بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّیۃ اللہ فی الارضین۔
آج کی ہماری ملاقات بہت مفید اور خوشگوار رہی۔ اس ملاقات کے دو حصے تھے: ایک حصہ ان کاموں کا تھا جو انجام دیے گئے، وہ نئے اقدامات جو میدان میں لائے گئے، کامیابیاں، فتوحات اور امید افزا باتیں۔ میری نظر میں ہمیں ایسی باتیں سننے کی ضرورت ہے، کیونکہ دشمن اپنی خاص اغراض کے تحت مایوسی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خصوصاً نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول میں۔ ایسے میں یہ باتیں، یہ رپورٹیں، اور یہ خبریں زندگی، امید، حرکت اور ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ دوسرا حصہ شکایات کا تھا، جو ہم نے آپ جیسے افراد سے بارہا سنی ہیں، اور ہمارا فرض ہے کہ ان شکایات پر توجہ دیں اور انہیں دور کریں۔
پہلے حصہ یعنی جو خوشخبریوں اور ترقیات کے متعلق ہے، میری نظر میں ہمیں ایک مؤثر میڈیا مہم کی ضرورت ہے۔ کیا وہ پیشرفتیں جن کی آپ نے یہاں رپورٹ دی اور ہم نے سنی، ہمارے تمام نوجوانوں کو معلوم ہیں؟ کیا ہمارے طلبہ کو علم ہے؟ کیا وہ لوگ جو ملک میں سرگرم ہونا چاہتے ہیں، اثر ڈالنا چاہتے ہیں، اور اپنے اندر صلاحیتیں دیکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ کیسے چند سال پہلے ایک چھوٹے سے یونٹ کو ایک چھوٹے شہر میں قائم کیا گیا اور پھر کچھ ہی عرصے میں اسے کئی گنا وسعت دے کر ترقی حاصل کی گئی؟ کیا یہ خبریں ان تک پہنچتی ہیں؟ ان کامیابیوں، ترقیوں اور خوابوں کی تعبیر کو دکھانے میں کوتاہی ہو رہی ہے۔ ہمیں ایک الگ اور جامع میڈیا مہم کی ضرورت ہے، اور اس پر بیٹھ کر غور و فکر کرنا ہوگا۔ شکایات کے حوالے سے بھی میں بعد میں عرض کروں گا۔
یہ آج کی ملاقات، گزشتہ چند سالوں میں آپ کارآفرینوں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ہماری پانچویں ملاقات ہے۔ ہم نے یہ سلسلہ سال ۱۳۹۸ (2019) میں شروع کیا تھا؛ پھر ۱۴۰۰ (2021)، ۱۴۰۱ (2022)، ۱۴۰۲ (2023)، اور اب ۱۴۰۳ (2024) میں۔ آپ میں سے بہت سے حضرات ان گزشتہ سالوں کی ملاقاتوں میں بھی شریک رہے ہیں۔ ہم نے پہلی ملاقات ۲۰۱۸ میں، جب سخت ترین پابندیاں اور شدید اقتصادی دباؤ تھا، اس لیے منعقد کی کہ ہم ان افراد کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے ہمت باندھ کر ملک کی پیداوار اور ترقی کو اپنا مقصد بنایا۔ ہم نے انہیں کہا کہ آپ اقتصادی جنگ کے محاذ کے کمانڈر ہیں۔ ہم نے سال ۲۰۱۸ میں یہ لقب ان دوستوں کو دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ اقتصادی جنگ کے اگلے مورچے کے سپاہی اور کمانڈر ہیں(۲)۔
آج بھی ہماری سب سے اہم جنگ، اقتصادی جنگ ہے۔ ہم نے کہا کہ پیداوار میں ترقی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ہر سال جب ہم نے یہ نشست منعقد کی، ہمیں صرف رپورٹ ہی نہیں بلکہ حقیقی طور پر معلوم ہوا کہ نجی شعبہ مزید تخلیقی، مضبوط اور تجربہ کار ہو چکا ہے۔ پہلے ہماری تشویش یہ تھی کہ نجی شعبے کو میدان میں کیسے لایا جائے، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ نجی شعبہ اپنے تجربے اور عملی شرکت سے نہایت شوق اور جذبے کے ساتھ پیداوار اور سرمایہ کاری کے فروغ میں لگا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ان پانچ سالوں میں ترقی کی ہے۔
کل میں نے ایک نمائش دیکھی۔ البتہ وہ نمائش جو کل میں نے دیکھی، ملک کی حقیقت کا ایک چھوٹا سا حصہ تھی۔ لیکن اسی چھوٹی سی جھلک نے یہ دکھایا کہ ہمارے ملک کا نجی شعبہ بیرونی دباؤ، پابندیوں اور پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود ایک قابلِ قدر سطح کی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ نمائش ترقی اور آگے بڑھنے کی علامت تھی۔ ہم کیوں اس عظیم نعمتِ الٰہی کی قدر نہیں کرتے؟ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے۔ نجی شعبہ اقتصادی میدان میں ملک کی ترقی کی ایک روشن مثال ہے۔ اگر ہم علمی اور تحقیقی شعبوں میں جائیں، تو وہاں بھی ایسی ہی ترقی دیکھیں گے۔ ملک کے مختلف شعبوں میں یہ پیشرفت نظر آتی ہے۔ البتہ کمزوریاں، نقائص اور مسائل کم نہیں ہیں، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہاں وزراء بھی موجود ہیں، اور محترم ڈاکٹر عارف صاحب (۳) بھی تشریف رکھتے ہیں۔ میں ان مسائل کی طرف بھی توجہ دلاؤں گا جو ہماری ذمہ داری میں آتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جو پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، اسے اپنی تمام تر توجہ اندرونی صلاحیتوں پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ دنیا میں آج چند ممالک ہیں جو بڑی طاقتوں کی پابندیوں کا شکار ہیں، لیکن وہ پابندیاں جو بظاہر انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی ہیں، وہی چیزیں مناسب اور درست طریقوں سے ان ممالک کی دسترس میں آ رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اندرونی صلاحیتوں پر نگاہ رکھے اور انہیں بھرپور طریقے سے بروئے کار لائے۔
میری تجویز ہے کہ ملک کے اعلیٰ حکام اس نمائش کو دیکھنے آئیں۔ میں نے گزشتہ سال بھی یہی درخواست کی تھی کہ آئیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ گزشتہ سال جب میں نے یہ گزارش کی تو شہید صدر محترم جناب رئیسیؒ – اللہ ان پر رحمت کرے – دو دن بعد اس نمائش میں آئے۔ انہوں نے مجھ سے بھی زیادہ وقت نمائش میں گزارا، شاید مجھ سے دوگنا وقت، اور مجھ سے زیادہ خوش اور مطمئن ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ملک کے حکام، تینوں قوا کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ عہدیداران اس نمائش کو دیکھیں گے تو وہ بھی یہی محسوس کریں گے ۔
ایک دلچسپ نکتہ ہے جو نہ صرف نمائش میں نظر آ رہا تھا بلکہ آج کی بات چیت میں بھی دہرایا گیا، اور یہ وہی بات ہے جس کا مجھے پہلے سے بھی علم تھا، اور وہ یہ ہے کہ کئی مواقع پر – اور یہ مواقع کم نہیں ہیں – ہم دیکھتے ہیں کہ نجی سرمایہ کار کے لیے ذاتی آمدنی کی فکر سے زیادہ ملک کی ترقی اہم ہوتی ہے؛ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم نے آج کی بات چیت میں بھی یہی مشاہدہ کیا۔ ہاں، آمدنی اور ذاتی زندگی میں بہتری بھی ان کے لیے اہم ہے، لیکن بعض مواقع پر اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ بلکہ کئی گنا زیادہ ملک کی ترقی ان کے لیے اہم ہوتی ہے؛ کہ ملک ان مسائل سے باہر نکل سکے۔
میری گفتگو کا بنیادی نکتہ، جس پر میں آج بھی زور دینا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ملک کی انتظامیہ،حکومت جو فیصلہ کرتی ہے وہ اس نجی شعبے کی مدد کرے؛ یہ ایک لازم بات ہے: ان کی مدد کرنی چاہیے۔ سب سے بڑی مدد یہی ہے کہ ان کے راستے سے رکاوٹوں کو ہٹایا جائے؛ رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ بدقسمتی سے، میں دیکھتا ہوں کہ بعض جگہوں پر سرکاری ادارے ان کے کاموں کی رفتار کو کم کرتے ہیں؛ یعنی بجائے اس کے کہ وہ کمپنیوں کی ترقی اور پیشرفت میں مدد کریں، وہ ایسی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جو حقیقت میں ان کی ترقی کو روک دیتی ہیں۔
ایک مسئلہ یہی درآمدات (امپورٹ) کا ہے جس کا کئی صاحبان نے ذکر کیا؛ یہ وہ بات ہے جو میں بارہا دہرا چکا ہوں؛ تو اس پر عمل کریں۔ محترم ڈاکٹر عارف، صنعت و تجارت کے محترم وزیر (صمت) (۴) سے مطالبہ کریں۔ آدمی شرمندہ ہو جاتا ہے جب ایک فیکٹری کے مالک نے کہا کہ: درآمد شدہ مصنوعات کی قیمت، جو مقامی فیکٹری میں بننے والے مشابہہ پروڈکٹ سے تقریباً چالیس فیصد زیادہ ہے؛ یعنی یہ مصنوعات درآمد کرنے والا، ایرانی مزدور، ایرانی فیکٹری اور ایرانی سرمایہ کار کے لیے رکاوٹ بن رہا ہے۔ واقعی انسان کو شرمندگی ہوتی ہے! جب ایرانی مصنوعات ملک کی ضرورت پوری کر سکتی ہیں تو پھر کیوں ہم راستہ کھولیں کہ ایرانی سرمایہ کار کو نقصان پہنچے اور غیر ملکی سرمایہ کار فائدہ اٹھائے؟ یہ ملک کو نقصان پہنچانا ہے؛ یہ معمولی بات نہیں ہے؛ اس پر عمل ہونا چاہیے۔ جو بات میں زور دے کر کہتا ہوں وہ یہ ہے: سرکاری اداروں کو مدد کرنی چاہیے، رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے؛ یہ رکاوٹیں کبھی قوانین ہوتی ہیں، تو انہیں درست کریں؛ کبھی یہ سرکاری ضوابط ہوتے ہیں، تو انہیں تبدیل کریں۔ البتہ میں لاپروائی کی سفارش نہیں کرتا کہ دھوکہ بازوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے؛ بعض لوگ سرمایہ کار اور کارآفرین کے عنوان سے میدان میں آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سرمایہ کار نہیں ہوتے؛ وہ صرف ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ جیسے ہم نے کرنسی سبسڈی اور ترجیحی کرنسی جیسے معاملات میں دیکھا کہ بہت سے ناجائز فائدے اٹھائے گئے؛ میں اس کی سفارش نہیں کرتا۔ نگرانی کو سخت کریں لیکن مدد کو بھی بڑھائیں؛ ان لوگوں کی مدد کریں جو واقعی درست طریقے سے کام کرتے ہیں؛ ان کے راستے سے رکاوٹوں کو ہٹائیں۔
رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایک اہم مثال، اصل 44 کے اصولوں (پالیسیوں) پر عمل کرنا ہے۔ جب ہم نے کئی سال قبل اصل 44 کے اصولوں کو جاری کیا (۵)، تو سب – یعنی تمام اہلکار اور جاننے والے جو میرے ساتھ رابطے میں تھے – نے اس کی تائید کی؛ بعض نے اخبارات میں، بعض نے میڈیا میں، اور بعض نے ہمیں خود کہا کہ یہی ملک کی معاشی مشکلات کا حل ہے اور یہی مسائل کو سلجھائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے، متعلقہ حکام نے ان پالیسیوں پر عمل نہیں کیا؛ آج بھی ہم اسی مسئلے کا شکار ہیں۔ اصل 44 کی پالیسیوں پر عمل ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں، ہماری معاشی زوال پذیری کی ایک وجہ دہائی 90 میں یہی تھی۔ وجوہات کئی تھیں؛ مگر ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ ان پالیسیوں پر عمل نہیں ہوا؛ ہم بار بار تاکید کرتے رہے مگر توجہ نہیں دی گئی۔
آٹھ فیصد اقتصادی ترقی کے بارے میں، الحمدللہ مجھے اطلاع ملی کہ اس موضوع پر کئی ماہرین نے مختلف تخصصی ورکنگ گروپس میں کئی مہینوں تک محنت کی، صلاحیتوں کی شناخت کی، امکانات کو جانچا، سرمایہ کاری کے منصوبے مرتب کیے اور مسائل کے حل تجویز کیے۔ حکومتی اہلکاروں کو سنجیدگی سے ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ کام انجام پا چکا ہے؛ یہ ورکنگ گروپس بیٹھ کر محنت کر چکے ہیں، مسائل کے حل تلاش کر چکے ہیں، لیکن اب ان پر عمل درآمد کرنا اور انہیں نافذ کرنا حکام کی ذمہ داری ہے تاکہ یہ آٹھ فیصد اقتصادی ترقی، ان شاء اللہ، حاصل کی جا سکے۔ یہ نہ کہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے؛ اسے کسی ناممکن چیز سے مشروط نہ کریں، جیسے کہ یہ کہیں کہ اس کے لیے اتنی مقدار میں غیر ملکی سرمایہ کاری ضروری ہے! ظاہر ہے کہ اس نظرئیے کے ساتھ تو یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ جن ماہرین نے اس پر کام کیا ہے، انہوں نے آٹھ فیصد ترقی کو کسی ناممکن چیز سے مشروط نہیں کیا؛ جو انہوں نے تجویز کیا ہے، وہ ایسے اقدامات ہیں جو ملک کے اندر ممکن ہیں، صرف حکومت کی مدد چاہیے۔ میرے خیال میں یہ کام بالکل ممکن ہے۔ البتہ آٹھ فیصد ترقی کوئی معجزہ نہیں کرے گی کہ ایک سال میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے؛ اقتصادی ترقی کو مسلسل اور پائیدار ہونا چاہیے، اس کے فوائد اور نتائج منصفانہ طور پر تقسیم ہونے چاہئیں تاکہ ملک میں ایسی تبدیلیاں آئیں جو عوام کے لیے محسوس ہوں اور انہیں دکھائی دے کہ واقعی کچھ ہوا ہے۔
ہمارے پاس جو مواقع اور صلاحیتیں موجود ہیں، ان میں سے ایک حالیہ موقع ہماری بریکس جیسی تنظیموں میں ہماری رکنیت ہے(6) اس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کام کے لیے ملکی سفارتی حکام کی شمولیت ضروری ہے۔ انہیں آگے بڑھ کر مدد کرنی چاہیے، کیونکہ یہ ملک کے لیے ایک بڑی فرصت ہے۔ خاص طور پر بریکس کا مالیاتی نظام اور رکن ممالک کی کرنسیوں میں ہونے والے تبادلات، اگر یہ عملی شکل اختیار کرلیں، تو یقیناً ملک کے لیے ایک بڑی مدد ثابت ہوں گے۔ آج ہماری ایک بڑی مشکل ڈالر پر انحصار ہے، اور یہ بات بریکس کے رکن ممالک نے بھی سمجھ لی ہے۔ البتہ، بعض رکن ممالک سیاسی وجوہات کی بنا پر عملی اقدامات سے گریزاں ہیں۔ ہمیں اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا اور انہیں اس عمل میں شامل ہونے پر آمادہ کرنا ہوگا۔
ملک کے اندر، محترم صدر صاحب نے بھی اس بات کو واضح کیا (۷) ہے اور اس سوچ کو آگے بڑھا رہے ہیں، اور میں بھی مکمل طور پر ان کی تائید کرتا ہوں کہ حتی الامکان تجارتی لین دین سے ڈالر کو خارج کریں۔ یہ ایک بڑا اور اہم قدم ہے۔ اقتصادی جنگ میں یہ ایک فیصلہ کن اور جرات مندانہ اقدام ہوگا۔ یقیناً اس پر ردعمل آئے گا، لیکن اگر آپ یہ قدم اٹھا سکیں تو آپ کا ہاتھ مضبوط ہوگا۔ اسی مقصد کے لیے مرکزی بینک کو چاہیے کہ دیگر کرنسیوں کے لیے راستے کھول دے۔
میں نجی شعبے (پرائیویٹ سیکٹر) کے مسائل پر کئی بار بات کر چکا ہوں، اور دوبارہ دہرانا نہیں چاہتا۔ اصل بات یہ ہے کہ سرکاری ادارے نجی شعبے کی حمایت کریں۔ نجی شعبہ یہ محسوس کرے کہ حکومت اس کے ساتھ ہے، رکاوٹیں پیدا نہیں کر رہی، اور اس کا کام آسان اور سہل ہے۔ کل ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ گزشتہ سال میں نے آپ سے شکایت کی تھی کہ ایک ادارے کے قیام کے لیے ہمیں تین سال سے لٹکایا جا رہا ہے۔ میں نے بھی اگلے ہی دن اپنی تقریر میں یہی مسئلہ اٹھایا تھا کہ آخر ایسا کام جو دس دن، زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں مکمل ہو سکتا ہے، اسے تین سال کیوں لٹکایا گیا ہے؟ اسے حل کریں۔ لیکن وہ صاحب کل کہہ رہے تھے کہ اب تین سال سے چار سال ہو چکے ہیں اور ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا۔ یہ ناقابل قبول ہے، اور اسے فوری طور پر حل ہونا چاہیے۔ میں واقعی شرمندہ ہوا۔ صرف باتیں کرنے، دہرانے اور تاکید کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، عمل کرنا ضروری ہے۔ قرآن میں بھی ہے: "إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" (یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے) (۸)۔ ایمان ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے۔ یہی اصول دنیا اور آخرت، دین اور شریعت، اور دنیاوی معاملات سب پر لاگو ہوتا ہے۔ نجی شعبے کی اہمیت کو ماننا ضروری ہے، لیکن صرف مان لینا کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے۔ ایمان اور عمل صالح، یہی ہمارے آج کے اجلاس کا پیغام ہے۔
اب غزہ کے بارے میں چند باتیں عرض کرتا چلوں۔ ہم نے کہا تھا کہ مزاحمت زندہ ہے، اور ہمیشہ زندہ رہے گی(۹)؛ اور غزہ نے ثابت کر دیا کہ مزاحمت زندہ ہے۔ آج دنیا کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک افسانے جیسا ہے۔ اگر ہم یہ سب تاریخ میں پڑھتے تو شاید یقین نہ کرتے کہ ایک بڑی جنگی طاقت، جیسے امریکہ، ایک ظالم اور خونخوار صہیونی حکومت کی حمایت میں کھڑی ہوگی، اور یہ صہیونی حکومت اتنی بے رحم ہوگی کہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں پندرہ ہزار بچوں کو قتل کرنے میں بھی نہ ہچکچائے گی۔ اور امریکہ اتنا بے حس ہوگا کہ اس سفاک حکومت کو بم فراہم کرے گا تاکہ بچوں کے گھروں اور اسپتالوں پر بمباری کرے۔ اگر یہ سب تاریخ میں پڑھتے، تو شاید اسے کوئی مبالغہ سمجھتے۔
مگر آج یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ یعنی امریکا نے اپنے سبھی وسائل صیہونی حکومت کے اختیار میں دے دیے، اگر امریکہ اپنی پوری طاقت سے صہیونی حکومت کو مدد نہ دیتا، تو یہ حکومت جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں ہی گھٹنے ٹیک دیتی۔ لیکن صہیونی حکومت نے ایک سال اور تین ماہ تک ہر قسم کی بربریت کی؛ اسپتالوں، مساجد، کلیساؤں، گھروں، بازاروں، اور عوامی اجتماعات پر حملے کیے۔ کہاں؟ ایک چھوٹے سے علاقے، غزہ میں! انہوں نے ہر ممکن ظلم ڈھایا۔ انہوں نے اپنا ہدف بھی واضح کر دیا: صہیونی حکومت کے بدبخت اور روسیاہ سربراہ (۱۰) نے کہا کہ ہم حماس کو ختم کریں گے، اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیا تھا۔ انہیں اپنی کامیابی کا اتنا یقین تھا۔
لیکن آج وہی ظالم صہیونی حکومت اسی حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی ہے، جسے وہ ختم کرنا چاہتی تھی، اور حماس کی شرائط پر جنگ بندی کے لیے تیار ہوئی ہے۔ یہی ہے مزاحمت کی زندہ حقیقت۔ یہی ہے اللہ کا وعدہ: "وَ لَو قاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الأَدْبَارَ ثُمَّ لاَ يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا" (۱۱) (اگر کافر تم سے جنگ کریں گے، تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے، اور انہیں کوئی حمایتی اور مددگار نہیں ملے گا)۔ یہ اصول صرف ماضی کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے، جیسا کہ فرمایا: "سُنَّةَ اللّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّهِ تَبْدِيلاً(۱۲) " (یہ اللہ کا اٹل قانون ہے، جو پہلے سے چلا آ رہا ہے، اور تم اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے)۔ یہ سنت الہی ہے۔ ان کو کامیاب ہونا ہی تھا اور ہوئے۔ جہاں بھی خدا کے اچھے بندے استقامت کریں گے وہاں کامیابی یقینی ہے۔
جہاں اللہ کے نیک بندے مزاحمت کرتے ہیں، وہاں فتح یقینی ہوتی ہے۔ خیالوں کی دنیا میں رہنے والے اس وہمی نے اعلان کیا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے، وقت ثابت کرے گا کہ کمزور کون ہے۔ صدام نے بھی ایران کو کمزور سمجھ کر حملہ کیا تھا، اور ریگن نے بھی ایران کو کمزور سمجھ کر صدام کی بھرپور مدد کی تھی۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ وہ سب تباہ ہو گئے، اور اسلامی جمہوریہ ایران دن بہ دن طاقتور ہوتا گیا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے، یہ تجربہ اس بار بھی دہرایا جائے گا۔
والسّلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس جلسے کے شروع میں نجی شعبے کے اقتصادی میدان میں سرگرم بعض لوگوں نے اپنے نظریات بیان کئے
2۔ رجوع کریں، 19-11- 2019 کو ایران کے پیداواری شعبے سے وابستہ افراد، روزگار فراہم کرنے والوں اور اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کے اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے۔
3۔ نائب صدر اول، جناب ڈاکٹر محمد رضا عارف
4۔ صنعت، معدنیات اور تجارت کے وزیر جناب سید محمد اتابک
5- بائیس مئی 2005 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ 44 کے تحت کلی پالیسیوں کا اعلان
6۔ برکس(BRICS) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کے رکن وہ ممالک ہیں جو دنیا کی نئی اقتصادی طاقت شمار ہوتے ہیں۔
7۔ جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان
8۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 277 " جولوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے۔"
9۔ آٹھ جنوری 2025 کو قم کے عوام کے اجتماع سے خطاب
10۔ بنیامن نیتن یاہو (صیہونی وزیر اعظم)
11۔ سورہ فتح، آیت 22۔
12۔ سورہ فتح آیت نمبر 23