ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سینکڑوں ممتاز اور اعلیٰ علمی صلاحیتوں کے حامل طلباء کے ساتھ ملاقات میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ الحمدللہ، کورونا کی اس مشکل میں کمی کے بعد ایک بار پھر یہ شاداب، تر و تازہ اور امید افزا نشست منعقد ہوئی۔ واقعی، آپ نوجوانوں کی موجودگی، خاص طور پر نمایاں استعداد کے حامل نوجوان جو آپ ہیں، امید کے خالق ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں، آپ کی موجودگی امید پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملک کی ترقی نہیں چاہتے ہیں وہ جہاں آپ کو ہونا چاہئے وہاں آپ کی کی موجودگی سے متفق نہیں ہیں۔ خیر، الله کا شکر ہے۔

میں احباب کی گفتگو کے بارے میں ایک جملہ کہنا چاہوں گا۔ سب سے پہلے، بہت ساری اچھی باتیں کہی گئیں، یعنی میں نے واقعی ان سے استفادہ کیا اور مجھے لگتا ہے کہ جو تجاویز دی گئی ہیں وہ درست اور اکثر عملی ہیں۔ اور یہاں سے انسان اس حقیقت کو زیادہ سمجھتا ہے کہ پچھلے سالوں میں ہمارے بہت سے مسائل انتظامی مسائل تھے۔ ایک حل تھا، [لیکن] انتظامیہ نے اس حل پر توجہ نہیں دی۔ اب ہمیں امید ہے کہ یہ موجودہ حکومت انشاء اللہ سنجیدگی سے اس پر عمل کرے گی جس کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ یہاں کچھ وزیر اور نائب صدور موجود ہیں، انہیں ان نکات کو حکومت میں اٹھانا چاہیے، میں بھی ان کو پہنچاوں گا۔ یعنی اب یہ مواد جو مجھے دیا گیا ہے دفتر میں اسے دیکھا جائے گا، ان شاء اللہ، ہم دونوں خود جناب صدر اور سرکاری افسران تک بھی پہنچا دیں گے۔

آج جو نکات میں نے پیش کرنے کے لیے تیار کئے ہیں وہ دو تین حصوں میں ہیں، جنہیں اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک ممتاز استعداد کے حامل افراد کے بارے میں ہے۔ ممتاز استعداد کا عنوان، ممتاز استعداد کا موضوع؛ اس متعلق دو تین نکات بتانا چاہتا ہوں کہ ممتاز استعداد کے حامل کون ہیں اور کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک اور موضوع ممتاز استعداد کے حامل افراد کی توقعات ہیں۔ اب جب کہ ہم جان چکے کہ ممتاز استعداد کے حامل کون ہیں، ہم ملک کے متاز طبقے سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ اگلا موضوع وہ ہے جو ہم اداروں سے ممتاز طبقے کی حمایت کے حوالے سے توقع رکھتے ہیں۔ کیونکہ ممتاز استعداد کا حامل فرد ایک نوجوان ہے؛ وہ پشتپناہی چاہتا ہے، وہ سہارا چاہتا ہے، وہ حمایت چاہتا ہے۔ ان حمایتوں کی اقسام کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ میں ان میں سے ہر ایک کو مختصراً بیان کروں گا۔ میرے ذہن میں ایک اور نکتہ ہے جو آخر میں بیان کروں گا۔

ممتاز علمی طبقہ اور [عام طور پر] ممتاز طبقے کے بارے میں، سب سے پہلے ہمیں جاننا چاہیے اور ہم جانتے ہیں - یعنی میں اس پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور ہم سب کو یہ جاننا چاہیے - کہ ممتاز طبقہ ملک کے اہم ترین انسانی اثاثوں میں سے ایک ہے۔ ہاں، ملک کے قدرتی وسائل اہم ہیں، جغرافیائی محل وقوعات اہم ہیں، آب و ہوا اہم ہے، یہ سب اہم ہیں، لیکن سب سے اہم ممتاز طبقے کا وجود ہے۔ ممتاز طبقے کو بہت بڑا سرمایہ سمجھنا چاہیے۔ جب ہم اسے ایک بہت بڑا سرمایہ سمجھتے ہیں، ہم اسے اضافے کرنے کی کوشش کریں گے، اس کے ہاتھ سے نکل جانے کو نقصان سمجھیں گے، اور حتی الامکان اسے جانے سے روکیں گے اور اس کے ساتھ فراخدلی سے پیش آئیں گے۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عظیم اور اہم سرمایہ ہے، تو اس کے تئیں ہمارا رویہ اسی کے مطابق تشکیل پائے گا۔ لہذا، ہمیں یہ جاننا چاہئے، سب کو معلوم ہونا چاہئے؛ ملک کے عہدیدار اور ملک کے عمومی مقامات پر اثر و رسوخ رکھنے والوں کو۔

ممتاز علمی طبقہ اور بنیادی طور پر یونیورسٹی ملک کی ترقی کے ستونوں میں سے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کی ترقی کا ایک اہم ستون یونیورسٹی ہے، اور یونیورسٹی میں بنیادی طور پر ممتاز طبقہ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ کل اور پرسوں ہی نہیں بلکہ مختلف اوقات میں یونیورسٹیوں کو بند کرنے، کلاسیں بند کرنے، بچوں کو کلاس میں جانے سے روکنے، اساتذہ کو نہ جانے وغیرہ کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کیونکہ یونیورسٹی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اب جو شخص پروفیسر کو فون پر دھمکی دیتا ہے کہ تم جاؤ تو فلاں فلاں، یہ واضح نہیں ہے کہ اصل مجرم وہی ہے؛ پس پردہ عنصر اہم ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یونیورسٹی اہم ہے، یونیورسٹی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ جس قدر بھی یونیورسٹی کو معطل، بند، ناقص اور عقب‌مانده کردیں، یہ ملک کے دشمنوں اور ملک کی ترقی کے دشمنوں کیلئے غنیمت ہے۔ اس لیے یونیورسٹی ملک کی ترقی کے ستونوں میں سے ایک ہے۔

یونیورسٹی استکبار کے غلبہ کے مقابل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کا ہدف تسلط ہے۔ کس طرح سے؟ ایک دن ہتھیاروں کے ساتھ، ایک دن فریب کے ساتھ، ایک دن سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے؛ سائنس کے ذریعے بھی تسلط حاصل کرتے ہیں۔ یونیورسٹی تسلط کو روکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ملکی سائنس کی سطح کو بلند کرنے میں کامیاب ہوئے تو آپ نے دشمن کی حکمرانی میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ یہ ممتاز علمی طبقے اور یونیورسٹیوں کے بارے میں ایک نقطہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ممتاز استعداد والے فرد کی تشکیل میں ایک عنصر اس کی فطری صلاحیت ہے۔ ایک اچھی سوچ، ایک اچھا ذہن، ایک اچھا دماغ، جو ایک خدائی تحفہ ہے؛ یہ اب کسی اور کا کام نہیں، یہ اللہ نے دیا ہے۔ اب خدا نے کس وجہ سے دیا یہ الگ بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس طبقے کو ایک مضبوط دماغ، اچھی سوچ، ضروری استعداد، کھلی آنکھیں عطا کی ہیں۔ یہ ایک عنصر ہے۔ کسی کے لیے ممتاز فرد بننے کا دوسرا عنصر اس کی اپنی کوشش اور اس کا اپنا کام ہے۔ تاہم، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس یہ خدا کا دیا ہوا تحفہ ہے، [لیکن] وہ کام نہیں کرتے، وہ کوشش نہیں کرتے، وہ محنت نہیں کرتے، وہ کہیں نہیں پہنچتے؛ وہ نہ خود ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی ملک کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں، ہمارے پاس اب بھی ہیں، ماضی میں اور بھی زیادہ تھیں۔ لہٰذا ممتاز فرد بننے کا دوسرا عنصر خود اس شخص سے متعلق ہے اور وہ ہے کوشش اور استقامت اور ان کی مانند چیزیں۔ یہ دو عناصر۔ ایک تیسرا عنصر بھی ہے جسے میں بعد میں پیش کروں گا۔ اپنی اسی تقریر میں بعد میں بتاؤں گا۔

اس ممتاز فرد کے لیے جو ان عناصر سے مل کر بنا ہے، ایک اہم عامل تاکہ وہ اس قدرتی صلاحیت کو ظاہر کر سکے اور محنت کرنے کا موقع حاصل کر سکے، زمینہ ہے۔ ممتاز فرد کی کوششوں کا میدان؛ یہ بہت اہم ہے۔ کبھی کوئی ممتاز فرد ہوتا ہے، وہ کام کرنے کو بھی تیار ہے، لیکن اس کے لیے میدان مہیا نہیں کیا جاتا۔ یہ زمینہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ ایجاد ہونا چاہیے، طاغوت کے دور میں موجود نہیں تھا۔ اگر تھا تو یہ طاغوت کی سرکاری پالیسیوں میں شامل نہیں تھا۔ کوئی مواقع نہیں تھے۔ بہت سے لوگ اچھے ہنر کے مالک تھے، وہ محنت کرنے کے لیے تیار تھے، وہ کوشش کر رہے تھے، [لیکن] وہ اپنے سر پیٹ رہے تھے۔ ان کے لیے نہ صرف میدان مہیا کیا گیا بلکہ ان کے لیے منفی کام بھی کیا گیا۔ طاغوت کے دور میں ایسا ہی تھا۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے زمین مہیا ہوئی۔ دیکھیں میں یہ بات دوٹوک اور صراحت سے کہتا ہوں، یعنی یہ وہ چیز ہے جس میں شک نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ میں انقلاب کے آغاز سے ہی طلباء اور یونیورسٹی اداروں، تہران یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں میں موجود تھا، میں پروفیسروں کے ساتھ مسلسل اٹھتا اور بیٹھا تھا۔ میں پورے یقین کے ساتھ اور ثابت کرنے کے دعوے کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسلامی انقلاب کے ساتھ ہی ممتاز طبقے کی پرورش کا موقع ہاتھ آیا۔

سب سے پہلے، یونیورسٹیوں میں اضافہ؛ آپ دیکھیں کہ ملک میں اب کدھر کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ اب بعض احباب نے شکایت کی کہ بعض جگہوں پر یونیورسٹی قائم کر دی گئی ہے اس کی ضروریات پوری کیے بغیر۔ بہت اچھا، لہذا یونیورسٹی بنانے کا عزم تھا۔ یہ بہت اہم ہے۔ ملک میں ہر جگہ یونیورسٹیاں ہیں۔ کچھ دور دراز شہروں کی یونیورسٹیاں ممتاز یونیورسٹیاں ہیں۔ انسان [اس] کو سمجھ سکتا ہے۔ دور دراز شہر کی ایک یونیورسٹی میں بہت اچھے پروفیسر، نامور پروفیسر، معروف پروفیسرز ہیں۔ ہم اس طرح کی مثالیں جانتے ہیں۔ [یہ] یونیورسٹی کی ترقی سے متعلق۔

پھر ماہرین تعلیم؛ یونیورسٹی کی افرادی قوت میں اضافہ؛ طلباء اور پروفیسر دونوں۔ ملک کے طلباء - میں یہ اعدادوشمار کئی بار دے چکا ہوں، لیکن مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ میرے پاس ان کے ماخذ نہیں تھے جب میں لکھ رہا تھا - تقریباً 25 گنا، ملک کے طلباء میں اضافہ ہوا ہے۔ 25 گنا! یہ بہت ہے!

پروفیسر؛ انقلاب کے پہلے سالوں میں - 1359، 1360 کے آس پاس کے سال - جب ہم یونیورسٹی کے مسائل پر بات کر رہے تھے، جیسا کہ مجھے یاد ہے، ملک میں تقریباً پانچ ہزار پروفیسرز اور فیکلٹی ممبران تھے۔ اب یہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ اب یہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ ملک کی آبادی دگنی ہوئی ہے، لیکن اس میں بیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اہم ہیں۔ یہ اعداد و شمار بہت واضح اور گویا ہیں۔ انقلاب نے کیا کیا؟

ملک میں تحقیقی اداروں کی یہ کثرت؛ فکری مراکز، تحقیقی ادارے، تحقیقی مراکز۔ یہ ملک کے کئی حصوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ملک میں علم کی یہ وسعت بہت قیمتی ہے۔ یہ ممتاز طبقے کی پرورش کا میدان ہے۔ ممتاز طبقے کے مواقع میں سے ایک یہ ہے۔ یقیناً، ہمیں خود ماہرین تعلیم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے ماہرین تعلیم نے ہمیں مغرب والوں کا محتاج نہیں رہنے دیا۔ کیونکہ جب کسی ملک میں یونیورسٹی ہوتی ہے [لیکن] پروفیسر نہیں ہوتا ہے تو ذہن میں آنے والی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ جاکر باہر سے پروفیسر حاصل کرو۔ [لیکن] ہمارے ماہرین تعلیم نے اسکی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے استاد کی تربیت کی۔ اب، شاید آج نوے فیصد پروفیسرز، ان کی نسل ہماری ہی یونیورسٹی کے تربیت یافتہ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کام کیا، انہوں نے محنت کی۔ خیر، اسلامی جمہوریہ چاہتا تھا کہ یونیورسٹی کو وسعت دی جائے، وہ مضبوط یونیورسٹی چاہتا تھا، اور ایسا ہوا، اللہ کا شکر ہے، یونیورسٹی نے بھی اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھایا اور خود کو ترقی دی۔ یہ ایک نکتہ ہے۔

ایک بات اور ہے کہ بلا مبالغہ یہ کہنا ضروری ہے کہ ہمارے ممتاز علمی طبقے ایران کی ساکھ قائم ہونے کا ذریعہ بنے۔ آپ ممتاز طبقے کی نوجوان نسل ہیں۔ آپ سے پہلے، آپ سے پہلے کی نسلوں میں، ان چالیس سالوں میں بہت سے ممتاز افراد تھے۔ انہوں نے ملک کو عزت دی۔ ہمارے سائنسدانوں نے ہر اس مسئلے میں جس پر مرکوز ہوئے اور توجہ دی، انہوں نے ایسا کام کیا جس کی دنیا کے سائنسی حلقوں میں تعریف کی گئی۔ اب میں آپ کو یہاں کچھ مثالیں بتاتا ہوں، جو یقیناً آپ سب جانتے ہیں۔

مثال کے طور پر، رویان تحقیقاتی مرکز کی تحقیق اور کامیابیاں، نہ صرف اسٹیم سیلز کے معاملے میں، بلکہ زندہ جانوروں کی کلوننگ میں، دنیا میں ایک نایاب چیز تھی؛ یہ انجام پایا. میں نے خود اس زندہ جانور کو دیکھا۔ یہ کوئی نقل قول نہیں ہے، میں گیا اور اس زندہ جانور کو دیکھا جو پیدا ہوا تھا۔ وہاں ایک نہیں تھا، کئی تھے؛ ہم نے یہ دیکھا یہ کوئی چھوٹا کام نہیں تھا۔ کاظمی آشتیانی (2) پر خدا کی رحمت نازل ہو جس نے اس کی بنیاد رکھی اور پھر یہ برادران جنھوں نے اس کام کو جاری رکھا اور یہاں تک پہنچ گئے۔ یہ ایک مثال ہے۔

بائیو کیمسٹری میں ترقی اور اس میدان میں یونیسکو میں رکنیت کا حصول؛ [خود انھوں] نے اعتراف کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ان بین الاقوامی رکنیتوں میں ہمارے دشمنوں کا ایک بنیادی کام مداخلت کرنا، دراندازی کرنا اور ایران کو نشست حاصل کرنے اور رکن بننے سے روکنا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے علمی طبقے نے یہ فتح حاصل کی۔

یا دوسری مثال، خلا میں سیٹلائٹ کی منتقلی ہے۔ یہ کچھ ممالک میں ہے، تمام ممالک کے پاس نہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس خلا میں سیٹلائٹ ہیں، [لیکن] یہ ان کا نہیں ہے، انہوں نے خود اسے لانچ نہیں کیا۔ اپنے بل بوتے پر بھیجنے والے صرف چند ممالک ہیں۔ بلاشبہ، ہم اس میں پیچھے ہیں، لیکن ہم نے خود بھیجا، ہم نے ممکن دیکھا، ہم اس پر لگ گئے؛ ہمارے سائنسدانوں نے توجہ مرکوز کی۔ اب ہمارے اس بھائی نے بھی یہاں خلا کے بارے میں تھوڑا ذکر کیا کہ یہ چیزیں ہو چکی ہیں۔ [ایک اور مثال:] تہران یونیورسٹی میں انسان نما روبوٹ بنانا؛ یہ اہم ہے۔ ہم ان کو نظر انداز کیوں کرتے ہیں؟

جوہری صنعت میں بنیادی کامیابیاں۔ جوہری صنعت کی یہ داستان ایک تفصیلی کہانی ہے۔ اس میدان میں بہت سے ایسے نکات ہیں جن کے کہنے کا ابھی وقت نہیں ہے۔ ہم نے جوہری صنعت میں بنیادی مسائل کو حل کیا ہے۔ ہم ہتھیاروں اور بموں وغیرہ کی تلاش میں نہیں ہیں، لیکن اس صنعت کی خود بہت سی برکات ہیں۔ ہم [اسے] حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلاشبہ، آج دنیا میں جن ممالک کی ایٹمی صنعت ہے، ہٹلر کے زمانے میں جرمنی کے علاوہ، جو اس وقت امریکیوں نے ان سے چھین لی تھی، کچھ اور ممالک کچھ علمی چوریوں کے ذریعے امریکیوں سے لینے میں کامیاب ہوئے۔ پھر فلاں ملک نے اپنے ہم خیال ملک کو دی، پھر وہ ملک [دوسرے کو]؛ جوہری علم رکھنے والوں نے اسے اس طرح پایا۔ ہم نے نہیں، یقیناً، وہ پہلا بہت ہی ناقص نمونہ باہر سے آیا تھا، یہ بہت غیر اہم تھا، لیکن جو کچھ کیا گیا وہ ایرانی علمی طبقے نے کیا۔ ایرانی علمی طبقے نے اسے طاقت اور امید کے ساتھ کیا۔

جدید میزائل اور ڈرون سازوسامان بنانا، جس کے بارے میں چند سال پہلے انہوں نے کہا تھا کہ یہ فوٹو شاپ ہیں! جب ان کی تصاویر شائع ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ فوٹوشاپ ہے۔ اب کہتے ہیں کہ ایرانی ڈرون بہت خطرناک ہیں! کسی کو کیوں بیچتے ہیں، کسی کو کیوں دیتے ہیں؟ یہ وہ چیزیں ہیں جو ایرانی ممتاز طبقے نے بنائی ہیں۔ یہ ملک کے لیے افتخار کی بات ہے۔ پیچیدہ ویکسین بنانا، خاص طور پر کورونا ویکسین وغیرہ؛ ہمارے پاس کچھ کم نہیں ہے۔ یہ ایک نکتہ ہے کہ ایرانی علمی طبقہ ملک کو عزت دینے میں کامیاب رہا ہے۔ ملک کو عزت دینے میں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ، جو نمایاں استعداد والے افراد ہیں، اپنی قدر کریں، اور جو باہر بیٹھے ہیں وہ آپ کی قدر کریں۔ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں؛ خدا کرے ہم آپ کی کوئی مدد کر سکیں۔

اب وہ تیسرا عنصر: میں نے دو عناصر بیان کئے، کہا تھا کہ تیسرا عنصر بھی ہے۔ ممتاز فرد ہونے اور ممتاز بننے اور ممتاز سمجھے جانے کا تیسرا عنصر کیا ہے؟ وہ ہدایت الہی اور توفیق۔ بلاشبہ، آپ کو ممتاز بننے اور ممتاز طبقے میں شمار ہونے کے لیے، آپ کو الٰہی توفیق اور الٰہی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ صرف اس لیے کہ کسی کے پاس استعداد ہے اور اس استعداد کو استعمال کرنے سے انسان ممتاز فرد نہیں بن جاتا۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی بہت ہوشیار اور ذہین شخص اس ہوشیاری، اس ذہانت کو غبن کے لیے استعمال کرے! کیا اس طرح نہیں کرتے؟ یا چوری کے لیے [استعمال] کرے؛ کیا یہ ممتاز فرد ہے؟ نہیں، یہ چور ہے۔ یہ دھوکہ ہے یہ ممتاز فرد نہیں ہے۔ ممتاز وہ ہے جسے حقیقی معنوں میں چنا ہوا ہو۔ ممتاز کا مطلب ہے منتخب، ممتاز کا مطلب ہے منتخب اور نمایاں۔ یہ چالاک چور جو گاڑیوں کے مختلف اور پیچیدہ تالے کھول سکتا ہے، چوری کر کے گاڑی لے جاسکتا ہے، کیا یہ کوئی ممتاز شخص ہے؟ نہیں، یہ چور ہے۔ یہ ممتاز فرد نہیں ہے۔ ممتاز فرد وہ ہے جو اس راستے کی پیمائش الٰہی توفیق کے ذریعے کرتا ہے اور خدائی ہدایت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔

میں اب چوروں اور غبن کرنے والوں کے اس مسئلے کو تھوڑا سا وسعت دیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ جو شخص طبیعیات میں نمایاں فرد ہوکر ایٹم بم بناتا ہے، یہ ہماری رائے میں ممتاز فرد نہیں ہے۔ وہ شخص جو کیمیاوی علم کے ذریعے مسٹرڈ گیس اور کیمیکل گیسیں بناتا ہے جو لوگوں کو ساری زندگی مصیبت میں ڈال دیتی ہے وہ ممتاز نہیں ہے۔ وہ جو، ریاضی اور جدید انجینئرنگ میں ترقی کے ذریعے، مثال کے طور پر، خلا پر قبضہ کر سکتا ہے - بہت اہم جگہ پر بھی اور لوگوں کی زندگی پر اثرانداز بھی ہوتا ہے - یعنی آپ اپنے گھر کے اندر بھی جب بات کر رہے ہیں، آپ کو یہ اطمینان نہیں ہے کہ آیا ایک اجنبی شخص آپکی باتیں نہ سن رہا ہو۔ صرف موبائل فون ہی کے ذریعے نہیں، نہیں، اور بھی طریقے ہیں۔ یہ ممتاز فرد نہیں ہے۔ یہ نمایاں استعداد کا حامل شخص جو علم سے اس طرح غلط استفادہ کرتا ہے، ممتاز فرد نہیں ہے۔

استعماری دور کے دوران، مغربی باشندے - سب سے پہلے پرتگال اور اسپین اور یہاں سے شروع ہوئے، پھر آہستہ آہستہ دوسرے مقامات [جیسے] ہالینڈ، بیلجیم، انگلینڈ اور فرانس تک پہنچے؛ وہ دوسروں سے پہلے ہتھیار حاصل کرنے کے قابل تھے؛ یعنی صنعتی انقلاب، مثال کے طور پر، 17ویں اور 18ویں صدیوں میں، اس نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ جدید ہتھیار بنانا تھا۔ خیر یہ جدید ہتھیار لے کر آئے اور ملکوں پر قبضہ کر لیا۔ ہندوستان ایک ایسے بڑے ملک کو، جس کا جغرافیائی رقبہ جزیرہ انگلستان سے دسیوں گنا بڑا ہے - [یقینا] صرف ہندوستان ہی نہیں؛ ہندوستان، پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش یعنی برصغیر پر قبضہ کیا، انہوں نے وہاں کے پڑوسی ممالک پر قبضہ کیا، اور ان ممالک کی قومی صنعتوں کو تباہ کر دیا جیسے میانمار۔ آپ کو نہرو کی یہ کتاب پڑھنی چاہیے  "عالمی تاریخ پر ایک نظر" (4)۔ بدقسمتی سے، آپ کم کتابیں پڑھتے ہیں۔ عالمی تاریخ پر ایک نظر کتاب نہرو نے لکھی ہے۔ انہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کے آنے کے عمل کو اور انہوں نے ہندوستان میں کیا کیا بیان کیا۔

میں نے حال ہی میں ہمارے اپنے مصنفین میں سے ایک کی لکھی ہوئی ایک کتاب دیکھی (3) - جن سے میں نزدیک سے واقف نہیں ہوں - جسے استعمار کی تاریخ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ 150-120 صفحات پر مشتمل کتاب جس کی پندرہ اور سولہ جلدیں ہیں۔ یہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح امریکی براعظم اور ایشیائی براعظم میں استعمار وہاں کی دولت کو تباہ کرنے اور خود کو مالا مال کرنے میں کامیاب رہا۔ انگلستان امیر ملک نہیں تھا، فرانس امیر ملک نہیں تھا، یورپی ممالک امیر نہیں تھے۔ وہ دوسرے ملکوں کی دولت لے گئے۔ وہ ہتھیاروں سے اس طرح کے کام کرنے کے قابل ہوئے. وہ تخلیقی ذہن رکھتے تھے، یہ سچ ہے۔ انہوں نے بہت کوشش کی؛ وہ خطرہ مول لینے والے تھے۔ یہ یورپیوں کی خوبیاں ہیں، لیکن انہوں نے ان خصوصیات کو کس لیے استعمال کیا؟ دنیا میں تسلط کا نظام قائم کرنے کیلئے؛ نظام تسلط۔  آج دنیا کی ایک بڑی آفت ہے جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے اور انشاء اللہ ختم ہو جائے گی، وہ تسلط کا نظام ہے۔ تسلط کے نظام کا مطلب یہ ہے کہ دنیا تسلط پسند اور تسلط پذیر ممالک میں تقسیم ہوجائے۔ چند ایک ممالک کو پوری دنیا پر طاقت سے حکومت کرنی چاہیے، دوسرے ممالک کو مختلف شعبوں میں ان کی اطاعت کرنی چاہیے۔ یہ تسلط کا نظام ہے۔ یہ تسلط کا نظام یورپ کی سائنسی ترقی سے پیدا ہوا۔ پس، اقدار کی نگاہ سے ممتاز فرد میں یہ خصوصیات شامل ہوتی ہیں۔

ممتاز فرد، اقدار کے زاویے سے، محنت کرنے والا صاحب استعداد شخص ہے جو الہی ہدایت سے بہرہ مند ہو۔ بعض اوقات وہ خود نہیں جانتا کہ یہ الہی ہدایت ہے لیکن وہ الہی ہدایت ہوتی ہے۔ یہ لحظے اور حیرت انگیز لمحات جن میں دنیا کے عظیم سائنسدانوں نے اس عالم میں ایک حقیقت کو دریافت کیا خدا کا کام ہے۔ یہ الٰہی ہدایت ہیں۔ کوئی کشش ثقل کو دریافت کرتا ہے، کوئی کسی جراثیم کو دریافت کرتا ہے؛ یہ الہی ہدایت ہے۔

اچھا، اب پیارے نوجوانو، خوش قسمتی سے، آپکے دل آلودہ نہیں ہیں۔ آپ نوجوان ہیں، نوجوان سے کچھ غلطیاں ہوسکتی ہیں، لیکن آپ کا دل صاف ہے، آپ کا ضمیر صاف ہے، آپ اس الٰہی ہدایت سے بہت مستفید ہوسکتے ہیں۔ لہذا [آپ کو] حقیقی معنی میں ایک ممتاز فرد بننے کے قابل ہونا چاہئے؛ یعنی استعداد رکھنا، محنت خرنا، اور الہٰی ہدایت اور توفیق سے ہمکنار ہونا، یقیناً: "وَ مَن یُؤمِن بِاللَهِ یَهدِ قَلبَه" (4) ایمان ہدایت لاتا ہے۔ یہ ممتاز افراد کے بارے میں چند نکات ہیں.

اب ممتاز افراد سے توقعات؛ ہمیں بھی آپ سے امیدیں ہیں۔ اگر ممکن ہوا تو مختصر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ پہلی توقع یہ ہے کہ آپ اس اعلیٰ صلاحیت کو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے – جو آپ کی انفرادی صلاحیت ہے – کو قومی صلاحیت میں بدل دیں۔ الحمدللہ، آپ کی باتوں میں یہ نکتہ تھا کہ ممتاز طبقہ اس انفرادی صلاحیت کو قومی صلاحیت میں بدل دیں۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد ہے کہ اس استعداد کو ملکی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہمارے بہت سے مسائل ہیں؛ اب آپ نے یہاں چند چیزوں کا ذکر کیا، آپ نے کان کا ذکر کیا، آپ نے نقل و حمل کا ذکر کیا، آپ نے خلا کا ذکر کیا۔ یہ ملک کے اہم مسائل ہیں؛ ان معاملات میں اپنی نمایاں استعداد خرچ کریں۔ بدقسمتی سے، کچھ ایسا نہیں کرتے؛ ممتاز افراد میں سے کچھ - یعنی باصلاحیت [لوگ]؛ اب، جو وضاحت ہم نے دی ہے، شاید ان کے لیے "ممتاز" کی اصطلاح درست نہیں ہے - وہ یہاں پروان چڑھتے ہیں، جب پھل ملنے کا وقت آتا ہے، وہ جا کر اپنا پھل کسی اور کو دیتے ہیں۔ کبھی وہ کوئی اور دشمن ہوتا ہے، دشمن کو دیتے ہیں۔ کبھی وہ قوموں پر تسلط کیلئے اور قوموں سے دشمنی کے لیے عالمی استکبار کے آلہ کار بن جاتے ہیں، وہ اس کے دست و بازو بن جاتے ہیں، بعض اس طرح ہیں۔ وہ ناشکری کرتے ہیں۔ اور یقیناً وہ آخر میں کوئی بھلائی بھی نہیں حاصل کر پاتے۔ میرے مطابق اس طرح اپنے لوگوں سے منہ موڑنے والے کوئی اچھائی نہیں دیکھ پاتے۔ ممتاز فرد کو اپنے لوگوں کے درمیان رہنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اسے ہجرت نہیں کرنی چاہیے، پڑھائی نہیں کرنی چاہیے، کسی اعلیٰ یونیورسٹی یا کسی مرکز میں نہیں جانا چاہیے۔ نہیں، اسے جانا چاہیے، لیکن اسے اپنے لوگوں کے لیے جانا چاہیے، اسے اپنے ملک میں واپس آکر یہاں کام کرنے کیلئے جانا چاہیے، اسے دشمن کا آلہ کار بننے کیلئے نہیں جانا چاہیے۔ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے؛ ہمارے ممتاز افراد کو اپنے ضمیر کے اندر اور خدا کی بارگاہ میں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

ممتاز طبقے سے ایک اور توقع یہ ہے کہ وہ غفلت نہ برتیں۔ یہاں غفلت کی دو قسمیں ہیں: ایک اپنی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنا۔ اگر آپ اپنی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو آپ محنت نہیں کریں گے۔ ہمارے کچھ ممتاز افراد ایک خاص مقام پر جہاں وہ پہنچ جاتے ہیں، رک جاتے ہیں ۔ یہ ناشکری ہے، یہ غفلت ہے۔ پیروی کریں، آگے بڑھیں، زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے رہیں؛ کسی بھی طرح سے ممکن ہو، اپنی صلاحیت کو نظرانداز نہ کریں، جو کہ لامحدود ہے۔ صلاحیت لامحدود ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس نمایاں صلاحیت کو جتنا زیادہ استعمال کریں گے، یہ چشمہ آپ کے اندر اتنا ہی زیادہ پھوٹے گا، آپ اتنے ہی زیادہ ممتاز بنتے جائیں گے۔ آپ جتنا زیادہ کام کریں گے، اتنی ہی ترقی کریں گے۔ نہ تھکیں، نہ رکیں، نقصان دہ تفریحات میں نہ الجھیں۔ نقصان دہ تفریحات بھی ہیں، یہ ایک غفلت ہے، اب سائبر اسپیس میں یا اسکے علاوہ؛ ان مشاغل میں گرفتار نہ ہوں۔

ایک اور غفلت ملک کی صلاحیتوں کو [نظر انداز کرنا] ہے۔ اب آپ دوست یہاں آئے، آپ میں سے ہر ایک نے اپنے شعبے اور اپنے کام کے بارے میں بات کی۔ بہت اچھا، آپ کی معلومات بہت اچھی ہے، ہم مستفید ہوتے ہیں؛ لیکن کیا آپ دوسرے مضامین کے بارے میں بھی جانتے ہیں؟ کیا ملک کے ممتاز افراد ملک کی عظیم صلاحیتوں سے واقف ہیں؟ میں ایسا نہیں سمجھتا؛ میرا مطلب ہے، میں جانتا ہوں کہ نہیں، ہر کوئی مطلع نہیں ہے۔ زیادہ تر کو اطلاع نہیں ہے۔

ایک دن ایک صاحب نے کہا کہ ہم ہتھیاروں کے لحاظ سے امریکہ کے مقابلے میں صفر ہیں، وہ ایک گھنٹے میں فلاں حملہ کر سکتا ہے؛ (5) میں نے یہاں کہا (6) کہ انکا سیاحتی دورہ کروایا جائے، ان حضرات کو ہمارے عسکری ہتھیار دکھائے جانے چاہیے۔ اس گمان سے نکلنے کے لیے وہ ہماری یہ اسلحہ ساز صنعتیں دیکھیں۔ اب یہ دورہ آپ سب کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ ایک اہم کام یہ ہے۔ میری رائے میں یہ وزیر سائنسی امور کے کاموں میں سے ایک ہے۔ بچوں کو ملک میں موجود چیزوں سے واقف کروائیں؛ وہ صلاحیتیں جو موجود ہیں اور بہت سے کام جو ہوچکے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ مطلع نہیں ہیں؛ کچھ لوگ ان صلاحیتوں کا انکار بھی کرتے ہیں، جیسے اس جاہل بادشاہ کی طرح۔ انہوں نے ایک بادشاہ کو بتایا کہ تیل نامی ایک سیاہ بدبودار مادہ کہیں سے ابل پڑا ہے، یہ بیچارے پردیسی لوگ آکر اسے لے جانے کو تیار ہیں۔ انہیں لے جانے کی اجازت دیں۔ اس نے بھی یہ کہا: "بہت اچھا، لے جائیں تاکہ ہماری جان چھٹے!" اب ہمیں بھی لوگ ہیں کہ ملک میں ایٹمی صنعت نام کی ایک مصیبت ہے، اجازت دیں کہ اسے وہ سمیٹ کر کے جائیں۔ وہ یہ کہتے ہیں! یہ جھوٹا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا ایٹمی صنعت اور ایٹمی توانائی سے منہ موڑ چکی ہے۔ صاف جھوٹ! دن بہ دن، وہ اپنے جوہری اڈوں میں بڑھاوا اور اضافہ کر رہے ہیں - فوجی اڈے نہیں، [بلکہ] صنعتی اڈے۔ ہمیں بھی اس کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس دن اسے شروع نہ کرتے جس دن ہم نے شروع کیا تھا - جسے اب سالوں بیت چکے ہیں - پھر ہم دس سال بعد شروع کرتے اور تیس سال بعد ہمیں نتیجہ ملتا۔ یعنی یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی ملک نظر انداز کر سکے۔ اب یہ بھی اس حوالے سے چند نکات۔

ایک اور غفلت دشمن کو نظر انداز کرنا ہے۔ ہمارے ممتاز طبقے کو دشمن کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ دشمن کبھی کبھی سائنسی شخصیت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں؛ یہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ معلومات ہے، قیاس آرائی نہیں۔ ان میں سے بہت سے تعلیمی مراکز جو پروفیسروں، بعض اوقات طلباء کو دعوت دیتے ہیں، یونیورسٹی فیکلٹی کے وہ ممبران جو خود انھوں نے بٹھائے ہیں، سی آئی اے اور موساد کے ایجنسی ممبران اور اس طرح کے افراد سائنسی شخصیات کی شکل میں مدعو کرتے ہیں۔ وہ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں، رابطے برقرار کرتے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ رابطے آگے کہاں تک جاتے ہیں۔ کم از کم یہ ہے کہ طالب علم کا دماغ منحرف کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتے ہیں، اگر وہ اسے دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں، تو کم از کم اس کا ذہن ضرور خراب کرتے ہیں۔ دشمن اس طرح نفوز کرتا ہے۔ وہ شائستگی کا دکھاوا کرتے ہیں، وہ ذہین ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں، پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کھیل کر رہے ہیں۔

اب ممتاز طبقے کے حوالے سے سرکاری اداروں سے ہمیں جو توقعات ہیں وہ بھی ایک اہم حصہ ہیں۔ ایک لفظ میں: پشتپناہی۔ ہمیں توقع ہے کہ ادارے ممتاز طبقے کا ساتھ دیں گے۔ اس حمایت کا مطلب ہمیشہ پیسہ دینا نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات پیسے دینا نقصان دہ ہوتا ہے۔ حمایت دانشمندانہ، معقول اور مختلف پہلوؤں پر توجہ کے ساتھ ہونی چاہیے۔

حمایت کی ایک صورت یہ ہے کہ ممتاز افراد چاہے جنہوں نے ایران میں تعلیم حاصل کی، چاہے وہ جنہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی اور ایران آئے - ہمارے پاس ایسے افراد ہیں، ہمارے پاس ایسے ممتاز افراد کی کمی نہیں ہے جنہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی اور ایک مقام پر پہنچ کر واپس ایران آئے - وہ دو توقع رکھتے ہیں۔ ; آئیے ان کی یہ دو توقعست پوری کریں: ان میں سے ایک ان کے علم کے مطابق مناسب روزگار ہے۔ ان کی توقعات میں سے ایک تحقیق جاری رکھنے کا امکان ہے۔ دنیا کے سائنسی مراکز کے ساتھ رابطہ؛ ہمارے ممتاز طبقے کی یہ دو توقعات ہیں، یہ کوئی بڑی توقعات نہیں ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک ممتاز فرد یونیورسٹی کی اکیڈمک فیکلٹی میں داخل ہونا چاہتا ہے، [لیکن] ہر طرح کے طریقوں سے اسے روکا جاتا ہے اور نہیں جانے دیتے۔ کیوں؟ آپ اس ممتاز فرد سے کیوں مستفید نہیں ہوتے؟ ہمارے کچھ ممتاز افراد - نمایاں شخصیات- نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی، یہاں کام کرنے کی امید میں آئے، [لیکن] ان رویوں کی وجہ سے، وہ واپس چلے گئے! انہوں نے دیکھا ہے کہ یہاں رہنا ناممکن ہے۔ تو میں اس نوجوان سے کیا امید رکھوں؟ حمایت ہونی چاہیے۔ اس شعبے میں ہم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ نہیں، سرمایہ کاری ہے۔ محترم وزراء اس میدان میں کام کریں، محنت کریں۔ ممتاز طبقے کو یونیورسٹی سے مایوس نہ ہونے دیں۔ اب، کم از کم یہ کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے قابل ہو، مقام حاصل کرسکے۔ کچھ لوگ ممتاز طبقے کے بڑے حامی بنتے ہیں، وہ اکثر ممتاز افراد، ممتاز افراد کہتے رہتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ ممتاز افراد کو مایوس کرتے ہیں، انہیں ناامید کرتے ہیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ میری رائے میں وزارت خارجہ دنیا کے سائنسی مراکز سے کے حوالے سے فعال ہو سکتی ہے، اس سے بہت مدد مل سکتی ہے۔

ایک اور چیز جس کی توقع کی جاتی ہے وہ ہے ممتاز افراد کی تشخیص کے معیار میں ترمیم کرنا ہے۔ آج، پروفیسروں اور ممتاز فرد وغیرہ کی تشخیص کا معیار زیادہ تر مضامین ہیں۔ یہ درست نہیں ہے. البتہ، میں یہ پہلے کہہ چکا ہوں، (7) میں نے اسے کئی بار دہرایا ہے۔ مسائل کے حل کو معیار مقرر کریں۔ مسئلہ پیش کریں، ان سے حل کا تقاضا کریں۔ یہ ممتاز گروہ، یہ ممتاز فرد، یہ ممتاز طبقہ، یہ ممتاز استاد، متعلقہ اداروں کے لیے ایک مسئلہ حل کرے۔ یہ ترقی کا معیار ہونا چاہیے، یہ اعلیٰ درجہ کے لئے قبولیت کا معیار ہونا چاہیے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔

ایک نکتہ ہمارے ممتاز طبقے کو ایک واضح افق دکھانا ہے۔ کچھ ممتاز طبقے کو مایوس کرتے ہیں،  تاریک افق دکھاتے ہیں۔ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ افق روشن ہے، اسے دکھانا چاہیے، ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پروفیسرز بھی، اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کے حکام بھی، اور وہ افراد جو میڈیا میں کام کرتے ہیں - قومی میڈیا اور پریس دونوں - نیز صنعتوں اور علم محور کمپنیوں کے مالکان، جیسا کہ یہاں کچھ دوستوں نے کہا، ماحول کو ایک جذاب ماحول بنائیں۔ آج ممتاز طبقے کو مایوس کرنا اور انھیں ناامید کرنا میری رائے میں دشمن کی نرم جنگ کا حصہ ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ ملک کے ممتاز طبقے کو مستقبل سے ناامید کیا جائے۔ اب یہاں میں کہتا ہوں کہ ملک میں ایک کمزور نکتہ موجود ہے، کمزور نکات سے انکار نہیں؛ کمزوریاں کم نہیں بہت ہیں لیکن کمزوریوں کے ساتھ ساتھ خوبیوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ دشمن ہماری کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، ہماری خوبیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں اس میدان میں دشمن کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔

یہ ہمارا آخری نکتہ ہے۔ میں اسی افق اور افق کو درست کرنے کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی مغرب والوں نے اپنے پروپیگنڈے میں یہ ظاہر کیا کہ اسلامی جمہوری نظام جو انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، زوال پذیر ہے۔ پہلے ہی دنوں سے [انہوں نے کہا] یہ زوال پذیر ہے۔ کبھی کہا اب سے دو مہینے بعد، کبھی کہا اب سے ایک سال بعد، کبھی کہا پانچ سال بعد۔ وہ وقت مقرر کرتے تھے! بدقسمتی سے، کچھ لوگ اندر بھی اسی بات کو فروغ دے رہے تھے - کچھ غفلت سے، کچھ بدنیتی سے۔ امام خمینی رح کے زمانے میں، ایک اخبار نے، جس کا میں نام نہیں لیتا، ایک تفصیلی مضمون لکھا، میرے خیال میں انھوں نے ایک سرخی بھی شائع کی - پہلے صفحے پر ان بڑی سرخیوں میں سے ایک - جس کا خلاصہ یہ تھا، مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں، مختصر یہ کہ نظام تباہ ہورہا ہے! اس وقت امام خمینی رح نے جواب دیا اور فرمایا: تم خود تباہ ہورہے ہو۔ نظام مضبوطی سے کھڑا ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کیونکہ امام خمینی رح زندہ تھے اور ان کی عظمت ان چیزوں کو روکتی تھی، نہیں، امام کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔

امام کی وفات کے بعد سنہ 69 میں کچھ مورد قبول افراد نے - [یعنی] ان میں مورد قبول لوگ بھی تھے، نظام کی مشہور اور مورد قبول شخصیات جن کا نظام میں کام کرنے کا تجربہ بھی تھی (8) - ایک اطلاعیہ جاری کیا کہ نظام تباہی کے دہانے پر ہے، جس کا مطلب تھا کہ انہی دنوں میں معاملہ ختم ہونے والا ہے! کب؟ سال 82 میں، متعدد اراکین پارلیمنٹ (9) نے مجھے ایک خط لکھا۔ یہ واقعی ایک غیر منصفانہ خط تھا، بہت غیر منصفانہ. انہوں نے کچھ باتیں کہی، انہوں نے ہم سے کچھ سوالات پوچھے جن کا جواب انہیں خود دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ پارلیمنٹ اور حکومت دونوں ان کے ہاتھ میں تھے۔ انہیں جواب دینا چاہیے تھا، [لیکن] انہوں نے مجھ سے پوچھے تھے! اس وقت اس خط اور اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ ہتھیار ڈال دیں، ورنہ آپکا کام تمام ہے! یہ سن 82 کا واقعہ ہے۔ ہم نے ہمت نہیں ہاری، ہم کھڑے رہے اور انشاء اللہ ہم کھڑے رہیں گے۔ یہ ہمارے دشمن کا کام تھا جو اس نے بار بار کیا.

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ صورتحال کا ہمارا تجزیہ کیا ہے۔ ہمیں صحیح تجزیہ کرنا چاہیے۔ دو تجزیاتی مکاتب ہیں: ایک تجزیاتی مکتب یہ ہے کہ عالمی عمومی اصولوں کے مقابل کام بے فائدہ ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ عالمی اصول ہیں، ان اصولوں کی بنیاد پر حکومتیں بنی ہیں اور اقتدار حاصل کیا گیا ہے۔ طاقتور اور سرمایہ دار امریکہ ان اصولوں پر قائم ہے، یورپ بھی اسی طرح ہے، دوسرے بھی۔ ان اصولوں کے سامنے بلاوجہ کھڑے نہ ہوں؛ آپ ختم ہوجائیں گے، یہ ایک تجزیہ ہے۔ یہ صرف آج نہیں کہتے۔ جیسا کہ میں نے کہا، وہ چالیس سالوں سے باقاعدگی سے یہی باتیں کہہ رہے ہیں۔ پھر یہ تجزیہ کرنے والے دوسروں کو وہمی تصور کرتے ہیں! کہتے ہیں کہ انھیں وہم ہوگیا ہے - مثلاً یہ ناچیز بندہ۔ ان کے محور میں میں ہوں، میں خود - [وہ کہتے ہیں] یہ فریب میں مبتلا ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کام [جاری ہے]۔ یہ ایک تجزیہ ہے۔

دوسرا تجزیہ ایسا نہیں، بلکہ یہ حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔ یہ تجزیہ حقائق کو دیکھتا ہے؛ وہ نہ صرف مثبت حقائق کو دیکھتا ہے بلکہ منفی حقائق کو بھی دیکھتا ہے۔ ہم نے کبھی منفی نکات سے انکار نہیں کیا۔ عہدیداروں کی نشستوں میں، ان میٹنگوں میں جو رمضان کے مہینہ میں ہوتی ہے، جس میں ہم ان سب کو دعوت دیتے ہیں، میں زیادہ تر کمزور نکات کا ذکر کرتا ہوں۔ نجی ملاقاتوں میں اس سے بہت زیادہ۔ اور ان کمزوریوں کی طرف توجہ ہے، یہ نہیں کہ نہیں ہے، میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہم پیچھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم نے قافلے کے آخری سرے سے ایک تیز رفتار حرکت شروع کی تھی، اور اب ہم نقطہ آغاز تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم ابھی تک اس مقام پر نہیں پہنچے ہیں، لیکن ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے، اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ ہم نے ملک کے مختلف مسائل میں پیش رفت کی ہے۔ ہم نے علم میں ترقی کی ہے، ہم نے انتظام میں ترقی کی ہے۔ کمزوریاں ہیں؛ ہمارے کچھ حکام، ہماری حکومتوں میں کچھ کوتاہیاں ہیں؛ یہ موجود ہیں، لیکن تحریک انقلاب کی تحریک کی ہے، انقلاب کی ترقی کی ہے۔

آپ دیکھیں کہ اسلامی جمہوریہ چالیس سال پہلے کہاں تھا، آج کہاں ہے۔ بیس سال پہلے کہاں تھا، آج کہاں ہے۔ چار دہائیاں گزرنے کے بعد، یہ سمجھنا ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اہل مغرب اور مغرب پرستوں کا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے، اور ہم فریب میں ہیں۔ یا نہیں، انقلاب کا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے، وہ فریب میں ہیں۔ معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کی تحریک ایک مضبوط تحریک ہے۔ آپ نوجوان اس کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ایک ہیں۔ اب آپ ایک ممتاز طبقہ ہیں جو صرف آپ ہی نہیں، دیگر افراد بھی ہیں۔ عظیم ممتاز طبقہ، جو انقلاب پر یقین رکھتے ہیں، جو اس طریقے پر یقین رکھتے ہیں، چار دہائیوں کے بعد اور اس تمام دشمنی اور اس تمام پروپیگنڈے کے بعد، پختگی اور سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں۔ کیا اس سے بہتر کوئی دلیل ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ تجزیہ غلط تجزیہ ہے اور صحیح تجزیہ انقلاب کا تجزیہ ہے؟

پروردگار! ہمیں اپنے راستے پر ثابت قدم رکھ۔ پروردگار! ہمیں اپنی ہدایت اور توفیق سے سیدھے راستے پر لے  کر چل۔ پروردگار! ایرانی قوم کے دشمنوں کو شکست اور ملت ایران کو دشمن پر غلبہ عطا فرما۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں حکومت کے ادارۂ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایکٹنگ وائس پریسیڈنٹ ڈاکٹر دہقانی فیروزآبادی اور ملک کے سات جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

(2) ڈاکٹر سعید کاظمی آشتیانی - رویان انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ اور ایران کی میڈیکل سائنس یونیورسٹی میں علمی و سائنسی جہاد تنظیم کے صدر

(3) جناب مہدی میر کیائی

(4) سورۂ تغابن، آيت 11، اور جو اللہ پر ایمان رکھے، اللہ اس کے دل کو صحیح راستہ دکھا دیتا ہے۔

(5) سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تین دسمبر سنہ دو ہزار تیرہ کو تہران یونیورسٹی میں کہا تھا: "مغرب والے ہمارے چار ٹینکوں اور میزائلوں سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ ایران کے عوام سے ڈرتے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ امریکا، ہمارے فوجی سسٹم کو تباہ نہیں کر سکتا؟ کیا واقعی آپ کو لگتا ہے کہ امریکا، ہمارے فوجی سسٹم سے ڈرتا ہے؟ کیا واقعی ہمارے فوجی سسٹم کی وجہ سے امریکا آگے نہیں آ رہا ہے؟"

(6) یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے ملاقات میں تقریر (2/7/2014)

(7) منجملہ، ملک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل نوجوانوں کے آٹھویں قومی اجلاس کے شرکاء سے ملاقات میں تقریر (22/10/2014)

(8) سابق عبوری وزیر اعظم مہدی بازرگان سمیت تحریک آزادی پارٹی کے بعض اراکین اور نظام کے مخالف بعض دیگر افراد نے، ایسوسی ایشن برائے آزادی اور ایرانی قوم کے اقتدار اعلی کے دفاع کے نام سے اس بیانیے پر دستخط کیے تھے۔

(9) چھٹی پارلیمنٹ میں بعض اصلاح پسند اراکین پارلیمنٹ