بسم اللہ الرّحمن الرّحیم و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّیّۃ اللہ فی الارضین.
یہ نشست تیرہ آبان (۱۳ آبان / ۴ نومبر) کی مناسبت سے منعقد کی گئی ہے۔ اگرچہ اسی دن امام خمینیؒ کی جلاوطنی سن ۱۳۴۳ھ ش (۱۹۶۴ء) میں اور طلبہ کے قتلِ عام کا واقعہ سن ۱۳۵۷ھ ش (۱۹۷۸ء) میں پیش آیا، لیکن ہمارے لیے اصل اور تاریخ ساز مسئلہ جاسوسی کے اڈّے (امریکی سفارت خانے) پر قبضے کا واقعہ ہے۔ میں اس نشست کو اسی موضوع کی وضاحت کے لیے وقف کر رہا ہوں؛ البتہ اس گفتگو میں داخل ہونے سے پہلے، چونکہ حضرت زینبؑ اور حضرت فاطمہؑ کے مبارک ناموں کا ذکر ہوا ہے، اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ نوجوانوں سے عرض کروں کہ صرف نام اور قلبی یاد پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی طور پر، حقیقی معنوں میں شیعہ بن کر ان عظیم ہستیوں کی پیروی کریں۔
پہلا قدم یہ ہے کہ خداوندِ متعال کے مقابل ان بزرگ ہستیوں اور دیگر معصومینؑ کے طرزِ عمل کو سامنے رکھا جائے۔ آپ جہاں بھی ہوں، اپنے اردگرد کے ماحول کو اس بات کی ترغیب دیں کہ نماز کو اسی طرح ادا کریں جیسا کہ خدا کے صالح بندوں سے مطلوب ہے۔ میری عزیز بیٹیوں اور اس مجلس میں موجود خواتین سے بھی عرض ہے کہ اپنے ماحول کے لوگوں کو متوجہ کریں کہ حجاب کو ایک دینی، اسلامی، فاطمی اور زینبی مسئلہ سمجھیں۔ میں سب کو سفارش کرتا ہوں کہ قرآن سے انسیت کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں: قرآن روزانہ پڑھیں، چاہے آدھا صفحہ ہی کیوں نہ ہو؛ قرآن کھولیں، آدھا صفحہ پڑھیں، ایک صفحہ پڑھیں، جتنی رغبت ہو اتنا پڑھیں۔ اپنی معنوی وابستگی کو محفوظ رکھیں۔
ہمارا نوجوان، اس مسائل سے بھرپور زمانے میں، اسی وقت حقیقی معنوں میں «مرگ بر امریکہ» کہہ سکتا ہے جب وہ باطنی، دینی، اعتقادی لحاظ سے اور خداوندِ متعال و اس کی الٰہی قدرت پر توکل کے اعتبار سے مضبوط ہو۔ وہی نوجوان زمانے کے فرعونوں کی سطوت، طاقت اور دھمکیوں کے مقابل ڈٹ سکتا ہے جس کا دل خدا کے ساتھ جڑا ہو، جو خدا سے مربوط ہو۔ اس رابطے کو محفوظ رکھیں۔ آپ سب نوجوان جو یہاں موجود ہیں، یہ چند ہزار نوجوان، اور ملک کے تمام نوجوان اگر اس نکتے پر توجہ رکھیں تو میرے خیال میں ہم اپنی دنیاوی زندگی میں بھی، ملک کے انتظام و انصرام میں بھی، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی مزید اور بہتر پیش رفت حاصل کریں گے۔
اور اب ۱۳ آبان ( ۴ نومبر)۔ تیرہ آبان کے واقعے اور طلبہ کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے پر قبضے کو دو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے: ایک تاریخی زاویہ، اور دوسرا شناختی زاویہ۔ ایک واقعہ پیش آیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے صحیح طور پر سمجھیں اور درک کریں۔ تاریخی لحاظ سے، بلا شبہ، ملک کے آئندہ تاریخ میں یہ دن ملتِ ایران کے لیے افتخار اور کامیابی کا دن شمار ہوگا؛ اس میں کوئی تردید نہیں۔ یہ وہ دن ہے جب ہمارے نوجوانوں نے ایک ایسی طاقت کے مقابل جرأت دکھائی جس سے دنیا کے سیاست دان خوفزدہ تھے؛ انہوں نے نہ ڈرنے کا ثبوت دیا، دلیل اور جواز کے ساتھ، ایک سبب کی بنا پر سفارت خانے پر قبضہ کیا، جس کی وضاحت میں آگے کروں گا۔ یہ دن افتخار کا دن ہے، کامیابی کا دن ہے۔
ہماری تاریخ میں کامیابی کے دن بھی ہیں اور کمزوری و زوال کے دن بھی، اور دونوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ جب میں اپنی تاریخ کہتا ہوں تو میرا مطلب ہزار یا دو ہزار سالہ تاریخ نہیں، بلکہ اس دور سے ہے جب استعمار وجود میں آیا اور دنیا میں استکبار کا چلن عام ہوا۔ ہمارا ملک بھی اس سے محفوظ نہ رہا اور مختلف واقعات پیش آئے؛ ان میں سے بعض واقعات ملتِ ایران کے لیے اہم، کامیاب اور قوت کے اظہار کے مظہر ہیں، اور بعض واقعات تلخ ہیں جن کی طرف میں آگے اشارہ کروں گا۔
ہمیں اچھے اور خوشگوار واقعات کو بھی ذہن میں محفوظ رکھنا چاہیے، انہیں دہرانا چاہیے اور اپنی قومی یادداشت میں محفوظ رکھنا چاہیے، اور تلخ واقعات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جب ہم عروج اور خوشی کے دنوں کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں اعتمادِ نفس حاصل ہوتا ہے، قوت اور صلاحیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، تمباکو کے استعماری معاہدے کو ناکام بنانے کا واقعہ، جو میرزائے شیرازیؒ کے ذریعے انجام پایا، ایک نہایت اہم واقعہ ہے؛ جب ہم اسے یاد رکھتے ہیں تو ہمیں اپنی صلاحیت کا احساس ہوتا ہے اور یہ سمجھ آتا ہے کہ ہماری ملت اس دور کی سب سے بڑی اور طاقتور قوت، یعنی برطانیہ، پر بھی غالب آ سکتی ہے۔
اسی طرح وثوق الدولہ کے معاہدے کی منسوخی؛ یہ معاہدہ ایسا تھا جو ملک کی ہر چیز انگریزوں کے حوالے کر دیتا تھا۔ چند سرکردہ سیاست دانوں نے رشوت لے کر یہ معاہدہ انگریزوں کے ساتھ دستخط کیا تھا۔ مرحوم سید حسن مدرسؒ اور ان کے ساتھیوں نے جدوجہد کی اور اسے باطل کر دیا۔ چنانچہ اس معاہدے کی منسوخی کا دن ایک خوشی کا دن ہے؛ اس دن انگریزوں کی منصوبہ بندی کو ناکام بنایا گیا۔
اچھا، ان دنوں کو قومی یادداشت میں محفوظ کرنا ایک لازمی کام ہے۔ اب ممکن ہے کہ آپ ان واقعات سے صحیح طور پر واقف نہ ہوں؛ ممکن ہے آپ عزیز نوجوان وثوق الدولہ کے واقعے یا میرزائے شیرازیؒ کے تمباکو کی حرمت کے فتوے کے واقعے کی حقیقت کو ٹھیک طرح نہ جانتے ہوں کہ معاملہ کیا تھا۔ میں نہایت تاکید کرتا ہوں کہ طلبہ کے حلقے، طالبِ علموں کی جماعتیں، بسیجی اجتماعات، اہلِ مطالعہ کے گروہ بیٹھیں، ان موضوعات کا مطالعہ کریں، ان پر بحث کریں اور جانیں کہ اس ملک میں کیا کچھ پیش آیا ہے۔ یہ میری آپ سب کے لیے ایک پُرزور تاکید ہے۔
ہم نے کہا کہ عروج کے واقعات، خوشگوار واقعات، ترقی اور کامیابی کے واقعات کو اس لیے یاد رکھنا چاہیے؛ اور تلخ واقعات کو بھی ذہن میں محفوظ رکھنا چاہیے اور انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہوشیار رہیں اور وہ واقعات ہماری زندگی میں دوبارہ پیش نہ آئیں۔ تلخ واقعات مثلاً کون سے؟ مثلاً سن ۱۲۹۹ھ ش (۱۹۲۱ء) کی رضاخان کی بغاوت؛ ایک بغاوت برپا کی گئی، یعنی انگریزوں نے رضاخان کے ذریعے ایران میں تختہ الٹ دیا۔ وہ بغاوت تین چار سال بعد پہلوی بادشاہت پر منتج ہوئی اور اس کے نتیجے میں وہ تمام مظالم، سختیاں، بے مثال استبداد اور آمریت، اور ملک پر بیرونی تسلط قائم ہوا۔ یہ ایک نہایت تلخ دن تھا۔ ہمیں متوجہ رہنا چاہیے، یاد رکھنا چاہیے، سمجھنا چاہیے کہ اس دن کیا ہوا، کن مقدمات کو فراہم کیا گیا جن کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ ان باتوں کو بھی محفوظ رکھنا اور یاد رکھنا ضروری ہے۔
اچھا، ۱۳ آبان (۴ نومبر) تاریخی نقطۂ نظر سے ایسا ہی ایک دن ہے۔ تیرہ آبان وہ دن ہے جب ہمارے طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کیا۔ یہ ان دنوں میں سے ایک ہے جو ہماری تاریخ میں، ہماری قومی یادداشت میں باقی رہنا چاہیے؛ اسے فراموش نہیں ہونا چاہیے، ہماری قوم کے تمام افراد کو اس سے آگاہ ہونا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ملک میں معلومات کے ذرائع موجود ہیں؛ اس دن کے بہت سے پہلو مختلف کتابوں میں اور ان کتابوں میں جو خاص طور پر اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں، پڑھے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔ یہ تاریخی پہلو تھا۔
لیکن شناختی پہلو کے اعتبار سے، جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ سفارت خانے پر قبضے نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حقیقی شناخت کو آشکار کر دیا، اور اسی طرح اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کی حقیقی اور ذاتی شناخت کو بھی واضح اور نمایاں کر دیا۔ اس واقعے کا شناختی اثر یہی ہے۔ اگرچہ ہم ایرانی پہلے ہی امریکہ کی استکباری فطرت کو پہچانتے تھے؛ ایسا نہیں تھا کہ ہمیں معلوم نہ ہو کہ امریکہ کیا ہے اور کیا کرتا ہے — اس کی وضاحت میں آگے کروں گا — لیکن اس واقعے نے ہمارے لیے اس حقیقت کو اور زیادہ روشن کر دیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ عزیز نوجوان اس مسئلے کی گہرائی تک پہنچیں؛ پوری توجہ اور دقت کے ساتھ اس پر غور کریں۔
میں سب سے پہلے «استکبار» کے مفہوم کی وضاحت کرتا ہوں۔ استکبار سے کیا مراد ہے؟ جب ہم کہتے ہیں «عالمی استکبار» تو استکبار کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ استکبار ایک قرآنی لفظ ہے جو قرآنِ مجید میں استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ شمار کیا گیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے، استکبار اور اس کے مشتقات تقریباً پچاس مرتبہ قرآن میں آئے ہیں۔ استکبار کا مطلب ہے خود کو برتر سمجھنا؛ یہی اس لفظ کا مفہوم ہے۔ یعنی کوئی ریاست، کوئی فرد یا کوئی گروہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے۔ بلاشبہ یہ ایک بری صفت ہے، لیکن لازماً دشمنی کا باعث نہیں بنتی۔ پہلا مستکبر خود ابلیس تھا؛ جب خدائے متعال نے فرمایا کہ میں آدم کو پیدا کرنے والا ہوں تو اس نے کہا: میں آدم سے بہتر ہوں، میں اسے سجدہ نہیں کروں گا، اور یوں ہمیشہ کے لیے اس پر لعنتِ الٰہی مسلط ہو گئی۔
استکبار یعنی خودبرتربینی؛ لیکن خودبرتربینی کی دو قسمیں ہیں:
ایک یہ کہ کوئی فرد یا کوئی ریاست اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے مگر دوسروں سے چھیڑچھاڑ نہ کرے۔ یہ بھی اچھی صفت نہیں، استکبار بہرحال برا ہے، لیکن اس سے دشمنی اور خصومت پیدا نہیں ہوتی؛ محض ایک اخلاقی برائی رہتی ہے۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ریاست، کوئی فرد یا کوئی گروہ، کوئی جابر طاقت، اپنے آپ کو برتر سمجھ کر یہ حق اپنے لیے جائز سمجھے کہ دوسروں کو دھکے دے، دوسروں کے حیاتی مفادات پر ہاتھ ڈالے اور دوسروں کے لیے فیصلے کرے۔ یہی وہ استکبار ہے جو سراسر برا اور قابلِ مذمت ہے۔
مثلاً ایک ریاست — فرض کیجیے کسی دور میں برطانیہ اور آج امریکہ — اپنے آپ کو یہ حق دیتی ہے کہ کسی ایسے ملک میں جہاں مضبوط حکومت نہ ہو اور باخبر عوام نہ ہوں، کئی فوجی اڈے قائم کرے، اپنے لیے سہولتیں پیدا کرے، ان کا تیل لے جائے، ان کے مفادات لوٹے اور ان کے زیرِزمین وسائل کو غارت کرے۔ یہی استکبار ہے؛ وہی استکبار جس کے ہم مخالف ہیں، جس کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں اور جس کے خلاف ہم نعرہ لگاتے ہیں۔
اچھا، ہمارے ملک کو امریکی ریاست کے استکبار کا سامنا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے (۱۹۳۹ء–۱۹۴۵ء) امریکہ ایسی ریاست نہیں تھا جو ہر ایک میں مداخلت کرتی پھرے؛ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اسی معنی میں ایک مستکبر ریاست بن گیا جس کی میں نے وضاحت کی: ہر جگہ دخل اندازی، ہر جگہ ہاتھ ڈالنا، ہر جگہ گھس جانا، اور جہاں اس کے مفادات کا تقاضا ہو، کسی بھی ذریعے سے — کبھی سختی اور غصے سے، کبھی مسکراہٹ سے، کبھی زور سے، کبھی رشوت کے ذریعے — اپنے مفادات کو قوموں کے مفادات پر غالب کرنا۔ یہ ہے امریکہ کی حالت۔
یہی امریکہ اس دور میں — یعنی سن ۱۳۵۶–۱۳۵۷ھ ش (۱۹۷۷–۱۹۷۸ء) کے زمانے میں، جس پر ہماری گفتگو مرکوز ہے — اسلامی انقلاب کے نتیجے میں جمہوریۂ اسلامی کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ البتہ ہم ایرانی امریکہ کے ماضی سے واقف تھے؛ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس کی استکباری خصلت کو نہ پہچانتے ہوں۔ نہیں، ہم امریکہ کو ۲۸ مرداد سے پہچان چکے تھے۔
۲۸ مرداد ۱۳۳۲ھ ش (۱۹ اگست ۱۹۵۳ء) ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔ دیکھئے، میں ۲۸ مرداد کے بارے میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں: آج بھی بہت سے لوگ اس بغاوت (کودتا) کی اہمیت اور اس زبردست ضرب کو نہیں جانتے جو اس نے ایران کو لگائی؛ بس اتنا جانتے ہیں کہ ۲۸ مرداد کو ایک بغاوت ہوا تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مشروطہ کے بعد سے تقریباً چالیس برس تک، ہمارا ملک یا تو بدامنی اور انتشار کا شکار رہا، یا غیر ملکی ریاستوں کی مداخلت میں جکڑا رہا، یا پھر رضاخان کی سخت اور بے رحم آمریت اور استبداد تلے دبا رہا؛ تقریباً ۴۲ برس تک۔ یعنی ایرانی قوم ان دہائیوں میں اسی کیفیت میں زندگی بسر کرتی رہی۔
پھر سن ۱۳۲۸–۱۳۲۹ھ ش (۱۹۴۹–۱۹۵۰ء) کے لگ بھگ ملک میں کچھ اہم واقعات پیش آئے اور خدا کے لطف و کرم سے پہلی مرتبہ ایک قومی حکومت وجود میں آئی؛ یعنی ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت۔ یہ ایک حقیقی قومی حکومت تھی۔ اس حکومت نے انگریزوں کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہونے کا حوصلہ کیا — جبکہ اس وقت برطانیہ عملاً دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور قوت سمجھا جاتا تھا — اور ملک کے تیل کو، جو تقریباً مفت کے برابر انگریزوں کے قبضے میں تھا، ان سے واپس لے کر قومی قرار دیا؛ یعنی اسے اپنی قومی حکومت کے اختیار میں دے دیا۔ اس طرح ملک میں ایک قومی حکومت قائم ہوئی۔
سن ۱۳۲۹ھ ش سے سن ۱۳۳۲ھ ش (۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۳ء) تک کے ان تین برسوں میں، برطانیہ اور اس کے حامیوں کی سازشوں نے اس قومی حکومت پر شدید دباؤ ڈالا تاکہ اس حکومت کو ناکام بنا دیا جائے۔ ڈاکٹر مصدق سے اس مرحلے پر ایک سادہ لوحی اور ایک غفلت سرزد ہوئی؛ انہوں نے یہ سوچ کر کہ شاید وہ خود کو برطانیہ کے شر سے نجات دلا سکیں، امریکہ کا رخ کیا اور امریکہ سے مدد طلب کی۔ امریکیوں نے بھی ان کی طرف مسکراہٹ کے ساتھ رخ کیا۔ اس وقت ٹرومین کے اصلِ چہارم اور اس قسم کے دیگر واقعات کا پس منظر بھی موجود تھا، جس کی بنا پر مصدق یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ امریکہ ان کی مدد کرے گا۔
امریکیوں نے بظاہر مصدق کو مسکراہٹ دکھائی، لیکن پسِ پردہ، مصدق کی اسی غفلت اور عدم توجہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہوں نے انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا، ایک بغاوت برپا کی اور اس حکومت کو — جو چالیس برس بعد ملک میں قائم ہوئی تھی اور ایک حقیقی قومی حکومت تھی — گرا دیا، اور شاہ کو جو ملک سے فرار ہو چکا تھا، دوبارہ واپس لے آئے۔ یہ ایرانی قوم کے لیے ایک بہت سخت ضرب تھی۔
اٹھائیس مرداد ۱۳۳۲ھ ش (۱۹ اگست ۱۹۵۳ء) کا مطلب یہی ہے: یعنی ایک ایسی حکومت کو، جو عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئی تھی، جو برطانوی استعمار اور غیر ملکی تسلط کے تابع نہیں ہونا چاہتی تھی اور ایک خودمختار قومی حکومت بننا چاہتی تھی، امریکیوں نے مختلف قسم کے فریبوں اور چالوں سے سرنگوں کر دیا اور مٹا دیا۔ امریکیوں نے ایرانی قوم کو ایک زبردست صدمہ پہنچایا۔ یہ ہے اٹھائیس مرداد کا واقعہ۔
ایرانی قوم نے اسی وقت سے امریکہ کو پہچان لیا تھا؛ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ امریکہ اس ملک کے لیے کس قدر خطرناک وجود ہے۔ لہٰذا ہم امریکہ کو اٹھائیس مرداد سے جانتے تھے؛ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب بغاوت ہو گئی، محمدرضا — جو فرار ہو چکا تھا — کو واپس لایا گیا، اور اس کے بعد پچیس برس تک اس کی سخت، جابر اور بے رحم آمریت قوم پر مسلط رہی، تو ان تمام مراحل میں امریکہ محمدرضا کا مددگار، اس کا پشت پناہ اور اس کے لیے حوصلے کا سہارا بنا رہا۔
اب یہی ایرانی قوم کا حقیقی دشمن یہاں سفارت رکھتا تھا؛ یعنی امریکہ۔ جب انقلاب برپا ہوا تو سب سے پہلی مخالفت انقلاب کی امریکیوں ہی نے کی۔ امریکی سینیٹ میں ایرانی قوم اور انقلاب کے خلاف ایک دشمنانہ قرارداد منظور کی گئی۔ اس کے بعد محمدرضا کو امریکہ میں داخلے کی اجازت دی گئی؛ بظاہر اسے علاج کے بہانے ایک اسپتال میں رکھا گیا، لیکن سیاسی اور خفیہ اداروں کے ذریعے اس سے روابط برقرار رکھے گئے۔
ایرانی قوم نے یہ سب سمجھ لیا۔ لوگ سخت غصے میں آ گئے؛ سڑکوں پر امریکہ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ اٹھائیس مرداد کی سازش دوبارہ دہرائی جانے والی ہے؛ انہیں محسوس ہوا کہ محمدرضا کو وہاں لے جانا، اسے دوبارہ ایران واپس لانے کی تمہید ہے، ان تمام طریقوں کے ساتھ جو امریکیوں کے پاس موجود ہیں۔
لوگ غصے میں سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرے کیے؛ ان مظاہروں کا ایک حصہ طلبہ کی تحریک تھا، جو سفارت خانے میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کر لیا۔ البتہ یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ طلبہ کا ارادہ سفارت میں ٹھہرنے کا نہیں تھا؛ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ دنیا تک یہ بات پہنچ جائے کہ ایرانی قوم، شاہ کو امریکہ میں پناہ دیے جانے پر کس قدر برہم ہے۔ بس یہی مقصد تھا۔ وہ دو تین دن وہاں رہ کر باہر آنے کا ارادہ رکھتے تھے؛ یہی طلبہ کا ابتدائی فیصلہ تھا۔
لیکن جب وہ سفارت کے اندر داخل ہوئے تو انہیں ایسے دستاویزات ملیں جن سے واضح ہوا کہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ یہ صرف امریکی سینیٹ کی کسی قرارداد کا مسئلہ نہیں تھا؛ بلکہ امریکی سفارت خانہ انقلاب کو ناکام کرنے کی سازشوں اور منصوبہ بندی کا مرکز بن چکا تھا۔ یعنی وہاں عملی طور پر سازشیں تیار کی جا رہی تھیں۔ اس وقت سفارت خانہ، سفارت خانہ نہیں رہا تھا۔
دنیا بھر میں سفارت خانے معلومات جمع کرتے ہیں اور اس ملک کے حالات کی رپورٹ اپنے ملک کو بھیجتے ہیں؛ یہ ایک معمول کی بات ہے۔ مسئلہ امریکی سفارت خانے کا یہ نہیں تھا؛ مسئلہ یہ تھا کہ وہ انقلاب کے خلاف سازش کا کمرہ بن چکا تھا: لوگوں سے رابطے، انہیں اکسانا، تنظیمیں بنانا، سابقہ طاغوتی نظام کے ناراض اور بچے کھچے عناصر کو استعمال کرنا، اور اگر ممکن ہو تو فوج کے بعض حصوں کو اکٹھا کر کے انقلاب کے خلاف اقدام کرنا۔ طلبہ نے جب اس حقیقت کو سمجھ لیا، تو اس کے بعد انہوں نے سفارت خانے کو اپنے قبضے میں برقرار رکھا۔
یہ کہنا کہ “سفارت پر قبضہ کیوں کیا گیا؟ ہماری امریکہ سے دشمنی یہیں سے شروع ہوئی”—میرے نزدیک یہ بات درست اور دقیق نہیں ہے۔
اوّل تو یہ کہ ہماری امریکہ سے مخالفت تیرہ آبان ۱۳۵۸ھ ش (۴ نومبر ۱۹۷۹ء) سے پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اٹھائیس مرداد ۱۳۳۲ھ ش (۱۹ اگست ۱۹۵۳ء) سے پیدا ہوئی؛ ایرانی قوم کی امریکہ سے مخالفت اسی وقت کی ہے۔
ثانیاً، تیرہ آبان درحقیقت انقلاب کے خلاف ایک عظیم سازش اور ایک بڑے خطرے کی نقاب کشائی تھی، جو طلبہ نے انجام دی؛ اللہ ان کو جزائے خیر دے! انہوں نے بڑی مشقّت کے ساتھ ان دستاویزات کو جمع کیا اور جو کاغذات مشینوں میں کاٹ دیے گئے تھے، انہیں جوڑ جوڑ کر اس نتیجے تک پہنچے کہ سفارت کے اندر اصل میں کیا ہو رہا ہے۔
امریکہ انقلاب کو برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس لیے کہ انقلاب نے ایک نہایت قیمتی اور لذیذ نوالہ امریکہ کے حلق سے کھینچ لیا تھا۔ ایران ایک بے مثال طعمہ تھا جو امریکہ کے قبضے میں تھا: پورا ملک اس کے زیرِ تسلط تھا؛ وہ اس کا تیل لے جاتا تھا، اس کے زیرِ زمین وسائل لوٹتا تھا، اس کی سہولتیں اور دولت لے جاتا تھا، اور اپنی مرضی کی اشیا جس قیمت پر چاہتا تھا، ایران کے کھاتے میں بیچ دیتا تھا۔ اب یہ سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ انقلاب امریکہ کے مقابل کھڑا ہو گیا تھا۔
امریکہ اس بات پر آمادہ نہیں تھا کہ اتنی آسانی سے ہاتھ کھینچ لے، لہٰذا سازشوں کا آغاز ہوا، اور انقلاب کے اوّل دن ہی سے امریکہ نے اپنی اشتعال انگیز کارروائیاں ایرانی قوم کے خلاف شروع کر دیں—صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف نہیں، بلکہ پوری قوم کے خلاف۔ پہلے تعلقات منقطع کیے—اور یہ قطعِ تعلق پہلے امریکہ کی طرف سے ہوا—پھر پابندیاں لگائیں، پھر یکے بعد دیگرے مختلف اقدامات کیے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص ان برسوں میں امریکہ کے کیے ہوئے کاموں کو یاد رکھے اور فراموش نہ کرے، وہ بخوبی سمجھ لیتا ہے کہ امامِ خمینی رح کا یہ فرمان کہ “جو کچھ چلانا ہے، امریکہ کے خلاف چلاو” کس قدر برحق تھا۔
امریکہ کی ایران سے دشمنی محض زبانی دشمنی نہ تھی، نہ صرف پابندیوں تک محدود تھی؛ بلکہ یہ عملی دشمنی تھی۔ جہاں تک اس کے بس میں ہوا، امریکہ نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کیں؛ جہاں تک ممکن ہوا، اسلامی جمہوریہ کے فطری دشمنوں کی مدد کی؛ اور جہاں تک اس کی دسترس پہنچی، اس نے ایرانی قوم کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔
امریکہ کی استکباری ماہیت اور انقلاب کی استقلال پسند فطرت آپس میں کبھی سازگار نہیں ہو سکتی تھیں۔ میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ اور امریکہ کا اختلاف کوئی وقتی یا حکمتِ عملی کا اختلاف نہیں، بلکہ ایک فطری اور بنیادی اختلاف ہے۔
جب امریکہ کو موقع ملتا ہے تو وہ ایران کے مسافر طیارے کو تین سو مسافروں سمیت سمندر میں مار گراتا ہے؛ جب موقع ملتا ہے تو صدام جیسے شخص کو ایران پر حملے کے لیے اکساتا ہے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرتا ہے؛ جب موقع ملتا ہے تو براہِ راست فوجی حملہ بھی کرتا ہے؛ جب موقع ملتا ہے تو تبلیغی، نفسیاتی اور سیاسی یلغار میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ اسلامی جمہوریہ اور امریکہ کے مابین مقابلہ اور آمنا سامنا یہی ہے۔
بعض لوگ تاریخ کو الٹا لکھتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ اور امریکہ کے اختلاف کو آپ کے “مرگ بر امریکہ” کے نعروں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں! یہ سراسر سادگی ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ چونکہ ایک قوم “مرگ بر امریکہ” کا نعرہ لگاتی ہے، اس لیے امریکہ اس سے دشمنی کرتا ہے۔ نہیں؛ نعرہ اس قدر بڑا مسئلہ نہیں کہ امریکہ محض اس بنا پر ایران سے ٹکر لے۔
اصل مسئلہ فطری ناسازگاری اور دو متضاد رجحانات کے مفادات کا ٹکراؤ ہے: ایک طرف امریکہ کا دھارا، اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ کا دھارا۔
بعض لوگ پوچھتے ہیں: اچھا آقا! اب جب ہم نے امریکہ کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کیا، تو کیا ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھی امریکہ سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے؟ کیا ابد تک امریکہ کی مخالفت ہی کرتے رہیں گے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو امریکہ کی استکباری فطرت تسلیم محض کے سوا کسی اور چیز کو قبول ہی نہیں کرتی۔ یہ بات امریکہ کے تمام صدور دل میں چاہتے تھے مگر زبان پر نہیں لاتے تھے؛ لیکن موجودہ صدرِ امریکہ نے اسے کھل کر زبان پر لا دیا اور کہا کہ ایران کو تسلیم ہونا چاہیے۔ درحقیقت اس نے امریکہ کے باطن کو عیاں کر دیا۔
ایک قوم کا تسلیم ہو جانا—وہ بھی ایران جیسی قوم، جس کے پاس اتنی صلاحیتیں، اتنی دولت، فکری و معرفتی تاریخ، اور اتنے بیدار و پُرجوش نوجوان ہوں—آخر اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
ہم دور دراز مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ نہیں لگا سکتے، لیکن یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ اس وقت بہت سے مسائل کا علاج “طاقتور بننا” ہے۔ ملک کو مضبوط بنانا ہوگا۔ حکومت اپنے دائرۂ اختیار کے مختلف شعبوں میں کام کو پوری قوّت سے انجام دے؛ مسلّح افواج اپنے میدان میں پوری قوّت کے ساتھ اپنا فریضہ ادا کریں؛ اور نوجوان تعلیم اور سائنسی پیش رفت کو پوری قوّت کے ساتھ آگے بڑھائیں۔
اگر ملک طاقتور ہو جائے اور دشمن یہ محسوس کرے کہ اس مضبوط قوم سے ٹکر لینے میں نہ فائدہ ہے بلکہ نقصان ہے، تو بلا شبہ ملک کو تحفّظ اور مصونیّت حاصل ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ فوجی قوّت ضروری ہے، سائنسی قوّت ضروری ہے، ملکی نظم و نسق اور انتظامی قوّت ضروری ہے؛ یہ سب کام انجام پانے چاہئیں۔ اسی طرح آپ نوجوانوں کی حوصلہ مندی اور جذبہ بھی ضروری ہے؛ اس جذبے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، اس روحیہ کو برقرار رکھیں۔
امریکی کہتے ہیں—اگرچہ ہمیشہ نہیں، کبھی کبھی—کہ ہم ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں؛ مگر ایران کے ساتھ تعاون، ملعون صہیونی رژیم کے ساتھ امریکہ کے تعاون اور مدد کے ساتھ کسی طرح سازگار نہیں ہے۔
آج جس طرح کے حالات سب دنیا نے دیکھے، سمجھے اور اس صیہونی حکومت کی مذمّت کی، اس کے باوجود امریکہ صہیونی نظام کی مدد کرتا ہے، اس کی پشت پناہی کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ایران کے ساتھ ہم آہنگی کی بات بے معنی اور ناقابلِ قبول ہے۔
ہاں، اگر امریکہ صہیونی نظام کی مکمل حمایت چھوڑ دے، اپنے فوجی اڈے اس خطّے سے سمیٹ لے اور اس علاقے میں مداخلت سے باز آ جائے، تو اس وقت ان امور پر غور کیا جا سکتا ہے؛ لیکن یہ نہ آج کا معاملہ ہے اور نہ ہی مستقبلِ قریب کا۔
میں آپ عزیز نوجوانوں سے جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ: اوّل، اپنی معرفت، آگاہی اور معلومات کو ملک کے آج، کل اور آنے والے کل کے بنیادی سیاسی مسائل کے بارے میں بڑھائیں۔ یہی معرفتی حلقے جن کا میں نے ذکر کیا—ملک کے ماضی، پیش آنے والے واقعات، جہاں ہم نے نقصان اٹھایا، جہاں فائدہ حاصل کیا، جہاں کمزوری دکھائی، جہاں قوّت دکھائی—ان سب کے نتائج کا حقیقی معنوں میں جائزہ لیں۔
اس کے بعد علم کا میدان ہے: ملک میں سائنسی ترقی ہونی چاہیے۔ چند سال پہلے ہماری سائنسی رفتار بہت اچھی تھی، اب کچھ کمی آئی ہے۔ میں ملک کی جامعات کے ذمہ داروں، محقّقین اور طلبہ سے کہتا ہوں کہ سائنسی پیش رفت کی رفتار کو کم نہ ہونے دیں؛ یہ رفتار ہمارے لیے ناگزیر ہے۔
ملک کو سائنسی لحاظ سے بھی آگے بڑھنا ہے اور فوجی لحاظ سے بھی—اور خدا کے فضل سے ہماری مسلّح افواج دن رات محنت کر رہی ہیں اور ان شاء اللہ اس سے بھی آگے بڑھیں گی۔ اللہ کے فضل سے یہ ملک ثابت کر دے گا کہ یہ ایک طاقتور قوم ہے، اور کوئی طاقت اپنی ساری توانائیوں کے باوجود ایرانی قوم کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کر سکے گی اور نہ ہی اسے گھٹنے ٹیکنے پر لا سکے گی۔ خداوندِ متعال بھی مدد فرمائے گا۔
اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریں؛ نماز کے ذریعے، قرآن کے ذریعے، دینی حقائق سے انس کے ذریعے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کریں، اور ان شاء اللہ اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے ایک بہتر کل کی بنیاد رکھیں۔
والسّلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ
1۔ قرارداد نمبر 164 کی طرف اشارہ جو 18 مئی 1979 کو ایران کے خلاف صادر ہوئی۔
2۔ صحیفہ امام ، جلد 11 صفجل 121 تہران میں پاسداران کے اجتماع سے خطاب 25 نومبر1979
3۔ 3 جولائی 1988 کو ایران کا مسافر طیارہ بندر عباس سے دبئی جارہا تھا کہ خلیج فارس میں امریکی جنگی بیڑے ونسنس سے داغے گئے ایک میزائل کا نشانہ بنا اور 66 بچوں نیز 53 خوتین سمیت اس طیارے کے 290 مسافر شہید ہوگئے۔ کچھ دن کے بعد امریکی حکومت نے ونسنس جنگی بیڑے کے کمانڈر ولیئم راجرز کو شجاعت کا ایوارڈ دیا۔
4۔ ڈونلڈ ٹرمپ
