ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شہدائے ایلام کی یادگاری تقریب کے منتظمین سے خطاب

21 نومبر 2021 کو رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای کی جانب سے شہدائے ایلام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے منعقدہ یادگاری تقریب کے منتظمین سے ملاقات میں کئے گئے خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے۔ اس ملاقات میں امام خامنہ ای کا خطاب جمعرات 2 دسمبر کو شہدائے ایلام کی یادگاری تقریب میں نشر کیا گیا۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین

عزیز برادران اور خوہران، آپ کو یہاں بہت خوش آمدید۔ میں اس یادگاری تقریب کو منعقد کرنے اور انتہائی قابل قدر اقدام کرنے کی وجہ سے آپ کا تہہ دل شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے حسینیہ میں آنے سے پہلے نمائش دیکھی اور جو خدمات انجام دی گئی ہیں وہ بہت اچھی ہیں۔ بلاشبہ، اس طرح کی یادگاری تقریبات میں یہ متعلقہ و ملحقہ سرگرمیاں بہت زیادہ انجام دی جانی چاہئیں، اور انشاءاللہ آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوں۔

مقدس دفاع کے دوران، صوبۂ ایلام ایک مضبوط قلعے کی مانند تھا۔ یہ اگرجہ صحیح ہے کہ صوبے کے کچھ شہر اور بعض علاقے پر خونخوار منافقین نے قبضہ کر لیا تھا لیکن یہ صوبہ ایک پہاڑ کی مانند مضبوطی سے کھڑا رہا، جیسا کہ میمک کا پہاڑ جہاں میں گیا تھا اور اپنے عزیز فوجیوں کے شاندار کارنامے کا مشاہدہ کیا۔ صوبہ ایلام اس پہاڑ کی طرح صدامی دشمن کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

سب سے پہلے یہ صوبہ دوسرے صوبوں کی نسبت پہلے جنگ میں دھکیلا گیا جیسا کہ یہاں حضرات نے ذکر بھی کیا ہے۔ تہران اور ملک کے دیگر حصوں پر باقاعدہ حملہ کرنے سے پہلے ہی دشمن نے ایلام پر حملہ کیا۔ اور پہلے شہید - شھید شنبه ای، جیسا کہ ایک برادر نے اشارہ کیا ہے - درحقیقت ایلام میں جنگ شروع ہونے سے پہلے شہید ہوئے تھے۔ یعنی پورا صوبۂ ایلام دفاع مقدس میں السابقون (اولین) سے ہے۔

بعد ازاں بھی ایلام میں کچھ انوکھے واقعات رونما ہوئے۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ بھی ان واقعات سے واقف نہیں ہیں، دوسرے لوگوں اور قوموں کو تو چھوڑیں جو ہمارے ملک میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے اپنے لوگ بھی ان واقعات سے بہت کم واقف ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ 1365 شمسی ہجری [1987 عیسوی] میں ایک فٹ بال میچ پر بمباری کا تھا جہاں بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔

12 فروری 1987 کو، ایلام کی دو نوجوان ٹیموں نے انقلاب کی 7ویں فتح کی یاد میں ایک فٹ بال میچ کھیلا۔ تماشائیوں کی حیثیت سے کچھ لوگ بھی وہاں جمع تھے، ایک عراقی طیار انکے اوپر آیا اور انہیں قریب سے نشانہ بنایا۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس نے بم حادثاتی طور پر گرائے۔ اس نے بمب جان بوجھ کر گرائے، اور اس کے نتیجے میں، ان میں سے 10 فٹ بال کھلاڑی شہید ہو گئے۔ ریفری، کئی بچے اور کچھ تماشائی بھی شہید ہوئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک بہت اہم واقعہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان واقعات کو عالمی سطح پر پہچنوایا جائے، بتایا جائے، بار بار بتایا جائے کیونکہ یہ ہمارے کھیلوں کے شہداء کی مظلومیت کا پیغام ہے جن کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ اور انقلاب کے لیے فٹ بال میچ کا انعقاد کیا تھا۔ خبیث صدام نے کس طاقت کے سہارے اس خوفناک، ڈھٹائی کے جرم کا ارتکاب کیا؟ اس کے پیچھے کون تھا؟

وہی لوگ جو اس دن اس خونخوار بھیڑیے کی حمایت کرتے تھے آج وہی لوگ انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں! وہ خود کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے محافظ قرار دیتے ہیں۔ ان طاقتوں کے کاموں میں اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی پائی جاتی ہے۔ کون انہیں رسوا کرے؟ ان حقیقتوں کو کون ظاہر کرے؟ یہ ہمارے فنکاروں اور ہمارے ادیبوں کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو دنیا کے سامنے فن پاروں کے ذریعہ پیش کیا جانا چاہیے۔ انہیں ان واقعات پر فلمیں بنانی چاہئیں۔ اسی فٹ بال میچ کے حوالے سے، کہانیاں، فلمیں اور یادداشتیں لکھی جانی چاہئیں۔ یہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

صوبہ ایلام کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہاں دو، تین، چار، پانچ، چھ یا اسی طرح جیسے بتایا گیا کہ دس شہداء پر مشتمل گھرانے بھی ہیں - جیسا کہ حضرات نے اشارہ کیا ہے۔ ایک خاندان ہے جس میں دس شہید ہیں، دوسرے میں نو، کسی میں آٹھ اور بعض پانچ یا چھ شہدا پر مشتمل ہیں۔ یہ صرف الفاظ میں کہنا آسان ہے، لیکن اس کے بارے میں سوچنا بھی واقعی انسان کو متعجب کردیتا ہے۔ ایلام اس طرح ہے۔ ایلام میں ایسے گھرانے ہیں۔ یہ بتایا کیا گیا کہ ان خاندانوں کے کچھ افراد اس یادگاری تقریب میں موجود ہیں۔ انشاء اللہ خدا سب پر اپنی رحمت اور فضل نازل فرمائے۔

ایلام کی ایک اور خصوصیت علماء سے لے کر عام لوگوں تک تمام سماجی پس منظر کے لوگوں کی تہہ دل سے موجودگی تھی۔ وہاں کے برجستہ عالم دین مرحوم شیخ عبدالرحمن حیدری رحمۃ اللہ علیہ میرے ساتھ میمک کی پہاڑیوں پر تھے۔ وہ اس چوٹی کے اوپر میرے ساتھ تھے۔ میں جہاں بھی گیا وہ ہمیشہ میرے ساتھ تھے۔ میں نے اپنے عہدہ صدارت سے پہلے اور بعد میں کئی بار ایلام کا دورہ کیا۔ جب تک وہ زندہ رہے میدان جنگ میں حاضر رہے۔ وہ اپنی بندوق اٹھائے ہوئے حقیقی معنوں میں ہر وقت لڑنے کے لیے آمادہ تھے۔

یہی حال عام لوگوں اور ایلام کے متعدد قبائل کا ہے۔ جو جنگ کرنے کے قابل تھے وہ میدان میں موجود تھے اور  عام عوام نے بھی مزاحمت کی۔ اجلاس میں موجود ایک صاحب نے بیان کیا کہ لوگوں نے شہر کو نہیں چھوڑا۔ یہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایلام شہر میں دیکھا۔ دشمن کے طیارے ایک مخصوص وقت میں شہر پر بار بار حملہ کرتے۔ اس وقت ایلام خالی ہوجاتا تھا اور کوئی بھی نہیں رہتا تھا اور لوگ شہر کے آس پاس کے صحراؤں یا جنگلوں میں چلے جاتے تھے۔ بمباری ختم ہونے کے بعد، وہ شہر واپس چلے جاتے گے۔ یعنی شہر سے نکلنے اور واپس آنے کا یہ طرزِ عمل لوگوں کا معمول بن چکا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی شہر یا صوبے کو مکمل طور پر نہیں چھوڑا اور ثابت قدم رہے۔

یہ انھی بمباریوں اور ان مشکل حالات میں تھا کہ ایک ذہین اور با استعداد نوجوان، یعنی شہید رضائی نژاد، پروان چڑھا۔ شہید رضائی نژاد ایک ایٹمی سائنسدان تھے جو شہید ہوئے۔ اس کا علمی مقام اتنا زیادہ تھا کہ دشمنوں کو لگا کہ اس کے وجود سے اسلامی جمہوریہ کی ترقی میں مدد ملے گی، چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسے راستے سے ہٹایا جائے لہذا انہوں نے اسے اس کی زوجہ اور کم سن بیٹی کے سامنے اسے شہید کر دیا۔ اس نوجوان سائنسدان نے اپنا بچپن اور جوانی انھی بمباریوں اور ان مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے گزاری تھی۔ دوسرے لفظوں میں دشمن کی طرف سے ایجاد کیا گیا دباؤ اور جنگ بھی اس صوبے کے لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے باز نہیں رکھ سکی۔ یہ بہت اہم ہے. اس عزیز شہید رضائی نژاد جیسے علم کے راستے کے شہید اعلیٰ علمی مقام کے علاوہ اعلیٰ روحانی مقام کے بھی حامل ہیں۔ اس کی دلیل بھی خود انکی شہادت ہی ہے، جو شخص شہید ہوتا ہے اور اسے یہ رتبہ دیا گیا ہے ان افراد کے باطن، فطرت اور اعمال میں بعض شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط کے بغیر کسی کو شہادت نصیب نہیں ہوتی۔ وہ نوجوان سائنسدان اس اعلیٰ روحانی مرتبے کا حامل تھا اور اسی وجہ سے وہ شہید ہو گیا۔ ورنہ ان صفات کے بغیر کسی کا شہید ہونا ممکن نہیں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ صوبہ ایلام نے تین ہزار سے زائد شہدا پیش کئے ہیں۔ دوسرے صوبوں نے بھی اپنی آبادی اور اپنی شرائط کے تناسب سے بہت سے شہداء دئیے ہیں۔ ہمیں شہادت کے تصور کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے کیونکہ شہادت کا مطلب محض جنگ میں قربان ہونا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو جنگوں میں حصہ لیتے ہیں اور جو اپنے ملکوں کیلئے جنگوں میں مارے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اپنے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے حب الوطنی اور وطن پرستی سے سرشار یہ عمل انجام دیتے ہیں۔ بے شک، بعض اجیر کئے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن اسی جذبے سے قربانی دیتے ہیں۔

تاہم ہمارے شہداء ایسے نہیں ہیں۔ ہمارے جنگجوکا ہدف جو میدان جنگ میں داخل ہوتا ہے۔ اب، چاہے اسا یہ قدم شہادت یا معلولیت پر منتج ہو یا نہیں، صرف جغرافیائی سرحد کا دفاع نہیں ہے۔ وہ اعتقاد کی سرحدوں، اخلاقیات کی سرحدوں، مذہب کی سرحدوں، ثقافت کی سرحدوں، اپنی شناخت کی حدود، ان اہم روحانی حدود کے دفاع کیلئے میدان جنگ میں قدم رکھتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع بھی ایک قیمتی چیز ہے اور اور اقدار میں سے ہے۔ لیکن فقط یہ ہدف کہاں ہے اور اس چیز کا ان دیگر اہم اور اعلیٰ اہداف سے مل جانا کہاں! ہمارے شہداء کا مسئلہ یہ ہے۔

اس کے بالاتر اگر ہم مسئلہ شہادت کو دیکھنا چاہیں تو ہمارا شہید درحقیقت اس بات کی مثال اور مظہر ہے کہ «اِنَّ اللهَ اشتَریٰ مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّة» یعنی وہ خدا کے ساتھ اپنی جان کا سودا کرتا ہے۔ یہ ایک شہید ہے۔ یا وہ آیہ شریفہ:«مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیهِ فَمِنهُم مَن قَضیٰ نَحبَهُ وَمِنهُم مَن یَنتَظِر» ؛ انہوں نے خدا سے اپنے عہد و پیمان پر صدق دل سے عمل کیا، شہید یہ ہے۔ یعنی یہ خدا کے ساتھ ایک عہد کرنا ہے، خدا کے ساتھ معاملہ کرنا ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے میدان میں ایک مجاہد دنیا کے روایتی جنگجوؤں سے مختلف ہے۔ میدان جنگ میں آپ میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے حتما دیکھا ہوگا اور آپ میں سے بعض نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ مومن دفاع مقدس میں یا بعض دیگر محاذوں میں جیسے کہ دفاع حرم یا اس طرح کے دیگر محاذ، جب میدان جنگ میں مشغول جہاد ہوتا ہے تو اس کا اخلاص معمول سے زیادہ ہوتا ہے، اس کا توکل زیادہ ہوتا ہے، اس میں زیادہ عاجزی ہوتی ہے، وہ حدود الٰہی کا زیادہ خیال رکھتا ہے۔

دنیا میں یہ بات عام ہے کہ جب کسی شہر میں کوئی فوج فاتح  ہوجاتی ہے تو لوٹ مار، غارت کرنا اور ظلم ڈھانا اس کے لیے معمول ہے۔ ادھر نہیں؛ یہاں میدان جنگ میں مجاہد فی سبیل اللہ اگر فاتح بھی ہوجاتا ہے تو اس کے اخلاص اور حدود الٰہی کی پاسداری میں کچھ کمی نہیں آئے گی بلکہ فتح میں شکر گزاری کی وجہ سے یہ پاسداری بڑھ جائی گی۔ ہمارے جنگجو جب دشمن کے قیدی پکڑ رہے تھے، وہی دشمن جو ہمارے قیدیوں کو اس وقت سے کہ جب انہیں پکڑتا تھا اور اپنے کیمپ میں لے جاتا جہاں وہ انہیں رکھتا تھا، اس حد تک تشدد کرتا تھا جیسے انہیں کئی بار مارا گیا ہو اور زندہ کیا گیا ہو - یہ تو اور واضح تھا کہ وہ کیمپ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوگا- وہی لوگ جب ہمارے قیدی بنتے تھے، اگر وہ زخمی ہوتے، تو ہمارے مجاہدین انکا معالجہ کرتے۔ اگر وہ پیاسے ہوتے تو اسے پانی پلاتے۔ وہ ان کے ساتھ بالکل اپنے جیسا سلوک کرتے، یہ واقعی اہم چیزیں ہیں۔

ہمارے مجاہدین اور ہمارے شہداء کے طرزِ عمل میں اسلامی طرزِ زندگی ایک نمایاں چیز ہے جسے حقیقتاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان شہداء کی زندگیوں میں اتنے درس اور متاثر کن نکات ہیں کہ ہمارے ہنرمند اور شعبہ فن سے متعلق افراد کو چاہیے کہ وہ اس کیفیت کی فنکارانہ تصویر دنیا کو دکھائیں اور ایرانی مجاہدین کو دنیا کے سامنے پہچنوائیں اور فن پاروں کے ذریعے انہیں پوری دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے رکھیں۔

یہ یادگاری تقریب جو آپ نے منعقد کی ہے، اسے شہداء کے پیغام کی نسبت ہمارے کان کھولنے چاہئیں۔ شہداء ہمیں بتاتے ہیں: وَيَستَبشِرونَ بِالَّذِينَ لَم يَحَالَقوا بِهِم مِن خَالفِهِم اَلَّا خَفٌ عَلَيِهِمَ وَالَهُمَ يَحَزَنُونَ یہ راستہ غم و خوف کا راستہ نہیں، ڈر و رنج کا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ خدا کا راستہ ہے۔ اس راستے میں ثابت قدم رہنا چاہیے، اس راستے میں پوری قوت کے ساتھ چلنا چاہیے، اس راستے میں دشمنوں کے فتنوں سے متزلزل نہیں ہونا چاہیے۔ ایرانی قوم کو شہداء کے پیغام کو سن کر اپنے اتحاد، اپنے اتفاق، اپنی جدوجہد، اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے لیے شہداء کا پیغام ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے حکام کو ان یادگاری تقریبات میں شہداء کا پیغام سننے کے بعد، ان شہداء نے ہمارے لیے جو امن و سلامتی فراہم کی ہے اس کے لیے زیادہ ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ ہم سب کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور ہم سب کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ کوئی بھی قوم محنت کے بغیر، خدا کے راستے میں جدوجہد کے بغیر، بہت سی مشکلات کو برداشت کیے بغیر کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔ ابھی ہمارے لیے اگر کوئی مشکلات ہیں تو انشاء اللہ ان مشکلات کو برداشت کرنے سے ایرانی قوم اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔

میں دعاگو ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور تمام ایلامی شہداء اور وطن عزیز کے تمام شہداء کو اپنی رحمت اور مغفرت میں شامل فرمائے اور اس عظیم امام (خمینی رح )کو جنہوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا اور ملک میں اس طرح کی عوامی ہدایت کے کر آئے، انشاء اللہ خدا انو اپنے اولیاء، تاریخ کے عظیم رہنما، انبیاء علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھمحشور فرمائے، اور خدا آپ کو بھی کامیاب و کامران کرے۔
 

والسّلام ‌علیکم‌ و رحمةالله ‌و برکاته