ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

ہفتہ حکومت کی مناسبت سے صدر مملکت اور حکومتی وفد کے ارکان سے ملاقات میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)


والحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علیٰ سیّدنا محمّد و آله  الطّاهرین سیّما بقیّةالله فی الارضین

 

جناب رئیسی - محترم صدر مملکت - اور باقی حضرات کی رپورٹ سے ہم نے استفادہ کیا۔ ہم ان دو عزیز شہداء شہید رجائی اور شہید باہنر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حقیقت میں، یہ دونوں افراد اسلامی انقلاب کے دو مثالی منتظم تھے - یہ دونوں - ہم نے ان دونوں کے ساتھ برسوں تک کام کیا تھا - خاص طور پر جناب باہنر کے ساتھ؛ ہم ان کو بہت قریب سے جانتے اور دیکھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت سے بطور اجر نوازا۔ میرا مطلب ہے کہ یہ واقعی افسوس کی بات تھی اگر یہ دونوں افراد شہادت کے علاوہ کوئی اور موت مرجاتے۔ ہم ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

 

ہفتہ حکومت کے دو عناصر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ میں دونوں کو بیان کرتا ہوں۔ ہفتہ حکومت کا پہلا عنصر ’’یاد رکھنے‘‘ کا مسئلہ ہے۔ یہی شہید رجائی کی یاد، شہید بہانر کی یاد، انقلاب کے واقعات کی یاد۔ یاد رکھنا غفلت کے مقابل ہے۔ یہ بھول جانے کے برعکس ہے، جو ایک بہت بڑی آفت ہے۔ غفلت اور بھولنا ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ اِنَّما تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکر؛(2) "ذکر" کا مطلب ہے یاد۔ یا [دوسری آیت میں]: اَنزَلنا اِلَیکُم کِتابًا فِیهِ ذِکرُکُم؛ (3) یہ یاد ہے۔ سب سے اہم مسائل میں سے ایک جو مذاہب چاہتے ہیں، لوگوں کو آگاہ کرنا ہے، ان کو غفلت سے دور کرنا، بھولنے کو، فطرت سے غافل نہ ہونے دینا۔

 

ہماری آنکھوں کے سامنے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ اب آپ میں سے کچھ نوجوانوں نے یہ واقعات نہیں دیکھے ہوں گے یا انہیں صحیح طریقے سے یاد نہیں ہوگا۔ وہ اہم اور تاریخ ساز واقعات، انقلاب کے آغاز میں عوامی جوش و خروش، اس عظیم تحریک کے سامنے استکبار کی وہ بے چینی اور حیرت جو ان کے لیے غیر متوقع تھی، اس کے بعد دشمنی کا آغاز، اور مختلف واقعات جو قوم کیلئے یکے بعد دیگرے پیش آئے۔  انھیں یاد رکھنا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کس حال میں ہیں۔ تہران شہر کا آسمان صدام کے طیاروں کے قبضے میں تھا۔ ہمارے پاس اس کے مقابلے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پائلٹ فائٹر جہاز کے اندر بیٹھتا، بغیر کسی فکر کے تہران کے اوپر سے آ کر گزر جاتا، ہم بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ یا تو بم گراتا یا ساؤنڈ بیریئر توڑ دیتا اور یوں ایرانی قوم کی تذلیل کرتا۔ یہ ہمارا آسمان تھا۔ اب ہماری سرزمین پر، ہماری سڑکوں پر، ہماری گلیوں میں دہشت گردی موجود تھی۔ گھروں میں گھس کر قتل کرنا، سپاہی کو قتل کرنا، دکاندار کو قتل کرنا، دکاندار کو قتل کرنا؛ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر نا امنی تھی۔ ہم ان باتوں کو نہ بھولیں۔ یہ چیزیں گزر گئیں؛ ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کے نظام نے ان مشکلات پر زبردست اور باوقار طریقے سے غلبہ حاصل کیا۔

 

اس اتار چڑھاؤ کو نہ بھولیں، اچھائیاں، برائیاں، اتار چڑھاؤ کو ہم نہ بھولیں۔ انقلاب کی فتح کے آغاز سے لے کر آج تک حکومتوں کی مختلف کارکردگی، کونسلوں اور اس طرح کے اداروں کی کارکردگی۔

 

اگلا، عوام کی موجودگی؛ عوام ان تمام ادوار میں انقلاب کے ماجرا اور تاریخ کے مرکزی فاتح رہے ہیں۔ یہ متعدد عظیم مارچ، یہ بڑی عوامی موجودگی، آٹھ سال کے دوران مقدس دفاع کے محاذوں پر یہ موجودگی اور باقی مورچوں پر بھی، یہ انقلابی مارچ اور مظاہرے، بائیس بہمن، یوم القدس، تئیس تیر جیسے واقعات (4) 9 دی کی مانند؛ (5)) یہ عجیب چیزیں ہیں، ان سب میں یہ قوم ہے جو [عجائب خلق کرنے] کے قابل تھی۔ ہم یہ یاد رکھیں؛ اور آج ہم اس پر متوجہ رہیں، عبرت لیں، درس لیں کہ اس قوم کے ساتھ کیسا برتاو کیا جائے، اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔

 

جب بھی نظام کو لوگوں کی موجودگی کی ضرورت پڑی، بغیر کسی کے کہے، وہ خود ہی حاضر ہو گئے۔ کیا آپ کو شہید سلیمانی کا جنازہ یاد ہے، یا یہی جنازہ دو تین دن پہلے اصفہان میں، (6) یہ بہت معنی خیز ہیں، یہ قوم کا راستہ بتاتے ہیں، سمت دکھاتے ہیں۔ تہران میں غدیر کا جشن (7) ایک عجیب واقعہ تھا؛ اور اس طرح کی چیزیں کہ [لوگ] ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ان باتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ہفتہ حکومت کے دوران شہید رجائی اور شہید باہنر کی یاد منانا ایک مثال ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں "یاد" کو زندہ رکھنا چاہیے۔ خود یاد کو زندہ رکھا جانا چاہیے۔ یاد بہت ضروری چیز ہے۔ یہ ایک عنصر ہے۔

 

ہفتہ حکومت کا ایک اور عنصر برسر اقتدار حکومت کا جائزہ لینے کا موقع ہے۔ یعنی اس حکومت کے مسائل سے نمٹیں، اس کے بارے میں سوچیں، اس کے بارے میں بات کریں، اس کی خوبیوں اور کمزوریوں کے بارے میں سوچیں۔ اہل فکر و دانش کو سوچنا چاہیے اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت اچھی رسم ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال یہ ہفتہ حکومت منایا جاتا ہے، اور یہ حکومتی مسائل کے بارے میں سوچنے، بات کرنے اور فیصلے کرنے کا موقع ہے۔ اب دوسرے عنصر کے اس معاملے میں میرے پاس دو حصوں میں باتیں ہیں، ان شاء اللہ مختصر کرنے کی کوشش کروں گا۔

 

ایک آپ کی کامیابیوں میں سے کچھ کا ذکر کرنا ہے، [یعنی] میرے نگاہ میں وہ کامیابیاں جو آپ حاصل کرسکے ہیں۔ ان عملی کاموں کی اس رپورٹ کے علاوہ جو حضرات نے پیش کی، اور ان میں سے کچھ بہت اہم ہیں، آپ کی کامیابیوں کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہوں۔ دوسرا حصہ کچھ مشورے ہیں جو میں دینا چاہتا ہوں۔

 

اب کامیابیوں کے حوالے سے، میری رائے میں، اس حکومت کی سب سے اہم کامیابی عوام میں امید اور اعتماد بحال کرنا ہے۔ یہ آپ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ حکومت کی کل کارکردگی - دونوں معزز صدر اور مختلف وزارتوں کے حکام - نے لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ حکومت میدان میں موجود ہے، مصروف ہے، کوشش کر رہی ہے اور ان کی خدمت کر رہی ہے، ان کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ اس [کام] نے لوگوں کی امید اور لوگوں کا اعتماد کافی حد تک بحال کیا۔ کچھ معاملات میں، ان کوششوں کے ٹھوس نتائج ملے جو لوگ مشاہدہ کرسکتے تھے، جیسے کہ محکمہ صحت، سفارت کاری کے محکمے، کچھ ثقافتی شعبے وغیرہ، جن کے واضح اور روشن نتائج سامنے آئے؛ ان میں سے کچھ کے نتائج سامنے آئے ہیں، لیکن یہ نتائج لوگوں کو بتائے جائیں۔ نتائج آئے ہیں، لیکن لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ نتیجہ حاصل ہوا، یہ ہوا۔ کچھ معاملات میں ابھی تک کوششیں رنگ نہیں لائی ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کام ہو رہا ہے۔ یہ، میری رائے میں، آپ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

 

ایک اور کامیابی جو آپ کو ملی وہ یہ صوبائی دورے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی شاندار چیز ہے، ایک اہم ماجرا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ 1 ماہ میں 31 دورے، ملک بھر میں، محروم علاقوں، دور دراز علاقوں میں نایاب مناظر دیکھنے کو ملیں اور عوام کے ساتھ صدق دل سے ہمدردی اور عوام کے مختلف مسائل کی فیلڈ مانیٹرنگ کی جائے، جس کے بارے میں میں ایک بار پھر سفارشات پیش کرتے وقت میں ایک جملہ کہوں گا۔

 

ایک اور کامیابی جو آپ کو ملی وہ غیر متوقع واقعات جیسے سیلاب وغیرہ کے پیش نظر آپ کے عمل کی رفتار۔ عمل کی یہ رفتار بہت اہم ہے۔ کہیں زلزلہ ہو، سیلاب آجائے تو اہلکار فوراً وہاں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں کھڑے ہو کر کام کی نظارت کرتے ہیں، یہ بہت قیمتی چیز ہے۔ معزز صدر غیر ملکی دورے سے واپس آئے (8)، فوری طور پر سیلاب زدگان کی دیکھ بھال کے لیے کرمان چلے گئے۔ یا محترم وزیر چند دنوں کے لیے جاتے ہیں اور سانحہ کے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں؟ یہ اہم ہیں۔ یہ آپ کی ایک کامیابی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی ہمدرد ہے اور حکومت میدان میں ہے۔ یہ بھی ایک کامیابی ہے۔ یہ چیزیں جو میں کامیابیوں کے طور پر پیش کر رہا ہوں ان کا مقصد صرف آپ کی تعریف ہی نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس نظم و ضبط کو کھونا نہیں ہے، محتاط رہیں کہ اس طرز عمل سے محروم نہ ہوں۔ اس کو محفوظ کریں۔

 

ایک اور کامیابی تینوں اداروں کے درمیان تعلقات سے منفی رقابت کو ختم کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کا ایک دوسرے سے مسلسل بحث کرنا اور شکایت کرنا بری بات ہے، اس سے لوگوں کے اذہان خراب ہوتے ہیں۔ آج یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک یکسوئی ہے، ایک ہم فکری ہے۔ یقیناً یہ حصہ، یہ کام، ان چیزوں میں سے ایک ہے جس کا حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کو خیال رکھنا اور محفوظ رکھنا چاہیے۔ یہ نازک معاملہ ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے، خاص طور پر آپ کے یا پارلیمنٹ کے اختیار میں نہیں ہے۔ لوگ بیچ میں آکر ہنگامہ آرائی اور فساد برپا کرتے ہیں۔ آپ کو اس یکسوئی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی ہمفکری کو باقی رکھیں۔ حکومت ہوشیار رہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ ہوشیار رہے۔ آپ کو خیال رکھنا ہوگا۔

 

آپ کی ایک اور کامیابی ملک کی اجرائی باڈی میں جوان خون سے استفادہ ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس کی وجہ سے منتظمین کا بوسیدہ حلقہ ختم ہو جاتا ہے، ملک کے انتظامی اداروں میں ایک نئی سانس آتی ہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے، اسے جاری رکھیں۔ البتہ میں جانتا ہوں اور مشاہدہ کرتا ہوں کہ اس سے پہلے جب ہم مسلسل نوجوانوں کے نام لیتے تھے تو ہم جانتے تھے کہ نوجوان بھی بعض معاملات میں غلطیاں کرتے ہیں۔ نوجوان، حکومت اور پارلیمنٹ دونوں میں غلطیاں کرتے ہیں، غلطیاں ہوتی ہیں، لیکن یہ کام اس کے متحمل ہونے کے قابل ہیں۔ یہ کہ ملک کا ایگزیکٹو یا قانون ساز ادارے میں جوان خون دوڑ رہا ہے، یہ چیز باقی رکھنے کے قابل ہے کہ اب ایک معاملے میں چار غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ان شاء اللہ بتدریج یہ خرابیاں دور ہو جائیں گی۔ اچھے مضبوط منتظمین کو تربیت دی جائے گی۔ یہ ایک اور کامیابی ہے۔

 

اس حکومت کی ایک اور کامیابی معاشرے کو بیرون ملک سے چشم انتظار لگانے کی کیفیت سے نکالنا تھا۔ ہم اس حالت سے باہر آگئے ہیں کہ ہمیشہ یہ انتظار کرتے رہیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیا فیصلہ کرتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں۔ مقامی وسائل اور صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی ہے، ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے، اور کام کیا جاتا ہے۔ یہ سوچ رکھنا کہ اب ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی خاص ملک سے رابطہ کرنا چاہیے، یا اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی خاص گرہ کو کھولنا ہوگا، یہ ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ قومی امور کو یوں مشروط کرنا اور دوسروں کا منتظر ٹہرانا معیوب بات ہے، الحمدللہ آپ کی حکومت میں اس میں بہت کمی آئی ہے۔

 

آپ کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ اس حکومت نے عذر پیش کرنے اور بہانے بنانے سے گریز کیا اور احساس ذمہ داری کیا۔ اس عرصے کے دوران، ہم نے محترم سرکاری حکام سے نہیں سنا: "وہ ہمیں کام کرنے نہیں دیتے، ہمارے پاس اختیار نہیں ہے، ہمارے پاس طاقت نہیں ہے"؛ ہم نے آپ سے نہیں سنا۔ ذمہ داری بہت اچھی چیز ہے؛ آپ کہتے ہیں "ہم موجود ہیں، ہمیں کام کرنا ہے اور ہم کام کر رہے ہیں"؛ یہ ایک بہت اہم مثبت نکتہ ہے۔

 

ایک اور نکتہ [یہ ہے کہ] خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ثقافت کے میدان میں بھی اچھی حکمت نظر آتی ہیں۔ اب، یہ حکمت عملیاں، خاص طور پر ثقافتی شعبوں میں، عملی ہونے سے ابھی کچھ دور ہیں، لیکن یہ حکمت عملی اچھی حکمت عملی ہے؛ ان پر عمل کرنا چاہیے جو کہ آپ کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

 

انقلاب کے نعروں کو نمایاں کرنا، اسلام کے نعرے جیسے کہ عدل و انصاف کا نفاذ، اشرافی طرزعمل سے گریز، مظلوم کی حمایت، استکبار کا مقابلہ، جو انقلاب کے بنیادی نعرے ہیں؛ یہ زبانوں پر زیادہ نمایاں، واضح ہو گئے ہیں، اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ ان کو جاری رکھیں۔ ان کامیابیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کریں کہ اب میں سفارشات میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ آخر میں، تمام شعبوں میں مسلسل کام [ضروری ہے]۔ ان باتوں کا تعلق پہلے حصے سے تھا، یعنی آپ کی کامیابی کا حصہ۔

 

اب تاکیدات [کا حصہ]؛ میرے پاس کچھ مشورہ ہے۔ پہلی تاکید، جو میں نے حالیہ برسوں میں برس اقتدار آنے والی زیادہ تر حکومتوں کو دیا ہے [یہ ہے]: خدا کا شکر کریں کہ اس نے آپ کو لوگوں کی خدمت کرنے کی نعمت عطا کی ہے۔ کہ آپ اس مقام پر ہیں جہاں آپ ان نیک لوگوں، ان مومنین، اس اسلامی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں، آپ کو یہ موقع ملنا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کا شکر ادا کریں۔

 

اس نعمت کا شکریہ بنیادی طور پر خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ دعا، توسل، توجہ کے ساتھ تعلق نہ توڑیں۔ خدا کے ساتھ تعلق کے اس حصے جیسے توجہ کے ساتھ نماز، نفل نمازیں(9)،  قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کو بہت زیادہ کام اور بہت زیادہ مشغول ہونے کے بہانے کمزور نہ ہونے دیں؛ ضروری شکروں میں سے ایک یہ ہے۔ دوسرا، لوگوں کے لیے جہادی کوششیں ہے، جس میں اللہ کا شکر ہے کہ آپ مصروف ہیں۔ اس جہادی کوشش کو جاری رکھیں۔ ہماری پہلی تاکید یہ ہے: نعمتوں کا شکر ادا کریں۔

 

میری دوسری تاکید یہ ہے کہ کام کو - یعنی وہی چیزیں جو آپ کر رہے ہیں - الہی نیت کے ساتھ انجام دیں۔ نمائشی کام - لوگوں کے بتانے کے لیے، لوگوں کو دکھانے کے لیے، تاکہ لوگ ہماری تعریف کریں- کام کو بے برکت بنا دیتا ہے۔ جب کام کو خلوص نیت سے انجام دیں گے تو فَمَن کانَ یَرجوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلیَعمَل عَمَلاً صالِحاً وَ لا یُشرِک بِعِبادَةِ رَبِّهِ اَحَدًا؛(۱۰) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں، کام اللہ کے لیے کریں۔ خیر، عوام کی خدمت وہ چیز ہے جو خدا کی رضا کی باعث ہے، کہیں پروردگار! تجھے خوش کرنے کے لیے میں عوام کی خدمت کے لیے یہ کام کر رہا ہوں۔ کام خلوص نیت سے کریں، اس سے آپ کے کام میں برکت ہوگی۔

اور ظاہر ہے کہ یہ خلوص جو ہم نے کہا وہ لوگوں کو مطلع کرنے سے متصادم نہیں ہے۔ اطلاع دینا اخلاص سے متصادم نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے مستند روایت بھی ہے کہ کسی کے یہ چاہنے میں کوئی حرج نہیں کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے - ہمارے پاس اس سلسلے میں ایک مستند روایت ہے - آپ لوگوں کو ضرور آگاہ کریں۔ اس معلومات سے لوگوں کی امید اور اعتماد بڑھتا ہے۔ لیکن [کام] خدا کے لیے ہو۔

 

تیسری تاکید لوگوں کے درمیان جانے کا مسئلہ ہے۔ اس کو مت چھوڑیں۔ کچھ لوگ ماحول سازی کرتے ہیں اور اس کا کوئی نام رکھ دیتے ہیں جو میں اب دہرانا نہیں چاہتا۔ ان فتنوں میں نہ پھنسیں۔ لوگوں کا سامنا کریں، لوگوں کی بات سنیں، تحمل کا مظاہرہ کریں۔ کبھی کبھی انسان تھک جاتا ہے - یہ میرا اپنا تجربہ بھی ہے - کبھی کبھی انسان واقعی تھک جاتا ہے، لیکن اسے برداشت کریں، تحمل کریں۔ عوام کے درمیان جناب صدر کی یہ براہ راست اور بڑے پیمانے پر موجودگی کی بہت سی برکات ہیں، اس کے بہت سے اچھے اثرات ہیں۔ دیگر سرکاری حکام بھی اسی طرح۔

 

یقیناً، آپ [اپنی حکومت] کو "عوامی حکومت" کہتے ہیں۔ عوامی حکومت صرف عوام کے درمیان جانے کا نام نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔ آپ کو مختلف کاموں اور محکموں میں لوگوں کی شراکت کو بڑھانے کے قابل ہونا چاہیے۔ یہ بات میں پہلے ہی ایک بار کہہ چکا ہوں، بظاہر آپ کے ساتھ ہی، میں نے کہا ہو گا (11) کہ آپ بیٹھ کر لوگوں کی شراکت کو بڑھانے کے طریقے کی منصوبہ بندی کریں، اس کی وضاحت کریں کہ لوگوں کی شرکت کو کس طرح بڑھانا کرنا ممکن ہے۔ مالی اور معاشی میدان ہوں یا سیاسی میدان، مختلف شعبوں میں لوگوں کے خیالات اور رائے کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ان مختلف خطوط میں جو ہم تک عوامی ذرائع کے ذریعے پہنچتے ہیں یا دوسری صورت میں، بعض اوقات ایسی تجاویز بھی ملتی ہیں جنہیں لوگ بہت اچھی تجاویز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جسے ہم بالکل نہیں جانتے، کوئی تجویز رکھتا ہے، رائے رکھتا ہے، وہ رائے دیتا ہے، بعض اوقات یہ کام بہت مفید ہوتا ہے۔ [دیکھیں] ہم ان سے کیسے استفادہ کر سکتے ہیں۔

 

ہماری اگلی تاکید وعدوں کی پاسداری کا مسئلہ ہے۔ اسے نماز کی طرح فرض سمجھیں۔ اگر آپ کسی ایسی چیز پر شک کرتے ہیں کہ اس کیا جا سکتا ہے یا نہیں، تو بالکل وعدہ نہ کریں؛ اس چیز کا وعدہ دیں کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ اسے کر سکتے ہیں، اور اسے کریں۔ جس طرح لوگوں کے درمیان جانا اور لوگوں کے لیے کام کرنا امید پیدا کرتا ہے، اعتماد پیدا کرتا ہے، صحیح وعدہ پورا نہ کرنا اس کے برعکس ہے: اس سے لوگوں کو مایوسی ہوتی ہے، یہاں تک کہ ان کوششوں کے بارے جو آپ کہیں اور کرتے ہیں، لوگ شک میں پڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی کام کا وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ کے اس شہر میں، آپ کے اس محلے میں کریں گے اور پھر اگر وہ پورا نہ ہوسکا، آپ اسے نہیں کر سکتے اور نہیں کرتے ہیں۔ ہنگامی صورت حال پیش آ سکتی ہے، اس صورت میں جا کر لوگوں کو سمجھائیں تاکہ عوام کو معلوم ہو، لیکن وعدے کی بنیاد اس پر نہ رکھیں کہ ہم انجام نہیں دینگے اور لوگوں کو سمجھا دینگے۔ اصل یہ نہیں ہے؛ اصل یہ ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے، اس وعدے کی تکمیل ہے جو حتما پورا ہونا چاہیے اور انجام دیا جانا چاہیے۔ خیر، ہم بھی جانتے ہیں، آپ کو بھی معلوم ہے کہ اسلامی جمہوریہ نظام کے مقابلے پر اور اس وقت استکبار اس کے پیروکاروں میں ایک بہت بڑا دشمن محاذ موجود ہے اور فی الحال آپ کے مقابل پر کیونکہ آپ اجرائی کام کے محور ہیں۔ وہ آپ کے وعدے کی چھوٹی سے چھوٹی خلاف ورزی کا فائدہ اٹھاتے ہیں، بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ وہ پروپگنڈہ کرنا بھی جانتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں، وہ آپ کے ساتھ لوگوں کے تعاون کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ لہذا، غیر ممکن وعدے نہ دیں، اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کو یقینی بنائیں۔

 

اگلی تاکید: ہوشیار رہیں کہ اپنے روزمرہ کے کام میں غرق نہ ہوجائیں! حکومت کے سامنے ملک کے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع آپریشنل پلان ہونا چاہیے - حتما موجود ہے - پلان کے مطابق آگے بڑھیں، جامع پلان کے مطابق آگے بڑھیں، ایسا کریں کہ آپ کے مخالفین یہ نہ کہہ سکیں کہ حکومت کے پاس کلی منصوبہ نہیں ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے  ملک کے اہم مسائل کے حوالے سے واقعی کوئی ایسا واضح کلی منصوبہ ہونا چاہیے جس کی وضاحت عوام کو کی جاسکے اور اسی پلان کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر ایسا ہو گیا تو روزمرہ کے یہ کام جو کہ سامنے آتے ہیں اپنے مناسب مقام پر قرار پائیں گے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں "روز مرہ کے کام میں غرق مت ہو جائیں" کا مطلب یہ نہیں کہ اگر آبادان (11) کا معاملہ ہو تو وہاں مت جائیں۔ نہیں، آپ کو جانا چاہیے۔ آپ کو سیلاب اور دیگر مختلف مسائل کی طرف ضرور جانا چاہیے، آپ کو ان غیر متوقع اور حادثاتی جگہوں پر خود کو لازمی پہنچانا چاہیے، لیکن اپنے آپ کو ان میں غرق نہ ہونے دیں۔ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں، اور آپ کی بنیادی توجہ اس بڑے منصوبے اور جامع منصوبے پر ہونی چاہیے۔ یہ بھی ایک نکتہ تھا۔

 

ہماری اگلی تاکید یہ ہے ترجیحات کا خیال رکھیں؛ بالآخر حکومت کے وسائل محدود ہی، وہ سارے کام نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ترجیحی کام کون سے ہیں۔ اب "ترجیح" کا کیا مطلب ہے؟ بنیادی عنوانات کے درمیان ترجیح دیں - مثال کے طور پر، فرض کریں کہ ہمارے پاس معیشت کے طور پر ایک عنوان ہے، ہمارے پاس سائنس کے طور پر ایک عنوان ہے، ہمارے پاس قومی سلامتی کے طور پر ایک عنوان ہے، ہمارے پاس سماجی مشکلات کے طور پر ایک عنوان ہے، ہمارے پاس ثقافت کے طور پر ایک عنوان ہے؛ یہ اہم عنوانات ہیں - اور بھی تلاش کریں؛ اب، میری رائے میں، ترجیح معیشت ہے. یہ نہیں کہ باقی کام نہ کیے جائیں؛ بالکل، سارے کام کیے جائیں، لیکن اصل توجہ معاشی مسائل پر ہونی چاہیے، جن پر میں اب بات کروں گا۔

 

ٹھیک ہے، عنوانات میں ترجیح کے تعین کے بعد، ہر عنوان کے ذیلی حصوں میں بھی ترجیحات ہیں۔ مثال کے طور پر، معیشت کے حوالے سے ترجیح کیا ہے؟ ثقافت کے بارے میں آپ کی ترجیح کیا ہے؟ ان سب میں ہمیں ترجیحات کو ملاحظہ کرنا چاہیے۔ البتہ میں نے کہا کہ میری رائے میں آج کا بنیادی مسئلہ اور ترجیحی مسئلہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ یہ آج کا مسئلہ ہے۔ کتنی مدت تک؟ ہم نہیں جانتے۔ جب تک کے لئے آپ کو معیشت کے مسئلے کو دیکھنا چاہیے۔ بلاشبہ، ثقافتی نگاہ کے ساتھ؛ یعنی یہ کہ آپ جو بھی معاشی کام کرتے ہیں، اس کے ساتھ ثقافتی نگاہ ہونی چاہیے، جو کہ ضروری چیزوں میں سے ایک ہے۔ اب فرض کریں کہ سفارت کاری کا مسئلہ بھی ہے اور ثقافت کا مسئلہ بھی ہے اور دیگر مسائل بھی ہیں جو آپ کو کرنے ہیں [بھی]۔

 

اب، معیشت کے معاملے میں، اس عنوان کے ذیل میں دو یا تین نکات ہیں جو میں بیان کروں گا:

ایک مسئلہ یہ ہے کہ ملکی معیشت کے مرکزی منتظمین کے گروہ کو مربوط طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ یقیناً یہ صدر مملکت کے بیانات میں تھا کہ ہم بیٹھیں گے اور اگر اختلاف ہوا تو ہم ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گے اور ہم سب اس نکتے پر عمل کریں گے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں۔ اس کے برعکس چیزیں دیکھی گئی ہیں؛ مختلف معاشی مسائل کے سلسلے میں متفقہ رائے تک پہنچنے کی ضرور کوشش کریں۔ اگر آپ کسی ایک رائے تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، تو دوسرے بھی اکثریتی رائے کو مضبوط کریں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اقتصادی عہدیداروں میں سے ایک - چاہے وہ اقتصادی کمیٹی کے عہدیدار ہوں یا اقتصادی انتظامی عہدیدار - ایک بات کہے اور کوئی دوسری بات کہے۔ فرض کریں، مثال کے طور پر، ترجیحی کرنسی کو حذف کرنے کے معاملے میں، کوئی ایک بات کہتا ہے، کوئی دوسری بات کہتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے؛ سب کو ایک ہی بات کہنی چاہیے، سب کو ایک ہی منطق پر عمل کرنا چاہیے۔

 

دوسرا، جیسا کہ ہم نے کہا، ترجیحات کا تعین معیشت میں بھی ہونا چاہیے، جس کا میں بعد میں ذکر کروں گا۔

 

معاشی مسائل کے حوالے سے تیسری بات یہ ہے کہ معیشت کے کچھ بنیادی نکات ہیں، ان پر توجہ دیں۔ خود محترم صدر مملکت کو خود ان اہم نکات پر انحصار کرنا چاہیے - جو میں اب پیش کرنے جا رہا ہوں - سوال کریں اور رپورٹس طلب کریں، تاکہ پیش رفت کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، فرض کریں بنیادی اشاریے؛ افراط زر کی مقدار اور اس میں اضافہ - اب میں شرح، افراط زر کی شرح کے لفظ کے بجائے مقدار کا لفظ استعمال کررہا ہوں - یہ ان مسائل میں سے ہونا چاہئے جو ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ یا اقتصادی ترقی؛ کہ اب اقتصادی ترقی کے مسئلے کے لیے پالیسیوں میں ایک پیمانہ طے کیا گیا ہے۔ ہم آٹھ کے عدد پر انحصار کرتے ہیں۔ خیر اب اس کا مسلسل خیال رکھنا ہوگا۔ یا سرمایہ کاری میں افافے کا مسئلہ؛ ہم سرمایہ کاری کے معاملے میں واقعی پیچھے ہیں۔ ہم بہت پیچھے ہیں۔ سرمایہ کاری پر توجہ اور اس توجہ نہ دینے کی وجہ سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے، بنیادی طور پر صنعت کے شعبے میں، اور زرعی شعبے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یا روزگار میں اضافہ، یا فی کس آمدنی میں اضافہ، یا طبقاتی فاصلے میں کمی۔ ایک بہت اہم چیز جو اب آپ کی رپورٹس میں تھی وہ یہ ہے کہ یہ فاصلہ کم ہو گیا ہے - Gini coefficient کے تحت - اس کو جاری رکھنا چاہیے، اس پر توجہ باقی رہنی چاہیے، اس کو روزانہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر ان عنوانات، ان اہم اشاریوں پر احتیاط اور مسلسل اور مستقل توجہ نہ دی گئی تو یہ نظر انداز ہو جائے گا۔ اور بعد میں انسان یکدم محسوس کرے گا کہ ہم مہنگائی کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں یا فرض کریں کہ ہم سرمایہ کاری وغیرہ کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

 

ایک اور مسئلہ پیداوار کا مسئلہ ہے جس کا آپ نے ذکر کیا، میں برسوں سے اس کا ذکر کر رہا ہوں۔ معیشت کی ترقی کے لیے ہمارا بنیادی اقتصادی موضوع پیداوار کا مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی معاش کی بہتری، روزگار کا مسئلہ، قوت خرید کا مسئلہ اور دیگر متعدد معاشی مسائل کا دارومدار مقامی پیداوار پر ہے، جنہیں بہت اہمیت دی جانی چاہیے۔ آپ کو واقعی ہر اس چیز سے نمٹنا ہوگا جو پیداواری صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ جو بھی چیز جو ملکی پیداوار کو کمزور کرتی ہے اور ناکام کرتی ہے اس سے سنجیدگی سے نمٹا جانا چاہیے۔ آپ کو فیصلہ کن طور پر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے؛ چاہے صنعت ہو زراعت دونوں میں۔

 

زراعت کے معاملے میں غذائی تحفظ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اب دیکھیں، آج کی دنیا کے حالات۔ دنیا کے ایک کونے میں جنگ ہوئی ہے (12) اور پوری دنیا کے لیے غذائی تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ یعنی غذائی تحفظ کا مسئلہ اتنا اہم ہے۔ ہم، جنہوں نے ہمیشہ گندم، مکئی اور مویشیوں کی آدانوں کی خود کفالت پر زور دیا، کچھ ماہرین تھے جنہوں نے کہا کہ ہمیں صنعت کی طرف جانا چاہیے؛ ٹھیک ہے، ہاں، ہم بالکل صنعت کے خلاف نہیں ہیں، ہم دوسروں سے زیادہ اس بات پر مصر تھے کہ ملکی صنعت آگے بڑھے، لیکن غذائی تحفظ کا مسئلہ ایک اولین مسئلہ ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اور دیکھیں کہ آج دنیا میں اس کی کتنی اہمیت سامنے آئی ہے۔

 

صنعتی پیداوار اور صنعتی شعبے میں، ایک بڑا مسئلہ - جو میں نے ان دوستوں کو بتایا جو نمائش میں موجود تھے (13) جہاں ہم اس [کارکردگی رپورٹ] کو دیکھ رہے تھے - وہ ہے "جاری سرمایے" کی کمی؛ وہ شکایت کرتے ہیں [اس مسئلے کے بارے میں]؛ یہ بینکوں کی ذمہ داری ہے۔ بینکوں کو چاہیے کہ وہ پیداواری اکائیوں کو ورکنگ کیپیٹل کے لحاظ سے تنگی نہ ہونے دیں۔ اب، مرکزی بینک صحیح وقت پر، کچھ بجا سختیاں عائد کرتا ہے، [کہ] بیلنس شیٹ پر یہ سختیاں درست ہیں، یہ صحیح ہیں اور یہ پابندیاں بینکوں کے لیے ضروری ہیں، لیکن آپ کو ان پابندیوں کو بینکوں کی دیگر غیر پیداواری سرگرمیوں تک وسعت دینی چاہیے۔ آپ اب دیکھتے ہیں؛ بینکوں کے پاس ایسی سرگرمیاں ہیں جو غیر پیداواری ہیں - زمین کی خریداری، سکوں کی خریداری - ان کے پاس بہت ساری سرگرمیاں ہیں۔ بینکوں کی ٹھیکیداری۔ ان سختیوں کو اس طرف لگو کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پیداواری یونٹوں کیلئے بینک کی سہولتیں متاثر نہ ہو۔ پیداواری یونٹ ان بینک سہولیات پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

 

ہم نے کہا کہ اقتصادی پروگراموں میں ترجیحات ہیں، ہم نے کچھ کو بیان کیا؛ مثال کے طور پر ہاؤسنگ کا شعبہ ترجیحات میں شامل ہے۔ رہائش ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ سب سے پہلے، ہاؤسنگ سیکٹر میں فعالیت خود روزگار پیدا کرتی ہے۔ رہائش کے معاملے میں مرکوز ہونے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں جو ان مسائل کے ماہر ہیں۔ دوسری بات یہ کہ رہائش کے معاملے میں ہم باہر پر انحصار نہیں کرتے۔ زمین ہماری ہے، مواد ہمارا ہے، منصوبہ ہمارا ہے۔ اس لیے رہائش کے مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ہم رہائش کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں، آپ نتائج دیکھ سکتے ہیں: مکانات کی قیمتیں اور مکانات کے کرایے آسمان کو چھو رہے ہیں، لوگ واقعی پریشانی میں ہیں۔ اقتصادی معاملات میں یقینی ترجیحات میں سے ایک ہاؤسنگ سیکٹر ہے۔

 

توانائی کے شعبے میں، یہ پیٹرو ریفائنریز، جن پر میں نے پچھلی حکومت میں بارہا زور دیا ہے، (14) ان اہم کاموں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ آپ اس وقت مصروف عمل ہیں، لیکن ان امور پر توجہ دیں۔ یہ بہت اہم ہیں۔

 

معدنیات کے شعبے میں - ہم معدنیات کے شعبے میں بھی بہت پیچھے ہیں - اس معدنیات کی ویلیو ایڈڈ چین کو مکمل کریں۔ ایک معاملے میں، مختلف سالوں میں میرے پاس مختلف رپورٹس آئیں، جن کا میں نے حکومتوں کو حوالہ دیا، میں نے انھیں حکام کو ارجاع دیا، [لیکن] معدنیات کے شعبے میں صحیح اور مناسب طریقے سے کام نہیں ہوا ہے۔ یہ کرنا ضروری ہے۔ ہمارے پاس بہترین کانیں اور متنوع معدنیات ہیں۔ ان معدنیات کو یا تو ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے یا خام شکل میں برآمد کیا جاتا ہے۔ دوسرے یہاں سے پتھر لے گئے اور اس پر کام کیا، وہ ایک ہی پتھر کئی گنا قیمت پر واپس لائے اور ہمیں بیچ دیا۔ بعض عمارتوں میں جو پتھر استعمال ہوتے ہیں وہ بعض اوقات وہی پتھر ہوتے ہیں جو یہاں سے لئے گئے تھے - مثال کے طور پر کرمان کا پتھر کہتے ہیں کہ غیر معمولی ہے - وہ اسے اٹلی لے گئے، اس پر کام کیا، اس پر تجربات کئے، اسے بہتر بنایا۔ اور اسی کو ہمارے پاس لے آئے، ہم نے اسے کئی گنا قیمت پر خریدا، استعمال کیا اور اپنی عمارتوں میں لگایا۔ معدنیات کا مسئلہ بھی ترجیحات میں شامل ہے۔

 

اس وقت، نقل و حمل کے شعبے میں، اہم راستوں جیسے کہ ٹرانزٹ روٹس کی تکمیل - شمال اور جنوب، مشرق اور مغرب کے راستے جن پر بحث جاری ہے - بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک کی جغرافیائی پوزیشن کے بارے میں زمانہ قدیم سے کہا جاتا رہا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی مواصلاتی مقام ہے۔ یہ شمال اور جنوب کے درمیان رابطے کے لحاظ سے اور مشرق اور مغرب کے درمیان تعلق کے لحاظ سے واقعی ایک غیر معمولی جگہ پر ہے۔ یعنی دنیا کے نقشے پر جب انسان نظر ڈالتا ہے، ہمارا ملک اس لحاظ سے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جو غیر معمولی ہیں۔ لہذا، داخلی مواصلات اور داخلی نقل و حمل کے راستے، ٹرانزٹ اور مواصلاتی راستے؛ یہ بھی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔

 

محکمہ اقتصادیات کی ترجیحات میں سے ایک اور اہم مسئلہ سمندر کا مسئلہ ہے جس کا اظہار انہوں نے (15) بھی کیا۔ میں کئی سالوں سے سمندر کے مسئلے پر زور دے رہا ہوں۔ کچھ چھوٹی موٹی فعالیت کی گئی ہیں، لیکن جو ہونا چاہئے وہ نہیں کیا گیا ہے. سمندر بہت اہم ہے؛ بذات خود سمندر، سمندری پانی، سمندری مصنوعات، موجودہ بندرگاہیں، رہائشی علاقے جو سمندر کے گرد بنائے جا سکتے ہیں، ملک کے لیے مالی سرمایے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ہمارے پاس شمال اور جنوب دونوں طرف کھلے سمندر ہیں، جو ہمارے ملک کے عظیم زخائر میں سے ایک ہے۔ ہمیں اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

 

مختصراً، اگر میں کہنا چاہوں تو معاشی اور اقتصادی مسائل کے حوالے سے میرا مشورہ یہ ہے کہ ملک میں موجود عظیم قدرتی اور انسانی وسائل کو ضائع نہ ہونے دیں۔ مخبر صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمارے پاس ایسے موارد ہیں جن میں سے ہر ایک ملک کو سنبھال سکتا ہے۔ واقعی یہ ہمارے عظیم قومی خزانوں میں سے ہیں، انہیں ضائع نہ ہونے دیں۔

 

ایک چیز جس کی میں ہمیشہ تجویز کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ چیزوں کو ادھورا نہ چھوڑیں۔ کئی بار، جب ہم جذباتی ہو جاتے ہیں اور اس طرح، ہم جوش اور جذبے کے ساتھ کچھ شروع کرتے ہیں، ہم چند قدم اٹھاتے ہیں، پھر ہم آہستہ آہستہ سست پڑجاتے ہیں اور کام صفر پر ہی رہتا ہے۔ اس سے ڈریں اور کام کو ادھورا نہ چھوڑیں۔ بلاشبہ کچھ مسائل ماضی کے مسائل جمع ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کریں؛ یہ مسئلہ پیچیدہ اور وقت طلب ہے، تحمل سے کام لیں۔ صبر کریں اور ثابت قدم رہیں۔ انشاء اللہ یہ سب کچھ ایک جہادی فعالیت سے حل ہو گا اور مختصراً یہ کہ جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے اگر ان کو عملی کیا جائے تو ثابت ہو جائے گا کہ 13ویں حکومت ایک مکمل موثر اور فعال حکومت ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرے گی۔ آپ خدا اور لوگوں دونوں کو راضی کرسکیں گے، انشاء اللہ۔

 

اب یہ اس کا خلاصہ تھا جو ہمیں کہنا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ میں آپ کیلئے دعاگو ہوں؛ میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے امام خمینی رح کی پاکیزہ روح اور ہمارے پیارے شہداء کی پاکیزہ روحوں کو آپ سے اور ہم سے راضی رکھے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان کے اور اپنی عزیز قوم کے تئیں اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔

 

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

 

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں، جو ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے انجام پائي، صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی، نائب صدر ڈاکٹر محمد مخبر، اجرائي امور میں صدر کے معاون سید صولت مرتضوی، بجٹ اور پروگرامنگ کے شعبے کے سربراہ سید مسعود میر کاظمی اور وزیر توانائي علی اکبر محرابیان نے رپورٹیں پیش کیں۔

 

(2) سورۂ یس، آیت 11، (اے پیغمبر!) آپ کا ڈرانا تو اسی شخص کے لیے (فائدہ مند) ہے جو ذکر (کتاب خدا) کی پیروی کرے۔

 

(3) سورۂ انبیاء، آیت 10، بے شک ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی ذکر ہے۔

 

(4) چودہ جولائي سنہ 1999 کو تہران یونیوسٹی کے طلباء کے درمیان فتنہ پھیلانے کی کوششوں کے ردعمل میں عوام کی زبردست ریلی۔

 

(5) تیس دسمبر سنہ 2009 کو آشوب پھیلانے کی کارروائيوں کے جواب میں عوام کی پرشکوہ ریلی۔

 

(6) اصفہان میں اٹھائیس اگست سنہ 2022 کو آيت اللہ محمد علی ناصری کا پرشکوہ جلوس جنازہ۔

 

(7) اٹھارہ جولائي سنہ 2022 کو تہران کے لوگوں نے عید غدیر کی مناسبت سے ولی عصر اسٹریٹ پر دس کلو میٹر کے علاقے میں ایک جشن کا انعقاد کیا جس میں اندازے کے مطابق تقریبا تیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔

 

(8) صدر مملکت کا دو روزہ دورۂ ماسکو، 19/1/2022

 

(9) سورۂ کہف، آيت 110، تو جو کوئی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔

 

(10) صدر مملکت اور تیرہویں حکومت کی کابینہ کے ارکان سے پہلی ملاقات میں تقریر، 28/8/2021

 

(11) پچیس مئي 2022 کو آبادن کے میٹروپول ٹاور کے گرنے کے واقعے کی طرف اشارہ جس میں دسیوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے تھے۔

 

(12) چوبیس فروری سنہ 2022 سے لے کر اب تک روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔

 

(13) اس ملاقات کے موقع پر حکومت کے مختلف شعبوں کی کارکردگي کے بارے میں ایک نمائش منعقد کی گئي۔

 

(14) منجملہ، 29/8/2018 کو صدر اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں تقریر

 

(15) نائب صدر جناب ڈاکٹر محمد مخبر