بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین(1)
خوش آمدید، عزیز بھائیوں اور بہنوں۔ سب سے پہلے میں حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو حقیقتاً ایک عالمی اور انسانی عید ہے۔ عدالت کی بشارت، عدالت کے قیام کی امید، ہمیشہ سے انسانوں کی خواہش رہی ہے۔ تاریخ میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا جب لوگ عدالت کے منتظر نہ رہے ہوں، یا کسی منجی کی آرزو نہ کی ہو۔ یہ آرزو، شیعہ تعلیمات کے مطابق، ضرور پوری ہوگی، بلا شبہ۔ البتہ، شیعہ اور غیر شیعہ دونوں حضرت مهدی (علیہ السلام) کے ظہور پر یقین رکھتے ہیں، سب اس پر متفق ہیں، لیکن شیعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حضرت مهدی (علیہ السلام) کو ان کی خصوصیات، والد کا نام اور والدہ کا نام کے ساتھ پہچانتے ہیں؛ یہ ہماری خصوصیت ہے کہ ہم انکی کچھ خصوصیات جانتے ہیں۔ انشاء اللہ ہم سب کی آنکھیں اس عظیم شخصیت کی زیارت سے منور ہوں۔
اسی طرح میں ۲۲ بہمن [۱۱ فروری] انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ۲۲ بہمن ۱۱ فروری حقیقتاً ہمارے قوم اور تاریخ کے لیے ایک بہت بڑی عید ہے۔ جو کوئی بھی ایران کی انقلابی تحریک سے پہلے کی حالت اور شاہی دور کی حالت سے واقف ہو، وہ پورے دل سے تسلیم کرتا ہے کہ "انقلاب" ایران کے لیے ایک بہت بڑی اور تاریخی عید تھی؛ اور ہمارے لوگ اس عید کو اہمیت دیتے ہیں؛ دنیا کے کسی اور مقام پر آپ ایسا منظر نہیں دیکھیں گے۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے انقلاب آئے، مگر ایسا کوئی انقلاب نہیں کہ جس کے ۴۶ سال بعد بھی ہر سال اسی دن عوام ــ نہ کہ مسلح افواج، نہ کہ حکومتی ادارے ــ عوام کے مختلف طبقے، بچے، جوان، بوڑھے، کئی گھنٹوں کے لئے سڑکوں پر آئیں، خود کو ظاہر کریں، محبت کا اظہار کریں اور خوشی منائیں اور اس عید کو عزت دیں، یہ صرف اسلامی ایران میں ہے۔ ہم دنیا کے دیگر انقلابات کو جانتے ہیں، ان کے ماضی کو جانتے ہیں، ان کے نتائج اور اثرات کو دیکھتے ہیں، اور ان کے عوام اور قوموں کے ردعمل کو بھی مکمل طور پر سمجھتے ہیں۔ ایران میں جو حالت ہے، جہاں ۲۲ بہمن کو مرد، عورت، مختلف طبقے، بچے، جوان، بزرگ، گھنٹوں تک سڑکوں پر آ کر، سرد ہواؤں، برفباری اور سخت موسم میں، موسمی مشکلات کے باوجود جشن مناتے ہیں، یہ صرف ایران اسلامی میں ہے۔
اس سال کا انقلاب اسلامی کا جشن کی ممتاز ترین جشن انقلاب تھا ؛ یہ ایک اہم ترین دن تھا۔ لوگوں نے در حقیقت پیر کے دن قیام کیا وہ سڑکوں پر آئے، نعرے لگائے، بات کی اور میڈیا میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یہ پورے ملک میں ہوا، یہ ایک عوامی قیام تھا، ایک عظیم قومی تحریک تھی؛ دشمن کی میڈیا جنگ اور سافٹ وار کی بمباری کے سایہ میں ــ جووہ اس دن کے بارے میں، اور اس دن کے بانی یعنی ایرانی قوم اور امامِ عظیم کے بارے میں مسلسل پروپیگنڈا کر رہے تھے ــ لوگ اس تشہیراتی بمباری، میڈیا اور جنگ کے ماحول میں باہر نکلتے ہیں۔ جوانوں کا آنا دمکتے ہوئے چہرے، یہ صرف تہران اور بڑے بڑے شہروں تک نہیں، بلکہ گاؤں تک اس عظیم تحریک میں شامل ہوئےـ کچھ شہروں میں موسم ٹھنڈا تھا، مناسب نہیں تھا ــ یہ ایران کی قوم کا پیغامِ اتحاد تھا۔ حقیقتاً ایرانی قوم نے ایک بڑا کام کیا۔ ان بے وقوفانہ دھمکیوں کے مقابلے میں جو مسلسل ایرانی قوم کے خلاف چل رہی ہیں، ایرانی قوم نے اپنی شناخت، اپنی شخصیت، اپنی طاقت اور اپنی ثابت قدمی کو سب کے سامنے ظاہر کر دیا۔ اس عظیم عوامی تحریک کی تکمیل میں محترم صدر کی واضح اور رہنمائی کرنے والی باتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے عوام کی زبان سے دل کی بات کی اور جو کچھ کہنا ضروری تھا، وہ کہا۔ میں ہمیشہ اپنے مخاطبین سے، ان عزیز جوانوں کو جنہیں میں دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں، کہتا ہوں: کام کو بروقت کرنا چاہیے۔ ایرانی قوم نے پیر کے دن بروقت عمل کیا؛ وہ جب انہیں خود کو دکھانا تھا، تو انہوں نے دنیا کو دکھایا۔ اللہ کی رحمت ہو اس قوم پر! اور ان شاء اللہ ہم امید کرتے ہیں کہ اس بہادر، دانا اور باخبر قوم کا مستقبل دن بدن بہتر ہو۔
آج جو نمائش دیکھی، وہ ان بہترین نمائشوں میں سے ایک تھی جو میں نے کبھی دیکھی ہو۔ حقیقتاً میرے لئے یہ وقت جو ہم نے اس نمائش میں گزارا، بہت ہی خوشگوار اور اچھا تھا۔ یہ نمائش ان بڑی محنتوں کا حصہ تھی جو ملک کی دفاعی مسائل کے بارے میں ہو رہی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک اور دوسرے افراد جو دفاعی اداروں میں کام کر رہے ہیں ــ چاہے دفاعی صنعتوں میں ہوں یا دیگر اداروں میں ــ اس نمائش کے اعزازات میں شریک ہیں اور ان سب کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور ایرانی قوم کو ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ملک کی دفاع اور سلامتی کا معاملہ چھوٹا نہیں ہے۔
آج ہماری دفاعی طاقت مشہور ہے، آج ایران کی دفاعی طاقت کا پورا عالم میں نام ہے؛ ایران کے دوست اس دفاعی طاقت پر فخر کرتے ہیں اور ایران کے دشمن اس دفاعی طاقت سے ڈرتے ہیں؛ یہ کسی ملک کے لیے، کسی قوم کے لیے بہت اہم ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ ایک وقت تھا جب دنیا میں جابر تھے، طاقتور تھے ــ اور ابھی بھی ہیں ــ جب ہمیں دفاعی طاقت کی ضرورت تھی اور ہم اس کے لئے پیسہ بھی دوگنا یا کئی گنا دینے کے لیے تیار تھے، وہ صاف کہتے تھے: "نہیں بیچیں گے"! اور وہ اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے کہ وہ لوگ جو ہمیں بیچنے کے لیے تیار تھے، وہ بیچ سکیں۔ وہ کہتے تھے: "ایران کو نہیں بیچو"۔ آج وہی جابر ایران کو کہتے ہیں: "نہیں بیچو"! اس "نہیں بیچنے" سے "بیچو نہیں" تک کا فاصلہ بہت زیادہ ہے؛ ہمارے سائنسدانوں، ہمارے فعالوں، ہمارے محنت کشوں، ہمارے مہارت سے کام کرنے والے ہاتھوں، ہمارے نوجوانوں اور مردوں نے اس فاصلے کو پورا کیا۔ آج ہمارا دفاعی نظام بہت بہتر ہے؛ اور اس نمائش مین بھی ہم نے وہ سب دیکھا جو ہم نے سنا تھا، اس ۔ اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پابندیوں کے دوران ہوا۔ یہ ترقی وہی دورانیہ ہے جب ہم پابندیوں میں تھے؛ یعنی اس وقت جب ہمیں کچھ نہیں مل رہا تھا، اس "نہیں بیچنے" کے دورانیے میں، جب وہ ہمیں کچھ نہیں دینے کے لئے تیار تھے۔ آج بھی ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ "ایران کو کسی بھی اجزاء کے مل جانے کی اجازت نہ دیں"؛ لیکن ہمارے نوجوانوں نے یہاں بہتر چیزیں تیار کی ہیں۔ حالات الحمدللہ اچھے تھے، بہت خوشگوار تھے؛ میں آپ میں سے ہر ایک کا، آپ کے منیجرز کا، آپ کے ممتاز افراد کا، آپ کے عزیز اساتذہ اور سائنسدانوں کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں
میں چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ جو ترقی ہم آج کر رہے ہیں، اس نے ہماری دفاعی طاقت میں اضافہ کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ سمجھیں کہ اب الحمدللہ مسئلہ ختم ہوگیا؛ نہیں۔ کیونکہ ہم نے صفر سے شروع کیا تھا، اگرچہ بہت کام کیا گیا، بہت کوشش کی گئی، پھر بھی ابھی کئی معاملات میں ہم اگلی صفوں تک نہیں پہنچے ہیں؛ ہمیں اگلی صفوں تک پہنچنا ہوگا؛ کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے بدخواہ کچھ معاملات میں اگلی صفوں میں ہیں؛ اس لیے ہمیں اپنے آپ کو اپنے بدخواہوں کے سامنے دفاع کے قابل بنانا ہوگا، اور یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اگلی صفوں تک پہنچیں۔ قرآن نے ہمیں اس بارے میں ضروری سبق دیا ہے: وَأَعِدُّوا لَهُم مَا اسْتَطَعْتُمْ؛ یہ لفظ "مَا اسْتَطَعْتُمْ" بہت اہم ہے؛ یعنی جو کچھ بھی آپ کر سکتے ہیں؛ اتنا کریں، خود کو آمادہ کریں! اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں وہ حرکت جاری رکھنی چاہیے جو ہم نے چند سال پہلے شروع کی تھی اور اس کے نتائج کو مختلف مواقع پر دیکھا ہے ــ کچھ وزیر محترم نے ذکر کیے، کچھ ہم نے وہاں نمائش میں دیکھا اور سنا ــ یہ سب ہمیں بڑھانا ہوگا؛ یہ جاری رہنا چاہیے۔ یہ پہلا نکتہ۔ اس لیے ترقی کو رکنا نہین چاہیئے ہمین اطمینان سے بیٹھنا نہیں چاہیئے ۔ ایک دن، مثلاً فرض کریں، ہم نے میزائل کی دقت کے بارے میں ایک حد مقرر کی تھی، اب ہمیں لگتا ہے کہ یہ حد کافی نہیں ہے؛ یہ کافی نہیں ہے! ہمیں آگے بڑھنا چاہیے! یہ پہلا نکتہ: ترقی جاری رہنی چاہیے۔
دوسرا نکتہ: اگر آپ چاہتے ہیں کہ ترقی جاری رہے، تو آپ کو جدید چیزین ایجاد کرنے کو اپنا محور بنانا چاہیے؛ آپ کو نئی اور جدید چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ موجودہ طریقوں پر انحسار نہیں کرنا چاہیئے۔ ایجاد کرنا نئی چیز بنانا اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ جدت ضروری ہے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ ہم یہ صلاحیت حاصل کر لیں کہ جو دوسرے لوگوں نے بنایا ہے، ہم بھی اسے بنا لیں یا بہتر کر لیں یا تھوڑا بہت جدید بنا لیں؛ یہ کافی نہیں ہے۔ آپ کو وہ کام کرنا ہوگا جو دوسروں نے نہیں کیا، جو دوسروں نے نہیں کیا۔ مادی دنیا میں بہت ساری چیزیں ہیں، بہت ساری صلاحیتیں ہیں جو ہم نہیں جانتے۔ ایک وقت تھا جب لوگ برقی طاقت کو نہیں جانتے تھے؛ یہ فطرت میں ہمیشہ سے موجود تھا؛ انسان اسے نہیں جانتا تھا، پھر اس کا انکشاف ہوا۔ فطرت میں اس طرح کی اربوں توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں۔ آپ ترقیات کو دیکھ سکتے ہیں؛ وہ روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ ایک دن انٹرنیٹ نہیں تھا، پھر وہ آ گیا؛ اور پھر اس کے مختلف اضافی خصوصیات آ گئیں؛ ایک دن آرٹیفیشل انتیلیجنس نہیں تھی،پھر سامنے آگئی؛ یہ سب حقیقتیں ہیں۔ کچھ لوگ کسی چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، ان کے ذہن میں ایک آیڈیا آتا ہے، وہ اس پر کام کرتے ہیں، وہ نتائج حاصل کرتے ہیں؛ آپ کو بھی یہی کرنا ہوگا؛ جدت یہی ہے۔ جدت پچھلے کاموں کی تکمیل سے مختلف ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ صحیح معنوں میں ترقی ہو، تو آپ کو جدت دکھانی ہوگی۔ یہ دوسرا نکتہ۔
یقیناً اس میدان میں نوجوان، مومن، انقلابی، باصلاحیت، قابل افراد کو کام میں لگانا چاہیے؛ نوجوان طاقت رکھتے ہیں، ذہانت رکھتے ہیں؛ "مومن" مین اس لیے کہتا ہوں کہ ایمان انسان کو طاقت و توانائی دیتا ہے، انسان کو سیدھی راہ پر قائم رکھتا ہے اور "انقلابی" اس لئے کہتا ہوں ، کیونکہ اسے اس عظیم تبدیلی پر یقین رکھنا چاہیے؛ وہ سیاسی اور سماجی تبدیلی جو انقلاب کی بدولت ہمارے ملک میں آئی۔ یہی لوگ جدت لا سکتے ہیں۔
تیسرا نکتہ؛ عسکری تحقیقاتی کاموں میں ملک کی دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھیں؛ یعنی مقصد، دفاعی ضروریات کی تکمیل ہونا چاہیے، خلاء کو پُر کرنا چاہیے؛ کیوں میں یہ کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ بعض یونیورسٹیوں میں استاد اور محقق کا دھیان صرف مقالہ لکھنے اور شائع کرنے پر ہوتا ہے؛ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ مقالہ ہمارے ملک کے کس خلاء کو پُر کرتا ہے۔ کبھی کبھار یہ مقالہ لکھا دیا جاتا ہے، اور دوسرے لوگ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں؛ جیسے یہ دوسرے ممالک کے لیے لکھا گیا ہو۔ فوجی تحقیقاتی مراکز میں یہ دھیان رکھا جائے کہ یہ مشکل نہ ہو۔ بس ہمیں دیکھنا ہے کہ ہماری ضروریات کہاں ہیں، ہماری دفاعی ضروریات کہاں ہیں، اس پر کام کیا جائے، اس پر دقت سے تحقیق کی جائے۔
جو کچھ آپ کے پاس آج موجود ہے، یہ اچھا دماغ، یہ تحقیق کی صلاحیت، یہ تخلیق اور اختراع کی صلاحیت، یہ اللہ کی نعمت ہے؛ ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں ما بِنا مِن نِعمَةٍ فَمِنکَ لا اِلٰهَ اِلّا اَنت.(۳) ۔ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں؛ ان کا شکر کریں۔ ان نعمتوں کا شکر صرف قلبی اور زبانی شکر کے ساتھ نہیں بلکہ ان صلاحیتوں کو عملی طور پر بروئے کار لانا بھی ہے، جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہیں۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
1۔ اس جلسے کے شروع میں وزیر دفاع بریگیڈیئر عزیز نصیرزادہ نے رپورٹ پیش کی۔ اس سے پہلے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتدار 1403 نمائش کا معائنہ کیا جس میں ملک کی دفاعی صنعت کے ماہرین اور سائنسدانوں کی تیار کردہ جدید ترین مصنوعات رکھی گئی تھیں۔
2۔ سورہ انفال، آیت نمبر 60
3۔ مصباح المتھجد وسلاح المتعبّد جلد 1 صفحہ 75