ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کارضاکارفورس کی"عاشورا"اور"الزھرا" نامی دوممتازبٹالینز سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس میدان میں رضا کار فورس کے آپ جیسے بہادر ، دلیر اور شجاع عزیز جوانوں سے ملاقات وگفتگو اور پورے ملک میں ہونے والی تقریبات میں شریک دیگر لوگوں سے گفتگو میرے ذہن میں نہایت شیریں یاد کے بطورباقی رہے گی۔

رضاکارفورس، انقلاب ہی کی طرح خدا کی آیت ہے رضاکار انقلاب ہی کی جنس میں سے ہے جن خصوصیات کی بنا پر اسلامی انقلاب تاریخ کے دیگر انقلابات میں ممتازاوردیگرممالک کے عوام کے دلوں پر گہرا اثرڈال رہا ہے وہی خصوصیات " رضاکار" نامی اس عزیز اورگرانقدرگروہ میں بھی پائی جاتی ہیں جس طرح انقلاب ایک بےمثال واقعہ تھا اسی طرح رضاکاربھی بےمثال ہیں۔

مختلف ممالک میں مختلف شکلوں میں مزاحمتی طاقتیں وجود میں لائی جاتی ہیں انہیں کی پیروی میں طاغوتی حکومت نےکچھ اسی طرح کا یہاں بھی بنا رکھا تھا لیکن رضاکارفورس میں اوران میں اپنی ماہیت اور حقیقت کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہےاس ذیل میں جہاں دنیا بھرکے مختلف ممالک کا عمل روح وباطن سے عاری، زرق وبرق اورظاہری گھن گرج کے معیارپرہے وہاں رضاکارکا عمل کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔

مستضعفین کی رضاکار فورس جس کی امام (رہ)نے بنیاد رکھی تھی یہ فورس سرسےپیرتک روح، معنویت اورباطن کے زیور سے آراستہ تھی اتفاق یہ ہوا کہ رضاکارفورس کی تشکیل آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے ابتدائی مراحل میں ہوئی مسلط کردہ جنگ کا سلسلہ آٹھ سال تک جاری رہا ، لہذا رضا کار فورس نے وجود میں آتے ہی میدان جنگ میں قدم رکھ دیا اور وہ بھی اتنی سخت جنگ کہ جس میں ایک طرف دنیا کی تمام بڑی طاقتیں جارح صدامی حکومت کی پشت پناہی کررہی تھیں اوردوسری طرف ایرانی قوم تھی اورایران کی مسلح افواج! رضا کارفورس نے اس جنگ میں بھر پورحصہ لیا۔

خالی ہاتھ لیکن معنویت سے سرشار رضاکاروں کی اس جنگ میں شمولیت نے دنیا بھر کے لوگوں کو حیرت میں ڈآل دیا اورپوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ کس طرح ایرانی جوان خوداعتمادی، خدا پرتوکل اورایمان کا سرمایہ ساتھ رکھ کرمیدان جنگ میں اترتا ہے، پیچیدہ ترین جنگی ٹیکنیک تیار کرتا اور " فتح المبین" اور" بیت المقدس" جیسی جنگي کارروائیوں کا عظیم معجزہ دنیا والوں کو دکھا تا ہے۔ بیت المقدس نامی کارروائی جس کے نتیجے میں خرمشہر آزاد ہوا مومن جوانوں کے ذریعہ تیاراوراختیار کی گئی جنگی ٹیکنک آج تک فوجی مفکرین کے لئے سبق آموز ہے پیچیدہ، پھرتیلی، مشکل اورظاہراً ناقابل عمل نظرآنے والی ٹیکنیک کا خداپربھروسہ رکھنے والے، مومن ایرانی جوان کے اعجازی ہاتھوں سے عملی جامہ پہن لینا بے مثال کام تھا۔

اس معنوی اور ایمانی طاقت پربھروسہ، شجاعت، خوداعتمادی، مادی زندگی کے تمام ظاہری جلوؤں کے ناچیز ہوجانے اورراہ خدامیں چل نکلنے کی کہیں بھی مثال نہیں ملتی، ویسے ہی جیسے اسلامی انقلاب کی بھی تاریخ میں کوئي مثال نہیں ملتی۔

رضاکار فورس بھی انقلاب ہی کی طرح عوامی تھی اور عوامی ہے۔ صحیح ہے کہ آپ بھی دفاعی طاقت سے وابستہ اداروں ہی کی طرح بٹالین وغیرہ کی شکل اختیار کرتے اور فوجی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اورآپ نے پہلے بھی جنگ میں حصہ لیا اور اگرپھر ملک کو فوجی وجنگی طاقت کی ضرورت پڑ جائے توآپ ہراول دستہ ہوں گے یہ صحیح ہے لیکن رضاکارفورس کا ساراکام صرف جنگ نہیں ہے۔ بلکہ رضاکارفورس کا کام زندگی کے ہر شعبہ میں پھیلا ہوا ہے جب تعمیرنوکی باری ہو تو رضاکارآگے ہوتے ہیں ، جب امدادرسانی کا کام ہو تورضاکارصف اول میں نظرآتے ہیں اور جب نہایت باریک اورحساس تحقیق کی باری آئے تو تب بھی رضا کارہی آگے ہوتے ہیں اس وقت آپ اسی ایٹمی مسئلہ میں ملاحظہ کر لیجئے اس نہایت سخت اورپیچیدہ ٹکنالوجی کے سلسلہ میں جو جوان مصروف عمل ہیں وہ متدین اوردرحقیقت اپنی فطرت میںرضاکارفوج کے ہی اہلکارہیں۔ ہرجگہ یہی صورتحال ہے۔

"رویان" نامی فعال اور ترقی کی راہ پر گامزن ادارہ سے منسلک مرحوم ڈاکٹرکاظمی کو اپنے رضاکار ہونے پر فخرتھا اس ادارہ کے فعال اورمومن جوان اپنی فطرت اورجنس میں رضاکارہیں یہاں بھی رضاکار، یہاں بھی ایمان اورخوداعتمادی ہے جو کہ رضا کارکی خصوصیات ہیں۔

ہمارے عزیز ملک اوراسلامی جمہوریہ نطام کے اندرزندگی کے ہر شعبہ میں رضاکار حاضر ہیں اس کا ایک شعبہ فوجی ہے جوفوجی مشقیں کرتا، فوجی تعلیم حاصل کرتا، فوجی ٹریننگ کرتا اورفوجی ڈسپلن رکھتا ہے یہ انقلاب ہی کی طرح عوامی ہے جوشعبہ ، جوشخص اورجوادارہ اپنے اندر انقلابی خصوصیات پیدا کرلے وہ انقلاب کی طرح جاوید ہوجائے گا وہ انقلاب ہی کی طرح فعال اوراپنے آس پاس کے ماحول پر اثرانداز ہوگا۔

سیاست کے میدان میں بھی عوامی ہونا ، تعمیرنومیں بھی ایسا ہی ہونا اورملک کے اعلی انتظام وانصرام میں بھی عوامی ہونا، عوامی ہونےکا عنصراہم عنصر ہے! انقلاب عوامی ہے رضاکاربھی عوامی ہیں۔

رضاکاربھی انقلاب کی طرح اسلامی تعلیمات اوردینی طورطریقہ رکھتے ہیں انقلاب دنیا بھرکےملحد انقلابیوں کے پروپگینڈوں سے متأثر نہیں ہوا جن کے دعوے گوش فلک کو بہرہ کر رہے تھے دین سے اس تمسک کا مجسمہ ہمارے بزرگوار امام(رہ) تھے۔ دین، دین کے اصول و فروع اوراعلی اسلامی تعلیمات سے اجتماعی اورانفرادی لحاظ سے متمسک رہنے سےہی ہمارا انقلاب وجود میں آیا ہے قوم نےاس سمت میں قدم اٹھایا ہے، اسی کو چاہا ہے اور اسی کے لئے جانیں نچھاورکی ہیں رضاکار بھی اسی طرح وجود میں آئے، رضا کاری ایک دینی شعبہ ہے۔

آٹھ سالہ مقدس دفاع میں کوئی رضاکاروں سے نہیں کہہ رہا تھا کہ آپ اس طرح سے توسل کیجئے، یوں عبادت کیجئے، ایسے دعا کیجئے ان لوگوں کے اندرجذبہ موجزن ہوتا تھا ان کا دل اوران کا ایمان انہیں دین کی پابندی کی سمت لے جاتا تھا ان کا وجود کہ جس میں اس میدان میں حاضر ہونے کی وجہ سے مزید نکھار آگیا تھا ان سے کہہ رہا تھا کہ کیسے خدا کی عبادت کرو اور عبادت کرتے تھے یہ جوآپ میدان جنگ میں رضاکاروں کی عبادت، خدا کی بارگاہ میں گڑگڑاہٹ اوربے شماراشکوں سے متعلق سنتے یا اس دور کی یاد میں لکھی کتابوں میں پڑھتے ہیں یہ چیزیں ان کے دلوں سے نکلی تھیں، ان چیزوں کو کوئی کسی کو سکھا نہیں سکتا یہ سیکھنے کی چیزیں نہیں ہیں یہ چشمہ دل کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے رضا کارایک پابند دین موجود کا نام ہے۔

رضاکاربھی انقلاب کی طرح دشمن سے ساز باز نہیں کرسکتے اسلامی انقلاب پراس مقصد سے دباؤ ڈالا گیا کہ یہ عالمی کالے قوانین کے حق میں اپنے مورچہ سے پیچھے ہٹ جائے اس کے لئے انقلاب اوراسلامی جمہوریہ نظام پر طرح طرح کے دباؤ ڈالے گئے اوران میں کا ایک ملک پرآٹھ سال تک جنگ مسلط کرنا ہے انقلاب نے ہتھیار نہیں ڈالے، رضاکار بھی دباؤ، ظالمانہ قوانین اورپروپگینڈوں کےآگے نہ توسرتسلیم خم کرتے اورنہ ہی ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں۔

رضاکار درواقع ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر ملک کے بہترین جوان اس عظیم قوم کواپنی آرزؤوں تک پہنچانے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں اور ہوسکتے ہیں رضاکاروں میں جوان، بوڑھا، مرد، عورت، یہ طبقہ اوروہ طبقہ نہیں ہوتا ہم میں سے ہر کوئی جس دن اپنے آپ کوحقیقی معنی میں رضاکارسمجھنے لگیں وہ دن ہمارے لئے فخر کا دن ہے اورہم اس پرفخرکرتے ہیں۔

انہیں خصوصیات کی بنا پر انقلاب کے دشمنوں نے ہمیشہ رضاکاروں کواپنے حملوں کا ایک اصلی نشانہ بنایا ہے رضاکاروں پر الزام تراشیاں کی گئیں، سیاسی میدان میں سیاسی بازیگروں نے جوچاہا رضاکاروں کے خلاف اگلا، لیکن رضا کارایک ٹھہرے ہوئے سمندر کی مثل آرام سے بیٹھے رہے، انہیں کوئی جواب نہیں دیا، نہ ہی کوئی جواب دے رہے ہیں اورجواب دیجئے گا بھی نہیں۔

رضا کاریعنی ملک کے بہترین افراد کا مجموعہ! ہماری کوشش ہماری چاہت اورہماری امید یہ ہے کہ یہ مجموعہ مزید وسیع ہو، اس میں اس عظیم قوم کے تمام افراد شامل ہو جائیں اور صورتحال یہی ہے ہم کہتے ہیں دوکروڑ لیکن حقیقت میں رضاکاروں کی تعداد کئی کروڑ اس سے زیادہ ہونی چاہئیے خدا کی امید سےیہی تعداد ہے اورہوگی۔

جب یہ قوم قیام کئے ہوئے ہے، اپنے اہداف سے منہ موڑنے پر تیار نہیں ہے، دشمنوں کے پرپیگینڈہ کااس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، جب دنیا میں رائج سیاسی کھیلوں سے اس کے قدموں میں لغزش نہیں آتی اور یہ اپنے راستے سے منحرف نہیں ہوتی، جب یہ اپنے مضبوط ہاتھوں سے پرچم اسلام سربلند کئے ہوئے ہے اوراپنے وجود اورموجودگی کے ذریعہ تمام مسلم اقوام اور پوری امت مسلمہ کوامیدیں دلاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رضا کارکامیاب ہیں اورمستقبل میں بھی کامیاب رہیں گے رضاکاروں کے دشمن اوروہ مراکز اورمشینریاں جو انقلاب سے دشمنی کی وجہ سے رضاکاروں کی دشمن ہیں انہیں یہ یقین کر لینا چاہئیے اوراعتراف کرنا چاہئیے کہ وہ شکست کھا گئے ہیں۔

عظیم رضاکارفورس ایرانی قوم کی عظیم فوج ہے۔ عزیزجوانو! بچو! بچیو! کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والو! اس ادارہ میں شامل ہونے والے مومن، فعال اورزندہ دل لوگو! جتنا ہو سکے اپنی کیفیت بہتر کیجئے تاکہ سماج کے عام ماحول پرآپ کا اثرہواورجوان اوردیگرافراد زیادہ سے زیادہ اس اصول پسند اورباہدف مرکز سے نزدیک ہو جائیں، مختلف شعبوں کے عوامی رضاکاروں کو یہ مد نظررکھنا چاہئیے رضا کاروں کے منتظمین اورسربراہان بھی یہی چیز مد نظررکھیں۔

اس وقت اسلامی جمہوریہ نظام اپنے کارساز عناصرکہ رضا کار بھی جس کا حصہ ہیں کی برکت سے اپنے اہداف کی سمت بڑھ رہا اوردشمن سے مورچہ چھین چکا ہے آج ہم کہاں کھڑے ہیں اوربیس، پچیس سال قبل کہاں تھے؟ ہرمیدان میں ایرانی قوم آگے آچکی ہے اوراس قوم کے دشمن معترف ہیں کہ انہیں ایرانی قوم کے سامنے ہر میدان اورہر شعبہ میں شکست ہوئی ہے ایرانی قوم اپنی اس عظیم تحریک پر قائم ہے دوسری قوموں کی نگاہیں بھی آپ پرلگی ہوئی ہیں، فلسطین کی مظلوم قوم اور عراق کی خون دینے والی مظلوم قوم کی نگاہیں آپ پر ٹکی ہیں۔ آپ کے حوصلے، آپ کی ثابت قدمی، آپ کی سربلندی اورآپ کا عزم وارادہ ان کے دلوں پراثرانداز ہوتا ہے اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک بار پھر اپنے ناجائز مقاصد کےحصول کے لئے " خزاں کانفرنس" کے انعقاد کا پروگرام بنایا ہے میں نے عید فطر کے موقع پر بھی عرض کیا تھا کہ یہ "خزاں" ہے، خزاں زدہ ہے، اس کا نام ہی اس کی حقیقت کا عکاس ہے وہ اس امید میں ہیں کہ اس طرح جعلی غاصب صہیونی حکومت کی امداد کرسکیں گے تاکہ سابقہ ناکامیوں کی تلافی ہوجائے اور وائٹ ہاؤس کے حکام کی کچھ عزت رہ جائے۔ آج تمام دنیا والے اورماہرین سیاست پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ چند روز بعد منعقد ہونے والی کانفرنس ناکام ہوجائےگی ایسا کیوں ہے؟ ایسا فلسطینی قوم کی بیداری کی وجہ سے ہے اور فلسطینی قوم کی بیداری دوسری قوموں کی بیداری سے جڑی ہے جن میں سرفہرست ایران کی عظیم اوربزرگ قوم ہے۔ آپ مومن جوان، آپ کا تحرک، آپ کے نعرے، آپ کی موجودگی اورآپ کے کارہائے نمایاں اسی اعتبارسے عالمی معاملات پراثرانداز ہوتے ہیں۔

پالنے والے! امام (رہ) کی روح مطہر کے درجات میں روزبروز اضافہ فرما کہ یہ عظیم جوان اسی روح اورایمان کی پیداوارہیں۔ پالنے والے! اس قوم کے عزیز شہدا،مسلح افواج کے شہدا، رضاکار فوج کے شہدا جو اپنے مقتدی ومولاامیرالمومنین(ع) کی طرح (کہ جومظلوم بھی تھے اورمیدان جنگ میں بہادربھی) مظلومیت اوربہادری سے شہید ہوگئے انہیں شہدائے کربلا کے ساتھ محشورفرما۔ پالنے والے! ایرانی قوم کے ان عزیز جوانوں کو ایرانی قوم کے لئے زندہ وسلامت رکھ۔ پالنے والے! ایرانی قوم اور اس کے جوانوں کی عزت و افتخار میںروز بروزاضافہ فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ