ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

امام حسن ع یونیورسٹی میں مسلح افواج کی دفاعی یونیورسٹیوں کے طلباء کی گریجویشن تقریب سے خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میں بہت خوش ہوں اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ نسبتاً طویل وقفے کے بعد آپ پیارے نوجوانوں، گریجویٹ اور اعزازات حاصل کرنے والوں سے ملاقات کی توفیق دوبارہ حاصل ہو رہی ہے۔ کئی ہزار نوجوانوں کا مسلح افواج میں شامل ہونا ایک اچھی خبر ہے، ایک اچھی خبر جو ہر سال سننے کو ملتی ہے۔ وہ نوجوان جو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر کے افسر کا درجہ حاصل کر کے شامل ہوتے ہیں اور مصروف عمل ہوجاتے ہیں یا جو یونیورسٹی میں داخلہ لے کر کیڈٹ بن کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح مسلح افواج میں نئی ​​روح پھونک دیتا ہے۔ نوجوانوں کی یہ آمد تجدید اور طاقت کا پیغام ہے۔ نوجوان جہاں بھی داخل ہوتے ہیں، کسی بھی مجموعہ میں، کسی بھی ادارے میں داخل ہوتے ہیں، وہ دراصل اپنے ساتھ اس مرکز کی مضبوطی اور تجدید کا پیغام لے کر جاتے ہیں۔ تمام شعبوں میں ایرانی نوجوانوں کی موجودگی امید افزا ہے۔ یعنی مختلف سائنسی، اقتصادی، سیاسی، تنظیمی، عسکری وغیرہ شعبوں میں جہاں بھی نوجوان داخل ہوتے ہیں، وہ اپنے ساتھ امید، تجدید اور خلاقیت کی خوشخبری لے کر آتے ہیں۔

آج ایک گمراہ کن پروپگنڈا جاری ہے جو اس کے برعکس تصور فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایرانی نوجوان اقدار سے لاتعلق ہے اور مستقبل کے بارے میں ناامید ہے اور ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔ اس اس حوالے سے ایک بھرپور پروپیگنڈا جاری ہے۔ یہ حقیقت سے برعکس ہے۔ یہ ہمارے ملک میں حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری نوجوان نسل نے آج تک تمام شعبوں اور میدانوں میں شاندار ترقی حاصل کی ہے اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا: چاہے وطن کے دفاع میں ہو، چاہے آمن و امان کی برقراری میں، چاہے پورے خطے میں مزاحمتی محاذ کی مدد میں جیسے مقامات مقدسہ کے دفاع کی مقدس اور عظیم تحریک - چاہے سماجی خدمات میں ہو یا سائنسی ترقی - جسے آپ دیکھیں، کسی بھی شعبے میں سائنسی ترقی دراصل نوجوانوں کے کندھوں پر ہے، اور وہی لوگ ہیں جو اس تحریک کو آگے چلا رہے ہیں - خواہ  مذہبی رسومات ہوں، یہی اربعین کی مشی - چاہے وہ لاکھوں ایرانی نوجوان جو نجف سے کربلا تک پیدل گئے اور سفر کیا، یا وہ لاکھوں نوجوان جنہوں نے خود اپنے ملک میں، شہروں میں مارچ کیا۔ اربعین کی مناسبت سے، اس بشارت اور روحانیت کے اس مرکز سے دور رہ جانے والوں کے عنوان سے - چاہے پیداوار اور خلاقیت کے میدان میں ہوں، آپ ٹی وی پر یہ خبریں دیکھتے ہیں کہ ہر روز ملک کے پیداواری اور صنعتی شعبوں کے ایک حصے میں ہمارے نوجوان ایک نئی جدت پیش کرتے ہیں۔ خواہ وہ وبائی امراض کے خلاف جنگ میں ہو یا انسانی امداد کی تحریک میں، یا ثقافتی جہاد میں، یا قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلوں وغیرہ کی وجہ سے امداد میں۔ آپ جہاں بھی دیکھیں آپ کو نوجوانوں کی موجودگی نظر آتی ہے۔ اس نوجوان کو مایوس نہیں کیا جا سکتا، اس نوجوان کو اقدار سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا، یہ نوجوان محاذ جنگ کے بیچ میں ایک انتھک قوت ہے، اور یقیناً انقلابی اور مومن نوجوان ان تمام معاملات میں سرخرو تھے۔ یہ نوجوانوں کی صورتحال ہے۔

اس نقطہ نظر سے، اگر ہم آپ کی موجودگی کا مشاہدہ کریں - کہ آپ اس امام حسن مجتبیٰ ع یونیورسٹی میں جمع ہوئے ہیں اور وہ جو دوسری یونیورسٹیوں میں یہ خطاب سن رہے ہیں - تو آپ کی موجودگی اور مسلح افواج میں آپ کا داخلہ ایک عظیم اثاثہ ہے؛ آپ کی موجودگی بلاشبہ سابق فوجیوں کے تجربے اور کمانڈروں کی معلومات کے ہمراہ ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔

مسلح افواج کی مضبوطی ملک کی مضبوطی ہے۔ ملک کی مضبوطی میں ایک مضبوط ستون مسلح افواج ہے۔ بلاشبہ ملک کی مضبوطی کا دارومدار صرف مسلح افواج پر نہیں ہے۔ دیگر مضبوط ستون ہیں: علمی و سائنسی ترقی ملک کی ترقی کا ذریعہ ہے۔ لوگوں کا مجموعی ایمان اور دلوں میں ایمان کا راسخ ہونا قومی اقتدار کا ذریعہ ہے؛ عوام کی طرف سے تشکیل دی گئی اور عوام پر بھروسہ کرنے والی حکومت ملک کے لیے باعث فخر ہے۔ یہ سب موجود ہیں لیکن مسلح افواج اور فوجی طاقت کی موجودگی بھی ملک کی بنیاد کو مضبوط کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ مختلف عوامل ملک کو نقصان اور دشمنی سے محفوظ اور مستحکم رکھ سکتے ہیں۔ یقیناً یہ تمام ممالک کیلئے ہے، یہ اصول ہمارے ملک کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ تمام ممالک کو طاقت کے ان اوزاروں کی ضرورت ہے، لیکن ہمارے جیسے ملک میں، جو امریکہ اور ان کے ساتھیوں جیسے بدمعاش اور خبیث دشمنوں کا سامنا کر رہا ہے، یہ زیادہ اہم ہے۔ اس لیے دفاعی قوت کو مضبوط کرنا ہوگا۔

میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے، میں اسے دوبارہ دہراتا ہوں: دفاعی طاقت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ کچھ حصہ مسلح افواج کے باہر سے، کچھ حصہ مسلح افواج کے اندر سے؛ میں اس دوسرے حصے پر بات کروں گا۔ مسلح افواج کے حکام کو مسلح افواج کو مضبوط کرنے کے لیے نئے اور جدید حل نکالنے چاہئیں، جن میں تربیت اور عسکری آلات کی جدت ہے، جو کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری مسلح افواج میں شروع ہو چکا ہے، لیکن کام کرنے کا میدان اب بھی بہت باقی ہے. آج، مسلح افواج کی تمام افعال میں جدت، بشمول فوجی آلات، ہتھیار اور یہاں تک کہ گولہ بارود سے متعلق امور، اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ یا مسلح افواج میں تحقیق اور سائنسی پیش رفت جو کہ مسلح افواج کی مضبوطی ہے۔ یا پیچیدہ جنگی گیمز کو ڈیزائن کرنا۔ آج عالمی جنگیں مرکب جنگیں ہیں۔ آپکو معلوم ہے؛ سخت جنگ اور نرم جنگ، فکری جنگ، ثقافتی جنگ، مختلف ہتھیاروں سے جنگ، نظریاتی جنگ اور اس طرح کی جنگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ترکیب کرکے کسی قوم یا ملک پر حملہ کیا جاتا ہے۔ جنگی گیمز کو ان تمام پرتوں کو جدید طریقوں کے ساتھ فراہم کرنے کے قابل ہونا چاہئے، جدید ترین طریقوں کے ساتھ، انشاء اللہ۔

تو، مسلح افواج کی اصل ذمہ داری کیا ہے؟ قومی سلامتی کا تحفظ؛ یہ وہ چیز ہے جس پر آپ نوجوان جو ابھی ابھی اس راہ میں داخل ہوئے ہیں انہیں فخر ہونا چاہیے، پر جوش ہونا چاہیے، شکر مند ہونا چاہیے۔ مسلح افواج کی ذمہ داری ملک کی عمومی سلامتی کی ذمہ داری ہے۔ "قومی سلامتی" کا کیا مطلب ہے؟ تحفظ و سلامتی ایک معاشرے کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا بنیادی ڈھانچہ ہے، یہ ایک عمومی بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ذاتی مسائل سے لے کر سماجی مسائل تک، عوامی مسائل سے لے کر غیر ملکی مسائل تک؛ سلامتی اس سب کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ انفرادی معاملات میں سلامتی کے معنی یہ ہیں کہ آپ رات کو اپنے گھر میں سکون سے سو سکتے ہیں، آپ اپنے بچے کو صبح بغیر فکر کے سکول بھیج سکتے ہیں، آپ کاروبار کی جگہ جا سکتے ہیں، آپ بغیر کسی فکر کے نماز جمعہ کے لیے جا سکتے ہیں۔ دیکھیں، ان ممالک کو دیکھیں جو ان میں سے کسی بھی مرحلے پر تحفظ کا شکار نہیں ہیں؛ وہ رات کو سکون سے سو نہیں سکتے، وہ دن میں کام پر نہیں جا سکتے، وہ کھیلوں کو محفوظ طریقے سے نہیں دیکھ سکتے، وہ جمعہ کی نماز کے لیے نہیں جا سکتے، وہ سفر نہیں کر سکتے۔ یہ بات صرف چھوٹے ممالک سے مخصوص نہیں ہے۔ بڑے ممالک میں، سب سے بری بات، امریکہ میں، ریستورانوں میں سیکورٹی نہیں ہے، یونیورسٹیوں میں سیکورٹی نہیں ہے، بچوں کے اسکولوں میں سیکورٹی نہیں ہے، دکانوں میں سیکورٹی نہیں ہے. انفرادی معاملات میں "سیکیورٹی" کا مطلب یہ ہے؛ اس کا مطلب ہے کہ آپ، آپ کے بچے، آپ کا خاندان تحفظ کے احساس کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ آپ کا کام، کاروبار، سفر، اور تفریح ​​محفوظ رہے۔

زیادہ عمومی مسائل میں، کسی یونیورسٹی یا مدرسے یا تحقیقی ادارے یا فکری مجموعے میں آپ بیٹھ کر سوچنے، کام، تحقیق، مطالعہ کرنے کے قابل ہوں؛ یہ امن و آمان کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو یہ پیشرفت حاصل نہ ہوتی۔ جہاں بھی ترقی ہوئی ہے، وہ سیکورٹی کی فراہمی کی بدولت ہوئی ہے۔ سیکورٹی کے بغیر کام مشکل ہو جاتا ہے۔ اقتصادی سرمایہ کاری؛ اگر آپ ملک کی معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو یہ سیکیورٹی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سیکورٹی کے بغیر ٹرانزٹ نہیں ہو سکتا، سیکورٹی کے بغیر پیداوار نہیں ہو سکتی۔ سیکورٹی ان تمام چیزوں کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔

مسلح تنظیمیں ملک اور عام لوگوں کی اس مستقل اور ہمیشہ کی ضرورت کی فراہمی کرتی ہیں۔ یہ کم اعزاز نہیں ہے۔ فوج ایک طرح، سپاہ پاسداران ایک طرح، قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک طرح، بسیج ایک طرح، ہر کوئی ایک طرح سے سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ تھانے پر حملہ کرنے والا ملک کی سلامتی پر حملہ کرتا ہے۔ بسیج بیس پر حملہ کرنے والا ملک کی سلامتی پر حملہ کر رہا ہے۔ جو اپنے بیانات، تقاریر اور گفتگو میں فوج یا سپاہ پر الزام تراشی کرتا ہے وہ ملکی سلامتی کی توہین کر رہا ہے۔ مسلح افواج کی تنظیموں کو کمزور کرنے سے ملکی سلامتی کمزور ہوتی ہے۔ پولیس کو کمزور کرنے کا مطلب مجرموں کو مضبوط کرنا ہے۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ مجرموں کے خلاف کھڑی ہو اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ جو شخص پولیس پر حملہ کرتا ہے وہ دراصل عوام کو مجرموں، غنڈوں، چوروں، بھتہ خوروں کے خلاف بے دفاع چھوڑ دیتا ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی سعادت یہ ہے کہ ہمارے پاس جو سیکورٹی ہے وہ عوامی سیکورٹی ہے۔ یہ بات فرق کرتی ہے کہ کوئی ملک، کوئی قوم اپنے اندر سے، اپنی قوتوں سے، اپنی طاقت سے، اپنے خیالات و نظریات سے اپنے لیے تحفظ پیدا کرے، اسکی بنسبت کہ کوئی باہر سے آ کر کہے کہ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ میں آپ کی حفاظت کروںگا؛ اس شخص کی طرح جو اپنی دودھ دینے والی گائے کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ صورتحال اس سے بہت مختلف ہیں۔ ہماری سلامتی فطری ہے۔ ہم اپنی سلامتی کے لیے کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ہم اس قومی سلامتی کو خدا کی طاقت سے، خدا کے فضل سے، پروردگار کی توفیق  سے، امام زمانہ ع (ہماری جانیں ان پر قربان ہوں) کی پشتپناہی سے، قوم کے تعاون سے، مسلح افواج کے حکام کی استقامت کے توسط سے  ایجاد کرنے اور برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جو بیرونی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے وہی بیرونی طاقت اسے ضروت کے وقت تنہا چھوڑ دے گی۔ وہ نہ تو اس کی حفاظت کر سکتی ہے اور نہ ہی چاہتی ہے۔ خیر، مسلح افواج کے مسائل کے بارے میں یہ چند جملے؛ یہ یاد رکھیں؛ فخر کریں، اس راستے پر گامزن رہیں، اپنے کام کو خدا کی رضا کے مطابق سمجھیں اور خدا کے لیے اس کام کو انجام دیں۔

اور اب حالیہ واقعات کے بارے میں چند جملے۔ پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے واقعات میں سب سے بڑھ کر ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے پر ظلم ہوا، بسیج پر ظلم ہوا، اور ایرانی قوم کے ساتھ بھی ظلم ہوا۔ انہوں نے ظلم کیا۔ بلاشبہ اس واقعے میں بھی قوم دوسرے واقعات کی طرح پوری طرح مضبوط طور سے سامنے آئی۔ ہمیشہ کی طرح، پہلے کی طرح؛ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ مستقبل میں جہاں بھی دشمن انتشار پیدا کرنا چاہیں، ایران کی بہادر اور وفادار قوم ہی سب سے پہلے سینہ سپر کرے گی اور سب سے زیادہ موثر دکھائی دے گی۔ وہ ہمیشہ میدان میں آتی ہے اور اس مرتبہ بھی  میدان میں داخل ہوئئ۔ ہاں، ایرانی قوم مظلوم ہے، لیکن مضبوط ہے! امیر المومنین ع کی طرح، متقین کے سردار کی طرح، اپنے مولا علی علیہ السلام کی طرح، جو سب سے زیادہ مضبوط اور سب سے زیادہ مظلوم تھے۔

اس واقعہ میں جو پیش آیا، ایک نوجوان لڑکی کی موت ہو گئی۔ خیر، یہ ایک تلخ واقعہ تھا، ہمارے دل بھی رنجیدہ ہوئے، لیکن اس واقعے کا ردِ عمل بغیر کسی تحقیقات کے، بغیر کسی مسلم چیز کے، یہ نہیں تھا کہ چند لوگ امن و آمان کو غیر محفوظ بنانے، لوگوں کے لیے عدم تحفظ پیدا کرنے، سلامتی میں خلل ڈالنے کے لیے باہر نکل آئیں۔ قرآن کو جلانا، پردہ دار عورت کے سر سے حجاب اتار دینا، مسجد اور حسینیہ کو جلانا، بینک جلانا، لوگوں کی گاڑیاں جلانا۔ کسی ایسے مسئلے کا رد عمل جو افسوسناک بھی ہے ایسی حرکتوں کا سبب نہیں بنتا۔ یہ حرکتیں معمولی نہیں تھیں، فطری نہیں تھیں۔ یہ فسادات منصوبہ بند تھے، یہ ہنگامے منصوبے کے ساتھ  تھے۔ اگر اس نوجوان لڑکی کا معاملہ نہ ہوتا تو وہ اس سال مہر(ایرانی چھٹا مہینہ) کی پہلی تاریخ کو ملک میں عدم تحفظ پیدا کرنے کا ایک اور بہانہ بناتے جس کی وجہ میں بیان کروں گا۔ یہ منصوبہ کس نے بنایا؟ میں صاف کہتا ہوں کہ یہ منصوبہ بندی امریکہ کا کام ہے، غاصب صیہونی حکومت اور ان کے حواریوں کا کام ہے۔ وہ بیٹھ کر منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان کے کارکنوں، کرائے کے سپاہیوں اور تنخواہ لینے والے، کچھ غدار ایرانیوں نے جو ملک سے باہر ہیں، ان کی مدد کی۔

بعض لوگ، ہم جیسے ہی کہتے ہیں کہ "غیر ملکی دشمن نے فلاں فلاں واقعہ رونما کیا"، گویا وہ اس لفظ "غیر ملکی دشمن" کے بارے میں حساس ہیں۔ جیسے ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ "جناب! یہ کام غیروں کا تھا، یہ غیر ملکی دشمنوں کا کام تھا"، فوراً وہ امریکی جاسوسی ادارے یا صیہونیوں کے دفاع کے لیے اپنے سینوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں! وہ یہ ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے تجزیے، ہر قسم کی جھوٹی بیان بازی کا سہارا لیتے ہیں کہ نہیں، اس معاملے میں کسی غیر ملکی کا ہاتھ نہیں تھا۔ دنیا میں بہت سے ہنگامے ہوتے ہیں۔ دیکھیں، یورپ میں، فرانس میں، ہر کچھ وقت بعد پیرس کی سڑکوں میں ایک مفصل ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ریاستہائے متحدہ کے صدر اور ایوان نمائندگان کی تاریخ میں فسادیوں کی حمایت کرنے کی کوئی مثال موجود ہے؟ کیا اس طرح کا پیغام بھیجنے کی کوئی مثال ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں؟ کیا ایسی کوئی تاریخ ہے کہ امریکی خزانے اور امریکی حکومت سے وابستہ بدقسمتی سے سعودی حکومت سمیت بعض علاقائی حکومتوں کی حمایت سے چلنے والے ذرائع ابلاغ اس طرح سے انتشار پھیلانے والوں کی حمایت کیلئے نکل پڑے ہوں؟ کیا ایسی کوئی مثال ہے؟ کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ انہوں نے اعلان کیا ہو کہ ہم بلوائیوں کو فلاں فلاں ہارڈویئر اور سافٹ ویئر فراہم کریں گے تاکہ وہ آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں اور اپنے کام کی تکمیل کر سکیں؟ کیا دنیا میں کہیں بھی، کسی ملک میں ایسی کوئی تاریخ ہے؟ لیکن یہ یہاں ہوا؛ ایک بار نہیں، دو بار نہیں، کئی بار۔ تو، آپ کو غیر ملکی ہاتھ کیسے نظر نہیں آتا؟ ایک عاقل انسان یہ کیسے محسوس نہیں کر سکتا کہ ان واقعات کے پس پردہ دوسرے ہاتھ کام کر رہے ہیں، دوسری سازشیں کام کر رہی ہیں۔

یقیناً، وہ کسی کے انتقال کر جانے پر اپنے جذبات کا جھوٹا اظہار کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور کسی طرح بھی اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ خوش ہیں، خوشحال ہیں کیونکہ انہیں انتشار پھیلانے کا بہانہ مل گیا ہے۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہاں تینوں اداروں کے عہدیداروں نے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ پھر وہ مخصوص عناصر جن کا میں ذکر کروں گا، دوسرے لوگوں کو، بغیر کسی جرم کے، بغیر کسی خطا کے قتل کرتے ہیں۔ عدلیہ نے اس معاملے کی آخری حد تک پیروی کرنے کا وعدہ کیا۔ تحقیق کا یہی مطلب ہے۔ یعنی کام کی پیروی کرنا، نتیجہ معلوم کرنا، یہ دیکھنا کہ کوئی مجرم ہے یا نہیں اور مجرم کون ہے۔ آپ کس طرح ایک تنظیم، ایک بہت بڑے خدمتگزار گروہ کی توہین اور تنقیص کرتے ہیں، صرف اس  امکان پر کہ کہ ایک یا دو لوگوں سے غلطی ہوئی ہوگی، جو یقینی نہیں ہے اور اس کی ابھی تحقیقات نہیں ہوئیں؟ اس حرکت کے پیچھے کوئی منطق نہیں ہے۔ اس میں جاسوسی ایجنسیوں کے کام کے علاوہ، سوائے بدنیتی پر مبنی غیر ملکی سیاست دانوں کے کام کےعلاوہ  کوئی اور عنصر دخیل نہیں ہے۔

تو، غیر ملکی حکومتوں کا محرک کیا ہے؟ میں جو محسوس کرتا ہوں، ان کا محرک یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک ہمہ گیر اقتدار کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اسے محسوس کرتے ہیں، وہ اسے دیکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کچھ پرانی مشکلات ختم ہورہی ہیں۔ بلاشبہ ملک کے بہت سے مسائل ہیں، ان میں سے کچھ مسائل برسوں سے چل رہے ہیں، [لیکن] ان مسائل کے حل کے لیے، ان گرہوں کو کھولنے کے لیے ایک سنجیدہ کوشش چل رہی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں ترقی کی تحریک تیز ہورہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ انسان تمام حصوں میں تیز رفتار حرکت کا مشاہدہ اور محسوس کرتا ہے۔ وہ بھی یہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ وہ دیکھتے ہیں کہ نیم ناکارہ دوبارہ کارخانے چل اٹھے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ علمی مراکز فعال ہو چکے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ شعبوں میں ترقی یافتہ پیداوار روز بروز اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہے، وہ دیکھتے ہیں کہ ایسے کام کیے جا رہے ہیں جو ان کے پابندیون کے حملے کو بے اثر کر سکتے ہیں جو اس وقت دشمن کا واحد ہتھیار ہے۔ وہ یہ دیکھ رہے ہیں۔ اس تحریک کو روکنے کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے لئے منصوبہ بنایا ہے، انہوں نے سڑکوں کے لئے منصوبہ بنایا ہے؛ منصوبہ بندی کی ہے؛ دشمن نے منصوبہ بنایا ہے کہ یونیورسٹی کو بند کر دیا جائے، نوجوان نسل کو مشغول کیا جائے، اس سے ملکی حکام کے لیے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ملک کے شمال مغرب میں، ملک کے جنوب مشرق میں مسائل پیدا ہوں؛ یہ سب مشغول کرنے کیلئے ہے؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو ملک کی ترقی پسند تحریک کو روکنے کے لیے بنائی اور بھڑکائی جاتی ہیں۔ یقیناً وہ غلط ہیں۔ وہ شمال مغرب اور جنوب مشرق دونوں جگہ غلطیاں کرتے ہیں۔ میں بلوچوں کے درمیان رہ چکا ہوں۔ ان کا شمار ان نسلی گروہوں میں ہوتا ہے جو اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے ساتھ گہری وفاداری رکھتے ہیں۔ کرد قوم سب سے ترقی یافتہ ایرانی اقوام میں سے ایک ہیں۔ اپنے ملک سے قلبی لگاو، اپنے اسلام سے قلبی لگاو، اپنے اسلامی نظام سے قلبی لگاو رکھنے والے ہیں۔ ان کا منصوبہ کام نہیں کرے گا، لیکن وہ اپنا زہر انڈیلیں گے، وہ اپنا کام کریں گے۔

یہ [اعمال] ہمارے دشمنوں کے باطن کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ دشمن جو سفارتی بیانات میں کہتا ہے کہ ہم ایران پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم اسلامی جمہوریہ کے نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور ہم ایرانی قوم کے حامی ہیں، اسکی حقیقت یہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس کا باطنی چہرہ سازش ہے، اس کا باطنی چہرہ فساد پیدا کرنا ہے، اس کا باطنی چہرہ ملک کی سلامتی کو تباہ کرنا ہے، اس کے باطنی چہرہ ان لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا ہے جو بھڑک اٹھیں اور سڑکوں پر آجائیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے۔

وہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہیں، بلکہ وہ ایران کے خلاف ہیں۔ امریکہ ایک مضبوط ایران کے خلاف ہے، ایک آزاد ایران کے خلاف ہے۔ ان کی تمام باتیں، ان کی تمام لڑائیاں اسلامی جمہوریہ سے متعلق میں نہیں ہیں۔ بلاشبہ وہ اسلامی جمہوریہ سے شدید اور گہری دشمنی رکھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ کے بغیر بھی وہ ایک مضبوط ایران کے خلاف ہیں، وہ ایک آزاد ایران کے خلاف ہیں۔ وہ پہلوی دور والا ایران چاہتے ہیں: ایک دودھ دینے والی گائے اور ان کے حکم کا فرماں بردار کہ ملک کا بادشاہ برطانوی سفیر یا امریکی سفیر کے فیصلہ پر عملدرآمد کرنے پر مجبور ہوتا ہے! ایرانی قوم یہ شرم و آر کیسے برداشت کر سکتی ہے؟ وہ یہ چاہتے ہیں؛ وہ ایران کے خلاف ہیں۔

ہم نے کہا کہ اصل یہ جابر جو  پس پردہ کارفرما ہیں۔ لہٰذا، لڑائی باحجاب اور بےحجاب کے بارے میں نہیں ہے۔ اختلاف ایک نوجوان لڑکی کی موت پر نہیں ہے۔ یہ لڑائی نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ جو مکمل حجاب بھی نہیں کرتے اسلامی جمہوریہ ایران کے سنجیدہ حامی ہیں۔ آپ انہیں مذہبی تقریبات اور انقلابی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے۔ بحث اسلامی ایران کی آزادی و استقامت اور مضبوطی و اقتدار کی اصل کے بارے میں ہے۔ یہ مسئلہ ہے۔

میں اپنی باتوں کو ختم کرتے ہوئے ایک یا دو نکات بیان کروں گا۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ جو گلی کوچوں میں انتشار اور تباہکاری پھیلا رہے ہیں ان سب کا حکم ایک جیسا نہیں ہے۔ بعض نوجوان انٹرنیٹ پر کسی سرگرمی میں بھڑکاوے کی وجہ سے جذباتی ہوجاتے ہیں اور سڑکوں پر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک انتباہ سے آگاہ اور رہنمائی کی جاسکتی ہے کہ وہ غلطی پر ہیں۔ بلاشبہ، یہ سب تعداد، مجموعی طور پر، ایرانی قوم کے سامنے اور اسلامی ایران کے وفادار اور غیرت مند جوانوں کے سامنے بہت کم ہے۔ لیکن جو لوگ ہیں، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو جذبات اور بھڑکاوے میں سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ ان کا مسئلہ ایک انتباہ سے حل ہو سکتا ہے؛ یعنی ان کی رہنمائی کی جاسکتی ہے اور انہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ وہ غلطہمیں پر ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ اس طرح نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ پچھلے چالیس سالوں کے شکست خوردہ عناصر کی باقیات ہیں: منافقین، علیحدگی پسند، بدنام زمانہ پہلوی حکومت کی باقیات، مسترد شدہ اور متنفر ساواکیوں کے خاندان، جن چیزوں کو وزارت اطلاعات کے حالیہ بیان نے کافی حد تک واضح کردیا ہے۔ (2) یقینا، اور بھی چیزیں ہیں۔ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ملکی امن و آمان کو تباہ کرنے اور نقصان پہنچانے میں ان کی شرکت کی حد کے مطابق ان کی تحقیقات کرے اور سزا دے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ واقعے کے بالکل شروع میں، کچھ خواص، اب شاید ہمدردی کیوجہ سے - ان کے دل رنجیدہ ہوگئے - انہوں نے اطلاعیے دیئے، بیانات دیئے، باتیں کیں، بغیر تحقیق کے بیانات دیئے۔ ان میں سے کچھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر الزام لگایا۔ ملک کے انتظامی ادارے، پولیس پر انہوں نے الزامات لگائے، ان میں سے کچھ نے پورے نظام پر الزام لگایا۔ سب نے کسی نہ کسی طرح ردعمل۔ خیر اب اس کا حساب الگ ہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ درحقیقت مسئلہ کیا ہے اور یہ سمجھ جانے کے بعد کہ سڑکوں اور عوام جگہوں پر ان کی باتوں کے ساتھ ساتھ دشمن کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں کیا ہو رہا ہے۔ انہیں اپنے کام کی اصلاح خود کرنی چاہیے تھی۔ انہیں موقف اختیار کرنا چاہئے، انہیں واضح طور پر اعلان کرنا چاہئے کہ وہ جو کچھ ہوا اس کے خلاف ہیں، انہیں یہ واضح کرنا چاہئے کہ وہ غیر ملکی دشمنوں کے منصوبے کے خلاف ہیں۔ کیس کا نچوڑ سامنے آگیا۔ جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی سیاسی عنصر ان مسائل کا موازنہ دیوار برلن سے کرتا ہے، تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ مقصد کیا ہے؛ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ ایک نوجوان لڑکی کے لیے اظہار ہمدردی کا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کو یہ سمجھنا چاہیے تھا۔ اگر نہیں سمجھتے تو اب سمجھ لیں۔ اگر آپ سمجھ گئے ہیں، تو آپ کو اپنے موقف کا اعلان کرنا ہوگا. یہ بھی ایک نکتہ ہے۔

کچھ کھلاڑی اور فنکارانہ شخصیات نے بھی موقف لئے۔ میری رائے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آپ کو اس بارے میں حساس نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا کھلاڑی طبقہ ایک سالم طبقہ ہے، ہماری فنکار برادری بھی ایک سالم کمیونٹی ہے۔ اس کھلاڑی اور فنکار برادری میں وفادار، قلبی لگاو رکھنے والے، معزز عناصر کم نہیں ہیں، وہ بہت ہیں۔ اب چار لوگ ایک بات کہ دیتے ہیں۔ ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ عدلیہ پر منحصر ہے کہ ان کے بیانات پر جرم لاگو ہو گا یا نہیں، لیکن رائے عامہ کے لحاظ سے ان کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے اور ہمارے فنکار اور کھلاڑی طبقے ایسی حرکات اور ان معاندانہ رویوں سے آلودہ نہیں ہونگے۔ 

میری آخری بات پولیس کے شہداء، مسلح افواج کے شہداء، سلامتی کا دفاع کرنے والے شہداء، حالیہ شہداء اور راہ حق کے تمام شہداء پر ڈھیروں سلام ہے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں، جو امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں منعقد ہوا، مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف بريگيڈیئر جنرل محمد باقری، ایرانی فوج کے کیڈٹ کالجوں کے کمانڈر سیکنڈ ایڈمرل آریا شفقت، امام حسین کیڈٹ کالج کے کمانڈر بریگيڈیئر نعمان غلامی اور امام حسن آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے کمانڈر سیکنڈ بريگيڈیئر پرویز آہی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) وزارت انٹیلی جنس کے بیان میں جو 30/9/2022 کو جاری ہوا، ملک کے بعض حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والے ہنگاموں کی تفصیلات بیان کی گئي ہیں اور بتایا گيا ہے کہ ان ہنگاموں کے دوران منافقین (دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق) کے گروہ سے وابستہ 49 ایجنٹوں، کومولہ، ڈیموکریٹ، پاک اور پژاک جیسے گروہوں سے تعلق رکھنے والے 77 عناصر، تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کے پانچ اراکین، بہائي فرقے کے پانچ افراد، منحوس پہلوی حکومت سے وابستہ اور سلطنتی نظام کے خواہاں 92 افراد، 9 غیر ملکیوں، غیر ملکی میڈیا سے وابستہ بعض افراد اور ہسٹری شیٹر 28 غنڈوں اور بدمعاشوں کو حراست میں لیا گيا ہے۔