ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نئے سال کے پہلے دن مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ‌ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
بہت خوش آمدید، اور ان‌شاءالله یہ سال کا آغاز آپ سب کے لیے اور تمام ملتِ ایران کے لیے خیر و برکت کا پیغام لے کر آئے۔ اس سال نوروز اور آغازِ سال، متبرک ایّام و لیالی کے ساتھ تقارن کی وجہ سے زیادہ روحانی فضا اختیار کر چکا ہے۔ البتہ ہمیں یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر سال ایرانی عوام نوروز کے موقع پر ایک روحانی نگاہ رکھتے ہیں، اور خدائے وحدہ لاشریک کی جانب توجہ اور توسّل کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں؛ اسی لیے ہمیشہ سالِ نو کا آغاز دعا سے کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو سالہا سال نوروز پر سفر کرتے ہیں، اکثر متبرک مقامات کی طرف جاتے ہیں۔ اس سال آپ نے مشاہدہ کیا کہ تحویلِ سال کے لمحے پر مشہدِ مقدس میں حرم مطہر کے صحنِ میں کس قدر عظیم اجتماع تھا؛ یا اس سے ایک شب قبل، تہران کے بہشتِ زہرا میں کس قدر لوگ جمع تھے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ایرانی عزیز، یہاں تک کہ نوروز کو بھی ایک روحانی عید شمار کرتے ہیں اور خدای متعال کی جانب توجہ اور توسّل کے ساتھ اپنے سال کا آغاز کرتے ہیں۔ ہمیں خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ دشمنوں کی زہریلی اور مسموم تبلیغات، جن کا مقصد ملتِ ایران کو روحانیت سے جدا کرنا تھا، ناکام رہی ہیں، اور ہماری ملت، معنویت، توجہ، توحید اور ائمہ (علیہم السلام) کی جانب توسّل کے ساتھ پہلے سے زیادہ قریب ہو گئی ہے؛ اور ان کی ارادت، محبت، اور خلوص میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ ایام امیرالمؤمنین (علیہ الصّلاة و السّلام) سے منسوب ہیں؛ اور یہ بھی ہمارے لیے ایک درس ہے۔ امیرالمؤمنین، عدالت کی چوٹی، تقویٰ کی چوٹی، گذشت کی چوٹی ہیں، پوری تاریخ میں۔ اگر ملتِ ایران اور مسلمان اقوام اس عظیم انسان، اور نبی اکرمؐ کے بعد افضل البشر کے درس سے استفادہ کرنا چاہیں تو انہیں نہج البلاغہ کی طرف زیادہ رجوع کرنا ہوگا۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ اس سال ثقافتی میدان کے فعال افراد نہج البلاغہ کے مطالعہ اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔

جو چیز میں سب کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان شبوں میں دعا اور تضرع کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آنے والی شب، شبِ اکیسویں ہے، پھر اس کے بعد شبِ تئیسویں؛ یہ مواقع ہیں، قیمتی ہیں؛ ان شبوں کا ہر ایک گھنٹہ ہمارے لیے ایک عمر کے برابر قیمت رکھتا ہے۔ آپ ــ خصوصاً نوجوانوں، ہاں، خصوصاً نوجوانوں ــ ایک توجہ، ایک دعا، ایک اخلاص کے ساتھ اپنی زندگی کی تقدیر بلکہ ایک ملت کی تقدیر کو بدل سکتے ہیں؛ ایک دعا کے ذریعے۔ خدای متعال نے وعدہ فرمایا ہے: «وَ إِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَريبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجيبُوا لِي وَ لْيُؤْمِنُوا بِي»؛(1) خدای متعال فرماتا ہے کہ میں نزدیک ہوں، سنتا ہوں، جواب دیتا ہوں۔ «وَ لْيُؤْمِنُوا بِي» یعنی یقین کرو۔ اس پر یقین کرو، جان لو کہ تمہاری دعا، تمہاری درخواست، تمہارا تضرع خدای متعال کی طرف سے سُنا جاتا ہے اور جواب دیا جاتا ہے، بشرطیکہ ہم خود اپنے لیے رکاوٹیں پیدا نہ کریں۔ یہ دعا کامیابی کا وسیلہ ہے، صرف اُخروی امور اور برزخ و قیامت کے لیے نہیں، بلکہ تمہاری دنیا کے لیے، تمہاری ذاتی زندگی کے لیے بھی؛ حتیٰ کہ بڑی بڑی جدوجہدوں اور عظیم کاموں میں دعا کارگر ہے، دعا سبب ہے، وسیلہ ہے؛ اور یہ وسیلہ خدا نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے؛ جیسے توسّل ائمہ (علیہم السلام) کی طرف۔ ائمہ، خلفاء اللہ ہیں، قدرتِ الٰہی کے مظہر ہیں، علمِ الٰہی کے مظہر ہیں؛ ہم ان سے مانگتے ہیں؛ جو امر خدای متعال نے اپنے صالح بندوں کے سپرد کیا ہے، جو وہ انجام دیتے ہیں، جو مدد وہ کرتے ہیں، درحقیقت وہ مدد خدا کی طرف سے ہے؛ «وَ ما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَ لكِنَّ اللَّهَ رَمىٰ»۔(2) اولیاء اللہ اور ائمۂ ہدیٰ (علیہم السلام) سے توسّل اور خدا کے حضور تضرع ہمارے لوگوں کے اختیار میں ہے؛ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔

خدا کے پیغمبر، اپنی بڑی مشکلات میں توسّل کیا کرتے تھے اور دعا کرتے تھے۔ قرآن نقل کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی فرعون سے جدوجہد میں شدت کے وقت، [یوں کہا]: «رَبَّنا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَأَهُ زِينَةً وَ أَمْوالاً ... رَبَّنا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِم»؛(3) وہ دعا کرتے ہیں اور فرعون پر غالب آنے کے لیے خدای متعال سے مدد مانگتے ہیں۔ خدای متعال بھی جواب میں فرماتا ہے: «قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيما»؛(4) تم نے دعا کی، خدای متعال سے مانگا کہ تم فرعون کے ساتھ مقابلے میں کامیاب ہو جاؤ، یہ مانگا، بہت خوب، «قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا»؛ تمہاری دعا قبول ہوئی، «فَاسْتَقِيما»؛ استقامت اختیار کرو، مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ، ثابت قدم رہو، اُمید رکھو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس خدائی ہدایت اور امر پر عمل کیا اور خون کی تلوار سے لڑ کر خون کو تلوار پر غالب کر دیا۔ ملتِ ایران کی جدوجہد بھی یہی تھی ــ توسّل، دعا، توجہ، استقامت، اور پائداری کے ساتھ ــ اور ان‌شاءالله یہی رہے گی۔

البتہ، محاذِ حق ان مجاہدتوں میں قیمت بھی ادا کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس نکتہ پر تاکید کروں؛ سن  ۱۴۰۳ کے واقعات ــ گذشتہ سال ــ کو اس نگاہ سے دیکھیں۔ حق اور باطل کی جدوجہد میں، فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، لیکن محاذِ حق قیمت بھی چکاتا ہے۔ آٹھ سالہ تحمیل شدہ جنگ میں، ایک طرف ہم تھے، اور دوسری طرف صدّام کے پیچھے ایک عالمی اتحاد! جنگ آٹھ سال تک جاری رہی، آٹھ سال کے بعد ساری دنیا نے تسلیم کیا کہ ایران ــ تنہا ایران، بےسروسامان ایران ــ دشمن پر غالب آ گیا؛ یہ سب نے احساس کیا، سب نے کہا، سب نے تصدیق کی؛ لیکن ہم نے اس فتح میں شہید ہمت جیسوں کو قربان کیا، باکری جیسے، خرّازی جیسے، چمران جیسے افراد کو کھو دیا؛ یہ نقصان ہے، یہ قیمت ہے، لیکن یہ سب حتمی فتح کے راستے میں ہے۔ گذشتہ سال کے واقعات میں، ہم نے عظیم شخصیات کو کھویا؛ ایرانی اور لبنانی قیمتی شخصیات ہم سے جدا ہو گئیں؛ یہ سب ہمارے لیے مصیبتیں تھیں، جیسے حضرت موسیٰ کی داستان؛ وہاں بھی ایسا ہی تھا۔ حضرت موسیٰ جب مصر آئے، ان کی زندگی آرام دہ اور سہل نہیں تھی؛ وہ خود اور بنی‌اسرائیل سخت ترین حالات میں تھے: «قالُوا أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا»؛(5) بنی‌اسرائیل حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہم اذیت میں تھے، اور اب بھی ہم اذیت میں ہیں! حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا: «قالَ مُوسى‌ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَ اصْبِرُوا»؛(6) خدا سے مدد مانگو، صبر کرو، استقامت اختیار کرو، حالات درست ہو جائیں گے؛ اور درست ہوئے۔ وہی لوگ جو شکایت کر رہے تھے کہ ہم اذیت میں ہیں، انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فرعون اور اس کے پیروکار ذلت کے ساتھ پانی میں غرق ہوئے، نابود ہوئے، اور ان کی طاقت و سلطنت کا کوئی نشان باقی نہ رہا؛ صرف ان کے جسم باقی رہ گئے، عبرت کے لیے۔ انہی نگاہوں سے ان مشکلات کو دیکھو، ان دشواریوں کو، جو پیش آتی ہیں۔ صرف جدوجہد کے میدان میں نہیں؛ ہم نے گذشتہ سال ــ سن ۱۴۰۳ ــ قدرتی طور پر تلخ واقعات بھی دیکھے۔ طبس کے ایک کان میں، پچاس سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؛(7) یہ سب دردناک حادثات ہیں۔ حضرت موسیٰ کا جواب یہی ہے: «اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَ اصْبِرُوا»؛ خدای متعال سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ شک نہ کرو کہ ان استقامتوں کا نتیجہ دشمن کی شکست ہے، خبیث، فاسق، فاسد صہیونی حکومت کی شکست ہے۔

ایک اہم نکتہ جو میں نے کل نئے سال کے پہلے پیغام میں ملت ایران سے عرض کیا تھا(۸) اور جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ سن ۱۴۰۳ ہجری شمسی کے ان تلخ واقعات میں ملت ایران کی روحانی طاقت ظاہر ہوگئی؛ ملت ایران کا صبر، ملت ایران کی استقامت، ملت ایران کی شجاعت، ملت ایران کی دلیری نمایاں ہوگئی۔ اقوام، ایسے واقعے کے سامنے، جیسے کہ اپنے صدرِ مملکت اور چند اہم حکومتی شخصیات کی شہادت، کمزور ہو جاتی ہیں؛ لیکن ملت ایران نے اس واقعے کا ردعمل اس عظیم اور حماسی الوداع میں دکھایا؛ یعنی اپنے محبوب صدرِ مملکت(۹) کے جنازے میں عوام کی شاندار موجودگی۔ یا پھر جمعہ نصر(۱۰) کی نماز میں، جس پر دنیا حیران رہ گئی؛ پورے ملک میں وہ تاریخی نماز جمعہ منعقد ہوئی، عوام شریک ہوئے۔ دشمن دھمکیاں دے رہا تھا، چاہتا تھا کہ ملت کو خوفزدہ کرے؛ لیکن ملت سینہ تان کر میدان میں آئی؛ ایسے نایاب اجتماعات۔ یا پھر صدارتی انتخابات میں،(۱۱) عوام کا جوش و خروش اور آمادگی اس بات کے لیے کہ ملک کا کام معطل نہ ہونے پائے؛ انتخابات میں حصہ لیا اور پچاس دن کے اندر نیا صدرِ مملکت منتخب کیا، حکومت تشکیل دی۔ شہید ہنیہ(۱۲) کے جنازے اور مختلف دیگر جنازوں میں، لبنان و فلسطین اور دیگر واقعات کے مقابلے میں ملت ایران نے اپنی روحانی قوت، اپنی ہمت ظاہر کی؛ اور ان تمام میں نقطہ عروج 22 بہمن کی ریلیاں تھی۔ 22 بہمن کی ریلی سنہ ۱۴۰۳ ہجری شمسی میں ان تاریخی ریلیوں میں سے ایک تھی؛ چھیالیس سال گزرنے کے بعد اس انقلاب کی حمایت میں، جس کے خلاف امریکہ چیخ رہا ہے، کوشش کر رہا ہے، یورپ بھی مخالفت میں لگا ہے، دنیا بھر کے منافقین، سرکش، فاسق، فاجر جہاں جہاں بھی ہیں اور جہاں تک ان کا بس چلتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف اقدام کرتے ہیں، ملت ایران نے 22 بہمن کے دن یہ عظیم عوامی اقدام انجام دیا۔ ملت ایران نے خود کو دنیا کو پہچنوایا۔ عزیزو! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم خود کو پہچانیں؛ ملت ایران کو بھی چاہیے کہ وہ خود کو پہچانے۔ ہم ایک طاقتور قوم ہیں، ہم ایک دلیر قوم ہیں۔ ان تمام امور، اس دلیری، اس موجودگی، اس میدان میں آنے کے باوجود، اقتصادی مشکلات نے بھی عوام کو گھیر رکھا تھا؛ ایسی اقتصادی مشکلات عموماً عوامی اجتماعات کو مایوس اور پژمردہ کر دیتی ہیں؛ لیکن ہمارے عوام ان تمام مشکلات کے باوجود میدان میں آئے، نظام کا دفاع کیا۔ دشمنانِ نظام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ملت ایران، نظامِ جمہوری اسلامی سے محبت رکھتی ہے۔

ملک کے لیے کام کے میدان میں بھی عوام نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ میں نے البتہ کل کہا، اور دوبارہ کہتا ہوں کہ جو نعرہ ہم نے پچھلے سال دیا تھا،(۱۳) اسکو مکمل طور سے عمل جامہ نہیں پہنایا جاسکا؛ یہ اپنی جگہ باقی ہے؛ لیکن تعمیر، ترقی، پیشرفت اور کام کے میدان میں کم از کم عوام نے کوئی کوتاہی نہیں کی؛ بڑے بڑے کام انجام دیے گئے؛ ان میں سے کچھ کا ذکر اس نشست میں کیا گیا جہاں صنعت سے متعلق حضرات اسی حسینیہ میں جمع ہوئے تھے،(۱۴) ان میں سے کچھ انجام شدہ کام نشر بھی کیے گئے۔ اب بھی آپ ملاحظہ کریں کہ صرف گزشتہ چند مہینوں میں عوام کے لیے مفید کئی منصوبے ملک بھر میں ــ کچھ بڑے، کچھ چھوٹے، لیکن کثیر اور متنوع ــ افتتاح ہوئے؛ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام کام کے میدان میں الحمدللہ سرگرم ہیں۔ البتہ ہم قانع نہیں؛ بہت سے کام باقی ہیں جو انجام پانے چاہییں، جن میں سے ایک کو میں نے اس سال کا نعرہ قرار دیا ہے؛ اس پر مختصر وضاحت پیش کروں گا۔

مسئلہ تولید (پیداوار) کو میں کئی سالوں سے دہرا رہا ہوں؛ پیداوار میں پیشرفت، عوام کی شرکت، وغیرہ؛ سب کا تعلق پیداوار سے ہے؛ کیوں؟ کیونکہ پیداوار ملک کی معیشت اور عوام کی زندگی بہتر بنانے کی کلیدی کڑیوں میں سے ایک ہے۔ داخلی پیداوار بہت اہمیت رکھتی ہے۔ البتہ پیداوار کے لیے سرمایہ‌ کاری درکار ہوتی ہے؛ جیسے ہی سرمایہ ‌کاری کی بات ہوتی ہے، کچھ افراد کا ذہن فوراً غیر ملکی سرمایہ‌ کاری کی طرف چلا جاتا ہے؛ نہیں، یہاں مراد ہمارے اپنے عوام کی سرمایہ‌ کاری ہے؛ یہی نقدینگی جو عوام کے پاس ہے، جو بعض لوگ سونے، زمین، مکان، کرنسی وغیرہ میں تبدیل کرتے ہیں اور ملک کے لیے مسائل کھڑے ہوتے ہیں ــ کہ یہ سب منافع بخش بھی نہیں بلکہ مسائل کا باعث بھی ہیں ــ اگر یہی نقدینگی پیداوار کے لیے سرمایہ کاری میں صرف ہو، تو ملک ترقی کرے گا۔ چھوٹی سرمایہ‌کاری سے لے کر بڑی سرمایہ‌کاری تک؛ مثلاً ایک محدود پولٹری فارم سے لے کر ایک بڑی فیکٹری تک؛ یہ سب سرمایہ‌ کاری کے دائرے میں آتے ہیں؛ ان امور کو انجام دینا ممکن ہے۔

میں نے اس سال کہا ہے کہ "پیداوار کے لیے سرمایہ کاری‘‘ سال کا نعرہ ہے۔ سب ــ عوام اور حکومت ــ کو اس نعرے پر توجہ دینی چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو تعاون کرنا چاہیے۔ ہر ایک کا اپنا فریضہ ہے؛ عوام کا ایک فریضہ ہے، حکومت کا ایک فریضہ ہے۔ عوام کا فریضہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس قابل ہے، اس کے پاس سرمایہ ہے، کوئی وسیلہ ہے، تاکہ کوئی چھوٹا سا بھی پیداواری عمل شروع کر سکے، وہ یہ کام ضرور کرے ــ جو لوگ ہمت کرتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں، نفع بھی وہی اٹھاتے ہیں اور ملک و عوام بھی نفع اٹھاتے ہیں ــ اور وہ لوگ جو بڑے صنعتکار، مالک اور روزگار فراہم کرنے والے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں، ان سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ عوام کا فریضہ ہے۔

حکومت کا فریضہ کیا ہے؟ حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ اس کام کے لیے زمینہ فراہم کرے۔ حکومت کا فریضہ یہی ہے: زمینہ فراہم کرے۔ الحمدللہ حکومت موجود ہے ــ ایک مستحکم حکومت ہمارے پاس ہے؛ پچھلے سال کی طرح نہیں کہ تبدیلیاں ہوں یا تبادلے ہوں ــ یہ حکومت پروگرام بنا سکتی ہے تاکہ زمینہ فراہم کر سکے۔ پیداوار میں اضافہ کچھ مقدمات کا محتاج ہے، جن میں سب سے اہم سرمایہ‌ کاری میں اضافہ ہے۔ اگر سرمایہ‌ کاری بڑھے گی تو پیداوار بڑھے گی؛ یہی اس سال کی میری نصیحت ہے تمام عوام کو۔

البتہ عوام اور اہلِ توان اگر سرمایہ‌ کاری کرنا چاہیں تو ان کے سرمایہ کی حفاظت کی ضمانت ہونی چاہیے؛ یہ میرا خطاب ان نگران اداروں کے ذمےدار افراد سے ہے، چاہے وہ حکومت میں ہوں، چاہے عدلیہ میں، یا پارلیمنٹ میں؛ سرمایہ‌ کاری کی حفاظت۔ جو لوگ سرمایہ‌ کاری کرنا چاہتے ہیں، انہیں احساسِ تحفظ ہونا چاہیے۔ اگر احساسِ تحفظ نہ ہو، تو کام آگے نہیں بڑھے گا، لوگ سرمایہ‌ کاری نہیں کریں گے۔ ہم بعض اوقات دیکھتے ہیں کہ کچھ مقامات پر نگران ادارے گویا بالکل موجود ہی نہیں، غیر حاضر ہیں، [لہٰذا] غلط کام انجام پاتے ہیں؛ یہ غلط ہے۔ لیکن بعض مقامات پر نگران ادارے بلاوجہ سختی کرتے ہیں، یہ بھی غلط ہے؛ یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا مسئلہ قوانین اور ضوابط کا استحکام ہے؛ روزانہ قواعد و ضوابط، سرکلرز اور احکامات نہ بدلے جائیں؛ تاکہ سرمایہ‌ کار مطمئن ہو کہ وہ اعتماد کر کے سرمایہ‌ کاری کر سکتا ہے۔

 

ایک اور ضرورت جو پھر ذمہ داروں پر عائد ہوتی ہے، یہ ہے کہ سرمایہ‌کاری کے عمل کو مختصر کریں۔ بعض اوقات ہمیں خط لکھ کر شکایت کی جاتی ہے کہ ہم سرمایہ‌کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں دو سال، تین سال تک اس لیے معطل رکھا جاتا ہے کہ ایک اجازت نامہ دیا جائے! یہ بھی درست نہیں ہے؛ واسطوں کو کم کرنا چاہیے اور اس عمل کو تیزی کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔

ایک اور مسئلہ درآمدات کا ہے۔ بعض اوقات ایک کمپنی، ایک ادارہ بڑی محنت سے کسی چیز کو اندرونِ ملک تیار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، اور اُسی وقت، کوئی دوسرا ادارہ ــ چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ــ وہی چیز باہر سے درآمد کرتا ہے! تو یہ اندرونی پیداوار پر کاری ضرب ہے۔ ان تمام امور کی نگرانی حکومت کو کرنی چاہیے۔

سرمایہ‌کاری کے لوازمات میں سے ایک مواقع کا تعارف ہے۔ لوگ کہتے ہیں: "اچھا، اب ہمارے پاس کچھ رقم ہے، کیا کریں، کس طرح سرمایہ‌کاری کریں؟" ان کی رہنمائی ہونی چاہیے۔ مختلف ادارے، مختلف سرکاری محکمے، اپنے اپنے دائرہ کار میں شرمایہ کاری کے مواقع متعارف کرائیں، لوگوں کو بتائیں، ٹیلی وژن سے فائدہ اٹھایا جائے، وضاحت کی جائے، عوام کی رہنمائی کی جائے کہ اس طرح آپ سرمایہ‌کاری کر سکتے ہیں؛ مثلاً فرض کریں کہ علم محور کمپنیوں میں سرمایہ‌کاری اُن کاموں میں سے ہے جو اس میدان میں انجام دیے جا سکتے ہیں۔

بہرحال، اگر ملکی ذمہ دار عوام کی معیشت کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں ــ اور وہ یقیناً چاہتے ہیں؛ ہمیں اس کا علم ہے؛ ملک کے عہدیدار، حکومتی عہدیدار واقعی چاہتے ہیں اور اصرار رکھتے ہیں کہ عوام کی معیشت کی موجودہ حالت درست ہو ــ تو یہ صرف امدادی کاموں سے انجام پذیر نہیں ہوگا؛ البتہ امدادی کام بھی اچھے ہیں، [لیکن] یہ بنیادی اقدامات سے ہی ممکن ہے، جن میں سے ایک اہم کام یہی پیداوار اور سرمایہ‌کاری کا مسئلہ ہے؛ اس کی سمت میں اقدام اٹھانے چاہیے۔ اس بارے میں تو باتیں بہت ہیں۔

اقتصادی مسائل سے آگاہ اور ذمہ دار افراد، احساسِ ذمہ‌داری کے ساتھ عوام کو سمجھائیں، راہوں اور امور کو [واضح کریں]، حکومت کو بھی سمجھائیں اور اس کی مدد کریں۔ بعض افراد کے پاس راہ حل موجود ہیں، مجھے خطوط لکھتے ہیں اور مشورے دیتے ہیں۔ تو خیر، رہبری اقتصادی منصوبہ بندی میں مداخلت نہیں کرتی؛ یعنی مداخلت کا حق بھی نہیں رکھتی، یہ حکومت کی ذمہ‌داریوں میں سے ہے، حکومت کو ہی یہ کام کرنا چاہیے، ہم بھی ان خطوط کو حکومت کو بھیج دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران جانیں کہ ان پر کیا فرائض عائد ہیں، ان سے کیا توقعات ہیں اور ان شاء اللہ وہ ان کو پورا کریں۔ یہ تھا سال کے نعرے کا معاملہ۔

اب ایک مسئلہ ان سیاسی باتوں کے بارے میں ہے جو ان دنوں ہو رہی ہیں؛ امریکیوں کی باتیں اور امریکی حکومت کے اہلکاروں کی باتیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے، دوسرا اس کی تکمیل کرتا ہے، تیسرا اسے رد کرتا ہے، چوتھا اسے ثابت کرتا ہے۔ میں صرف ایک دو نکات کہوں گا۔ پہلا نکتہ، جو کہ اہم نکتہ ہے، یہ ہے کہ امریکی جان لیں کہ ایران سے مقابلے میں وہ کبھی بھی دھمکی سے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ دوسرا نکتہ: وہ اور دوسرے سب جان لیں کہ اگر انہوں نے ملتِ ایران کے ساتھ کوئی خبیثانہ حرکت کی، تو بری طرح چوٹ کھائیں گے۔

اگلا نکتہ: ایک بہت بڑی غلطی جو امریکی اور یورپی سیاستدانوں اور اُن جیسے دیگر افراد کرتے ہیں، یہ ہے کہ وہ خطّے میں مزاحمتی قوتوں کو "ایران کی پراکسی قوّتیں" کہتے ہیں؛ یہ ان کی توہین ہے! پراکسی کا مطلب کیا ہے؟ یمن کی قوم خود جذبہ رکھتی ہے، خطے کے ممالک میں موجود مزاحمتی مراکز خود جذبہ رکھتے ہیں؛ اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی پراکسی کی ضرورت نہیں؛ پراکسی کا کیا مطلب ہے؟ وہ خود ہیں، اپنی مرضی اور ارادے سے میدان میں ہیں۔ فلسطین پر قبضے کے آغاز میں، یمن اُن اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس عمل کے خلاف صفِ اوّل میں آکر مخالفت کی؛ اُس وقت کے حاکم نے اُٹھ کر بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کی اور یوں اپنا اعتراض ظاہر کیا؛ یہ لوگ ان دشمنیوں، ان خبیثیوں، اور اس ظلم کے خلاف ہیں جو غاصب اور خبیث صہیونی رژیم نے کل اور آج فلسطینی عوام کے ساتھ روا رکھا ہے، یہ لوگ اعتراض رکھتے ہیں، مزاحمت کرتے ہیں، ڈٹے ہوئے ہیں؛ یہاں پراکسی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب لوگ ایران کی نیابت میں یہ کام کر رہے ہیں؛ ہرگز نہیں، یہ پراکسی نہیں ہے؛ ہمارا نظریہ بھی واضح ہے، ان کا نظریہ بھی واضح ہے۔

آج صہیونی رژیم کی خباثت، یہ سفّاک صہیونی حکومت ــ کہ درحقیقت "سفّاک" کا لفظ بھی اس کے لیے بہت چھوٹا ہے ــ نے بہت سے غیر مسلم اقوام کے دلوں کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک میں اس صہیونی رژیم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں؛ لیکن وہ ان مظاہروں کو دیکھنا نہیں چاہتے؛ مغربی حکمران ان چیزوں کو نہ دیکھنا چاہتے ہیں، نہ سمجھنا چاہتے ہیں، اور نہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی قومیں کیا سوچ رہی ہیں۔ کہتے ہیں اُس امریکی یونیورسٹی کا بجٹ بند کرو جس کے طلبہ فلسطین کے حق میں مظاہرہ کر رہے ہیں؛(۱۵) یہ ہے (مغربی) آزادی، یہ ہے لبرل ازم، آزادی، اور انسانی حقوق! یہ ہے ان کا طرزِ عمل۔ آج اقوام، ان خبیثیوں کے خلاف جو صہیونی رژیم انجام دے رہی ہے، یقینی طور پر مخالف اور معترض ہیں، اور جو جس قدر بھی کر سکتا ہے، ہر طریقے سے مزاحمت کر رہا ہے؛ اسلامی جمہوریہ بھی ان زبردستیوں اور ان خبیثیوں کے مقابلے میں مضبوطی سے ڈٹی ہوئی ہے؛ ہم نے اپنے مؤقف کو واضح طور پر بیان کر دیا ہے؛ ہم فلسطینی مجاہدین اور لبنانی مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں جو اپنے وطن، غزہ، اور فلسطین کا دفاع کر رہے ہیں؛ یہ اسلامی جمہوریہ کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے۔ البتہ وہ دھمکیاں دیتے ہیں؛ جان لیں کہ ہم کبھی بھی کسی کے ساتھ ٹکراؤ اور درگیری کی ابتدا کرنے والے نہیں رہے، لیکن اگر کوئی شرارت کرے اور ابتدا کرے، تو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ سخت چوٹ کھائے گا۔

اے پروردگار! اس نئے سال کے پہلے دن اپنی عنایتیں اور رحمتیں اس قوم پر نازل فرما۔ اے پروردگار! اس سال کو ملتِ ایران کے لیے، مسلمان اقوام کے لیے، برکتوں والا سال قرار دے؛ مظلوم اقوام کو ظالموں پر غالب اور فتح‌مند فرما۔
اے پروردگار! محمدؐ و آلِ محمدؐ کے واسطے، ہمیں بخش دے؛ ملتِ ایران کو اس کے عظیم مقاصد تک پہنچا؛ مقدّس ولیّ‌عصرؑ کے قلبِ نازنیں کو ہم سے راضی فرما؛ اس عظیم امامؒ کی پاک روح کو، جنہوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا، اور ان عزیز شہداء کی پاکیزہ روحوں کو، جنہوں نے امام بزرگوارؒ کا ساتھ دیا، راضی اور خوشنود فرما؛
اپنی رحمت اور مہربانی ان سب پر نازل فرما۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 186

2۔ سورہ انفال آیت نمبر 17 "۔۔۔۔ اور جب ( ان پر کنکریاں) ماریں تو تم نے نہیں بلکہ خود خدا نے ماری ہیں ۔۔۔"

3۔ سورہ یونس، آیت نمبر 88 "۔۔۔۔ پالنے والے! تم نے فرعون اور اس کے سرداروں کو ۔۔۔ زیورات اور دولت دی ہے ۔ پالنے والے! انھوں نے خلق کو تیرے راستے سے گمراہ کیا، پالنے والے! ان کی دولت وثروت ختم اور ان کے دل سخت کر دے۔۔۔۔"
4۔ سورہ یونس آیت نمبر 89 " ۔۔۔۔ تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔ تم ثابت قدم رہو۔۔۔۔ "

5۔ سورہ اعراف آیت نمبر 129 " قوم موسی نے کہا کہ تمھارے آنے سے پہلے ہم سختی میں تھے اور آنے کے بعد بھی سختی میں ہیں "

6۔ سورہ اعراف آیت نمبر 128

7۔ طبس کی کان کے ایک بلاک میں، گیس بھر جانے اور اس کے اخراج کا مناسب راستہ نہ ہونے کی وجہ سے دھماکہ ہو گیا جس میں دسیوں کان کن جاں بحق اور درجنوں گیس سے متاثر ہو گئے۔

8۔ 20 مارچ 2025 کو ہجری شمسی سال 1404 کی تحویل کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام نوروز

9۔ 22 مئی 2024 کو شہدائے خدمت کا جنازہ

10۔ 4 ستمبر 2025 کی نمازجمعہ

11۔ ایران میں چودھویں صدارتی الیکشن کا پہلا دور، 28 جون 2024 اور دوسرا دور 5 جولائی 2024 کو انجام پایا۔

12۔ حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے تہران آئے ہوئے تھے کہ 31 جولائی 2024 کو اپنی قیامگاہ پر دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئے ۔

13۔ عوام کی شرکت سے پیداوار میں تیز رفتار ترقی، رجوع کریں، 20 مارچ 2024 کو ہجری شمسی سال 1403 کی تحویل کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے

14۔ 22 جنوری 2025 کو اقتصادی اور پیداواری شعبوں میں فعال ماہرین سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

15۔ امریکی حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کی 40 کروڑ ڈالرکی ایڈ، یہودیت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں کاٹ دی اور فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کے بعد امریکی وزارت تعلیم نے بھی اس یونیورسٹی کا 60 فیصد بجٹ روک لیا۔