ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شہدائے زنجان کی یادگاری تقریب کے منتظمیں کے ساتھ ملاقات میں خطاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای نے 16 اکتوبر 2021 کو شہدائے زنجان کی یادگاری تقریب کے منتظمیں کے ساتھ ایک ملاقات میں خطاب کیا۔ اس کا مکمل متن درج ذیل ہے۔ یادگاری تقریب 28 اکتوبر 2021 کو منعقد ہوئی۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

سب سے پہلے، میں آپ سب عزیز بھائیوں اور بہنوں، خاص طور پر شہداء کے گھرانوں کے اعضاء کو جو آج یہاں موجود ہیں- تین شہداء کی والدہ محترمہ اور اس اہم یادگاری تقریب کے انعقاد میں شامل تمام لوگوں- کا خیرمقدم کرنا چاہتا ہوں۔ میں واقعی میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس قیمتی کام کو شروع کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ آپ اسے جاری رکھیں گے اور مکمل کریں گے۔ جن دوستوں نے سلام بھیجے ہیں، جن میں نوجوان اور مذہبی اجتماعات کے اراکین بھی شامل ہیں، برائے مہربانی میرا مخلصانہ سلام ان تک پہنچادیں۔

ایران کی تاریخ میں زنجان کا مقام اور کردار

زنجان شہر نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پوری تاریخ میں، زنجان نے علم اور عمل دونوں لحاظ سے بہت سے اعزازات حاصل کیے ہیں۔ یہ کامیابیاں مذہبی علوم – فقہ، فلسفہ اور عرفان– اور سماجی شعبوں میں حاصل کی گئی ہیں۔ مختلف رجحانات کے ساتھ نمایاں شخصیات رہی ہیں، لیکن ان سب نے خدا کے لیے اور اسکی راہ میں کام کیا ہے۔ آخوند ملا قربان علی اور ان جیسی شخصیتیں رہی ہیں۔ زنجان واقعی ایک شاندار، مثالی شہر ہے۔ نئے علوم کے حوالے سے نیوکلیئر سائنسز میں ہمارے معروف شہید شہید شہریاری شہر زنجان کے معزز فرزندوں میں سے تھے۔ لہذا، زنجان نے بہت سے کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس علاقے کے شہداء بھی زنجان کے درج کردہ کارناموں کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔ میں شہداء کے بارے میں چند نکات کا ذکر کروں گا اور پھر آپ کے کام، شہداء کی یاد منانے کے اقدام پر کچھ بات کروں گا۔

شہداء کا مقام اور قیمت

جہاں تک شہداء کا تعلق ہے، شہداء برگزیدہ لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہے۔ شہداء نے صحیح راستہ چنا ہے اور اللہ نے انہیں منزل تک پہنچنے کے لیے چنا ہے۔ شہداء کی قدر ہمارے مادی حساب سے نہیں ناپی جا سکتی۔ شہیدوں نے دنیا کا سب سے بہترین معاملہ کیا ہے، یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَیٰ تِجَارَةٍ تُنْجِیکُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ * تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ»۔۔۔ آخر تک۔ اس معاہدے میں سب سے بڑے فاتح ہمارے شہداء ہیں، «إِنَّ اللَّهَ اشتَریٰ مِنَ المُؤمِنینَ أَنفُسَهُم وَأَموالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ»" اس معاہدے سے بہتر کیا ہوسکتا ہے؟

 شہادت عظمت کی چوٹی ہے۔

یہاں ایک نکتہ ہے جس پر ہم سب کو توجہ دینی چاہیے۔ بات یہ ہے کہ شہادت ایک چوٹی ہے اور چوٹی پہاڑی کے بغیر معنی نہیں رکھتی۔ ہر چوٹی کیلئے ایک پہاڑی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس چوٹی تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن ہمیں پہاڑی سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمیں پہاڑی پر راستہ تلاش کرنا ہوگا اور چوٹی تک پہنچنے کے لیے راستے پر چلنا ہوگا۔ دوسری صورت میں، پہاڑی سے گزرے بغیر چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ یہ راستہ اور یہ راہ کیا ہے؟ یہ (راستہ) اخلاص، ایثار، سچائی، روحانیت، تندہی، عفو و درگزر، خدا کی طرف توجہ، لوگوں کے لیے کام کرنا، عدل و انصاف کے لیے جدوجہد، اور دین کی حکمرانی کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ چیزیں ہیں جو راستے کا تعین کرتی ہیں، اور اگر آپ اس راستے پر سفر کرتے ہیں، تو آپ چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں. چوٹی پر پہنچنے والے کو یہاں سے شروع ہو کر ان راستوں پر چلنا چاہیے۔ روحانیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ شہید شہریاری نے ایک پیچیدہ سائنسی مسئلے پر رات گئے کام کیا لیکن اسے حل نہ کر سکے۔ ان کے شاگرد نے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ’’شہید نے بہت کام کیا۔ جب وہ اس مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر رہے تو انہوں نے کہا، ‘چلو یونیورسٹی کی مسجد چلتے ہیں۔’ میرے خیال میں یہ واقعہ شاہد بہشتی یونیورسٹی میں پیش آیا تھا۔ ہم مسجد کے اندر گئے اور احساس اور توجہ کے ساتھ دو رتکعت نماز ادا کی۔ نماز کے بعد فرمایا کہ اب سمجھ آیا۔ خدائے بزرگ و برتر نے مجھے اس کا حل دکھا دیا۔‘‘ وہ اٹھ کر چلا گئے اور پھر انہوں نے اس مسئلہ کو حل کر دیا۔ یہ روحانیت ہے۔ یہ خدا کا راستہ ہے۔ جب کوئی اس طرح کی فعالیت کرتا ہے اور اس راستے پر چلتا ہے تو چوٹی تک پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ آسان ہو جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ ضرور ہو جائے گا، لیکن یہ ممکن ہو جاتا ہے۔ اس سمت میں بڑھے بغیر چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں۔

شہداء کی یادگاری تقریبات کے انعقاد کی اہمیت

جہاں تک آپ اس یادگاری تقریب کے منتظمین کا تعلق ہے، سب سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عظیم کام ہے۔ جو کیا جا رہا ہے وہ بہت بڑا کام ہے۔ شہداء کی یہ یاد اور اس مسئلے کے گرد جو کام کیا جا رہا ہے اسے ایک معمولی، روزمرہ کا کام نہ سمجھا جائے۔ نہیں، یہ واقعی ایک عظیم کام ہے جو آپ کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک ایسا کام ہے جو ختم نہیں ہوا۔ جیسا کہ ہمارے اس پیارے بھائی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کچھ شہروں، قصبوں اور صوبوں میں یادگاری تقریبات منعقد کرنے سے معاملہ ختم ہو گیا ہو۔ (بلکہ) یہ ابھی شروع ہوا ہے۔ دفاع مقدس کے وقت کو برسوں گزرنے کے باوجود شہداء کی یاد منانے کا کام ابھی شروع ہوا ہے۔ اور یہ جاری رہے گا اور جاری رہنا چاہیے۔

یادگاری تقریبات میں جدت اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ کو نئے خیالات کے ساتھ آنا چاہئے. بلاشبہ، ملاقات میں دوستوں نے جن چیزوں کا ذکر کیا وہ سب کے بہترین خیالات میں سے ہیں۔ کتابیں لکھنا، فلمیں بنانا اور شہداء کی یاد میں جو خدمات انجام دی جاتی ہیں یہ سب اچھی چیزیں ہیں۔ یہاں آتے ہوئے میں نے وہ کتابیں اور پوسٹر دیکھے جو آپ نے تیار کیے ہیں۔ وہ اچھے تھے۔ بے شک میں نے کتابیں نہیں پڑھی تھیں لیکن عنوانات اچھے اور درست تھے۔

دین کے بارے میں شہداء کے نقطہ نظر کی عکاسی کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کاموں کے علاوہ دیگر کاموں کو بھی انجام دیا جانا چاہیے جس میں ان یادداشتوں کی بنیاد پر اور ایک طاقتور عنصر یعنی مذہب کی بنیاد پر سماجی اور نفسیاتی تجزیے اور نتائج اخذ کرنا شامل ہیں۔ یہ ایک بہت اہم عنصر ہے۔ کیوں کچھ لوگ اس کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کچھ دوستوں کی رپورٹ میں پڑھا کہ ہمارے کئی شہداء اپنے خاندان میں اکلوتے بیٹے تھے۔ اس کا کیا مطلب ہے جب ایک ماں اور باپ اپنے اکلوتے بیٹے کو کسی ایسے میدان میں بھیجنے کے لیے تیار ہوں جہاں وہ واپس نہ آئے؟ کیا یہ مذہب، الہی اطمینان، الہی انعام، اور مذہبی فرض پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ کسی اور چیز سے ممکن ہے؟ خود نوجوان شہید، جنہوں نے ایسی بہادرانہ اقدام کئے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر خطرے کو قبول کیا، وہ مذہبی طور پر متحرک تھے۔ اس طاقتور عنصر کی موجودگی کا تجزیہ ملک کی سماجی صورتحال اور ایک ملک کے لوگوں کے نفسیاتی نقطہ نظر سے کیا جانا چاہیے۔ ماہرین کو ان پر کام کرنا چاہیے۔

دیگر چیزوں پر بھی انہیں کام کرنا چاہیے جن میں شہداء کی زندگی کے وہ پہلو بھی شامل ہیں جو ان کی قربانیوں کے دائرے میں موجود تھے۔ اس میں ان کے والدین کی سوانح عمری جیسی چیزیں شامل ہیں۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ ان کے باپ دادا کیسا محسوس کرتے تھے اور کس چیز نے ان کو حوصلہ دیا؟ انہیں انکی شریک حیات کے رویے کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے۔ ایک شریک حیات اپنے پیارے شوہر کو کیسے جانے دے سکتی ہے جس کے ساتھ وہ آرام دہ زندگی گزار رہی تھی۔ وہ اس کی غیر موجودگی اور اس کے بعد اس کی شہادت کو کیسے برداشت کر سکتی ہے؟ ان کے جذبات و احساسات قابل تجزیہ ہیں۔

عوام کے ذریعہ چلائے جانے والے مراکز اور یہاں تک کہ ان کے گھروں میں بھی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔

اس کے علاوہ اور بھی خدمات ہیں جو لوگ فراہم کرتے ہیں۔ ایک چیز جس کا میں ابھی یقین کے ساتھ دعویٰ نہیں کر سکتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک اور جو جنگ ہم نے لڑی ہے اس کی منفرد خصوصیات میں سے ایک ہے، وہ خدمات ہیں جو گھروں میں، خواتین کے مراکز میں انجام دی گئی ہیں، عوامی مقامات پر، اور اسی طرح دوسرے مقامات پر. مثال کے طور پر، لوگوں نے گھروں میں کھانا پکایا، ڈبہ بند پھل کے کین بنائے، کھانے کا سامان فراہم کیا، روٹی پکائی اور فرنٹ لائنز پر بھیجیں۔ یہ حیران کن باتیں ہیں۔ ان مردوں اور عورتوں نے کس تحریک اور کس عزم کے ساتھ یہ فعالیت کیں؟ میں نے حال ہی میں "حوض خون" (خون کا تالاب) نامی ایک کتاب پڑھی۔ حالانکہ میں نے یہ اہواز میں دیکھا تھا۔ میں نے خود وہ جگہیں دیکھی ہیں جہاں لوگ ہسپتالوں میں فوجیوں کے خون آلود کپڑے اور فوجیوں کی خونی چادریں دھوتے تھے۔ یہ باتیں اس کتاب میں تفصیل سے لکھی گئی ہیں۔ انسان واقعی حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔ جب کوئی شخص ان تمام خدمات کو دیکھتا ہے جو ان خواتین نے ان برسوں میں انجام دی ہیں اور کن مشکلات کو برداشت کیا ہے۔ یہ ایسے مضامین ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے۔

شہداء کے تشیع جنازے کی تقریبات پر تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ شہید کے جنازے کی تقریبات پر بھی کام کر سکتے ہیں۔ جن موضوعات کو نظر انداز کیا گیا ہے، اس پر اب تک توجہ نہیں دی گئی اور جس پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے، وہ جنگ کے دوران اور موجودہ وقت میں شہیدوں کی نماز جنازہ ہے۔ موجودہ وقت میں بھی جب کسی شہید کی ہڈیاں شہر میں لائی جاتی ہیں تو شاندار جنازے کا اہتمام کیا جاتا ہے! جنگ کے دوران ہر چند دن بعد مختلف شہروں میں - زنجان اور دوسری جگہوں پر - بڑے بڑے جنازے نکالے جاتے، لوگ آتے، شاعر نظمیں اور قصیدے لکھتے، اور لوگ شہداء کی یاد میں سینہ پیٹتے۔ یہ بے مثال ہے۔ یہ حیران کن، یادگار واقعات ہیں جنہیں ثبت اور محفوظ کیا جانا چاہیے۔

گلیوں اور سڑکوں کا نام شہداء کے نام پر رکھنا

ایک اور مسئلہ شہروں میں گلیوں اور سڑکوں کے نام رکھنے کا ہے۔ شہروں کو شہداء کے ناموں اور یادوں سے سجایا جائے۔ مختلف شہروں میں شہری انتظامیہ کو ان لوگوں کے نام معلوم ہونے چاہئیں جن پر شہر کو فخر ہے۔ ایک شہر، کسی گلی، سڑک اور گلی کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہے کہ اس پر کسی عظیم شہید کا نام، کسی قربانی دینے والے کا نام لکھا جائے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر عمل کرنا ہے۔ آپ کو ان مسائل پر عمل کرنا چاہئے۔ آپ نے پہلا قدم اٹھایا ہے، جو ان کاموں کی تکمیل اور اس طرح کی یادگاری تقریبات کی تشکیل ہے، اور آپ کو ان امور کی انجام دہی جاری رکھنی چاہیے۔

خدائے بزرگ و برتر ہماری قوم کو شہداء کی طرف سے لائی ہوئی برکتوں سے نوازے گا، انشاء اللہ۔ دعا ہے کہ وہ ان کی پاکیزہ روحوں کو حضور اکرمؐ کے ساتھ محشور کرے۔ انشاء اللہ جلد ہی وہ اپنی کوششوں کے نتائج دیکھیں گے جو کہ ایرانی قوم کی فتح ہے۔ خوش قسمتی سے ایرانی قوم ان سالوں میں ہمیشہ فتح کی طرف آگے بڑھی ہے۔ انشاء اللہ معاشی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ آج معاش کے جو مسائل ہیں، معاشی حالات اور ایسی چیزیں ان شاء اللہ حکام کے عزم اور آپ جیسے لوگوں کی کوششوں سے ختم ہو جائیں گی۔ خدا آپ کو اپنے فضل سے جزائے خیر عطا فرمائے اور ہمارے عظیم امام (خمینیؒ) کو، جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، حضور اکرمؐ کے ساتھ محشور کرے اور شہداء کی پاکیزہ ارواح ہم سے راضی ہوں۔

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته