ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

ذاکروں، شعراء اور مداحان اہلبیت سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم. 
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین

خوش آمدید، عزیز برادران، خواہران؛ دو سال کے بعد ہم آپ کی دوبارہ اس حسینیہ میں زیارت کررہے ہیں۔ ہماری بہترین ملاقاتوں میں سے ایک اور سب سے پیاری یادیں اور ملاقاتیں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی مناسبت سے منعقد ہونے والی نشست ہے جو ہم آپ کے ساتھ ہر سال منعقد کرتے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میٹنگ 35 سال سے منعقد ہو رہی ہے۔ ولادت باسعادت سیدہ النسا العالمین، صدیقہ طاہرہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ہمارے عظیم امام خمینی رح کی ولادت بھی مبارک ہو۔

میں اظہارِ عقیدت کے طور پر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں چند جملے کہوں گا اور پھر مدح و ثنا اوع انجمن کے اہم مسئلہ کے بارے میں چند جملے کہوں گا۔ یقیناً یہ یوم ولادت، یوم خواتین بھی ہے، یوم مادر بھی ہے۔ محترم خواتین ہمارے بارے میں شکایت کرتی ہیں کہ ہمیں یہ دن خواتین کے لیے وقف کرنا چاہیے تھا۔ وہ ٹھیک کہتی ہیں لیکن یہ نشست قدیمی اور موثر ملاقات ہے اور اسے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمیں خواتین سے ملاقات ایک دن بھی مقرر کرنا چاہیے، انشاء اللہ۔

زہراء اطہر، صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کے بارے میں ہماری زبان بہت الکن اور ناقص ہے۔ قرآن اور صحیح احادیث اس عظیم ہستی کے بارے میں گویا ہیں، اور ان کی مدح کرتی نظر آتی ہیں، جو ہمارے ذہن اور ہماری کوتاہ فکر کے لیے، ان تعریفوں کو سمجھنا دقت نظر اور غور و فکر بغیر ممکن نہیں۔ یہ روایت جو امام خمینی رح نے نقل کی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت زہرا پر نازل ہوتے تھے، صحیح روایت ہے۔ ہم نے اس روایت کی سند کو دیکھا۔ سند صحیح اور انتہائی معتبر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتا تھا ۔ عبارت یہ ہے: وَ کانَ یَأتیها جَبرَئیلُ علیه السّلام فَیُحسِنُ عَزاءَها عَلَی اَبیها۔ ہماری آج کی زبان میں وہ باقاعدگی سے حضرت زہرا س سے پیغمبر اسلام ص کی وفات پر تعزیت کے لیے آتا تھا۔ وَ یُطَیِّبُ نَفسَها۔ وہ ان معظمہ سے اظہار ہمدردی کرتا تھا ۔ وَ یُخبِرُها عَن اَبیها وَ مَکانِه آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احوال بتاتا تھا، کس حال میں ہیں؟ عالم برزخ میں، حی اور ودود کی بارگاہ میں، وہ پیغمبر اسلام ص کا اعلی درجات انھیں دکھاتا اور انہیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے مجسم کرتا۔ وَ یُخبِرُهَا بِما یَکونُ بَعدَها فِی ذُرِّیَّتِها۔ وہ حضرت کے بچوں کے واقعات جو آیندہ پیش آئینگے- امام حسن ع کے واقعات، کربلا کا واقعہ، آئمہ معصومین علیہم السلام کے واقعات اور حضرت ولی عصر (ارواحنا فداه) کا واقعہ بھی آپ حضرت س سے نقل کرتا۔ وَ کَانَ عَلیٌّ علیه ‌السّلام یَکتُبُ ذَلِک؛(۲) اور امیر المومنین ع اسے بیٹھ کر لکھتے۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔

قرآن کے مطابق، جبرائیل پوری تاریخ میں فقط ایک بار نبی کے علاوہ کسی پر نازل ہوا ہے: اَرسَلنا اِلَیها روحَنا ‌فَتَمَثَّلَ‌ لَها بَشَراً سَوِیّا؛(۳) اگر جناب مریم کے واقعے میں روح سے مراد جبرائیل ہو تو، حالانکہ اس پر بھی اختلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے [صرف] ایک بار پیغمبر کے علاوہ [کسی] پر جبرائیل کو نازل کیا؛ باقی فرشتے نازل ہوچکے ہیں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ متعدد فرشتے آئے ہیں۔ [لیکن] جبرائیل صرف ایک بار۔ لیکن حضرت زہرا کے لیے: وَ کانَ یَأتیها جَبرَئیل۔ یہ ایک یا دو بار کی بات نہیں، [بلکہ] جبرائیل باقاعدگی سے آتے تھے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آنے کا شرف حاصل کرتا تھا۔

[آپ کی مدح و ثناء] قرآن میں سورہ "ھل اتی" میں ہے، آیت تطہیر میں ہے، مباہلہ کی آیت میں ہے۔ یہ وہ آیات ہیں جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں تقریباً واضح ہیں، لیکن اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جو اس ہستی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ سورہ "ہل اتی" میں خدا تعالیٰ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور ان کے اہل خانہ کے کام سے متعلق بیان کرتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جسے قرآن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے پر لہراتا ہے: اِنَّما نُطعِمُکُم لِوَجهِ اللَّهِ لا نُرِیدُ مِنکُم جَزاءً وَ لا شُکورا (4) خدا کے لیے کام، خلوص، مخلصانہ خدمت؛ کس کی؟ یتیموں، مسکینوں اور قیدیوں کو؛ کیا یہ قیدی، مسلمان قیدی ہے؟ اس بات کا امکان قطعا نہیں ہے کہ وہ کوئی مسلمان اسیر تھا۔ بے لوث خدمت؛ یہ سبق ہے، فاطمہ زہرا کا علم یہ ہے؛ یعنی قرآن اس کی اہمیت بیان کرتا ہے۔ یا مباہلہ کی آیت میں ہے: وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُم (5) جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بہت سی خواتین تھیں - نبی ص کی ازواج تھیں، نبی ص کے دیگر رشتہ دار تھے، ہو سکتا ہے کہ اس وقت نبی کی کچھ اور بیٹیاں [بھی] ہوں۔ لیکن "نِساءنا" صرف فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ کس لیے؟ حق کے محاذ کے باطل کے محاذ سے مقابلے کیلئے۔ ایسا ہی ہے. فاطمہ زہرا س ان عظیم اور غیر معمولی حقیقتوں کی تصویر ہیں۔ یہ حضرت زہرا کے فضائل ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زہرا کو "سَیِّدَةُ نِسَاءِ العالَمین" (6) اور "سَیِّدَةُ نِساءِ اَهلِ الجَنَّة" سے تعبیر کیا ہے؛ (7) جو زیادہ اہم ہے: سَیِّدَةُ نِساءِ اَهلِ الجَنَّة۔ تمام جنتی خواتین: جناب سارہ، جناب آسیہ، جناب حوا، جناب مریم، یہ تمام تاریخ کی عظیم خواتین "نِساءِ اَهلِ الجَنَّة" ہیں۔ جنتی خواتین؛ یہ محترم ہستی "سَیِّدَةُ نِساءِ اَهلِ الجَنَّة" ہیں۔ یہ اس طرح ہے۔ انسان کی زبان کیسے گویا ہوسکتی ہے کہ وہ ان باتوں کو بیان کرے اور انکا حق ادا کرے! عام طور پر، ہمارے ذہن کو ان حقائق کو سمجھنے کے لیے بہت غور و فکر اور دقت نظر کی ضرورت ہے۔

خیر، یہاں اس بات کے ضمن میں سب سے نمایاں خصوصیات معلوم ہوگئی؛ اس آیت شریفہ میں پاکیزگی اور آیت تطہیر کی بحث ہے جو ان باتوں سے بالاتر مسئلہ ہے۔ آیت "ہل اتی" میں مخلصانہ خدمت کی بات ہے۔ مباہلہ کی آیت میں مسئلہ حق کے محاذ اور کفر و باطل کے محاذ کے درمیان معرکہ کا ہے۔ یہ ہیں؛ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اہم فضائل ہیں۔

اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے، خدا کے لطف سے، انقلاب کے بعد، انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں فاطمہ زہرا س کا اسم مبارک دس بار نہیں، شاید دسیوں بار، سو بار تکرار کیا جاتا ہے  اور لیا جاتا ہے۔ یعنی معاشرہ فاطمی معاشرہ ہے۔ اس کا اثر بھی ہم معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو اسی قسم کی بے لوث خدمت، وہی بسیجی تحریک، وہی بے لوث اور مخلصانہ کام جو مقدس دفاع کے دور میں ایک طرح سے نظر آتا ہے، علمی تحریک کے دور میں دوسری طرح سے: کسی نے شہید فخری زادہ، (8) ایٹمی شہداء، عظیم سائنسدان مرحوم کاظمی اشتیانی (9) کا نام نہیں سنا تھا۔ بہت سے لوگ ابھی تک نہیں جانتے کہ کاظمی کون ہے۔ علم کی وادی میں داخل ہونے والے یہ عظیم لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس ملک میں علم و سائنس کے عظیم میدانوں کو اس قوم کے لیے اور اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے لیے بغیر کسی معاوضے کے اور احسان جتائے فتح کیا۔

پھر آپ دیکھیں گے کہ سیلاب اور زلزلے جیسے قدرتی سانحات میں لوگ کس طرح جوش و خروش سے آگے آتے ہیں۔ ایسی چیزیں کہاں ہیں؟ یہ وہی فاطمی طرز عمل ہے۔ یہ سیدہ نساء العالمین کی کی انگلی کے اشارے کی سمت حرکت ہے۔ لا نُریدُ مِنکُم جَزآءً وَ لا شُکورا۔ یہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اشارہ ہے۔ اور ان پچھلے دو سالوں میں کروما کے دوران کسی کا نام آئے بغیر کیا کیا خدمات انجام دی گئیں اور بڑے بڑے کام کیے گئے۔ یہ جہادی تحریکیں، یہ جہادی خدمت کے سفر جو سال بھر چلتے رہتے ہیں اور نوجوان اپنا کوئی نام و نشان چھوڑے بغیر ان میں چلے جاتے ہیں، یہ بغیر معاوضے اور بے لوث جذبے سے جاتے ہیں، یہ طرزعمل جاری رہنا چاہیے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سخصیت کو ہماری عظیم سماجی، انقلابی اور عسکری تحریک سمیت ہر تحریک میں نمونہ عمل ہونا چاہیے۔

انجمن اور نوحہ خوانی کے بارے میں؛ اس میدان میں بہت باتیں ہے، میں نے مختلف سالوں میں اپنے محترم نوحہ خوانوں سے اس متعلق بہت سی باتیں بھی کیں۔ اب، خوش قسمتی سے، جب میں آ رہا تھا، میں نے یہاں ان کتابوں میں جو آپ نے شائع کی ہیں دیکھا کہ انجمن کے بارے میں کچھ کتابچے بھی ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے، میں نے انجمن کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں دیکھی تھی۔ حسینی انجمن کے بارے میں بہت بات ہے۔ آج اسی تناظر میں ایک مختصر جملہ کہوں گا۔

ماتمی انجمن ایک سماجی اکائی ہے، ایک سماجی گروہ جو اہل بیت کی محبت کے محور پر تشکیل پاتا ہے۔ اس چھوٹے یا بڑے اجتماع کا محور اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور اہل بیت کے اہداف کی طرف ہدایت ہے۔ انجمن کی حقیقت یہ ہے، انجمن کی اصل یہی ہے۔ اس حقیقت کی بنیاد خود آئمہ کے زمانے میں موجود ہے۔ ہم آج اور کل کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ماتمی انجمن کو آئمہ کے اصحاب نے بنایا اور انہوں نے ہی شروع کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد وہ اکٹھے ہوتے۔ امام صادق علیہ السلام نے راوی سے پوچھا: تَجلِسونَ وَ تُحَدِّثون؟(10) کیا تم اکٹھے بیٹھتے ہو، باتیں کرتے ہو؟ یعنی کیا تم ہمارے امور پر بات چیت کرتے ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ہاں، ہم یہ کرتے ہیں۔ یعنی یہی انجمن کی ایکائی۔ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: اِنَّ تِلکَ المَجالِسَ‌ اُحِبُّها؛ میں ان مجالس کو دوست رکھتا ہوں۔ (ہم) اس دل پر قربان (جائیں)! [امام فرماتے ہیں) مجھے تمہاری یہ محفلیں پسند ہیں اِنَّ تِلکَ المَجالِسَ‌ اُحِبُّها و اَحیوا اَمرَنا؛  (11) ہمارے امر کو زندہ رکھو۔ "اَمرَنا" کا لفظ اکثر ائمہ کے الفاظ میں دہرایا جاتا ہے۔ یعنی ہمارا مسئلہ یعنی وہ بنیادی اور مرکزی محور جس پر ہم حرکت کرتے ہیں وہ امر کہلاتا ہے، اب اگر ہم اسے آج کی زبان میں بیان کرنا چاہیں، مثال کے طور پر، اگرچہ اس حقیقی معنی کی گہرائی کم ہو جائے گی، مثال کے طور پر، ہم کہتے ہیں ہمارا راستہ، ہمارا مکتب؛ "اَحیوا اَمرَنا" کا مطلب ہے ہمارے راستے کو زندہ رکھیں، ہمارے مکتب کو زندہ رکھیں۔ ایک اور روایت میں جو کافی میں بھی ہے فرماتے ہیں کہ "تَزَاوَروا وَ تَلَاقَوا وَ تَذاکَروا اَمرَنا وَ اَحیُوه‌"۔ (12) یہ بھی اسی طرح ہے۔ یہ اس امر کا احیاء ہے۔

لہٰذا ماتمی انجمنوں کی تاریخ اور اصل اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہے، اور شیعہ مذہب کی تاریخ میں یہ سلسلہ پوری تاریخ میں جاری رہا ہے، اس نے مختلف صورتیں اختیار کی ہوں گی، جن کو اب اگر جو لوگ اہل تحقیق ہیں، مزید تفصیلات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔  - یہاں تک کہ یہ سلسلہ ہمارے زمانے تک پہنچا اور کچھ مقامات پر، اس نے بڑی تاثیر دکھائی ہے۔ جیسے انقلاب کے دوران۔ آپ نوجوانوں کو یاد نہیں۔ انقلاب کے دوران انجمنیں بہت موثر تھیں۔ [جیسے] یہ بہترین اور زبردست نوحے جو پورے ملک میں نشر کئے جاتے تھے۔ فرض کریں کہ کسی نوحہ خواں نے جہرم یا یزد میں نوحہ کوئی پڑھا ہو تو یہ نوحہ ہلچل مچا دیتا تھا۔ امام حسین کا نوحہ [تھا] لیکن سب کچھ انقلاب، امام خمینی رح کے بارے میں تھا۔ یہ کام لوگوں کو، انقلاب کو متحرک کرتے تھے، انقلاب کو زندگی بخشتے تھے۔ یہ کام انجمنوں نے ہی کیا۔ یہ انقلاب کے دوران تھا۔ بعد میں، جنگ کے دوران، آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یاد ہے؛ انجمنیں دفاع مقدس کے دوران کیا کرتی تھیں؟ یہ شہداء کے جنازے جو آتے تھے یا نوجوان جو محاذ کی طرف جانا چاہتے تھے، ماتمی انجمنیں اسکا اصل اور حقیقی محور تھیں، آج اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سی انجمنیں موجود ہیں۔ یہ انجمن کی اصل ہے۔

انجمن کے بارے میں ایک اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امام ع جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ان دو روایتوں میں فرماتے ہیں: اَحیوا اَمرَنا؛ ہمارے امر کو زندہ رکھیں یا ہمارے مکتب کو زندہ کریں۔ آج آپ کے لیے جو شیعہ ماحول میں رہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ کے ماحول میں، ایک مسلم اور شیعہ ملک میں رہتے ہیں، شاید یہ بات زیادہ سمجھ میں نہ آئے کہ جب امام صادق "احیوا امرنا" کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے۔ اس دور میں جب امام صادق نے فرمایا: اَحیوا اَمرَنا، احیائے امر اہل بیت ایک مشکل ترین اور خطرناک ترین کام تھا۔ یہ ایک بہت بڑا جہاد تھا۔ اب، اس وقت جب ہم اس میدان میں بحث کر رہے تھے، ہم اس حوالے سے کام کر رہے تھے - وہ ابحاث بظاہر چالیس یا پچاس سال پہلے شائع ہوئی تھیں اور لوگوں کے اختیار میں ہیں - [ہم نے وضاحت کی ہے۔] ائمہ کی زندگی اور ائمہ کے اصحاب کی زندگی اور ان کی جدوجہد خطرناک ترین تھی۔ یہ کیوں ہے کہ تمام ائمہ شہید ہو گئے؟ امام جواد علیہ السلام کی شہادت 25 سال کی عمر میں اور امام عسکری علیہ السلام کی 28 سال کی عمر میں شہادت کیوں ہوئی؟ وہ انہیں کیوں مارتے ہیں؟ وہ موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کو کئی سال قید میں کیوں ڈالتے ہیں اور انہیں زندان میں کیوں شہید کرتے ہیں؟ زندگی جدوجہد کی زندگی تھی۔ ایسی صورتحال میں امام فرماتے ہیں: احیوا امرنا؛ آپ جو ان انجمنوں کی مجالس و محافل میں بیٹھتے ہیں، ہمارے مقصد کو زندہ کریں۔ یعنی امام ع ان سے عظیم ترین جدوجہد، سب سے زیادہ خطرناک جدوجہد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تو جناب انجمن کس چیز کا مقام ہے؟ جہاد کا مقام، انجمن جہاد کا مرکز ہے۔ انجمن جہاد کا مرکز ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد، مکتب اہل بیت، مکتب امام حسین علیہ السلام، مکتب شہادت کو زندہ کرنے کے راستے میں جہاد۔ تو ائمہ علیہم السلام نے کس قسم کا جہاد کیا؟ ائمہ ع نے عسکری جہاد نہیں کیا۔ سوائے چند کے - صرف حضرت امیر المومنین ع، امام حسن مجتبیٰ ع اور حضرت امام حسین ع نے تلوار سے جنگ کی - باقی ائمہ جو تلوار سے نہیں لڑے؛ ان کا جہاد کیا تھا؟ "وضاحت و تشریح کا جہاد"۔ جیسا کہ میں بار بار دہراتا ہوں (13)، تشریحی یا وضاحتی جہاد، - وضاحت کرنا، روشن کرنا۔ میرے خیال میں اس ’’احیوا امرنا‘‘ سے یہ بہت اہم نکتہ استخراج ہوتا ہے۔

انجمن کے بارے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انجمن ایک ایسا ڈھانچہ ہے جس میں معرفت اور مفہوم کے ساتھ ساتھ جدت اور تحرک بھی ہوتا ہے۔ یہ صرف فکر و روحانیت، درس و تدریس ہی نہیں، انجمن میں تحریک اور تحرک بھی ہے۔ معرفت اور مفہوم وہی مکتب ہے،‘ مکتب کی وضاحت۔ انجمن میں مکتب کی تشریح کی جاتی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ "کی جاتی ہے"، اس کا مطلب ہے کہ یہ ہونا چاہیے۔ انجمن کی نوعیت یہ ہے: انجمن تشریح کا مرکز ہے، یہ بیان کی جگہ ہے، یہ اسلامی تعلیمات اور علوی تعلیمات کے اہم ترین تعلیمات کے بیان کی جگہ ہے، یہ سوالات کے جوابات دینے کی جگہ ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں کے پاس مختلف سوالات ہیں۔ ان کے پاس طرز زندگی کے بارے میں سوالات ہیں، ان کے ذہن میں بنیادی مسائل کے بارے میں سوالات ہیں، سوال [بھی] بالکک مناسب ہیں۔ سوال کا سامنا کرنے کا طریقہ، سوچنا اور جواب دینا ہے۔ یہ انجمنوں میں کیا جانا چاہئے؛ اس کام کا اہم مرکز یہ انجمنیں ہیں۔ روز بروز اٹھنے والے بہت سے سوالوں کے جواب۔ سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن سوال کرنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی جہالت اور نادانی ہی سوال پیدا کرتی ہے اور اسے علم، معرفت اور حکمت میں بدلا جاسکتا ہے۔ جس کے پاس کوئی سوال ہے، یہ سوال اس بات کا باعث نہ بنے کہ وہ یہ سوچے کے سب کچھ الٹا ہے۔ نہیں، سوال ضرور اٹھانا چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں، اس کا جواب دیا جانا چاہیے اور اس کا جواب انجمنوں میں، علم و معرفت کے مراکز میں دیا جانا چاہیے۔ یہ انجمن اور معرفت و مفہوم۔

جدت اور تحریک کا مطلب فن سے استفادہ اور سامعین کے ساتھ دو با دو رابطے سے استفادہ کرنا ہے۔ آپ کے فن اور بہت سے دوسرے فنون میں فرق یہ ہے کہ آپ اپنے سامعین کا سامنا دو با دو انداز میں کرتے ہیں۔ آپ اس سے بات کرتے ہیں، وہ اپنے جذبات آپ تک پہنچاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل دو بدو رابطے میں ہیں؛ یہ انجمن کا متحرک ہونا ہے۔ ایک اور تحرک ان دستوں کا گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں چلنا جو نکلتے ہیں۔ ایک اہل ذوق برادر کے مطابق ماتمی دستوں کا یہ باہر آنا اور نکلنا، دراصل امام حسین کی مکہ سے کربلا تک کی تحریک کی نشانی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنا، راہِ خدا میں چلنا۔

انجمنوں کے بارے میں اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہم نے کہا وضاحت و تشریح کا جہاد۔ لہٰذا انجمن کی بقا جہاد سے ہے۔ جہاد کا کیا مطلب ہے؟ جہاد کا مطلب ہے دشمن کے مقابلے میں جدوجہد کرنا۔ ہر جدوجہد جہاد نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جدوجہد کرتے ہیں، وہ بے تحاشا علمی جدوجہد کرتے ہیں، وہ معاشی کوششیں کرتے ہیں، جو اچھی اور مناسب ہیں، لیکن یہ جہاد نہیں ہے۔ جہاد کا مطلب ہے وہ کوشش جس میں دشمن سے مقابلہ ہدف بنایا جائے۔ یہ جہاد ہے۔ اسلامی اصطلاحات اور اسلامی منطق میں، جہاد وہ [کام] ہے جو دشمن کے مقابلے پر کیا جاتا ہے۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی کام کریں تو یہ جہاد بن جاتا ہے۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے علمی کام اور تحقیق کریں، یہ جہاد بن جاتا ہے۔ بات کریں، وضاحت کریں، دشمن کے فتنے کو ناکام بنانے کے لیے، یہ جہاد ہے۔ یہ سب جہاد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم جہاد کے میدان کو پہچانیں کہ کس وقت میں کس میدان میں جہاد کیا جانا چاہیے؟ یہ بہت ضروری ہے۔

ہم غلطی نہ کریں! کبھی کبھی کچھ لوگ - میں نے بار بار ایک مثال دی ہے - جو کسی مورچے پر ہوتے ہیں، وہ سو جاتے ہیں، تھوڑی دیر بعد جب بیدار ہوتے ہیں، تو وہ یہ نہیں جانتے کہ دشمن کس طرف ہے، کس طرف دوست ہے، بندوق کو دوست کی طرف کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے؛ بعض میدان جہاد کو نہیں تشخیص دیتے۔ وہ نہیں جانتے کہ کس طرف بڑھنا ہے اور دشمن کس طرف ہے، کس طرف دیکھنا ہے اور کہاں حملہ کرنا ہے۔ یہ ضروری ہے۔ ایک دن، میدان ایک عسکری میدان ہے، جیسے مقدس دفاع کا دور، حرم کے دفاع کا دور؛ یہ ایک عسکری میدان ہے۔ اس دن بہت سے لوگوں نے اپنے فریضہ کو پہچان لیا اور چلے گئے اور جا کر اپنا فرض ادا کیا - یقیناً یہ واجب کفائی تھا۔ یہ کوئی واجب عینی نہیں تھا - البتہ یقیناً یہاں بھی انجمنوں نے پوری جانفشانی دکھائی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، اور ہمارے بہت سے مجاہدین اور ہمارے شہداء ان انجمنوں کے بچے تھے جو گئے اور شہید ہوئے۔ ایک دن علم کا میدان ہے اور جہاد ایک علمی جہاد ہے، علم میں ترقی حاصل کرنی چاہیے۔ ایک دن سماجی سرگرمیوں کا میدان ہے؛ ایک دن سماجی خدمت اور عوام کی خدمت کا میدان ہے۔ جس دن دشمن لوگوں کو اسلام کے خلاف، اسلامی نظام کے خلاف کرنے کے لیے معاشرے کو معاشی دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، اس دن اگر آپ لوگوں کو معاشی اور سماجی خدمات فراہم کرتے ہیں، آپ نے دشمن کے خلاف جہاد کیا ہے۔ لیکن ان سب سے زیادہ اہم وضاحت و تشریح کا میدان ہے۔ اگر وضاحت ہو تو یہ تمام مختلف میدان اپنے وقت اور مقام پر واضح ہو جائینگے اور اپنے متعلقہ افراد کو پالیں گے۔

میں یہ اطلاعات کی بنیاد پر کہ رہا ہوں کہ آج، بے شمار میڈیا ذرائع - آپ ان کو شمار نہیں کر سکتے، خاص طور پر سائبر اسپیس کی موجودہ صورتحال میں - ہزاروں ماہرین کے ساتھ: فن کے ماہرین، میڈیا کے ماہرین، مواصلاتی علوم کے ماہرین، بڑے پیمانے پر مالی حمایت کے ساتھ، بڑے پیمانے پر سیکورٹی سپورٹ کے ساتھ کام میں مشغول ہیں؛ کس لیے؟ اسلامی جمہوریہ میں نظریات کو بدلنے، ذوق کو بدلنے، عقائد اور افکار کو کمزور اور منحرف کرنے کے لیے؛ اس طرح ہے۔ اب دیگر لوگ دوسرے ممالک کے لیے کیا کر رہے ہیں، وہ الگ بحث ہے۔ یہ مطالب جو میں پیش کر رہا ہوں اس کا ہدف ہمارا ملک، ہماری عوام، ہمارا اسلامی جمہوریہ، ہمارے عقائد، ہمارے نظریات ہیں۔ اس شعبے میں ہزاروں ادارے بھاری رقوم اور مختلف معاونتوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک شیطانی تحریک ہے اور یہ شیطان کا محاذ ہے۔

شیطان کے اس محاذ کے مقبل کیا ہے؟ جہاد فی سبیل اللہ کا محاذ؛ اللہ کی راہ میں جہاد کا محاذ۔  آپ انجمن میں ہیں؛ اپنی انجمن سے پوچھیں کہ وہ اس جہاد میں کہاں ہے؟ ہمارا سوال یہ ہے۔ دوسرا نکتہ جو ہم نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اس جہاد میں جو موجود ہے، اس گھمسان کی جنگ میں جو اسلام اور کفر کے درمیان ہے، حق و باطل کے درمیان، جھوٹ اور سچ کے درمیان ہے- یہ ان کے درمیان جنگ ہے- ہم کہاں ہیں؟ ہم اس محاذ پر کہاں ہیں اور کدھر موجود ہیں؟ ہمیں خود اس کی نشاندہی کرنا ہوگی اور اپنے حواس کو جمع کرنا ہوگا۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یقینا، اس سے مراد نظریات کی وضاحت اور تشریح کرنا ہے۔ انقلاب کے نظریات، اصول، بنیادی افکار، مظاہر؛ یہ سب سے زیادہ مطلوب ہیں، لیکن روزمرہ کے سیاسی اور سماجی مسائل بھی اس محاذ کا حصہ ہیں اور ان کی پیروی کی جانی چاہیے۔

انجمنوں میں ایک اور نکتہ منبر کا عنصر، نوحہ خوانی کا عنصر، سامعین اور مخاطب کا عنصر ہے۔ یہ اہم عناصر ہیں۔ انجمن کے دو اہم اور مستحکم ستون منبر پر موجود مبلغ اور نوحہ خواں ہیں۔ اب منبر و خطیب کے حوالے سے ہمارے پاس کچھ باتیں ہیں جس کی جگہ یہاں نہیں ہے۔

منقبت و نوحہ خوانی کے حوالے سے، میں آپ عزیزان سے مربوط دو یا تین نکات بتانا چاہتا ہوں: ایک یہ کہ، جیسا کہ ہم نے کہا، منقبت و نوحہ خوانی ایک منفرد فن ہے۔ میرا مطلب ہے، ہمارے پاس دوسری جگہوں پر اس جیسا کوئی چیز نہیں ہے۔ دوسری جگہوں میں ابتہال اور اس طرح کی باتیں ہیں، لیکن یہ منقبت و نوحہ خوانی سے مختلف ہے؛ منقبت و نوحہ خوانی ایک اور فن اور ایک اور حقیقت ہے، اور ہم نے کہا کہ اس فن میں سامعین اور منقبت و نوحہ خواں کے درمیان رابطے کی نوعیت ایک خاص قسم کی نوعیت ہے۔ یہ دل کو پاکیزگی عطا کرتی ہے؛ یہ سامعین کے دل کو پاکیزگی عطا کرتی ہے اور اس کے دل کو نورانی کرتی ہے۔ یہ جو آنسو بہتے ہیں یہ آنسو دل سے باہر آتے ہیں۔ دل سے آنسو:
خاکِ دل آن روز که می‌بیختند
شبنمی از عشق در او ریختند

دل چو به آن قطره غم‌اندود شد
بود کبابی که نمک‌سود شد

دیده‌ی عاشق که دهد خونِ ناب
هست همان خون که چکد از کباب(۱۴)

یہ آنسو دل سے نکلتے ہیں، دل سے متعلق ہیں، دل کو پاکیزگی عطا کرتے ہیں۔ پھر یہ فن سامع کو تاریخ کی گہرائی تک لے جاتا ہے، سننے والے کو زمان حال میں برقرار نہیں رکھتا۔ منقبت و نوحہ خواں اس دل کو تاریخ کی گہرائیوں تک لے جاتا ہے، اس کے لیے تاریخی حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔ پھر وہ اسے مذہبی، اخلاقی اور سیاسی معرفت عطا کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کام منقبت و نوحہ خواں کرتا ہے۔ [لہذا منقبت و نوحہ خوانی] مذہبی معرفت، اخلاقی معرفت، اور سیاسی معرفت سمیت سب پر مشتمل ہے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ اشعار جو آپ خطاب سے پہلے پڑھتے ہیں، اگر وہ اخلاقی مضامین پر مشتمل ہیں تو بہت قیمتی ہین ۔ معرفتی بھی ہوں اور اخلاقی بھی، جیسے صائب کی کچھ غزلیں - سب نہیں - یہ قیمتی ہیں۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مذہبی شعراء کام کر رہے ہیں۔

میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ آپ اور مذہبی شاعر ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ، جو منقبت و نوحہ خواں ہیں اور مذہبی شاعری کی بلندی کا سبب بنتے ہیں۔ یعنی جب آپ شعر کو دہراتے اور پڑھتے ہیں تو آپ شاعر کو جوش میں لے آتے ہیں، آپ واقعی شاعر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے شعر کے معیار کو بلند کرے۔ اس لیے آپ شاعر کی مدد کرتے ہیں، شاعر بھی آپ کی مدد کرتا ہے۔ جب آپ منبر پر اچھے اشعار پڑھتے ہیں تو در اصل آپ اپنے معیار کو بلند کرتے ہیں۔

یہ اہم اقدام - تاریخ کی گہرائی میں لے جانا اور دلوں کو نورانی اور پاکیزہ کرنا - فن اور خلاقیت کا محتاج ہے۔ ہماری منقبت و نوحہ خوانی میں یہ خلاقیت آواز، طرز، روش سے ہے۔ اسے ان تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اچھی آواز کا حامل ہونا چاہیے، اس کی مناسب طرز اور لحن ہونی چاہیے اور پڑھنے کی روش، جو یقیناً کچھ کے پاس پڑھنے کی یہ روش ہے، کچھ کے پاس نہیں؛ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ذہن میں شروع سے ہی اس بات کی نشاندہی کریں کہ آپ اس نشست میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر منقبت و نوحہ خوانی کو تشکیل دیتے ہیں۔ یعنی اچھی آواز، اچھی طرز، پڑھنے کی اچھی روش؛ البتہ، ان عناصر کو مواد پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تمام عناصر مواد کے لیے وسیلے ہیں۔ ایسی روش اختیار نہ کریں کہ مواد ضائع ہو جائے! وہ رہنمائی، وہ محبت، وہ چیز جو دراصل انجمن کے اندر سے اور انجمن کے مرکز سے معاشرے کی سمت کی رہنمائی کرتی ہے، اسے کمزور اور ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی منقبت و نوحہ خوانی سے متعلق ایک نکتہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ منقبت و نوحہ خوانی میں بھی دوسرے کاموں کی طرح جدت اور اختراع ضروری ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ نوجوان اختراعات بھی کرتے ہیں۔ منقبت و نوحہ خوانی کے فن میں جدت اچھی ہے، جدت میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ جدت روایتوں کو توڑنے کا باعث نہ بنے۔ منقبت و نوحہ خوانی کی ایک خاص شناخت ہے۔ اس شناخت کو تبدیل نہ کریں۔ آپ کی یہ جدت آپ کی محفل یا مجلس کے نفاذ کو کسی ایسی چیز کی طرف نہ دھکیل دے جو منقبت و نوحہ خوانی نہ ہو۔ کبھی کبھی یوں بھی دیکھا جاتا ہے۔ اب، جتنی میری محدود معلومات کا تعلق ہے، بعض اوقات ایسے مصادیق ملتے ہیں جہاں یہ جدت ایسی نہیں ہوتی کہ اس نے مدحی کی شناخت کو محفوظ رکھا ہو۔ آپ کو اس شناخت کو محفوظ رکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ منقبت و نوحہ خوانی پاپ میوزک نہیں ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ منقبت و نوحہ خواں اہم معاملات میں بہترین طور سے سامنے آئے ہیں۔ مقدس دفاع میں، حرم کے دفاع میں، 88 کے فتنے میں اور مختلف معاملات میں بھی اسی طرح۔ منقبت و نوحہ خواں نے سارے امتحانات میں بہترین کارکردگی دکھائی اور واقعی حقیقی معنی میں، ان مجالس نے مجاہد پروری کی، ان مجالس میں شہداء پروری انجام پائی۔ ہمارے اور دشمنوں کے درمیان میڈیا کی جنگ میں، اس ثقافتی اور میڈیا جنگ میں جو اسلامی جمہوریہ اور دشمنوں کے درمیان موجود ہے، انقلابی منقبت و نوحہ خوانوں کی آواز موثر رہی۔ وہ عظیم کام کرنے کے قابل ہوئے۔ انقلاب کی 40 سالہ تاریخ میں منقبت و نوحہ خوانو کی کارکردگی کچھ اس طرح کی رہی ہے۔ میرا نقطہ یہ ہے - تیسرا یا چوتھا نکتہ یہ ہے کہ - اس موثر آواز کو خاموش نہ ہونے دیں۔  خاموش نہ ہونے دیں! آپ نے ماضی میں بہت اچھے امتحانات دیئے، آج ہم دشمن کے وسیع محاذ کا سامنا کر رہے ہیں۔ آپ کی موثر آواز نے اس دن بہت کام کیا، آج بھی اسے اپنا کام کرنا چاہیے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے عزیز منقبت و نوحہ خواں حضرات نوجوانوں کو ان مجالس کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اچھا خیال ہے؛ یعنی واقعی نوجوانوں کو ان مجالس میں جذب کرنا کچھ نوجوانوں کی زندگی بچانے اور محفوظ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور کچھ دیگر لوگوں کے لیے ایمان افزائی کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے منقبت و نوحہ خوانوں کے اذہان میں ان مجالس کا ایک مقصد نوجوانوں کو راغب کرنا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا کام ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ محتاط رہیں کہ نوجوانوں کو ہر قیمت پر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مثلاً منقبت میں یا نوحے میں نوجوان کو خوش کرنے کے لیے فلاں نامناسب طرز کا استعمال کریں۔ جذب ضروری ہے، فریضہ ہے، مفید ہے، لیکن صحیح سمت کو برقرار رکھ کر۔ ہوشیار رہیں کہ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی غرض سے منقبت و نوحہ خوانی کی شکل و صورت اور اسکی حقیقت اور شناخت ضائع نہ ہوجائے۔

آج ایک اچھی ملاقات تھی، ہم نے اس سے استفادہ کیا۔ میں ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہاں آکر پڑھا۔ میں خاص طور پر ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو مختلف شہروں سے آئے تھے - زاہدان سے، اردبیل سے - اور عرب ممالک سے - یہ بحرینی برادر - اور جناب واعظی (15) جو مشہد سے آئے؛ اور جو لوگ ان شہروں سے آئے ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے یا دوسری جگہوں سے جن کا میں نے ذکر نہیں کیا ہے، براہ کرم ان شہروں میں عزیز ہموطنوں کو میرا سلام پہنچائیں اور دعاگو ہوں کہ انشاء اللہ آپ ہمیشہ امام زمانہ ع کے سائے میں زندہ رہیں، سلامت رہیں، کامیاب رہیں۔

پروردگار! محمد اور آل محمد ع کے صدقے، امام حسین ع کی ذکر کو ہمارے ملک میں روز بروز زیادہ کثرت سے اور مسلسل منعقد ہونے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگار! حسین بن علی ع اور آل رسول کی مدح سرائی کرنے والی زبانوں کو اپنے فضل و کرم سے نواز۔ پروردگار! ہماری انجمنوں کو امام جعفر صادق ع کی منظور نظر انجمنیں بنا۔ ہمیں اس زمانے کے عظیم جہاد جو کہ ’’وضاحت اور تشریح کے جہاد‘‘ ہے، کا سپاہی بنادے ۔ پروردگار! ہمارے عظیم امام خمینی رح اور ہمارے عظیم شہداء کی ارواح کو اہل بیت علیہم السلام کی ارواح کے ساتھ محشور فرما۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاک قلب کو ہم سے راضی اور خوشنود رکھ۔ امام زمانہ (ارواحنا فداه) کو ہم سے راضی اور خوشنود رکھ۔ اس ہستی پر ہمارا درود و سلام بھیج اور ان ع کی دعا کو ہمارے شامل حال فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں کچھ مداحوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب پر مبنی اشعار پڑھے۔

(2) اصول کافی، جلد 1، صفحہ 458

(3) سورۂ مریم، آيت 17، تو ہم نے مریم کے پاس اپنی روح (جبرئیل) کو بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک خوبرو انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔

(4) سورۂ انسان، آيت 9، ہم تو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں اور اس کے عوض نہ تم سے کوئی اجر چاہتے ہیں اور نہ ہی شکریہ۔

(5) سورۂ آل عمران، آیت 61

(6) امالی شیخ صدوق، مجلس 72، صفحہ 473

(7) امالی شیخ صدوق، مجلس 26، صفحہ 125

(8) شہید محسن فخری زادہ؛ ملک کے نیوکلئیر اور ڈیفینس سائنٹسٹ جنھیں ستائيس نومبر 2020 کو دماوند کے آبسرد علاقے میں شہید کر دیا گيا۔

(9) مرحوم سعید کاظمی آشتیانی، اسلامی انقلاب کے انتہائی نمایاں سائنسدانوں میں سے ایک اور رویان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے۔ ان کی سربراہی میں ایران نے بانجھ پن کے علاج، اسٹیم سیلز اور جانوروں کی کلوننگ وغیرہ کے میدان میں بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔

(10) وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 20

(11) بحار الانوار، جلد 44، صفحہ 282

(12) اصول کافی، جلد 2، صفحہ 175

(13) منجملہ 12/12/2021 کو نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کے شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات میں تقریر

(14) شیخ بہائي، کشکول، دفتر پنجم، دوسرا حصہ

(15) جناب احمد واعظی