ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

کاشان کے ۱۸۸۰ شہداء کی یاد میں منعقدہ قومی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات میں خطاب

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین. (۱)
عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید، خاص طور پر معزز شہداء کے خاندانوں کو، اور بالخصوص اُن شہداء کی محترم والدہ کو، جو چار شہیدوں کی ماں (۲) ہیں۔ اور جناب منصوری (۳) صاحب کو بھی، جنہیں ہم نے برسوں سے نہیں دیکھا تھا؛ میں انہیں ان کے دورِ طالبعلمی سے جانتا ہوں، جب وہ جدوجہد میں مصروف تھے۔
کاشان ایک نمایاں شہر ہے؛ صرف ہمارے دور میں جو کچھ ہوا، اس کے علاوہ بھی، تاریخ بھر میں کاشان حقیقتاً ممتاز رہا ہے: یہ علم پرور ہے، شاعر پرور ہے، فقہاء پرور ہے، ریاضی دانوں کو جنم دینے والا ہے، جدوجہد کرنے والوں کی سرزمین ہے، اور ہنر پرور ہے۔ یہاں بڑی عظیم المرتبت شخصیات نے جنم لیا، جنہیں آپ لوگ جانتے ہیں اور تاریخ میں ان کے نام ثبت ہیں۔
یہ جو کاشان میں بُنا جانے والا قالین ہے، وہ فنّی لحاظ سے ایک انتہائی اعلیٰ اور قیمتی ہنر ہے۔ ہمیں اپنے اس ھنر کی  کہ  جو ہمارے قدموں میں  بچھ جاتی ہیں، قدر کرنی چاہیے۔ یہاں سے کئی مشہور شخصیات نے جنم لیا، جن کے نام تاریخ میں روشن ہیں۔
ہماری قریبی تاریخ میں، یعنی ہمارے معاصر دور میں بھی، ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے سامراج سے مقابلہ کیا — اور یہ بات اندرونی حکومت سے مقابلے سے الگ ہے۔ جیسے مرحوم آیت اللہ کاشانی کے والد، مرحوم سید مصطفیٰ کاشانی، جو نجف کے عظیم علما میں سے تھے۔ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد انگریزوں نے خطے کو آپس میں تقسیم کیا اور ایران کی جانب بڑھنے لگے، تو مرحوم سید محمدکاظم یزدی کی فتویٰ پر یہ لوگ نجف سے اہواز، جنوب عراق اور مغربی و جنوب مغربی ایران میں پہنچے اور دشمن کے خلاف تن بہ تن لڑائی کی۔
مرحوم سید مصطفیٰ کاشانی اور ان کے فرزند سید ابوالقاسم کاشانی (جو ہمارے مشہور آیت اللہ کاشانی ہیں) نے اس جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ کوئی باوقار انسان اپنی پوری زندگی ظلم، جبر اور جارحیت کے خلاف جدوجہد میں صرف کرے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔
آج بعض لوگ مرحوم آیت اللہ کاشانی پر سیاسی اختلافات کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہ مردِ مجاہد تھے، جس نے دہائیوں تک بہادری کے ساتھ انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
رضا شاہ کے دور میں، جب ہر کوئی خوف کے مارے خاموش تھا، اس وقت آیت اللہ کاشانی نے جدوجہد کی۔ اس زمانے میں مقابلہ کیا۔
امام خمینیؒ نے ایک بار ایک نجی نشست میں فرمایا یہ : "میں نے آقای کاشانی جیسا بہادر کوئی نہیں دیکھا"۔ غور کیجیے، یہ بات کون کہہ رہا ہے؟ امام خمینیؒ، جو خود شجاعت و بہادری کا مظہر تھے۔ یہ بات میں نے خود امام سے براہ راست سنی،  راوی درمیان میں نہیں تھا۔ امام نے فرمایا: "میں نے آقای کاشانی جیسا بہادر کوئی نہیں دیکھا" اور پھر ان کی بہادری کے تین  واقعات سنائے، جو میں اس وقت نقل نہیں کر رہا۔
ہم نے خود اس تاریخی مقام کو دیکھا جہاں آقای کاشانی کو قید میں رکھا گیا تھا۔ ہمیں وہ سیل دکھایا گیا، جہاں وہ مختصر مدت کے لیے قید رہے۔ وہاں ایک واقعہ ہمیں سنایا گیا کہ جب ایک سپاہی انہیں نصیحت کرنے آیا تو آقای کاشانی نے ایسا جواب دیا جو ان کی ، جرات و شجاعت و مضبوط دل کی علامت تھا۔
کاشان کئی پہلوؤں سے نمایاں ہے؛ ایک، اس کی جدوجہد کی تاریخ؛ دوسرا، علم و فن کا مرکز ہونا؛ اور تیسرا، اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت و عقیدت۔ ہمارے جوانی کے زمانے میں کاشان کی مجالسِ عزا پورے ملک میں مشہور تھیں۔
دفاعِ مقدس (ایران-عراق جنگ) کے دوران اور اس کے بعد، کاشانی عوام نے اپنے تاریخی کردار کو دوبارہ زندہ کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ یہ سرزمین ہمیشہ سے بہادر، مجاہد اور ایثار پیشہ انسانوں کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔
آپ کے یہاں عظیم الشان شہداء ہیں، وہ شہداء جو جدوجہد کے ابتدائی دور میں شہید ہوئے — یہ ایسی خصوصیت ہے جو بہت کم شہروں کو نصیب ہوتی ہے۔ آپ کے یہاں میدانِ جنگ کے شہداء بھی ہیں، اور بے مثال عوامی حمایت و قربانی کی داستانیں بھی ہیں۔
مثال کے طور پر، چند خواتین نے ایک قیمتی قالین بُنا اور محاذ پر پیش کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ قالین محاذ پر پہنچا تو وہاں کے ذمہ داروں نے کہا: "ہم اسے قیمت پر نہیں، بلکہ اس کی روحانی قدر پر فروخت کریں گے"۔ وہ اسے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، اور اس ایک قالین سے کئی لشکروں کی کفالت کا سامان مہیا ہو جاتا ہے۔
یہ سب کاشانی عوام کی عظیم عوامی قدریں ہیں۔
اب جب آپ شہداء کی یاد میں پروگرام منعقد کرنا چاہتے ہیں تو یہ تمام کام جو بیان ہوئے، جیسے فنونِ لطیفہ، کتاب نویسی، اور یادداشت نویسی، سب اہم اور ضروری ہیں۔ یہ سب اچھے اور لازم کام ہیں۔
میں نے ان پروگراموں  کے منتظمین سے ملاقات میں کچھ نصیحتیں کی تھیں، جو آپ نے یا تو سنی ہوں گی  میں انہیں دہرانا نہیں چاہتا۔ میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ شہداء کی عظمت صرف یہ نہیں تھی کہ انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ کا رخ کیا؛ ٹھیک ہے، خطرے کے وقت بہت سے لوگ، خاص طور پر نمایاں شخصیات، یہ کام کرتے ہیں۔ جب دین، وطن، قومیت اور ملک کی عزت کو کوئی خطرہ لاحق ہو، تو کچھ لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھتے ہیں اور جنگ کرتے ہیں۔
لیکن یہاں ایک اہم نکتہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس عمل کے ساتھ کچھ اخلاقیات اور رویّے سامنے آتے ہیں، جو قابلِ بیان ہیں اور دوسری اقوام کو منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ جیسے ایثار (قربانی)؛ ایک جوان جو وہاں گیا ہے، فرض کیجیے کہ اس کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے، اور اس کا ساتھی  ضرورت مند ہے، تو وہ بلا تردید اور کسی بھی قسم کی مصلحت کے بغیر وہ چیز اپنے ساتھی کو دے دیتا ہے؛ یہ ہے ایثار۔
عبادتیں؛ ایک نوجوان، جو ابھی بلوغت کی دہلیز پر ہے اور جس کی زندگی میں ابھی زیادہ گناہ بھی نہیں لکھے گئے، وہ اس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے تضرع، توسل، توبہ، اور استغفار کرتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے؛ یعنی ہماری عمر کے افراد سے تو ایسی کیفیت، ایسی دعا اور ایسا توجہ ممکن ہی نہیں، جو اس پاک دل نوجوان سے ظاہر ہوتی ہے۔
یا مثال کے طور پر دیکھیں کہ وہ کس قدر اسلامی انقلاب کے مقدس نعروں کا احترام کرتے تھے۔ جیسے ابھی انہوں نے کہا کہ ایک شہید اپنی بیٹی کو وصیت کرتا ہے کہ سب سے پہلے اپنے بچے کو کوئی ایسا نعرہ سکھانا جو انقلاب اور اسلام سے متعلق ہو۔
ہمیں یہ سب محفوظ کرنا چاہیے، یہ سب ریکارڈ ہونا چاہیے، اور یہ سب لوگوں کو دکھایا جانا چاہیے۔ یہ سب ایک شہید کے نام پر گلی یا سڑک کا نام رکھ دینے سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ کام صرف ایک فنکارانہ عمل سے ممکن ہے۔ ان اخلاقیات اور ان اوصاف کو منتقل کرنے کا واحد ذریعہ فن ہے۔
آپ ایک فلم، ایک اچھی نظم، یا ایک خوبصورت مصوری کے ذریعے ایثار کو دکھا سکتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع کو ظاہر کر سکتے ہیں؛ ایک رزمندہ (مجاہد) کی غیرت کو بیان کر سکتے ہیں۔ یہ چیزیں قوم کے لیے سرمایہ ہیں۔ یہ ہر قوم کی دائمی اور لازمی ضرورت ہے۔
ہم منبر سے لوگوں کو تقویٰ، ایثار، توسل، دعا، اور استغفار کے بارے میں بتاتے ہیں؛ لیکن یہ صرف باتیں ہوتی ہیں۔ عمل اور بات میں بہت فرق ہے۔ شہداء نے عمل کیا؛ آپ اس عمل کو منعکس کریں، دکھائیں کہ انہوں نے کیسے عمل کیا، کیسے زندگی گزاری۔
ایک اور چیز جو میرے نزدیک بہت اہم ہے، اور جسے فنکارانہ عمل کے ذریعے بیان کیا جانا چاہیے، وہ شہداء کی ماؤں کا صبر ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ کوئی ماں اپنے بیٹے کو پالے، خونِ دل سے پروان چڑھائے، جوان کرے، اور پھر اللہ کی راہ میں اسے قربان کر دے؛ ایک، دو، تین، یا چار بیٹے۔ یہ سب باتوں میں آسان لگتا ہے، مگر عملی طور پر اور حقیقت میں یہ کیفیت ناقابلِ بیان ہے۔ اس قربانی کی اہمیت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن شہید کی ماں کے صبر کو دکھایا جا سکتا ہے؛ اس کی شکرگزاری کو دکھایا جا سکتا ہے؛ اس بڑے اور عظیم حادثے پر اس کا تحمل دکھایا جا سکتا ہے۔ یہ سب درس ہیں۔ اور یہ سب آپ کو فن کے ذریعے ہی دکھانا ہو گا۔
الحمدللہ، آپ کاشانی لوگ فن کے لحاظ سے بھی مالامال ہیں۔ آپ کے ہاں باصلاحیت فنکار موجود ہیں، جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ اور ان شاء اللہ، آپ یہ کام کریں گے اور آگے بڑھیں گے۔ کاشان کے عزیز عوام کو میرا سلام پہنچا دیں۔ ہم نے کاشان کو ہمیشہ علمائے کرام، شہداء اور فنکاروں کی سرزمین کے طور پر دیکھا اور جانا ہے۔
ہم دعاگو ہیں کہ ان شاء اللہ آپ ہمیشہ سرخرو رہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بلند مقام پائیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

۱ ۱) اس ملاقات کے آغاز میں، حجت‌الاسلام و المسلمین سید سعید حسینی (ولی فقیہ کے نمایندے، امام جمعہ کاشان، اور کانگریس کی پالیسی سازی کونسل کے سربراہ) اور سردار کریم اکبری قمصری (کاشان میں بسیج مزاحمت کے کمانڈر اور کانگریس کے سیکرٹری) نے کچھ نکات بیان کیے۔
۲) محترمہ کبریٰ حسین‌زاده (شہیدان بارفروش کی والدہ)
۳) جناب جواد منصوری (سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے پہلے کمانڈر)