ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نئے ایرانی سال کی مناسبت سے مکمل خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

آپ تمام عزیز ناظرین اور ان عرائض کو سننے والوں کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میں اس دن، سال کے آغاز اور صدی کے آغاز کو، حضرت بقیت اللہ علیہ السلام کے نام اور یاد سے اپنے کلمات سے آراستہ کرتا ہوں جو خود دلوں کی بہار اور زمانوں کی تر و تازگی ہیں:

اَلسَّلامُ عَلَیکَ اَیُّهَا العَلَمُ المَنصوبُ وَ العِلمُ المَصبوبُ وَ الغَوثُ وَ الرَّحمَةُ الواسِعَةُ وَعداً غَیرَ مَکذوبٍ اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَقوم اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَقعُد اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَقرَاُ وَ تُبَیِّن اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تُصَلّی وَ تَقنُت اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَرکَعُ وَ تَسجُد اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تُهَلِّلُ وَ تُکَبِّر اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَحمَدُ وَ تَستَغفِر.(۱)

یہ تیسرا نوروز ہے کہ یہ بندہ حقیر حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے روضہ مقدس میں حاضر ہونے کی سعادت سے محروم ہے۔ میں اس ہستی کے معزز زائرین، مسافروں اور ہمسایوں کے پرجوش مجمع کے سامنے حاضر ہونے سے محروم ہوں۔ اس لیے ہم یہاں دور سے سلام کرتے ہیں اور سلام بھیجتے ہیں۔ اللهمّ صلّ علی ولیّک علیّ ‌بن ‌موسی‌ الرّضا عدد ما فی علمک صلاةً دائمةً بدوام ملکک و سلطانک. اللهمّ سلّم علی ولیّک علیّ‌ بن‌ موسی‌ الرّضا علیه السّلام عدد ما فی علمک سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک.
 
سال کے آغاز میں منائی جانے والی یرانی نوروز اور اس موسم بہار کے تہوار کے بارے میں کچھ نکات ہیں جو ہم نے کبھی کبھار بیان کئے ہیں؛ ایک نکتہ جو میں آج بیان کرنا چاہوں گا وہ ہے ذکر، دعا اور روحانیت کے ساتھ اس قومی عید کا امتزاج۔ یہ [چیز] قوموں میں سال کی آغاز کی عیدوں میں شاید نایاب ہو - میں البتہ زیادہ نہیں جانتا، [لیکن] میں جانتا ہوں کہ اس کا بہت ہی کم امکان ہے- یہ یا تو کم نظیر ہے یا بے نظیر کہ لوگ قومی عید کو ذکر اور یاد اور دعا اور روحانیت اور خدا سے عقیدت کا اظہار کے ہمراہ منائیں۔ سال کے آغاز کے لمحے پر کل رات، تقریباً تمام افراد اور مختلف طبقوں، بزرگوں، ممتاز افراد، دانشمندوں، علمی میدان کے مختلف شعبوں میں سرگرم عناصر - میزائل، نینو ٹیکنالوجی، حیاتیات وغیرہ - ان نوجوانوں تک جو جہادی خدمت کیمپوں میں دور دراز کے دیہاتوں میں عید گزارتے ہیں اور لوگوں کی خدمت کے لیے خاندانوں سے دور ہوتے ہیں، ہر کسی نے سال کے آغاز کے اس لمحے کا آغاز «یا مُحَوِّلَ الحَولِ وَ الاَحوال» سے کیا۔ انہوں نے خدا سے کلام کیا اور خدا سے تقاضا کیا اور خدا کے ذکر سے اپنے دلوں کو پاک کیا۔ یہ ایک نقطہ ہے۔

 نوروز کے بارے میں ایک اور نکتہ خاص ایرانی سلیقہ ہے جس میں انسان گہری فکر محسوس کرتا ہے: موسم بہار کو اپنے سال کا آغاز معین کرنا۔ بہار امید کا مظہر ہے، یہ امید کا پیغام دیتا ہے۔ بہار انسان کو بتاتا ہے کہ خزاں اور پتوں کا جھڑنا ختم ہونے وال ہے اور تازگی، شادابی اور جدت حتمی طور سے آنے والی ہے۔ یہ موسم بہار کی خصوصیت ہے۔ یہ لوگوں کو ایسا پیغام دیتا ہے: تازگی کا پیغام، شادابی کا پیغام۔ البتہ اس سال نیمہ شعبان سے ہمراہ ہونے کی وجہ سے یہ امید دگنی ہوگئی جو کہ تاریخ کی عظیم امید اور انسانیت کی عظیم امید کا یوم ولادت بھی ہے۔ اور امید ہی تمام تحرک اور پیشرفت کا ذریعہ ہے۔ میں یہ کہنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں: وہ لوگ جو عوام سے خطاب کرتے ہیں، پیغام بھیجتے ہیں، لکھتے ہیں، فعالیت کرتے ہیں، لوگوں میں امید جگانے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں انجام دیں۔ امید تحرک کا ایک اہم عنصر ہے، ترقی کا ایک اہم عنصر ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ خدائے عظیم نے ایرانی قوم کے لئے امید کے عوامل بھی فراہم کئے ہیں۔ الحمد للہ ہماری قوم اور ہمارے ملک میں امید کے زمینے کم نہیں ہیں، دشمنوں کو ایرانی قوم کے امیدوار ہونے سے طیش میں آنے دیں، اور انشاء اللہ ایرانی قوم میں امید روز بروز بڑھتی جائے گی۔

آج ہماری گفتگو بنیادی طور پر معاشی مسائل پر ہے کہ میں نے کل رات نئے سال کا پیغام اور سال کا نعرہ پیش کیا اور اب میں اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔ البتہ اور بھی مسائل ہیں کہ اگر وقت ہوا، موقع ملا، انشاء اللہ عرض کروں گا۔ سال کے اس پہلے دن جس وجہ سے ہم معاشیات پر بات کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر معاشیات کے مسئلے کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ملک میں عدالت کے ساتھ معاشی ترقی ہو گی تو تمام شعبوں میں پیشرفت متحقق ہو جائے گی اور ملک حقیقی ترقی کرے گا۔ یعنی معیشت اس طرح کا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوم، پچھلے دس سالوں میں، 1390 کی دہائی میں، ہمیں درحقیقت معاشی چیلنجوں کے اکٹھا ہونے کا سامنا کرنا پڑا ہے جن سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ انشاء اللہ ہمیں معاشی مسائل کے بارے میں سوچنا، عمل کرنا اور درست طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے تاکہ اس سلسلے میں قوم کے لیے آسائش پیدا ہو، انشاء اللہ۔ اس لیے ہم اس حوالے سے معاشی مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں۔

 معاشیات میں اصل مسئلہ قومی پیداوار کا ہے، جسے ہم نے مختصراً پیش کیا، اور میں نے پچھلے تین چار سالوں میں پیداوار کے مسئلے کو سال کے نام اور نعرے میں تکرار کیا ہے، اور یقیناً حکومتوں اور حکام نے اپنی صلاحیت کے مطابق، بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی بہترین توانائیوں کے مطابق کام کیا۔ وہ ھو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے انجام دیا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمارا اصل مسئلہ، ملک کے حکام اور جو لوگ کسی نہ کسی طرح ملک کو چلانے میں ملوث ہیں، کا بنیادی مسئلہ معیشت ہے۔ انسان نئے راستے بھی دیکھتا ہے جو انسان کو امید و حوصلہ دیتے ہیں۔ یعنی اگر ان شاء اللہ یہ عوامی طرزعمل اور عوامی مشارکت صحیح طریقے سے جاری رہے تو یہ حوصلہ افزا ہوگا اور انسانوں میں مزید امید کے آثار نمایاں ہوں گے۔

 

میں یہاں ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا، اور وہ یہ ہے کہ معاشیات کے شعبے میں، میں جو مطالب پیش کر رہا ہوں، جو مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ملک کے حکام سے ہیں؛ اجرائی شاخ سے زیادہ، اور کسی حد تک مقننہ اور یہاں تک کہ عدلیہ اور اس سے منسلک اداروں سے ہیں؛ بنیادی طور پر ان کو مخاطب کیا جانا ہے۔ ہم ان اداروں سے مربوط مسائل کو عوام میں اور عوامی گفتگو میں کیوں اٹھاتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ عوام کا معاشی مسائل اور معاشی پالیسیوں کے دائرے میں رہنا، اس بندہ حقیر کے مطالبات کو جاننا اور ان امور پر عملدرآمد کرنے والے حکام کی حمایت کرنا اور ان کی پشتپناہی کرنا ایک اچھی چیز ہے۔ بلاشبہ بعض ایسے کام ہیں جو خود عوام کے ذمہ ہیں اور اب میں علم محور معاشیات کی بات کرنے لگا ہوں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ کچھ اہم کام ہیں جو خود عوام بالخصوص نوجوانوں کے ذمہ ہیں۔ اور، یقیناً، یہ عوامی گفتگو شاید باعث بنے کہ ادارے ان مسائل پر اور زیادہ اور بہتر تعاون کریں۔

آج میری بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی اور ملکی معاشی امور کی اصلاح کے لیے ہمیں فیصلہ کن طور پر علم محور معیشت کی طرف بڑھنا چاہیے۔ یہ آج ہماری گفتگو کا خلاصہ ہے۔ "علم محور معیشت" کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیداوار کے تمام شعبوں میں جدید علم اور ٹیکنالوجی کو بہت بنیادی اور مکمل کردار کا حاصل ہونا ہے۔ "پیداوار کے تمام شعبے" جو ہم کہتے ہیں، یعنی اس پیداواری کام کا انتخاب بھی؛ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ انسان تمام پیداواری کام کرے۔ اس پیداواری کام کا انتخاب بھی علم، بصیرت اور سائنس پر مبنی ہونا چاہیے۔ علم محور معیشت کا مطلب یہ ہے جو معاشیات کے تمام شعبوں میں کارفرما ہے۔ اگر ہم اس پالیسی پر عمل کرتے ہیں اور علم کو ملکی معیشت کی بنیاد بناتے ہیں اور علم محور معیشت کے مراکز کی تعداد کو بڑھاتے ہیں - جسے میں بعد میں بیان کروں گا - اس کے ملک اور ملکی معیشت کے لیے بہت سے فائدے ہوں گے: اس سے اخراجات کم ہوں گے؛ یعنی علم محور معیشت پیداواری لاگت کو کم کرتی ہے۔ پیداواری صلاحیت کو بڑھاتی ہے، جو آج ہمارے مسائل میں سے ایک ہے۔ مصنوعات کے معیار کو بڑھاتی ہے، مصنوعات کو بہتر اور مسابقتی بناتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں، ہم ان مصنوعات کو مسابقتی مصنوعات کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ مقامی طور پر بھی اسی طرح یعنی، ملک کے اندر، چاہے ہم درآمدات پر بہت زیادہ ٹیکس نہ بھی لگائیں اور درآمدات کی وافر مقدار بھی جاری رہے تو، جب ملکی مصنوعات بہتر معیار کی بنے، اس کی قیمت سستی ہو، لوگ فطری طور پر اسے ترجیح دیں گے۔ علم محور پیداوار میں یہ خصوصیت  موجود ہیں۔

اگر میں مثال دینا چاہوں تو میں زراعت کی مثال پیش کروں گا، بدقسمتی سے زراعت دوسرے شعبوں یعنی صنعت اور خدمات وغیرہ کے علم محور ہونے کی نسبت زیادہ پیچھے ہے۔ اگر ہم زراعت میں علم محور مراکز کو بڑھاتے ہیں اور ٹیکنالوجی کو زراعت میں استعمال کرتے ہیں، تو ہم بیج کی پیداوار کو بہتر بنا سکتے ہیں، جو کہ زرعی پیداوار میں بہت اہم ہے، نئی آبپاشی، نئے پیداواری طریقے، پانی اور مٹی سے بہتر پیداوار - پانی اور مٹی دو قیمتی مصنوعات ہیں۔ جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے - (2) ہم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں اور اسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ جب ہم زراعت میں یہ پیشرفت کرنے اور ایک سنجیدہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو اس سے سب سے پہلے ملک کو غذائی تحفظ اور خود کفالت حاصل ہوگی، یعنی ملک کو خوراک کے معاملے میں کبھی کوئی مشکل نہیں ہوگی، کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ; دوسرا، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ؛ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو اور انہیں کاشتکاری جاری رکھنے کا حوصلہ اور اسکی ترغیب دی جائے، جو کہ ایک انتہائی قیمتی ماحصل ہے۔ پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں جو کچھ جانا جاتا ہے اور جو عام طور پر کہا جاتا ہے - یقیناً میں اس سلسلے میں رائے بھی رکھتا ہوں - یہ ہے کہ ہم پانی کی قلت کا شکار ہیں؛ اگر ہماری زراعت علم محور ہو جائے تو پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مثلا  زراعت کے شعبے کا ذکر میں نے بطور مثال کیا ہے۔

 
اسی طرح کے فوائد دیگر تمام شعبوں میں موجود ہیں - پیداوار اور خدمات دونوں سے مربوط شعبوں میں؛ یعنی مصنوعات کا حجم بڑھتا ہے، معیار بڑھتا ہے، لاگت میں کمی آتی ہے۔ درحقیقت علم محور پیداوار معاشی سرگرمیوں کی پیداواری صلاحیت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ اہم ہے، یہ ایک حساس اور بنیادی نکتہ ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، ملک کے مسائل میں سے ایک پیداواری صلاحیت میں کمی ہے۔ یعنی، ہم لاگت کے تناسب سے پیداوار حاصل نہیں کرتے۔ یہ مختلف حصوں میں اسی طرح ہی ہے؛ ملک میں پیداواری صلاحیت کم ہے۔ میں نے چند سال پہلے مشہد (3) میں سال کی اس پہلی تقریر میں اپنے عزیز ہموطنوں کو توانائی کے استعمال کی کثرت کے بارے میں بتایا تھا کہ ہم جتنی بجلی استعمال کرتے ہیں، ہم اس کھپت کے تناسب سے استفادہ حاصل نہیں کرتے ہیں۔ دنیا اوسطا ہم سے آگے ہے۔ پیداواریت اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے ہم پیچھے ہیں۔ اور یہی حال دوسرے شعبوں میں بھی ہے۔ یہ اہم معاشی مخمصہ حل ہو جائے گا اگر ہم علم کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔

خیر، پیداوار کو محور بنانے کے بارے میں ایک تکنیکی بحث ہے، جس کا میں کوئی ماہر نہیں ہوں، یقیناً کچھ معلومات رکھتا ہوں، لیکن مجھے اس عوامی اجتماع میں انھیں اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو ملکی حکام، اس شعبے کے ماہرین، اس سطح پر ہونے والی نشستوں میں اٹھائیں اور اس کی پیروی کریں تاکہ انشاء اللہ یہ مسئلہ احسن طریقے سے حل ہو جائے۔ میں صرف مختصراً یہ عرض کروں گا کہ معیشت میں عادلانہ پیشرفت حاصل کرنا اور ملک میں غربت کے مسئلے کو حل کرنا- کہ ہم ملک میں غربت اور مالی بدحالی کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں - صرف "پیداوار" کو مضبوط کرنے کے راستے سے ہی گزرتا ہے ; اگر ہم پیداوار کو مضبوط کریں، جو کہ علم محور ہونے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، تو یہ عظیم مقصد حاصل ہو جائے گا، انشاء اللہ۔

اس سلسلے میں مجھے یہاں دو ضروری نکات پیش کرنا ہیں جو علم محور مراکز کے اس مسئلے سے متعلق ہیں۔

ایک بات یہ ہے کہ ہمارے پاس علم محور مراکز ہیں لیکن اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت  7,000 سے کم علم محور مراکز ہیں۔ ملک میں تقریباً 6,600 یا 6,700 علم محور مراکز ہیں جن میں سے تقریباً 4,500 مینوفیکچرنگ سے متعلق ہیں۔ باقی خدمات اور اس طرح کے ہیں۔ اس سے تقریباً 300,000 براہ راست ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں، جو کہ نسبتاً اہم تعداد ہے۔ البتہ جن سے میں نے پوچھا اور انہوں نے بتایا کہ یہ تعداد 300 ہزار سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس نے گزشتہ سال 1400 میں 320,000 براہ راست ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ بالواسطہ روزگار اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ 1401 میں اس تعداد میں کتنا اضافہ کیا جا سکتا ہے اور ان مراکز کی تعداد میں کتنا اضافہ ممکن ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیس فیصد۔ میں مطمئن نہیں ہوں؛ میرا ماننا ہے کہ 30% ایسی تعداد نہیں ہے جو ملک کے لیے مطلوب ہو اور ملک کی ضرورت ہو اور ملک کی ضروریات کو پورا کرے۔ حکام سے میری توقع یہ ہے کہ اس میں سو فیصد اضافہ ہو یعنی کمپنیاں دوگنی ہوجائیں۔ اس طرح 1401 میں 300,000 براہ راست ملازمتیں 600,000 براہ راست ملازمتیں ہو جائیں گی۔

یقیناً، یہ چیز اس بات کا سبب نہ بنے کہ ہم کچھ مراکز تشکیل دے کر صرف اسکا نام علم محور مراکز رکھ دیں، جبکہ یہ علم محور نہ ہوں۔ نہیں، واقعی علم محور مراکز بننے چاہیے۔ ہمارے حکام کو کوشش کرنی چاہیے اور یہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر پسماندہ شعبوں میں، جیسا کہ زرعی شعبے کا ہم نے ذکر کیا۔ زرعی شعبے میں نالج بیسڈ کمپنیاں ہماری کل نالج بیسڈ کمپنیوں کا چار فیصد ہیں۔ کل میں سے چار فیصد کمپنیاں زرعی شعبے میں ہیں جبکہ زرعی شعبہ اتنی اہمیت کا حامل ہے، جیسا کہ میں نے ذکر کیا۔ زراعت کا مسئلہ اہم ہے، مویشیوں کا مسئلہ بہت اہم ہے، اور ملک کو بنیادی غذائی مصنوعات میں مکمل تحفظ اور اس میں ضروری خود کفالت حاصل کرنا ہوگی۔ ہمیں گندم، جانوروں کی خوراک میں خود کفیل ہونے کی ضرورت ہے - مکئی، اور اس جیسی چیزیں- اور تیل کی پیداوار کے بنیادی اجزاء۔ ہمیں مکئی، جو اور باقی چیزوں میں خود کفیل ہونا چاہیے جسے بنیادی اشیاء کہا جاتا ہے۔ اور یہ کیا جا سکتا ہے۔ ملک وسیع ہے، بہت سے کھیت ہیں، ہمارے پاس بہت سے زرخیز میدان ہیں۔ ہمارے ہاں ملک کے مختلف علاقوں میں زرخیز میدانی علاقے ہیں۔ اگر ہم ان پر کام کرتے ہیں، کہ چند سال پہلے (4) میں نے خوزستان میں اقدامات کی حوصلہ افزائی کی، میں نے ترغیب دلائی، کچھ کام خوزستان میں انجام پایا اور کچھ ایلام میں، کچھ سیستان میں۔ البتہ، ہم نے جس تعداد کا تقاضا کیا تھا اور ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اتنا نہیں ہوا، لیکن جتنا ہوا اچھا تھا۔ اس کام کو وسیع کیا جا سکتا ہے، یہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس اچھے زرخیز میدان ہیں، ہمیں ان میدانی علاقوں کو بنیادی اشیاء کی تیاری کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔

میں یہ عرض کرتا چلوں۔ محترم صدر، جناب رئیسی، نے مجھے بتایا کہ ان کے ایک بیرون ملک دورے کے دوران وہاں کے حکام نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس جو بھی تربوز، ٹماٹر اور اس جیسی چیزیں ہیں اور آپ اگاتے ہیں، ہم آپ سے خریدیں گے۔ صدر حیرت سے کہتے ہیں کہ آپ کے پاس خود زمین ہے، آپ کے پاس پانی ہے، آپ کے پاس یہ تمام زرعی سہولیات ہیں، آپ کے پاس زرخیز زمین ہے، آپ ہم سے تربوز اور مثلاً ٹماٹر کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں، ہم ان زمینوں کو ٹماٹروں اور خربوزوں کیلئے استعمال نہیں کرتے۔ یہ زمینیں گندم کیلئے ہیں، یہ مکئی کیلئے ہیں، یہ چارے کیلئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ نہیں کہ ہم تربوز کاشت نہ کریں یا مثال کے طور پر فرض کریں کہ ہم سبزیاں اور ٹماٹر وغیرہ نہ اگائیں۔ یہ سب ضروری ہے، لیکن ہمیں ملک میں موجود ان سہولیات سے بنیادی اشیاء [پیدا کرنی] چاہیے، سب سے پہلے اہم اور بنیادی اشیائے خوردونوش؛ ہمیں ان کی پیداوار کیلئے ملکی سہولیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

میں یہ بھی کہتا چلوں، ہماری معزز عوام کو بتائیں کہ ہم روٹی کو کتنا ضائع کرتے ہیں، کتنی روٹی پھینکی جاتی ہے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بدقسمتی سے ہمارا زرعی شعبہ درآمدات پر ملک کے سب سے زیادہ انحصار کرنے والے شعبوں میں سے ایک ہے۔ زرعی شعبہ درآمد پر ملک میں سب سے زیادہ درآمد پر انحصار کرنے والے حصوں میں سے ایک ہے۔ اور یہ انحصار حد سے زیادہ ہے؛ کہ اسے قابو کیا جانا چاہیے، اور یقیناً اس انحصار سے مقابلہ بہت مشکل ہے۔ کیونکہ بیرون ملک سے زرعی مواد کی ان درآمدات میں سے کچھ کے بڑے منافع ہوتے ہیں۔ وہ بالمقابل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چند سال پہلے، میں نے ان میں سے ایک وزیر زراعت کو کلونزا کے بارے میں بتایا، جو کہ کھانے کے تیل کی پیداوار کے لیے خام مال میں سے ایک ہے۔ اور کہا کہ اس کو دیکھیں - اب اس کی تفصیلات ہیں، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ - انھوں نے کہا کہ نہیں کرنے دے رہے۔ وہ(تیل بنانے والے) کہتے ہیں کہ ہمیں تیل کا خام مال حتما درآمد کرنا ہے۔ یعنی نہیں بنانے دیتے۔ وہ تخریب کاری کے لیے وزارت کے اندر، سرکاری اداروں کے اندر عناصر کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ [لیکن] انہیں روکنا ہوگا، یعنی یہ مشکل کام ہے، لیکن یہ مشکل کام ضرور انجام دینا چاہیے۔ 

لہذا، پہلے نکتے میں جو میں دو باتیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علم محور مراکز کی تعداد ملک کی ضروریات کے مقابلے میں کم ہے اور ان میں اضافہ ہونا چاہیے، خاص طور پر زراعت کے شعبے میں اور یقیناً دیگر تمام شعبوں میں۔ عہدیداروں کو کوشش کرنی چاہئے اور عہدیداروں کی کوشش یہ ہے کہ اس کام کی حمایت کریں۔ کیونکہ علم محور مراکز عوام سے متعلق ہیں۔ عوام، نوجوان، یہ کمپنیاں بناتے ہیں، لیکن اداروں کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ یہ حمایت بنیادی طور پر ان مصنوعات کو خریدنے، استعمال کرنے یا اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو اسے فراہم کرنے کے لیے ہے۔ بلاشبہ مجھے جو رپورٹ دی گئی اس میں ان وزارتوں کا ذکر ہے جو یہ امداد فراہم کرتی ہیں۔ اور جو وزارتیں مدد نہیں کرتیں اور انہیں کرنا چاہیے تھی، انہوں نے ان کی نشاندہی بھی کی ہے، جن کا نوٹس اب معزز حکومت اور معزز صدر کو خود لینا چاہیے۔ یہ ہم سے زیادہ مربوط نہیں ہے۔

بہرحال، ہر شعبے میں علم محور کمپنیوں کی تعداد کو حکومت کا اس شعبے میں ترقی کا اشاریہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم دیکھتے ہیں کہ علم محور مراکز میں اضافہ ہوا ہے، مثال کے طور پر، تیل اور گیس کے میدان میں اور ان نیچے دھارے کی صنعتوں میں، تو مثلا ہم تیل کے وزیر کو اعلی نمبر دیں، مثال کے طور پر؛ یا اگر یہ اس کے برعکس ہو تو پھر برعکس۔ میرے خیال میں یہ معیار میں سے ایک ہے۔ یہ پہلی چیز ہے کہ علم محور مراکز میں اضافہ ہونا چاہئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ ممکن ہے، الحمد للہ ممکن ہے، یہ کام ممکن ہے۔ یہ مت کہا جائے کہ آپ، مثال کے طور پر، آپ پہلے وسائل کا اندازہ لگائیں؛ ہاں، اسے وسائل کی ضرورت ہے، لیکن سب سے اہم وسیلہ افرادی قوت ہیں۔ افرادی قوت کے معاملے میں ہم بہت توانا ہیں۔ میں آپ کو بتاتا چلوں - ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ عناصر کی ایک بڑی تعداد ہے، ایک بڑی فیصد - مجھے اس فیصد کی بھی اطلاع دی گئی ہے - جو افراد اعلی تعلیم یافتہ ہیں، ان میں سے اکثر افراد اپنے غیر تعلیمی شعبوں میں کام میں مشغول ہیں؛ کیوں؟ انہیں اپنے ان شعبوں میں مشغول کیا جاسکتا ہے، ان کی مدد کی جاسکتی ہے، ان کی حمایت کی جاسکتی ہے تاکہ وہ علم محور مراکز بنا سکیں؛ یقیناً ان کی شناخت ہونی چاہیے، اس پر کام کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو آج اہم کاموں میں بہت ترقی کر رہے ہیں۔ جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں، نومرکب ادویات کے معاملے میں، نینو ٹیکنالوجی کے معاملے میں، بائیو ٹیکنالوجی کے معاملے میں - اسٹیم سیلز کے معاملے میں؛ یہ عظیم کام ہیں؛ ہمارے پاس ان شعبوں میں بہت سارے نمایاں لوگ ہیں۔ یہ نامور لوگ مختلف دیگر شعبوں میں بھی ڈھونڈے اور پائے جا سکتے ہیں، اور یہ یقیناً موجود ہیں، اور ہمارے ملک کی نوجوان ماہر قوت، اللہ کا شکر ہے، اس ملک کی عظیم دولت یا شاید سب سے بڑی دولت ہے جو موجود ہے، اور ان کی تعلیم سے، ان کی کوششوں سے، انکی جوانی کی طاقت سے ملک کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
 
یہ علم محور مراکز  اور علم محور پیداوار کے بارے میں بات چیت تھی۔ میں نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے مسئلے کا بھی ذکر کیا جو کہ بہت اہم ہے۔ اسی علم محور مراکز کے ذریعے روزگار کے مواقع حاصل کیے جائیں گے۔ یعنی اگر ہم ان کمپنیوں کو حقیقی طور پر کھڑا کرسکیں، انکی تخلیق کر سکیں اور ہم وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو ماضی میں کبھی اس حوالے سے کی گئی ہیں تو روزگار میں بھی اضافہ ہو گا۔ میں نے اشارہ کیا ماضی کی غلطیاں، مختلف حکومتوں میں، ہمارے پاس پیداوار بڑھانے کے لیے لوگوں کو بینکنگ سہولیات فراہم کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں تھیں۔ ان میں سے تقریباً تمام منصوبے ناکام ہو گئے۔ یہ سارے منصوبے ناکام ہو گئے۔ پیسا پھینکنے اور لاپرواہی سے کام کرنے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسے بہت احتیاط اور دقت سے کیا جانا چاہیے، اور علم محور مراکز کی سرگرمی کو ایک زنجیر نما سلسلے کی شکل اختیار کرنی چاہیے۔ یقیناً، میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ پالیسی ساز مراکز میں لیے گئے کچھ حالیہ فیصلے ملک کی کچھ چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ حکومت کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور بینکوں کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ یہ دھچکہ لگ سکے۔ یقیناً یہ وہ نکتہ ہے جس پر انہیں ضرور توجہ دینی چاہیے۔

خیر، ہم نے کافی دیر تک معاشیات پر بات کی، جو کہ اہم بھی ہے۔ پچھلے سال، سال کی اپنی پہلی تقریر میں، میں نے یہ نکتہ پیش کیا تھا کہ ملک کی معیشت کو امریکی پابندیوں یا اس جیسے مسائل سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ یہ مت کہا جائے کہ جب تک پابندیاں ہیں تب تک ایسا ہی ہے۔ نہیں، امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی ہو سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے، ملک میں موجود نئی پالیسیوں نے ظاہر کیا کہ یہ بات سچ ہے، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود، غیر ملکی تجارت کو بڑھانا اور اس میں اضافہ ممکن ہے، علاقائی معاہدوں کو منعقد کیا جاسکتا ہے، جو کہ خدا کا شکر ہے، حکومت کرنے میں کامیاب ہوئی، اور تیل کے معاملے میں پیش رفت اور بہتری اور کچھ دیگر۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ بہتر تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ایسا ہوا تھا۔ یقینا، میں کسی بھی طرح سے یہ نہیں کہتا کہ ہمیں پابندیاں ہٹانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ نہیں، میں نے کئی بار کہا ہے کہ جو لوگ اس میدان میں کوشش کر رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں، ان کا اس کام کو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس طریقے سے آگے بڑھنا ہے، ہم ملک کو اس طرح حکومت آگے لے کر چلیں کہ پابندیاں اس پر کاری ضرب نہ لگا سکیں۔ پابندیاں کچھ نقصان پہنچا سکتی ہیں، لیکن ان سے ملکی معیشت کو بڑا نقصان نہ پہنچ سکے۔ یہ حکام کی ذمہ داری ہے، جسے ان شاء اللہ وہ انجام دیں۔ میں اس سال بھی وہی نصیحت کرتا ہوں، اس سال بھی یہی تاکید کرتا ہوں کہ [ملکی مسائل] کو پابندیوں سے نہ جوڑا جائے۔

 
اس سال ایک اور تاکید بھی کرنا چاہتا ہوں؛ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اب مثال کے طور پر تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، تیل کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، تو ہم تیل کی آمدنی میں اس اضافے کا کیا کرنا چاہتے ہیں؟ دو طریقے سے آگے بڑھا جاسکتا ہے: ایک یہ کہ ہم دیکھیں اور کہیں، ہماری زرمبادلہ کمائی زیادہ ہوگئی ہے، درآمدات میں اضافہ کرنا چاہیے، تاکہ لوگوں کو آسائش مل سکے، سکون مل سکے وغیرہ۔ یہ [نظر] یقیناً ظاہری طور سے اچھی لگتی ہے، [لیکن] اس کی حقیقت بہت خراب ہے۔ یہ ملک کے بنیادی اثاثوں کا ضیاع ہے۔ دوسرا طریقہ بھی وجود رکھتا ہے کہ ہم تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ملک کے بنیادی ڈھانچے، ملک کے بنیادی کاموں کے لیے استعمال کریں۔ بنیادوں کو مضبوط کریں تاکہ ملک میں معیشت جڑیں پکڑے اور ہم انہیں آئندہ استعمال کر سکیں۔ یہ معاشی مسائل کے بارے میں ہے۔

اب دوسرے مسائل کے بارے میں، دنیا کے بہت سے مسائل ہیں، اور ہمیں بھی عالمی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ مختلف شعبوں میں ہمیں سوچنا اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے، فیصلے کرنے چاہیے، تحرک اور عمل کرنا چاہیے۔ آج جب ہماری قوم دنیا کے موجودہ مسائل پر نظر ڈالتی ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، جب آپ دیکھتے ہیں، تو آپ کو استکباری محاذ کے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور ایرانی قوم کی سچائی پہلے سے کہیں زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ استکبار کے سامنے ہماری قوم کا انتخاب ہتھیار نہ ڈالنے کا تھا، مزاحمت کا تھا، خود مختاری کا تھا، استقلال کی حفاظت کرنا تھا، نظام اور قوم و ملک کی اندرونی مضبوطی تھا، یہ قومی فیصلے تھے۔ یہ بالکل صحیح تھے۔ جب ہم عالمی واقعات کو دیکھتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ [فیصلہ] درست ہے۔ آپ افغانستان کے معاملات کو دیکھیں، آپ ملاحظہ کریں، آپ نگاہ کریں، آپ امریکی روانگی کی کیفیت دیکھیں۔ پہلے وہ بیس سال افغانستان میں رہے اور اس مظلوم مسلمان ملک میں انہوں نے کیا کیا؟ پھر وہ کیسے نکلے اور لوگوں کے لیے کیا مسائل پیدا کیے؟ اور پھر وہ افغان قوم کو ان کے اثاثے بھی واپس نہیں دیتے! یہ افغانستان ہے۔ اس طرف یوکرین ہے کہ ان کے صدر کا مغرب سے خطاب کتنا جارحانہ ہے - جسے خود مغربی اور مغربی حکومتیں اقتدار میں لائیں تھیں۔ اس طرف یمن کے معاملات ہیں، اور یمن کے مظلوم اور حقیقی مزاحم لوگوں پر روزانہ بمباری؛ اس طرف سعودی عرب ایک دن میں اسّی لوگوں کے سر قلم کرتا ہے! اسّی جوان، یہاں تک کہ نوجوان بھی شامل تھے - جیسا کہ خبر ملی - جب انسان ان مسائل کو دیکھتا ہے، تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں کیا ظلم جاری ہے؛ دنیا میں کتنی تاریکی راج کررہی ہے؛ دنیا کتنے خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھ میں ہے۔

یقیناً ہم ایرانی قوم نے ان کئی سالوں میں اپنے کام کرنے کے طریقے کو دن بہ دن بہتر کیا ہے اور اسے سنجیدگی، منطقی اور بنیاد کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ کام، محنت اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ، ہمیں خاص طور پر یکجہتی، باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ہماری پیاری قوم کے درمیان یکجہتی، باہمی تعاون، اتحاد و اتفاق۔ اسی طرح ہمیں ملک کے حکام میں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی یکجہتی اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ کچھ ہیں جو اگلی صفوں میں کام کر رہے ہیں۔ دوسروں کو ان کی مدد کرنی چاہیے، ان کی پشتپناہی کرنی چاہیے، اور تینوں ادارے، مسلح افواج اور مختلف شعبوں میں دیگر افراد کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے، اور قوم کو چاہیے کہ وہ حقیقی معنوں میں ملک کے حکام کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کریں، ان کی حمایت کریں اور مدد کریں۔
 
کبھی کبھی انسان قوم کے افراد کے درمیان، بعض عہدیداروں کے ایک دوسرے کے ساتھ، یا قوم کے عہدیداروں اور افراد کے درمیان تنازعات مشاہدہ کرتا ہے، اکثر بے فائدہ۔ انسان جب دیکھتا ہے تو یہ اکثر بے بنیاد خیالوں اور وہموں کی پیداوار ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں بے تقوائی کی۔ امام خمینی رح 60 کے عشرے کے زمانے میں، اکثر جب حکام کے درمیان بہت سے اختلافات تھے، تو آپ نے تقریباً ہمیشہ اپنی تقریروں میں یہ بات دہرائی کہ یہ اختلافات نفسانی خواہشات اور خودپسندی کی وجہ سے ہیں۔ یہ واقعی اسی طرح ہے. ان میں سے بہت سے تنازعات اور مسائل خود غرضی، لاپرواہی، بے تقوائی اور اس طرح کی چیزوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں انھیں الگ رکھنا چاہیے اور ایرانی قوم کے اتحاد کو، خیر کی راہوں میں، چاہے وہ علمی و سائنسی راہیں ہوں، چاہے عملی راہیں ہوں، چاہے استقامتی راہیں ہوں، چاہے عمومی خدمات کی راہیں ہوں، اپنے ان تنازعات سے خراب نہیں کرنی چاہیے کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے: وَ لا تَنازَعُوا فَتَفشَلُوا وَ تَذھَبَ ریحُکُم (6) اگر ہم نے اختلاف اور تنازعہ کیا تو یہ ہوگا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ خداوند متعال ایرانی قوم کو دن بہ دن مزید خوشحال، کامیاب اور سعادت مند بنائے گا اور ہمدرد حکام، جو واقعی قوم کے لئے دلسوز ہیں، قوم کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، خدا کی خوشنودی چاہتے ہیں، انکی توفیقات میں دن بدن اضافہ کرے گا اور انکی مدد کرے گا۔ انشاء اللہ، آپ سب عزیزوں، تمام اہل ایران، حضرت بقیۃ اللہ (ہماری جانیں قربان کریں) کی دعاوں میں شامل رہیں، اور خدا عظیم امام خمینی رح کی پاکیزہ روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے؛ ملک کے عزیز شہیدوں اور نمایاں شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو - حالانکہ تمام شہداء نمایاں ہیں؛ میں مختلف شہداء کے حالات اور کتابوں کو پڑھتا ہوں جن میں سے بہت سے شہیدوں کے نام تو بہت سارے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہیں، انسان دیکھتا ہے کہ واقعی وہ لوگ بڑے نمایاں انسان تھے، صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور کرے

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ 

(1) احتجاج طبرسی، جلد 2، صفحہ 493 (زیارت آل‌ یاسین)

(2) یوم شجرکاری پر پھل کے دو پودے لگانے کے بعد خطاب،  (6/3/2022)

(3) مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے زائرین اور مقامی افراد سے خطاب، (21/3/2009)

(4) صدر اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں خطاب، (26/8/2015)

(5) سنہ 1400 کے پہلے دن کی مناسبت سے ٹیلی ویژن پر کی گئي تقریر (21/3/2021)

(6) سورۂ انفال، آيت 46، آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ تم کمزور ہو جاؤ گے اور تمھارا رعب ختم ہو جائے گا۔