ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نمازِ عید الفظر کے خطبوں میں عوام سے خطاب

خطبہ اول
بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)
الحمد لله ربّ العالمین. الحمد لله الّذی خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّهم یعدلون. احمده و استعینه و استنصره و اطلب منه التّوفیق و استغفره و اتوب الیه و اصلّی و اسلّم علی حبیبه و نجبیه سیّد خلقه سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام معزز حاضرینِ نماز کو، پوری ملتِ ایران کو، تمام امتِ اسلامیہ کو؛ اسی طرح نوروز، نئے سال اور بارہ فروردین، یعنی یومِ جمہوری اسلامی ایران کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو کہ ملتِ ایران کیلئے ایک عظیم عید ہے۔

اس سال بھی ماہِ رمضان اختتام پذیر ہوا اور ہماری عزیز ملت نے، بحمدالله، اس الٰہی اور قیمتی تجربے کو بخوبی گزارا۔ ماہِ رمضان ایک توحیدی مظہر ہے؛ یعنی دلوں اور انسانوں کو خداوندِ متعال کے قریب کرتا ہے۔ ماہِ رمضان قربِ الٰہی کی سرزمین ہے، روحانی زندگی کیلئے تجدیدِ عہد ہے؛ یعنی خداوندِ متعال نے ماہِ رمضان کے روزے کو مشروع قرار دے کر، مجھے اور آپ کو ایک موقع عطا فرمایا ہے کہ ہم سال بھر میں ایک مکمل مہینہ ایسا پائیں جس میں ہم اپنے دلوں کو دھو سکیں، خود کو پاکیزہ کریں، اور اگر ممکن ہو، تو اپنے آپ کو ناپاکیوں سے نکال کر توحیدی بنا سکیں۔ ماہِ رمضان کے روزے، قرآن سے انس، لیلۃ القدر، توسلات، تضرعات اور دعائیں، یہ سب انسان سازی کے اسباب ہیں۔ ماہِ رمضان حقاً و انصافاً خداوندِ متعال کی ایک عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ جو کوئی بھی جس حد تک ماہِ رمضان کے آداب کی رعایت کرے گا، اسی قدر اس کا دل، اس کی جان اور اس کا باطن سنورے گا، توحیدی بنے گا۔ خداوند فرماتا ہے: لَعَلَّکُم تَتَّقون؛ یہ ماہِ رمضان تقویٰ کے لیے ہے، انسان کے دل و جان کے متقی ہونے کے لیے ہے۔

اس سال، بحمدالله، ہم نے ایک بے مثال اور معنویت سے بھرپور ماہِ رمضان گزارا؛ اس ماہِ رمضان میں قرآن کی ترویج، واضح طور پر محسوس کی گئی؛ تلاوتِ قرآن، پاروں کی تلاوت، آیات میں تدبر؛ انفاق کا رواج، افطار کی محفلیں مساجد میں، حرموں میں، سڑکوں پر، عوامی مقامات پر؛ دعاؤں کی محفلوں میں بھرپور شرکت، پُرجوش شرکت، ازدحام کے ساتھ شرکت ــ خصوصاً نوجوانوں کی ــ دعاؤں، مناجات، تضرع اور توسّل کی مجالس میں اس سال کے ماہِ رمضان میں، بحمدالله، واضح طور پر محسوس کی گئی؛ تمام طبقات، ہر ظاہری شکل و صورت والے افراد ان محفلوں میں شریک ہوئے، فائدہ اٹھایا، دعا کی، خدا سے راز و نیاز کیا، خدا سے مانگا، خدا پر توکل کیا، بہت کچھ حاصل کیا؛
"هَنیئاً لأربابِ النّعیمِ نَعیمُهُم"؛ وہ لوگ جنہوں نے فائدہ اٹھایا، ان‌شاءالله اس ماہِ رمضان کے ماحصل سے پورے سال استفادہ کریں، دل کو پاکیزہ رکھیں، اور آئندہ ماہِ رمضان تک اس معنویت کو محفوظ رکھیں، تاکہ ان‌شاءالله اگلا ماہِ رمضان ایک درجہ اوپر اور بہتر ثابت ہو۔

ماہِ رمضان کا اختتام بھی ایک پُرجوش اور بامعنی ریلی پر ہوا؛ ملتِ ایران نے ماہِ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک عظیم تحریک انجام دی، اور اس عظیم عوامی اجتماع سے بہت سے پیغامات دنیا تک پہنچے؛ جنہیں سمجھنا چاہیے، جنہیں ملتِ ایران کو پہچاننا چاہیے، انہوں نے آپ معزز عوام کے اس عظیم اجتماع سے، تہران میں، مختلف بڑے اور چھوٹے شہروں میں، بہت سے پیغامات حاصل کیے، اور عوام نے یہ پیغام پہنچا دیا اور ایک نہایت اہم کام انجام پایا۔ قلبی رشد، سیاسی کوشش، اور ایمانی حرکت، یہ سب اس گزرے ہوئے ماہِ رمضان کا ثمر تھا؛ ہمیں چاہیے کہ اسے محفوظ رکھیں۔

آج عید کا دن ہے؛ اس بابرکت دن میں خداوندِ متعال سے دعا کریں کہ وہ آپ کی مدد فرمائے تاکہ ان‌شاءالله آپ ان قیمتی نتائج کو اپنے لیے، اپنے ملک کے لیے، اور اپنے مستقبل کے لیے محفوظ رکھ سکیں۔

بِسمِ‌اللهِ‌الرَّحمنِ‌الرَّحیمِ قُل هُوَ اللهُ اَحَدٌ  اَللهُ الصَّمَدُ  لَم یَلِد وَلَم یولَد  وَ لَم یَکُن لَهُ کُفُوًا اَحَدٌ (4)

خطبہ دوم
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما علیّ امیرالمؤمنین و الصّدّیقة الطّاهرة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علیّ‌بن‌الحسین زین‌العابدین و محمّدبن‌علیّ باقر علم الاوّلین و الآخرین و جعفر‌بن‌محمّد الصّادق و موسی‌بن‌جعفر الکاظم و علیّ‌بن‌موسی‌ الرّضا و محمّد‌بن‌علیّ الجواد و علیّ‌بن‌محمّد الهادی و الحسن‌بن‌علیّ الزّکیّ العسکریّ و الحجّة القائم المهدیّ صلوات الله علیهم اجمعین و السّلام علی ائمّة المؤمنین و هداة المستضعفین.

اس خطبۂ دوم میں، میں اس گزرے ہوئے ماہِ رمضان کے ایک اور پہلو کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ملتِ ایران اور دیگر امتیں ماہِ رمضان کی شیرینیوں کا مزہ چکھ چکی ہیں، لیکن اس ماہِ رمضان کی تلخی نے بھی دنیائے اسلام کے تمام روزہ داروں کا مزہ خراب کر دیا، اور وہ تلخی غزہ، لبنان اور فلسطین کے خونریز واقعات کی صورت میں تھی۔ ایک بار پھر نسل کشی، ایک بار پھر بچوں کا قتلِ عام، ایک بار پھر امریکہ کی جانب سے غاصب، فاسد صہیونی حکومت کی شرارتوں کی حمایت، ایک بار پھر ان قاتلوں اور دہشتگردوں کے گروہ کی امداد، جو آج فلسطین پر قابض ہیں اور فلسطین اور اس کے عوام پر حکومت کر رہے ہیں؛ ان کی مدد کی گئی، ان کی حمایت کی گئی۔

آپ نے مغربی سیاسی بیانات میں بارہا سنا ہوگا کہ وہ پراکسی قوتوں کا ذکر کرتے ہیں؛ وہ اس علاقے کی شجاع ملتوں اور غیور نوجوانوں کو پراکسی قرار دیتے ہیں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس خطے میں صرف ایک پراکسی قوت موجود ہے، اور وہ غاصب، فاسد صہیونی حکومت ہے۔ صہیونی حکومت استعماری قوتوں کی نیابت میں آگ بھڑکاتی ہے، نسل کشی کرتی ہے، جرائم کا ارتکاب کرتی ہے؛ اگر اس کا بس چلے تو دوسرے ممالک پر بھی حملہ کرتی رہے، جیسا کہ آج وہ شام پر حملہ آور ہے۔ شام کی سرزمین میں داخل ہو چکی ہے اور دمشق کے چند کلومیٹر تک پہنچ چکی ہے؛ یہ سب کچھ وہ استعمار کی نیابت میں انجام دے رہی ہے؛ وہی استعمار جو جنگِ عظیم کے بعد اس علاقے پر قابض ہوا اور اسے اس صورت میں ڈھالا؛ اب صہیونی حکومت ان کے کاموں کو آگے بڑھا رہی ہے اور انہیں مکمل کر رہی ہے۔

استعماری قوتوں کے بیانات میں ــ وہی لوگ جو اپنے پیسوں اور میڈیا کے ذریعے دنیا پر اور ملکوں پر حکومت کرتے ہیں ــ دہشتگردی کو جرم سمجھا جاتا ہے اور دہشتگردی کو جرم کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، لیکن جب یہی دہشتگردانہ اقدامات اس خبیث، مجرم حکومت کی طرف سے ہوں، تو یہ بالکل جائز اور مباح قرار دیے جاتے ہیں! اگر دوسرے لوگ اپنے حق کا بھی دفاع کریں، اپنی سرزمین کا بھی دفاع کریں، تو انہیں دہشتگرد کہہ دیا جاتا ہے؛ لیکن خبیث صہیونی حکومت علانیہ نسل کشی کرتی ہے، بچوں کا قتلِ عام کرتی ہے، بڑی تعداد میں لوگوں کو نشانہ بناتی ہے، مخصوص افراد کو قتل کرتی ہے اور اقرار بھی کرتی ہے کہ ہم نے قتل کیا، لیکن مغربی استعماری قوتیں آنکھیں بند کر لیتی ہیں، ان پر مسکراتی ہیں، ان کی مدد کرتی ہیں، ان کی حمایت کرتی ہیں۔ کئی سالوں سے، ان شہروں اور دیہاتوں میں اجتماعی قتلِ عام کے علاوہ ــ جو صہیونی حکومت نے شروع سے کیا اور آج تک جاری ہے ــ ان کا ایک عمومی طریقہ کار شخصیات کا قتل ہے، افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہے؛ "ابوجہاد" (5) کو تیونس میں قتل کرتے ہیں، "فتحی شقاقی"(6) کو قبرص میں قتل کرتے ہیں، "احمد یاسین"(7) کو غزہ میں قتل کرتے ہیں، "عماد مغنیہ"(8) کو شام میں قتل کرتے ہیں، بڑی تعداد میں عراقی سائنسدانوں کو بغداد میں قتل کرتے ہیں ــ اس کے بعد کہ بیس سال قبل امریکہ عراق میں داخل ہوا ــ ایٹمی سائنسدانوں کو تہران میں شہید کرتے ہیں؛ ان کا عمل، ان کی حرکت، سراسر واضح دہشتگردی ہے اور امریکہ ان کی حمایت کرتا ہے، کچھ مغربی حکومتیں ان کی حمایت کرتی ہیں، باقی یہ سب دیکھتے رہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ حالیہ مدت میں، دو سال سے بھی کم وقت میں، صہیونی حکومت نے تقریباً بیس ہزار بچوں کو شہید کیا اور ان کے والدین کو سوگوار کر دیا، لیکن وہ لوگ جو انسانی حقوق کے نعرے لگاتے ہیں، تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ دنیا کی قومیں غصے میں ہیں، ناراض ہیں، جتنا انہیں معلوم ہے؛ دنیا کی قوموں کو بہت سے واقعات اور جرائم کی خبر ہی نہیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ یورپ اور حتیٰ کہ امریکہ کی سڑکوں پر صہیونی حکومت کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں، یہ ان کی محدود معلومات کا نتیجہ ہے؛ اگر ان کے پاس زیادہ معلومات ہوتیں تو وہ اس سے بھی زیادہ اعتراض کرتے۔

ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مجرم گروہ کو فلسطین سے جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے اور ان شاء الله، اللہ کی قدرت اور توفیق سے، جڑ سے اکھاڑا جائے گا۔ اس راہ میں کوشش کرنا اور اس مقصد کے لیے کام کرنا ایک فریضہ ہے؛ یہ دینی فریضہ ہے، اخلاقی فریضہ ہے، انسانی فریضہ ہے۔ ہر ایک پر لازم ہے کہ اس راہ میں کوشش کرے، محنت کرے، تاکہ اس خبیث، مجرم وجود کو اس خطے سے ختم کیا جا سکے۔

سب کو معلوم ہونا چاہیے! ہمارے مؤقف وہی ہیں جو پہلے تھے، امریکہ اور صہیونی حکومت کی دشمنی بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ وہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ وہ شرارت کریں گے۔ البتہ ہمیں زیادہ توقع نہیں ہے اور اسکا زیادہ امکان نہیں کہ بیرونی شرارت ہو، لیکن اگر کوئی شرارت ہوئی، تو یقینی طور پر انہیں زوردار اور بھرپور جواب ملے گا۔ اور اگر وہ یہ سوچیں کہ ملک کے اندر فتنہ برپا کریں، جیسے کہ بعض گذشتہ برسوں میں کیا، تو ان کا جواب خود ملتِ ایران دے گی، جیسے کہ ماضی میں دے چکی ہے۔ خداوند آپ کو کامیاب اور مؤید فرمائے۔

بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ * وَ العَصرِ * اِنَّ الاِنسانَ لَفی خُسرٍ * اِلَّا الَّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ (9)

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و‌ برکاته

  1. یہ خطبات تہران کے مصلّٰائے امام خمینی دینی و ثقافتی کامپلیکس میں دئے گئے۔
  2. سورہ بقره، آیت 183 کا ایک حصہ
  3. "یہ نعمت نعمت والوں کے لیے خوشگوار ہو۔"
  4. سورہ اخلاص: (بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ (اللہ) ایک ہے۔ اللہ (ساری کائنات سے) بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔)
  5. ابو جہاد: فلسطینی تحریک "فتح" کے بانیوں میں سے، جو فروردین 1367 (اپریل 1988) میں صیہونی حکومت کے ایجنٹوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
  6. فتحی شقاقی: فلسطینی تحریک "جہاد اسلامی" کے سیکرٹری جنرل، جو آبان 1374 (نومبر 1995) میں شہید کیے گئے۔
  7. شیخ احمد یاسین: فلسطینی مزاحمتی تحریک "حماس" کے بانی، جو فروردین 1383 (مارچ 2004) میں شہید ہوئے۔
  8. عماد مغنیہ: لبنان کی تحریک حزب اللہ کے ایک عالی رتبہ کمانڈر، جو بهمن 1386 (فروری 2008) میں شہید ہوئے۔
  9. سورہ عصر: _(بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قسم ہے زمانے کی! یقینا (ہر) انسان گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی نصیحت کی۔)