ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کااہلبیت(ع) کی عالمی اسمبلی کے چوتھے سالانہ اجلاس سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس اجلاس کے محترم مہمان شرکا کوہم خوش آمدید کہتے ہیں اسی کے ساتھ اعیاد شعبانیہ؛ حضرت اباعبداللہ (ع)، حضرت سجاد(ع)، حضرت ابوالفضل(ع) اورحضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کے ایام ولادت کی آپ سب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

اہلبیت کونسل سے منسلک آپ عزيز برادران وخواہران کی نشستوں کا محورنہایت ہی باعظمت ذوات یعنی پیغمبراسلام (ص)کے اہلبیت(علیھم السلام) ہیں ان کی عظمت قرآن نے بھی واضح کی ہے " انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا" اوران سے متعلق پیغمبراسلام (ص) کی صریح اورناقابل انکار احادیث بھی موجود ہیں ایک معروف حدیث کا نام حدیث ثقلین ہے جس میں عترت کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے " انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی" یہ مسلمانوں کے درمیان متواتراحادیث میں سے ہے اسی طرح ایک اورمعروف حدیث ہے شاید یہ بھی مسلمانوں میں متواتر ہو " مثل اھلبیتی کمثل سفینۃ نوح من رکبھا نجا ومن ترکھا غرق" اس طرح کی اور بھی بہت سی روایات ہیں۔

اس اجلاس کا محوریہی باعظمت ہستیاں اور ذوات مقدسہ ہیں کچھ نواصب وغیرہ کوچھوڑکرسبھی مسلمان اہلبیت(علیھم السلام) سے محبت رکھتے ہیں اہلبیت پیغمبر(علیھم السلام)سے سبھی محبت کرتے اوران کے علم وعمل کی بلندیوں کے سبھی قائل ہیں لیکن شیعہ وہ لوگ ہیں جن کی زیارت جامعہ کے الفاظ میں " معروفین بتصدیقنا ایاکم" پہچان ہی یہی ہے کہ یہ ائمہ (علیھم السلام) کے پیروکارہیں، ان کی تصدیق کرنے والے ہیں، ان کی روحانی بلندیوں کا اقرارکرتے ہیں، امت مسلمہ اورجانشینی پیغمبر(ص)کے ذیل میں ان کے الگ مقام ومنزلت کے قائل ہیں جب اس اجلاس کا محور یہ ذوات مقدسہ ہیں تواس کی سطح اورعظمت واہمیت بڑھ جاتی ہے نیز اجلاس کی ذمہ داریاں بھی اہم ہو جاتی ہیں ہم کیوں اکٹھا ہوتے ہیں ہمیں واضح طور پر طے کرنا ہوگا ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہم کس چیز کی تلاش میں ہیں۔

اس وقت عالم اسلام کو اہلبیت(علیھم السلام) کے پیغام کی ضرورت ہے اہلبیت(علیھم السلام) کے پیرو، اہلبیت(علیھم السلام) کونسل اورشیعہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی اہلبیت(علیھم السلام) کی آوازیں اختلاف ڈالنے والی چیز نہیں ہے جیسا کہ ایک طرف کچھ تنگ نظر اوردوسری طرف کچھ گھٹیا اغراض و مقاصد کے حصول میں کوشاں لوگ سوچتے اورمستقل پروپیگنڈہ کرتے ہیں یہ منفی نہیں مثبت پوائنٹ ہے مکتب اہلبیت(علیھم السلام)کے حقائق وتعلیمات کی آج دنیائے اسلام محتاج ہے۔ صحیفہ مبارکہ سجادیہ کودیکھئے امام سجاد (ع) کی ولادت کے موقع پر اس باعظمت کتاب کی طرف توجہ زیادہ ضروری ہے افکار اہلبیت (علیھم السلام) کا خلاصہ اور نچوڑ اس میں موجود ہے اس صحیفہ میں گہراایمان، ابہامات سے دورواضح عرفان، مبدء عظمت، معبود اورذات اقدس الہی کی طرف پوری توجہ، عام لوگوں، مسلمانوں اورانسان سے مربوط دیگرافراد کے مسائل ومشکلات کی طرف توجہ اوراسلام وصدراسلام کے فخریہ کارنامے موجزن ہیں یہ عارفانہ، عاقلانہ اورعاشقانہ زندگی کی کتاب ہے ایک طرف یہ بحربے کراں اور دوسری طرف روایات اہلبیت(علیھم السلام) کا موجیں مارتا دریاہے اس وقت عالم اسلام ان چیزوں کا محتاج ہے۔

ہم اگر اہلبیت (ع)کے نام پر اکٹھا ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے گرد دیوار اٹھا کر خود کو دوسرے مسلمانوں سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہیں بلکہ اس اجلاس کا مقصد مسلمان مفکرین کو ایک نئے افق کا تعارف کرانا اور ان کے سامنے ایک نیا دریچہ کھولنا ہے تاکہ وہ جدید حقائق دیکھ سکیں یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

سب سے پہلے اہلبیت(علیھم السلام) کے ماننے والے خود ان تعلیمات کی عظمتوں کے معترف ہوں، اپنے پاس موجود اس گران بہا گوہر کی اہمیت کاخود اندزہ لگا لیں تاکہ اسے دوسروں کے سامنے پیش کر سکیں اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا کرلیں کہ جس بازار میں ہر طرح کا مال بکتا ہے وہاں اس گرانبہا گوہرکی بھی نمائش لگائیں اور اسے دوسروں کو دکھائیں۔

اہلبیت(ع) کونسل کی ذمہ داری یہ ہے: پہلی بات اہلبیت (ع)کی پیروی پر فخر اورعزت کا احساس! ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ان ذوات مقدسہ کو پہچانا ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم اہل بیت پیغمبر(علیھم صلوات اللہ) کےبلند درجات سے غافل نہ رہے خدا نے ہماری ہدایت کی اورہم نے بھی انہیں سمجھا اورپہچانا اوردوسری بات یہ احساس کہ ہمیں یہ حقائق دنیا والوں کے سامنے رکھنا ہیں لیکن اس کا طریقہ وہی ہونا چاہئے جو خود آئمہ کا طریقہ تھا اس کام میں تنگ نظری اور لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہئے اورنہ ہی ان گرانبہا موتیوں کے ساتھ کنکر،پتھر اورخرافات مخلوط کئے جائیں، اس وقت ایک مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں دینی تعلیمات سے خرافات کا گرد وغبارجھاڑنا ہے مجموعی طور پر منجملہ اہلبیت (ع)کی معرفت اور ان کی تعلیمات کے سلسلہ میں یہ پریشانی ہے لیکن یہ علماء اورممتاز افراد کا کام ہے یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے لہذا علما اورماہرین کی ذمہ داری اس کے پیش نظر بڑھ جاتی ہے جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ" اہلبیت(ع) کے کلام کی خوبیاں لوگوں تک منتقل کیجئے" اس لئے کہ " لوعلمواالناس محاسن کلامنا " اگرلوگ کلام اہلبیت (ع) کے محاسن دیکھ لیں تو خود بخود ان کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آئیں گے اس وقت یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

اسلامی فرقوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی پرانی، گہری اورخطرناک سازشیں اب بھی ہورہی ہیں اس وقت شیعہ سنی اختلاف کی بات ہورہی ہے لیکن ان کا مقصد صرف شیعہ سنی کو آپس میں لڑا کے بات ختم کرنا نہیں بلکہ ان دونوں فرقوں کے ذیلی کلامی، فقہی اور اصولی فرقوں کو بھی یہ لوگ ایک دوسرے کےمقابل لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ سب ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوں اورایک دوسرے خلاف اثھ کھڑے ہوں چیخیں چلائیں، دشمن یہی چاہتا ہےاور خاص طورپر برطانیہ اس کام میں ماہر ہے انہیں بڑا پرانا تجربہ ہے کئی سال سے دسیوں سال بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں سے یہ لوگ اس پر کام کر رہے ہیں لہذا انہیں اچھی طرح اس کام کا پتہ ہے انہیں وہ کمزور پوائنٹ بھی پتہ ہیں جنہیں اچھال کے اختلاف کی آگ لگائی جا سکتی ہے اس وقت بھی وہ پوری شد ومد سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس وقت صرف برطانیہ والے ہی یہ کام نہیں کر رہے بلکہ امریکہ و اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اختلافات کو اور گہرا کرنے کے لئے افواہیں پھیلاتی ہیں کسی سنی ملک کے سربراہ سے اس طرح بات کرتے ہیں کہ اسے یہ احساس ہوجائے کہ اس کے سر پر شیعوں کا خطرہ منڈلا رہا ہے اس طرف شیعہ معاشرہ(شیعہ ملک کے حکام اوردیگرجس جس ملک میں شیعہ رہتے ہیں اس کے حکام) سے اس طرح بات کرتے ہیں کہ انہیں احساس ہو کہ اہلسنت ان کے لئے خطرہ ہیں وہ ان کی ہستی و وجود کو مٹانے کےدرپے ہیں ان کا کام ہی یہی ہے ماضی میں عین اسی طرح ہوتا رہا ہے تاریخ میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں آج بھی اس کے نمونے نظرآرہے ہیں کسی سنی حکمراں سے کہتے ہیں تم بیٹھے ہی رہو ایرانی آکر تمہارے ملک کے دو تین دیہاتوں کو شیعہ کرکے چلے گئے ہیں یہاں بھی آکے ہم میں سے بعض سے کہتے ہیں تم بیٹھے ہی رہنا وہ لوگ آکر تمہارے ملک میں دو تین دیہاتوں کو سنی بنا کے چلے گئے ہیں یہ دشمن کی حرکت ہے اسے سمجھنا چاہئے۔

اختلاف ایجاد کرنے کا ایک مقصد ہمیں متحد ہونے سے روکنا ہے تاکہ جس اتحادکا نام سن کرلالچی مستکبروں کے دل لرز جاتے ہیں یعنی پوری امت مسلمہ کا عظیم اتحاد وہ عملی شکل نہ اختیارکرپائے چونکہ امت مسلمہ کاحقیقی معنی میں امت بن جانا استعماریوں، للچائی نظروں سے دیکھنے والوں اوراس علاقہ سے اپنے مفادات کو پورا کرنے کے خواہشمندوں کو سخت لرزہ براندام کرتا ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ ایسا کبھی ہو ہی نہ پائے۔

ایرانی قوم کے قیام اوراس ملک میں پرچم اسلام سر بلند کئے جانے کے بعد اختلاف ایجاد کرنے کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک اور وجہ یہ بن گئی ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ کہیں اصل اسلامی افکار؛ جہاد والا اسلام، استقلال اور غیر وابستگی کی تعلیم دینے والا اسلام، اپنی عزت اور تشخص کی حفاظت کی تعلیم دینے والا اسلام وہ اسلام کہ جو امت مسلمہ پرغیروں اوردشمنوں کا قبضہ کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرتا اوراسے گناہ سمجھتا ہے ایسا اسلام ایران سے نکل کے دوسرے اسلامی علاقون میں نہ سرایت کر جائے جس سے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے لہذا اسلامی ایران اور دنیا کے دیگر تمام اسلامی ممالک کے درمیان اختلاف ایجاد کرنا چاہتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ جن افکار نے ایرانی قوم کو بیدار کردیا جو طاغوتی دور میں ان کے قبضہ میں تھی انہیں میدان کی راہ دکھا دی، جہاد اور لڑائی کے لئے تیار کردیا، ان کے دل سے خوف نکال دیا انہیں بین الاقوامی سطح کے وسیع میدان کارزار میں کیھنچ لیا اور پھر ہر مرحلہ پر کامیابی دلا کر واپس کیا ایسے افکار عالمی سامراجی طاقتوں اوران لوگوں کے لئے جنہوں نے مشرق وسطی اور یہاں کے تیل اوردیگر ذخائرکے لئے پلاننگ کررکھی ہے بہت خطرناک ثابت ہوں گے لہذا وہ ان افکار کو دوسرے علاقوں تک منتقل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں کوششیں بہت کرچکے ہیں لیکن اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ان کی کوششوں کے برخلاف شروع سے آج تک اسلامی انقلاب کے افکار دنیا والوں کے دلوں میں گھر کرتے جا رہے ہیں اتنے پروپیگنڈہ اور تخرب کاریوں کے باوجود یہ صورتحال ہے ہاں اگر ان کا پرو پیگنڈۃ نہ ہوتا تو حالات دوسرے ہوتے اسی بنا پر اس وقت اسلامی نظام اوراسلامی جمہوریہ کے خلاف جم کر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اسی مقصد سے تشیع کے خلاف بھی پروپیگنڈہ ہو رہا ہے جو لوگ پیروان اہلبیت(ع) کے بطورمیدان میں اترنا اور کام کرنا چاہتے ہیں انہیں یہ سارے حقائق مد نظر رکھ کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔

عزیز بھائیو اوربہنو! آپ نے بہت بڑا کام اپنے سر لے رکھا ہے اہلبیت(ع) کونسل نے اپنے لئے بہت بڑی ذمہ داریاں معین کی ہیں جگہ جگہ سمیناروں کا انعقاد وغیرہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں آپ کا اصل کام انہیں سرگرمیوں کے توسط سے عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کو مکتب اہلبیت(ع) کا تعارف کرانا ہے اس لئے کہ اس وقت پوری دنیا معنویت کی محتاج ہے اورمعنویت اسلام کے پاس ہے اسلام میں جامع اور مکمل معنویت اس مکتب کے پاس ہے جسے مکتب اہلبیت (ع)کہا جاتا ہے ایسی معنویت جس میں گوشہ گیری نہیں ہے ، ایسی روحانیت جوزندگی سے الگ نہیں ہے، ایسی روحانیت جوسیاست کے بھی ساتھ ساتھ ہے اورعرفان کے بھی ساتھ ساتھ، ایسی روحانیت جس میں سماجی سرگرمیاں بھی ہیں، ایسی روحانیت جس میں خدا کے سامنے تضرع اور گریہ بھی ہے اور اس کی راہ میں جہاد بھی، اسلام میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن شیعہ تعلیمات میں جھلک رہی ہیں اسلامی ایران کی معاصر تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں دیکھی گئی ہیں تو یہ ہمارا اصل فرض ہے۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ حق و باطل کے درمیان چھڑی موجودہ جنگ میں اسلام ،اسلامی تعلیمات اوراسلامی بیداری کوشیطان اکبریعنی امریکی حکومت اوراس کے حواریوں پر فتح حاصل ہوگي کامیابی حق ہی کی ہوگی اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے سارے قرائن یہی کہہ رہے اوراسی پرتاکید کر رہے ہیں سنت الہی بھی یہی ہے اس کے علاوہ سنت الہی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے حق کا طرفدار گروہ اگرقیام کرے گا تو اسے باطل گروہ پر یقیناً کامیابی حاصل ہوگی سنت الہی حق کو مستحکم کرتی ہے اورتاریخ میں جاری سنتہائے الہی کودیکھ کرتوقع بھی یہی ہے ہم یہ سب تجربات کی روشنی میں بھی دیکھ رہے ہیں دنیا میں اس وقت کی اسلامی بیداری کا اگر بیس سال قبل سے موازنہ کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ اسلامی بیداری بیس سال کے مقابلہ میں آج کہیں زیادہ ہے خاص طور سے آپ اسلامی جمہوریہ کو دیکھئے اس کا آج سے بیس سال قبل سے موازنہ کیجئے توآپ کو نظر آئے گا کہ اس نے سائنس، ٹیکنالوجی، سیاست اورمینیجنگ سمیت ہر شعبہ میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اس نے خود کو اور مضبوط کر لیا ہے عالم اسلام افریقہ ایشیا بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں یہ بات صاف دکھائی دے رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اپنے تشخص کی حفاظت کا احساس بڑھا ہے ایک طرف یہ صورتحال ہے۔

دوسری طرف آج کا امریکہ آج سے بیس سال پہلے کے امریکہ سے کہیں زیادہ کمزور ہے آج کے امریکہ کے پاس اس دور کے امریکہ جیسی ہیبت وطاقت نہیں ہے اسے ناکامیاں بھی ملی ہیں جن کی وجہ سے اس کے ضعف وناتوانی میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے امریکہ ایسے دلدل میں پھنس چکا ہے کہ جتنا جتنا وقت گذرتا جارہا ہے یہ اس میں مزید دھنستا جارہا ہے اس سے خود امریکہ اوراس کی رسی تھام کے خطرناک سیاسی کنوؤں میں کودنے والوں کے خطرناک مستقبل کا عندیہ مل رہا ہے یہ ہم تجربہ کی بنا پرکہہ رہے ہیں یہ ہمارا نظریہ ہے ہمارے سامنے یہی حقائق ہیں لیکن ان حقائق کو دیکھ کر ہمارے اندرغروربھی نہیں آنا چاہئے۔

یہ ذہن میں رہے کہ الہی امداد ورحمت کا انحصار مؤمن کی کوششوں اور اس کے اعمال صالحہ پر ہے ہمیں ہر وقت میدان عمل میں رہنا چاہئے، ہمارے اندرسے ذمہ داری کا احساس ختم نہ ہو، مجاہدت کو فراموش نہ کر بیٹھیں، مختلف میدانوں میں جہاد ہمارا فرض بھی ہے اورہماری ترقی وکامیابی کا ضامن بھی، سیاسی میدان میں بھی جہاد ہے، ثقافتی میدان میں بھی جہاد ہے، ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی جہاد ہے جہاد صرف فوجی نہیں ہوتا، انسانی زندگی کے مختلف موڑ میدان جہاد ہیں۔

ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں اپنے بھائیوں سے روابط مستحکم سے مستحکم تر بنائیں، مشغول رہیں ترجیحات طے کرلیں اوراپنی توانائی کا زیادہ ترحصہ انہیں ترجیحات میں استعمال کریں، یقیناً مسلمانوں خاص طور سے مکتب اہلبیت (ع)کے پیروکاروں کا مستقبل آج سے کہیں بہترہوگااورانشاءاللہ ان کے بلند وبالا اہداف ومقاصد کا حصول بھی مستقبل میں نزدیک ہوگا۔

خداوند متعال سےدعا ہے کہ وہ اپنا فضل وکرم آپ تمام بہنوں اور بھائیوں پر نازل فرمائے، خدا ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے آشنا فرمائے، ہمیں ان ذمہ داریوں کی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے، حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی وخوشنود رکھے،حضرت امام (رہ)کی روح مطہرکوجنہوں ہمارے سامنے یہ باب وا کیا ہے اورشہداکی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی وخوشنود فرمائے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ