ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

حضرت زینب کبریؑ کی ولادت باسعادت اور نرس دن پر خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فی الارضین.

حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت اور نرس دن آپ میں سے ہر ایک معزز بھائیوں، بہنوں اور طب، معالجہ اور صحت شعبے کے معزز اور قابل فخر کارکنوں کو مبارک ہو۔

یہ نشست شعبہ صحت کے مدافعین اور عزیز نرسوں کے بارے میں کچھ کہنے، مطالب اور حقائق بیان کرنے کا ایک اچھا موقع ہے، انشاء اللہ جو بیان کروں گا؛ لیکن اس سے پہلے میں کربلا کی عظیم خاتون حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا سے عقیدت کا اظہار کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے بارے میں ویسے تو بہت سے کلمات، مدح، مناقب، تعظیم و تکریم ہیں، جو کہ بہت مناسب اور درست ہیں، لیکن اس عظیم ہستی کی زندگی کے دو اہم نکات ہیں، ان دونوں کو اب میں ذکر کروں گا۔

سب سے اہم اور پہلا نکتہ وہ ہے جو میں اب بیان کروں گا؛ اور وہ یہ کہ زینب کبری (سلام اللہ علیہا) تمام تاریخ اور پوری دنیا کو عورت کی عظیم روحانی اور فکری توانائی دکھانے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ان لوگوں کی نظروں کے سامنے، جنہوں نے اُس وقت اور ہمارے زمانے میں، کسی نہ کسی طریقے سے عورتوں کی تذلیل کی اور کرتے ہیں، زینب کبریٰ عورتوں کی برتری اور ان کی روحانی، فکری اور روحانی توانائی کی عظمت کو ظاہر کرنے میں کامیاب رہی؛ جس کی اب میں مختصر وضاحت کروں گا۔ یہ جو کہا گیا کہ تذلیل کی جارہی ہے تو یہ حقیقت ہے، آج ہم اس بحث میں داخل نہیں ہونگے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہی مغرب والے خطرناک حد تک خواتین کی تذلیل کر رہے ہیں۔ اس عظیم خاتون، زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دو نکات ثابت کئے: ایک نکتہ یہ ہے کہ عورت صبر اور برداشت کا ایک بحر بیکراں بن سکتی ہے۔ دوسرا، یہ کہ عورت عقل و دانش کی بلند چوٹی پر پہنچ سکتی ہے۔ یہ نکات عملی طور پر زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے ثابت کئے۔ نہ صرف ان لوگوں کے لیے جو کوفہ اور شام میں تھے۔ انہوں نے تاریخ کو دکھایا، انہوں نے تمام بشریت کو دکھایا۔

آپ کے صبر و تحمّل کے بارے میں؛ زینب کبری س کا صبر اور زینب کبری کا مصائب کو برداشت کرنے کا جذبہ ناقابل بیان ہے۔ سب سے پہلے شہادت کے وقت صبر کرنا۔ تقریباً آدھے دن یا ایک دن میں آپ کے اٹھارہ عزیز و اقارب شہید ہو گئے جن میں سے ایک آپ کے عظیم المرتبت بھائی حضرت سید الشہداء علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ شہید ہو گئے۔ ان کے اپنے دو بچے بھی شہید ہو گئے۔ ایسے سانحے کے مقابل میں پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، زینب کبری س نے صبر دکھایا؛ انہوں نے صبر کیا اور اپنی روحانی قوت کے ذریعے اگلے اقدام کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ اگر وہ بے صبری دکھاتیں، اگر وہ آہ و فریاد کرتیں، اگر وہ بے تاب ہوجاتیں، تو وہ یہ تقریریں اور یہ عظیم تحریک اور اس طرح کے اقدامات انجام نہیں دے سکتی تھیں۔ پس، شہادتوں کے مقابل میں صبر۔

توہین کے مقابلے میں صبر۔ وہ خاتون جس نے اپنی زندگی کے شروع سے ہی عزت کے ساتھ زندگی بسر کی ہے اور بچپن سے لے کر جوانی تک جس کی طرف باعظمت نگاہوں سے نگاہ ڈالی جاتی تھی، اموی لشکر کے غنڈوں اور اوباشوں کی جانب سے انکی توہین کی جاتی ہے، [لیکن] وہ صبر کرتی ہیں اور بکھرتی نہیں ہیں۔

یتیموں اور سوگوار خواتین کو جمع کرنے کی بھاری ذمہ داری کے مقابلہ میں صبر؛ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس کٹھن سفر میں ان درجنوں غمزدہ، زخمی، اور صدمے سے دوچار خواتین اور بچوں کو اکٹھا کرنے، حفاظت کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا کام انجام دیا۔ یہ زینب کبری س کے کارنامے تھے۔ جناب زینب س نے واقعی صبر اور سکون ک پہاڑ بن کر دکھایا۔ یعنی عورت یہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ روحانی و معنوی توانائی کے اس عظیم مقام تک پہنچ سکتی ہے۔ ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کے علاوہ، ولی خدا کی تیمارداری، حضرت سجاد علیہ السلام کی تیمارداری، جس میں صبر درکار تھا، اسے بہترین طریقے سے انجام دینے پر کامیاب رہیں۔ یہ انکے صبر کے بارے میں ہے۔

اب آپ کے حکمت آمیز، مدبرانہ رویے، اور روحانی طاقت اور تدبیر کے بارے میں۔ اسارت کے دوران یہ طرزعمل واقعی حیرت انگیز ہے۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اس طرز عمل کے نکتہ نکتہ پر ہمیں مطالعہ، تفکر، لکھنا، بیان کرنا، فنی تخلیق کرنی چاہیے۔ کیا یہ مذاق ہے؟

[نیز] یہ ہستی متکبر حکمرانوں کے سامنے روحانی اقتدار اور استقامت کا مظہر ہے۔ کوفہ میں جب ابن زیاد اپنی ملامت آمیز زبان کھولتا ہے، مثلاً "ہاں! ہاں!" "تم نے دیکھا کہ کیا ہوا، تم نے دیکھا کہ تم لوگ ناکام ہو گئے۔" جواب میں آپ فرماتی ہیں؛ «مَا رَاَیتُ اِلَّا جَمیلا» میں نے خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ یعنی اُس مغرور، شریر و خبیث آدمی کے منہ پر طمانچہ مارا۔ یہ [ابن زیاد] کے مقابل آپکا طرزعمل ہے۔ دوسری طرف جب یزید نے جب وہ لغو اور باطل باتیں کہیں اور عمل انجام دئیے تو حضرت س نے یہ جملہ فرمایا کہ جو کہ واقعی تاریخی ہے، فرمایا: «کِد کَیدَکَ وَ اسعَ سَعیَکَ ... فَوَاللهِ لا تَمزلحو ذِکرَنا» آج اگر ہم اپنی زبان میں اسے بیان کرنا چاہیں تو کچھ اس طرح ہوگا کہ جو کرسکتے ہو کر لو، جو توان میں ہے انجام دے لو، خدا کی قسم تم ہماری یاد کو لوگوں کے ذہنوں کے افق سے دور نہیں کر سکو گے۔ آپ س یہ کس سے کہہ رہی ہیں؟ متکبر، خونخوار وظالم یزید سے؛ یہ ایک عورت کی روحانی توانائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کیسی قوت ہے؟ یہ کیا عظمت ہے؟ [یہ] چیزیں تدبیر اور حکمت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ الفاظ حساب شدہ بیان ہوئے ہیں۔ لیکن جب لوگوں کا سامنا ہوتی ہیں تو وہاں اقتدار کے اظہار کی کوئی جگہ نہیں ہے، تنبیہ کرنے کی جگہ ہے، تشریح کرنے کا مقام ہے، لوگوں کو سرزنش کرنے کا مقام ہے جو نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کیا اور انہیں کیا کرنا چاہیے تھا۔

کوفہ میں حضرت زینب س کے خطبہ کے دوران جب لوگ زار و قطار لوگ رونے لگے تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: اَ تَبكون؟ کیا تم رو رہے ہو ألا فَلا رَقَأَتِ العَبرَةُ وَلا هَدَأَتِ الزَّفرَة؛ تمہارا رونا کبھی نہ رکے۔ تم کس بات پر رو رہے ہو؟ تم جانتے ہو تم نے کیا کیا؟ اِنَّما مَثَلُکُم کَمَثَلِ الَّتی نَقَضَت غَزلَها مِن بَعدِ قُوَّةٍ اَنکاثا؛ تم نے کچھ ایسا کیا جس نے تم لوگوں کی ماضی کی تمام کوششوں کو برباد کر دیا. یہ ہستی کچھ اس طرح بیان کرتی ہے۔ اور میں اس بات کا قوی احتمال دیتا ہوں کہ تحریک توابین جس نے بعد میں کوفہ میں سر اٹھایا اور قیام کر کے اس عظیم واقعہ کا آغاز کیا، اسکا کا ایک اہم عامل حضرت زینب س کا یہی بیان اور حضرت زینب س کا یہی خطبہ تھا۔ لہٰذا حضرت زینب س کی شخصیت کے بارے میں یہ پہلا نکتہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اپنے طرز عمل اور بیانات سے خواتین کی روحانی اور فکری توانائیوں کو ظاہر کیا۔ وہ اس طرح بولتی ہیں کہ جیسے امیرالمومنین بول رہے ہوں۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ عورت کی صلاحیت ہے۔

اس عظیم ہستی کی زندگی کا ایک اور اہم نکتہ جو کہ مدبرانہ طرز عمل کی علامت بھی ہے، یہ ہے کہ اس بزرگ ہستی نے تشریح کا جہاد، وضاحت کا جہاد شروع کیا۔ واقعہ کے بارے میں دشمن کے بیانیے کو غالب نہ آنے دیا۔ انہوں نے اپنے بیانیے کو رائے عامہ پر حاکم کیا۔ آج تک عاشورہ کے واقعہ کے بارے میں زینب الکبریٰ (سلام اللہ علیہا) کا بیانیہ تاریخ میں موجود ہے، لیکن ساتھ ہی اس کا اثر شام و کوفہ میں، امویوں کے سلسلہ پر ہوا۔ اموی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔ دیکھیں! یہ سبق ہے؛ یہ وہی چیز ہے جو میں ہمیشہ کہتا ہوں: آپ اپنے معاشرے، اپنے ملک اور اپنے انقلاب سے متعلق حقائق بیان کرتے رہیں۔ اگر آپ بیان نہیں کریں گے تو دشمن بیان کرے گا۔ اگر آپ انقلاب نہیں بیان کریں گے تو دشمن بیان کرے گا۔ اگر آپ دفاع مقدس کے واقعات بیان نہیں کرتے تو دشمن جو چاہے گا بیان کرے گا۔ وہ جو چاہے تشریح پیش کرے گا، جھوٹ بولے گا، 180 ڈگری حقیقت کے خلاف؛ ظالم اور مظلوم کی جگہ بدل دے گا۔ اگر آپ جاسوسی کے اڈے کو تسخیر کرنے کا واقعہ بیان نہیں کرتے ہیں - جو بدقسمتی سے ہم نے بیان نہیں کیا - دشمن اسے بیان کرے گا؛ دشمن نے جھوٹی داستانیں بیان کی ہیں۔ ہمیں یہ کرنا ہے؛ یہ ہمارے نوجوانوں کا فریضہ ہے۔

خیر، اب نرسوں کے مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ نرسوں کے بارے میں، سب سے پہلے جو میں بیان کروں گا وہ نرسنگ کی اقدار پر ایک نظر ہے؛ یہ ایک مسئلہ ہے کہ میں اس سلسلے میں چند جملے کہوں گا۔ اس کے بعد نرسنگ کی مشکلات اور سختیوں پر ایک نظر ہے جسے ہمیں سمجھنا چاہیے، ایرانی قوم کو سمجھنا چاہیے کہ نرسنگ کمیونٹی اس کام میں کیا مشکلات برداشت کر رہی ہے۔ ایک اور مسئلہ نرسوں کے مطالبات کا ہے۔ ان کے مطالبات ہیں۔ خیر، اللہ کا شکر ہے، میٹنگ میں عہدیدار بھی موجود ہیں۔ میں نرسوں کے مطالبات کا مختصر جائزہ پیش کروں گا - سارے نہیں۔

اب اقدار کے بارے میں ایک مرکزی نکتہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ضرورتمند انسان کی مدد ایک ضرورت ہے۔ یعنی، ایک نرس وہ ہے جو کسی ایسے شخص کی مدد کرتی ہے جسے ہر چیز میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے پانی چاہیے، اسے کھانا چاہیے، وہ رات کو سونے کے لیے آرام چاہتا ہے، اسے درد سے نجات چاہیے، اسے دوا چاہیے، اور باقی مختلف ضروریات جو نرس نجات کے فرشتے کی طرح پوری کرنے میں اس انسان کی مدد کرتی ہے۔ ضرورت مندوں کی مدد کرنا تمام ثقافتوں میں ایک عظیم قدر ہے۔ وہ بھی ایسا شخص جو سب سے زیادہ محتاج ہے، یعنی بیمار۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو ضرورت مندوں کی مدد سے عبارت ہے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اہلِ سلوک اور اهلِ راہِ توحید اور اخلاقیات اور ان جیسے لوگ جو راہ سلوک طے کرنے کیلئے دستورات دیتے ہیں انکے دستورات میں سے ایک، ان لوگوں کی مدد کرنا جن کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ، ایک نرس کے طور پر، جب آپ اپنے پیشے میں مصروف عمل ہوتے ہیں، تو آپ راہِ توحید کے ایک اہم دستور کو بجا لا رہے ہیں اور اس پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ اس کی اہمیت ہے، یہ بہت اعلیٰ قدر ہے۔ یہ ایک بات.

نرسنگ کی اگلی قدر یہ ہے کہ یہ سخت کام ہے۔ سخت کام زیاده اجر رکهتے ہیں، زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ جو کام مشقت کے ساتھ انجام پاتے ہیں، جس کیلئے انسان مشکلات برداشت کرتا ہے، اس کی قدر و قیمت بارگاہِ الہٰی میں زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ یہ کام سختی کے ہمراہ ہے، ہم اس کام کی کچھ مشکلات کو آگے مختصراً بیان کریں گے۔ لہذا نرسنگ کی قدر و قیمت دوگنی ہے، دوسری امدادی کارروائیوں سے زیادہ؛ کیونکہ یہ مشکل کام ہے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ نرسنگ کا یہ اقدام ذہنی سکون کا ذریعہ ہے۔ کس کا ذہنی سکون؟ سب سے پہلے، خود مریض کا، جو مطمئن ہوتا ہے؛ جب نرس مریض کے پاس ہوتی ہے تو اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ دوم، مریضوں کے متعلقین کو معلوم ہوتا ہے کہ ہسپتال میں نرس ان کے مریض کے کنارے ہے، انہیں اطمینان ملتا ہے۔ اگر یہ نرس وہاں نہ ہو تو وہ بے چین اور پریشان ہو جائیں گے۔ تیسرا، تمام لوگ؛ تمام انسانی ضمیر ان لوگوں کے دکھوں کی وجہ سے جو پریشان ہیں مضطرب اور پریشان ہوجاتے ہیں۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ کوئی مریض پریشانی میں ہے، درد میں ہے، بھوکا ہے، پیاسا ہے، اس کے پاس کوئی نہیں، کوئی نرس نہیں، فطری طور پر ہمارا ضمیر پریشان ہوجائے گا، ہم پریشان ہوجائینگے، لیکن چونکہ ہمیں پتہ ہے کہ نرس وہاں موجود ہے، ہمیں اطمینان ملتا ہے۔ نرس آرام و سکون کا ذریعہ ہے؛ مریضوں کے لیے، بیماروں کے لیے، اور باقی لوگوں کے لیے بھی، نرسیں میرے اور آپ کے ضمیر کو اطمینان بخشتی ہیں۔ تو اس حساب سے، نرسنگ طبقہ کا احسان نہ صرف مریض کے اوپر ہوتا ہے، بلکہ یہ احسان میرے اوپر بھی ہے، یہ ان لوگوں کے اوپر بھی احسان ہے جن کا اس مریض سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ انہیں ذہنی سکون و اطمینان فراہم کرتا ہے۔

اسلامی ایران میں نرسنگ کی اضافی قدر و قیمت ہے، اور وہ یہ ہے کہ استکباری دشمن، دنیا کی مستکبر قوتیں، ایرانی قوم کے مصائب کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں! کیا آپ کو یقین نہیں آتا؟ دشمن ایرانی قوم کے مصائب کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں؛ کیا دلیل ہے؟ دلیل مقدس دفاع دور کی کیمیائی بمباری ہے۔ کیمیائی بمباری سے ہزاروں نوجوان لاعلاج، صعب العلاج اور دردناک بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ کبھی کبھی ان کے خاندان، ان کے بچے بھی مبتلا ہوئے۔ جی ہاں، صدام نے یہ کیمیکل بم دھماکے کیے، لیکن اسے وہ بم کس نے دیا؟ یہ کیمیکل کس نے دیا؟ کس نے اجازت دی اور اس عمل کو رضامندی سے دیکھا؟ کسی ایک ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کا احتمال بھی باعث بنتا ہے کہ یہ سب ہنگامہ برپا کردیں، [لیکن] یہ سب کے سامنے کیمیائی بمباری کرتا اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، باقی سب دیکھ رہے تھے، تعریف بھی کر رہے تھے، مدد بھی کر رہے تھے! لہذا انہیں ایرانی قوم کا دکھ اچھا لگتا ہے۔ یا یہی ادویات کی پابندی؛ خدا نے رحم کیا اور ہمارے نوجوان سائنسدان کورونا کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر یہ پابندی رہی اور ویکسین درآمد نہ ہوئی تو ایران خود مزید پیداوار کرے گا۔ اگر ہمارے نوجوان، ہمارے سائنسدانوں نے یہ ویکسین تیار نہ کی ہوتی تو معلوم نہیں تھا کہ یہ ویکسین ایرانی قوم اور حکام تک کیسے پہنچتی۔ وہ ایرانی قوم کے دکھوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اب اگر آپ ایک نرس کے طور پر، ایسے ماحول میں مریض اور بیمار لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکتے ہیں، تو آپ نے حقیقت میں استکبار کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ یہیں پر نرسنگ کا مطلب استکبار کا مقابلہ اور سامنا کرنا بھی ہے۔ نرسنگ برادری کی ایسی حیثیت ہے، اس کی بہت قدر و قیمت ہے۔ اب میں نے صرف چند نکات کا ذکر کیا ہے، ہم اس پر مزید بات کر سکتے ہیں۔ یہ نرسنگ اقدار کے بارے میں باتیں تھیں۔

مشکلات اور سختی؛ نرسنگ کے کام کی نوعیت سخت ہے، تلخ ہے۔ بیمار کا دکھ، بیمار کا درد، بیمار کی آہیں، بیمار کی بے خوابی کو مسلسل اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا، یہ تلخ ہے، یہ بہت مشکل ہے، یہ انسان کے لیے سب سے مشکل چیزوں میں سے ایک ہے۔ [یہ کہ] انسان مسلسل مریضوں کی ان جسمانی ضروریات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے اور ان کو پورا کرتا ہے - یہ نہیں کہ آدمی دیکھتا رہے اور گزر جائے- (مریض) درد کا شکار ہوتا ہے، اس کے درد کا علاج کرے؛ بھوکا ہوتا ہے، پیاسا ہوتا ہے، علاج کرے۔ بہت سے دوسرے مسائل کا شکار ہوتا ہے، ان کا علاج کرے؛ دن رات مریض کا خیال رکھے، یہ ہیں نرسنگ کی مشکلات۔ لہذا، نرسنگ کے کام کی نوعیت سخت ہے.

بعض اوقات یہ سختی کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ کورونا کے دوران یا اسی طرح مقدس دفاع کے دور میں۔ دفاع مقدس کے دور میں بھی ایسا ہی تھا۔ آپ میں سے اکثر جوان ہیں، آپ کو یاد نہیں۔ جو اس وقت میدان میں تھے وہ جانتے ہیں۔ دفاع مقدس کے دور میں ہمارے پاس ایسے ہسپتال تھے جو فرنٹ لائن سے زیادہ دور نہیں تھے۔ میں نے ان ہسپتالوں کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان ہسپتالوں میں ڈاکٹرز بھی تھے اور نرس بھی۔ بمباری کے دوران! میں ان میں سے ایک سینیٹوریم اور ہسپتال میں تھا جب اس پر بمباری کی گئی، میں خود وہاں تھا۔ میں نے دیکھا کہ شدید بمباری ہوئی ہے۔ امدادی کارروائی والے آگ و خون کے اندر پیش قدمی کر رہے تھے، یعنی دفاع مقدس کے دور میں بھی یہی حال تھا اور کئی گنا زیادہ مشکلات تھیں۔

کورونا کا دور بھی ایسا ہی تھا۔ کورونا کے دور میں بھی، انصاف سے دیکھا جائے تو، کام کئی گنا مشکل ہوگیا تھا، کام کے اوقات بڑھ گئے، اور چھٹیاں کم ہوگئیں۔ نوروز کی چھٹیوں کے دوران، نرس برادری اپنے خاندان، اپنے بچے، اپنے شوہر، اپنے والدین کو نہیں دیکھ سکی۔ یہ کام بہت معنی رکھتا ہے، یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ جب سب آرام کر رہے ہیں، ہر کوئی زندگی گزارنے اور لطف اندوز ہونے میں مصروف ہے، ہسپتال میں یہ نرس سختی کا سامنا کر رہی ہے، بیماری کا سامنا کر رہی ہے، اور گھر نہیں جا رہی ہے۔ یہ مشکلات ہیں۔ پھر میت کا مشاہدہ؛ ویسے انسان کو مرتے دیکھنے کی طاقت کتنی ہے؟ کورونا کے دور میں، ان نرسوں میں سے کتنوں نے ہسپتالوں میں انسانی موت دیکھی - بوڑھے، جوان، عورت، مرد سب شامل تھے! یہ مشکل ہے؛ یہ بہت مشکل ہے.

اس کے علاوہ، انہوں نے اپنے ساتھیوں کی موت [دیکھی]۔ ان کے اپنے کتنے ساتھی مر گئے۔ کل پرسوں تک، ان کا ساتھی ان کے ساتھ تھا، اب وہ کورونا میں مبتلا ہو کر دنیا سے چلا گیا۔ یہ بہت مشکل ہے! میری رائے میں ایرانی قوم کو ان مشکلات کو دیکھنا چاہیے، انھیں سمجھنا چاہیے اور نرسنگ برادری کی قدر کرنی چاہیے۔ پھر، ان تمام خطرات کے علاوہ، نرس کو مہلک بیماری لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسے مسلسل اس خطرے کا انتظار ہوتا ہے؛ کتنی نرسیں متاثر ہوئیں! امکان ہے کہ ہر نرس جو آج صحت مند طریقے سے کام کر رہی ہے، کل وہ بیمار ہو جائے۔ یہ ایک بہت سنگین خطرہ ہے۔ ہم نے ماضی میں سنا ہے کہ ہیضہ اور طاعون جیسی ماضی میں آنے والی وباووں میں، ایسے لوگ ہوتے تھے جو بیماروں کے پاس جاتے تھے، مثال کے طور پر، مدد کرتے، دیکھ بھال کرتے، علاج کرتے، اور خود بھی متاثر ہوکر دنیا سے رخصت ہوجاتے؛ کچھ موارد بہت ہی معدود اس طرح کے ہوتے تھے؛ ہم نے اپنے دور میں ان کو بڑی تعداد میں دیکھا ہے۔

یہاں ایک نکتہ ہے جو میں بیان کروں گا: ہمارے پاس نرسوں کے علاوہ، ان کے ساتھ غیر نرس عناصر بھی خدمت کر رہے تھے۔ مدارس و یونیورسٹی کے طلباء، مختلف نوجوان ہسپتال جاتے اور کچھ امدادی چیزیں سیکھتے اور انجام دیتے یا جو کچھ وہ کر سکتے تھے وہ کرتے۔ مقدس دفاع کا دور بھی ایسا ہی تھا، جو لوگ پیشہ ور نہیں تھے وہ نرسوں کی مدد کے لیے میدان میں آئے، انہوں نے اپنا فرض سمجھا، وہ اسپتال پہنچے، انہوں نے نرسنگ سمیت دیگر طبی سہولیات میں جتنی مدد کرسکتے تھے، مدد کی۔ میری رائے میں، یہ ہمارے پیارے ملک اور ہماری عزیز قوم کے لیے ایک اہم اور روشن حقیقت رکھتا ہے: یہ ایرانی قوم کی زندہ اور متحرک شناخت اور ضمیر کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک ایرانی قوم میں عوامی ہے، جو یقیناً دیگر عمومی آفات میں بھی دیکھی گئی ہے۔ اب میں نے اس میں نرسنگ شعبے سے متعلق ذکر کیا ہے۔ یہ ایک پیوستہ طرزعمل ہے؛ انقلاب سے پہلے، جابر شہنشاہی دور کی جدوجہد سے لے کر انقلاب کے واقعات تک، مقدس دفاع کے واقعات تک، اس کے بعد کے واقعات تک، کورونا تک؛ ان تمام حالات میں ایرانی قوم میں یہ پرعزم اور ذمہ دارانہ تشخص ظاہر ہوا ہے۔ جیسا کہ یہ جابر شہنشاہی دور کی جدوجہد کے دوران تھا، یہ مقدس کے دفاع کے دوران تھا، اس کے بعد کے زمانے میں تھا، کورونا کے دوران تھا اور ملک کی عظیم علمی و سائنسی تحریک میں تھا، یہ ایک اہم تحریک ہے جو ہماری قوم [ کی شناخت] کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ ہماری قوم کی شناخت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تحریک قوم کی شناخت بنانے کی تحریک ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے ذریعے شہید سلیمانی، شہید فخرزادہ، شہید شہریاری جیسے ہیرو اس شناخت کے اندر سے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جو مختلف شکلوں اور مختلف مظاہر میں ظاہر ہوتی ہے: ایرانی قوم کی شناخت؛ یہ شناخت بنانے والے حقائق اور شناخت کی علامات؛ یہ شناخت کی علامت بھی ہے اور یہ خود شناخت کو مضبوط بھی کرتی ہیں اور ایرانی قوم کی شناخت بھی بناتی ہیں۔ یہ مشکلات سے متعلق گفتگو تھی۔

میں یہاں اب اپنے ماہرینِ فن سے مخاطب ہوں۔ ہمارے ہاں ان واقعات کے فنی ترجمانی میں ایک خلاء ہے۔ یہی ہسپتال کے واقعات، وہی جن کے بارے میں میں نے ابھی کہا۔ نرسوں کی یہ مشکلات اور ان کو درپیش مشکلات، یہ چیزیں فنی جہت رکھتی ہیں۔ فنون کی زبان میں، ان میں ڈرامائی عنصر موجود ہے، اور ان سے دلچسپ پروگرام بنانے کے لیے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مختلف فنون کے ساتھ میدان میں آئیں۔ پرفارمنگ آرٹس، بصری فنون، شاعری، ادب کے ذریعے ان کو [آرٹ ورک میں] لائیں۔ یہ بہت بڑے ثقافتی اثاثے ہیں۔ ہر ایک کو ان سے مستفید ہونا چاہئے، اور جو لوگ ان سرمایوں سے استفادہ کر سکتے ہیں وہ ہمارے ماہرین فن ہیں۔ الحمد للہ، ہمارے پاس نظریاتی اور ذمہ دار ماہرین فن کم نہیں ہیں۔ میدان میں قدم رکھیں اور داخل ہوں۔ خیر، یہ سختیوں اور تلخیوں کے بارے میں باتیں جو ہم نے چند جملوں میں بیان کیں۔ یقینا، بات اس سے زیادہ ہے اور مزید بات کی جاسکتی ہے.

اور اب مطالبات۔ نرسنگ برادری کا بنیادی مطالبہ نرسنگ برادری کو مضبوط کرنا ہے۔ اگر ایک لفظ میں خلاصہ کریں، نرسنگ کمیونٹی ہم سب سے، اور خاص طور پر ذمہ دار اداروں سے - معزز وزیر بھی یہاں موجود ہیں - نرسنگ کمیونٹی کو مضبوط کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ اب، اگر ہم نے نرسنگ کمیونٹی کو مضبوط نہیں کیا، تو ہمیں حساس مواقع پر نقصان پہنچے گا، جیسا کہ کورونا کے مسئلے نے دکھایا؛ ہمیں وہیں سے نقصان پہنچے گا جہاں ہمیں ضرورت ہوگی۔ نرسنگ کمیونٹی کو اس دن کیلئے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے انسان ہمیشہ اس طرح ضرورت محسوس نہ کرے - یقیناً کر رہے ہیں، کیونکہ ہمیں اس وقت (افرادی قوت ) تعداد کے بارے میں ایک مسئلہ درپیش ہے جس کے بارے میں میں ابھی بات کروں گا، اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں - لیکن بطور فرض اگر ہمیں ابھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر ہم مضبوط نہیں کرتے ہیں، تو ہم مسئلہ کورونا جیسے حساس موڑ پر سنگین نقصان اٹھائیں گے۔

خاص طور پر، ان مطالبات میں سے ایک نرسنگ خدمات کی قیمت گذاری ہے، جو یقیناً ایک بنیادی مطالبہ ہے۔ میں نے پچھلے سال بھی یہی کہا تھا، میں نے اس پر زور دیا تھا، بدقسمتی سے جنہیں یہ کرنا چاہیے تھا، انہوں نے نہیں کیا! قیمت گذاری قانون کا مسودہ سال 86 (ایرانی) میں تیار کیا گیا تھا، جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری دنوں تک حتی ضمنی قوانین بھی نہیں لکھے گئے تھے۔ یعنی بغیر اس کے کہ بائی لاز بنائے جائیں اور تیار ہوں، اس قانون کو تقریباً چودہ سال گزر گئے! کیوں؟ میں وزارت صحت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس حکومت میں قیمت گذاری کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہ نرسوں کی ایک اہم درخواست ہے؛ یہ ایک حقیقی مطالبہ ہے۔

ایک اور مطالبہ ضرورت کی نسبت نرسوں کی قلت کا ہے۔ اب جو اعدادوشمار وہ ہمیں دکھاتے ہیں، اس کا موازنہ عالمی اوسط سے ہے۔ میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دنیا کی اوسط درست ہو سکتی ہے اور غلط بھی ہو سکتی ہے۔ مجھے ضرورت کو دیکھنا ہے۔ ہمارے پاس اتنی نرسیں نہیں ہیں جتنی آج ہمارے ہسپتال کے بستروں کی ضرورت ہے۔ اب کوئی کہتا ہے ایک لاکھ، کچھ کہتے ہیں کم، کچھ کہتے ہیں [زیادہ]؛ میں کوئی اعداد نہیں معین کرتا کیونکہ میں اس بارے میں بالکل نہیں جانتا، لیکن میں جانتا ہوں کہ ہمارے پاس نرسوں کی کمی ہے۔ نرس کی تعداد کو فی کس ضرورت کے مطابق مکمل کیا جانا چاہئے۔ یہ ابھی بہت کم ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک ایسا کام نہیں جو ایک یا دو ماہ میں کیا جا سکتا ہے; اس میں کچھ وقت لگتا ہے، لیکن یہ مناسب مدت میں ہونا چاہیے، انشاء اللہ۔

ایک اور ضرورت ملازمت کے تحفظ یا ضمانت کا مسئلہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایسا ہوا ہے کہ جیسا کورونا کے اسی معاملے میں، اعلانیہ جاری کیا گیا ان افراد کو بھرتی کرنے کیلئے جو کام کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ وہ آئے اور ان سے مختصر مدت کے معاہدے کیے گئے، پھر جب ضرورت پوری ہوگئی تو ان سے کہا گیا کہ رخصت اختیار کیجئے! تو یہ شخص جس کے پاس جاب سیکیوریٹی نہیں ہے وہ کس جوش و جذبے سے کام پر آکر نرس بنے؟ لہذا، ملازمت کی حفاظت (جاب سیکیوریٹی) مختلف مسائل میں سے ایک ہے. نرس کو موسمی کارکن کے طور پر مت دیکھا جائے کہ بھرتی کرلیں اور کل کہیں کہ ضرورت نہیں، جاؤ؛ نہیں، ملازمت کی ضمانت! یقیناً، اس کے ایک خاص ضوابط ہیں جو ماہرین جانتے ہیں۔ البتہ اور بھی مطالبات ہیں جو اب وقت ختم ہونے کے باعث، جاری نہیں رکھ سکوں گا۔ احباب کو، خاص طور پر وزارت صحت کو ان کو دیکھنا چاہیے۔

میں نرسوں کے مسئلے سے ہٹ کر صحت کے مسائل سے متعلق دو نکات بیان کرنا چاہوں گا، جو کہ اہم بھی ہیں۔ ملک کے صحت کے ڈھانچے (ہیلتھ نیٹ ورک) کے بارے میں ایک بات یہ ہے کہ میں پہلے بھی اس پر تاکید کرتا رہا ہوں، ایک وقت میں یعنی 1980 کی دہائی میں یا 90 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں اداروں اور حکومت کی توجہ صحت پر مرکوز تھی، توجہ بیماری سے بچاو پر تھی اور اس کے بہت اچھے نتائج تھے۔ ہمیں اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے، یہ ضروری ہے۔ احتیاط اور بچاو علاج سے بہتر ہے؛ علاج ضروری ہے، علاج کو نظر انداز نہیں کرنا ہے لیکن روک تھام کو نظر انداز نہ کیا جائے. اس کا لازمہ یہ ہے کہ صحت کے نیٹ ورک، جو پہلے قائم کیا گیا تھا اور اس میں بہت سی برکتیں تھیں، از سر نو تعمیر کیا جائے۔ یہ موجود ہے، [لیکن] یہ کمزور ہے، اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ مضبوط کیا جائے، تعمیر نو کی جائے۔ اگر صحت کا نیٹ ورک واقعی فعال ہوجائے، تو یہ کم لاگت میں عظیم کارنامے انجام دے سکتا ہے۔

دوسرا مسئلہ ڈاکٹرز کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ہے۔ منصفانہ تقسیم. اب ہمارے پاس ڈاکٹروں کی کمی ہے، یا ہمارے پاس کمی نہیں ہے، میں ان مسائل میں نہیں پڑتا، ماہرین خود جانتے ہیں کہ ہمارے پاس کمی ہے یا نہیں۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ڈاکٹروں کی تقسیم بندی منصفانہ نہیں ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں - دور دراز مقامات پر - قلت ہے؛ ڈاکٹرز کی منصفانہ تقسیم پر غور کیا جائے۔ یہ ہمارے عرائض تھے۔

اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ ملک کے تمام معاملات میں، زندگی کے تمام معاملات میں، اللہ سے مانگنا، گڑگڑانا، دعا کرنا اور اس پر توکل کرنا چاہیے۔ وَمَن یَتَوَکَّل عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسبُه؛ جو اللہ پر بھروسہ کرے گا، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ اس بات کو جان لیں۔ بے شک، خدا پر بھروسہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کام نہ کریں۔ یہ واضح ہے؛ یعنی ہم الہی وعدے پر اعتماد کے ساتھ کام کریں کہ جس نے کہا ہے کہ اگر تم کام کرو گے تو میں اس میں برکت دوں گا۔ خدا کے وعدے پر بھروسہ رکھیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ، آپ کا کل آپ کے آج سے بہتر ہوگا اور آپ کا مستقبل آپ کے ماضی سے بہتر ہوگا۔ اور انشاء اللہ، ایرانی قوم آپ کی کوششوں اور خدمات سے مستفید ہوگی، اور خدا تعالیٰ آپ سب کو اجر عطا فرمائے، نرسوں کو اجر دے؛ اور دشمنوں کے ساتھ محاذ آرائی کے تمام میدانوں میں ایرانی قوم کو فتح مند اور سربلند قرار دے۔

والسّلام ‌علیکم‌ و رحمةالله ‌و برکاته