ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

امام خمینی رح کی برسی سے مکمل خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم(1)

 و الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و ‏نبینا ابا القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ ‏المھدیین العصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.

سب سے پہلے میں تمام معزز سامعین، عزیز بھائیوں، بہنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس باشکوہ اجتماع میں شرکت کی۔ انشاء اللہ آپ کامیاب و کامران رہیں۔ ہمارا دل امام خمینی رح کو یاد کر رہا تھا اور اس گرمجوش جلسے کو جو ہر سال حرم امام خمینی رح کے گرد منعقد ہوتا تھا۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس سال پھر یہ پُرتپاک اور بامعنی اجتماع منعقد ہوا۔ عظیم امام خمیمی رح اسلامی جمہوریہ کی روح ہیں؛ اگر اس روح کو اسلامی جمہوریہ سے لے لیا گیا اور نظر انداز کیا گیا تو صرف ایک نوشتہ دیوار کے طور پر رہ جائے گا۔

میری آج کی گفتگو ہمارے عزیز اور عظیم امام رح کی شخصیت کے پہلوؤں کے بارے میں ہے۔ بلاشبہ گزشتہ سالوں میں امام کی شخصیت کے بعض پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے - ہم نے بات کی ہے، دوسروں نے بات کی ہے - لیکن ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے:
هر چه گویم عشق را شرح و بیان (جتنی بھی اپنے عشق کی مدح کروں)
چون به عشق آیم خجل باشم از آن (جیسے ہی اس تک پہنچتا ہوں شرمندہ ہوجاتا ہوں) (2)

ہمارے عظیم امام کی سیرت کے بہت سے پہلو ابھی تک نامعلوم ہیں۔ درحقیقت انقلاب کی موجودہ نسل بالخصوص ہماری نوجوان نسل، عزیز امام کو صحیح طرح سے نہیں جانتی، انہیں نہیں سمجھتی، امام رح کی عظمت کو نہیں جانتی؛ امام رح کا موازنہ اس حقیر ناچیز سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ فاصلہ بہت بڑا ہے، فاصلہ بےحد ہے۔ امام رح حقیقی معنوں میں ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔

امام کو پہچاننا نوجوان نسل کے لیے اہم ہے کیونکہ اس سے انہیں ملک کے مستقبل کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں مدد ملتی ہے۔ امام رح صرف کل کے امام نہیں تھے۔ آج کے بھی امام ہیں، کل کے بھی امام تھے۔ ہماری نوجوان اور باہوش نسل، جسے اس انقلاب کے دوسرے مرحلے کی قومی اور انقلابی ذمہ داری قبول کرنی ہے اور اس ملک کے مستقبل کو سنبھالنا ہے، اسے ایک حقیقی سافٹ ویئر کی ضرورت ہے۔ انقلاب کے راستے پر درست طریقے چلنے کے قابل ہونے کے لیے، وہ راہ جو ایران اور ایرانی قوم کو بلندیوں پر لے جائے گی، اسے ایک قابل اعتماد اور جامع سافٹ ویئر کی ضرورت ہے جو اس کی مدد کر سکے۔ یہ سافٹ وئیر، جو اس کی رفتار بڑھانے والا ہو، مددگار ہو اور بعض اوقات تبدیلی کا باعث بھی ہو، امام خمینی رح کی تعلیمات ہے۔ وہ تعلیمات جو امام کی تقاریر اور امام کے طرز عمل دونوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔

امام رح کے بارے میں سب سے پہلا نکتہ انقلابات کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کی قیادت کا معاملہ ہے جس کی وضاحت میں بعد میں کروں گا۔

ہم انقلابات کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب کیوں کہتے ہیں؟ انقلابات کی تاریخ میں بہت سے چھوٹے بڑے انقلابات آئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور 18ویں صدی میں 1789 کا فرانسیسی انقلاب ہے، اس کے بعد 20ویں صدی میں 1917 کا سوویت انقلاب؛ یہ دو انقلاب انقلابات کی تاریخ میں سب سے مشہور عظیم انقلاب ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب ان دونوں سے بڑا ہے۔ کیوں؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن کے حوالے سے میں ایک بنیادی اور اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ انقلاب فرانس اور سوویت انقلاب یہ دونوں انقلاب عوام کے توسط سے کامیاب ہوئے، عوام نے انہیں فتح تک پہنچایا، لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد عوام بے معنی ہو گئے، عوام کو بے دخل کر دیا گیا۔ عوام اس انقلاب کے تسلسل میں حصہ نہیں لے سکتے تھے جسے انہوں نے اپنے جسم و جان سے اور سڑکوں پر اپنی موجودگی سے تشکیل دیا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں انقلابات اپنے اصل عوامی راستے سے بہت جلد ہٹ گئے۔ انقلاب فرانس کے تقریباً بارہ یا تیرہ سال بعد - بادشاہت کے خلاف آنے والا انقلاب، سلطنت کے خلاف آنے والا انقلاب۔ فرانس میں دوبارہ بادشاہت آگئی، نپولین برسراقتدار آیا، تخت نشین ہوا، بادشاہت واپس آگئی؛ وہ تقریباً پندرہ سال تک اقتدار میں رہا، پھر برطرف کر دیا گیا، اور وہی خاندان جن کے خلاف انقلاب فرانس قائم ہوا تھا، نے واپس آکر فرانسیسی امور کا انتظام سنبھال لیا۔ بوربن خاندان؛ وہ پھر آگئے۔ جب لوگ میدان میں نہیں ہوتے تو یہی ہوتا ہے۔ سوویت انقلاب کے پہلے بارہ سال بھی پورے نہیں ہوئے۔ لوگوں نے انقلاب کو برپا کیا، لیکن چند سال بعد، سٹالن اور اس کے جانشینوں نے سوویت ریاستوں پر - سابق سوویت یونین بننے والے ممالک پر ایسا تسلط، آمریت مسلط کر دی کہ ان سے پہلے کی بادشاہتوں نے یہ استبداد نہیں روا رکھا تھا۔ اس میں بھی لوگ بے معنی اور کنارہ کش کردئیے گئے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ میں ایسا نہیں یوا۔

اسلامی انقلاب عوام کی موجودگی اور عوام کے جسم و جان سے کامیاب ہوا لیکن عوام اس سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ انقلاب کی فتح کے پچاس دن، دو ماہ سے بھی کم عرصے بعد، ملک گیر ریفرنڈم ہوا اور عوام نے ہی نظام حکومت کا انتخاب کیا۔ عوام کو اختیار دیا گیا۔ عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے آزادانہ انتخابات کے ذریعے نظام حکومت یعنی "اسلامی جمہوریہ" کا انتخاب کیا۔ انقلاب کی فتح کے تقریباً ایک سال بعد، پہلا صدر عوامی ووٹوں سے منتخب ہوا۔ چند ماہ بعد، اسلامی مشاورتی اسمبلی، [مقننہ]، عوامی انتخابات کے ذریعے تشکیل دی گئی۔ اس دن سے لے کر آج تک، جب تینتالیس یا چوالیس سال گزر چکے ہیں، اس ملک میں تقریباً پچاس انتخابات ہوئے ہیں۔ لوگ میدان میں داخل ہوئے، حاضر ہوئے، میدان میں موجود ہیں، انتخاب کرتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں؛ اس انقلاب کی عظمت یہ ہے۔ امام رح ایسے انقلاب کے رہنما تھے۔

بلاشبہ ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ انقلاب کی عظمت کا ایک پہلو ہے۔ اس انقلاب، اسلامی انقلاب کو دوسرے انقلابات سے بالکل مختلف بنانے والے اور بھی پہلو ہیں، جن میں سے ایک اس انقلاب میں روحانیت کا پہلو ہے۔ پچھلے چھوٹے اور بڑے انقلابات میں، فرانسیسی اور روسی دونوں انقلابات اور بیسویں اور انیسویں صدی میں ان سالوں کے دوران رونما ہونے والے چھوٹے انقلابات میں روحانیت کا فقدان تھا۔ انسان کا روحانی پہلو جو کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، بالکل غائب اور نظر انداز ہو چکا تھا اور کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اسلامی انقلاب ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کے مادی پہلوؤں اور انسان کے روحانی پہلوؤں پر توجہ دیتا ہے اور اس پر کام کیا ہے۔

امام علیہ السلام اس انقلاب کے قائد اور اس تحریک کے قائد تھے جس نے اس انقلاب کو جنم دیا۔ "قائد تحریک و انقلاب" کا کیا مطلب ہے؟ یہیں سے کام کی عظمت سامنے آتی ہے۔ بلاشبہ، انقلاب کو لوگوں نے کامیابی تک پہنچایا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اگر عوام اپنے جسم و جان کے ساتھ، اپنی موجودگی کے ساتھ، اپنی قربانیوں کے ساتھ، اپنی شہادت کے ساتھ میدان میں نہ اترتے تو انقلاب کی کامیابی نہ ہوتی۔ عوام نے انقلاب قائم کیا لیکن وہ طاقتور ہاتھ کون تھا جو اس اقیانوس میں موجیں ایجاد کررہا تھا؟ یہ اہم ہے. وہ طاقتور ہاتھ، وہ فولادی شخصیت، وہ مطمئن دل، وہ ذوالفقار جیسی زبان جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں کو میدان میں لانے، انہیں میدان میں اتارنے، ان سے ناامیدی اور مایوسی کو دور کرنے کے قابل تھی۔ انہیں تحریک کے راستے کی تعلیم دی۔ وہ عظیم امام تھے وہ امام خمینی رح تھے!

امام لوگوں کو میدان میں لائے، انہیں راہ حل دکھایا، انہیں میدان میں باقی رکھا، ان سے مایوسی اور شک کو دور کیا۔ اس ملک میں کوئی اور ایسا نہیں کر سکا۔ ہم سیاسی شخصیات، روحانی شخصیات، بہت سے لوگوں کو قریب سے، کچھ کو دور سے جانتے تھے۔ کوئی بھی اس قابل نہیں تھا کہ اس عظیم کام کو، اس بھاری بوجھ کو، اٹھا سکے اور منزل تک لے جا سکے۔ یہ خاص طور پر عظیم امام رح کا کام تھا۔ وہی تھے جو اس کام کو کرنے کے قابل ہوئے۔

امام نے مختلف اوقات میں "میدانِ جنگ" کی بھی نشاندہی کی، لوگوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ میدان جنگ کہاں ہے؛ مختلف مراحل میں اس سے متناسب؛ تحریک کے دوران ایک طرح سے، انقلاب کے خونی دنوں کی گرمی میں ایک طرح سے، جب حکومت اپنی آخری سانسوں میں امریکہ کی مدد سے تہران میں فوجی حکومت قائم کرنے کی فکر میں تھی، لوگوں کو ان کے گھروں میں بھیجنے اور لوگوں کو خانہ نشین کرکے اس کام کی جڑیں یکسر ختم کرنے کا سوچ رہی تھی، امام رح کو خدا کی طرف سے الہام ہوا - واقعی خدا کی طرف سے الہام ہوا امام نے خود بعد میں یہ کہا - انھوں نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے کو کہا۔ اس وقت بہت سے انقلابی سیاست دانوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ لوگوں کے لیے خطرناک ہے۔ امام نے کہا نہیں، اعلان کیا کہ لوگ سڑکوں پر آجائیں۔ یہ تھا میدانِ جنگ کا تعین؛ معلوم ہوا کہ اس گھڑی، اس دن لوگوں کا گھروں سے سڑکوں پر آنا جدوجہد ہے۔ امام رح نے اس طرح سے میدان کو معین کیا۔

اوائل کے  مہینوں میں امام رح نے میدان جنگ کا تعین کی۔ انقلاب کے دوسرے مہینے میں میدان جنگ تھا کہ ریفرنڈم کرایا جائے اور اسلامی حکومت کی نوعیت پر ووٹ دیا جائے اور ضد انقلاب کا مقابلہ کیا جائے۔

ایک موقع پر ہاوی کا مسئلہ؛ پاوہ کے معاملے میں اور وہاں انقلابی اور اسلامی عسکری قوتوں کے محاصرے کے مسئلہ میں، امام رح نے سب کو وہاں جانے کا حکم دیا۔ میں وہ گھڑی اور وہ شام نہیں بھولوں گا۔ تہران کا ایک عجیب منظر تھا۔ سڑکوں پر ہر کوئی پاوہ جانا چاہتا تھا، وہ گاڑی کی تلاش میں تھے، وہ پاوے کی طرف جانے کے لیے گاڑی کی تلاش میں تھے، جس کہ امام رح نے کہا تھا۔ وہ میدان جنگ کی نشاندہی کرتے تھے۔

مسلط کردہ جنگ کے دوران، ایک طرح سے؛ ہمدان ایئر بیس پر امریکی بغاوت کا مقابلہ۔ یہ واقعہ بیان کرنا بری نہیں ہے۔ جب ایک فضائیہ کے نوجوان، باضمیر، متدین پائلٹ افسر نے آدھی رات کو سحر کے وقت مجھے اطلاع دی کہ بغاوت ہونے والی ہے، اور ہم نے مختلف اداروں کو باخبر کیا اور تیاریاں کی گئیں، اور مرحوم جناب ہاشمی اور میں امام رح کی خدمت میں گئے، ہمیں فکر ہوئی کہ امام کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہم نے انھیں جماران والا گھر چھوڑنے کا مشورہ دیا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ انہوں کہا کہ میں یہاں سے نہیں جانے والا، میں یہیں ہوں لیکن آپ جائیں فلاں جگہ کو محفوظ کریں، ایک مخصوص جگہ کا نام لیا - جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ کہا اسکو محفوظ کریں، میدان کی نشاندہی کرتے تھے۔

مقدس دفاع کے دوران، صدام سے نمٹنے میں، جنگ بندی کی منظوری کے بعد [بھی]۔ آپ نے جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری کے بعد امام رح کے اطلاعیہ کو دیکھا، آپ دیکھتے ہیں کہ امام نے معاہدے کی منظوری کے بعد لوگوں کی ذمہ داریوں کا تعین کیا تھا۔ اپنے جانے کے بعد لوگوں کیلئے میدان جنگ کی وضاحت کیوں اور بیان کیا۔ یہ وصیتنامہ، یہ بیانات، عظیم امام رح کی زندگی کے آخری سال کے اہم بیانات، یہ سب اپنے بعد کے لیے میدان جنگ کی نشاندہی ہے۔

انقلاب کی قیادت یعنی یہ۔ انقلاب کی رہبری عظیم امام کے بارے میں ایک نہایت گہرا اور معنی خیز لفظ ہے۔ اب اس عظیم رہنما کی شخصیت کا جائزہ لینے کے بارے میں، ہم دونوں ان کی ذاتی خصوصیات کے بارے میں بات کر سکتے ہیں اور ہم ان کے مکتب کے بارے میں بات کر سکتے ہیں، جو کہ یقیناً طویل اور مفصل بحثیں ہیں۔ اس سلسلے میں میں بہت مختصراً کچھ کہنے کی کوشش کروں گا۔
ذاتی خصوصیات کے لحاظ سے عظیم امام حقیقی معنوں میں ایک ممتاز شخصیت تھے۔ واقعی ممتاز تھے۔ ان کی ذاتی خصوصیات ایسی خصوصیات تھیں جو مجموعی طور پر اور سب ایک ساتھ کم ہی کسی شخصیت میں پیدا ہو سکتی تھیں، اور ہم کسی کو نہیں جانتے میرا مطلب ہے، واقعی میں تاریخ میں کسی کو نہیں جانتا جس میں یہ تمام خصوصیات ایک ساتھ موجود ہوں۔

سب سے پہلے، وہ پاک اور متقی تھے ۔ امام ایک ایسے شخص تھے جو حقیقی طور پر متقی، پرہیزگار اور پاکیزہ تھے۔

دوم، وہ ایک روحانی اور عرفانی کیفیات کے حامل فرد تھے۔ وہ روحانیت کے حامل تھے، وہ عرفانی کیفیات کے حامل تھے، وہ سحر کے وقت گریہ کرنے والے تھے۔ جناب حاج احمد آقا مرحوم نے مجھ سے کہا کہ سحر کے وقت جب امام اٹھتے ہیں اور دعا و نماز میں روتے ہیں تو ان کیلئے یہ عام رومال کافی نہیں ہوتا، ہم ان کے لیے ایک تولیہ رکھتے ہیں۔ ہاتھ اور چہرے کو خشک کرنے والا تولیہ آنسوؤں کے لیے! وہ ان روحانیات کے حامل تھے۔

وہ لطیف روح کے حامل تھے۔ امام کی یہ روحانی کتابیں، جیسے نماز کے آداب، جیسے عقل و جہل کی حدیث کی تشریح، امام رح نے اپنی جوانی یا اوائل ادھیڑ عمر میں لکھی تھیں - تقریباً چالیس سال کی عمر میں؛ وہ جوانی سے ہی ایسے تھے۔

امام اپنے اندر حماسہ اور عرفان کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ وہ حماسہ ساز بھی تھے اور علم اور روحانیت کے حامل بھی۔

وہ حقیقی معنوں میں اخلاقی لحاظ سے شجاع تھا۔ امام رح سے نقل قول ہے، میں نے نہیں سنا ہے کہ امام رح نے فرمایا: "خدا کی قسم میں ابھی تک نہیں ڈرا"، لیکن جو کچھ میں نے امام رح سے دیکھا اور سنا وہ یہ تھا کہ [ایک مرتبہ] میں ایک مسئلہ کے بارے میں امام رح سے گفتگو کر رہا تھا  - ایک مسئلہ تھا، میں انہیں سمجھا رہا تھا اور میرے پاس ایک مشورہ تھا - بات کرتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ "آپ ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ آپ ڈرتے ہیں کہ..."؛ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ کو ڈر ہے کہ مثال کے طور پر فلاں مشکل پیش آجائے۔ جیے ہی میں نے کہا کہ آپ ڈرتے ہیں تو کہنے لگے میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا! یہ ان کی خصوصیت تھی۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ "آپ بزدل ہیں"، یہ ایک عام اصطلاح ہے، "آپ مصلحت برتتے ہیں کہ فلاں چیز نہ پیش آئے"، لیکن ڈر کا لفظ جو میں نے استعمال کیا، انہوں نے کہا کہ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ وہ حقیقی معنوں میں شجاع تھے۔

اس کے پاس حکمت اور عقلیت تھی، وہ حساب و کتاب کرنے والے تھے۔ وہ حساب کتاب کے بغیر کام انجام نہیں دیتے تھے اور حساب کرتے تھے؛ اور جب وہ اس حساب کتاب میں کسی نتیجے پر پہنچتے تو اس پر پورے عزم کے ساتھ عمل کرتے اور ان کے کام میں کوئی ہچکچاہٹ اور تردید نہ پائی جاتی تھی۔
ہم (اس انقلاب کو) نقلابات کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب کیوں کہتے ہیں؟ انقلابات کی تاریخ میں بہت سے چھوٹے بڑے انقلابات آئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور 18ویں صدی میں 1789 کا فرانسیسی انقلاب ہے، اس کے بعد 20ویں صدی میں 1917 کا سوویت انقلاب؛ یہ دو انقلاب انقلابات کی تاریخ میں سب سے مشہور عظیم انقلاب ہیں۔ لیکن اسلامی انقلاب ان دونوں سے بڑا ہے۔ کیوں؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن کے حوالے سے میں ایک بنیادی اور اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ انقلاب فرانس اور سوویت انقلاب یہ دونوں انقلاب عوام کے توسط سے کامیاب ہوئے، عوام نے انہیں فتح تک پہنچایا، لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد عوام بے معنی ہو گئے، عوام کو بے دخل کر دیا گیا۔ عوام اس انقلاب کے تسلسل میں حصہ نہیں لے سکتے تھے جسے انہوں نے اپنے جسم و جان سے اور سڑکوں پر اپنی موجودگی سے تشکیل دیا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں انقلابات اپنے اصل عوامی راستے سے بہت جلد ہٹ گئے۔ انقلاب فرانس کے تقریباً بارہ یا تیرہ سال بعد - بادشاہت کے خلاف آنے والا انقلاب، سلطنت کے خلاف آنے والا انقلاب۔ فرانس میں دوبارہ بادشاہت آگئی، نپولین برسراقتدار آیا، تخت نشین ہوا، بادشاہت واپس آگئی؛ وہ تقریباً پندرہ سال تک اقتدار میں رہا، پھر برطرف کر دیا گیا، اور وہی خاندان جن کے خلاف انقلاب فرانس قائم ہوا تھا، نے واپس آکر فرانسیسی امور کا انتظام سنبھال لیا۔ بوربن خاندان؛ وہ پھر آگئے۔ جب لوگ میدان میں نہیں ہوتے تو یہی ہوتا ہے۔ سوویت انقلاب کے پہلے بارہ سال بھی پورے نہیں ہوئے۔ لوگوں نے انقلاب کو برپا کیا، لیکن چند سال بعد، سٹالن اور اس کے جانشینوں نے سوویت ریاستوں پر - سابق سوویت یونین بننے والے ممالک پر ایسا تسلط، آمریت مسلط کر دی کہ ان سے پہلے کی بادشاہتوں نے یہ استبداد نہیں روا رکھا تھا۔ اس میں بھی لوگ بے معنی اور کنارہ کش کردئیے گئے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ میں ایسا نہیں یوا۔

اسلامی انقلاب عوام کی موجودگی اور عوام کے جسم و جان سے کامیاب ہوا لیکن عوام اس سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ انقلاب کی فتح کے پچاس دن، دو ماہ سے بھی کم عرصے بعد، ملک گیر ریفرنڈم ہوا اور عوام نے ہی نظام حکومت کا انتخاب کیا۔ عوام کو اختیار دیا گیا۔ عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے آزادانہ انتخابات کے ذریعے نظام حکومت یعنی "اسلامی جمہوریہ" کا انتخاب کیا۔ انقلاب کی فتح کے تقریباً ایک سال بعد، پہلا صدر عوامی ووٹوں سے منتخب ہوا۔ چند ماہ بعد، اسلامی مشاورتی اسمبلی، [مقننہ]، عوامی انتخابات کے ذریعے تشکیل دی گئی۔ اس دن سے لے کر آج تک، جب تینتالیس یا چوالیس سال گزر چکے ہیں، اس ملک میں تقریباً پچاس انتخابات ہوئے ہیں۔ لوگ میدان میں داخل ہوئے، حاضر ہوئے، میدان میں موجود ہیں، انتخاب کرتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں؛ اس انقلاب کی عظمت یہ ہے۔ امام رح ایسے انقلاب کے رہنما تھے۔

بلاشبہ ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ انقلاب کی عظمت کا ایک پہلو ہے۔ اس انقلاب، اسلامی انقلاب کو دوسرے انقلابات سے بالکل مختلف بنانے والے اور بھی پہلو ہیں، جن میں سے ایک اس انقلاب میں روحانیت کا پہلو ہے۔ پچھلے چھوٹے اور بڑے انقلابات میں، فرانسیسی اور روسی دونوں انقلابات اور بیسویں اور انیسویں صدی میں ان سالوں کے دوران رونما ہونے والے چھوٹے انقلابات میں روحانیت کا فقدان تھا۔ انسان کا روحانی پہلو جو کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، بالکل غائب اور نظر انداز ہو چکا تھا اور کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اسلامی انقلاب ایک ایسا انقلاب ہے جو انسان کے مادی پہلوؤں اور انسان کے روحانی پہلوؤں پر توجہ دیتا ہے اور اس پر کام کیا ہے۔

وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے۔ اتنے سارے سانحات انقلاب کے پہلے ہی سالوں میں رونما ہوئے - یہ شہادتیں، اجتماعی شہادتیں، مختلف سانحات - [لیکن] امام کے دل میں اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ انہیں مایوس کردیں۔ وہ حقیقی طور پر صداقت رکھتے تھے، وہ صادق تھے۔ وہ خدا اور لوگوں دونوں کے ساتھ صداقت رکھتے تھے۔ وہ اپنے وعدے سے، اپنے عہد و پیمان سے سچے تھے۔ 1979 میں پہلی بار تہران پہنچنے پر 12 بہمن 1979 کو اسی بہشت زیرا میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ میں حکومت مقرر کروں گا۔ چار دن بعد حکومت مقرر کی۔ ان چار دنوں میں انہوں نے انقلابی کونسل کو طلب کیا اور ہم وہاں گئے۔ بظاہر، انھوں نے انقلابی کونسل کے کچھ ارکان، جیسے شہید مطہری اور شہید بہشتی، اور اس جیسے لوگوں کو ہدایت کی تھی کہ کسی کی تلاش کریں، [لیکن] انہوں نے ابھی تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا تھا۔ امام کو ناگوار گزرا، انہوں نے سختی سے کہا کہ آپ کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ اس طرح تھا۔ وہ بہت منظم اور وقت کے پابند تھے۔ ہم نے اس حوالے سے ان کی جانب سے بہت سے واقعات دیکھے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ایک توکل تھے؛ خدائی وعدے پر ایمان رکھتے اور الہی وعدے پر بھروسہ رکھتے تھے۔ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُه؛ (4) اس آیت کے کامل مصداق تھے۔ مجاہد تھے۔ میں مجاہد ہونے کی وضاحت بعد میں کروں گا کہ "مجاہد تھے" سے مراد کیا ہے۔ ان [ایسی] خصوصیات کے علاوہ، امام کی دیگر امتیازی خصوصیات تھیں۔ یہ امام رح کی ذاتی خصوصیات تھیں۔

اب مکتب، اصولوں اور اہداف کے معاملے میں۔ اگر ہم امام رح کے جدوجہد اور امام رح کے انقلاب کے مکتب کی بنیاد کو ایک جملے میں پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ان کی تمام سرگرمیوں کی بنیاد "قیام لله" تھی۔ مقصد خدا کیلئے قیام تھا۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی جوانی میں مرحوم وزیری یزدی رحمت اللہ(5) کے کتابچہ میں اپنی مشہور یادداشتوں میں لکھا ہے : قُل اِنَّمآ اَعِظُکُم بِواحِدَةٍ اَن تَقوموا لِلّهِ مَثنَی وَ فُرادَی؛(6) 
خدا کے قیام کرنے کا ذکر سورہ سبا کی اسی آیت قل قُل اِنَّمآ اَعِظُکُم [میں بیان کیا گیا]، یا "قوموا للّٰہ قنطین" (7) سورہ البقرہ میں، یا رسالت کے آغاز میں سورہ المدثر کی آیت میں ہے: یا اَیُّهَا المُدَّثِّر* قُم فَاَنذِر (8) "قیام لله" کا مطلب یہ ہے۔ اب یہ "قیام لله" ہر دور میں مختلف طرح سے ہوسکتا ہے۔

"قیام لله" ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا، لیکن ان سب میں "قیام لله" کا مقصد ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے، اور وہ ہے حق کا قیام، عدل و انصاف کا قیام اور روحانیت کا فروغ؛ تمام زمانوں میں یہ ہے؛ یعنی حق کو قائم کرنا۔ ایک دور میں ’’قیام للہ‘‘ ایسی جدوجہد کی شکل میں ہوتا ہے، ایک دور میں یہ علمی کام کی شکل میں ہوتا ہے، ایک دور میں یہ سیاسی تحریک کی شکل میں ہوتا ہے، لیکن ان سب میں ’’قیام للہ‘‘ کا مقصد حق کا قیام ہونا چاہیے۔ عدل و انصاف ہونا چاہیے۔ یہ دونوں اور روحانیت کو فروغ دینا، یہ تین؛ یہ مقاصد ہیں۔ میں نے قرآن کریم کی آیات یہاں لکھی ہیں۔ آپ "المعجم" میں "قام" کی بحث میں دیکھ سکتے ہیں، وہاں پتہ چلے گا کہ یہ قیام کس لئے ہے۔ فرض کریں "لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسط"، (9) کہ انبیاء کا آنا اور جانا، رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل ہونا اس لئے ہے تاکہ "لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسط"؛ یہ ایک آیت ہے۔ یا سورہ نساء کی آیت شریفہ میں ہے: وَ اَن تَقوموا لِلیَتامیٰ بِالقِسط (10) یا سورہ رحمٰن کی آیت: وَ اَقیمُوا الوَزنَ بِالقِسط(11) یا سورہ شوری میں: اَقیمُوا الدّین(12) یا سورہ مائدہ میں: حَتّی تُقیمُوا التَّوراتَ وَ الاِنجیل(13) اور قرآن میں بہت سے مقامات پر: اَقیمُوا الصَّلوة، (14) اور دوسری مثالیں جہاں "قیام لله" ان امور کے قیام کا باعث بننا چاہیے۔ یہ "خدا کیلئے قیام" کا مقصد ہے۔

ہم نے کہا کہ امام ایک مجاہد تھے۔ اس کا مطلب ہے "قیام للہ" کے میدان میں امام رح کی مستقل موجودگی۔ امام رح صحیح معنوں میں "خدا کیلئے قیام" کے پابند رہے۔ حق و عدالت کا قیام واضح طور پر امام رح کا ہدف تھا۔ تو یہ مقصد کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ حق و انصاف کا قیام امام رح کا نصب العین تھا، لیکن کیا پہلوی حکومت یا کسی وابستہ حکومت کی منحوس چھتری تلے عدل و انصاف قائم ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں؛ اس لیے اگلا ہدف انسان کے لیے اس چھتری میں شگاف ڈالنا بن جاتا ہے۔ امام رح نے پہلوی حکومت کی اس ذلت آمیز چھتری کو اس قوم کے سر سے ہٹانے، اسے برطرف کرنے اور ان دو اہداف کی تکمیل، قیام اور پیشرفت کے لیے زمین فراہم کرنے کے لیے یہ اقدام کیا: "فلک را سقف بشکافیم و طرحی نو دراندازیم"؛ (15) اثبات اور نفی دونوں؛ پہلے اس ظالم حکومت کا انکار، پھر ایک مطلوبہ سیاسی میدان کی فراہمی جو عوام کو آگے بڑھا سکے۔ امام رح کی یہ تحریک نفی اور اثبات کے مابین تھی۔

امام کی عظیم تحریک میں کئی واضح نکات تھے: اول یہ کہ ان میں کوئی خوف نہیں تھا۔ امام میں ڈر و خوف نہیں تھا، چاپلوس سے کام نہیں لیتے تھے (16)؛ صراحت رکھتے تھے، اس کی زبان گویا تھی، یہ تحریک انقلاب کے دور کی بات ہے۔ چاہے قم ہو یا نجف، آپ لوگوں سے گفتگو کرتے، لوگوں کو مسلسل سمجھاتے رہے، ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ بے شک ان کی زبان ذوالفقار کی مانند قاطعانہ تھی کہ اس عظیم ہستی نے کام کو اس طرح آگے بڑھایا۔ صاف گو تھے۔

لوگوں پر اعتماد کرتے تھے؛ امام کی ایک اہم خصوصیت روز اول سے لوگوں پر اعتماد تھا۔ ایسے لوگ تھے جو قیام کرنا چاہتے تھے لیکن کہتے تھے کہ لوگ ہمارے پیچھے نہیں آئیں گے۔ [لیکن] امام ایسا نہیں سوچتے تھے، امام کو پہلے دن سے یقین تھا کہ اگر ہم میدان میں داخل ہوں گے تو لوگ آئیں گے۔ تحریک کے آغاز میں، 1953 میں، قم میں، درس کے بعد ایک تقریر میں، آپ نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر ہم لوگوں کو کہیں یا لوگوں سے تقاضا کریں - اس طرح کی تعبیر - لوگ اس بیابان کو بھر دیں گے۔ (17) یہ بات سن 1953 کی ہے کہ بہت سے لوگ اسوقت تک امام رح کو نہیں جانتے تھے، انہوں نے امام کا نام تک نہیں سنا تھا۔ وہ اس طرح لوگوں پر بھروسہ اور یقین رکھتے تھے۔ وہ عوام کی جدوجہد کی قدر جانتے تھے، انہوں نے حقیقی معنوں میں تحریک کی قیادت کی، انہوں نے اپنی اثرگزار سانسوں سے دلوں کو گرم رکھا، انھوں نے ہمیں مایوس نہیں ہونے دیا، اس نے ہمیں مردد ہونے نہیں دیا، عوام انکے کے نظریات سے اجنبی نہ تھے۔ امام کے نظریات کا خلا ٹھیک ہے؛ ان باتوں کا تعلق نفی کے دور سے ہے، ظالم حکومت کے خلاف جدوجہد کے دور سے۔

لیکن ثبوت کے دور میں، اسلامی جمہوریہ کے قیام کا دور - اسلامی جمہوریہ کے قیام کے دوران امام کی تحریک بہت اہم ہے - امام کی کوشش، امام کا حکمت عملی یہ تھی کہ نئے خاکے کو ملک کے تاریک ماضی سے الگ کریں، مستقبل کو ماضی سے مکمل طور پر جدا کریں، یہ امام کی کوشش تھی۔ وہ اس مستقبل کو کیسے الگ کر سکتا تھا؟ اس طرح کہ ملک کے نظم و نسق کے لیے جو منصوبہ پیش کیا جانا تھا اور تجویز کیا جانا تھا وہ مغربی ثقافت، تہذیب اور لغت کے تحت نہ ہو۔ امام نے تاکید کی کہ یہ منصوبہ، اسلامی جمہوریہ کا منصوبہ، اس کے تحت نہیں آنا چاہیے جسے مغرب میں "جمہوریت" یا "عوامی نظام" کہا جاتا ہے۔ اس لیے میں نے بیان کیا کہ پچھلے سال اسی دن ایک تقریر میں میں نے وضاحت کی تھی کہ ’’جمہوریت‘‘ اسلام کی ہے، ’’جمہوریت‘‘ مغرب سے مستعار نہیں ہے، یہ اسلام سے متعلق ہے۔ یہ حقیقت کہ امام لوگوں کی رائے پر اس قدر تاکید کرتے ہیں، اس کی وجہ اسلام کے بارے میں انکی معرفت ہے۔ اس لیے امام نے اسلامی جمہوریہ کو ان دو مکاتب فکر سے الگ کرنے کا عزم کیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے، یعنی سرمایہ دارانہ لبرل جمہوریت اور آمرانہ کمیونسٹ طرز حکومت؛ لہذا، امام کے اصولی نعروں میں سے ایک "نہ مشرقی اور نہ مغربی" تھا۔ نہ کمیونزم نہ لبرل ازم۔ نہ معیشت میں وہ سرمایہ دارانہ نظام اور نہ مغرب میں وہ بے لگام اور غیر حکمت آمیز آزادیاں، اور نہ ہی مشرقی نظاموں میں موجود جبر و استبداد؛ ان دونوں میں سے کسی کو بھی امام رح نے قبول نہیں کیا۔ نہ مشرق نہ مغرب؛ امام نے اسلامی جمہوریہ کے نظام کے لیے ایک نیا ماڈل تجویز کیا جو ان سے بالکل مختلف تھا۔

امام کے طرز حکومت میں دوئیت ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور یکسو تھی۔ یہ دوئیتیں، جن کیلئے ہمیشہ کوشش کی جاتی تھی کہ ایک دوسرے کے مقابل قرار پائیں، امام کے پیش کردہ نمونے میں ہم آہنگ ہوگئیں۔ روحانیت - مذہبی روحانیت - اور لوگوں کی رائے دونوں؛ روحانیت اور لوگوں کی مرضی دونوں؛ ہمیشہ کوشش کی جاتی تھی کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل رہیں، لیکن وہ ایک دوسرے کے مقابلے پر نہیں آئے۔ امام رح نے ان کو جمع کر دیا۔

عوامی تقاضوں اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے احکام الٰہی کی تعمیل۔ یہ تشخیص مصلحت کونسل امام نے تشکیل دی تھی۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے اسے بنایا ہے۔ نہیں، میں صدر تھا، امام نے مجھے خط لکھا اور اس کونسل کو امام نے مصلحت کے تعین کے لیے تشکیل دیا۔ اسلامی احکام نافذ ہیں، لیکن وقت کے تقاضوں اور معاشرے کے عمومی مفادات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ مصلحت کا مطلب یہ ہے؛ افراد کی مصلحت نہیں ہے۔

ناداروں کا خیال رکھنے کا مسئلہ اور معاشی عدالت پر اصرار - خاص طور پر معاشی عدالت - سرمایہ کی پیداوار کے ساتھ؛ سرمایے کی پیداوار کی بھی اجازت ہے، اور ملک میں عدالت بھی ہونی چاہیے اور کمزوروں اور ناداروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ جبر کا انکار اور جبر کے آگے تسلیم ہونے کا انکار دونوں۔ ایک ریاست کے طور پر، ایک حکومت کے طور پر، ہم دوسری ریاستوں، دوسری قوموں پر ظلم نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے جبر قبول کرتے ہیں۔ ہم نہ زور زبردستی سے کام لیتے  ہیں اور نہ ہی زور زبردستی تسلیم کرتے ہیں۔ ہم علم و سائنس میں ترقی اور ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کو مضبوط کریں گے۔ یعنی ملکی دفاع اور ملکی سلامتی کو نظر انداز کر کے صرف معیشت کے بارے میں نہیں سوچیں گے، اور اسی طرح برعکس۔ قومی ہم آہنگی اور اتحاد بھی ہو اور مختلف سیاسی نظریات اور رجحانات کے تنوع کو بھی باضابطہ طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ایک دوئیت ہے۔ حکام کا تقویٰ اور پاکیزگی بھی ضروری ہیں، نیز حکام کی مہارت اور جانکاری بھی لازمی ہے۔ عزم اور مہارت ایک جگہ۔ آپ نے دیکھا کہ یہ وہ دوئیتیں ہیں جن کو انقلاب کے آغاز میں یا انقلاب سے پہلے لوگوں نے ایک دوسرے کے سامنے رکھنے کی کوشش کی تھی، امام نے ان دوئیتوں کو ہم آہنگ کیا، ان کو مربوط کیا، ان کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہ ہیں امام مکتب کی خصوصیات۔

ٹھیک ہے یہاں آپ ایک سوال پوچھ سکتے ہیں؛ کہ یہ مکتب جو امام رح نے وضع کیا تھا، امام رح کے زمانے میں یا امام کے بعد کتنا عملی ہوا؟ یہ ایک اہم سوال ہے؛ یہ وہ سوال ہے جو دنیا کی جانب سے بھی ہم سے پوچھا جا سکتا ہے۔ میں جو جواب دیتا ہوں وہ ملک کے حقائق کی معلومات اور گہری نظر پر مبنی ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ ہمیں ان تمام شعبوں میں بڑی کامیابی ملی ہے۔ اگر کوئی کامیابی سے انکار کرتا ہے تو یقیناً اس نے ناانصافی کی ہے۔ ان سب میں، ہم نے جمہوریت کے لحاظ سے، سائنسی ترقی کے لحاظ سے، سفارت کاری کے لحاظ سے، دنیا میں ملک کے مقام کے لحاظ سے، معاشیات کے لحاظ سے اور عوامی خدمات کے لحاظ سے بڑی پیش رفت کی ہے۔

یقیناً، ناکامیاں بھی کم نہیں رہی ہیں۔ ہم نے ترقی بھی کی ہے، ہماری کمزوریاں اور ناکامیاں بھی رہی ہیں۔ یہاں بھی امام رح نے حکمت امیز رہنمائی فرمائی ہے۔ اس معاملے میں بھی امام کی رہنمائی ہماری نجات دہندہ ہے۔ اپنی زندگی کے آخری سال میں، امام کا ایک خطاب ہے جو فرزندان شہداء سے ہے؛ امام اس طرح فرماتے ہیں: "آپ کی کارکردگی آپکی جدوجہد اور محنت پر منحصر ہے"؛ آپ جتنی محنت کریں گے، جتنی جدوجہد کریں گے آپ کو اس کا پھل ملے گا۔ اس سے آگے امام رح فرماتے ہیں: "آج کی دنیا میں زندگی گزارنا  اردوں کے مکتب میں ہی ممکن ہے"۔ ارادے پر منحصر ہے۔ اور جہاں بھی ملے اور حکام مضبوط ارادے کے ساتھ میدان میں اتریں گے وہاں کامیابی ہے۔ جہاں قوت ارادی کمزور پڑتی ہے، جدوجہد کم ہوتی ہے، وہاں پسماندگی ہے۔ ہاں، ہماری ناکامیاں بھی ہیں، پیشرفت بھی ہے۔ یہ ہمارے بارے میں ہے۔ ہم تھے، ہم حکام تھے، معاشرے کے مختلف بااثر افراد تھے جنہوں نے ایک جگہ اچھا کام کیا، جہاں کامیابی ملی۔ جہاں کوتاہی ہوئی، سست ہوگئے، ہم کمزور پڑگئے، یقیناً وہاں ہم پیچھے رہ گئے۔ اس سے ہر گز انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مکتب صحیح ہے، منصوبہ درست ہے، راستہ ٹھیک ہے۔ راہ پر صحیح طریقے سے حرکت کرنی چاہیے۔ جہاں بھی ہم صحیح جانب بڑھے، آگے بڑھے، جہاں ہم سست اور کمزور پڑگئے، ہم پیچھے رہ گئے۔ ان سالوں میں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ خود امام کے زمانے میں بھیباور امام کی وفات کے بعد آج تلک بھی ایسا رہا ہے۔

یقیناً دشمنوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انقلاب کے آغاز سے ہی دشمن کا ایک بڑا محاذ میدان میں آگیا۔

بعض کا خیال ہے کہ ہم نے دشمن کو دشمنی پر اکسایا ہے۔ نہیں، اسلامی جمہوریہ کا جوہر، جو کہتا ہے کہ وہ ظلم کی مخالفت کرتا ہے، فطری طور پر ظالم کو اپنے مخالف بناتا ہے۔ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ ہم استکبار کے خلاف ہیں، ظلم کے خلاف ہیں؟ جو بھی متکبر ہوگا، جو ظالم ہوگا، جس حکومت کے اندر بھی ایسی قابل مذمت خصلتیں ہوں گی، وہ آپ کا دشمن ہوجائے گا۔ اسلامی جمہوریہ اسطرح ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم روحانی لوگ ہیں، وہ لوگ جو عوام میں روحانیت کے مخالف ہیں وہ آپ کے مخالف ہوجائیں گے۔ اسلامی جمہوریہ کہتا ہے کہ ہم منکر کے خلاف ہیں، جو لوگ منکر کے عادی ہیں، منکر کے خواہاں ہیں اور منکر سے الگ نہیں ہوسکتے، فطری طور پر اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ دشمن کے محاذ اور اسکی دشمنی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

یقیناً یہ عداوتیں کئی شکلوں میں سامنے آئیں۔ انقلاب کی فتح کے نزدیک ایام میں، امریکیوں نے اپنے جنرل (18) کو تہران میں بغاوت کے لیے بھیجا، جو کہ خدا کا شکر ہے، ناکام ہوا اور مایوس ہو کر واپس لوٹ گیا۔ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی، امریکی اور دوسرے دشمن ناکام رہے۔ امام کی یہ حدبندی، مغرب والوں سے امام رح کی جانب سے شدید علیہدگی، فطری طور پر دشمنوں کو ایجاد کرتی ہے۔ اس نے انہیں مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ فلسطین کا سفارت خانہ، فلسطین کا دفتر، جو غاصب کے ہاتھوں میں تھا، اس سے لیکر فلسطینیوں کو دے دیا گیا جو فلسطین کے مالک ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ اقدام قدرتی طور پر دشمنی ایجاد کرتا ہے؛ یہ فطری ہے۔

ہمارے نوجوان اس بات پر متوجہ ہوں: مغربیوں نے تین صدیوں تک دنیا کو لوٹا ہے۔ تین صدیاں! انہوں نے دنیا کو لوٹا۔ مشرقی ایشیا، انڈونیشیا، فلپائن، نیپال، برصغیر پاک و ہند سے لے کر وسطی اور مغربی ایشیا تک، اور شمالی افریقہ، افریقہ کے مغربی حصوں اور پورے سیاہ فام افریقہ تک؛ مغرب والوں نے انہیں تین صدیوں تک لوٹا۔ وہ یہیں نہیں رکے، انہوں نے جنوبی امریکہ پر بھی حملہ کیا اور اسے لوٹا۔ امریکی براعظم! امریکی براعظم کے بھی مالک تھے، تہذیب تھی، قومیں تھیں؛ انکو مختلف چالوں کے ساتھ- جن میں سے سبھی مستند تاریخوں میں نقل ہوئے ہیں۔ کتابیں پڑھیں، انشاء اللہ، ان حقائق کو مزید قریب سے سمجھیں - انہوں نے تباہی پھیر دی۔ قتل، لوٹ مار، نسل کشی، تشدد، جبر، غلامی؛ یہ کام مغرب والوں نے کیا۔ ان تین صدیوں میں جب کہ اہل مغرب عملی طور پر ایسے جرائم کا ارتکاب کر رہے تھے، ان کے دانشور اور مفکر دنیا کے لیے انسانی حقوق کے قانون کو دریافت اور نافذ کر رہے تھے! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول و فعل میں تضاد، یہ مغرب والوں کی منافقت [ظاہر ہے]۔ عملی طور پر اس طرح، زبان سے اس طرح، پہلے یورپی ممالک پھر امریکہ نے دنیا بھر میں حقیقی طور پر ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ خیر، یہ مغربی تہذیب کے شاہکار ہیں۔ یہ ہیں مغربی تہذیب کے شاہکار!

امام کو ان باتوں کا بخوبی علم تھا۔ ایک اہم مسئلہ جس پر امام نے تاکید کی وہ اسلامی فکر اور طرز زندگی اور اسلامی نظام کا مغربی نظاموں کے ساتھ علیحدگی اور فاصلہ تھا جو کہ امام رح کے پیش کردہ اہم مسائل میں سے ایک ہے۔

امام کی ایک بڑی خاصیت یہ تھی کہ انہوں نے قوم کو مقاومت کے تصور سے آشنا کیا۔ بہت سے معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ قومیں کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن مقاومت کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ جب دباؤ ڈالا جاتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ امام نے اس طرح ایرانی قوم کو پروان چڑھایا، اس کو اس طرح مضبوط کیا: اس قوم میں مزاحمت، مقاوت کو آبجیکٹ کیا؛ لہذا ایرانی قوم آج ایک بہت مضبوط اور پوری طرح مقاوم قوم ہے۔

خدا کا شکر ہے! یہ بھی عظیم امام کی برکات میں سے ہے کہ آج عالمی سیاسی ادب میں "مقاومت" کا عنوان داخل ہو چکا ہے۔ یہ مقاومت جس کا درس امام رح نے ایرانی قوم اور ہم سب کو دیا آج دنیا کے سیاسی ادب میں نمایاں اصطلاحات میں سے ایک ہے۔

میں یہاں دشمنوں کی طمع، دشمنوں کے منصوبوں، دشمنوں کی سازشوں، دشمنوں کی خام خیالیوں کے بارے میں جو ایرانی قوم کے بارے میں رکھتے ہیں ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں جو میری نظر میں اہم ہیں۔ اس نقطہ کے دو اجزاء ہیں؛ ایک یہ کہ آج ملک پر کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمنوں کی سب سے بڑی امید عوامی احتجاجات ہیں۔ ان کی امید یہ ہے کہ وہ لوگوں کو نفسیاتی جنگ، انٹرنیٹ سرگرمیوں اور سائبر اسپیس اور ان تمام کاموں کے ذریعے، پیسے کے ذریعے، کرائے کے آلہ کار کے ذریعے، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کے مقابل کھڑا کرسکتے ہیں۔ یہ اس نقطہ کا پہلا حصہ ہے، اس نکتے کا؛ دوسرا حصہ یہ ہے کہ دشمن کا یہ حساب اس مسئلہ میں بھی اسکے دوسرے بہت سے حسابات کی مانند غلط ہیں۔ انقلاب کے آغاز میں، انہوں نے وعدہ دیا کہ اسلامی جمہوریہ چھ ماہ سے زیادہ باقی نہیں رہے گی اور ختم ہوجائے گی۔ پھر جب چھ مہینے گزر گئے تو انہوں نے اسے چھ ماہ بڑھا دیا اور کہا کہ چھ ماہ بعد! اس طرح کے چھ ماہ کے جیسے چھیاسی شش ماہیوں سے زیادہ گزر چکی ہیں، اسلامی جمہوریہ جو اس دن ایک نازک سا پودا تھا، ایک تناور جڑوں والے درخت میں تبدیل ہوچکی ہے، روز بروز مضبوط اور طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا حساب وہاں بھی غلط تھا، یہاں بھی غلط ہے۔ یہ حساب اسی حساب کے جیسا ہی ہے۔ جیسے مسلط کردہ جنگ کے معاملے میں ان کا حساب۔ انہوں نے چند دنوں میں اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کی خام خیالیوں میں صدام کی مدد کی۔ انہوں نے بغاوت کے منصوبہ سازوں کی اس امید پر مدد کی کہ وہ کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ سب امریکیوں اور مغربیوں کے بنائے ہوئے حساب تھے اور وہ سب غلط تھے۔ آج بھی یہ حساب ایک غلط فہمی ہے کہ وہ ایرانی قوم کو اسلامی نظام کے خلاف کھڑا کر سکتے ہیں، وہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک ایسے عنصر کو کھڑا کر سکتے ہیں جسے وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اسے بہت اہمیت دیتی ہے اور وہ عوام کا عنصر ہے۔

امریکی یہ غلطی کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ان کے مشیر ہیں جو انہیں مشورہ دینے والے غدار ایرانی ہیں۔ یہ غدار مشیر تو اپنے ملک سے غداری کرتے ہی ہیں لیکن حقیقت میں ان سے بھی غداری کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ مناسب معلومات کے بغیر انھیں مشورہ دیتے ہیں۔ وہ بے چارے بھی ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں، ناکام رہتے ہیں۔ ان کی ایک بات، ان کے مشورے میں سے ایک یہ ہے کہ "آپ اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایرانی قوم پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ ایرانی قوم دین سے، اسلامی نظام سے، علماء سے تنگ آچکی ہے، آپ ان پر اعتماد کر سکتے ہیں، یہ اسلامی نظام کے خلاف کھڑے ہونگے"؛ یہ جاہل اور غدار مشیر - دونوں طرف سے غدار - یہ اپنے امریکی آقاؤں کو یہ بتاتے ہیں۔ وہ پیسے دیتے ہیں، اور اسس طرح کا تجزیہ کرتے ہیں، وہ اپنی تقریروں میں یہ باتیں کہتے ہیں، وہ اپنی سینیٹ میں یہ کہتے ہیں، وہ اسے مختلف جگہوں پر دہراتے ہیں، اندرون ملک بھی بہت سے سادہ لوح لوگوں اسکو قبول کرلیتے ہیں - البتہ، خوش قسمتی سے بہت کم تعداد۔

بعض اوقات ہم انٹرنیٹ پر تحریروں میں یا میڈیا اور اخبارات میں سنتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہاں، لوگ علماء سے دور ہوچکے ہیں، وہ مذہب سے دور ہوچکے ہیں۔ ہم یہاں اندرون ملک بھی یہ چیزیں سنتے ہیں۔ یہ ان سو فیصد غلط حسابات میں سے ایک ہے۔ آج انقلاب اور مذہب کی طرف لوگوں کا جھکاؤ یقیناً انقلاب کے پہلے دن سے زیادہ ہے۔ اگر کوئی عوام کے انقلاب، مقاوت اور جدوجہد کی جانب رجحان کو سمجھنا چاہتا ہے تو دسیوں لاکھ افراد پر مشتمل شہید قاسم سلیمانی کے جنازے کو دیکھ لے۔ شہید سلیمانی کی ٹکڑے ٹکڑے لاش کو لاکھوں لوگوں نے وداع کیا۔ ایک انقلابی، ایک جنگجو اور ایک مجاہد جس نے اسلامی جمہوریہ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ عوام نے اس کی اس طرح عزت و تکریم کی۔ یہ ایک مثال ہے؛ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں؛ [مثال کے طور پر] علماء میں سے۔ مرحوم آیت اللہ صافی گلپائیگانی مرجع تقلید تھے، فقیہ تھے۔ آپ نے دیکھا کہ اس ہستی کے جنازے پر لوگوں نے کیا زبردست تحرک دکھایا۔ مرحوم آیت اللہ بہجت ایک عارف اور روحانی فقیہ تھے۔ ان کے جنازے میں، ان کے جنت کی جانب سفر میں، قم کے لوگوں نے قم کو جذبات سے بھر دیا۔ تدفین کے لیے عوام مختلف جگہوں سے بھی قم گئے۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ ملک کی دیگر نامور شخصیات مثلا سیاست دانوں، فنکاروں، کھلاڑیوں اور دیگر شخصیات میں سے کون ہے، جب وہ رحلت کرتے ہیں تو لوگ ان کے بارے میں اس طرح جذبات کا اظہار کرتے ہیں؟ یہکس چیز کی علامت ہے؟ کیا یہ علماء سے لوگوں کے منہ موڑنے کی علامت ہے؟ کیا یہ مذہب، جہاد اور مزاحمت سے لوگوں کی دوری کی علامت ہے؟ ان کا تجزیہ ایسا ہے؛ وہ اس طرح کا تجزیہ کرتے ہیں۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ان دنوں ایک ترانے کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں جس میں ولی امر، ولی عصر  (عجّل الله تعالی فرجه الشّریف و روحنا فداه) سے اظہار عقیدت ہےاور اس میں حضرت بقیۃ اللہ ع پر سلام ہے، کیا جوش و خروش کا اظہار کیا جارہا ہے، کیا ہمراہی ہے، کیا عزم کا اظہار ہے! بوڑھے، جوان، نوجوان، بچے، خواتین، مرد، تمام ملک میں، تہران میں ایک طرح سے، مشہد میں ایک طرح سے، اصفہان میں ایک طرح سے، یزد میں ایک طرح سے، دیگر مختلف شہروں میں ایک طرح سے؛ کیا وجہ ہے؟ کیا یہی وجہ ہے کہ لوگ دین سے پھر چکے ہیں؟ یا اس کے برعکس. انقلاب کے آغاز میں ہمارے پاس ایسی چیزیں نہیں تھیں۔ انقلاب کے آغاز میں، ہمارے پاس اعتکاف کے مراکز میں نوجوان طلباء کی جوک در جوک آمد نہیں تھی، ہمارے پاس یہ بڑے مذہبی اجتماعات نہیں تھے۔ یہ آج ہیں! نہیں، وہ ایرانی قوم کے بارے میں غلط سوچتے ہیں۔ یا بہمن 22 مارچ؛ 43 سال سے لوگ 22 بہمن اور یوم قدس پر اتنے عظیم جلوس نکال رہے ہیں! کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ لوگ انقلاب سے منہ موڑ چکے ہیں؟ یہ لوگوں کی وفاداری کا سبب ہے، یہ لوگوں کی مزاحمت کا سبب ہے، یہ لوگوں کی مقاومت کا سبب ہے، یہ اس عظیم اور بڑی قوم پر امام خمینی رح کے درس کے اثرات ہیں۔

آخر میں، میں انقلابی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں سرگرم افراد کے لیے چند نصیحتیں بیان کرنا چاہوں گا۔ میں فعال لوگوں کو کچھ توکید دینا چاہوں گا، چاہے نوجوان ہوں یا دیگر افراد۔

ایک نصیحت یہ ہے کہ ضد انقلاب اور دشمن کی جانب سے اپنے انقلاب کی شناخت ختم نہ ہونے دیں۔ دشمنوں کو انقلاب کی حقیقت کو الٹا نہ دکھانےدیں، غلط نہ دکھانے دیں۔ یہ ایک سفارش ہے، یہ ایک اہم سفارش ہے۔ ہوشیار اور سمجھدار نوجوان اس بارے میں سوچیں۔

اگلی نصیحت: معاشرے میں امام خمینی رح کی یاد کو ختم نہ ہونے دیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، امام اس انقلاب کی روح ہیں۔ امام کی یاد کو کم نہ ہونے دیں، انہیں امام رح کو تحریف نہ کرنے دیں۔

اگلی نصیحت: رجعت پسند طبقات کو ملک میں دراندازی نہ دیں۔ "رجعت پسند" کا کیا مطلب ہے؟ جب ہم "رجعت پسند" کہتے ہیں، تو کچھ لوگ کا ذہن ایسے شخص کی جانب جاتا ہے کہ جس کے سر پر پگڑی ہو۔ نہیں، رجعت پسند وہ ہے جو سیاست اور طرز زندگی میں مغربی سیاست اور طرز زندگی کا تابع ہو۔ یہ رجعت پسندی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ صورتحال تھی۔ بدعنوان اور وابستہ پہلوی حکمرانی کے دوران، ملک میں مغربی طرز زندگی رائج تھی، انقلاب آیا اور اس نے اسے مسترد کر دیا۔ جو اس کی طرف لوٹتا ہے وہ رجعت پسند ہے۔ یہ رجعت پسند شخص ممکن ہے ٹی شرٹ، جینز کی پینٹ، ٹائی اور فرانسیسی پرفیوم بھی استعمال کرتا ہو، لیکن وہ رجعت پسند ہے۔ جو بھی مغربی زندگی، ثقافت اور طرز زندگی کی طرف رجوع کرتا ہے وہ رجعت پسند ہے۔ اپنے ملک کو پسمانگی کی طرف نہ جانے دیں۔ ملک کے اندر ارتجاع کو جڑ پکڑنے نہ دیں۔

اگلی نصیحت: دشمن کے جھوٹ اور فریب اور نفسیاتی جنگ کو بے نقاب کریں۔ ایک دن، امام رح کے زمانے میں، نہ انٹرنیٹ تھا، نہ ڈش وغیرہ اس طرح تھی؛ وہاں امام نے فرمایا کہ دشمن تم سے قلم سے لڑ رہا ہے۔ قلم سے۔ امام باخبر تھے۔ آج قلم کی بات نہیں، آج سائبر اسپیس کا معاملہ ہے، سیٹلائٹ کا معاملہ ہے۔ یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے۔ وسیع پیمانے پر ہر جگہ نفسیاتی جنگ۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ کو ملک پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ دیکھیں میں آپ کو نفسیاتی جنگ کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ وہ یونان کے ساحل سے ایرانی تیل چوری کرتے ہیں، وہ چوری کرتے ہیں - وہ ہمارا تیل چوری کرتے ہیں - پھر جان برکف مجاہدین  اسلامی جمہوریہ کا بدلہ چکاتے ہیں اور دشمن کے تیل کے جہاز کو ضبط کرلیتے ہیں، دشمن نے اپنی میڈیا اور پروپیگنڈے کی سلطنت میں ایران پر چوری کا الزام لگایا! چور کون ہے؟ تم نے ہمارا تیل چرا لیا ہے۔ ہم نے اسے تم سے واپس لے لیا۔ چوری شدہ مال واپس لینا چوری نہیں ہوتی۔ تم نے چرایا. امریکی یونانی حکومت کو حکم دیتے ہیں، یونانی حکومت عمل کرتی ہے، ہمارا تیل چوری کرلیتی ہے۔ یہ نفسیاتی جنگیں ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ سے نمٹیں - جیسا کہ ہر روز کئی بار اس طرح ہوتا ہے۔

اگلی نصیحت: لوگوں کے ایمان کے سرمائے سے عمل صالح کی پیداوار کے لیے استفادہ کریں۔ لوگ مومن ہیں، لوگ با ایمان ہیں۔ یہ ایمان صالح عمل پیدا کر سکتا ہے۔ آپ یہ کام کر سکتے ہیں؛ کہ ہمارے عظیم امام رح اس کام کے منفرد ماہر تھے۔ امام لوگوں کے ایمان کو اعمال صالحہ میں تبدیل کرنے کے منفرد ماہر تھے۔

اگلی نصیحت: بعض کو یہ ظاہر نہ کرنے دیں کہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ اب سائبر اسپیس میں کچھ کا کام یہی رہ گیا ہے - چاہے وہ غفلت کیوجہ سے کر رہے ہیں یا پیسے لے رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم - وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ نہیں، ملک تعطل کا شکار نہیں ہوگا۔ امام رح کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے اپنے اخبارات میں لکھا کہ ملک تعطل کا شکار ہوچکا ہے، امام نے فرمایا نہیں، تم تعطل کا شکار ہوچکے ہو۔ اسلامی جمہوریہ تعطل کا شکار نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ تم تعطل کا شکار ہوچکے ہو (19)۔ یہی حقیقت ہے۔ لوگوں کو آپ کو مایوس نہ ہونے دیں۔

اگلی نصیحت: بعض صورتوں میں امام رح خصوصی یا عوامی طور پر مسئولین کو جھڑکتے تھے۔ کبھی عوام میں، کبھی نجی ملاقاتوں میں؛ لیکن بعض معاملات میں، وہ واضح طور پر قدردانی کرتے تھے۔ ہمارے پاس بہت سے معاملات ہیں جن میں امام نے واضح طور پر ملک کے حکام - یا تو ایک شخص یا حکام کے ایک گروہ۔ کی قدردانی کی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آج جب دشمن انقلابی عہدیداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو انکی قدردانی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ حکام کی قدردانی کرنی چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ انسان دیکھے کہ آبادان کے معاملے میں کوئی وزیر تین چار روز دن رات کام کرتا ہے، وہاں کھڑا رہتا ہے، یہ بہت ضروری ہے۔ یہ حقیقت کہ معزز صدر یا ان کے نائب صدر سانحے کے متاثرین سے ملنے جاتے ہیں، انہیں تسلی دیتے ہیں، ان کے دلوں کو تسلی دیتے ہیں، یہ بہت قیمتی اقدام ہیں؛ ان کو سراہا جانا چاہیے۔ یقیناً اس جرم کے مرتکب افراد کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ آبادان کے اس معاملے میں بھی اور معاملے کی طرح اس جرم کے مرتکب افراد کو یقیناً سزا ملنی چاہیے۔

پروردگار! ہم تجھے اپنے پیارے شہداء کی پاکیزہ روحوں اور امام رح کی پاکیزہ روح کی قسم دیتے ہیں کہ ہمیں اسلامی جمہوریہ کی راہ حق و حقیقت کے پیروکاروں میں شامل فرما۔ پروردگار! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمارے قدم اور ہماری قوم کے قدم کو اس راہ پر قائم رکھ۔

میں نے سنا ہے، مجھے اطلاع ملی ہے کہ آج جناب حاج حسن خمینی کی تقریر کے دوران کچھ لوگوں نے شور مچایا۔ میں ان کاموں کا مخالف ہوں، میں اس قسم کی تخریب کاریوں اور شور شرابے سے متفق نہیں ہوں، میں مخالفت کرتا ہوں؛ یہ سب  جان لیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر ہدایت فرمائے گا۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے متولی حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے تقریر کی۔

(2) مولوی کی مثنوی معنوی، دفتر اول

(3) سوویت یونین کے دوسرے لیڈر، جوزف اسٹالن

(4) سورۂ طلاق، آيت 3، اور جو بھی اللہ پر توکل کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔

(5) عظیم الشان وزیری لائبریری کے بانی مرحوم حجۃ الاسلام والمسلمین سید علی محمد وزیری یزدی۔

(6) سورۂ سبا، آيت 26، کہہ دیجیے کہ میں تمھیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے دو دو اور اکیلے، قیام کرو۔

(7) سورۂ بقرہ، آيت 238، خضوع کے ساتھ اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔

(8) سورۂ مدثر آیات 1 اور 2، اے رات میں چادر اوڑھنے والے، اٹھیے اور لوگوں کو اللہ سے ڈرائیے۔

(9) سورۂ حدید، آيت 25، تاکہ لوگ انصاف پر اٹھ کھڑے ہوں۔

(10) سورۂ نساء، آيت 127، اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے سلسلے میں انصاف پر قائم رہو۔

(11) سورۂ رحمن، آيت 9، اور انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو۔

(12) سورۂ شوری، آيت 13، دین کو قائم کرو۔

(13) سورۂ مائدہ، آيت 68، جب تک توریت اور انجیل کو (عمل کے ذریعے) قائم نہیں کر لیتے۔

(14) جیسے سورۂ بقرہ کی آيت نمبر 43، اور نماز کو قائم کرو۔

(15) دیوان حافظ، غزل نمبر 374، آسمان کی چھت کو چیر دیں اور ایک نیا طرز شروع کریں۔

(16) صحیفۂ امام، جلد 1، صفحہ 87۔

(17) صحیفۂ امام، جلد 21، صفحہ 137۔

(18) امریکی فضائیہ کا جنرل، رابرٹ ارنیسٹ ہائزر

(19) صحیفۂ امام، جلد 1، صفحہ 87۔