ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

اساتذہ اور معلمین سے ملاقات میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین

عزیز برادران، عزیز خواہران، ملک کے اساتذہ اور آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرنے والے قابل فخر پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا بہت خیرمقدم ہے، کہ اساتذہ کی مدح میں جو کچھ کہا جائے کم ہے۔ خدا ہم سب کو توفیق عطا فرمائے - آپ اور ہم دونوں کو- تاکہ ہم وہ کام کرسکیں جو خدا تعالیٰ کو آپ اور ہم سے راضی کرے۔

آپ کا شکریہ، جناب وزیر؛ ان کی تقریر میں اچھے نکات تھے جن کا انہوں نے ذکر کیا، جو فیصلے کیے اور وہ دستاویزات جو تیار ہوئیں۔ لیکن میں اس سلسلے میں آپ سے اور آپ کے پورے عملے سے ایک بات کہوں: ہمارے پاس اچھے فیصلوں، اچھے قوانین اور اچھی دستاویزات کی کمی نہیں ہے۔ آپ جتنا چاہیں، ہمارے پاس ملک میں اچھے فیصلے اور اچھی دستاویزات اور اس طرح کی چیزیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس پر عمل کریں۔ مراکز بنانا آسان ہے۔ چاہے فوجی اڈے ہوں، یا دیگر شعبوں سے متعلق مراکز، [بشمول] اقتصادی، ثقافتی، وغیرہ۔ لیکن ان مراکز کے کام کا تسلسل اور ان مراکز سے حاصل کردہ نتائج بہت اہم ہیں۔ سنجیدہ اور مجاہدانہ کام کریں تاکہ انشاء اللہ، جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں، جو آپ چاہتے ہیں - جو میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ تعلیم کے اہم نکات پر متوجہ ہیں - اس پر عملدرآمد ہو، پیروی کریں تاکہ انشاء اللہ، عملدرآمد ہو۔

خیر، ہمارے معزز اساتذہ سے ہماری سالانہ ملاقات کا مقصد - جو پچھلے ایک یا دو سالوں سے وبا کی وجہ سے معطلی کا شکار تھی اور اس سال، اللہ کا شکر ہے کہ ہم آپ کو روبرو دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں - یہ ہے کہ اساتذہ کے کردار ملک کی عوامی ثقافت میں نمایاں ہوسکے؛ یہ ہمارا مقصد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک استاد کی قدر جانی جائے، رائے عامہ میں ایک استاد کی قدر اچھی طرح سے قائم ہو اور پائیدار ہوجائے جو کہ ابھی ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اس طرح برتاؤ کرنا چاہیے کہ استاد کو اپنے استاد ہونے پر فخر ہو، اس کے گھر والوں کو اسکے استاد ہونے پر فخر ہو، اور معاشرہ اسے ایک قابل فخر ہستی کے طور پر دیکھے۔ ہمیں یہاں پہنچنا ہے۔ اس کے لیے کچھ بات کرنے، کچھ عمل کی ضرورت ہے۔ اب، ہم اس کے حوالے سے مختصر بات کریں گے۔

لفظ استاد کے دو استعمال ہیں، ایک نہیں: پہلا استعمال استاد کو معلم، تعلیم دینے والے، سکھانے والے کی نظر سے دیکھنا ہے۔ یہ بہت بڑی قدر ہے، یہ ایک اعلیٰ قدر ہے۔ خداتعالیٰ اساتذہ میں سے ہے: وَاتَّقُوا اللهَ وَ یُعَلِّمُکُمُ الله؛ عَلَّمَ الاِنسانَ ما لَم یَعلَم؛ ان خصوصیات کو خدا اپنے سے نسبت دیتا ہے۔ یہ ایک بہت عظیم مرتبہ ہے۔ یا انبیاء علیہم السلام کے معاملے میں، یا رسول اللہ کے حوالے سے، مثلاً: وَیُعَلِّمُکُمُ الکِتابَ وَ الحِکمَة یا تمام عظیم بزرگ علماء، فقہاء، سائنسدان، اور ممتاز شخصیات اور یہی محترم شہید مطہری رح اور ان جیسے لوگ اس لحاظ سے استاد ہیں، اور یہ بہت بڑی قدر ہے۔ یعنی وہ جو کسی کو کچھ سکھاتا ہے۔ یہ ایک استعمال ہے۔

استاد کا ایک اور استعمال نظام تعلیم و تربیت کا استاد ہے، جو ایک اور استعمال ہے۔ اب ہم اس دوسرے استعمال پر بات کریں گے۔ ہماری گفتگو اساتذہ کے عام معنی پر نہیں ہے۔ یہ خاص طور پر استاد کے اس معنی سے متعلق ہے۔ اس دوسرے استعمال کی قدر کی قیمت پہلے استعمال کے قدر کی قیمت سے دوگنی ہے۔ کیوں؟ اس تعلیم کے سامعین کی خاطر؛ اس تعلیم کے سامعین کا گروہ ان افراد کا مجموعہ ہے جن میں تعلیم سے متاثر ہونے کا امکان دوسرے تمام طبقوں کے متاثر ہونے کی نسبت زیادہ ہے۔ یہ استاد کے پیشے کی اہمیت ہے؛ یعنی،  نظام تعلیم کے استاد کے پاس پہلے استعمال اور اطلاق کی قدر بھی ہوتی ہے، اس علاوہ کہ اس کا کام اس مقام پر ہے، ایک ایسے میدان میں ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے، کوئی الٹرنیٹ نہیں ہے۔

آپ کے سامعین تعلیم اور تربیت پانے کی بہترین عمر میں ہیں۔ آپ کے سامعین وہ لوگ ہیں جو آخر تک کبھی نہیں بھولیں گے کہ آپ انہیں کیا سکھاتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ہم عمر کے فرق اور لوگوں کی یادداشتوں کے فرق کے ساتھ مسلسل معلومات سیکھتے رہتے ہیں، ہم ایک طرف سے سیکھتے ہیں، اور دوسری طرف سے بھول جاتے ہیں، لیکن ہم بچپن میں جو کچھ سیکھتے ہیں اسے نہیں بھولتے۔ ہم عموماً زندگی بھر نہیں بھولتے۔ عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ «اَلعِلمِ فِی الصِّغَر کَالنَّقشِ فِی الحَجَر» یا «کَالنَّقرِ فِی الحَجَر» اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ جیسے آپ پتھر پر کیسی چیز کو منقش کریں یا کندہ کریں۔ یعنی پتھر کو چھریدیں، اس پر کام کریں اور لکھیں۔ یہ مٹنے کے قابل نہیں ہے اور ہمیشہ موجود ہے؛ آپ کے سامعین اس طرح ہیں۔

ہم نے بارہا ایک "جدید اسلامی تہذیب" کے بارے میں بات کی ہے، یا اس طرح کہیں، ایک "اسلامی تر و تازہ تہذیب"؛ ایک اسلامی تہذیب جس کی صلاحیتیں وقت کے تناسب سے پروان چڑھتی ہیں اور اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ بات ہم کئی بار کہہ چکے ہیں۔ کسی بھی تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ انسانی وسائل ہوتے ہے۔ یعنی جو چیز کسی تہذیب کو محتمل اور ممکن بنا سکتی ہے اور اس کا متحقق کرتی ہے وہ افرادی قوت ہے۔ ہمارے ملک میں یہ افرادی قوت کون ہیں؟ مستقبل میں اتنا بڑا کام کون کر سکتا ہے؟ وہ ہے کچھ ممتاز صفات کی حامل ایک نسل؛ آپ آج کی اس نسل کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایک نسل جو اپنے پیروں پر خود کھڑی ہو اور ایک شناخت رکھتی ہو۔ اس کی ایک مضبوط اور گہری ایرانی اسلامی شناخت ہو، یہ اِس کی یا اُسکی یعنی مشرق اور مغرب کی فرسودہ تہذیب کی باقیات کی دلباختہ نہ ہو۔ ایک ایسی نسل جو باشعور، دانشمند، موثر، ہنر مند، اسلامی طرز زندگی اور ایرانی روایات سے واقف ہے۔ اس تہذیب کی تعمیر کے لیے ایسی نسل ضروری ہے۔ ہم انقلاب کے آغاز سے ہی اس نسل کی تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم مکمل طور پر ناکام رہے۔ نہیں، خدا کا شکر ہے کہ ہمیں کچھ کامیابیاں ملی ہیں۔ مختلف شعبوں میں، اس طرز پر تربیت پانے والے عناصر، انھی اساتذہ کی بدولت، وجود میں آئے، پھلے پھولے، اور خود کو ظاہر کیا۔ مختلف شعبوں میں - آپ پہلے سے ہی جانتے ہیں - معاشیات میں، عسکری معاملات میں، سیاست میں، وغیرہ؛ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مطلوبہ تہذیب اس وسعت کے ساتھ وجود میں آئے تو ہمیں اس نسل کو، اس پرورش کو وسعت دینی ہوگی، اس تربیت کو وسیع اور عمومی کرنا ہوگا۔ پس اگر ہم یہ کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ کے لیے ان بارہ برسوں (تعلیمی مدت ) سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ بارہ سال اسلامی جمہوریہ کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ اقدار، انقلاب کے نظریات کو اس نسل تک صحیح طریقے سے منتقل کرسکے اور اس میں اسلامی اور ایرانی تشخص قائم کر سکے۔ یہ بارہ سال بہترین موقع ہے۔

خیر یہ تعلیم و تربیت کا ہدف ہے۔ اساتذہ کا ہدف۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے، بہت عظیم کام ہے۔ یہ صرف ایک عام تعلیم نہیں ہے، یہ ایک بنیادی تعلیم ہے۔ خوش قسمتی سے، اس کام کا زمینہ بھی شعبہ تعلیم کیلئے مہیا ہے؛ یعنی اسلامی جمہوریہ کے نظام کے پاس وزارت تعلیم کے نام سے ایک وسیع قومی ادارہ ہے جو ملک کے دور دراز کونوں، شہروں اور دیہاتوں کے کونوں کونوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک بہت کارآمد زمینہ ہے. ان تمام وسیع حدود میں، کان اور دل سننے کے لیے تیار ہیں، آپ کے منتظر ہیں کہ ان سے بات کریں۔ میں اکثر بعض اہل علم اور فضلا کو جو مثلاً، اسکول یا یونیورسٹی کے شعبہ جات میں کام کر رہے تھے، یاد دلایا کرتا تھا کہ "جب بھی ہم منبر پر جاتے، ہم انتظار کرتے کہ چند سامعین وہاں جمع ہوں تاکہ ہم ان سے بات کر سکیں۔ لیکن اب طلباء کا یہ بڑا ہجوم آپ کے منبر کے نیچے موجود ہوتا ہے۔" اساتذہ کیلئے بھی یہی بات درست ہے۔ آپ کے لئے پورے ہفتے کان اور دل کئی کئی گھنٹے وہاں بیٹھے رہتے ہیں تاکہ آپ کے زبان سے کچھ نکلے اور چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ان کے دلوں میں بیٹھے؛ اہم بات یہ ہے کہ آپ کا یہ کلام اگر صحیح طور سے ادا ہوگا ان کے دلوں میں زندہ رہے گا؛ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے؛ یہ ایک بہت اہم چیز ہے، یہ ایک بہترین موقع ہے۔

اور شعبہ تعلیم کی طرف یہ نگاہ بتاتی ہے کہ یہ شعبہ تعلیم کتنا عظیم ادارہ ہے۔ اور انہوں نے بالکل  ٹھیک کہا تھا کہ شعبہ تعلیم کو دیکھ کر ملک کا مستقبل معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے. اگر ہم آج کی تعلیم پر نظر ڈالیں تو ہم آج کی تعلیم سے ملک کی مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ طے کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا ہوگا۔ یہ شعبہ تعلیم کی تعریف؛ حقیقی تعریف، رسمی نہیں۔

لیکن ہمارے نظام تعلیم میں کچھ مسائل ہیں کہ اب میں اس حوالے سے چند نکات بیان کروں گا۔ ان مسائل کو حل کرنے اور مطلوبہ صورت حال کو حاصل کرنے کے لیے ہوشیاری اور دانائی کے ساتھ صبر، تحمل، کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ منتظمین کو تھکنا نہیں چاہیے، ہاتھ پیر نہیں چھوڑنے چاہیے، صبر کے ساتھ کام پر لگے رہنا چاہیے۔ یقینا، ہمیں وسائل کی بھی ضرورت ہے. ان کاموں کے لیے سب سے پہلے ایک تعلیمی نصاب کی ضرورت ہے۔ یعنی تعلیمی نصاب کی اہمیت پر توجہ دیں۔ معاملہ صرف بات کرنے اور مشورہ دینے پر ختم نہیں ہوتا۔ شعبہ تعلیم کو انہی مقاصد کے تحت ایک تعلیمی نصاب مہیا کرنا چاہیے جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ اساتذہ اس کی پیروی کریں۔ تعلیمی نصاب آمادہ کریں، تعلیمی نصاب بھی اور استاد کی مطلوبہ تعداد بھی دونوں؛ ہمیں اساتذہ کی تعداد کا مسئلہ درپیش ہے۔ انہوں نے مجھے جو اطلاع دی وہ یہ ہے کہ ہمارے تقریباً ستر ہزار اساتذہ اب ریٹائر ہونے والے ہیں، جب کہ ہم اس کی نصف تعداد کو بھرتی کر سکتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ [یہ] ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اب میں فرہنگیاں یونیورسٹی کے بارے میں کچھ اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔

استاد کا معیار بھی اہم ہے۔ استاد کا معیار! علم، خواندگی، تدریس وغیرہ  کا معیار ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ، مثال کے طور پر، یونیورسٹیوں کے داخلہ امتحان میں نچلے درجے سے پاس ہونے والے اس پیشے کی طرف آئیں، نہیں؛ کچھ اس طرح ترتیب دیں کہ اعلیٰ علمی مرتبے کے حامل، اور پھر، اخلاقی حوالے سے، تربیتی، مذہبی تعلیم، دینداری، ایمان کے حامل افراد شامل ہوں؛ یہ ایک استاد کیلئے ضروری اوصاف ہیں، ان کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان میں سے ایک مسئلہ استاد کا مسئلہ ہے۔ بلاشبہ، غیر نصابی سرگرمیاں ضروری ہیں، اور انجام پانی چاہیے۔ بلاشبہ، شعبہ تعلیم کے اندر - ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے - ہمارے پاس پہلے بھی بہت اچھے اور پرعزم اساتذہ تھے، حتیٰ کہ انقلاب سے پہلے کے دور میں بھی؛ وہی اساتذہ جنہوں نے اس زمانے میں طلبہ کے ساتھ ایسا رابطہ رکھا کہ انقلاب کے مسائل پر طلبہ کی ایک بڑی تحریک وجود آئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب میں ایک چیز جو واقعی اہم تھی وہ طالب علم طبقے کی موجودگی تھی، جس میں قتل عام بھی ہوا تھا، جن میں سے ایک 13 آبان کا دن ہے اور وہ قتل عام تہران یونیورسٹی کے قریب ہوا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اساتذہ متحرک تھے۔ یا انقلاب کے آغاز میں وہ اساتذہ، جن کے زیر تربیت نوجوانوں نے مورچے بھرے اور بہت سے شہید ہوئے، کئی اساتذہ خود بھی شہید ہو گئے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج بھی خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس پرعزم، متقی، دلسوز، با ایمان اساتذہ کی کمی نہیں ہے۔ یقینا، موجود ہیں البتہ ہمارے پاس دوسرے قسم کے اساتذہ بھی ہیں۔

ہمیں تعلیمی مسائل کو تقسیم کرنا چاہیے۔ کچھ مسائل عمومی طور پر تعلیم سے متعلق ہیں، کچھ خاص طور پر اساتذہ سے۔ ان کو ملایا نہیں جانا چاہیے۔ یعنی یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہر مسئلہ میں نقطۂ نظر اور زاویہ نگاہ کہاں سے متعلق ہے اور اسکا مخاطب اور ذمہ دار کون ہے۔

تعلیم کے معاملے میں ایک عمومی بات ہے جس پر میں زور دیتا ہوں اور یہ نکتہ تقریروں اور تحریروں میں دہرایا جاتا رہا ہے۔ ہمیں ایسے کام کرنا چاہیے کہ ہمارے طلباء قومی شناخت کے حامل ہوسکیں۔ ایک طالب علم کو تعلیم دینے کا مقصد، اسکے اسکول جانے کا مقصد، چاہے پرائمری یا ہائی اسکول، صرف تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے۔ ہاں، علم ضرور حاصل کرنا چاہیے، تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے، لیکن علم حاصل کرنے سے زیادہ ضروری ہے، یا کم از کم اس کے برابر کی اہمیت کا حامل یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت کا احساس کرے، ہمارے یہاں ایک شناخت کا حامل انسان تربیت پائے کہ جو قومی شناخت اور قومی خود اعتمادی کا احساس کا حامل ہوسکے اور ہمارے بچہ دل کی گہرائیوں سے ملک کے اعزازات  سے آشنا ہوسکے۔ یہ وہ چیز ہے جو آج موجود نہیں ہے۔ بہت سے اعزازات ہیں؛ اب انہوں نے مرحوم جناب کاظمی اشتیانی کا نام ذکر کیا؛ آپ اسکول کے بچوں کے درمیان رائے شماری کریں اور دیکھیں کہ کاظمی اشتیانی سے کتنے فیصد بچے ان کی تمام خدمات کے باوجود، اس مرد اور اس نوجوان کی اتنی قدر و قیمت کے باوجود - وہ بھی جوان تھا - آشنا ہیں اور مثال کے طور پر، فرض کریں کہ رونالڈو سے کتنے آشنا ہیں! کبھی کبھی ہمارے خاندان کے چھوٹے بچے ایسے نام لے کر آتے ہیں جو میں سیکھ بھی نہیں پاتا! وہ ان کو بہترین طریقے  سے جانتے ہیں، [وہ جانتے ہیں] یہ کون ہے۔ ہم اپنے قومی اثاثوں کو کیوں نہیں پہچانتے؟ یہ بہت ضروری ہے۔

جسے ہم "قومی شناخت" کہتے ہیں، اس کا ایک حصہ قومی اعزازات، علمی تاریخ، سیاسی تاریخ، دنیا کا ماضی، کی گئی کوششوں اور جو جدوجہد کی گئی ہے، اسکا جاننا ہے۔ آج کی تیسری اور چوتھی نسل میں سے کتنے بچے انقلاب کے واقعات کو درست سمجھتے ہیں؟ وہ عظیم امام خمینی رح کے بارے میں کتنا جانتے ہیں، سوائے ان کے نام اور ان کے کچھ رسمی عنوانات کے؟ وہ ملک کے سائنسدانوں کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ یہ قومی اثاثہ ہیں۔ وہ انقلاب کے اہداف سے کتنے واقف ہیں؟ یہ انقلاب جو اس عظیم طوفان کو کھڑا کرنے، اس سمندر کو متحرک کرنے کے قابل ہوا، کوئی مذاق نہیں ہے۔ یعنی ایک انقلابی تحریک ایک ملک کو اس کے تمام اجزاء سمیت متحرک کر سکے، انقلاب کے دوران جو مارچ ہوئے، جو مظاہرے ہوئے، ان کا تعلق صرف تہران یا کسی بڑے شہر سے نہیں تھا، وہی مظاہرے گاؤں میں بھی دیکھے گئے - اس کا مطلب ہے ایک اقیانوس میں تحرک ایجاد کرنا۔

وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں اس طرح متحرک کیا؟ امام خمینی رح نے کیا کیا؟ امام نے کیا کہا تھا؟ امام نے کیا فرمایا؟ امام خمینی رح کے بیانات، امام کے اقوال اور امام کی تحریروں پر مشتمل بیس جلدیں آج دستیاب ہیں۔ کتنی پڑھی گئی ہیں؟ ان پر کتنی توجہ دی گئی؟ انقلاب کے اہداف کو جانیں۔ انہیں صرف جاننا نہیں ہے۔ ان کے ساتھ متصل ہونا ہے؛ یہ جوان اور نوجوان، پرائمری اور ہائی اسکول میں، ان نظریات میں مضمحل ہوجانے چاہیے اور ان کی روح، ان کے دل، ان سے آشنا ہونے چاہیے۔ ہمیں کیمیاو ریاضی کے فرمولوں اور غیر ملکی زبانوں اور اس طرح کی چیزوں ضرورت ہے۔ ہماری اس بات اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تعلیم چھوڑ دیں۔ نہیں، تعلیم تو ضروری ہے، ہم تو معتقد ہیں کہ ملک میں علم کا پرچم زیادہ سے زیادہ بلند ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ قومی تشخص، عزتِ نفس، انقلابی تشخص، اسلامی تشخص کا پرچم بھی بلند ہونا چاہیے۔

بچوں کو مزاحم ہونے (ثابت قدم رہنے ) کی قدر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ [یعنی] یہ کہ قوم کے اجزاء مزاحم (پائیدار) اجزاء ہیں۔ مزاحم کا کیا مطلب ہے؟ یعنی وہ بلیک میلنگ کے مقابلے میں عقب نشینی نہیں کرتے، جارحیت کے سامنے کپکپاتے نہیں، جبر کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ مزاحم ہونے کا مطلب یہ ہے۔ ملکی مسائل کے علاج کا نسخہ کیمیا یہ ہے: مزاحمت کا جذبہ، روحِ مقاومت ۔ دنیا زور و زبردستی کی دنیا ہے۔ ہر کوئی زبردستی کرتا ہے، جو زبردستی کرسکتا ہے وہ زبردستی کرتا ہے۔ اس میں کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہے، نہ مشرق ہے نہ مغرب۔ ایک قوم کو زور و زبردستی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ بچپن سے سیکھنا ہے، یہ جوانی سے ہمارے اندر راسخ کردینی چاہیے۔ یا خود اعتمادی کے حامل ہونے کی اہمیت؛ یہ وہ چیزیں ہیں جسے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد، پھر تہذیب کی تعمیر کرنے والی نسل ابھرے گی۔ ایسی نسل پیدا ہو گی جو قوم کو عزت دے، ملک کو عزت دے سکے۔ یہ سب سکول میں انجام دیا جاتا ہے۔ آپ یہاں استاد کی قدر جانیں! شعبہ تعلیم اسے سنگین کام کا ذمہ دار ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے وزارت تعلیم کا کسی دوسری وزارت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

وزارت کی منصوبہ بندی سے متعلق تعلیمی مسائل کے بارے میں ایک اور نکتہ نفع بخش علم اور غیر نفع بخش علم کے درمیان تفریق ہے۔ نفع بخش علم! اب آپ خود مہارت رکھتے ہیں، یعنی آپ اس معاملے میں مجھ سے زیادہ ماہر ہیں۔ اب ہمارے ہائی اسکولوں میں اور شاید ہمارے پرائمری اسکولوں میں، وہ علم پڑھایا جاتا ہے جو اس طالب علم کے حال اور مستقبل کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ کچھ باتیں ہیں، یہ کچھ ذہنی معلومات ہیں جو وہ بھول بھی جاتے ہیں اور وہ زندگی کے کسی معاملے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرتیں، علم کی ترقی میں ان کی کوئی مدد نہیں کرتیں۔ ان کی شناخت کریں، انہیں حذف کریں۔
نفع بخش علم وہ علم ہے جو نوجوانوں اور جوانوں کی صلاحیتوں کو نکھار سکے۔ اس کی صلاحیتوں کو تشخیص دے سکے، اسے اپنی استعداد کی سمت میں نشوونما دے سکے، اس صلاحیت کو نکھار سکے؛ اس کے مستقبل کے لیے ذہنی اور عملی سرمایہ فراہم کرسکے؛ یہ نفع بخش علم ہوتا ہے۔ پھر یقیناً اس کا اثر ملک کی ترقی اور سربلندی پر پڑے گا، لیکن طالب علم کے ذہن میں مٹھی بھر غیر نفع بخش معلومات انڈیلنا؟ نہیں، یہ بیکار ہے۔

کچھ وقت مہارتیں سیکھانے پر صرف کریں، جس کا ذکر جناب وزیر نے بھی کیا، اور یہ اچھی بات ہے، اس معاملے کی پیروی کریں۔ اسلامی طرز زندگی، کار خیر، سماجی تعاون، یہ وہ چیزیں ہیں جو بچے کو اسکول میں سیکھنی چاہیے۔ نظم و ضبط اور قانون کی پابندی؛ ہمارے مسائل میں سے ایک بے ضابطگی کا مسئلہ ہے جو عام طور پر سماجی زندگی اور خاندانی زندگی اور اس طرح کے معاملات میں پایا جاتا ہے۔ ہمیں نوجوانی اور جوانی سے نظم و ضبط اور قانون کی پابندی سیکھنی چاہیے۔ نوجوانوں میں مطالعہ کا شوق، تحقیق اور مطالعہ کا جذبہ، آپ ایک مہارت کے عنوان سے ان میں منتقل کرسکتے ہیں۔ سماجی جہادی سرگرمیاں؛ سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد؛ تمام لوگ سماجی برائیوں سے لڑسکتے ہیں جب ان میں یہ حوصلہ ہو۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔
اگلا نکتہ اصلاحی دستاویز سے متعلق ہے، جس کا انہوں نے ذکر کیا۔ اصلاحی دستاویز کا معاملہ واقعی اطمینان بخش مسئلہ نہیں ہے۔ اس دستاویز کا مسودہ دس سال سے زیادہ عرصے پہلے تیار کیا گیا تھا، اور جو معزز وزراء آئے تھے - بظاہر چھ وزیر ہیں، اور کچھ نگران بھی جو ان دس سال میں وزارت تعلیم میں موجود رہے، اور انتظامیہ کی یہ تبدیلی بھی بذات خود ایک مسئلہ اور آفت ہے۔ ہر ایک نے کچھ کام انجام دئیے، انہوں نے کارکردگی بھی پیش کی، عام طور پر ہمیں بتاتے تھے کہ ہم نے کیا اقدامات کئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دستاویز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔ اب ہوسکتا ہے اس کے ایک گوشے کے ایک حصے پر کسی نہ کسی شکل میں عملدرآمد ہوا ہو، لیکن یہ دستاویز ایک مجموعہ ہے۔ اگر وزارت تعلیم کے عہدیدار اور متنظمین سمجھتے ہیں کہ اس دستاویز میں کوئی خامی ہے، تو اسے اپ ڈیٹ کریں۔ دستاویز کی اصلاح کریں، اسے مکمل کریں، مسئلہ حل کریں۔ ایسا کرنے کی ہمت کریں تاکہ عملدرآمد ہوسکے اور دستاویز کا (عملی میدان) میں مشاہدہ ہوسکے۔ پیشرفت کی پیمائش کے لیے کچھ اشارے بھی مقرر کئے جانے چاہیے۔ یہ کہنا کہ اس دستاویز کے اتنے فیصد پر عملدرآمد ہوگیا اور اس طرح کی باتیں، ایسا نہیں ہوتا۔ اس دستاویز میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے اس کا تعین کرنے کے لیے ایک مقداری اشاریہ تعین کیا جانا چاہیے۔ خیر اب یہ تھے وزارت تعلیم سے متعلق عمومی مسائل۔

میں اساتذہ کے بارے میں دو تین باتیں کرتا چلوں۔ یہ بھاری ذمہ داری جو ہم نے بیان کی ہے، یہ استاد کے کندھوں پر ہے؛ یعنی، اجرائی مقام پر، یہ اساتذہ ہیں جو عملدرآمد کرتے ہیں؛ کچھ اساتذہ پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، کچھ نہیں، لیکن عمل درآمد مکمل طور پر اساتذہ پر منحصر ہے۔ انہوں نے ہی ان سامعین کی نسبت یہ عظیم کام کرنے ہیں، جو لاکھوں پر مشتمل جوان اور نوجوان نسل ہے۔ یہ ایک منفرد کردار ہے۔ استاد کی قدر و قیمت جس طرح ہم نے بیان کی ہے سب کو جاننی چاہیے ۔ سب سے پہلے، خود اساتذہ کو اپنے کردار کو محسوس کرنا اور ادراک کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ ان پر کتنی عظیم ذمہ داری ہے۔ تھک جانا، رنجیدہ خاطر ہوجانا، کام کو چھوٹا سمجھنا کچھ مسائل کی وجہ سے جو فطری طور پر زندگی میں پیش آتے ہیں - [معاش کے مسائل وغیرہ] - اس کام کو حقارت سے دیکھنا غلطی ہے۔ استاد کا کام ایک بہت اہم کام ہے۔ یہ بہت عظیم کام ہے۔ خود استاد کو سب سے پہلے استاد کے کردار کو سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ انقلاب کے دوران، مسلط کردہ جنگ کے دوران، ملک میں رونما ہونے والے مختلف سیاسی واقعات میں اساتذہ نے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کیا اور ملک کے اس نوجوان اور جوان طبقے کی صحیح سمت میں رہنمائی کی۔

اس اہم کردار کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو امانتداری کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ یہ واقعی ایک ذمہ داری ہے۔ استاد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ امانت دار ہے؛ یعنی وہ امانت جو اس کے سپرد کی گئی ہے، جو اس کی تربیت کے تحت صحیح سالم اور اضافی قدر و قیمت کے ساتھ باہر نکلے گی، سب سے عزیز امانتیں ہیں۔ عزیز ترین امانتیں؛ میرا مطلب ہے کہ یہ نوجوان جو آپ کی زیر تربیت ہے - جیسا کہ ملک کے ہیرے ملک کے نوجوان اور نوجوان ہوتے ہیں - قومی سطح پر بھی اور خاندانی سطح پر بھی- جنہوں نے اپنے بچے، اپنے بیٹے، ایک استاد کی سرپرستی میں بھیجے ہیں - یہ بہت قیمتی امانت ہے جو آپ کا ہاتھ میں ہے۔ کسی نے کہا: «من که لوح ساده‌ام هر نقش را آماده‌ام» یہ سادہ اور صاف تختی تمام نقش و نگار کے لیے فراہم ہے۔ آپ وہ ہیں جو ان نقش و نگار کی تخلیق کرتے ہیں۔ اسے اس اضافی قدر کے ساتھ باہر آنا چاہئے جو اسے آپ فراہم کرتے ہیں۔ آپ کو یہ امانت داری اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق کرنی ہوگی۔ اخلاقی، علمی اور طرز عمل کے لحاظ سے، اور آگاہی دینے اور دانائی کے لحاظ سے؛ آپ کو اس امانت میں دانائی کی روح پھونکنی ہوگی۔ اور بلاشبہ، اگر ہمارا استاد با ایمان اور متدین شخص ہوگا، تو یہ کام بہترین طریقے سے انجام پائے گا، جس کی ہمیں امید ہے، انشاء اللہ۔ یہ بھی ایک نکتہ تھا۔

ایک اور نکتہ فرہنگیان یونیورسٹی کا مسئلہ ہے - جس کا ذکر کیا گیا ہے - اور شہید رجائی یونیورسٹی اور اساتذہ کے تمام تربیتی مراکز؛ یہ بہت اہم ہیں؛ انتہائی اہم! یعنی ان یونیورسٹیوں کا قیام واقعی ایک ضروری کام تھا اور ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ میں نے چند سال پہلے اس یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا اور وہاں موجود نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں میں نے ضروری نکات، اہم مطالب پیش کئے تھے۔ ان یونیورسٹیوں کی نسبت سنگین ذمہ داری موجود ہے۔ ہر لحاظ سے، ان یونیورسٹیوں، ان اساتذہ کی تربیت کے مراکز کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ ہارڈ ویئر سہولیات کے لحاظ سے، انتظام کے لحاظ سے، اساتذہ کے لحاظ سے، تعلیمی نصاب کے لحاظ سے، تعلیمی سرگرمیوں کے لحاظ سے۔ یہ توقعات جو ہم استاد سے رکھتے ہیں انہیں کس طرح کی یونیورسٹیوں میں پورا کیا جاسکے گا؟ یہ بہت ضروری ہے۔ اساتذہ کی تربیت اور اساتذہ کی تربیت سے متعلق ان یونیورسٹیوں میں انتظام ایسا ہونا چاہیے کہ واقعی اچھے استاد ان جگہوں سے نکلیں۔ یہ بھی ایک نکتہ۔

ایک اور بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجھے بتایا گیا کہ بہت سے اساتذہ کا موضوع تدریس ان کے تعلیمی شعبے سے میل نہیں کھاتا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ کسی اور شعبے میں تعلیم حاصل کی، اب فرض کریں، مثال کے طور پر، وہ کسی اور شعبے میں پڑھاتا ہے۔ بلاشبہ، میں جانتا ہوں کہ یہ اساتذہ کی قلت کی وجہ سے ہے، جس کی وجہ سے پرنسپل حضرات وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں جو ضروری ہے، لیکن ہمیں بہرحال اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اس نے محنت کی اور ایک شعبے میں تعلیم حاصل کی۔ جس مدت میں وہ پڑھا رہا ہے، اسے اسی شعبے سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے اور اسی شعبے سے متعلق ہونا چاہیے۔

کورونا کے دور میں بھی اساتذہ نے واقعی بہت محنت کی۔ کورونا اساتذہ کے لیے مشکل وقت تھا؛ ایک انجان کام، پھر دوہرا کام۔ اس دوران استاد نے دوہرا کام کیا۔ یعنی، اس کے کلاس روم میں بھی طالب علم موجود تھے، اور اسے ان انٹرنیٹ پروگراموں اور سائبر اسپیس اور اس طرح کی چیزوں کے ذریعے بھی کام کرنا تھا۔ یعنی وہ دراصل دوہرا کام کر رہے تھے۔ یہ ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ اس سلسلے میں ہم اساتذہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

معاش کے مسائل پر میری تاکید وہی ہمیشہ کی تاکید ہے۔ بلاشبہ سرکاری وسائل میں مشکلات ہیں، واقعی مسائل ہیں، ہم ان کو قبول کرتے ہیں، ہمیں ان مسائل پر توجہ دینی چاہیے، لیکن انشورنس، پنشن، طبی اخراجات کے مسائل جو وقت پر ادا ہونے چاہئیں، یہ اہم مسائل ہیں۔ ان پر توجہ دی جانی چاہئے.

اور میری آخری بات یہ ہے: ہمیں وزارت تعلیم سے بہت زیادہ توقعات وابسطہ کررہے ہیں اور ہم وزارت تعلیم سے اس کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ [لیکن] آپ اساتذہ انتظار نہ کریں۔ منتظر مت رہیں. آپ اپنی خلاقیت سے بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ ایسے اساتذہ ہیں جن کو کوئی مخصوص تربیتی منصوبہ نہیں دیا گیا ہے، لیکن وہ اپنے ذاتی اقدام سے، اپنی خلاقیت سے، اپنی شفقت سے، اپنی دلسوزی سے، طلباء کے مجموعے کو تربیت دینے اور آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ آپ بھی ان کاموں میں کامیاب ہوں سکیں۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ وطن عزیز کے شہداء بالخصوص طلباء اور استاد شہداء کی ارواح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے اور ہمارے عزیز امام خمینی رح کی پاکیزہ روح کو- کہ  جو کچھ ہمارے پاس ہے صرف ان کے ارشاد اور قیادت سے ہے۔ اور وہ وہ ہستی تھے جس نے اس راستے کو کھولا، اس راستے پر ہماری رہنمائی کی - انشاء اللہ، خدا اپنے اولیاء کی روحوں کے ساتھ انہیں محشور کرے اور آپ اور ہم سب کو توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اپنے فرائض ادا کر سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته