ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

اکتالیسویں بین الاقوامی قرآن کریم مقابلے کے منتظمین اور شرکاء سے ملاقات میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم)۱(
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

میں بہت خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے ایک بار پھر یہ شیرین، محبوب اور عزیز قرآنی محفل اس حسینیہ میں منعقد کرنے کی توفیق عنایت فرمائی۔ میں جناب آقای خاموشی اور ادارہ اوقاف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ مقابلہ  منعقد کیا اور بحمداللہ، ملک بھر میں مختلف انداز میں مسلسل قرآن کریم کی ترویج کی۔ میں حضرت اباعبدالله الحسین (علیہ الصلوٰة والسلام) کی ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عطیم ہستی  اور ان کے  مکرم خاندان کے پیروکاروں میں شامل فرمائے۔
قرآن کریم کے بارے میں علما اور بزرگوں نے ہزاروں پُرمعنی اور شیرین نکات بیان کیے ہیں اور ابھی بھی ہزاروں نکات بیان کرنا باقی ہیں۔ ہم قرآن کے بارے میں جتنا بھی کہیں، اس مقدس آسمانی کتاب کی فضیلت اور قدر و قیمت کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتے۔ میں آج صرف ایک نکتہ بیان کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ ہمارے عزیز عوام اور اس بیان کے سامعین اس نکتہ پر توجہ دیں گے۔
وہ نکتہ یہ ہے کہ جب بھی ہم قرآن کی طرف رجوع کریں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ قرآن، پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے۔ قرآن معجزہ ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو ثابت کیا ہے۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ قرآن ایک دائمی معجزہ ہے۔ دوسرے انبیاء کے معجزات اپنی اپنی امتوں کے زمانے تک محدود تھے، اور صرف اسی دور کے لوگ ان معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو صرف اسی دور کے لوگوں نے دیکھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کو صرف اسی زمانے کے لوگوں نے دیکھا، باقی لوگوں نے صرف اس کا ذکر سنا۔ لیکن پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ یعنی قرآن، تاریخ کے ہر دور میں اور آنے والے ہزاروں سال تک لوگ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے۔ یہ معجزہ ہمیشہ سامنے رہے گا۔ قرآن کا یہ دائمی اعجاز اور نبوی معجزہ انسانیّت اور تمام عالم کے لیے ایک عظیم برکت ہے۔
قرآن کی ہر چیز معجزہ ہے؛ قرآن کے الفاظ معجزہ ہیں، قرآن کی ترتیب معجزہ ہے، قرآن کے مفاہیم معجزہ ہیں، قرآن کی خبریں—چاہے وہ ماضی کی ہوں یا مستقبل کی—معجزہ ہیں، قرآن کی بیان کردہ سنتیں اور قوانینِ فطرت معجزہ ہیں، قرآن کا انسان کے باطن کی بات کرنا معجزہ ہے؛ سب کچھ معجزہ ہے۔ ہمیں اس عظیم معجزے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر ہم قرآن سے فیض حاصل کریں تو انسانی زندگی سنور جائے گی اور تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ قرآن کے دروس انسان کے لیے عملی اور قابلِ تجربہ ہیں۔ یہ بات ان اعلیٰ معارف سے الگ ہے جو صرف بزرگان، اولیا اور مقربین کے لیے قابلِ دسترس ہوتے ہیں۔ ہمارا مقصد قرآن کی وہ ظاہر باتیں ہیں جو سب کے لیے قابلِ فہم ہیں، جیسے کہ:
"وَ لَقَد یَسَّرنَا القُرآنَ لِلذِّکرِ فَهَل مِن مُدَّکِر"  (ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے، تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟)۔)۲( یہ قرآن کی وہ باتیں ہیں جو ہر انسان کے لیے قابلِ استفادہ ہیں۔ ہمیں قرآن کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
میں ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ قرآن کی بیان کردہ تعلیم کا انداز سمجھ سکیں۔ مثلاً قرآن فرماتا ہے: "وَ مَن یَتَوَکَّل عَلَی اللهِ فَهُوَ حَسبُه" (جو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اس  کیلئے کافی ہے))۳(۔ یہ ایک بڑا اور کلی درس ہے، مگر اس پر غور و تدبر ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ "اگر ہم توکل کریں تو کسی اور وسیلے کی ضرورت نہیں" اس کا مطلب کیا ہے؟ کس حالت میں اور کس طریقے سے یہ قرآنی حقیقت اور وعدہ پورا ہوتا ہے؟ اس کا جواب بھی قرآن ہی سے لینا ہوگا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ پر توکل اور اس کے نتیجے میں اللہ کی کفایت کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک ذہنی (اعتقادی) شرط اور ایک عملی (حقیقی) شرط۔ اگر یہ دونوں شرطیں پوری ہوں تو پھر واقعی "فَهُوَ حَسبُه" یعنی اللہ کافی ہو جاتا ہے۔
پہلی شرط، ذہنی شرط ہے۔ ذہنی شرط کیا ہے؟ ذہنی شرط یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے وعدے کی صداقت پر کامل یقین ہو۔ قرآن کہتا ہے: "وَ مَن اَصدَقُ مِنَ اللهِ قیلاً" (اللہ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہو سکتا ہے؟))۴( یہ ایمان رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہمیشہ سچا اور یقینی ہے۔ اگر یہ یقین نہ ہو تو توکل پیدا ہی نہیں ہوگا۔ اسی لیے قرآن میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اللہ سے بدگمان ہوتے ہیں: "اَلظّانّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ ساءَت مَصیراً" (جو لوگ اللہ کے بارے میں بدگمانی رکھتے ہیں، ان پر برائیوں کا دائرہ ہے، اللہ کا غضب، لعنت اور جہنم ان کے لیے تیار ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے )۵(
لہٰذا، اللہ کے وعدے پر بدگمانی نہیں ہونی چاہیے۔ ایمان رکھنا چاہیے کہ جب اللہ فرماتا ہے: "وَ لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه" (اللہ ضرور مدد کرے گا اس کی جو اس کی مدد کرے گا )،)۶( تو یہ وعدہ بالکل سچا ہے۔ یہی شرط ذہنی ہے جو توکل کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔
اس جملے کو میں یہاں شامل کرنا چاہتا ہوں، جو میں نے نوٹ کیا ہے کہ اس ذہنی شرط میں ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے اذن سے محال ممکن ہو جاتا ہے؛ جو چیز ناممکن نظر آتی ہے، وہ ممکن ہو جاتی ہے؛ ہمیں اس پر یقین ہونا چاہیے۔ ہماری دنیا اور زندگی میں بہت سی چیزیں محالات میں شمار ہوتی ہیں؛ مثلاً مردے کو زندہ کرنا محالات میں سے ہے۔ لیکن یقین رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ اذن دے اور ارادہ فرمائے تو یہ محال ممکن ہو جائے گا، اور واقع ہو کر رہے گا۔ جیسے کہ خود قرآن میں ایک جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول سے اور ایک جگہ خود اللہ تعالیٰ کے قول سے یہ نقل ہوا ہے: "اَنّی اَخلُقُ لَکُم مِنَ الطّینِ کَهَیئَةِ الطَّیرِ فَاَنفُخُ فیها فَیَکونُ طَیراً بِاِذنِ الله" (میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے اذن سے پرندہ بن جاتا ہے) )۷( کیا یہ محالات میں سے نہیں؟ مگر اللہ کے اذن سے یہ محال ممکن ہو گیا۔ "و اُبرِئُ الاَکمَهَ وَ الاَبرَصَ وَ اُحییِ المَوتیٰ بِاِذنِ الله" (میں پیدایئشی اندھے اور کوڑھی کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو اللہ کے اذن سے زندہ کرتا ہوں)۔ )۸(ـ "اَکمَه" یعنی پیدایشی اندھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادرزاد اندھے کو بینا کر دیتے ہیں، مردے کو زندہ کر دیتے ہیں، اللہ کے اذن سے؛ یہ سب ممکن ہوتا ہے۔ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن سے دنیا کے تمام محالات اور وہ چیزیں جو ناممکن نظر آتی ہیں، حقیقت بن سکتی ہیں۔
اور یہ آیت دیکھئے: "کَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ " (کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے اذن سے بڑی جماعتوں پر غالب آ گئیں))۹( اذن خدا سے ایک تھوڑے سے لوگ بہت زیادہ لوگوں پر غلبہ پا لیتے ہیں۔ اذن خدا سے یہ ہوتا ہے۔ "فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ" (انہوں نے اللہ کے اذن سے ان کو شکست دی))۱۰( طالوت کے ساتھیوں کی ایک چھوٹی جماعت نے اللہ کے اذن سے ایک بڑی طاقتور فوج کو شکست دی۔ اسی طرح اللہ کے اذن سے غزہ، صہیونی حکومت اور امریکہ جیسے بڑے دشمن پر غالب آئے گا۔ کیا یہ محال نہیں تھا؟ اگر کوئی آپ سے کہتا کہ چھوٹا سا غزہ امریکہ جیسے بڑی فوجی طاقت سے ٹکرا کر اسے شکست دے گا، تو کیا آپ یقین کرتے؟ نہیں کرتے؛ یہ محال نظر آتا، مگر اللہ کے اذن سے یہ ممکن ہے۔ یہ ایک ذہنی شرط ہے؛ یعنی ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ دنیا کے تمام محالات اللہ کے اذن اور ارادے سے ممکن ہو سکتے ہیں۔
عملی شرط، عملی شرط یہ ہے کہ اس واقعے یا معجزے کے ظہور کے لیے، اللہ تعالیٰ انسان کو بھی ایک حصہ دیتا ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ ہم بس گھر بیٹھے رہیں اور کہیں: "کَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ" (کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے اذن سے بڑی جماعتوں پر غالب آ گئیں ( نہیں، اس میں ایک حصہ ہمارا بھی ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پرندہ بنانے کا عمل خود کرنا تھا؛ اگر وہ مٹی سے پرندہ نہ بناتے، تو پرندہ وجود میں نہ آتا۔ یہ حصہ ان کے ذمے تھا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ دیکھیں؛ اگر وہ اپنی لاٹھی زمین پر نہ ڈالتے تو معجزہ ظاہر نہ ہوتا: "وَ مَا تِلْكَ بِیَمِینِكَ یَا مُوسَىٰ قَالَ هِیَ عَصَايَ أَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَ أَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِی وَ لِیَ فِیهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ * قَالَ أَلْقِهَا یَا مُوسَىٰ * فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعَىٰ" (اور تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ؟ کہا: یہ میری لاٹھی ہے، اس پر میں سہارا لیتا ہوں، اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں، اور اس میں میرے لیے دوسری ضرورتیں بھی ہیں۔ فرمایا: اسے ڈال دو اے موسیٰ۔ پس انہوں نے ڈال دیا، تو وہ یکایک دوڑتا ہوا اژدہا بن گیا))۱۱( یہاں "أَلْقِهَا" (پھینکو) ضروری تھا؛ جب انہوں نے لاٹھی پھینکی، تبھی معجزہ رونما ہوا۔ یہ عملی حصہ تھا، جو حضرت موسیٰ کو ادا کرنا تھا۔ اگر وہ لاٹھی نہ پھینکتے تو چوب اژدہا نہ بنتی۔
اسی طرح قرآن مسلمانوں کو کہتا ہے: "إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ" (اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں گے))۱۲( یہ ابتدائی مسلمانوں کے لیے حکم تھا کہ اگرچہ تم کم ہو مگر صبر کے ساتھ کثرت پر غالب آ سکتے ہو۔ ہم ایرانی قوم، ہم امتِ مسلمہ، ہم انسانی معاشرہ، آج ایسی مشکلات سے دوچار ہیں جو بظاہر ناقابلِ حل نظر آتی ہیں۔ مگر حل یہی ہے: "وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ" (جو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے)  دو شرطوں کے ساتھ: یقین کہ اگر ہم میدان میں اتریں گے تو اللہ کی مدد ہمارے شاملِ حال ہوگی۔ عمل، ہمیں میدان میں اترنا ہوگا، اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔
جیسے قرآن نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں سے فرمایا: "فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ" (جب تم شہر میں داخل ہو جاؤ گے تو تم ہی غالب ہو گے) )۱۳(اگر وہ داخل نہ ہوتے، تو غالب بھی نہ ہوتے۔ اگر ہم اپنا حصہ ادا کریں تو اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔

آج ہم استکبار (تکبر و ظلم) کے مقابلے میں کھڑے ہیں؛ [البته] صرف ہم ایرانی قوم ہی نہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایرانی قوم میں یہ جرأت ہے کہ کھل کر کہے: امریکہ جارح ہے، امریکہ جھوٹا ہے، امریکہ دھوکے باز ہے، امریکہ متکبر ہے، اور "مرگ بر امریکہ" (امریکہ مردہ باد)۔ [جبکہ] دوسرے لوگ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ جھوٹا ہے، دھوکے باز ہے، استعماری ہے، جارح ہے، اور انسانی اصولوں کا پابند نہیں ہے، مگر ان میں ہمت نہیں کہ یہ بات زبان پر لائیں، ہمت نہیں کہ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔ تو پھر ٹھیک ہے، وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے؛ اور جب اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں تو نتیجہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، صبر کرنا چاہیے، جہاد اور کوشش کرنی چاہیے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔
ایرانی قوم نے گزشتہ چالیس برسوں میں صبر کیا، کوشش کی۔ دنیا کی تمام مستکبر قوتیں اس کے مقابلے میں صف بستہ ہو گئیں، اس کے خلاف کوششیں کیں، سازشیں کیں، مگر ایرانی قوم نے نہ صرف یہ کہ کوئی ضربت نہیں کھائی بلکہ آگے بڑھی، ترقی کی، اور ترقی یافتہ ہوئی۔ آج کا ایران چالیس سال پہلے والا ایران نہیں ہے؛ ہم نے ہر لحاظ سے ترقی کی ہے۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ معنوی اعتبار سے ترقی نہیں ہوئی؛ نہیں، معنویت میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن ہی کو دیکھ لیجیے: جب یہ بچے قرآن پڑھتے ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے، یہ قرآن کے حافظ اور تلاوت کرنے والے ہیں۔ ہمارے جوانی کے زمانے میں مشہد میں ہم بھی قرآن سے وابستہ تھے، ہم بھی قرآن کی محافل میں شریک ہوتے تھے، لیکن پورے مشہد میں وہ لوگ جو اچھے تجوید کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے تھے، حقیقت میں دس افراد سے بھی کم تھے۔ لیکن آج ہزاروں نوجوان پورے ملک میں بہترین تجوید کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں، ہزاروں حافظ قرآن موجود ہیں۔ آج ہمارا معنوی مقام بھی بلند ہوا ہے، اور ہمارا قرآنی شعور بھی، الحمدللہ، ترقی کر چکا ہے۔
مادی میدان میں بھی ہم نے ترقی کی ہے؛ ہمارے نوجوانوں نے مختلف شعبوں میں کارنامے انجام دیے ہیں، اور یہ پیشرفت جاری رہے گی۔ ایرانی قوم، ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ پر بھروسے کی برکت سے اپنے مطلوبہ عروج تک پہنچے گی۔

وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُهُ

 1۔ اس جلسے کے آغاز میں جو اکتالیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کی اختتامی تقریب کی مناسب سے منعقد ہوا، بعض قاریان قرآن کریم نے تلاوت کی  اور ایران کے ادارہ اوقاف کے سربراہ حجت الاسلام سید مہدی خاموشی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی۔
 2۔ منجلہ سورہ قمر، آیت نمبر 17 
 3۔ سورہ طلاق، آیت نمبر 3 
 4۔ سورہ نساء آیت نمبر 122 
5۔ سورہ فتح، آیت نمبر 6 
6۔ سورہ حج آیت نمبر 4-
7۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 110
8۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 49
 9۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 249
10۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 251
11۔ سورہ طہ آیات 17 الی 20 
12۔ سورہ انفال، آیت نمبر 65
13۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 23