ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

گیارہویں مجلس شورائے اسلامی کے ایک سال مکمل ہونے پر ممبران سے رہبر انقلاب کا خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

میں اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ایک سال تک جاری رہنے والی سرگرمی کے اختتام پرعوام کے معزز نمائندوں کے ساتھ اس ملاقات کا انعقاد کرسکیں۔ اگرچہ زیادہ شیریں اور دلنشیں اور میٹھا یہ تھا کہ ہم نے آپ کو قریب سے دیکھ پاتے، بدقسمتی سے صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں دور سے ہی آپ سے بات کرنی اور سننی پڑتی ہے۔

میں آج کی گفتگو میں پارلیمنٹ کے بارے میں کچھ مطالب پیش کروں گا اور(اس کے ساتھ ساتھ) انتخابات کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔

پہلے سال میں مجلس شورائے اسلامی کی قابل قبول کارکردگی

الحمد للہ ، گذشتہ سال میں ، پارلیمنٹ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ محنتی بھی ہے، بلند ہمت بھی اور موثر بھی۔ پارلیمنٹ کے معزز اسپیکر نے جو اس فصیح اور بلیغ تقریر میں نکات بیان کئے وہ واقعتا انسان کو خوشحال کرتے ہیں۔ البتہ ہمارے پاس اس سلسلے میں دیگر اطلاعات بھی ہیں جو ان باتوں کی تصدیق و تائید کرتی ہیں۔ الحمدللہ، جوان اوراہل قوتوں کی ان قوتوں کے ہمراہ موجودگی نے جو قانون سازی یا اجرائی امور کا تجربہ رکھتے ہیں اس پارلیمنٹ کو الحمدللہ اس قابل بنایا کہ اچھے نتائج حاصل کرسکے۔ اہم امور میں اچھے خاصے بلوں اور تجاویز کی منظوری میں بھی اور عوام کے درمیان موجودگی کے سلسلے میں بھی۔ عوام کے مابین موجودگی اور عوام کی زندگی کے حقیقی معاملات کو نزدیک سے دیکھنا، جو محترم اسپیکر، مختلف پارلیمانی کمیشنوں کے سربراہوں اور بعض اراکین پارلیمنٹ کے صوبائی دوروں میں دکھائی دیتے ہیں، حقیقت میں بہت اچھا اقدام ہے، ان شاء اللہ اسے جاری رہنا چاہیے۔ عزیزو! عوام کے درمیان اور ان کے ساتھ رہنے کی عادت کو کبھی ترک نہ کریں۔ کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ آپ عوام کے درمیان زندگی گزاریں اور عوام کے ساتھ رہیے۔

عمل اور گفتگو میں پارلیمنٹ کے مخالفین کی مدد سے اراکین پارلیمنٹ کے پرہیز کی ضرورت

اس پارلیمنٹ کے دور کے آغاز سے ہی کچھ لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ پارلیمنٹ کا ایک منفی چہرہ پیش کریں گے، انھوں نے میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر کچھ بیانات بھی دیے ہیں جو آج سبھی کی دسترس میں ہیں، جن سے ہمدردی کی بو بھی نہیں آتی اور وہ آگے بھی دیتے رہیں گے۔ کبھی کوئی اصلاح اور بھلائی کے لیے تنقید کرتا ہے لیکن کبھی خاص جذبات یا خاص سوچ کے تحت اور بغیر خیرخواہی کے تنقید کرتا ہے۔ محسوس ہو جاتا ہے کہ اس طرح کی معاندانہ حرکتوں میں اخلاص کی کوئی رمق ہی نہیں ہے ۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ان چیزوں پر توجہ نہ دیجیے اور اپنے آپ کو ان میں نہ الجھائیے، آپ اپنا کام کرتے رہئے اور مفید اقدامات کو آگے بڑھاتے رہیے، لوگ خود سمجھ جائیں گے، معاشرے کے زہین افراد خود تشخیص دیں گے، نوجوان سمجھ جائیں گے کہ کون کیا کام کر رہا ہے۔ خیرخواہی کے بغیر کیے جانے والے پروپیگنڈوں کی حقیقت جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائے گی اور ان کا جھوٹ عیاں ہو جائے گا۔ میں آپ کو جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آپ اس بات کا خیال رکھیے کہ اپنے عمل یا اپنی باتوں سے اپنے مخالفین کی مدد نہ کیجیے۔ یہ میری تاکید کے ساتھ نصیحت ہے۔ گیارہویں پارلیمنٹ کے اندر قول و فعل ایسا ہونا چاہیے کہ وہ اس پارلیمنٹ کے مخالفیں کی باتوں اور کاموں کی تائید نہ کرے۔ اسی تناظر میں میری کچھ نصیحتیں ہیں۔

اراکین پارلیمنٹ کو کچھ نصیحتیں: (1) تقوی یعنی اچھی صفات پر ثابت قدم رہنا اور دائمی محاسبے کے ذریعے ان کی حفاظت

ایک نصیحت جو کافی اہم ہے یہ ہے کہ آپ، جو بحمد اللہ اچھی صفات کے حامل ہیں، انقلابی ہیں، محنتی ہیں، بلند ہمت ہیں، کام کرنا چاہتے ہیں، ان صفات کی حفاظت کیجیے، ان صفات کو پارلیمنٹ میں اپنے آخری دن تک باقی رکھیے، کہنا تو یہ چاہیے کہ اپنی عمر کے آخری دن تک لیکن کم از کم پارلیمنٹ میں اپنے آخری دن تک تو ضرور باقی رکھیے۔ بہت سے لوگ تھے جن میں شروعات میں یہ صفات اور خصوصیات تھیں، انقلابی تھے، بلند حوصلہ تھے، بھرپور توانائی رکھتے تھے، جوش سے بات کرتے تھے، جوش سے کام کرتے تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ وسوسوں کے سامنے ڈھیلے پڑ گئے، مال کا وسوسہ، منصب کا وسوسہ، شہرت کا وسوسہ، نام و نمود کا وسوسہ۔ وہ لوگ اس کے سامنے استقامت نہیں دکھا سکے، ان کا راستہ منحرف ہو گیا، ان کا رویہ بدل گیا، کبھی کبھی تو ابتدائی رویے کے مقابلے میں مکمل طور پر اور یکسر بدل گیا۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں خداوند عالم فرماتا ہے: "بے شک جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔" (1) رحمت الہی کے فرشتوں کا نزول ان لوگوں کے لیے جو اس بات پر ڈٹے رہتے ہیں: استقاموا؛ وہ استقامت کرتے ہیں، ڈٹے رہتے ہیں۔ تو آپ ان اچھی صفات پر ڈٹے رہیے۔ اب اگر ہم اپنے آپ کو انقلابی باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ میری نصیحت یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کریں، اپنا حساب کتاب کریں۔ مسلسل محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ ہم کمزور انسان ہیں، خطرے کے دہانے پر ہیں، لغزش کے خطرے میں ہیں؛ ہمیں خیال رکھنا چاہیے، اپنے اوپر نظر رکھنی چاہیے۔ اس دیکھ بھال کو قرآنی اور اسلامی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے۔ تقوی یعنی دائمی مراقبہ کہ کہیں انسان کا دامن آس پاس کے کانٹوں میں الجھ نہ جائے۔ تو یہ ایک نصیحت تھی اور میرے خیال میں بنیادی نصیحت یہی ہے۔

(2) پارلیمنٹ کے امور میں عقلیت پسندی اور طمانیت کی ضرورت

اگلی نصیحت یہ ہے کہ آپ انقلابی افراد ہیں، یعنی آپ کی یہی شناخت سامنے آئی ہے۔ پارلیمنٹ، انقلاب کی پارلیمنٹ ہے، انقلابی پارلیمنٹ ہے، بعض افراد کی دشمنی بھی اسی وجہ سے ہے۔ تو اس انقلابی پارلیمنٹ کو، جو انقلابی رویے کی حامل ہے اور انقلابی اقدار کی حامی ہے، یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس میں اہلیت ہے، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے امور کے لیے اس میں ضروری اہلیت اور صلاحیت ہے، وہ صحیح ٹریک بچھا سکتی ہے۔ یہ جو خبریں دی گئیں، مجھ حقیر نے جو رپورٹیں دیکھی یا سنی ہیں اور جو باتیں آج پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے بیان کی ہیں، یہ سب اچھا ہے، یہی چیزیں بہت اچھی ہیں لیکن ملک کے امور کی اصلاح کے لیے پٹری بچھانے میں اس سے زیادہ کاموں کی ضرورت ہے۔ زیادہ کام کرنا ہوگا، زیادہ کوشش کرنی ہونگی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں یہ خصوصیت ہو تو اس کے لیے عقلیت پسندی اور طمانیت کی ضرورت ہے۔

پارلیمنٹ میں ضروری سکون خاطر اور ضروری فکری سکون ہونا چاہیے۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ عقلیت پسندی سے حاصل ہونے والا سکون تو یہ ہیجانی کاموں کی ضد ہے۔ ہیجانی اور جذباتی کام اور جلد بازی والے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہونے چاہیے۔ پارلیمنٹ، ملک کی اجتماعی عقل کا مرقع ہے۔ اگر پارلیمنٹ اجتماعی عقل کی مظہر ہے تو پھر اس میں انجام پانے والے کاموں میں عاقلانہ رویے کی ضرورت ہے۔ بعض لوگوں کو اس سلسلے میں غلط فہمی ہے؛ آپ محتاط رہیے کہ اس طرح کے نہ ہو جائیے، میرا اشارہ پارلیمنٹ کے اندر کی طرف نہیں ہے، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر ایسے کچھ معاملے تھے، ماضی میں بھی تھے اور آج بھی ہیں، ایسے افراد کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہیجانی رویہ، انقلابی رویہ ہے۔ غیر ذمہ دارانہ باتیں، انقلابی رویے کا حصہ نہیں، بالکل نہیں! یہ انقلابی رویہ نہیں ہے، انقلابی رویہ درست سمت میں صحیح اقدام اور عزم مصمم کا جذبہ ہے جو عقلیت پسندی کا نتیجہ ہے۔ دیکھیے! امام خمینی ہمارے آئیڈیل ہیں، وہ سب سے بڑے انقلابی تھے؛ ہم لوگ ابتدا سے ان معاملات میں شامل رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگ ہمت ہار جاتے تھے لیکن امام خمینی نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ سب سے زیادہ انقلابی امام خمینی تھے اور سب سے زیادہ عاقل بھی امام خمینی تھے، سب سے زیادہ پختگی سے اور مصمم طریقے سے کام کرتے تھے اور بات کرتے تھے۔ تو ایک بات تو یہ ہوئی، یعنی پارلیمنٹ کی کارکردگی، عاقلانہ، پختہ، ٹھوس اور طے شدہ ہونی چاہیے۔

(3) پارلیمنٹ کے لیے خطروں کی شناخت اور ان سے اجتناب ضروری

میری اگلی نصیحت یہ ہے کہ میرے عزیزو! مجلس شورائے اسلامی فطری طور پر کچھ خطروں سے دوچار رہتی ہے، جن کا میں ذکر کروں گا، ان خطروں کو پہچانیے اور اپنے آپ کو ان سے دور رکھیے، یہ خطرناک ہے۔ میں خود پارلیمنٹ میں رہا ہوں، برسوں تک پارلیمنٹ میں تھا، اس کے بعد برسوں سے مختلف پارلیمانوں سے میرا رابطہ ہے۔ پارلیمنٹ کے لیے کچھ خطرے ہیں، اگر ان خطروں کو نہ پہچانا جائے اور انسان ان خطروں سے دوچار ہو جائے تو پھر پارلیمنٹ کی صورتحال الگ ہوگی، پارلیمنٹ کی جہت الگ طرح کی ہوگی۔ یہ خطرے مختلف نوعیت کے ہیں جن میں سے دو تین باتوں کو میں عرض کرتا ہوں۔

پارلیمنٹ کے سامنے موجود مختلف خطرے: (الف) اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے قانونی طاقت کا غلط استعمال

ان میں سے ایک خطرہ یہ ہے کہ کوئی رکن پارلیمنٹ اس طاقت کو، جو قانون نے اسے عطا کی ہے، اپنے ذاتی مسائل کے لیے، اپنے گروہی مسائل کے لیے یا پھر اپنے قومیتی مسائل کے لیے استعمال۔ یہ طاقت کیا ہے؟ مؤاخذہ، سوال، تحقیق، تفتیش۔ یہ آپ کی طاقت ہے، یہ رکن پارلیمنٹ کو توانائی عطا کرتی ہے۔ اسے صرف اور صرف قانون اور حقیقت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ایک خطرہ یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ خدانخواستہ وسوسے میں پڑ جائے اور اس طاقت کو دوسرے مسائل کے لیے استعمال کرے۔

(ب) انتظامی مسائل میں اراکین پارلیمنٹ کی مداخلت

ایک اور خطرہ انتظامی مسائل میں اراکین پارلیمنٹ کی مداخلت کا ہے۔ مثال کے طور پر اس بات میں مداخلت کرنا کہ ہمارے شہر میں یا ہمارے صوبے میں فلاں ادارے کا ڈائریکٹر جنرل کون ہو اور کون نہ ہو، گورنر، ضلع مجسٹریٹ وغیرہ وغیرہ۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مواقع پر کوئی ایمرجنسی کی صورتحال پیش آ جائے لیکن یہ استثنائی معاملات ہیں اور ان سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے مگر عام حالات میں محترم اراکین پارلیمنٹ کو اس طرح کے انتظامی مسائل سے دور رہنا چاہیے۔ ان مسائل میں داخل ہونے، متعلقہ انتظامی عہدیدار سے گفتگو کرنے، اس سے اتفاق رائے کرنے اور اسی طرح کی دوسری باتوں کے کچھ خطرات ہیں، ان سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔

(ج) اپنے نظریات بیان کرنے کے لیے پلیٹ فارموں کے استعمال میں بے احتیاطی

ایک اور خطرہ، ان پلیٹ فارموں کے استعمال میں بے احتیاطی ہے جو آپ کے اختیار میں ہیں۔ آپ کی باتیں ملک میں براہ راست نشر ہوتی ہیں یا پھر بعد میں میڈیا کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ یہ سہولت سبھی کو حاصل نہیں ہے، عوامی نمائندے کو حاصل ہے۔ خیال رکھیے کہ اس سہولت کے استعمال میں بے احتیاطی نہ ہو۔ آپ تنقید کرنے اور اپنے خیالات بیان کرنے میں محتاط رہئے۔ کبھی کبھی انسان کے سخت نظریات ہوتے ہیں جنھیں دو، تین یا پانچ لوگوں کی نشست میں بیان کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہی نظریہ آپ عوامی سطح پر بیان کر دیں تو ممکن ہے کہ فائدے کے بجائے نقصان ہو جائے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ان کی جو بھی تنقید ہے، اس کا اعلان کر دینا چاہیے اور عوام تک پہنچا دینا چاہیے۔ جبکہ کبھی کسی بات کو عوام کے علم میں لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور کبھی تو فائدہ نہ ہونے کے ساتھ ہی بہت زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے۔ بنابریں بڑی توجہ سے ان پلیٹ فارموں کو استعمال کیا جانا چاہیے اور اس میں بے احتیاطی نہیں ہونی چاہیے۔

(د) انتظامی ذمہ داریاں حاصل کرنے کی کوشش

ایک دوسرا خطرہ یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ، پارلیمنٹ میں پہنچتے ہی، کسی انتظامی عہدے کو حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگے کہ وزیر بن جائے، ڈائریکٹر بن جائے، یا فلاں عہدیدار بن جائے! نہیں، عوامی نمائندگی کی ذمہ داری بہت اہم ہے۔ اگر انسان خدا کے لیے کام کرے اور صحیح کام کرے تو اس کی اہمیت انتظامی ذمہ داریوں سے زیادہ ہے یا کم از کم کچھ معاملوں میں انہی جیسی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم جیسے ہی پارلیمنٹ میں پہنچیں، اس چکر میں پڑ جائیں کہ اب کیا کریں کہ اگلی پارلیمنٹ میں یا فلاں حکومت میں فلاں عہدہ حاصل کر لیں۔ یہ سب خطرے ہیں، پارلیمنٹ کے لیے اس طرح کے خطرے ہوتے ہیں۔ میرے عزیزو! خیال رکھیے؛ بحمد اللہ ابھی آپ اپنے کام کی ابتدا میں ہیں، آپ پارلیمنٹ میں نو وارد ہیں، ان شاء اللہ ابھی یہ خطرے آپ کے سامنے نہیں آئے ہیں اور نہیں آئیں گے لیکن خیال رکھیے۔ اس سلسلے میں نگراں کمیٹی کو سرگرم رہنا چاہیے۔ اراکین پارلیمنٹ کے رویے پر نظر رکھنے والی نگراں کمیٹی کو اس سلسلے میں فعال رہنا چاہیے لیکن نگرانی سے زیادہ خود آپ کا اندرونی تقوی اور اندرونی مراقبہ اہم ہے جو مفید ثابت ہو سکتا ہے اور آپ کو ان خطروں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ تو ایک نصیحت یہ بھی ہے۔

(4) ماہرانہ تجاویز کی اہمیت اور قوانین کا معیار بلند کرنے کے لیے ان کے استعمال کی ضرورت

ایک اور نصیحت، ماہرین کے کام پر تاکید کے سلسلے میں ہے جسے میں اس سے پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں، شاید آپ سے بھی کہہ چکا ہوں، پچھلی پارلیمانوں سے بھی بارہا میں نے کہا ہے۔ ماہرین کا کام بہت اہم ہے۔ قوانین کا معیار بلند ہونا چاہیے۔ قانون ایسا ہونا چاہیے کہ اسے نافذ کرنے والے برسوں اسے استعمال کرنے کے خواہاں ہوں اور اس کی پابندی کریں۔ قانون کا معیاری ہونا، قانون کو مضبوطی بھی عطا کرتا ہے، قانون کی حقیقت پسندی کی غمازی بھی کرتا ہے، قانون کے قابل عمل ہونے کو بھی ثابت کرتا ہے، قانون کے واضح، شفاف اور ٹھوس ہونے کو بھی نمایاں کرتا ہے اور ساتھ ہی قانون کی غلط تشریح کا سد باب بھی کرتا ہے۔ قانون معیاری ہو تو اس کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ چیز ماہرین کے کام سے حاصل ہوتی ہے۔ ماہرین کے کام کی سطح کو بھی بلند کیا جانا چاہیے۔ بحمد اللہ پارلیمنٹ میں تحقیقاتی مرکز ہے جو ایک اچھا مرکز ہے اور ماہرین کے کام کی اچھی جگہ ہے۔ خود پارلیمانی کمیشنز، ماہرین کے مرکز ہیں لیکن ان کے علاوہ خود رکن پارلیمنٹ کو کام کرنا چاہیے، مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس بل یا ڈرافٹ پر جو آپ کو دیا جاتا ہے بیٹھ کر کام کیجیے، مطالعہ کیجیے، غور کیجیے، اگر آپ کی رسائی ہے تو صاحب رائے افراد سے مشورہ کیجیے تاکہ مہارت کی سطح بند ہو سکے۔

البتہ بعض مواقع پر حساس اور اہم مسائل میں، ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ ڈرافٹ کی جگہ بل پیش کیا جائے کیونکہ بل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حکومت کی مہارت کی طاقت کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس بھی ماہرین کی ایک وسیع مشینری ہوتی ہے۔ بل کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے یعنی آپ جو مہارت کا کام کرتے ہیں اس کے علاوہ اس کے بارے میں حکومت میں بھی ماہرین کی سطح کا کام ہوتا ہے، اسی کے ساتھ جب بل ہوتا ہے تو چونکہ اسے نافذ کرنے والی حکومت ہے اور وہ اسے نافذ کرنا چاہتی ہے تو فطری طور پر وہ بل زیادہ اتفاق رائے سے نافذ ہوگا۔ ایک بات یہ بھی تھی۔

ملک کے بنیادی مسائل میں ترجیحات کا خیال

ایک دوسری نصیحت ملک کے بنیادی مسائل میں ترجیحات کا خیال رکھے جانے سے متعلق ہے جن میں سے بعض کو میں نے پچھلے سال کی ملاقات میں اختصار کے ساتھ بیان کیا تھا۔ (2) بحمد اللہ آپ کے پروگراموں میں یہ چیزیں آئی بھی ہیں، گیارہویں پارلیمنٹ نے ان چیزوں کا خیال رکھا ہے اور جیسا کہ رپورٹوں میں تھا، آپ نے ان چیزوں پر توجہ دی ہے۔ ان ترجیحات پر سنجیدگی سے توجہ دیجیے۔ ہم نے اس سال کا نعرہ پیداوار کی رکاوٹوں کا ازالہ اور پیداوار کی حمایت قرار دیا ہے کہ جو بہت اہم ہے۔ میرے خیال میں پروڈکشن ملک میں معیشت کا بنیادی محور ہے اور اگر ہم پیداوار کو زندہ کر سکے تو ملکی معیشت میں بھی جان پڑ جائے گی اور وہ ترقی کرنے لگے گی۔ بہت سی چیزیں پروڈکشن سے وابستہ ہیں۔ پیداوار کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے اور پروڈکشن کی حمایت ہونی چاہیے۔ اسے اپنے پروگراموں میں شامل رکھیے۔

قوانین کی کثرت کے مسئلے کا علاج

ایک اور نصیحت جسے میں مختلف نشستوں میں بارہا عرض کر چکا ہوں، 'قوانین کی کثرت' کے مسئلے کا علاج ہے۔ ہمارے یہاں قوانین زیادہ ہیں اور ان کی تعداد یوں ہی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان میں سے بعض کی افادیت ختم ہو چکی ہے، بعض موازی ہیں اور بعض ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ان قوانین کے بارے میں کچھ سوچا جانا چاہیے۔ جب قوانین اس طرح بکثرت ہوں تو جو آپ کے منظور کردہ قانون سے بچنا چاہے گا وہ ان قوانین کے اندر سے راہ فرار تلاش کر لے گا، ایسا ہی ہوگا۔ زیادہ قوانین کے نقصانات میں سے ایک یہی ہے کہ اگر کوئی ان سے بچنا چاہے تو وہ فرار کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر ہی لے گا، ایسے لوگوں کے لیے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں "قانون شکنی کے ماہر قانون داں"۔ (3) یہ قوانین، رکاوٹوں کی طرح ہیں جو کام کو آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ میرے خیال میں ایک کام یہ ہے کہ ایک وقت طے کیجیے، ایک مہلت معین کیجیے، ایک گروہ کو متعین کیجیے کہ وہ بیٹھ کر قوانین کو چھانٹے اور کم کرے۔

پارلیمنٹ قوم کے فضائل کا نچوڑ

یہ کچھ باتیں میرے ذہن میں پارلیمنٹ کے بارے میں تھیں جو میں نے عرض کیں۔ پارلیمنٹ کے بارے میں آخری بات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے انتہائی پرمغز اور اہم جملے کو قرار دینا چاہتا ہوں۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے؛ ان کا ایک جملہ یہ ہے کہ: پارلیمنٹ، قوم کے فضائل کا نچوڑ ہے۔ (4) اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم میں جو اچھی صفات ہیں، پارلیمنٹ کو اس کا مظہر ہونا چاہیے۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ فطری طور پر پارلیمنٹ کو فضائل کا نچوڑ ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ کہ وہ قوم کے فضائل کا مظہر ہو۔ قوم کے فضائل کیا ہیں؟ ہماری قوم میں اس وقت کون سی فضیلتیں ہیں؟ مجاہدت، عزت نفس، خود اعتمادی، امید، ایثار، مشکلوں کے سامنے کھڑے رہنے کی طاقت و توانائی؛ یہ ہماری قوم کی توانائیاں ہیں۔ اس طرح کی توانائیاں ہماری قوم میں بہت ہیں۔ یہ توانائیاں ہماری قوم نے انقلاب کے ان اکتالیس بیالیس برسوں کے دوران دکھائی ہیں، مسلط کردہ جنگ کے دوران دکھائی ہیں، پابندیوں کے مقابلے میں دکھائی ہیں، مغربی اور دیگر طاقتوں کی منہ زوری کے مقابلے میں دکھائی ہیں۔ یہ قوم کے فضائل ہیں، آپ کو قوم کی خصوصیات کا نچوڑ بننا ہے۔ امام خمینی نے در حقیقت اس ایک جملے سے ابد تک کے لیے ہماری سبھی پارلیمانوں کے پروگراموں کو طے کر دیا: ہماری پارلیمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو قوم کے فضائل کا نچوڑ بنائیں! خیر یہ کچھ باتیں تھی پارلیمنٹ کے بارے میں۔ باتیں تو بہت زیادہ ہیں لیکن میں زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا، اتنا ہی کافی ہے۔

عوام کے عزم سے پروقار الیکشن کے انعقاد کی امید

انتخابات میں تقریبا تین ہفتے باقی ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ایرانی قوم کے عزم و حوصلے سے یہ الیکشن، دشمن کی خواہش کے برخلاف، ایران کے وقار میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ہمارے دشمن تمام وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے دشمن بھی اور ملک کے اندر کچھ لوگ بھی جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی باتوں پر عمل کر رہے ہیں، انھیں دوہرا رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اس الیکشن کو قوم کے لیے شرمساری کا سبب بنا دیں۔ مجھے امید ہے کہ لوگ پوری کوشش کریں گے اور خداوند عالم کے لطف و کرم سے یہ الیکشن ملک کی عزت و سربلندی کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ۔

جن امیدواروں کی اہلیت کی تصدیق نہیں ہوئی ان کے احساس ذمہ داری کی قدردانی

بہرحال، امیدوار طے ہو چکے ہیں۔ محترم نگراں کونسل نے اپنی ذمہ داری کے تحت وہی کیا جو اسے ضروری لگا اور جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اس نے امیدوار طے کر دیے۔ سب سے پہلے تو میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے الیکشن میں شرکت کے لیے نام لکھوایا۔ یقینا ان میں سے بہت سے افراد، احساس ذمہ داری کی وجہ سے، ملک کی مدد کرنے کے لیے، ملک کی خدمت کرنے کے لیے اس میدان میں آئے تھے۔ الیکشن لڑنے کے لیے جن لوگوں نے بھی نام لکھوایا، میں ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ جن افراد کی اہلیت کی نگراں کونسل نے توثیق نہیں کی اور انھوں نے خندہ پیشانی اور شرافت مندانہ طریقے سے اس فیصلے کو تسلیم کیا، ان کا میں دوہرا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کا رویہ شرافت مندانہ تھا، یہاں تک کہ بعض نے تو عوام کو الیکشن میں شرکت کرنے اور پولنگ اسٹیشنوں میں جانے کی ترغیب بھی دلائی۔ یہ بہت اچھا کام تھا جو انھوں نے کیا، خدا کو پسند آنے والا کام تھا۔

البتہ اہلیت کی عدم توثیق کا مطلب نااہلی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نگراں کونسل یہ طے نہیں کر پائی کہ ان صاحب میں اہلیت موجود ہے! یہ نہیں کہ اس نے یہ طے کر دیا کہ اس شخص میں اہلیت نہیں ہے۔ نہیں، ممکن ہے کہ اس شخص میں بہت زیادہ صلاحیت ہو لیکن نگراں کونسل کی رپورٹوں، وسائل اور شناخت کے ذرائع وغیرہ سے یہ بات ثابت نہیں ہو سکی، بنابریں اہلیت کی توثیق نہ ہونا، نااہلی کی دلیل نہیں ہے۔

 

امیدواروں کے حامیوں کے لئے نصیحت: دیگر امیدواروں کے حامیوں سے تصادم کی کیفیت پیدا کرنے سے اجتناب

حامیوں کے سلسلے میں بھی ایک نصیحت ہے۔ حمایت کرنے والے افراد کسی بھی امیدوار کی حمایت کے سلسلے میں اگر اپنی نیت و جذبے کو الہی و خدائی جذبہ بنائیں تو یقینا اللہ تعالی انھیں برکت عطا کرے گا۔ یا تو ان کا پسندیدہ امیدوار کامیاب اور فتحیاب ہوگا اور اگر نہ ہوا تب بھی اللہ ان کے عمل سے راضی ہے اور یہ عمل ان کے لئے باعث برکت قرار پائے گا۔ بسا اوقات حامیوں کی طرف سے تصادم کی ایسی صورت حال پیدا کر دی جاتی ہے کہ خود امیدواروں کو اس کی بھنک تک نہیں ہوتی۔ یعنی بعض اوقات دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کی کہاوت صادق آتی ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ امیدواروں کے حامی افراد ان باتوں کا خیال رکھیں۔

دشمنوں کا منصوبہ کیا ہے اس کی ہمیں کسی حد تک خبر ہے۔ حامیوں کو دست و گریباں کرنا، ایک امیدوار کے حامیوں کو دوسرے امیدوار کے حامیوں سے لڑوانا، ایک فریق دوسرے کے خلاف بدکلامی کرے اور دوسرا فریق پہلے کے خلاف ناسزا الفاظ استعمال کرے۔ وہ اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی کسی ایک امیدوار کے انتخابی کمپین کے کسی شخص کی زبانی دوسرے امیدوار کے کیمپین کے افراد کے خلاف اور اس کی زبانی اس پہلے کیمپین کے خلاف بے بنیاد باتیں عام کر دیتے ہیں اور دونوں کو آپس میں گتھم گتھا کر دیتے ہیں۔ یہ باقاعدہ منصوبہ ہے۔ اس پر توجہ رکھئے۔ خلل اندازی اور فساد پیدا کرنے کا دشمنوں کا منصوبہ بہت گہرا ہے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کچھ چیزیں بہت زیادہ جلی شکل میں نظر آتی ہیں جو عوام کا مطالبہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ عام ہو جائے یقینا وہ عمومی مطالبہ بھی ہے۔ جی نہیں۔ کبھی کسی چیز کو بہت نمایاں اور بہت بڑا کر دیا جاتا ہے۔ سب بینی و بین اللہ یہ عہد کریں کہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی نکلے سب اس کو اعلی ظرفی کے ساتھ قبول کریں گے، مانیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ اگر انتخابات کا نتیجہ ہمارے فائدے میں ہو تب تو ہم کہیں کہ قبول ہے، یعنی جمہوریت ہمیں اسی صورت میں قبول ہے کہ جب ہمارے فائدے کے مطابق ہو۔ اگر جمہوریت کسی اور شخص کے فائدے میں ہو تب ہمیں قبول نہیں ہے! بد قسمتی سے یہ ہمارے انتخابات کی تاریخ میں 2009 کا بڑا تلخ تجربہ رہا۔

انتخابات میں شرکت کے لئے عوام سے گزارش

عوام الناس سے گزارش۔ اپنے عزیز عوام سے میں یہ عرض کروں گا کہ عزیز ملت ایران! الیکشن ایک دن میں ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کے اثرات برسوں باقی رہتے ہیں۔ انتخابات میں شریک ہوئیے، انتخابات کو اپنا سمجھئے، واقعی یہ آپ کا سرمایہ ہے۔ اللہ سے مدد مانگئے، ہدایت کی دعا کیجئے کہ آپ کو اس انتخاب کا راستہ دکھائے جو صحیح ہے، حق ہے۔ پولنگ مراکز پر جائیے اور جو لیاقت رکھتا ہے اسے ووٹ دیجئے۔ ان لوگوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دیجئے جو بیرون ملک سے یا ملک کے اندر افواہیں پھیلاتے ہیں کہ "کوئی فائدہ نہیں، ہم ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے، آپ بھی مت جائیے!" یہ عوام کے ہمدرد نہیں ہیں۔ اگر یہ زبان پر عوام کا نام لاتے ہیں تو یہ مہمل بیانی ہوتی ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں، انھیں عوام سے ہمدردی نہیں ہے۔ جسے عوام سے ہمدردی ہو وہ عوام کو ووٹنگ سے نہیں روکے گا۔

شہری و دیہی کونسلوں کے انتخابات کی اہمیت اور زندگی پر اس کے اثرات

آخری بات یہ کہنا ہے کہ کونسلوں کے انتخابات کو بھی فراموش نہ کیجئے۔ کونسلوں کے انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس وقت سب صدارتی انتخابات میں مصروف ہیں، شہروں اور دیہاتوں کے امور اور شہری و دیہی زندگی کے امور کے سلسلے میں متعلقہ کونسلوں کے انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، ان شاء اللہ وہ بھی فراموش نہ ہونے پائے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی عوام کی ہدایت فرمائے، ہم سب کی ہدایت فرمائے تا کہ ان شاء اللہ ہم اپنے فریضے پر عمل کر سکیں۔ جن لوگوں کی باتوں میں تاثیر ہے اور عوام پر جن کی باتیں موثر ثابت ہوتی ہیں، ان کا فریضہ ہے کہ اپنے اس اثر و رسوخ کو استعمال کریں انتخابات کی ترویج کے لئے۔ سب، تمام صنفوں کے افراد جس کی بات کا بھی اثر ہے ضرور اسے استعمال کرے تاکہ ان شاء اللہ رضائے الہی حاصل ہو۔

پالنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی جانب راغب فرما، اپنی رضا کو ہمارا نصب العین قرار دے، ہمیں رضائے الہی کے حصول میں کامیاب فرما، اسلامی جمہوریہ کو ان شاء اللہ روز بروز زیادہ وقار اور سربلندی عطا فرمایا۔

و السّلام علیکم و رحمة‌ الله و برکاته

۱- سوره‌ فصّلت، آیت نمبر ۳۰ کا ایک حصہ؛ «بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر قائم اور ثابت قدم رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ...»

۲-پارلیمنٹ کے ممبران سے خطاب مورخہ 12 جولائی 2020

۳- پولیس فورس کے کمانڈروں سے خطاب مورخہ 16 جولائی 1997

۴- صحیفه‌ امام، جلد ۲۰، صفحہ ۲۷۹

۵- سوره‌ مائده، آیت نمبر ۴۸ کا ایک حصہ