ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

یوم القدس 2022 پر خطاب کا مکمل ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
ایران کی اس عظیم قوم پر کہ جس نے آج حقیقی معنوں میں حماسہ تخلیق کیا اور آئندہ کے تمام زمانوں کیلئے اس مبارک اساس کے بانی مرحوم امام خمینی رح پر سلام۔ آج، لوگوں کی شرکت- جہاں تک مجھے معلوم ہے اور میں نے جو کچھ دیکھا - ملک میں ہر جگہ حقیقی طور پر ایک حماسہ تھا، یہ بہت عظیم واقعہ تھا؛ لوگ پورے حوصلہ کے ساتھ میدان میں حاضر ہوئے۔ یہ عظیم عوامی تحریک، ایک عظیم اور بابرکت کارنامہ ہے۔ قدس کے دفاع کے لیے سیاسی اور عوامی میدان میں آپ کآ حاضر رہنا قدس کا حقیقی دفاع ہے۔ یہی اصل دفاع ہے۔ وہ لوگ جو آج اپنے جسم و جان سے القدس، مسجد اقصیٰ - مسلمانوں کے پہلے قبلے کا دفاع کر رہے ہیں، آپ کے اس اقدام سے ان کو حوصلہ ملے گا، تقویت ملے گی، ان میں استقامت پیدا ہوگی۔ خدا کی مدد اور اسکی توفیق کے سائے میں فلسطینی تحریک اور عظیم فلسطینی جدوجہد اپنے حتمی بابرکت نتائج کے قریب پہنچ جائے گی۔
آج میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور عزیزوں سے قدس اور فلسطین کے مسائل پر بات کرنا چاہتا ہوں اور عربی زبان میں گفتگو کروں گا۔ ہم نے متعدد بار اپنے لوگوں سے اس بارے میں بات کی ہے اور مطالب پیش کئے ہیں۔ آج میں فلسطینی بھائیوں اور پوری عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا سے مخاطب ہوں۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّد الخلق وأشرف البریة سیّدنا محمّد المصطفی خاتم المرسلین و علی آله الطّاهرین وصحبه المنتجبین ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین.
دنیا بھر کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو سلام! عالم اسلام کے نوجوانوں کو سلام! بہادر اور غیرت مند فلسطینی نوجوانوں اور تمام فلسطینی عوام کو سلام۔
یوم القدس ایک بار پھر آ گیا ہے۔ القدس دنیا کے تمام مسلمانوں کو پکارتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک غاصب اور مجرم صیہونی حکومت قدس پر قابض ہے، سال کے تمام ایام کو یوم قدس سمجھا جانا چاہیے۔ القدس فلسطین کا دل ہے اور تمام غصب شدہ سرزمین، سمندر سے لے کر دریا تک، قدس کی سرزمین ہے۔ فلسطینی عوام ہر روز پہلے سے زیادہ اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ ظالم کے خلاف بے مثال حوصلے کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ نوجوان اپنی فداکارانہ کارروائیوں کے ذریعے فلسطین کے دفاع کی ڈھال بن گئے ہیں اور وہ ایک مختلف مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔
ہم اس سال یوم القدس منا رہے ہیں جس میں تمام حالات فلسطین میں آج اور کل کے نئی صورتحال کا خبر کیا گیا ہے۔ آج فلسطین اور پورے مغربی ایشیا میں "صہیونی ناقابل تسخیر فوج" کی جگہ "ناقابل تسخیر ارادہ" نے لے لی ہے۔ آج، وہ مجرم فوج اپنی جارحانہ تشکیل کو دفاع میں تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ سیاسی میدان میں آج غاصب حکومت کے اہم ترین حامی امریکہ کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے: افغانستان کی جنگ میں شکست، اسلامی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی میں شکست، ایشیائی طاقتوں کے مقابلے میں شکست، عالمی اقتصاد کے کنٹرول میں ناکامی، اپنے اندرونی انتظام میں ناکامی، اور امریکی نظام میں گہری دراڑ کا پیدا ہونا۔
سیاسی اور فوجی دونوں میدانوں میں غاصب حکومت مسائل کے ایک پیوستہ جال میں الجھی ہوئی ہے۔ سابق جلاد اور مجرم، جو حکومت کے سربراہ تھا، سیف القدس کے حماسے کے بعد کچرے کے ڈھیر سے پیوست ہوگیا، اور اس کے جانشین آج ہر گھنٹے دوسرے حماسے کی تیز دھار کا انتظار کر رہے ہیں۔
جنین کی تحریک نے صیہونی حکومت کو پاگل کر دیا ہے۔ بیس سال قبل نہاریہ میں متعدد صیہونیوں کے قتل کے جواب میں غاصب حکومت نے جنین کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے جنین کیمپ میں دو سو افراد کو قتل کردیا تھا۔
سروے بتاتے ہیں کہ تقریباً 70 فیصد فلسطینی سال 1948، سال 1967 اور غیر ملکی مہاجر کیمپوں میں، فلسطینی رہنماؤں کو قابض حکومت پر فوجی حملے کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ ایک اہم پیشرفت ہے؛ کیونکہ اس کا مطلب ہے غاصب حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطینیوں کی مکمل آمادگی، اور یہ مجاہدین تنظیموں کے بازو آزاد چھوڑ دیتا ہے کہ وہ جب بھی ضروری سمجھیں کارروائی کریں۔
 
1948 کی سرزمین کے شمالی اور جنوبی حصوں میں فلسطینی عوام کی جہادی تحریکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اردن اور مشرقی قدس میں زبردست مارچ اور مسجد اقصیٰ کے لئے فلسطینی نوجوانوں کے بھرپور دفاع اور غزہ میں فوجی مشقیں نے دکھایا کہ پورا فلسطین مزاحمت کا منظر بن چکا ہے۔ اب فلسطینی عوام جہاد کو جاری رکھنے کے لیے متحد ہیں۔
یہ واقعات اور حالیہ برسوں میں فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے، صہیونی دشمن کے ساتھ تمام سمجھوتے کے منصوبوں کی منسوخی کی مہر ہے، کیونکہ فلسطین کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ اس کے اصل مالکان یعنی فلسطینیوں کی عدم موجودگی یا رائے کے خلاف نافذ نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام سابقہ ​​معاہدے، جیسے اوسلو، یا دو ریاستوں کا عرب منصوبہ، یا صدی کا معاہدہ، یا حالیہ ذلت آمیز تعلقات کی بحالی کے معاملات منسوخ ہوچکی ہیں۔
صیہونی حکومت اپنے دم گھٹنے کے باوجود اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے مظلوموں کا ہتھیاروں سے مقابلہ کر رہی ہے، غیر مسلح عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو قتل کرتی ہے، قید اور اس میں تشدد کرتی ہے، گھروں کو تباہ کرتی ہے، کھیتوں اور املاک کو تباہ کرتی ہے۔ لیکن یوکرین کے معاملے میں شور و غل مچانے والے یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے جھوٹے دعویدار، فلسطین میں اس سارے جرم کے سامنے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور مظلوموں کا دفاع نہیں کر رہے، بلکہ الٹا خونخوار بھیڑیے کی مدد کر رہے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا سبق ہے کہ عالم اسلام اور فلسطین کے معاملے میں اول تو ان نسل پرست اور دشمن طاقتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان پر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ صرف مزاحمت کی قوت سے، جو قرآن کریم کی تعلیم اور پیارے اسلام کے احکام سے ماخوذ ہے، عالم اسلام کے مسائل اور سب سے بڑھ کر مسئلہ فلسطین کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کی تشکیل حالیہ دہائیوں میں خطے کی سب سے بابرکت پیشرفت رہی ہے۔ یہ مزاحمت تھی جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو صیہونیوں سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلق سے باہر نکالا، عراق کو داعش سے نجات دی اور امریکی منصوبوں کے خلاف شامی محافظوں کی مدد کی۔ مزاحمتی بلاک بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرتا ہے، یمن کے پرعزم لوگوں کی ان پر مسلط جنگ میں مدد کرتا ہے، فلسطین میں صیہونی غاصبوں کے وجود سے نبردآزما ہوتا ہے اور انہیں الہی توفیق کے ساتھ گھٹنے ٹیکاتا ہے، اور مجاہدین کی کوششوں سے قدس اور فلسطین کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ میں روز بروز نمایاں کرتا جا رہا ہے۔
آپ اے فلسطینی عوام، مغربی کنارے اور 1948 کی سرزمین کیلئے خود کو قربان کرنے والے نوجوانو، اے جنین کیمپ کے جنگجوو، اور اے فلسطین سے باہر کے مہاجر کیمپوں کے باشندو، آپ مزاحمت کے اہم اور حساس حصہ اور اسے آگے بڑھانے والے ہیں اور آپ جان لیں کہ «اِنَّ اللَهَ یُدافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنوا»، اور «لَئِن صَبَرتُم لَهُوَ خَیرٌ لِلصّابِرین»، و «وَ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِن عَزمِ الاُمور» اور «سَلامٌ عَلَیکُم بِما صَبَرتُم فَنِعمَ عُقبَی الدّار».
 
اسلامی جمہوریہ ایران مزاحمتی محاذ کا حامی ہے، فلسطینی مزاحمت کا حامی ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے اور ہم نے اس پر عمل کیا ہے اور اس پر ثابت قدم رہے ہیں۔ ہم "نارملائزیشن" کے غدارانہ اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم موافقت (قابلیّة التّطبیع) کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض عرب حکومتوں نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل میں جلد بازی کرے، اگر وہ خطے سے نکلنے سے پہلے غاصب حکومت کے قیام کی راہ میں حائل کسی رکاوٹ کو دور کرنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے انہوں نے غداری کی ہے اور عرب دنیا کے لیے بدنامی کا سامان پیدا کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ سادگی کا مظاہرہ کیا ہے، کیونکہ ایک اندھا دوسرے اندھے کی لاٹھی نہیں بن سکتا!
آخر میں میں فلسطینی شہداء کی ارواح کو سلام پیش کرتا ہوں، ان کے صابر خاندانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، فلسطینی قیدیوں اور اسیروں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ثابت قدمی کے ساتھ مزاحمت کی، اور ان ثابت قدم فلسطینیوں سے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتا ہوں جنہوں نے اس عظیم ذمہ داری کے ایک بڑے حصے کا بوجھ اٹھایا۔ اور میں عالم اسلام بالخصوص نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عزت و وقار کے اس میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

وآخر دعوانا أن الحمدُ لله ربّ العالمین
والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاته