ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

خوش آمدید، عزیز برادران، اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال اور متحرک فضائیہ کے اچھے دوست! کورونا کے ناسازگار حالات نے ہمیں یہ ملاقات اس طرح کرنے نہیں دی جیسا ہم چاہتے تھے۔ ہم یہاں آپ میں سے کچھ مزید لوگوں سے ملنا چاہتے تھے اور زیادہ آسانی سے اور کچھ زیادہ باتیں کرنا چاہتے تھے، لیکن میں ڈاکٹروں کی طرف سے اعلان کردہ رہنما خطوط کا پابند ہوں۔ میں پابند ہوں، یعنی میں معتقد ہوں کہ ان کی پیروی میرا فریضہ ہے، اور میں ان پر عمل کرتا ہوں۔ وہ ماسک پر اصرار کرتے ہیں؛ اور میں نے اس ویکسین کا تیسرا انجیکشن بھی لگوایا ہے۔ البتہ، میں نے یہ کام کافی عرصہ پہلے کیا تھا - چند ماہ پہلے - یعنی میں وہ امور انجام دینے کا پابند ہوں جو محترم ڈاکٹرز ضروری اور مناسب سمجھیں۔ میں اپنے عزیزوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس شعبے کے ماہرین اور متخصص کی باتوں پر توجہ دیں اور سنیں اور وہ جو مناسب اور ضروری سمجھیں وہ کریں۔ باہرحال یہ نشست، اسی طرح منعقد ہوسکی جیسے ہوئی ہے۔ بہت خوش آمدید؛ ہم دعگو ہیں کہ ان شاء اللہ، خدا آپ سب کو کامیاب کرے گا۔

یہ رجب کے مہینے کے ایام ہیں۔ میری آپ سے پہلی درخواست یہ ہے کہ اس مہینے اور ان دنوں کی قدر کریں۔ رجب کا مہینہ توسل کا مہینہ ہے، التجا کا مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے، ذہنی اور روحانی تزکیہ کا مہینہ ہے۔ دلوں کو خدا کے قریب لانا چاہیے۔ خاص طور پر آپ کے نوجوان، وہ نوجوان جو میٹنگ میں اور افرادی قوت کا حصہ ہیں۔ ہم سب کو خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی کے ہر لمحے میں ہمیں خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، اور ماہ رجب کے یہ ایام اسی [ضرورت] کے مطابق ہیں اور الہی رحمتوں اور روحانی برکات کا وسیلہ ہیں۔

آج بہمن کا 19واں دن ہے۔ یعنی فضائیہ کی حیرت انگیز بیعت کا دن؛ ایک تاریخی اقدام اور فضائیہ کے لیے ایک حساس موڑ کا دن۔ شاید اس دن فضائیہ کی موجودہ نسل میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ بہت سے نوجوان جو شاید اس دن پیدا نہیں ہوئے ہوں گے، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ تمام لوگ جو آج احساس ذمہ داری کے ساتھ فضائیہ میں کام کرتے ہیں، قعلان یکجہتی کی اس بیعت میں شریک ہیں۔ آپ میں سے وہ لوگ جو اس دن وہاں نہیں تھے، یا شاید آپ فورس میں نہیں تھے - یعنی آپ میں سے اکثر کا سابقہ اتنا نہیں ہے - لیکن آپ اس دن انجام پانے والے  افتخار آمیز عمل اور اس دن کی فضیلت میں شریک ہیں؛ کیوں؟ کیونکہ وہ نوجوان جو اس دن آئے تھے - افسران اور عہدے دار اور زیادہ تر پائلٹس - اور اس نشست اور اس ملاقات میں شریک ہوئے اور بیعت کی، یہ بیعت کسی شخص کی بیعت نہیں تھی۔ یہ بیعت اہداف کی بیعت تھی، نظریات کی بیعت تھی۔ ان نظریات اور مقدس جہاد کی بیعت تھی جس کے امام خمینی رح طاقتور رہنما تھے۔ وہ آئے اور فضائیہ کو اس طاقتور، شاندار اور غیر معمولی قیادت کی چھتری میں لے آئے۔ یہ عمل ایک روحانی عمل تھا، اس لیے یہ عمل جاری ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں تھا جو اس دن ہوا اور ختم ہو گیا۔ نہیں، یہ ماجرا جاری ہے۔ جو کوئی بھی کسی بھی دور میں ان نظریات کی سمت بڑھتا ہے وہ دراصل اس تحریک کا حصہ دار ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو 19 بہمن کے اعزاز سے مستفید ہوتے ہیں۔

اس دن فضائیہ کی یہ بیعت وہ آخری ضرب تھی جو پہلوی حکومت کے بوسیدہ جسم پر لگائی گئی تھی اور اس نے پہلوی حکومت کے بدنام زمانہ خیمے کو تباہ کر دیا تھا۔ یہ تحریک ایک متاثر کن تحریک تھی۔ یہ اقدام بہت متاثر کن تھا۔ اسی دن امام خمینی رح نے اپنی تقریر میں اس مجمع سے جو حاضر ہوا تھا خطاب کیا (2) اور فرمایا کہ آپ نے فوج کو آزاد کرایا، آپ نے فوج کو طاغوت کی خدمت سے ہٹا کر اسلام کی خدمت میں لگادیا۔ اس دن تک آپ طاغوت کی خدمت میں تھے، اب آپ نے اسے لاکر امام خمینی رح کی خدمت میں پیش کیا۔ ان سب نے نعرہ لگایا کہ "ہم سب آپ کے سپاہی ہیں"، امام نے فرمایا، "آپ امام زمانہؑ کے سپاہی ہیں، آپ قرآن اور اسلام کے سپاہی ہیں، اور اسی راستے پر آئے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔" حقیقت بھی یہی تھی۔

اس سلسلے میں کئی نکات ہیں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ یہ اقدام وقت کی ضرورت تھی۔ میں اس مسئلے پر بہت زیادہ تاکید کرتا ہوں اور کئی بار تکرار کر چکا ہوں۔(3) ہمیں اپنے کام میں وقت کی ضرورت کو ہمیشہ سمجھنا چاہیے۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ اگر آپ انھیں وقت پر کریں گے تو یہ نشانے پر لگے گیں۔ اگر آپ یہی کام کسی اور وقت کرتے ہیں تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ جاننا چاہیے کہ اس وقت کی کیا ضرورت ہے۔ آپ ہمیشہ یہ پیمائش کر سکتے ہیں۔ [مثال کے طور پر] فضائیہ میں، دیکھیں کہ فضائیہ کو آج کیا ضرورت ہے، اس ابھی اسی وقت انجام دیں۔ میری رائے میں، اس گروہ کے سب سے اہم سنجیدہ اقدامات میں سے ایک یہ تھا؛ تاہم، اگر وہ دس دن بعد، بیس دن بعد اسے انجام دیتے، تو اس کا یہ اثر بالکل نہیں ہوتا۔ اس دن یہ اثر ہوا۔ انہوں نے اس وقت کی ضرورت کو سمجھا۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔

ایک اور نکتہ جو سبق آموز ہے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ فضائیہ کے اس اقدام میں طاغوت حکومت کو ایسی جگہ سے نشانہ بنایا گیا جس کی اسے توقع نہیں تھی، اس نے یہ اندازہ نہیں لگایا تھا کہ اسے یہاں سے ضرب لگائی جائے گی۔ جیسا کہ قرآن میں اور سورہ حشر میں یہودی قبائل کے بارے میں بیان کیا گیا ہے: "فَاَتاهُمُ اللهُ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا"؛ (4) اللہ تعالی نے انہیں ایسی جگہ سے ضرب لگائی جس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ اس طرح تھا۔ طاغوت حکومت کے عناصر میں سے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ فوج بالخصوص فضائیہ سے ضرب کھائیں گے۔ انہوں نے فضائیہ پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی تھی۔ ان کے امریکی حامی بھی حیران تھے۔ امریکیوں نے ہیزر (5) کو، جو کہ ایک امریکی جنرل تھا اور اس دن نیٹو کا دوسرا کمانڈر تھا، کو تہران بھیجا تاکہ فوج کو منظم کیا جا سکے اور خونی قیام کے نتیجے میں حکومت کو کسی بھی طرح سے گرنے سے روکا جا سکے۔ یعنی اس نے تہران میں ضرورت پڑنے پر لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یعنی ہائیزر اسی ارادے سے تہران آیا تھا لیکن یقیناً وہ ناکام ہو گیا اور ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔ یہ ہائیزر اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے - یقیناً میں نے یہ کتاب خود نہیں دیکھی، مجھے اس کا حوالہ دیا گیا ہے- کہ فضائیہ ایک ایسا ادارہ تھا جہاں سے ہمیں ذرہ برابر بھی بغاوت کی توقع نہیں تھی۔ کیونکہ کمانڈ اور ٹریننگ کے معاملے میں اس کا امریکہ سے گہرا تعلق تھا۔ شاید بہت سے لوگ جنہوں نے اس دن اس عظیم تاریخی تقریب میں شرکت کی تھی، بنیادی طور پر وہ لوگ تھے جنہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہاں کی امریکی ثقافت سے واقف تھے۔ لیکن انھوں نے وہاں سے چوٹ کھائی۔ ٹھیک ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ خدا نے فرمایا: اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا۔ (6) دشمن چالیں کھیلتے ہیں اور میں ان کے مقابل اپنی چالیں چلاتا ہوں۔ ایک اور جگہ [قرآن کہتا ہے]: فَالَّذینَ کَفَروا هُمُ المَکیدون‌(7)؛ حق و باطل محاذ کے تصادم میں، باطل ہے جو ہمیشہ ضرب کھاتا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی اس معاملے میں امریکیوں کا حساب غلط نکلا۔ یعنی انہوں نے طاغوت کی فضائیہ سے امید لگائی تھی، یہ حساب غلط نکلا۔ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ اس طرح سامنے آئے گی۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں کہیں بھی اسلام کی قوت، حق کی طاقت کفر کے سامنے میدان میں اترتی ہے، دشمن اپنی تمام ظاہری شان و شوکت کے ساتھ، جس کی کوئی گہرائی اور حقیقت نہیں ہوتی، اپنے حساب کتاب میں غلطی کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انقلاب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ [انقلاب کے اوائل میں] بھی ہوا تھا، اور ان چالیس سالوں میں بھی ایسا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ حساب لگاتے تھے، وہ ہمیشہ سوچتے تھے کہ وہ آخری ضرب لگانے والے ہیں، [لیکن] وہ خود ہی مارے گئے۔ اگر آپ میدان جہاد میں - ہر جہادی؛ ہر دور میں کسی نہ کسی قسم کا جہاد ضروری ہوتا ہے، ہمارے پاس عسکری جہاد ہے، ہمارے پاس علمی جہاد ہے، ہمارے پاس تحقیقی جہاد ہے۔ ہر قسم کے جہاد ہیں - حاضر اور متحرک رہیں، آپ دشمن کو شکست دیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو اس طرح رکھا ہے کہ دشمن کا حساب غلط نکلے، وہ صحیح حساب نہیں لگا سکتا، صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ آج خود امریکہ "فَاَتاهُمُ اللهُ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا" کے اس مسئلے سے دوچار ہے۔ آج امریکہ ایک ایسی جگہ سے چوٹ کھا رہا ہے جس کی اسے کبھی توقع نہیں تھی۔ آج دو امریکی صدور، سابقہ ​​صدر (8) اور موجودہ صدر (9) نے امریکہ کی ساکھ تباہ کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیا ہے! اور وہ تباہ کر رہے ہیں؛ وہ ایک طرح سے، یہ ایک طرح سے؛ کیا انہوں نے اس کا حساب لگایا تھا؟ کیا انہوں نے اس بارے میں کبھی سوچا تھا؟ وہ دن بدن خود کو کمزور کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لیے یہ جاننا بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ اگر آپ میدان میں موجود ہیں، زندہ ہیں، متحرک ہیں اور امید کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں تو فتح اور ترقی یقینی طور پر آپ کے ہمراہ ہوگی۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس دن ان نوجوانوں کا یہ اقدام احساسات اور جذبات پر مبنی تھا۔ ایسا نہیں تھا۔ ہاں، جذبات ان چیزوں میں ضرور شامل رہتے ہیں، لیکن اس کی ایک بنیاد تھی، اس میں گہرائی تھی،  ہدایت شدہ تھے۔ اب اس حوالے سے میری بہت سی یادیں ہیں لیکن اس گہرائی کی علامت یہ ہے کہ یہ تحریک فضائیہ میں جاری رہی۔ اگر یہ ایک یکدم ابھرنے والی تحریک ہوتی تو یہ جاری نہیں رہتی۔ فضائیہ میں یہ تحریک جاری رہی۔ انقلاب کی فتح کے آغاز میں ہی افواج کے اس خود کفیل جہادی یونٹ کی تحریک فضائیہ میں وجود میں آگئی تھی، [جبکہ] اسوقت پوری فوج میں یا ملک میں کہیں بھی کوئی خود کفیل جہادی یونٹ ابھی تک موجود نہیں تھا۔ پاک فضائیہ کے پرہیزگار اور انقلابی بچوں اور جوانوں نے خود کفیل جہادی سیل بنایا اور روز اول سے ہی کام اور جدوجہد شروع کر دی اور آج تک بڑے بڑے کام ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائیہ کے جہادی دستوں نے فضائیہ میں ہی بڑے کارنامے انجام دیئے۔

1958 میں جو پہلا کام انجام پایا ان میں سے ایک تبریز بیس میں ہونے والی سازش کو بے اثر کرنا تھا۔ اس وقت تبریز بیس کا کمانڈر شہید فکوری تھے۔ تبریز بیس میں ایک سازش شروع کی گئی تھی، یہاں تک کہ ان فسادی لوگوں نے اس شہید کا ایک طرح سے محاصرہ کرلیا تھا، جیسے گرفتار کرلیا ہو۔ خود فضائیہ کے انقلابی جوان کہیں سے مدد مانگے بغیر گئے، انہیں متفرق کیا اور شہید فکوری کو لے کر تہران آگئے۔ یہ 1958 کے اوائل کے مسائل میں سے ایک ہے۔

ہمدان بیس کی بغاوت کے معاملے میں - شہید نوژہ بیس - وہ شخص جو اس بغاوت کو، اس کے پاس سب کچھ آمادہ تھا - اس بغاوت کی تمام تفصیلات امریکیوں کی مدد سے تیار کی گئی تھیں - ناکام بنانے کا باعث بنا، ایک نوجوان افسر تھا جس آکر اطلاع دی اور فوری طور پر متعلقہ حکام - سپاہ اور سیکورٹی کے جوان اور دیگر [جوان] - کام پر لگ گئے، انہوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا اور بغاوت کو شکست دی۔ فضائیہ کے جوانوں نے یہ کیا۔ ایک نوجوان افسر، ایک نوجوان پائلٹ نے آ کر اطلاع دی۔ یعنی فضائیہ کے ہی جوانوں، قوت نے خود یہ کام کیا۔ دوسرے معاملات میں بھی ایسا ہی ہے۔

دفاع مقدس کے آغاز میں، فضائیہ نے مقدس دفاع کے پہلے دنوں میں ہی سب سے شاندار کام کیا۔ یعنی فضائیہ کی طرف سے چند دنوں میں جو پروازیں کی گئی وہ منفرد تھی۔ اس وقت میں پارلیمنٹ کا ممبر تھا اور مسلح افواج میں امام خمینی رح کا نمائندہ تھا۔ میں نے پارلیمنٹ میں جا کر رپورٹ دی، اس رپورٹ کی اہمیت دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ تین چار دنوں میں فضائیہ کی طرف سے کئی سو پروازیں کی گئیں۔ دوسرے ادارے، دوسرے امور ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ کیا ہو رہا ہے اور انہیں کیا کرنا چاہیے؛ سب سے پہلے ایئر فورس فعال ہوئی۔

یہ امور اس پہلے اقدام کا ہی تسلسل ہیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں کہ یہ تحریک کوئی جذباتی تحریک نہیں تھی، کیونکہ یہ تحریک فضائیہ کے اندر جاری و ساری رہی۔ اس وقت یہی جذبہ اور بصیرت سبب بنی کہ فضائیہ اور پوری فوج میں نامور شہداء اپنے آپ کو ظاہر کرسکیں: شہید صیادشیرازی، شہید بابائی، شہید ستاری، شہید کلاہدوز اور ان جیسے اور ہزاروں دیگر شہداء - اب ان کے نمایاں افراد [یہ ہیں]؛ بہت سے لوگ ہیں جو ممتاز ہیں - فوج کے اندر بھی، طاغوت کے دور کے کچھ افسران بھی شہیدوں میں شامل ہیں؛ [جیسے] شہید فلاحی۔ طاغوت کے دور میں فلاحی فوج کے ایک بریگیڈیئر جنرل تھے، لیکن انقلاب کی صورتحال اور فوج کی صورتحال اور اس بڑی تبدیلی کی وجہ سے شہید فلاحی "شہید" ہو گئے۔ شہید فکوری بھی اس طرح ہیں؛ یہ انقلاب سے پہلے اعلیٰ افسران تھے۔ تو یہ بصیرت تھی. اس گروہ کے اس عظیم اقدام کی وجہ کیا ہے، وہ تاریخی بیعت، ایک گہرائی تھی، ایک بصیرت تھی کہ یہ قدم اٹھایا گیا۔

اب اس بصیرت کی وجہ کیا تھی؟ دوسروں میں یہ بصیرت کیوں نہیں تھی؟ اس کے لیے مختلف عوامل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن غالباً اس بصیرت کا ایک بڑا عنصر یہ تھا کہ فضائیہ کے بچوں نے امریکی مشیروں کی آمریت اور ان کے تسلط کا مشاہدہ کیا۔ فوج میں کہیں بھی امریکی افواج کا اس طرح کا غلبہ نہیں تھا۔ ہزاروں مشیر تھے۔ ایران میں تقریباً پچاس ہزار فوجی مشیر تھے۔ یہ فضائیہ میں گھسے ہوئے تھے۔ اب ان کا تسلط، کمانڈروں کی تذلیل، ایرانی افرادی قوت کو خاطر میں نہ لانا - وہ انھیں بالکل بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کے دربار کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ ان کو بالکل بھی شمار نہیں کرتے تھے - انہوں نے وسائل فروخت کئے، وہ تکنیکی عناصر کو ان وسائل کے بارے میں جاننے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے ٹیکنیکل افسران، ٹیکنیکل اعلی افسران اور نہ اس کام کے لیے مخصوص معاونین کو ان وسائل کے بارے میں جاننے کی اجازت نہیں دی، ان کو اسپیئر پارٹس ٹھیک کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ وہ اسپیئر پارٹ کو، جو کئی اجزا پر مشتمل تھا، کھولنے نہیں دیتے تھے۔ وہ جہاز میں سوار ہوتے، اسے امریکہ لے جاتے، اسے بدل دیتے، دوسرا لے آتے اور اسکے پیسے بھی لیتے۔ یعنی وہ ایرانیوں کی اس طرح تحقیر کرتے تھے۔ [انھوں] نے اس کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اب اخلاقی خرابیاں بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے جو عجیب و غریب حرکتیں تھیں وہ واقعی امریکیوں کے فوج میں رہنے کی ایک افسوسناک داستان ہے۔

ویسے ہمارے نوجوان شاید یہ نہیں جانتے کہ امریکہ اور برطانیہ نے ہماری فوج کو دوسری قوموں کو دبانے کے لیے کئی بار استعمال کیا۔ جیسے ویتنام۔ وہ ہمارے طیاروں کو ویتنام لے گئے تاکہ ویت نام کے جنگلوں میں حملہ آور امریکہ کے خلاف لڑنے والے ویت کانگ (10) پر بمباری کریں۔ اس طرح تھا۔ دوسری جگہیں بھی تھیں۔ یہاں تک کہ مجھے بتایا گیا - یقیناً میں اس بات کو قریب سے نہیں جانتا - کہ ایسی قابل اعتماد دستاویزات موجود ہیں کہ ایران کے فینٹم جہاز بھی صیہونی حکومت کے استعمال میں دئیے جاتے تھے؛ تو وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ شاید فلسطینیوں کو دبانے کے لیے، یا عرب مزاحمت کے اس دن کی حکومتوں، مصر اور شام کی حکومتوں اور ان جیسی دیگر حکومتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ یعنی وہ ادارے جو ایران اور اسلام سے تعلق رکھتے تھے ان کو مظلوم کو دبانے اور ظالم کی مدد کے لیے امریکہ اور امریکہ کے مقاصد کی خدمت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ جاننے کے لیے واقعی اہم مسائل ہیں۔ اب پہلوی حکومت کی خیانتیں ایک یا دو نہیں ہیں بلکہ یہ بھی اس حکومت کی خیانتوں کا ایک اہم مصداق ہے۔ یہ فوج کے ساتھ غداری اور قوم سے غداری دونوں تھی - کیونکہ انہوں نے قوم کے اساسے امریکہ کی خدمت کے لیے خرچ کیے - اور یہ دوسری مسلم اقوام کے خلاف بھی جرم تھا۔

میں جس موضوع پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں اور آپ اور جو لوگ اس گفتگو کو سن رہے ہیں ان کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ ہے "وضاحت اور تشریح کا جہاد" جسے میں نے کئی بار تکرار کیا ہے۔ (11) میں کہنا چاہتا ہوں کہ 19 بہمن کو جس دن یہ تاریخی تحریک امام خمینی رح کے حضور برپا ہوئی تھی، اس واقعہ کی جو تصویر شائع ہوئی ہے اگر وہ شائع نہ ہوتی، یعنی اگر یہ وضاحتی کام نہ کیا جاتا تو یہ واقعہ اس طرح باقی نہ رہتا اور نہ ہی اتنا موثر ثابت ہوتا۔ یہ بہت سے دوسرے واقعات کی طرح ایک معمولی واقعہ بن جاتا جو انجام پاتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے۔ اس واقعے کا دیرپا اور موثر عنصر وہی خلاقانہ تصویری فریم تھا جو شائع ہوا تھا۔ وضاحت اور تشریح یہ ہوتی ہے، فروغ دینا اور دکھانا یہ ہے۔ ایک محدود اور چھوٹے میڈیا اقدام کی بدولت - اس دن میڈیا کی سہولتیں آج کی طرح نہیں تھیں، بہت محدود تھیں - 19 بہمن کو فضائیہ کی بیعت جیسی تحریک تاریخ ساز، دیرپا، موثر، تبدیلی پیدا کرنے والی بن گئی۔ "صحیح تشریح"  کا مسئلہ اس طرح ہے؛ "واقعات کی صحیح ترجمانی" کا یہ مسئلہ جس پر میں زور دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج میڈیا کی اس وسعت کے ساتھ - جس کو اس دن کے مقابلے میں آج دیکھا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سینکڑوں گنا ہے، شاید اس دن کے مقابلے میں ہزاروں گنا۔ اس سائبر اسپیس اور ان سیٹلائٹس کے ساتھ اور یہ چیزیں جو آج موجود ہیں اور اس وقت موجود نہیں تھیں، معاملہ بدل گیا ہے - مسئلہ کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔

آج اسلامی جمہوریہ اور اسلام کی مخالفت کرنے والے میڈیا کی ایک واضح پالیسی حقائق کو مسخ کرنا ہے اور وہ اس میں مصروف ہیں۔ وہ مسلسل حقائق کو مسخ کرنے اور جھوٹ بولنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں خبریں ہر قسم کے جھوٹ کے ساتھ ملی ہوئی ہیں - پیشہ ورانہ جھوٹ، جھوٹ جس پر انہوں نے بیٹھ کر کام کیا ہے اور ان سے امید لگائی ہے - اور وہ طاغوت حکومت کے بدنما اور کرپٹ چہرے کو سنوارتے اور نکھارتے ہیں، اور وہ ہزاروں جرائم اور دھوکہ دہی کا ارتکاب انہوں نے کیا انھیں چھپاتے ہیں۔

طاغوت حکومت کا ساواک ادارہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں اسرائیلی اور امریکی خفیہ اداروں کی طرف سے ہر قسم کا تشدد کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ان میں سے کچھ کا وہاں تجربہ کیا - تجرباتی طور پر آزمانے کیلئے - اور ان میں سے بہت سی اذیتوں جن کا تجربہ انھوں نے وہاں کیا ہے کہ جن لوگوں نے ان اذیتوں کو برداشت کیا ان میں سے بہت سے اب زندہ ہیں اور ان اذیتوں کے اثرات اب بھی ان کے جسموں پر موجود ہیں، اور وہ ابھی بھی تکلیف میں ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مجرم ساواک کے اس مکروہ اور بدصورت چہرے کو سجانا اور سنوارنا چاہتے ہیں اور اسے مختلف انداز میں دکھانا چاہتے ہیں! یعنی اس دن ساواک کا افسر جو شاید ملک کی سب سے زیادہ بدنام زمانہ شخصیت تھی، یادداشتیں لکھتا ہے اور باتیں کرتا ہے گویا ساواک - [جو کہ] اذیت اور جبر کا مرکز تھی- ایک روشن اور صاف چہرہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف، انقلاب کے بارے میں، وہ جتنا بھی کر سکتے ہیں، وہ انقلاب کے چہرے، امام خمینی رح کے چہرے، ان چالیس سالوں کی سرگرمیوں کو مسخ کر دیتے ہیں۔ وہ اسے جس حد تک بگاڑ سکتے ہیں اسے بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو مغربی میڈیا کے اس مجموعے میں ترقی، مثبت نکات، یا مضبوط نکات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ حقائق کو چھپانا دوسری طرف، اگر کوئی کمزور نقطہ ہے - جو یقیناً موجود ہے؛ کوئی ملک اور کوئی نظام کمزور نکتے کے بغیر نہیں ہے - ایک چھوٹے سے کمزور نقطہ کو سو بار بڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب کام ہے جو آج انجام پا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "وضاحت و تشریحی جہاد" فریضہ ہے۔ "وضاحت و تشریح کا جہاد" ایک یقینی فریضہ اور فوری یفرہہض ہے، اور جو بھی کر سکتا ہے اسے [انجام دینا چاہیے]؛ اور اب میں کہوں گا کہ اس میدان میں سرکاری حکام زیادہ ذمہ دار ہیں۔

خیر، مغربی طاقتیں آمریت کے نام سے جانی جاتی ہیں، یعنی جو لوگ اپنے تصور کے مطابق دنیا کی آمریتوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ خود سب سے زیادہ آمر ہیں۔ سیاسی میدان میں، معاشی میدان میں، وہ پوری دنیا پر اپنی آمریت چلاتے ہیں۔ [آج] انہوں نے ان آمریتوں میں ایک عنصر کا اضافہ کیا ہے، اور وہ ہے میڈیا آمریت؛ میڈیا کی آمریت۔ یعنی مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ سائبر سپیس میں شہید سلیمانی کا نام نہیں لے سکتے، وہ اسے حذف کر دیں گے۔ سائبر اسپیس میں جہاں چابی ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے کنٹرول میں ہے، وہ شہید سلیمانی کا نام برداشت نہیں کرتے، ان کی تصویر برداشت نہیں کرتے۔ آج ایسا ہی ہے۔ یقیناً اس سے پہلے بھی یہ آمریتیں تھیں۔ مرحوم حاج احمد آقا (رضوان اللہ علیہ) ہمیں بتایا کرتے تھے کہ امام خمینی رح نے ایک مفصل پیغام دیا تھا - میرے خیال میں یہ حج کا پیغام تھا۔ حاج احمد آقا نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ امریکہ میں جہاں وہ کہتے ہیں کہ آزادی اظہار ہے وہاں ہمیں امام خمینی رح کا یہ پیغام پریس میں پھیلانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وہاں موجود اپنے دوستوں کو پیغام بھیجا، میں نے کہا کہ جو بھی رقم درکار ہو گی، میں اس کے بدلے میں دے دوں گا - جیسا کہ وہ اشتہار چھاپنے کے لیے پیسے لیتے ہیں - انھوں نے بتایا کہ کوئی بھی مجلہ یہ چھاپنے کو تیار نہیں تھا۔ آزادی اظہار  کے [دعوے کے باوجود] ، حق کا اظہار! اس کے باوجود انہوں نے امام کے پیغام کو شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ جاسوسی کے اڈے کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف، جنہوں نے جاسوسی کے اڈے کی تفصیلات لکھی ہیں اور وہاں کے عناصر میں سے ایک تھے، نے کہا کہ ہم نے امریکہ کے ہر پبلشر سے رابطہ کیا جہ اسے چھاپے، کسی نے بھی قبول نہیں کیا، کسی پبلشر نے قبول نہیں کیا۔ آخرکار ہم کینیڈا گئے اور وہاں ایک پبلشر ملا، اس نے قبول کر لیا، لیکن بعد میں اسے مجبور کیا گیا۔ مسلسل فون کپر فون، دھمکیاں اور ایسی چیزیں۔ میڈیا آمریت کا مطلب یہ ہے؛ پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آزادی اظہار کے حامی ہیں! آج مغرب کی پالیسیوں سے متعلق کوئی بھی چیز اور ہر وہ لفظ جو اس کے خلاف ہو یا اس کے مطابق نہ ہو، اس کے متعلق تصویر یا مواد شائع کرنا ممنوع ہے۔ اس وقت وہ اسی میڈیا میں اسلامی جمہوریہ یا اسلام کے بارے میں، اسلامی تصورات، اسلامی تعلیمات کے معانی کو تحریف اور مسخ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کو مخدوش کرنے اور انہیں حتی الامکان مسخ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خیر، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، اور یہ سب کے کندھوں پر ایک فریضہ لاتی ہے.

میں نے کہا کہ میڈیا کے متعلقہ حکام بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں۔ چاہے وہ قومی میڈیا ہو یا دیگر مختلف ذرائع ابلاغ، چاہے وہ سائبر اسپیس ہو، چاہے وہ کوئی پریس گروپ ہو، ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں اس کارزار میں داخل ہو اور جس کے پاس بھی رائے عامہ سے مخاطب ہونے کا مرکز اور منبر ہے اس میدان میں ذمہ دار ہے۔ ملک میں ہزاروں عظیم واقعات رونما ہوتے ہیں؛ ان سالوں کے دوران، ان چار دہائیوں کے دوران، ملک میں کتنے بڑے کام ہوئے، کتنے غیر معمولی کام کیے گئے! انھیں بیان کیا جانا چاہئے! دشمن ان چیزوں کو چھپاتا ہے، دشمن ان کو نشر کرنے نہیں دیتا۔ سماجی میدانوں میں، معاشی میدانوں میں، تعمیراتی میدانوں میں، تعلیمی میدانوں میں، صحت اور علاج کے میدانوں میں، صنعت میں، پیداواری شعبے میں! اس دن صنعتی کارکنوں کا ایک گروہ یہاں موجود تھا،(12) انھوں نے کارکردگی رپورٹ پیش کی - ان میں سے بعض نے - ان کی رپورٹ کے ہمراہ ان سرگرمیوں کی تصاویر بھی اس حسینیہ میں دکھائی گئیں۔ یہ حیران کن کام تھے؛ واقعی حیرت انگیز؛ ملکی میڈیا میں اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ سب کام ہو رہا ہے، یہ سب اہم کام، مفید کام، یہ سب غیر معمولی ہے۔ سول شعبوں میں، مذہبی اور ثقافتی میدانوں میں، دفاعی اور قومی سلامتی کے شعبوں میں، دفاعی اور وومن  سلامتی کے شعبوں میں!

اب آپ خود فضائیہ کے مسائل اور پیشرفت سے واقف ہیں، آپ نے کتنی چیزیں تیار کی ہیں، آپ نے کتنا ساز و سامان بنایا ہے، ان میں سے کون سا کام معاشرے میں منعکس ہوا ہے؟ ہمارے کام میں یہ نقص ہے۔ واقعی اس جہت میں کام میں کمی ہے۔ اور جو میں نے ابھی کہا - سماجی شعبے، اقتصادی سرگرمیوں کے شعبے، سفارتی اور سیاسی سرگرمیاں، شہری سرگرمیاں؛ ملک میں یہ تمام تعمیراتی کام - ان میں سے ہر ایک عنوان وضاحتی جہاد کی سرگرمی کا عنوان ہو سکتا ہے۔ اور یہ اجازت نہ دی جائے کہ کچھ مسائل - خیر، ملک کے مسائل ہیں؛ معاشی مسائل ہیں، معاش کے مسائل ہیں- ان غیر معمولی اقدامات پر مٹی ڈال سکیں اور لوگوں کی نظروں سے چھپا سکیں۔ یہ مسائل اپنی جگہ مخصوص ہیں، اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن ان اہم کاموں اور اہم پیش رفتوں، اہم تعمیرات، مختلف شعبوں میں قابل قدر سرگرمیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

میری آخری بات یہ ہیں کہ ہمارے دشمن، دشمن محاذ - کیونکہ دشمن ایک محاذ ہے؛ یہ ایک بہت بڑا محاذ ہے - نے آج ایک مرکب جنگ کا آغاز کیا ہے۔ دشمن کا حملہ مرکب حملہ ہے۔ یعنی اس کا ایک اقتصادی پہلو ہے، اس کا ایک سیاسی پہلو ہے، اس کا ایک سیکورٹی پہلو ہے، اس کا ایک میڈیا پہلو ہے، اس کا ایک سفارتی پہلو ہے- ہر طرف سے ایک مرکب جنگ کا آغاز کیا ہے- اس کے جواب میں ہمارے اقدامات بھی مرکب اقدامات ہونے چاہیے؛ ہمیں ہر طرف سے کوشش کرنی چاہیے۔ بے شک، ہمیں دفاع کرنا ہے، لیکن ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہیں رہ سکتے؛ یہ ذہن نشین کرنا چاہئے. میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں دفاع کرنا چاہیے، ٹھیک ہے، دفاع ایک ضروری کام ہے، لیکن دفاعی پوزیشن میں رہنا ہمیشہ ممکن نہیں ہے۔ دشمن حملہ کرتا ہے، ہمیں بھی حملہ کرنا چاہیے۔ مختلف شعبوں میں؛ میڈیا کے شعبوں میں، اقتصادی شعبوں میں، اور سیکورٹی کے شعبوں میں۔ ان شعبوں میں دانشور ذمہ دار ہیں۔ اہل فکر، اہل دانش اور اہل عمل بالخصوص عہدیداروں کو چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک میدان میں کوشش کریں اور انشاء اللہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اسلامی جمہوریہ دشمن کی خواہشات اور اس کے مفروضوں کے برعکس مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔اور خدا کا شکر ہے کہ یہ دن بدن مضبوط اور مستحکم ہوا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح یہ تحریک جاری رہے گی۔ میرے خیال میں انشاء اللہ ہم ماضی کے مقابلے بہتر انداز میں آگے بڑھیں گے اور دشمن ناکام ہو جائیں گے۔ تاہم ہم میں سے ہر ایک کو ہر حصے میں اپنا فریضہ جاننا چاہیے۔

آپ کو فضائیہ میں بہت کام کرنا ہے، آپ کے پاس بہت اہم کام ہیں جو انجام دئیے جانے چاہیے۔ انتظامی شعبے میں بھی، تربیتی میدان میں بھی، اور آپریشنل میدان میں بھی؛ مختلف شعبوں میں بہت سے کام ہیں جو آپ کو کرنے چاہیے، انشاء اللہ۔ میں نے کچھ باتیں معزز کمانڈر کو بتائی ہیں اور ان کے سامنے رکھی ہیں اور انشاء اللہ آپ ان پر عمل کریں گے اور مستقبل کا ملک آج سے کئی گنا بہتر ہو گا۔ انشاء اللہ

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1)    اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر بریگيڈیر حمید واحدی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2)    صحیفۂ امام، جلد 6، صفحہ 101، شاہی فضائیہ کے اسٹاف کے درمیان تقریر، 8/2/1979

(3)    تبریز کے عوام کے قیام کی سالگرہ کی مناسبت سے مشرقی آذربائيجان کے عوام سے خطاب، 18/2/2019

(4)    سورۂ حشر، آيت 2، اور خدا نے انھیں ایسی جگہ سے آ لیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے۔

(5)    جنرل ہائزر، امریکی فضائيہ کا کمانڈر تھا جو چار جنوری سن انیس سو اناسی کو اسلامی انقلاب کو روکنے کے لیے بغاوت اور شاہی فوج کی قیادت کرنے ایران آیا تھا اور ایک ماہ بعد بغاوت کی سازش کی ناکامی کے بعد ایران سے فرار ہو گيا۔

(6)    سورۂ طارق، آیات 15 اور 16

(7)    سورۂ طور، آیت 42

(8)    ڈونلڈ ٹرمپ

(9)    جو بائيڈن

(10)  جنوبی ویتنام اور کمبوڈیا کی مسلح انقلابی و سیاسی تنظیم National Liberation Front of South Vietnam

(11)  مداحان اہلبیت سے ملاقات میں تقریر، 23/1/2022

(12) ملک کے بعض مینوفیکچررز اور صنعت کاروں سے ملاقات میں تقریر،