ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

اسلامی مشاورتی اسمبلی کے اسپیکر اور نمائندوں سے ملاقات میں مکمل خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، اللہ نے توفیق دی کہ اس سال، دو تین سال آپ کی تشریف آوری سے محروم رہنے کے بعد، ہم اس پُر خلوص اور برادرانہ محفل میں جمع ہو سکیں اور حضرات کی باتیں معزز سپیکر پارلیمنٹ کی زبانی سن سکیں اور کچھ عرائض بھی پیش کرسکیں۔

یہ ایام خرمشہر کی فتح کی سالگرہ کے ایام ہیں۔ کل کے دن یہ عظیم واقعہ پیش آیا جسے ہم (آج کی نشست کیلئے ) ایک نیک شگون سمجھتے ہیں۔ مجھے اس حوالے سے کچھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ پیارے بھائیو، پیاری بہنو! خرمشہر کی فتح صرف ایک شہر کی فتح نہیں تھی جسے دشمن نے ہم سے چھین لیا تھا اور ہم نے اسے واپس لے لیا۔ [صرف] ایسا نہیں تھا - یہ خرمشہر کی فتح کے مختلف زاویوں میں سے ایک تھا - خرمشہر کی فتح اسلامی مجاہدین کے حق میں ایک اہم معادلاتی تبدیلی تھی۔ حقیقت یہ ہے. ایک ناگوار صورتحال قائم ہو چکی تھی۔ میں ان دنوں کی تلخیوں کو نہیں بھولوں گا جب اس مرکز میں جہاں ہم اہواز میں تھے، شہید چمران کے کمرے میں جو ہماری تنظیم کے کمانڈر تھے، ایک بورڈ لگایا گیا تھا (2)، نیلے اور سرخ سروں والی سوئیاں اس نقشے میں دھنسی ہوئی تھیں۔ نیلے حصے وہ حصے تھے جو ہمارے پاس تھے، سرخ حصے وہ تھے جو دشمن کے قبضے میں تھے۔ ہر روز خبروں کے مطابق ان میں تبدیلی کی جاتی، ہم جا کر دیکھتے۔ مجھے ان دنوں کی ناگواری نہیں بھولتی کہ ہم جب بھی جاتے تو چند سرخ سوئیوں میں اور اضافہ دیکھنے کو ملتا۔ انہوں نے اس نقطہ کو بھی لے لیا، انہوں نے اس شہر پر بھی قبضہ کرلیا، انہوں نے یہ بیرکیں بھی لے لیں، انہوں نے یہ یہاں قبضہ کرلیا وہاں وہ قبضہ کرلیا۔ اہواز میں، وہ اہواز سے دس یا گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ چکے تھے، وہ دزفول سے نادری پل پر پہنچے تھے۔ یہاں تک کہ وہ [دشمن] نادری پل کو پار کرنے کی ہمت کر کے دوسری طرف آگیا۔ یقیناً یہ فوجی حکمت عملی کے خلاف تھا۔ پھر دیکھا کہ یہ قدم ٹھیک نہیں، تو واپس چلا گیا۔ یہ وہ تلخ دن تھے جب جنگ شروع ہونے کے آٹھ یا نو ماہ بعد تک ہم اسی صورتحال میں تھے۔ یہ صورتحال بہت ناگوار صورتحال تھی۔ بعد میں حضرت ثامن الآئمہ  آپریشن سے جس کا مقصد آبادان کا محاصرہ ختم کرنا تھا، یہ صورتحال بدلنا شروع ہوگئی۔ پھر طریق القدس (آپریشن)، پھر فتح المبین اور آخر میں بیت المقدس اور پھر خرمشہر کی فتح؛ صورتحال الٹ ہوگئی۔ یعنی اگر اس دن تک ہمیں مسلسل اس فکر میں رہنا پڑا کہ کل ہم کیا کھوئیں گے تو اس دن سے ہم مسلسل اس بات کی تلاش میں تھے کہ کل سے ہم کیا حاصل کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ خرمشہر کی فتح کے بعد کی کارروائیوں میں بھی کچھ میں فتح حاصل ہوئی، کچھ میں فتح حاصل نہیں ہوئی، لیکن معمول پیشرفت کا معمول تھا، معمول فتح کا تھا، معمول پختہ عزم و ارادے کی نشوونما کا تھا۔ یہ خرمشہر کی فتح کا مسئلہ ہے۔ یعنی خرمشہر درحقیقت ایک ناگوار صورتحال سے شیریں صورتحال میں تبدیلی کی علامت تھی جس نے ایرانی قوم کو نجات دی۔ اب بہت سے لوگوں کو جنگ کی صورتحال کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوں گی، لیکن وہ لوگ جو آگاہ تھے وہ مسلسل پریشانی، تلخی اور تنگی میں رہتے تھے۔ اس پیشرفت سے لوگوں کو نجات ملی۔

تو اس قومی نجات کا سبب کیا تھا؟ خرمشہر کی فتح اور اس سے پہلے کے واقعات کس چیز کا نتیجہ تھے؟ یہ اہم ہے اور میں اس پر تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ عنصر کئی چیزیں تھیں: جہاد، ایثار، عزم، خلاقیت [یعنی] اختراعی طریقوں کی تلاش۔ مجھے نہیں معلوم معزز بھائیوں، کیا آپ نے بہت المقدس آپریشن سے متعلق تحریریں جو لکھی گئی ہیں پڑھی ہیں؟ جو حقیقی طور پر کافی اچھی ہیں۔ اب ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ - [چند] - اس وقت خود موجود ہوں، لیکن آپ میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں، آپ کو وہ معاملات بالکل یاد نہیں ہوں گے، آپ میں سے کچھ شاید دنیا میں بھی نہیں آئے ہوں گے۔ یہ کتابیں پڑھیں اور دیکھیں کہ کیا ہوا، کیا ہو رہا تھا۔ ان واقعات میں شہید ہونے والے شہداء‘ جن کے نام کبھی کبھی ذکر کیے جاتے ہیں۔ مشہور شہداء، غیر معروف شہداء - انہوں نے کیا کردار ادا کیے؟ بیس کمانڈ سے ڈویژن کمانڈ تک بٹالین کمانڈ سے گروپ کمانڈ تک؛ انہوں نے کیا کیا؟ ان کا کردار کیا تھا؟ پختہ عزم۔ یا عقیدوں سے متعلق ایک طویل مدتی نگاہ؛ یعنی روزمرہ کی عینک سے نہ سوچنا۔ کیونکہ امام خمینی رح نے اس جنگ اور اس عظیم واقعہ کے بارے میں واضح اور روشن بیانات ارشاد کئے تھے، اس لیے ایسا تھا کہ معمولی اور روزمرہ کے واقعات اس عظیم تحریک، اس جہاد کے موثر افراد کے ذہنوں پر سوار نہیں ہوتے تھے۔ وہ ان بلند مقاصد کی تلاش میں تھے، وہ اس اشارے کے پیچھے تھے جو امام خمینی رح نے کیے تھے۔

ہم نے کہا جہاد، ہم نے کہا ایثار، ہم نے کہا پختہ عزم، وغیرہ۔ اس سب کی روح اخلاص، خدا کیلئے اخلاص اور خدا پر بھروسہ تھا۔ خدا کے لئے کام کرنا اور خدا تعالی پر بھروسہ کرنا۔ اس وقت خلوص اور توکل کے ساتھ خلاقیت کی ضرورت تھی، عزم کی ضرورت تھی، جدوجہد کی ضرورت تھی، ایثار و قربانی کی ضرورت تھی اور ان چیزوں کی جو ہم نے عرض کیں۔

اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اس لمحے اور اس واقعے سے مخصوص نہیں تھا۔ یہ ملک کے تمام مختلف واقعات کا جن کا آپ سامنا کر رہے ہیں بنیادی عنصر ہے اور میں اب جو میں بیان کروں گا کہ آپ کو سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی انسان جب توکل کے ساتھ میدان میں اترتا ہے، خلوص کے ساتھ، پھر خود قربانی دیتا ہے، کوشش کرتا ہے، عزم راسخ رکھتا ہے، خلاقیت دکھاتا ہے، اور نئے راستے ڈھونڈتا ہے، تلاش کرتا ہے، تمام معاملات میں ایسا ہے۔ اگر یہ باتیں ہوں تو یقیناً اس کے بعد فتح ہوتی ہے۔ یقیناً۔ اب دیکھیں ہم کتنے مسائل کا شکار ہیں!

میں آپ کو ان تمام مسائل کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو ہمیں درپیش ہیں، اندرونی، بیرونی، ہارڈویئر کے مسائل، سافٹ ویئر کے مسائل؛ ان چند عوامل کی مدد سے ہر قسم کی چیزوں میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہیں: یعنی خدا کے لیے کوشش کرنا اور جہادی عمل، اخلاص برائے خدا، پختہ عزم، خلاقانہ اقدام اور اس طرح کی چیزوں سے۔ یہ قرآن کی تاکید ہے۔ اب میں آپ کو دو آیات پڑھ کر سناتا ہوں۔ یا اَیُّهَا ​​​​الَّذینَ آمَنوا هَل اَدُلُّکُم عَلیٰ تِجارَةٍ تُنجیکُم مِن عَذابٍ اَلیمٍ * تُؤمِنونَ بِاللَهِ وَرَسولِهِ وَ تُجاهِدونَ فی سَبیلِ اللَهِ بِاَموالِکُم وَاَنفُسِکُم ــ یہاں پر میں [بعداً] انفس کا معنی بیان کروں گا ــ ذٰلِکُم خَیرٌ لَکُم اِن کُنتُم تَعلَمونَ * یَغفِر لَکُم ذُنوبَکُم وَ یُدخِلکُم جَنّاتٍ تَجری مِن تَحتِهَا الاَنهارُ وَمَساکِنَ طَیِّبَةً فی جَنّاتِ عَدنٍ ذٰلِکَ الفَوزُ العَظیمُ * وَ اُخریٰ تُحِبّونَها نَصرٌ مِنَ اللَهِ وَ فَتحٌ قَریب؛(3) اگر یہ ایمان اور یہ جہاد اور اس طرح کی چیزیں موجود ہیں تو یہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ خدا آپ کو معاف کر دے، نہیں؛ فتح [یعنی] جو تم چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں ہدیہ دے گا۔ [آیت میں] میں نہیں ہے کہ جنگ، [بلکہ] ہر چیز میں؛ عسکری جنگ کے لیے مخصوص نہیں؛ زندگی کے تمام معاملات میں ایسا ہے۔

ایک اور آیت جو سورہ آل عمران کی آخری آیت ہے: رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَیٰ رُسُلِک؛ وہ وعدہ جو تو نے اپنے نبیوں سے کیا تھا۔ وہ وعدہ کیا ہے؟ دشمن پر فتح کا وعدہ تھا۔ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلیٰ رُسُلِکَ وَ لَا تُخزِنا یَومَ القِیامَةِ اِنَّکَ لا تُخلِفُ المیعاد؛  مومنین یہ دعا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے؟ فَاستَجابَ لَهُم رَبُّهُم؛ خدا اس دعا کا جواب دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے: أني لا اضيع عمل عامل منكم من ذكر اُو اثنيٰ (4) میں تمہارا عمل، تمہاری کوشش ضائع نہیں کروں گا۔ اس کو جان لیں۔ یہ چیزیں ہیں؛ ایک مومن معاشرے، ایک مومن گروہ کی پیشرفت کے اصول یہ ہیں؛ یہ تجربہ شدہ بھی ہے۔ ایک وقت ممکن تھا کہ ہم انھیں پڑھیں اور تقلیدی طور سے قبول کرلیں، لیکن انقلاب کے بعد آج تک، ہم نے ان کا تجربہ کیا ہے، عملی طور پر دیکھا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ ایسا ہی ہے۔

لہذا، میں یہ کہنا چاہتا ہوں: آپ میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں؛ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے سامنے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ انشاء اللہ اب سے پچاس سال، ساٹھ سال بعد آپ کو جینے کا موقع ملے گا۔ جو وقت آپ کے سامنے ہے اس دوران واقعات رونما ہوں گے، معاملات پیش آئیں گے: خوشیاں ہیں، ناخوشی ہیں - کوئی مذاق نہیں چالیس سال، پچاس سال، ساٹھ سال اس عجیب و غریب دنیا میں - بہت سے واقعات آپ کے ساتھ پیش آتے ہیں، آپ کا سامنا بہت سے مسائل سے ہوتا ہے؛ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان تمام معاملات میں اس اصول سے استفادہ کریں۔ جہادی طرزعمل، جدوجہد کریں، پختہ عزم رکھیں: قَوِّ عَلی‌ خِدمَتِکَ جَوارِحی وَ اشدُد عَلَی العَزیمَةِ جَوانِحی وَ هَب لِیَ الجِدَّ فی‌ خَشیَتِک.(5) یہ ان تمام مسائل میں آپ کی مدد کرے گا جو آپ کو درپیش ہیں اور آپ کو فتح دلائے گا۔

خیر، ہم نے کہا "جہاد اور قربانی" اور ہم نے کہا تھا کہ میں آپ کو بتاؤں گا کہ "قربانی" کا مطلب کیا ہے۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ جا کر اپنی جان دیں۔ بعض ایسی جگہیں ہوتی ہیں جہاں ایک شخص کے لیے قربانی دینا یہ ہے کہ وہ میدان جنگ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دے، جیسا کہ مقدس دفاع کے دور میں تھا اور آج کچھ میدانوں اور جگہوں میں جو حالات موجود ہیں اور آپ دیکھتے ہیں؛ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ قربانی کا ایک وسیع معنی ہے؛ بہت سے معاملات میں قربانی کا مطلب یہ ہے کہ پشت و حقیر خواہشات کے چنگل میں نہ پھنسنا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے؛ ہم کبھی کبھی پست خواہشات کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، ہم گرفتار ہوجاتے ہیں، ہم اپنے آپ کو نہیں بچا پاتے۔ قربانی کا مطلب ان خواہشات کو ترک کرنا ہے۔ اب یہ پست خواہشات کونسی خواہشات ہیں؟ یہ خواہشات کا ایک وسیع دھارا ہے۔

فرض کریں کہ ایک شخص کسی بیٹھک میں اپنے دوست سے اوپر بیٹھ جائے۔ دوستانہ حلقے میں کسی دوست کا اوپر بیٹھنا، مثال کے طور پر؛ یہاں سے لیکر قومی سطح پر ایوان صدر اور صدارت کی کرسی پر بیٹھنا؛ یہ سب خواہشات ہیں، سب پست خواہشات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں سے ایک پست خواہش ہو اور دوسری نہ ہو۔ نہیں، اس نشست میں بیٹھنے اور اس اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بیٹھنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ انسانی خواہشات ہیں، دونوں ہی حقیر ہیں۔ فریضہ ادا کرنے کے لیے انسان ایک دفعہ ایسا کرتا ہے، ایک بار نہیں، فریضہ کے خلاف ہوتا ہے، انسان اسے چھوڑ دیتا ہے۔ دنیاوی اموال کا حصول، عوامی شہرت و مقام کا حصول؛ لوگوں میں کچھ مرتبہ پانے کے لیے، اچھا نام کمانے کے لیے ممکن ہے کہ ہم کچھ چیزیں انجام دیں۔ یہ پست آرزوؤں کی گرفت میں قید ہونا ہے۔ ان سے بچنا چاہیے۔ بے شک، کوئی نہیں کہتا کہ دنیاوی مال برا ہے، یا یہ کہ کوئی سرکاری عہدہ یا عوامی خدمت، یا جو کچھ بھی ہے، بری چیز ہے۔ نہیں، یہ برے نہیں ہیں۔ نہ دنیا بری ہے، نہ مقام برا ہے، سماجی ساکھ بری نہیں ہے۔ یہ سب اچھی چیزیں ہیں۔ ان کو کسب کرنا اور اللہ سے انھیں مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہماری دعائیں ان چیزوں سے بھری ہوئی ہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان کے سامنے کوئی فریضہ آتا ہے جب ان خواہشات میں سے کوئی ایک اس فریضے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو یہ وہ جگہ ہے جہاں نفس کی اس خواہش پر پیر رکھنا ضروری ہے۔ "قربانی" کا مطلب یہ ہے۔

اب یہ کچھ عرائض تھیں جو ہم نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں معزز برادران۔ البتہ ایک لحاظ سے میں آپ سب سے زیادہ ان باتوں کا مخاطب ہوں۔ میرا مطلب ہے کہ مجھے آپ سے زیادہ اس نصیحت کی ضرورت ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس نصیحت کو جو ہم اپنے بھائیوں کو کررہے ہیں ہمارے دل میں اتارے۔

اور اب پارلمان۔ اسلامی مشاورتی اسمبلی ملک کے انتظام کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔ ملک کے انتظام کے اہم ستونوں میں سے ایک اسلامی مشاورتی اسمبلی ہے۔ ملک کی انتظامیہ کے کئی بنیادی عناصر میں سے ایک اہم ستون اسلامی مشاورتی اسمبلی ہے۔ اگر آپ دور دراز اور کم آبادی والے شہر سے بھی منتخب ہوئے ہیں، پارلمان میں داخل ہوئے ہیں اور نمائندہ بنے ہیں، تو آپ کو پارلیمنٹ کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے؛ آپ ایسی جگہ و مقام پر ہیں، ملک کے انتظام کو سنبھالنے کے مقام پر، اور اس نظم و نسق کے اہم اور اولین درجے کے ستونوں میں سے ایک۔ ملک کا نظم و نسق ایک کثیرالجہتی عمل ہے، جس کی ایک جہت اسلامی مشاورتی اسمبلی ہے۔ اس کے دوسرے حصے بھی ہیں - اب تین ادارے یا مثال کے طور پر مسلح افواج اور اس جیسے ادارے- لیکن ایک اہم حصہ اسلامی مشاورتی اسمبلی ہے۔ یہ اس کی اہمیت ہے، یعنی ہمیں پارلیمنٹ کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے؛ پارلیمنٹ کے باہر اور اندر دونوں میں پارلیمنٹ پر یہ نگاہ ہونی چاہیے۔

اس ملک کا انتظام سنبھالنا جیسا کہ آپ اسکے انتظامی عناصر میں سے ہیں بہت مشکل، پیچیدہ، سخت اور بہت اہم کام ہے۔ وطن عزیز ایران جیسی صورتحال کا حامل ملک۔ ایران کی صورتحال سے کیا مراد ہے؟ یعنی ملک کی وسعت، ملک کی آبادی، ملک کا جغرافیہ، ملک کی تاریخ، ملک کی مختلف اور متنوع آب و ہوا؛ یہ ہمارے ملک کی خصوصیات ہیں اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو ایران کو دنیا کے اہم اور غیر معمولی ممالک میں سے ایک بناتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے؛ آپ ایسے ملک کا انتظام سنبھالنا چاہتے ہیں۔

یقیناً ملک کو سنبھالنا ایک مشکل کام ہے۔ خاص طور پر، یہ مشکل دنیا میں پیش آنے والے بعض حالات میں بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ آج دنیا میں ایک ایسی صورتحال ہے، ایسے حالات ہیں کہ صرف ہمارے لیے نہیں، تمام ممالک کے لیے ملک کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا صورت حال ہے؟ اب میں مثال کے طور پر اس کے اہم عوامل بیان کروں گا: سپر طاقتوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی؛ یعنی مثال کے طور پر ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے بالمقابل آتی ہیں اور ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتی ہیں۔ یہ ایک اہم چیز ہے، یہ دنیا کو بہت نازک صورتحال سے دوچار کردیتی ہے۔

دنیا کے ایک حساس مقام پر فوجی نقل و حرکت کا وجود میں آنا۔ آپ جانتے ہیں کہ یورپ دنیا کے سب سے زیادہ جنگ زدہ خطوں میں سے ایک ہے۔ بندہ ناچیز کی تحقیق کے مطابق - جو شاید کامل نہ ہو - مجھے یورپ کے براعظم کے علاوہ دنیا کے کسی اور خطے کا نہیں معلوم - یعنی یورپ کے طول و عرض جتنا - جہاں اتنی جنگ واقع ہوئی ہے جتنی یورپ میں ہوئی ہے. دنیا میں کہیں نہیں؛ یورپ بنیادی طور پر جنگ کا مرکز ہے۔ آخری مرتبہ یہی دو عالمی جنگیں ہیں جو یورپ میں ہوئیں، [یہ] وہیں سے شروع ہوئیں، دنیا میں پھیلی، اور کروڑوں لوگوں کو نیست و نابود کیا۔ اس سے پہلے جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور دیگر کے درمیان مختلف جنگیں مستقل طور سے جاری و ساری تھیں۔ یعنی یہ دنیا میں جنگیں ابھرنے کا ایک اہم مرکز ہے۔ اس جنگ زدہ مقام پر اب ایک اور جنگ آغاز ہو چکی ہے۔ یہ پوری دنیا کی صورتحال کو نازک بنا دیتا ہے، یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ بڑھتے ہوئے فوجی خطرات۔

وبائی امراض؛ یہ دنیا کی چیزوں میں سے ایک ہے جو یا تو دنیاوی تاریخ میں بہت نایاب ہے یا بے مثال؛ کہ اب اس قسم کی بیماری پوری دنیا پر محیط ہے، یعنی دنیا کا کوئی حصہ اس بیماری سے خالی نہیں ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

خوراک کی قلت کے عالمی خطرات؛ ایک وقت افریقہ میں یا دنیا کے کسی حصے میں، قحط، خوراک کی کمی اور خوراک کے خطرات پیش آتے ہیں۔ آج ایسا نہیں ہے۔ آج پوری دنیا میں خوراک کی قلت کا خطرہ ہے۔ آپ دیکھیں، آج دنیا کے حالات ایک غیر معمولی حالات، ایک خاص حالات ہیں؛ دنیا میں آج جیسی صورت حال بہت کم پیش آئی ہے۔ یقیناً ایسی صورت حال میں ممالک یعنی تمام ممالک کا انتظام زیادہ مشکل، زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

ہمارے پاس ایک اور مسئلہ ہے، یقیناً۔ دیگر ممالک کے علاوہ اسلامی ایران کو ایک اور مسئلہ درپیش ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے عالمی بحثوں میں ایک نیا لفظ متعارف کرایا ہے۔ مذہبی جمہوریت، اسلامی جمہوریت؛ یہ ایک نیا لفظ ہے؛ ہم نے اسے دنیا کے سیاسی ابحاث میں، دنیا کے سیاسی ادب میں شامل کیا ہے۔ یہ بظاہر ایک لفظ ہے، لیکن اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہی وہ چیز ہے جو اس اصطلاح کے خلاف، اس لفظ کے خلاف، اس حقیقت کے خلاف، اس رجحان کے خلاف عالمی طاقتوں کی دشمنی اور عناد کو ابھارتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اسلامی جمہوریہ میں یہ تحریک استعماری نظام کے طے شدہ منصوبوں میں خلل ڈالنے میں کامیاب رہی ہے۔ استعماری نظام نے دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ایک مخصوص منصوبہ طے کر رکھا تھا۔ استعماری نظام کی کئی بار تشریح کر چکا ہوں۔ اس کا مطلب ہے دنیا کو استعمار اور مستعمرہ میں تقسیم کرنا۔ کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ کچھ مستعمر ہونے چاہیے اور باقی مستعمرہ ہونے چاہیے۔ یہ تسلط کا نظام ہے۔ انہوں نے دنیا کے لیے ایک منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ ایک مدت استعمار کی شکل میں، اب جدید استعمار کی صورت میں، کل کو جدید نوآبادیات کی صورت میں، جدید استعمار کے بعد۔ انہوں نے دنیا کے لیے ایک پالیسی، ایک باقاعدہ پروگرام ترتیب دیا۔ اسلامی جمہوریہ کے اس نئے لفظ نے اس پروگرام کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ اس پروگرام کی ترتیب میں خلل ڈالا؛ لہذا وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ اس سے دشمنی کرتے ہیں۔

آپ پارلیمنٹ کے رکن ہیں، آپ کے پاس بہت معلومات ہیں؛ آپ جانتے ہیں کہ کتنے معلوماتی، انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن، سیٹلائٹ اور اس طرح کے مراکز اسلامی جمہوریہ کے مخالف موجود ہیں اور صبح شام کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور کتنے لوگ، کتنے دماغ انکے مطابق تھنک ٹینکس بیٹھتے ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں سوچیں۔ اس طرح ہے۔ یقینا، اسلامی جمہوریہ نے بھی اپنا سینہ سپر کیا ہوا ہے، سر اٹھا کر چل رہا ہے، بڑے قدم اٹھا رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ لہذا ملک کا انتظام آسان نہیں ہے؛ آپ اس طرح کے انتظام میں شامل ہیں؛ میں یہ کہنا چاہتا ہوں؛ اس کی وجہ سے اس انتظام میں شامل تمام عناصر اپنی دیکھ بھال کو کئی گنا کر دیتے ہیں۔ آپ منتظم ہیں، آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اسی طرح، عدلیہ بھی اسی طرح، دوسرے مختلف ادارے بھی اسی طرح۔ اس نظم و نسق میں جس کا بھی کردار ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کتنا بڑا اور اہم کام کر رہا ہے۔

 سب سے پہلے، ہمیں اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہونا چاہیے، اور دوسرا، ہمیں اپنی کمزوریوں کو صحیح طریقے سے جاننا چاہیے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری صلاحیتیں کیا ہیں اور ہماری کمزوریاں کیا ہیں؛ عام فارسی زبان میں اپنے اندر " چشم اسفندیار" (6) کو دریافت کریں۔ دیکھیں کہ ہم کدھر کمزور ہیں، ہوشیار رہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ غلطیاں نہ کریں۔ دشمن اپنی صلاحیتوں سے زیادہ ہماری غلطیوں سے امید رکھتا ہے۔ اگر ہم غلطی کریں، جیسا کہ فوجیوں کی زبان میں، ہم دشمن کو سہارا دیتے ہیں۔ آپ دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر آپ غفلت برتیں گے تو دشمن آپ کو چکما دیدے گا، پیچھے سے آپ پر حملہ کرے گا، آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ فوجی کمانڈر میدان جنگ میں جو چیز نہ کرنے کے لیے محتاط رہتے ہیں وہ دشمن کو سہارا دینا ہے۔ محتاط رہیں کہ دشمن کو سہارا نہ دیں۔ خیر، یہ پارلیمنٹ کے عمومی مسائل کے بارے میں کل نکات تھے۔

ہم نے کہا ’’انقلابی پارلیمنٹ‘‘! کچھ نے اسے پسند نہیں کیا۔ لیکن ہم نے حقیقت بیان کی۔ اب کچھ لوگ اسے پسند کرتے ہیں، کچھ لوگوں کو پسند نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حقیقت تو یہی تھی کہ یہ پارلیمنٹ انقلابی نعروں سے تشکیل پائی تھی۔ لوگوں نے دیکھا، انہوں نے ان کا انتخاب کیا جن کی تحریک، سمت، نعرہ، بات، ہدف انقلاب تھا۔ لہٰذا عوام بھی اسی رجحان اور اسی تحریک کے حق میں ہیں جو آپ بعنوان انقلابی عنصر نے اپنے شہر میں، اپنے علاقے میں نعرے لگائے اور کہے۔ تو انقلابی پارلیمنٹ کا مطلب یہ ہے۔ انقلابی نعرے ملکی مفاد میں ہیں۔ ان لوگوں کے برعکس جو یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انقلاب ملک کیلئے آفت ہے نہ برعکس، انقلاب اور انقلابی نعرے اور انقلابی نظریات - جو کہ یقیناً ہم ابھی تک ہدف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن ان اہداف پر توجہ دینا اور ان اہداف کی طرف بڑھنا ہی ملک کے دردوں کا علاج ہے۔ یہ کوئی درد سر نہیں ہے، یہ ایک درد سر کا توڑ ہے۔ انقلاب اسی طرح ہے۔ ویسے تو یقیناً سائبر سپیس میں، کسی اخبار میں، کسی مضمون میں، کوئی اپنی رائے رکھتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک ایک انقلابی تحریک تھی، اور پارلیمنٹ بھی انقلابی ہے۔

یقیناً پیارے بھائیو، پیاری بہنو! ایک اہم نکتہ انقلابی رہنا ہے۔ یہ ملاقات ایک دوستانہ اور خصوصی ملاقات ہے، برادرانہ ملاقات ہے۔ یہ بات ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مثال کے طور پر 1980ء میں - جب میں انقلابی کونسل کا رکن تھا اور اس وقت صدر نہیں تھا - ہمارے پاس آتے تھے جبکہ ہم بھی انقلابیوں میں سے تھے اور، مثال کے طور پر، جہادی ماضی کے ساتھ، بیٹھتے اور شدت پسندانہ، جذباتی باتیں اور شعلہ بیانی کرتے، کچھ اس طرح کہ ہم رشک کرتے کہ یہ کس طرح کے افراد ہیں! دوسرے لفظوں میں، مغربی معنوں میں، سپر انقلابی تھے۔ پھر وہ واپس پلٹ گئے اور انقلابی نہیں رہے۔ وہی لوگ، وہ بھی اس طرح کے طرزعمل کے حامل، راستے کو جاری نہیں رکھ سکے تھے، برداشت نہیں کرپائے تھے۔ دیکھیں حقیقت یہ ہے کہ وہ برداشت نہ کر سکے! اگر کوئی یہ دکھاوا کرنا چاہتا ہے کہ ہم نے دیکھا، ہم نے دیکھا کہ یہ انتخاب اس انتخاب سے بہتر ہے۔ نہیں، یہ ایسا نہیں ہیں۔ اس راستے پر چلنا، اس پر رہنے کیلئے برداشت کی ضرورت تھی، وہ برداشت نہ کر سکے۔ اگر میری یادداشت خطا نہ کرے تو امام خمینی رح نے سورہ ھود کے بارے میں فرمایا، یہ آیت شریفہ جو کہ [کہتی ہے:] «فَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَمَن تابَ مَعَک»،(7)، خود بھی ثابت قدم رہو اور اسی راہ پر ڈٹے رہو، اور جو لوگ تمہارے ساتھ خدا کی طرف چل رہے ہیں وہ بھی ڈٹے رہیں۔ میرے خیال میں ایسا ہے - میں اس کو دیکھ نہیں سکا - امام خمینی رح نے کہا کہ جو حضور ص نے فرمایا «شَیَّبَتنی سورَةُ هود»(8) اس آیت نے اس بزرگ ہستی کو بوڑھا کر دیا؛ اس آیت نے بوڑھا کردیا۔ یہ اتنا سخت ہے! فَاستَقِم کَما اُمِرت؛ کھڑے رہو، چلتے رہو۔ پس، آپ دیکھیں، انقلابی بننے اور انقلابی رجحان رکھنے سے زیادہ مشکل ہے۔ چاہے وہ فرد ہو یا گروہ، چاہے پوری پارلیمنٹ ہو۔

تو اب یہ انقلابی کیا ہے؟ میں نے انقلابی نمائندہ کے لیے کئی معیار پیش کیے تھے۔ الحمد للہ، آپ لوگ کامیاب ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی، آپ پارلیمنٹ میں ہیں، آپ اچھے کام کر رہے ہیں؛ میں نے یہ کارکردگی رپورٹ بھی جناب قالیباف سے سنی۔ بلاشبہ، باہر ہم نے اس نمائش اور ان تصاویر کو دیکھا جن میں اسی رپورٹ کی وضاحت کی گئی تھی، (9) ہم نے وہ رپورٹس بھی دیکھی ہیں جو مجھے موصول ہو چکی ہیں، وہی باتیں جو انھوں نے ان رپورٹس میں بیان کی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ مصروف عمل ہیں لیکن ساتھ ہی یاددہانی بھی اچھی چیز ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ اگر ہم انقلابی نمائندہ باقی رہنا چاہتے ہیں تو کیا کرنا چاہیے۔ میں نے یہاں چند نکات لکھے ہیں۔

پہلی چیز سادگی ہے؛ عیش و عشرت اور اشرافیت وغیرہ کے اسیر نہ ہونا۔ پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے آپ کی زندگی ایک طرح کی تھی؛ اب جب کہ آپ پارلیمنٹ میں ہیں، آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اب نمائندے ہیں، مثال کے طور پر، ہمیں ایسے رہنا چاہیے۔ نہیں؛ سادگی! اپنی معمول کی زندگی کو جاری رکھیں۔ دوسری چیز امانتداری ہے۔ امانتداری بہت اہم ہے؛ یہ آیت جو ہمارے عزیز قاری نے یہاں تلاوت کی: اِنّا عَرَضنَا الاَمانَةَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَ الاَرضِ وَ الجِبالِ فَاَبَینَ اَن یَحمِلنَها وَ اَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الاِنسان،(10) انسان نے امانت کو قبول کیا ہے، الہی امانت کو۔ اس الہی امانت کا ایک حصہ یہی ہے جو اب آپ کے پاس ہے۔ اس امانت کا حصہ یہی ہے جو ابھی آپ کے پاس ہے! آپ کو اس امانت کو صحیح طریقے سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

ایک مسئلہ احساس ذمہ داری کا ہے۔ آپ کوئی قانون پاس کرتے ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ قانون ایک اچھا قانون ہے اور اسے پاس ہونا چاہیے تھا، تو ثابت قدم رہیں، کہیے کہ ہاں، ہم نے پاس کیا ہے۔ ہاں ہم نے کیا. ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یہ کہیں کہ ہم یہ قانون پاس کرتے ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ گارڈین کونسل اسے مسترد کردے گی، اس لیے ذمہ داری گارڈین کونسل پر ڈال دی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ فلاں قانون عملی نہیں ہے، کچھ قوانین [ایسے ہیں]؛ آپ دیکھیں میں خود پارلیمنٹ کا ممبر تھا، پارلیمنٹ کو اندر سے جانتا ہوں؛ بعض اوقات انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کو حکومت ان شرائط کے ساتھ، ان وسائل کے ساتھ جو اس کے پاس موجود ہیں نافذ نہیں کر سکتی؛ وہ کہتا ہے اچھا، میں منظور کردیتا ہوں، وہ عمل نہیں کرے گا تو لوگ اس پر الزام لگائیں گے، اسے ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ اس نے عمل کیوں نہیں کیا۔ نہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ آپ کو ذمہ دار ہونا ہوگا۔

ایک اور معیار عوامی ہونا ہے؛ عوامی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ عوامی ہونے کا مطلب ہے عام لوگوں کے ساتھ گھل مل جانا، اٹھنا اور بیٹھنا، لوگوں کی باتوں کو سننے کے لیے کھلے کان رکھنا اور لوگوں کے ذہنوں کو روشن کرنے کے لیے صاف گو ہونا۔ یہ کہ ہم لوگوں کے پاس جائیں ان کا کوئی مطالبہ ہو، ان کا کوئی تقاضا ہو، ہم ان کی بات سنتے ہیں اور پھر کہتے ہیں، "ہاں، آپ سو فیصد درست کہتے ہیں، اور جو نہیں سنتے، عمل نہیں کرتے، فلاں فلاں ہیں"، نہیں[یہ کافی نہیں]؛ بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں گرہ بن جاتی ہے، آپ کو اس گرہ کو کھولنا پڑتا ہے۔ یہ "بیان و تشریح کا جہاد" جو ہم نے بیان کیا ہے (11) اس طرح کی چیزوں کو شامل کرتا ہے۔ مسائل ہیں؛ فرض کریں کہ کسی خاص طبقے کا مطالبہ ہے، ٹھیک ہے، آپ پارلیمنٹ کے رکن ہیں، آپ کو ملک کی کھپت اور ملک کی آمدنی معلوم ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ عملی نہیں ہے۔ جب آپ جانتے ہیں کہ یہ عملی نہیں ہے، تو انتظار نہ کریں، مثال کے طور پر، کوئی اجرائی یا عدالتی نمائندہ آئے اور کہے کہ ہم نہیں کر سکتے۔ نہیں، آپ کہیں نہیں ہوسکتا؛ یعنی یہ کہ لوگوں کی بات سننے کے لیے کان کھلے ہوں اور لوگوں کے اذہان کو متوجہ کرنے کے لیے زبان بھی ہو۔ آپ کے سامنے موجود مجمع میں، دو، تین، یا دس لوگ کہہ سکتے ہیں، "جاؤ، بھائی! جاؤ!" تم نے بھی [کام نہیں کیا] »! کہنے دیں؛ آپ کو [اپنا فرض ادا کرنا ہوگا]۔ عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے؛ "عوامی" کا مطلب صرف یہ سمجھنا نہیں ہے کہ مثال کے طور پر ہم لوگوں کے حق میں مسلسل نعرے لگا رہے ہیں۔ نہیں، ہمیں لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ "مدد" ان لوگوں کو سننا، اگر ممکن ہو تو ان کے مطالبات کو پورا کرنا، اور اگر مشکلات اور ناممکنات ہوں تو ان کے ذہنوں کو روشن کرنا۔

ملک کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہنا؛ یعنی واقعی بنیادی مسائل کو دیکھیں، ان پر تمرکز کریں۔ بہتر انداز میں کہا جائے تو ملکی معاملات میں بنیادی مسائل ہیں، ضمنی مسائل ہیں۔ جب تک بنیادی مسائل ہمارے سامنے ہیں، ضمنی مسائل کی باری نہیں آتی ہے۔ ضمنی مسائل کی طرف جانا جائز نہیں جبکہ ہماری نظروں کے سامنے بنیادی مسائل موجود ہوں۔ بنیادی مسائل اور اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں؛ مسائل کو بنیادی اور ضمنی میں تقسیم کریں۔

امتیازی سلوک اور بدعنوانی سے سخت اجتناب؛ بچیں! ایک بار ہم کہتے ہیں کہ بدعنوانی کی شدید مخالفت، ٹھیک ہے، سب مخالف ہیں، ہم سب مخالف ہیں۔ تاہم، بعض اوقات یہ مخالفت دوسروں کی بدعنوانی، دوسروں کے امتیازی سلوک کے لیے ہوتی ہے۔ ہمیں اپنا خیال رکھنا چاہیے، زید اور عمرو کے امتیازی سلوک اور بدعنوانی سے بھی، اور اپنے آپ میں امتیازی سلوک اور بدعنوانی سے بھی، ہمیں شدت سے برتاو کرنا چاہیے۔

ملک کے انتظام میں دیگر دخیل عناصر کے ساتھ مخلصانہ تعاون۔ ملک کے مسائل میں سے ایک عدم تعاون ہے۔ تینوں مختار اداروں کے حکام اور تینوں اداروں کی بیوروکریسی کی عدم ہم آہنگی۔ اب بعض اوقات عہدیدار ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، ادھر ادھر بیٹھ کر معاملات طے کرتے ہیں، بیوروکریسی نہیں مانتی۔ اس سے ملک کی انتظامیہ میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا کئی سالوں کا تجربہ ہے۔ مخلص تعاون ہونا چاہیے؛ کوئی ڈیڈلاک نہیں ہونا چاہئے؛ کوئی بے معنی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کے ساتھ، عدلیہ کے ساتھ، دوسروں کے ساتھ، ہر اس شخص کے ساتھ جو کسی بھی طرح سے دخیل ہے، مخلصانہ تعاون کریں۔ ملک کے صحیح کام کو آگے بڑھانے کے لیے تعاون کریں۔ البتہ اگر کسی کو دوسری طرف میں کوئی غلطی نظر آئے تو اس کا واضح طور پر ذکر کیا جانا چاہیے۔ لیکن تعاون کریں جہاں واقعی تعاون کی گنجائش ہو۔

انقلابی نمائندگی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کا تعلق عام لوگوں سے ہوتا ہے، عام لوگوں سے مربوط ہوتا ہے لیکن یہ پاپولسٹ نہیں ہوتا۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ کبھی عوام زدہ نہ بنیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے کچھ مسائل اس لیے پیش آئے کہ ہم عوام زدہ ہوگئے۔ فرض کریں کہ کہیں ایک نشست میں بیٹھے تھے، ملک کے اعلیٰ عہدے داروں میں سے ایک - یہ وہ باتیں ہیں جو ہوئیں، میں نے اسی وقت ان پر اعتراض کیا - وہ ایک نشست میں بیٹھے تھے، مثال کے طور پر، فرض کریں کہ یونیورسٹی کے پروفیسر بھی وہاں موجود تھے ، ایک نے کچھ کہا، ان عہدیداروں میں سے ایک نے فوراً تقریر کے دوران ہی ایک بہت بڑی حمایت، جو مصلحت نہیں تھی، میٹنگ میں موجود گروہ کو پیش کر دی، مثال کے طور پر، ؛ یہ بہہ جانا ہے، یہ بے فائدہ ہے، یہ نقصان دہ ہے۔ لوگوں کے ساتھ ہونا، عوام زدہ ہونے، بہہ جانے اور جلدی متاثر ہونے کے علاوہ ہے۔ نہیں، یہ امام خمینی رح کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک تھی؛ اگر ان کی ایک رائے ہو کہ سب اس کے مخالف ہوں اور انھیں یقین ہو کہ یہ رائے الہی، شرعی اور صحیح ہے تو وہ اس پر قائم رہتے۔ انہوں نے کہا کہ ساری دنیا بھی میرے خلاف ہو جائے، ہوجائے۔ قرآن نبی کو بھی یہی حکم دیتا ہے: وَن أِن تُطِع أكثرَ مَن فِي الأَرضِ يُضِلّوكَ عَن سبيل سبيلِ اللّه؛ (12) یہ بات قرآن میں کئی بار دہرائی گئی ہے۔ انقلابی نمائندہ وہ ہوتا ہے جو عوام زدہ نہ ہو۔ آپ نے ایک قانون پاس کیا، آپ کے خیال میں یہ صحیح قانون تھا، کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی، یقیناً کام کی نوعیت یہ ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ ان ناقدین کے پاس صحیح منطق ہے یا نہیں؟ اگر ان کے پاس صحیح منطق ہے تو یقیناً آپ قبول کرتے ہیں، اگر ان کے پاس صحیح منطق نہیں ہے تو ڈٹ جائیں؛ کہیں، میں نے یہ قانون پاس کیا، میں اس پر قائم رہوں گا۔ یہ بات کہ وہ ہمارے خلاف، پارلیمنٹ کے خلاف، اس مجموعے کے خلاف، ویب سائٹس اور سائبر اسپیس وغیرہ پر اس قانون کے خلاف بات کر رہے ہیں، آپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ یہ انقلابی نمائندے کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

آئین کی پاسداری۔ پارلیمنٹ کے کاموں میں ایک اہم ترین مسئلہ آئین کی پاسداری ہے۔ آئین میں جو نکات طے کیے گئے ہیں ان کی رعایت کی جانی چاہیے۔ اس آئین کی معمولی سی بھی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ اب، یقیناً، گارڈین کونسل کا فرض ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے، لیکن آپ کچھ معاملات پر خود بھی [غور] کر سکتے ہیں۔ اب یہ چند مثالیں ہیں۔ انقلابی نمائندگی کی چند نشانیاں یہ ہیں، ہم انقلابی نمائندوں کے حامی بھی ہیں اور آپ کے مدح بھی۔

ایک چیز جو انقلابی نمائندگی کی علامت نہیں ہے پارلمانی کاروائی کے دوران پرجوش احتجاجی تقریریں ہیں۔ یہ تقریریں جو آپ [حضرات] کرتے ہیں۔ کسی کا یکدم احتجاج کے لیے کھڑا ہوجانا کسی بھی طرح انقلابی ہونے کی علامت نہیں ہے۔ انقلابی ہونے کی نشانیاں وہ ہیں جو ہم نے بیان کی ہیں۔ احتجاج کرنا اور غصہ کرنا وغیرہ انقلابی ہونے کی علامتیں نہیں ہیں۔

بلاشبہ اس پارلیمنٹ نے گزشتہ دو سالوں میں قابل قدر کام انجام دئیے ہیں۔ جناب قالیباف - پارلیمنٹ کے معزز اسپیکر - نے جن کا ذکر کیا بہت ہی قیمتی کام ہیں۔ ان میں سے کچھ سے ہم تفصیلی طور سے مطلع ہیں، ان میں سے کچھ سے کلی طور پر؛ انکی تفصیلات معلوم نہیں؛ وہاں، اس راہداری میں، انہوں نے ان میں سے ہر ایک کی کاغذ پر تشریح بیان کی تھی، اور میں نے ان پر ایک نظر ڈالی۔ یہ بہت قیمتی ہیں۔ تاہم، میرے پاس قانون سازی کے مسائل پر چند تاکیدات ہیں جو میں بیان کروں گا۔

ایک تاکید یہ ہے کہ قانون کو جامع اور طویل المدتی نقطہ نظر کے ساتھ بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ہر چھوٹی یا بڑی چیز سے جس سے ہمارا سامنا ہوتا ہے نمٹنا شروع کردیں اور ایک قانون بنانے کے لیے تگ و دو شروع کردیں کہ حکومت کے پاس بھی اس کا کوئی بل نہیں ہو اور ہمیں نتیجتا منصوبہ پیش کرنا ہو - جس کے بارے میں بات کروں گا - یہ قوانین میں کثرت کا باعث بنے گا۔ قوانین کی انباشت کا باعث، قانون جمع ہونے کا باعث بنے گا جس میں قانون کے وہی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ ہمیں ان قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ نے ان دو سالوں میں قانون پر نظر ثانی کے میدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یعنی قانون کی انباشت مطلوبہ چیز نہیں ہے۔ جب پارلیمنٹ قانون بنانا چاہتی ہے تو اسے ایک طویل مدتی نگاہ کے ساتھ، جامع نگاہ کے ساتھ اسے نافذ کرنا چاہیے۔ ہر چھوٹا مسئلہ پر قانون بنانا مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک مسئلہ۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایسے قوانین کو ترجیح دی جانی چاہیے جو مجموعی پالیسی سے منتج ہوتے ہیں۔ مجموعی پالیسی آئین کے مطابق، تینوں اداروں کے سربراہوں تک، یعنی تینوں اداروں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ اسلامی نظام کی یہ عمومی پالیسیاں حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ تک پہنچائی جاتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے مطابق قانون سازی کرے۔ ان پالیسیوں کی مخالف قانون سازی نہ کرے۔ یہ بہت اہم ہے؛ آپ کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ اب، مثال کے طور پر، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انتخابات سے متعلق پالیسیاں - جن کا میرے خیال میں جناب قالیباف نے بھی ذکر کیا ہے - کا اعلان ہوئے پانچ یا چھ سال ہو چکے ہیں، (13) [لیکن] ابھی تک قانون نہیں بن سکا ہے۔ ابھی تک مسودہ بھی تیار نہیں کیا گیا ہے؛ یہ انجام دیا جانا ہے۔ یا قانون سازی کی پالیسیاں (14) جس کی پالیسیاں بھی موجود ہیں؛ ان پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا ہے، اس پر کام کیا گیا، اس پر غور و فکر ہوئی۔ میری رائے میں، اس کا اعلان ہوئے دو سال، تین سال ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان کی بنیاد پر کوئی قانون پاس نہیں ہوا ہے۔ یہ ہماری تاکیدات میں سے ایک ہے۔

ایک اور تجویز منصوبے سے متعلق ہے۔ آپ کو ایک خلا محسوس ہوتا ہے، حکومت نے بل نہیں دیا یا اسکے پاس نہیں ہے یا نہیں دے رہی، جیسے کہ ہوا ہے؛ ایک بار، جب چند سال پہلے، کچھ عرصے پارلیمنٹ کی تشکیل کو گزر چکا تھا، میرے پاس آئے، شکایت کی، اور کہا کہ حکومت ہمیں کوئی بل نہیں دیتی۔ پانچ چھ ماہ میں کوئی بل نہیں آیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ کے فرائض میں سے ایک یہی ہے؛ جب کوئی ضروری مسئلہ ہو، اور کوئی بل نہ ہو، تو بل پارلیمنٹ کو تیار کرنا چاہیے۔ یہ پارلیمنٹ کے حقوق اور پارلیمنٹ کے فرائض دونوں میں سے ہے کہ اسکو منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔ بلاشبہ، آئین میں درج شرائط کے ساتھ، لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اس منصوبوں کو بڑھنے نہ دیں؛ مراد یہ کہ بہت سارے منصوبے تیار کیے جائیں، دیے جائیں۔ یہ غلط ہے کہ میں نے سنا، مجھے اطلاع دی گئی- اب مجھے جناب قالیباف سے پوچھنے کا موقع نہیں ملا - کہ اس پارلیمنٹ میں بھی، پچھلی پارلیمنٹ سے بھی زیادہ، منصوبے تیار اور پیش کئے گئے ہیں؛ یہ کوئی مناسب کام نہیں ہے۔ جب آپ کوئی منصوبہ تیار کرتے ہیں، تو منصوبہ منظور ہو کر حکومت کو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کہتی ہے کہ ہم اس منصوبے کو نافذ نہیں کر سکتے اور کسی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کر سکتے ۔ [اس معاملے میں] ذمہ داری معلق ہو جاتی ہے۔ اب نہیں معلوم ہوتا کہ حکومت کو جوابدہ ہونا ہے کہ آپ نے اس قانون پر عمل کیوں نہیں کیا، یا پارلیمنٹ کو یہ بتانا ہے کہ آپ نے یہ قانون کیوں پاس کیا جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں تھا۔ یہ مسئلہ ہے؛ ذمہ داری کا معلق ہونا۔

یا منصوبوں کی زیادتی، ان منصوبوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثر نئی اسمبلیاں جو بنتی ہیں وہ پچھلی پارلیمنٹ کے باقی ماندہ منصوبوں کو ترک کردیتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہنگامی منصوبے؛ انہوں نے ہنگامی منصوبے یا شاید کچھ غیر معمولی ہنگامی منصوبوں کو ایک طرف رکھ دیا! یعنی جو نئی پارلیمنٹ آتی ہے وہ ان منصوبوں کو ترک کر دیتی ہے جس پر پچھلی پارلیمنٹ بیٹھی تھی، جس کے بارے میں انھوں نے غور و فکر کی تھی، اس پر کام کیا تھا، منظوری دی تھی، یا منظوری کے عمل میں تھا۔ یہ ساری محنت، یہ ساری سوچ، یہ سب وقت برباد ہوجاتا ہے۔ پھر جب منصوبے بڑھتے ہیں تو ماہرین کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ ان تمام منصوبوں پر تفصیلی ماہرانہ کام کرسکیں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک مسئلہ بجٹ کا مسئلہ ہے جس کا ذکر جناب قالیباف نے ابھی کیا ہے۔ نہیں، بجٹ میں مناسب ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ یعنی بجٹ کی غلط ترکیب کا مسئلہ جس میں سے کچھ کا تعلق حکومت سے ہے اور کچھ کا پارلیمنٹ سے، اسکی اصلاح نہیں ہوئی ہے۔ یقیناً، مجھے یہ بات حکومت سے مزید کہنی ہے، اور میں نے یہ کہا ہے اور میں دوبارہ کہوں گا، انشاء اللہ۔ لیکن آپ کو بھی ایک کردار ادا کرنا ہے۔ بجٹ کے بارے میں پارلیمنٹ جو کچھ کر سکتی ہے ان میں سے ایک بجٹ خسارے میں اضافے کا نہ ہونا ہے۔ یعنی وہ اخراجات جن کا تعین مساوی آمدنی کی درست تخمین کے بغیر کیا جاتا ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ آمدنی اور یہ ذریعہ موجود ہے یا نہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بجٹ کے وسائل خیالی وسائل ہوتے ہیں، حقیقی وسائل نہیں۔ خیالی وسائل کے مقابلے پر، حقیقی اخراجات ہوتے ہیں۔ اس سے بجٹ خسارہ بڑھتا ہے۔ بجٹ خسارہ ام الخبائث ہے۔ ہمارے بہت سے بڑے معاشی مسائل بجٹ خسارے کی وجہ سے ہیں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک مسئلہ پارلیمنٹ کی مہارتی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔ میں نے دو تین سال پہلے ریسرچ سنٹر کے بارے میں بات کی تھی اور میں نے اس کی تعریف کی تھی۔(15) ریسرچ سنٹر بہت اہم ہے۔ تحقیقی مرکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں۔ یعنی ماہرین کا کام بھرپور طریقے سے ہونا چاہیے، پارلیمانی ریسرچ سینٹر اور خصوصی کمیشن دونوں میں؛ دوسرے لفظوں میں پارلیمنٹ کی مہارت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ مجھے اب زیادہ یاد نہیں لیکن تحقیقی مرکز کی حالیہ کارکردگی رپورٹیں زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔

ایک اہم مسئلہ ساتواں ترقیاتی منصوبہ ہے جسے اب آپ کو ترتیب دینا ہے۔ ساتواں منصوبہ یعنی اگلے پانچ سالوں کے لیے ملک کے کام کا تعین کریں؛ ساتواں منصوبہ ایک سال پیچھے رہ گیا ہے، یعنی اسے پچھلے سال ختم ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پانچ سالہ منصوبوں میں اور عام تعبیر کے مطابق ترقیاتی منصوبوں میں - جس میں ترقی کے لفظ سے میں بہت زیادہ متفق نہیں ہوں، لیکن اب یہ ایک اصطلاح ہے - کلی باتیں کرنا بے فائدہ ہے۔ کبھی کبھی ان ترقیاتی پروگراموں میں ایسی مجمل باتیں ہوتی ہے کہ کسی بھی سلیقے کے ساتھ کوئی بھی عمل اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کو واضح طور پر راستہ معین کرنا چاہیے، اور اسے ملک کے انتظامی اداروں کے سامنے رکھنا چاہیے، اسے ملک کے تمام دخیل عناصر کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں ساتویں منصوبے کو مسائل محور بنائیں۔ یعنی ساتویں پلان میں جن چیزوں کو اہمیت حاصل ہے ان میں سے ایک مسائل محور ہونا ہے۔

بلاشبہ یہ بھی حکومت کے فرائض میں سے ہے، یعنی حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہم حکومت کو بھی یاد دہانی کرائیں گے انشاء اللہ آپ بھی توجہ فرمائیں۔ فرض کریں، مثال کے طور پر، معدنیات کا مسئلہ؛ ہم معدنیات کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے اہم مسائل میں سے ایک معدنیات کا مسئلہ ہے۔ اس ملک میں بہت سے قیمتی معدنیات ہیں اور ملک ان کی آمدنی سے، ان کے فوائد سے سو فیصد نہیں کہتا لیکن نوے فیصد محروم ہے۔ کچھ معدنیات اپنی اصلی حالت میں پڑی رہتی ہیں، کچھ اضافی قدر کے بغیر باہر بھیج دی جاتی ہیں۔ معدنیات کی مصنوعات پر کچھ کام کیے بغیر خام حالت میں باہر بھیج دی جاتی ہیں، مثال کے طور پر، اب معدنیات؛ یہ ملک میں ایک مسئلہ ہے، معدنیات کے مسئلے کے لیے ایک دستاویز تیار کریں؛ مثال کے طور پر معدنیات سے متعلق دستاویز، صنعتوں سے متعلق دستاویز۔ ملک کے صنعتکار حضرات جو یہاں جمع ہوئے تھے، (16) میں نے ان سے کہا کہ ملک کی صنعتی دستاویز کیا ہے؟ ہم اگلے چند سالوں میں صنعت میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ وہ دستاویز کہاں ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ صنعت کے لیے ہماری حکمت عملی کیا ہے؟ ہمارے پاس ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے۔ زراعت بھی ایسی ہی ہے۔ ان دستاویزات کو ملک کے وسائل کے مطابق، مختلف مسائل، زمین کے انتظام کے مسائل کے مطابق تیار کیا جانا چاہیے۔ جب زمین کے انتظام پر غور نہیں کیا جاتا ہے، تو ہم مثال کے طور پر ایسی جگہ پر فیکٹری لگا دیتے کہ جہاں ہمیں نہیں لگانا چاہیے تھا۔ [یا] ہم فلاں فلاں فصل کو ایسے مقام پر کاشت کرتے ہیں جہاں ہمیں اس کی کاشت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یہ ایک مسئلہ ہے؛ [پھر] ہماری معدنیات میں حالت ایسی ہی ہوگی۔ لہٰذا، پانچ سالہ منصوبے سے مستفید ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے مسئلہ محور بنایا جائے۔ یہ دستاویز علمی بھی ہو اور زمین کے مسائل پر بھی متوجہ ہو، اور ملک کی وسائل کے مطابق تیار کی جائے۔

ہماری ایک اور تاکید ذرائع ابلاغ میں مناسب تشریح کا مسئلہ ہے۔ اب آپ کہتے ہیں کہ قومی میڈیا، بہت اچھا، قومی میڈیا کا ایک فریضہ ہے، کبھی انجام دیتا ہے، ممکن ہے کبھی انجام نہ دے، لیکن آپ کا بھی فریضہ ہے۔ آپ قانون بناتے ہیں، آپ اس پر کام کرتے ہیں، آپ اس کا مطالعہ کرتے ہیں، آپ اسے شور و غل مچا کر پاس کرتے ہیں، لیکن آپ لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ کیا ہے اور کیوں پاس ہوا؟ جب آپ وضاحت نہیں کرتے ہیں، تو کچھ لوگوں کو اس قانون کے خلاف ماحول بنانے، شور مچانے، ہنگامہ آرائی کرنے، اور آپ کو اس قانون کو منظور کرنے پر پشیمان کردینے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ مین قوانین کی تشریح ان کاموں میں سے ایک ہے جو آپ کو، پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے۔

ایک اور مسئلہ جس میں مجھے دلچسپی ہے وہ ہے احتساب عدالت کا مسئلہ، جو کہ خدا کا شکر ہے، حالیہ برسوں میں احتساب عدالت چست، فعال اور بہتر ہو گئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ کی تخصیص کی یہ رپورٹیں بہت جلد اور اچھی طرح سے وقت پر انجام پاتی ہیں، جو کہ ایک بہت اچھی بات ہے اور حال ہی میں سرکاری کمپنیوں کی بھی جانچ پڑتال لے رہی ہیں۔ یہ جاری رہنا چاہیے۔ اب عدالت کی جانب سے کچھ سرکاری کمپنیوں کی بررسی کیا جا رہا ہے، اگر اس کے دائرہ کار کو تمام سرکاری کمپنیوں تک بڑھایا جائے - یقیناً اب مجھے ایک خیال آیا ہے جو میں کہہ رہا ہوں، اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے - اور اگر آپ ایسا کر سکتے ہیں، میری رائے میں، یہ آپ کی پارلیمنٹ کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔

میں ایک پرزور تاکید کرتا چلوں؛ البتہ، جناب قالیباف، جب ہم اندر آرہے تھے تو مجھے کہا کہ پچھلے سالوں میں سے ایک سال میں آپ نے حکام کی تقرریوں میں مداخلت کرنے کے بارے میں کچھ کہا تھا(17) جس سے ہمارے کچھ ساتھی ناراض ہوئے۔ میں آپ کی ناراضگی بالکل نہیں چاہتا، لیکن میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں، میں آپ کا فائدہ چاہتا ہوں؛ آپ کو واقعی تقرریوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے! ہاں، انہوں نے کہا کہ کچھ دوستوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ نہیں [ایسا نہیں ہونا چاہیے]؛ فرض کریں کہ جب آپ کسی متعقلہ وزیر کو، کوئی خاص عہدیدار، کوئی خاص گورنر، یا کوئی ناظم وغیرہ، مثلاً تجویز کرتے ہیں، یا شاید، خدا نہ کرے، آپ اس پر دباؤ ڈالتے ہیں، تو یہ ہو گا کہ اگر وہ افسر خراب عمل کرے، تو پتہ نہیں ہوگا کہ کس کا گریبان پکڑا جائے، عوام کو پتہ نہیں ہوگا، نہ عدلیہ کو معلوم ہوگا کہ اس وزیر کا گریبان پکڑا جائے، کہ اسے آپ نے کیوں لگایا، یا اس نمائندے کا گریبان پکڑا جائے کہ اس نے دباؤ کیوں ڈالا؟ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آئین کے اہم مسائل میں سے ایک "اختیارات کی علیحدگی" کا مسئلہ ہے۔ یعنی آپ اسے اپنا کام کرنے دیں، آپ اسے اپنا کام کرنے دیں۔ [اگر] کوئی مسئلہ ہے تو، مسئلہ کو صحیح طریقے سے اٹھائیں. یقیناً حکومتوں کو میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ میں نے پہلے ہمیشہ تاکید کی ہے، اب بھی میں عوامی نمائندوں کی رائے سے مستفید ہونے کی تاکید کرتا ہوں. وہ اس شہر کا نمائندہ ہے، وہ اس شہر کے لوگوں کا نمائندہ ہے۔ یعنی، وہ یہاں کو جانتا ہے، وہ یہاں کے مسائل کو جانتا ہے، [اس لیے] نمائندے سے مشورہ کرنا اچھا ہے۔ حکومت کو یہ کرنا چاہے، آپ کو بھی بدلے میں یہ کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ اہم ہے۔

ایک مسئلہ لوگوں کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ لوگوں کی ساکھ کا خیال رکھیں۔ کبھی کبھی انسان دیکھتا ہے کہ پارلیمنٹ میں تقریر یا خطاب میں - پارلیمنٹ کا اسٹیج، مثال کے طور پر، کسی ویب سائٹ سے یا سائبر اسپیس سے فرق کرتا ہے؛ یہ ذمہ داری کا ایک اہم مرکز ہے - بعض اوقات یہاں سے کسی شخص کے بارے میں کچھ کہا جاتا ہے جس پر تحقیق نہیں کی گئی ہو! اس [کام] کے میل کو مٹایا نہیں جا سکتا؛ آپ اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے؟ اگر بعد میں یہ ثابت ہو جائے کہ مثال کے طور پر یہ بیان غلط تھا تو کوئی کس طرح اس کی تلافی کرسکے گا؟ یہ بہت مشکل ہے؛ یقیناً اس کی تلافی ہو سکتی ہے لیکن یہ بہت مشکل ہے۔ ہوشیار رہیں ایسا نہ کریں۔

میری آخری عرائض یہ ہیں کہ پیارے بھائیو، پیاری بہنو! آپ ذمہ دار ہیں؛ ایک شخص جتنا زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑانا چاہیے اور درخواست کرنی چاہیے۔ عبادت، دعا، توسل، خدا سے تقاضا، قرآن کی تلاوت کو نہ بھولیں؛ یہ ایک ضروری چیز ہے، یہ آپ کی مدد کرے گی، یہ عمل آپ کو خدا تعالی کے سامنے اور خدا کے بندوں کے سامنے سرخرو کرے گا۔ خدائے بزرگ و برتر سے مدد مانگیں، خدائے بزرگ و برتر سے دعا کریں، اماموں کو شفیع قرار دیں، ائمہ معصومین علیہم السلام کے ذریعہ خدائے بزرگ و برتر سے سوال کریں، مانگیں۔ خدا آپکو برکت دے گا۔ اس سے آپ کے کام میں برکت بڑھے گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے گا۔

پروردگار! بحق محمد اور آل محمد ہمیں ہمارے فرائض سے آشنا کر۔ ہمیں اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگار! یہ الفاظ جو ہم نے کہے اور سنے ہیں، اس کہنے اور سننے کو اپنے لیے اور اپنے راستے میں قرار دے اور اسے ہمارے کام کی ترقی کا ذریعہ بنا دے۔ پروردگار! عظیم امام خمینی رح کی پاکیزہ روح اور عزیز شہداء کی پاکیزہ روحوں اور اس حالیہ شہید (18) کی پاکیزہ روح کو جو میانہ سے تھا (رضوان الله تعالی علیه) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محشور فرما اور ان کے درجات کو روز بروز بلند کر۔
والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

(1 ) اس ملاقات کے آغاز میں مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر جناب ڈاکٹر محمد باقر قالیباف نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2)  گوریلا جنگوں کا ہیڈکوارٹر

(3)  سورۂ صف، آيات 10 سے 13، اے ایمان لانے والو! کیا میں تمھیں وہ تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرو کہ یہ (ایثار) تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور تمھیں ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر عطا فرمائے گا اور یہ خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ اور وہ دوسری چیز، جسے تم پسند کرتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور جلد ہی حاصل ہو جانے والی فتح ...۔

(4)  سورۂ آل عمران، آیات 194 اور 195، اے پروردگار! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے کیے ہیں، اُن کو ہمارے سلسلے میں پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے۔ تو ان کے رب نے جواب میں فرمایا: "میں تم میں سے کسی کا بھی عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ...۔

(5)  مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، جلد 2، صفحہ 844، (دعائے کمیل) اے رب! اپنی خدمت کے لیے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لیے میرے ارادہٴ دل کو مستحکم بنا دے۔ اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔ مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ہوں۔

(6)  فردوسی کے شاہنامے میں رستم اور اسفندیار کی جنگ کی طرف اشارہ کہ اسفندیار کا واحد کمزور پہلو اس کی آنکھیں تھیں، کمزور پہلو کی طرف اشارہ

(7)  سورۂ ہود، آيت 112

(8)  المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 6، صفحہ 388 (سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔)

(9)  گيارہویں پارلیمنٹ کے اراکین کی خدمات کی ایک نمائش، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ امام بارگاہ میں منعقد ہوئي۔

(10) سورۂ احزاب، آيت 72، ہم نے اس (الہی) امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا ...۔

(11)       حضرت فاطمہ زہرا کے یوم ولادت باسعادت پر مدح اہلبیت کرنے والے بعض مداحوں سے ملاقات میں تقریر، 23/1/2022

(12)       سورۂ انعام، آيت 116، اور اے پیغمبر! اگر آپ ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے، جو اس سرزمین میں بستے ہیں، تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔

(13)       15/10/2016

(14)       28/9/2016

(15)       مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے ورچوئل ملاقات میں تقریر، 12/7/2020

(16)       کاروباریوں اور اقتصادی میدان میں سرگرم افراد سے ملاقات کی طرف اشارہ، 31/12/2021

(17)       مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے ورچوئل ملاقات میں تقریر، 27/5/2021

(18)       کرنل حسن صیاد خدائي، اتوار، 22/5/2022  کو اپنے گھر کے سامنے انقلاب مخالف اور عالمی سامراج کے دہشت گرد پٹھوؤں کی فائرنگ میں پانچ گولیاں کھا کر درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔