ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

بین الاقوامی "تفسیر تسنیم" کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)

بہت خوش آمدید محترم حضرات؛ اور بہت شکریہ ان بہترین وضاحتوں کا جو جناب آقای اعرافی اور جناب آقای حاج آقا سعید [جوادی] نے اس شریف کتاب کے بارے میں دی ہیں، اور ہم نے استفادہ کیا۔ جو کچھ اس کتاب کو متعارف کرانے میں کہا جانا چاہیے تھا، وہ آپ نے بیان کیا؛ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا: ایک بات، آیت اللہ آقای جوادی کی شخصیت کے بارے میں ہے؛ ایک بات، تفسیر تسنیم کے متعلق ہے؛ اور ایک بات قرآن کی تفسیر کے رواج کی ہے — اب یہ صرف علوم قرآنی تک محدود نہیں، بلکہ خود قرآن کی تفسیر کے بارے میں ہے، جو حوزہ علمیہ میں ہے۔

آیت اللہ آقای جوادی کے بارے میں، میرے خیال میں حوزہ واقعی ان کے احسانات کا مقروض ہے؛ انہوں نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ یہ کہ انسان ایک چھوٹے سے مقام سے قرآن کی تفسیر کا آغاز کرے اور چالیس سال تک اس کام کو جاری رکھے، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے؛ جب انسان اس پر غور کرتا ہے، تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ بہت بڑا کام ہے، اس کام پر استقامت دکھانا، کبھی نہ تکھنا، اس کے جاری رکھنے میں شک نہ کرنا، بلکہ مجھے موقع نہیں ملا اور فرصت نہیں ملی کہ میں  خود اس پرنظرثانی کرسکوں 47 — شاید مفسر محترم کا قرآن کی آیات کے ساتھ شوق اور ذوق وقت کے ساتھ بڑھتا گیا ہو۔ اور یہ کہ انسان اس کام کے  کرنے میں خوش ہو، یہ بہت قیمتی بات ہے۔ ان سے اس تفسیری کام کے بارے میں بات ہوئی تھی، اور خود وہ اس کام سے خوش تھے اور کہتے تھے کہ یہ آج کا "المیزان" ہے؛ ان کا کہنا تھا کہ یہ المیزان ہے، مگر آج کے دور کا المیزان۔ جب انسان اس پر نظر ڈالتا ہے، تو حقیقت میں یہی بات صحیح لگتی ہے۔ اس لئے ان کا کام واقعی ایک قیمتی کام ہے۔ البتہ ان کی علمی سرگرمیاں، جو انہوں نے عقلی اور نقلی علوم کے میدان میں کی ہیں، وہ بھی اہم ہیں اور قابلِ ستائش ہیں، لیکن میری نظر میں ان میں سے کوئی بھی کام اس تفصیلی تفسیر کے کام کے برابر نہیں ہے؛ یعنی میری نظر میں یہ کام ان کے فلسفیانہ، عرفانی اور فقیہانہ کاموں سے زیادہ اہم اور بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے، ان کی عمر دراز کرے اور وہ جو نشاط اور توانائی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اس طویل عرصے تک یہ کام جاری رکھا، ان شاء اللہ وہ اسے ان میں برقرار رکھے۔ شاید کبھی ایسا ہو کہ انسان کسی مسئلے پر نظر ثانی کرے، کچھ نیا شامل کرے؛ ان شاء اللہ ان کا یہ نشاط اور جوش جاری رہے۔

 

اور جہاں تک تعلق ہے تفسیر تسنیم کا، تو میرے خیال میں یہ تفسیر شیعت کا  فخر ہے۔  خاص طور پر اس کتاب میں تفسیر کا جو خاص مفہوم ہے، وہ بہ نحو احسن بیان کیا گیا ہے، یعنی آیات کی وضاحت کی گئی ہے، مصنف کی فکری توانائی  نے مدد کی ہے کہ بعض نرم، لطیف اور مشکل مفاہیم سمجھ  میں آجائیں جو آیات میں پوشیدہ ہیں۔ البتہ، مجھے اس تفسیر کا زیادہ مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا؛ لیکن رات اور آج صبح میں نے کہا کہ اس تفسیر کا ایک جلد لے کر دیکھوں تاکہ ذہن آمادہ ہو، اور اتفاق سے جلد چالیس، سورۃ یوسف تھا۔ واقعی یہ بہت ساری ایسی  معلومات سے بھرا ہوا ہے جنہیں نظراندازکیا جاسکتا تھا؛ مثلاً "خواب" کیا ہے؛ خواب کی حقیقت، خواب کی حقیقت پر بحث۔ یہی وہ طرز عمل ہے جو مرحوم آیت اللہ طباطبائی نے المیزان میں کیا تھا، فلسفیانہ یا سماجی بحثوں کے تحت؛  یہ چیز اس عظیم تفسیر میں بڑی سطح پرپھیلی ہوئی ہے؛ یعنی اگر ہم یہ مان لیں کہ جو کام اب المیزان کے حوالے سے کیا گیا ہے، وہی کام اس کتاب سے غیر تفسیری مباحث نکال کر جمع کیا جائے تو وہ ایک دائرۃ المعارف انسائیکلوپیڈیا بن جائے گا؛ ایک وسیع معارف کا مجموعہ بن جائے گا جو مختلف موضوعات میں استعمال ہو سکتا ہے، ایک آیت ایک نکتہ۔

 

اور اس سے بہتر استفادہ کے لیے، میرے خیال میں اس تفسیر کو ایک مکمل فنی فہرست کی ضرورت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس حوالے سے کوئی کام کیا گیا ہے یا نہیں۔لیکن اس تفسیر کے لئے فہرست ضروری ہے؛ اس تفسیر کو ایک فنی فہرست کی ضرورت ہے تاکہ موضوعات بیان کیے جا سکیں، اور حروف کی ترتیب کو الفبائی طور پر مدنظر رکھا جا سکے تاکہ اگر انسان کسی خاص موضوع پر جاننا چاہے کہ اس تفسیر میں کیا ہے تو وہ آسانی سے تلاش کر سکے اور استفادہ کر سکے۔ اس لیے یہ نہ صرف تفسیر ہے بلکہ ایک معنوں میں انسائیکلوپیڈیا  بھی ہے۔ یہ تفسیر تسنیم تشیع کیلئے باعثِ فخر ہے، حوزہ علمیہ کیلئے باعثِ فخر ہے، اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ کام انجام پایا۔

 

میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ تفسیر کے طویل ہونے ــ اس کے اسی (۸۰) جلدی ہونے ــ پر شکایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس تفسیر کو مختصر کیا جائے، خلاصہ کیا جائے۔ میری رائے میں یہ کام نہ ممکن ہے، نہ جائز۔ یعنی اس طرح کرنا تفسیر کو اس کی اصل شناخت اور ہویّت سے گرا دیتا ہے۔ تفسیر کی کتاب ــ خاص طور پر اتنی تفصیل کے ساتھ ــ ایسی کتاب نہیں ہے جسے انسان شروع سے آخر تک مسلسل پڑھنا چاہے کہ کہا جائے "یہ اسی جلد ہے، بہت لمبی ہے، ہم پڑھ نہیں سکتے"؛ یہ ایک مرجع کتاب ہے؛ انسان جب کسی آیت کو سمجھنا چاہے، کسی سورہ کو سمجھنا چاہے، کسی موضوع کو سمجھنا چاہے تو اس کی طرف رجوع کرتا ہے؛ یہ کتاب چاہے ۸۰ جلد ہو، ۱۰۰ جلد ہو، یا ۱۸۰ جلد، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا تفسیر کو مختصر کرنا [جائز نہیں]۔

ہاں، آج مجھے بتایا گیا کہ ارادہ ہے کہ ان تفسیری خلاصوں کو جو ہر آیت کے شروع میں دیے گئے ہیں، جمع کر لیا جائے؛ یہ بھی ایک مفید چیز بنے گی، لیکن میری نظر میں آقای جوادی کا نام اور تفسیر تسنیم کا نام ان جیسے کاموں سے چھوٹا نہ کیا جائے؛ اسے اسی طرح باقی رہنے دیں جیسے ہے۔ البتہ ایک مکمل فہرست کی ضرورت ہے، تفسیر کو فہرست کے بغیر استعمال کرنا مشکل ہوگا؛ ضرور اس کی فہرست بنائی جائے۔ یہ تو تفسیر تسنیم کے متعلق تھا۔

اور اب قرآن کی تفسیر کا موضوع حوزاتِ علمیہ میں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ حوزہ جات نے اس میدان میں بہت کم کام کیا ہے؛ ہمارے مختلف حوزہ جات نے وقت کے گزرنے کے ساتھ اس میدان میں بہت کمزوری دکھائی ہے۔ سب سے بڑی مجاہدت مرحوم آقای طباطبائی نے کی، جنہوں نے اس وقت کہ جب یہ رائج نہیں تھا، تفسیر کا درس شروع کیا، اور یہی قرآن اور مفاہیمِ قرآنی کی طرف حوزہ میں توجہ کا نقطۂ آغاز بنا۔ وہ حجتیہ مدرسہ میں تفسیر کا درس دیا کرتے تھے۔ مجھے خود اس درس میں جانے کی توفیق نہیں ملی، [لیکن] آقای جوادی اس وقت حجتیہ مدرسہ میں تھے، میرے خیال میں وہ جایا کرتے تھے۔ کچھ افراد ان کے درس میں شریک ہوتے تھے، لیکن وہ ایک چھوٹا سا درس تھا؛ یعنی حجتیہ مدرسہ کی مسجد میں ایک چھوٹا گروہ ــ شاید چالیس پچاس یا میرے خیال میں تیس چالیس افراد ــ بیٹھتے تھے، لیکن یہ ایک نہایت اہم آغاز تھا؛ آقای طباطبائی (رضوان اللہ علیہ) نے ایک بڑا کام شروع کیا اور اس کی بنیاد رکھی۔ ان سے پہلے نہ صرف قم کے حوزہ میں کچھ خبر تھی، بلکہ نجف کے حوزہ میں تو بدرجہ اولیٰ کچھ نہیں تھا۔ نجف کے حوزہ میں، آپ جانتے ہیں کہ مرحوم بلاغی نے مختصر سا کچھ کام کیا اور بعض دوسرے بزرگوں نے بھی مختصراً کچھ لکھا، لیکن جو کام ایک ایسے حوزہ سے متوقع ہے جو علومِ اسلامی کو بیان کرنے والا ہو، اس سے ہمارے حوزہ جات کا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔

نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے بڑے اور معروف علما اکثر اوقات مفاہیم قرآنی سے آشنا نہیں ہوتے تھے۔ میں ایک بہت ہی اچھے عالم، فاضل، ملّا اور نیک انسان کو جانتا ہوں ــ ہماری جوانی کے دور میں ــ وہ فرمایا کرتے تھے: "جب ہم نجف میں تھے، تو درس و تدریس اور علمی مشاغل میں مصروف رہتے تھے، لکھنا، بولنا، تبادلۂ خیالات، مباحثہ کرنا، آنا جانا، وغیرہ؛ جب ہم نجف سے ایران آئے، تو میں نے اتفاقاً تفسیر صافی دیکھی ــ وہ بزرگ فرما رہے تھے ــ تفسیر صافی(2) کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ اس کتاب میں کیسے عجیب مطالب ہیں!" اب آپ سوچیں کہ تفسیر صافی میں کیسے کیسے مطالب ہوں گے کہ ایک سالہا سال نجف میں تعلیم یافتہ مجتہد اور ملّا کو حیران کر دیں؛ ہماری حوزوی حالت کچھ ایسی تھی۔

میں انقلاب سے پہلے کچھ حد تک قرآنی کاموں سے وابستہ تھا، طلاب سے کہا کرتا تھا؛ میں کہتا تھا کہ ہمارے حوزہ کی صورتِ حال ایسی ہے کہ ہم "بدان أیّدک الله"[۳] سے شروع کرتے ہیں اور جب تک اجتہاد کی اجازت لیتے ہیں، ان سالوں میں ایک بار بھی ہمیں یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ہم اُٹھ کر طاقچے سے قرآن نکالیں اور دیکھیں! یعنی ہمارے دروس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، سوائے ان موارد کے جب کتبِ ادبیات، مثلاً مغنی یا سیوطی میں قرآنی آیات بطور مثال پیش کی جاتی ہیں؛ وگرنہ نہ ہماری فقہ میں، نہ ہماری ادبیات میں، نہ ہماری اصولی تحقیقات میں ہمیں کبھی یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ قرآن نکال کر دیکھیں کہ اس موضوع پر قرآن میں کیا آیت ہے یا قرآن نے کیا فرمایا ہے! یہی ہے حوزہ کا نقص۔

خیر، اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے ــ وہ جناب [۴] فرماتے ہیں کہ حوزہ علمیہ میں دو سو درسِ تفسیر جاری ہیں! یہ بہت ہی اچھی بات ہے، یہ ایک نہایت خوش آئند خبر ہے؛ میں خود یہ بات نہیں جانتا تھا کہ اس وقت حوزۂ علمیہ قم میں دو سو درسِ تفسیر ہو رہے ہیں ــ البتہ اس بات کی کوشش کیجیے کہ تفسیر کی طرف یہ رجوع اور درسِ تفسیر ایک پائیدار ثقافت بن جائے؛ [ایسا نہ ہو کہ] اس عمل کو کوئی کمی یا نقص شمار کرے۔ یعنی جیسے فقه میں مہارت، یا اب دوسرے درجے میں، فلسفہ میں مہارت جو کہ ایک قابلِ فخر چیز ہے، ویسے ہی تفسیر میں بھی ماہر ہونا واقعی معنٰی میں "ملّا" ہونا شمار ہو، کم از کم ویسے ہی جیسا کہ فقه میں ہے؛ یعنی صورتِ حال ایسی ہونی چاہیے۔ البتہ چونکہ انسانی زندگی کا نظام فقه پر موقوف ہے، اس لیے فقه کے بارے میں انسان کا اندازِ تعبیر کچھ زیادہ احترام والا ہونا چاہیے؛ لیکن مثلاً اصول کی جو یہ طوالت و تفصیل ہے، ایک شخص جو اصول میں ملّا ہے، اسے عمومی حوزوی ذہنیت میں ایک مقام حاصل ہے؛ کیا وہ شخص بھی جو قرآن کی آیات، ان کے معانی، مفاہیم اور اشارات پر تسلط رکھتا ہے، اسی درجے کا احترام اور قدر و منزلت حوزہ کی عمومی فضا میں رکھتا ہے؟ اس مسئلے کو درست کرنا ہوگا۔

اہل سنت بھائیوں کا قرآن کی طرف رجوع اچھا ہے، لیکن وہ حضرات بھی یا تو تفسیر سے بڑھ کر یا کم از کم تفسیر کے برابر قرآن کے حاشیہ جاتی اور کم اہمیت رکھنے والے مسائل پر توجہ دے بیٹھے ہیں؛ قرآن میں "وقف و ابتدا" کے موضوع پر کتنی کتابیں موجود ہیں! مثلاً تصور کریں کہ تجوید کے موضوع پر کتنی کتابیں لکھی گئی ہیں! اور اسی جیسے دیگر مسائل۔ حالانکہ یہ قرآن کے اصل مسائل نہیں ہیں؛ قرآن کا اصل مسئلہ قرآن کریم کی آیات کو سمجھنا ہے، اور اس میدان میں ہم حقیقتاً کم کام کر پائے ہیں اور شیعہ مکتب میں اس پر کم توجہ دی گئی ہے؛ الحمدللہ، آج یہ کام دوبارہ زندہ ہو چکا ہے۔ اب ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس دور میں تفسیر تسنیم منظرِ عام پر آئی اور باعثِ فخر بنی۔ تفسیر تسنیم کو ہاتھوں میں لے کر دنیائے اسلام کو دکھایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس یہ ہے۔

ایک ضروری کام یہ بھی ہے کہ اس تفسیر کا عربی ترجمہ کیا جائے۔ یہ عمل بھی لازمی ہے۔ اب یہ کہ اصل کتاب فارسی میں لکھی گئی، اس کا بھی ایک فلسفہ ہے، کوئی حرج نہیں، یہ بھی اچھا ہے؛ لیکن آج کی دنیائے اسلام زیادہ تر عربی زبان سے آشنا ہے اور ہم یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ ایک عمدہ کتاب ہمارے پاس ہو اور دنیائے اسلام اسے سمجھے، پہچانے، جانے، لیکن وہ عربی زبان میں نہ ہو؛ یہ توقع درست نہیں ہے۔ میرے خیال میں ایک ایسا گروہ جو عرب زبان ہو، جن کی مادری زبان عربی ہو اور جو ادبیات عرب پر مکمل عبور رکھتے ہوں، انہیں بیٹھ کر اس کتاب کا تدریجاً ترجمہ کرنا چاہیے اگر اب تک یہ کام نہیں ہوا۔ یہ بہت اچھا ہے(5)۔ جی ہاں، یہ ایک ضروری کام ہے۔ اگر یہ کام اچھے طریقے سے انجام پائے، یعنی زبان ایسی ہو جو عربی مخاطب کے لیے قابلِ فہم اور موزوں ہو، اور کچھ ایسی نفسیاتی خصوصیات کا لحاظ رکھا جائے جو اہمیت رکھتی ہیں، تو یہ تفسیر جلدی پھیل جائے گی؛ یعنی عربی زبان والے حوزات میں تیزی سے رواج پائے گی۔ وہاں فکری شخصیات بھی موجود ہیں [جو اس سے استفادہ کریں گی]۔

مرحوم آشیخ ہادی فضلی (رحمة الله ‌علیه)، جو کہ سعودی عرب کے علماء میں سے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس وقت حجاز کی یونیورسٹیوں میں، حجاز کے بڑے اساتذہ شیعہ فقہی کتابیں حاصل کرتے ہیں اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں؛ یعنی وہی کتابیں جو اب شائع ہو چکی ہیں۔ وہ شکریہ ادا کر رہے تھے کہ ان کتابوں پر کام ہوا ہے، ان کی تصحیح کی گئی ہے، اور انہیں شائع کیا گیا ہے۔ کیونکہ آخر کار "ریاض" جیسی کتاب کو مثلاً پرانے طرز میں کوئی شوق سے نہیں کھولے گا، لیکن جب "ریاض(6)" کو اس نئے انداز میں شائع کیا جاتا ہے، یا "جواہر(7)" کو مثلاً اسی طرح مرتب کیا جاتا ہے، تو طبعاً وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ لوگوں میں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اور انہوں نے شیعہ مکتب کی طرف رجحان پیدا کیا ہے۔ مرحوم آقای فضلی خود بھی یونیورسٹی میں تدریس کرتے تھے، اور وہ کہتے تھے کہ عالمِ تسنّن کے بڑے اساتذہ، جہاں وہ تدریس کرتے تھے ــ یعنی مشرقی علاقے کی یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں ــ سب کے سب اس کتاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کتاب بھی اسی طرح ہو جائے گی؛ یعنی اگر ایک اچھا ترجمہ کیا جائے، اور یہ ان تک پہنچ جائے، تو وہ اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے؛ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ منتقل ہوگی؛ دنیائے اسلام میں ان‌شاءالله پھیل جائے گی۔

ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے آقای جوادی (دامت برکاته) کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے یہ کارِ عظیم انجام دیا؛ ہم آیت اللہ آقای جوادی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ زحمت اٹھائی؛ ہم آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اس کار کو آگے بڑھایا، تحقیق کی اور محنت کی۔ اور ان‌شاءالله ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ سب کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر و ثواب حاصل ہو۔ ہمارا سلام اور شکریہ بھی ان تک پہنچا دیجیے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۱ (یہ سیمینار 24 فروری 2025 کو قم کے مدرسہ عالی دار الشفاء میں منعقد ہونا ہے جس میں 80 جلدوں پر مشتمل تفسیر تسنیم کی رونمائی عمل میں آئے گی۔ رہبر انقلاب سے ملاقات میں پہلے پورے ملک کے حوزہ ہائے علمیہ کے مدیر حجت الاسلام و المسلمین علی رضا اعرافی، وحیانی علوم فاؤنڈیشن کے سربراہ اور سیمینار کی منتظمہ کونسل کے رکن حجت الاسلام و المسلمین سعید جوادی آملی نے رپورٹیں پیش کیں۔

۲ ( تصنیف ملا محسن فیض کاشانی

۳ (حوزہ علمیہ کی ابتدائی کتاب «جامع‌المقدّمات» کی ابتدائی عبارت۔ دینی طلبہ ابتدا میں یہ کتاب پڑھتے ہیں۔

۴ (ملک کے حوزہ ہائے علمیہ کے مدیر

۵ (حاضرین میں سے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ تیسویں جلد تک عربی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔

۶ (ریاض‌ المسائل فی بیان الاحکام بالدلائل، مصنف مرحوم سید علی طباطبائی

۷ (جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، مصنف مرحوم محمّد حسن نجفی