ تعالی حضرت عیسی (ع) کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذ قالَ عیسَی ابنُ مَریَمَ یٰبَنی اِسرائیلَ اِنّی رَسولُ اللهِ اِلَیکُم مُصَدِّقًا لِما بَینَ یَدَیَّ مِنَ التَّوریٰةِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسولٍ یَأتی مِن بَعدِی اسمُه اَحمَد (۵) حضرت عیسی نے تو آنحضرت کا نام بھی ذکر کر دیا تھا۔ تو یہ اس طرح کا عظیم واقعہ ہے۔ اس کا ذکر نہج البلاغہ میں بھی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اِلی اَن بَعَثَ اللَهُ مُحَمَّداً رَسُولَ اللَهِ صلّی الله علیه و آله لِاِنجازِ عِدَتِه وَ تَمامِ نُبُوَّتِه مَأخُوذاً عَلَی النَّبیّینَ مِیثاقُه ‌(۶) یعنی اللہ تعالی نے پیغمبروں سے میثاق لیا ہے، عہد لیا ہے کہ ان کے سلسلے میں ایسا سلوک اختیار کریں۔

در حقیقت  بعثت میں بڑے عظیم مضامین مضمر ہیں۔ میں بعثت کےموضوع اور مضمون کے بارے میں اختصار سے چند باتیں عرض کروں گا اس کے بعد اسے اپنی آج کی صورت حال سے متصل کروں گا کیونکہ عملی اعتبار سے ہمارے لئے اس کے گہرے اثرات ہیں۔ یعنی یہ صرف عقیدے کا معاملہ نہیں ہے۔

وحی الہی اور بعثت نے عوام کے سامنے کچھ حقائق نمایاں اور واضح  کئے، بشریت کو کچھ حقائق سے آشنا کیا۔ یہ حقائق ایسے ہیں کہ اگر افراد اور معاشرے ان حقائ‍ق پر ایمان لائیں اور ان کی عملی پابندی کریں تو انھیں " حیات طیبہ "  حاصل ہوگی۔ حیات طیبہ کیا ہے؟ حیات طیبہ یعنی شیریں، مفید اور پسندیدہ زندگی، پاکیزہ زندگی۔ پاکیزہ زندگی کا مطلب یہ ہے کہ زندگی شیریں ہو، پسندیدہ ہو۔ راہ کمال پر گامزن ہونے میں انسان کی مدد کرے، آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہو  اوردنیا و آخرت میں  تمام اچھائیوں اور خوبیوں سے آراستہ ہو ۔ یہ حیات طیبہ ہے۔ اگر دلوں کو ان حقائق اور ان معارف سے آشنائی ہو جائے، اس کے پابند ہو جائیں اور ان پر عمل کریں تو یقینا حیات طیبہ نصیب ہوگی۔

ان حقائق کا ایک حصہ اسلام کا معرفتی نظام ہے۔ اسلام کے معرفتی نظام سے مراد ہے وجود کے بارے میں، انسان کے بارے میں، دنیا میں انسان کے کردار کے بارے میں، اللہ کی پاکیزہ ذات کے بارے میں، اللہ کے اسماء اور صفات کے بارے میں اسلام کا نظریہ۔ ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں؛ مَلَأَت اَرکانَ کُلِّ شَیء، یا ماہ رجب کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں؛ بِهِم مَلَأتَ سَمائَکَ وَ اَرضَک، یہ وہ حقائق ہیں جو دنیا میں اور موت کے بعد انسان کو در پیش راستے میں بہت اہم ہیں۔ یہ اسلام کا معرفتی سلسلہ ہے، اسلام کا معرفتی نظام ہے۔ اسلام نے انسانیت کو ان حقائق کی تعلیم دی ہے اور ان کے تعلق سے انسانوں کو ہوشیار اور بیدار کیا ہے۔

ان حقائق کا ایک اور حصہ اسلام کا نظامِ اقدار ہے۔ ان اقدار کا نظام جن کی اسلام نے حمایت کی۔ یعنی اقدار کے طور پر انھیں قبول کیا ہے اور تمام افراد اور انسانی معاشروں کی ذمہ داری ہے کہ خود کو ان اقدار سے قریب کریں، ان کی جانب جائیں  اس لئے کہ ان کی سعادت اُن اقدار میں مضمر ہے۔ جیسے انفرادی اخلاق کہ انسان کے اندر صبر ہونا چاہیے، بردباری ہونا چاہیے، عفو اور بخشش ہونا چاہیے، یا اسی طرح کے دوسرے صفات جو انسانوں کے ذاتی صفات میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح عمومی اور زندگی ساز مفاہیم جیسے آزادی، سماجی انصاف، انسانی وقار، طرز زندگی۔ یہ اسلام کے ان اقدار میں ہیں جنہیں اسلام نے بیان کیا اور ہمیں آگاہ کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ سماجی انصاف اور آزادی وغیرہ جیسے افکار، مغرب سے عالم اسلام میں آئے ہیں۔ یا اسلامی مفکرین نے ان مفاہیم کو اہل مغرب سے  حاصل کیا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ مغرب صرف تین صدیوں سے ان مفاہیم سے آشنا ہوا ہے اس سے قبل مغرب کو ان مفاہیم کے بارے میں کوئی آشنائی نہیں تھی۔ نشأت ثانیہ کے بعد اسے ان مفاہیم سے آشنائی ملی۔ جبکہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ان مفاہیم کو بہت واضح الفاظ میں قرآن میں بیان کر دیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اہل مغرب نے ان مفاہیم کو پیش تو کیا لیکن کبھی بھی نیک نیتی سے اس پر عمل نہیں کیا ۔ نہ آزادی پر عمل کیا ہے، نہ سماجی انصاف پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے زبان سے کہا لیکن عمل نہیں کیا۔ اسلام میں یہ مفاہیم موجود تھے اور پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے سے ہی ان پر عمل بھی ہوا۔ یہ عبارت: «اُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُم» (۷) قرآن کریم کی تو ہے۔پیغمبر کو حکم دیا گيا ہے کہ انصاف قائم کریں۔ اس سے مراد وہی عمومی عدل اور سماجی انصاف ہے؛ اِنّا اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّنٰتِ وَ اَنزَلنا مَعَهُمُ الکـِتٰبَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط (۸) یعنی انبیا کا بھیجا جانا اور رسولوں اور آسمانی کتابوں کا نزول  اس لئے تھا کہ 'قسط' یعنی یہی سماجی انصاف اور اقتصادی انصاف عوام کے درمیان قائم ہو۔ تو یہ قدیمی اسلامی نظریات ہیں۔

یا نہج البلاغہ میں آزادی کے بارے  میں امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول ہے ۔ مغربی ممالک جیسے فرانس اور دیگر ممالک میں آزادی کا موضوع زیر بحث آنے سے ہزار سال پہلے حضرت فرماتے ہیں؛ لا تَکُن‌ عَبدَ غَیرِکَ‌ وَ قَد جَعَلَکَ اللهُ حُرّا (۹) اس سے زیادہ واضح اور کیا ہو سکتا ہے؟ یعنی انسان آزاد ہیں، انھیں آزادی حاصل ہے۔ اس میں ہر طرح کی آزادی شامل ہے۔ یا وہ دوسرا جملہ جو بہت مشہور ہے: استعبدتم النّاس و قد خلقهم الله احرارا، یہ اس دور کے بعض گورنروں سے خطاب میں کہا گیا ہے؛ «استعبدتم النّاس» آپ، لوگوں کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے انھیں آزاد پیدا کیا ہے؟ یہ اسلامی تعلیمات ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اس طرح کی چیزیں کثرت سے موجود ہیں۔ نہج البلاغہ میں اس سلسلے میں بہت سے اقوال موجود ہیں، اسی طرح دوسرے  اسلامی مآخذ میں بھی بہت سے اقوال موجود ہیں ۔ لہذا اقدار کا یہ سلسلہ، تعلیمات و معارف کا یہ نظام، یہ معرفتی نظام اور اقدار کا یہ نظام اس انداز کا ہے۔ ان کے ذیل میں پھر احکام ہیں۔ یعنی کیا ہونا چاہیے، کیا نہیں ہونا چاہیے، کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اسلامی احکام ہیں۔ ان میں انفرادی و ذاتی احکامات بھی ہیں اور اجتماعی و سماجی احکامات بھی ہیں۔ سارے احکامات کا سرچشمہ یہی معارف و تعلیمات ہیں اور وہ انہیں اقدار سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالی نے ایک مسلمان کے لئے جو فرائض مقرر فرمائے ہیں ان سب کا سرچشمہ یہی بنیادی مفاہیم ہیں۔ وہ سب انہیں اقدار کے مطابق ہیں جو اس راہ میں انسان کے ارتقائی عمل میں اسکی مدد کرتے ہیں۔ تو یہ ایک مجموعہ ہے جو بعثت کے وقت انسانوں کو بطور تحفہ حاصل ہوا ہے۔

اب اگر ہم ان چیزوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں،  اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ اقدار معاشرے کی اعتقادی فضا میں حقیقی معنی میں رائج ہو جائیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ اقدار عوام کے عمل کی شکل میں نظر آئیں، عوام کی رفتار وگفتار میں ظاہر ہوں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ احکامات جو انسان کے ارتقاء اور اسکی ترقی و پیشرفت کا ذریعہ ہیں، تو اس کے لئے سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی طاقت نہ ہو تو سرکش افراد اپنی ضد سے باز نہیں آئیں گے، کاہل افراد بھی انجام نہیں دیں گے۔ سامراجی طاقتوں، سرمایہ داروں اور سرکش افراد کے پیروکار، انہیں کی راہ پر چلتے ہیں۔ یعنی نبوت کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہو پاتا۔ لہذا قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے؛ «ماِّ اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا لِیُطاعَ بِاِذنِ الله» (۱۰) یہ صرف ہمارے پیغمبر(ص)  کی بات نہیں ہے۔ یہ تمام انبیائے الہی کے لئے ہے۔ انہیں کسی بھی مملکت میں اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ ان کی اطاعت ہو، لوگ ان کی پیروی کریں۔ چنانچہ جب یثرب سے لوگ آئے پیغمبر (ص) کو دعوت دینے کے لئے اور انہوں نے مدینہ ہجرت کے لئے اصرار کیا تو پیغمبر اکرم (ص) نے ان سے وہیں بیعت لی۔

بیعت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہمارے حکم اور دستور کی تعمیل کریں گے۔ ہم وہاں اسی شرط پر آئیں گے۔ اس کے بعد جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ پہنچے تو پہلا کام آپ نے یہ کیا کہ سیاسی و سماجی قوت تشکیل دی۔ یعنی حکومت تشکیل دی۔ تو کار نبوت کا ایک لازمی پہلو یہ بھی ہے۔ البتہ پیغمبروں کے دشمن بھی بہت ہوتے تھے۔: وَ کَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطینَ الاِنسِ وَ الجِنّ (۱۱) جب وہ حکومت تشکیل دیتے ہیں تو دشمنوں میں بیرونی دشمن بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ حکومت تشکیل دینے کی صورت میں داخلی دشمنوں کے علاوہ بیرونی دشمن بھی آ جاتے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے۔ اس لئے کہ اگر سیاسی قوت نہ ہو، سیاسی نظام نہ ہو تو بیرونی دشمن اسے خاص اہمیت نہیں دیتا۔ کوئی کچھ بھی بیان دے دے زیادہ اس پر توجہ نہیں دیتا۔ لیکن جب اسے سیاسی طاقت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر بیرونی دشمن، یعنی وہ جو عدل و مساوات کا مخالف ہے، جو آزادی کا مخالف ہے، جو ہر انسان کے بہترین زندگی گزارنے اور خود مختار رہ کر زندگی گزارنے کا مخالف ہے، تو وہ قدرتی اور طبیعی طور پر اس سے دشمنی کا برتاؤ کرے گا۔

میری آج کی گفتگو یہی ہے؛ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہی نسخہ ہے جس پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے عمل کیا۔ یہ من و عن بعثت پیغمبر کا نسخہ ہے۔ یہاں بھی وہی تعلیمات ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اللہ تعالی کی جانب سے لوگوں تک پہنچائیں، اقدار بھی وہی ہیں، احکام بھی وہی ہیں۔ ان احکام کی جانب پیش قدمی کے لئے ایک محکم قوت ایمانی، بلند ہمتی اور اللہ پر توکل کرنے والے قلب کی ضرورت تھی اور یہ ساری خصوصیات امام خمینی میں اکٹھا تھیں۔ چنانچہ آپ نے اقدام کیا اور اللہ تعالی نے بھی آپ کی مدد کی اور یہ تحریک وجود میں آئی۔ البتہ امام خمینی (رہ) اچھی طرح  جانتے تھے کہ اسلامی و ایمانی جذبہ، ایرانی قوم کے دلوں کی گہرائی میں اترا ہوا ہے، یہ مومن قوم  ہیں۔ البتہ یہ ایک الگ بحث ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایران کے عوام کا جذبۂ ایمانی اور دلوں کی گہرائی میں موجود ایمان و عقیدہ اس وقت بھی اور آج بھی بعض ظاہری چیزوں کے برخلاف، بہت زیادہ ہے۔ ہماری قوم کی ایک اہم خصوصیت بحمد اللہ یہی ہے۔

حضرت امام خمینی (رہ) کو اس کا علم تھا۔ اسی لئے آپ نے اسلام، اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کا موضوع اٹھایا۔ حالات بھی سازگار تھے اور امام خمینی (رہ) نے حالات کی نباضی کی، فضا اس لئے سازگار تھی کہ وسیع پیمانے پر پہلوی حکومت کا ظلم پھیلا ہوا تھا، کرپشن اور بدعنوانی پھیلی ہوئی تھی، یہ حکومت اغیار کی آلہ کار بھی تھی، بدعنوان بھی تھی، ظالم بھی تھی، حقیقی انسانی اقدار  سے بے بہرہ بھی تھی اور عوام کو کچل رہی تھی۔ اس بدعنوان و ظالم حکومت کی حالت سب کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ یہ سازگار ماحول تھا، امام خمینی (رہ)  نے اس سازگار ماحول کا فائدہ اٹھایا اور اسلامی انقلاب کا معجزہ اور اسلامی جمہوریہ کا معجزہ وقوع پذیر ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا معرض وجود میں آنا ایک معجزہ تھا جو رونما ہوا۔ یہ اسی عظیم تحریک کی برکت تھی۔

پہلا اسلامی معاشرہ یعنی وہ معاشرہ جسے پیغمبر اکرم (ص) نے مدینے میں تشکیل دیا چند ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ جو لوگ مدینہ میں سکونت پذیر تھے وہ سات آٹھ ہزار یا دس ہزار سے زیادہ نہیں تھے جب اس کی تشکیل عمل میں آئی۔ پیغمبراکرم (ص) کی ہدایت کی برکت سے، پیغمبر اکرم کے ذریعے پیش کئے گئے احکامات و تعلیمات کی برکت سے، حالانکہ پیغمبر کے بعد کچھ بنیادی مسائل بھی پیدا ہو گئے، لیکن اس کے باوجود یہ تحریک اتنی مستحکم تھی اور اس کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط  ہو گئیں کہ روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہوا، روز بروز اس کا استحکام بڑھتا گیا۔ صورت حال یہ ہو گئی کہ چوتھی صدی ہجری میں یعنی پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے تین سو سال بعد اسلامی معاشرہ سیاسی اعتبار سے دنیا کا سب سے وسیع معاشرہ بن گيا اور یہ تاریح کے بالکل مسلمہ حقائق ہیں،  عسکری اعتبار سے اس کے پاس دنیا کی سب سے طاقتور فوج تھی۔ علم و دانش کے اعتبار سے وہ دنیا کے سب سے اعلی علمی و ثقافتی مقام پر پہنچ گيا تھا۔ یعنی بعثت پیغمبر(ص) کے تین صدیوں بعد یہ اسلامی معاشرہ سیاسی اعتبار سے، فوجی اعتبار سے، علمی اعتبار سے اور ثقافتی اعتبار سے اس بلند مقام پر پہنچ گیا اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس کے بدعنوان اور نابکار خلفا کے مسند خلافت پر قابض رہے! اگر ان کی جگہ ائمہ ہدایت مسند خلافت پر ہوتے یا وہ افراد ہوتے جنہیں ائمہ نے منصوب کیا ہوتا تو یقینا پیشرفت اس سے دس گنا زیادہ ہوتی۔ اسلام اس انداز سے آگے بڑھتا ہے۔ اسلام کی پیش قدمی کے عمل کی فطری خصوصیت ہے ارتقا اور مستحکم ہونا۔

آج کا نسخہ بھی یہی ہے۔ آج اگر ہم صدق دل کے ساتھ کام کریں، عمل کریں، تساہلی نہ کریں، کوتاہ فکری سے دور رہیں، سادہ لوحی نہ دکھائیں تو ایران کو اسی بلند چوٹی پر پہنچا سکتے ہیں۔ البتہ ایران کو علمی، ثقافتی، صنعتی، عسکری، سیاسی بلندی پر پہنچانا ہمارا قریبی ہدف ہے جبکہ ہمارا دراز مدتی ہدف اسلامی تمدن کی تشکیل ہے جو الگ موضوع ہے۔

ہمیں دشمن کی عداوتوں پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے بہت سے دشمن ہیں، اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے؛ «وَ کَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یوحی بَعضُهُم اِلیٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورا» (12) کچھ جن بھی دشمن ہیں، کچھ انسان بھی دشمن ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ بہت سے ملکوں کی خفیہ اور انٹیلیجنس ایجنسیاں آپس میں ہمارے خلاف تعاون کرتی ہیں، یوحی بَعضُهُم اِلیٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورا۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جنگ احزاب کے موقع پر جب پیغمبر (ص) کی تمام دشمن طاقتیں، عرب قبائل سے لے کر مکہ، طائف اور دیگر جگہوں پر موجود متعدد قبائل تک سب ایک ساتھ جمع ہو گئے، سب نے آپس میں ساز باز کر لی، مدینے کے نزدیک جو یہودی آباد تھے انہیں بھی ان لوگوں نے اپنے ساتھ ملا لیا تو ظاہر ہے مسلمانوں کے لئے یہ بہت عجیب واقعہ تھا۔ لیکن مسلمانوں نے اس پر تعجب نہیں کیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے؛ وَ لَمّا رَءَا المُؤمِنونَ الاَحزابَ قالوا هذا ما وَعَدَنا اللهُ وَ رَسولُه وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسولُه۔ یعنی جب دیکھا کہ دشمنوں نے اس انداز سے ان کے خلاف اقدامات کئے ہیں تو انھوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے ہمیں آگاہ کر دیا تھا کہ تمہارے کچھ دشمن ہوں گے جو آئیں گے اور تمہارے اوپر حملہ کریں گے۔ اب وہ لوگ آن پہچے ہیں، تو دشمن کا یہ عمل دیکھ کر ہمارا ایمان اور بھی بڑھ جانا چاہئے کہ «صَدَقَ اللهُ وَ رَسولُه»، اللہ تعالی اور اس کے رسول نے جو پیشین گوئی کی تھی وہ سچ ثابت ہوئی۔ وَ ما زادَهُم ‌اِلّاٰ ایمانًا وَ تَسلیما (13)۔

بیشک آج ہمارا، اسلامی جمہوریہ کا، سب سے خبیث ترین دشمن امریکہ ہے۔ البتہ ہمارے دشمن کم نہیں ہیں لیکن جو سب سے زیادہ خبیث اور ضدی دشمن ہے وہ امریکہ ہے۔ امریکی حکام جھوٹے بھی ہیں، دھوکے باز بھی ہیں، بے غیرت بھی ہیں، حریص اور لالچی  بھی ہیں، عیار بھی ہیں۔ آپ ان کی حرکتوں اور ان کی باتوں پر ایک نظر ڈالئے۔ آپ دیکھئے کہ عیاروں کی طرح بات کرتے ہیں۔ یعنی انواع و اقسام کی پست اخلاقی برائیاں ہیں، البتہ اس کے ساتھ ہی وہ ظالم بھی ہیں، سنگ دل بھی ہیں، حد درجہ بے رحم ہیں، دہشت گرد ہیں۔ یعنی الگ الگ افراد میں جو برائیاں ہوتی ہیں وہ ساری برائیاں ان میں ایک ساتھ جمع ہیں! یعنی ہمارے مد مقابل اس طرح کا دشمن ہے۔

اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام (ص)  کو دشمن کی عداوت اور دشمنی کا سامنا کرنے کے لئے ایک دستور العمل دیا۔ آغاز بعثت سے ہی اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم کو صبر کی تلقین کی۔ سورۂ مدثر میں جو آغاز بعثت میں نازل ہونے والے سوروں میں ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے؛ وَ لِرَبِّکَ فَاصبِر (14) اپنے پروردگار کی خاطر تحمل کرو۔ سورہ مزمل میں جو ابتدائی دور میں نازل ہونے والے سوروں میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے؛ «وَ اصبِر عَلیٰ ما یَقولون» (15) قرآن میں دوسری جگہوں پر بھی قرآن نے بار بار اسی مفہوم کو دہرایا ہے۔ دو جگہوں پر ارشاد ہوتا ہے؛ وَ استَقِم کَماٰ اُمِرت (16) استقامت کا مظاہرہ کرو، سورہ ہود میں بھی ہے اور سورہ شوری میں بھی ہے۔ یعنی اللہ نے دستور العمل بھی معین فرما دیا۔

صبر سے کیا مراد ہے؟ صبر کا مطلب خاموش بیٹھ جانا، ہاتھ پر ہاتھ  رکھ کر بیٹھے رہنا اور واقعات و نتائج کا انتظار کرنا نہیں ہے۔ صبر کا مطلب ہے استقامت کا مظاہرہ کرنا، مزاحمت کرنا، دشمن کے مکر و فریب کے پیش نظر اپنے درست اندازوں اور اللہ تعالی کی صحیح تخمینوں کو تبدیل نہ کرنا۔ صبر کا مطلب ہے ان اہداف کے لئے کوشاں رہنا جو ہم نے اپنے لئے معین کئے ہیں۔ صبر کا مطلب ہے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا اور پیش قدمی جاری رکھنا۔ یہ ہے صبر کا مطلب ۔ اگر اس ثابت قدمی اور مزاحمت کے ساتھ ساتھ عقل و تدبیر اور مشاورت بھی ہو، جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے؛ «اَمرُهُم شوریٰ بَینَهُم» (17)، تو کامیابی ملنا یقینی ہے۔ میں پورے اطمینان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملت ایران صابر قوم ہے۔ اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صبر کرتی ہے۔ البتہ ہم عہدیداران بعض اوقات بے صبری دکھاتے ہیں، لیکن ملت نہیں، ملت نے ہمیشہ صبر کیا۔ یہ چالیس سال ہمارے لئے اس حقیقت کو پوری طرح سے واضح اور ثابت کرتے ہیں۔ ہمارے بعض نام نہاد روشن خیال افراد بھی بے صبری کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، ان میں بعض کی بے صبری تو اتنی بڑھ گئی کہ وہ دشمن سے تعاون کرنے اور دشمن کی زبان بولنے کی حد تک آگے بڑھ گئے، البتہ بعض ایسے تھے۔ ان کے مقابلے میں وہ مومن نوجوان ہیں، کہ جن کی تعداد بحمد اللہ بہت زیادہ ہے اور روز بروز ان شاء اللہ اس میں اضافہ ہوتا جائے گا، جو ثقافت کے میدان میں، علم و دانش کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، بین الاقوامی امور کے ادراک کے میدان میں، یعنی بین الاقوامی مسائل کو درستگی کے ساتھ سمجھنے اور ان کا ادراک رکھنے کے میدان میں موجود ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ان کی تعداد روز بروز بحمد اللہ بڑھتی جا رہی ہے۔

تو صبر کرنے کا مطلب ہے ہتھیار نہ ڈالنا، کمزوری کا شکار نہ ہونا، شک و تردید میں نہ پڑنا، بلکہ شجاعت و تدبر کے ساتھ دشمن کے مد مقابل ڈٹ جانا اور اسے مغلوب کرنا۔ اسی صورت حال کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے؛ اِن یَکُن‌ مِنکُم‌ عِشرونَ‌ صٰبِرونَ‌ یَغلِبوا مِائَتَین (18) آپ کے دس لوگ ان کے سو افراد اور آپ کے بیس لوگ ان کے دو سو افراد کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور انہیں مغلوب کر سکتے ہیں۔ ایک صورت حال تو یہ ہے جس میں ایک شخص دس افراد کے برابر ہے اور ایک صورت حال ایسی ہے جس میں آپ اپنے دوگنا افراد کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

میں نے اپنے  حالیہ بیانات میں کئی دفعہ یہ بات دہرائی کہ ملک کو طاقتور ہونے کی ضرورت ہے (19) ملک کو طاقتور بنانا ہمارے اہداف میں شامل ہے۔ یہ بھی بعثت کے نسخے کے بنیادی اصولوں میں ہے۔ یہ بھی بعثت سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی قرآن کریم سے ماخوذ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے؛ «وَ اَعِدّوا لَهُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّة» (20) جہاں تک ممکن ہو اپنی طاقت بڑھائیے۔ یہ طاقت پہلی نظر میں تو عسکری طاقت محسوس ہوتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا دائرہ عسکری قوت سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ اس قوت کے پہلو بہت وسیع ہیں۔ اس میں اقتصادی پہلو شامل ہے، اقتصادی قوت شامل ہے، علمی طاقت شامل ہے، ثقافتی طاقت شامل ہے، سیاسی طاقت بھی شامل ہے۔ سیاسی طاقت کا مقدمہ سیاسی خود مختاری ہے، اس میں تشہیراتی قوت بھی شامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی تقویت کے دوسرے پہلو اور میدان بھی سامنے آئیں گے۔ مثال کے طور پر آج ملک کی نوجوان آبادی کی شرح کو باقی رکھنا طاقت کا ایک وسیلہ ہے۔ یہ جو میں بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھانے پر زور دیتا ہوں اس کی یہی وجہ ہے۔ آج ہمارا ملک جوان ملک ہے۔ لیکن اگر ملک میں بچوں کی پیدائش کی شرح ضروری اور کافی مقدار میں نہ رہی تو، جیسا کہ اس وقت یہ شرح لازمی مقدار سے کم ہے، تو کچھ عرصہ بعد، چند سال بعد ملک میں نوجوان نسل بہت کم ہو جائے گی۔ پھر جس ملک میں نوجوانوں کی آبادی کم ہوتی ہے اس کی پیشرفت بھی کم ہو جاتی ہے۔ طاقت کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ معاشرے میں نوجوانوں کی اکثریت رہے۔ یا آجکل سائیبر اسپیس کی سطح پر طاقت بہت کلیدی ہے۔ آج ساری دنیا میں سائیبر اسپیس انسانوں کی زندگی پر مسلط ہے۔ ایک تعداد تو اپنے سارے امور سائیبر اسپیس میں ہی انجام دیتی ہے۔ تو اس میدان میں طاقتور ہونا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یا مثال کے طور پر صحت و سلامتی اور میڈیکل کے شعبے میں طاقتور ہونا بہت بنیادی اور حیاتی چیز ہے۔ بحمد اللہ اس میدان میں ہمارے محققین، ہمارے ڈاکٹر اور اس شعبے کے ماہرین نے خوب کام کیا ہے۔

پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت جو میں نے اس سال کا نعرہ چنا ہے، وہ بھی در حقیقت طاقت کا ایک ذریعہ ہے۔ پیداوار میں تیز رفتار پیشرفت ہونا چاہئے۔ پیداوار میں صرف جنبش اور فروغ کافی نہیں ہے۔ پیداوار کے فروغ کا مطلب یہ ہے کہ ایک تحرک پیدا ہو اور یہ کام انجام پائے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ ہماری ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں ایک جست اور چھلانگ کی ضرورت ہے۔ البتہ پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت کے کچھ لوازمات بھی ہیں۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ سرمایہ دار اور کارخانے کے مالکان ارادہ کر لیں کہ پروڈکشن بڑھائیں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اپنا اپنا فریضہ انجام دیں۔ اسمگلنگ کا پوری طرح سد باب کیا جائے۔ بے تحاشا امپورٹ پر روک لگے۔ پیداواری شعبے میں سرگرم افراد کے لئے ترغیبی پروگرام تیار کئے جائیں۔ جو لوگ سرکاری مالی مدد کا غلط استعمال کر رہے ہیں ان کے خلاف عدالتی کارروائی ہو۔ اسی طرح کے کچھ کام ہیں جو انجام دینے کی ضرورت ہے، ان شاء اللہ اس سال یہ سارے کام انجام پائیں گے، تو پیداوار تیز رفتاری سے آگے بڑھے گی۔

البتہ ان دنوں ہمیں ایک ہمہ گیر اور عالمی وباء اور بیماری کا سامنا ہے۔ یہ وائرس دنیا کے تمام ملکوں میں لوگوں کی جانیں لے رہا ہے اور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ بعض تو حالات بتا رہے ہیں کہ ان کے ملک کی صورتحال کیسی ہے اور بعض پردہ ڈال رہے ہیں۔ انسان بعض بیانوں سے سمجھ لیتا ہے کہ یہ لوگ جو بیان دے رہے ہیں وہ حقیقت سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وائرس اپنا کام کر رہا ہے۔ یہ بیماری اس آیہ کریمہ کی مصداق ہے؛ وَ لَنَبلُوَنَّکُم بِشَیءٍ مِنَ ‌الخَوفِ وَالجوعِ وَ نَقصٍ مِنَ الاَموالِ وَ الاَنفُسِ وَ الثَّمَرٰت۔ یہ اپنے ساتھ خوف بھی لائی ہے اور واقعی کچھ لوگ اس سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں، اسی طرح اقتصادی مشکلات بھی پیدا کر رہی ہے۔ مالی، جانی اور ثمرات کا نقصان اپنے ہمراہ لئے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے؛ وَ بَشِّرِ الصٰبِرین (21)۔ اس معاملے میں بھی صبر و تحمل ضروری ہے۔ اس معاملے میں صبر کا مطلب ہے پوری درستگی کے ساتھ کام کرنا، عاقلانہ انداز میں کام کرنا۔ ملک کے متعلقہ عہدیداران نے کچھ احکامات صادر کئے ہیں، ان احکامات پر ان شاء اللہ بخوبی عمل ہوگا۔ سب کو ان احکامات پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ خود اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے اور ملک کے عوام کی زندگی کی حفاظت کے لئے اور اس خطرناک بیماری کو کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے۔ لہذا سب کو چاہئے کہ خیال رکھیں۔

کورونا سے متعلق موضوعات میں سے ایک اہم بات یہ ہے جسے میں  یہاں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ وہ بات یہ ہے کہ امریکی حکام نے اب تک کئی دفعہ کہا ہے کہ ہم علاج اور دواؤں کے سلسلے میں آپ کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ کئی دفعہ یہ بات کہی ہے کہ بس آپ ہم سے مطالبہ کیجئے تو دوا اور علاج کے سلسلے میں ہم مدد کریں گے۔ یہ حد درجہ بے تکی باتوں میں سے ایک ہے کہ ہم سے کہتے ہیں کہ آپ دوا مانگئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو خود قلت کا سامنا ہے۔ اس وقت امریکہ سے جو خبریں آ رہی ہیں، یعنی خود امریکی جو باتیں کر رہے ہیں، کسی شہر کا میئر بیان دیتا ہے، کسی جگہ کے طبی شعبے کا عہدیدار کوئی بیان دیتا ہے، کسی ریاست کے اسپتال کا انچارج کچھ بیان دیتا ہے، وہ صریحی طور پر کہہ رہے ہیں کہ وحشت ناک قلت کا سامنا ہے۔ بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے والی اشیاء اور وسائل کی بھی قلت ہے اور دواؤں وغیرہ کی بھی شدید کمی ہے۔ اگر آپ کے پاس کچھ ہے اور آپ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں تو اپنے لئے استعمال کیجئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ امریکیوں کے بارے میں تو شک ہے کہ یہ وائرس آپ ہی نے بنایا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے لیکن جب یہ الزام لگ رہا ہے تو کون سمجھدار آدمی آپ پر اعتماد کرے گا کہ آپ سے دوا حاصل کرے گا۔ ممکن ہے کہ آپ کی دوا اس وائرس کے مزید پھیلا کا سبب بنے۔ آپ کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کوئی دوا تجویز کریں یا ہمارے ملک میں سپلائی کریں کہ جو اس وائرس کو ختم ہونے سے روک دے، اسے نہ مٹنے دے۔ یعنی اگر یہ الزام درست ہے اور واقعی آپ ہی نے یہ وائرس بنایا ہے تو پھر آپ یہ حرکتیں بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی اگر کسی کو آپ نے معالج اور ڈاکٹر کی حیثیت سے بھیجا تو ممکن ہے کہ وہ یہاں قریب سے یہ دیکھنے آ رہا ہو کہ آپ کے ذریعے تیار کردہ زہر کا عملی طور پر کیا اثر ہوا ہے۔ اس لئے کہ کہا جا رہا ہے کہ آپ نے مختلف ذرائع سے ایرانیوں کے بارے میں جنٹیک معلومات حاصل کرکے، ایک حصہ خاص طور پر ایران کے لئے بنایا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ آپ اسے بھیج کر یہ چیک کرنا چاہتے ہوں کہ اس کا کیا اثر ہوا، وہ اپنی اطلاعات مکمل کریں اور اپنی دشمنی نکالیں۔ اس لئے ایرانی قوم  کے اندر کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو آپ کی یہ بات مانے۔

میری اپنی عزیز قومے سے آخری گزارش یہ ہے کہ میرے عزیزو! چالیس سالہ تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ  ایران عزیز کے پاس ہر سطح کے مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت اور توانائی موجود ہے۔ یعنی ہر طرح کی مشکلات، مسائل اور چیلنجوں سے، جو در پیش ہیں یا در پیش ہو سکتے ہیں، نمٹنے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ایران کے پاس موجود ہیں۔ ملک کے اندر صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عہدیداران ان توانائیوں کی نشاندہی کریں اور تمام شعبوں میں مومن افراد اور جوش و جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کی خدمات لی جائیں۔ نوجوان، جوش و جذبے والے، مومن اور دیندار افراد کی خدمات، کیونکہ جو دیندار ہوتا ہے اس کی طرف سے غداری کا خدشہ ایک بے دین انسان کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہمیں ہماری منزل کے قریب لے جائے گی۔

میں ایک بار پھر سفارش کروں گا کہ کورونا سے مقابلے کے قومی کمیشن کے حکام  کے احکامات پرعمل ضروری ہے ، جو احکام  نشر کئے جا رہے ہیں، بیان کئے جا رہے ہیں، جن کا اعلان کیا جا رہا ہے ان کے مطابق عمل کرنا لازمی ہے، ان شاء اللہ ۔ یہاں تک کہ دینی اجتماعات کو بھی روک دیا گيا ہے جس کی مثال ہماری پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ حکام نے محسوس کیا کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے، اس طرح سے عمل کیا جائے۔ ان چیزوں کا سب خیال رکھیں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم جلد از جلد ایرانی قوم  کو، تمام مسلمان اقوام اور پوری انسانیت کو اس وباء اور مصیبت  سے نجات  عطا فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

2020/03/22

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔  غزلیات حافظ.

۲۔  کامل ‌الزّیارات، صفحہ ۳۰۹

۳۔  سوره‌ آل عمران، آیت نمبر ۸۱ کا ایک حصہ؛ "  اور یاد کرو اس وقت کو جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد و میثاق لیا کہ جب تمہین میں کتاب و حکمت دوں اور اس کے بعد رسول آئے اور جو کچھ تمہارے ساتھ نازل ہوا اس کی تصدیق کرے تو یقینا تم اس پر ایمان لاؤں اور ضرور اس کی مدد کرو۔. ..."

۴۔  سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۵۷ کا ایک حصہ؛... کہ اس کا نام اپنے پاس توریت میں اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔. ...

۵) سوره‌ صف، آیت نمبر ۶ کا ایک حصہ؛ «اور اس وقت کو یاد کرو جب مریم کے فرزند عیسی نے کہا؛ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے درمیان اللہ کا رسول ہوں۔ میں توریت کی تصدیق کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے تھی اور اس رسول کی بھی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہوگا بشارت دیتا ہوں۔. ...»

۶۔ نهج ‌البلاغہ، خطبہ نمبر ۱

۷۔  سوره‌ شوریٰ، آیت نمبر ۱۵ کا ایک حصہ؛ «... مجھے مامور کیا گيا ہے کہ تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔...»

۸۔  سوره‌ حدید، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ؛ « اور یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو آشکار دلیلوں کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ہمراہ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔...»

۹۔  نهج‌ البلاغہ، مکتوب نمبر ۳۱

۱۰۔  سوره‌ نساء، آیت نمبر ۶۴ کا ایک حصہ؛ «ہم نے کوئی بھی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس مقصد سے کہ توفیق خداوندی سے لوگ اس کی اطاعت کریں۔ ...»

۱۱۔  سوره‌ انعام، بخشی از آیه‌ی ۱۱۲؛ «و بدین گونه برای هر پیامبری دشمنی از شیطانهای اِنس و جن برگماشتیم‌ ...»

12۔  سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۲ کا ایک حصہ؛ «اور اسی طرح ہم نے ہر پیغمبر کے لئے انسانوں اور جناتوں میں سے کچھ دشمن قرار دئے۔ ان میں بعض دوسرے بعض سے ایک دوسرے کو فریب دینے کے لئے خوش آئند باتیں کرتے ہیں۔ ...»

13۔  سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲۲ کا ایک حصہ؛  جب مومنین نے دشمن کے دستوں کو دیکھا تو کہا؛ یہ وہی ہے جس کے بارے میں ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی تھی۔ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور اس چیز نے ان کے ایمان و جذبہ اطاعت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

14۔  سوره‌ مدّثّر، آیت نمبر ۷

15) سوره‌ مزّمّل، آیت نمبر ۱۰ کا ایک حصہ؛ " وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو. ..."

16۔  سوره‌ شوریٰ، آیت نمبر ۱۵ کا ایک حصہ؛ " .. تو جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے ثابت قدم رہو۔. ۔۔"

17 ۔  ایضا، آیت نمبر ۳۸ کا ایک حصہ " ... ان کی روش آپس میں مشورہ کرنا ہے۔. ..."

18۔ سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۵ کا ایک حصہ «... اگر تمہارے درمیان بیس صابر افراد ہوں تو وہ دو سو پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔

19۔  مشرقی آذربائیجان کے عوام سے مورخہ 18 فروری 2020 کا خطاب

20۔ سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۰ کا ایک حصہ

21۔  سوره بقره، آیت ۱۵۵