ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ یزد کے عظیم عوامی اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للّٰہ ربّ العالمين والصّلٰوۃ والسّلام عليٰ سيّدناونبيّنا ابي القاسم المصطفيٰ محمّدوعليٰ آلہ الاطيبين الاطھرين المنتجبين سيّمابقيّۃاللّٰہ في الارضين


ميں بہت خوشحال اور خدا وند متعال کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے اِس با ت کي توفيق عطا فرمائی کہ میں یزد کے مؤمن ، متدین ، پسندیدہ اور باصفا عوام کے درمیان حاضر ہوکر ان سے ملاقات کرسکوں اور آپ سے ملنے کی اپنی دیرینہ آرزو کو پورا کرکے اپنی اس ذمہ داری کو ایفا کروں جسے عرصہ دراز سے اپنے دوش پر محسوس کررہا تھا۔

یزد کے عزيز بھائیو اور بہنو! آپ کا صوبہ اور شہر علم ، ہنر، تلاش و کوشش و نوآوری اور دین و ایمان پر یقین رکھنے والوں کا مرکز ہے۔ صوبہ یزد اور شہر یزد کے عوام ہمیشہ پاک، نجیب ، بااستعداداور دینی و ایمانی صلاحیتوں اور عمل و جد وجہد اور نوآوری کی طاقت سے سرشار اور تمام میدانوں میں کام کرنے کے لئے آمادہ ہیں جیسا کہ موجودہ تاریخ کے دوران یزد اور ایرانی عوام سے اس امرکی توقع تھی، انقلاب سے پہلے بھی ہم نے مشاہدہ کیا؛ تجربہ کیا؛ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدبھی دفاع مقدس کے دوران ، انقلاب اسلامی کے تشخص کو برقرار رکھنےاور دفاع مقدس کے اختتام کے بعد آج بھی ثقافتی میدان میں انقلاب اسلامی کی قدروں کی حفاظت کے لئے یزد کے عوام دشمنوں کے مد مقابل قیام کئے ہوئے ہیں۔ان تمام میدانوں میں یزد کے عوام پختہ عزم و ہمت اورکمر بستہ ساتھ ساتھ رہے ہیں اور ماضی سے لیکر آج تک یزد کے عوام کا کارنامہ روشن اوردرخشاں ہے۔

میں اس دور کو ہرگز فراموش نہیں کرسکتا کہ ابھی ایرانی عوام نے کامیابی کی لذت کو محسوس نہیں کیا تھا؛ اور ملک کے تمام شہروں کے عوام اپنی ہمت و توانائی کے مطابق اس عظیم حرکت کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے تلاش و کوشش کررہے تھے اور میں اس دور میں یزد آیا اور یزد میں جس صورتحال کو میں نے مشاہدہ کیا وہ میرے لئے حیرت انگیز تھی۔ لوگوں کے اندر انقلابی جوش و ولولہ اور اس کے ساتھ نظم و ضبط اور آرام و متانت قابل تعریف تھا۔ اس شہر میں، میں نے شہید صدوقی کودیکھا کہ وہ شہر میں ایک ممتازعالم دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک دینی ، سیاسی ،ثقافتی اور انقلابی رہنما کی حیثیت سے شہر یزد اور پورے صوبہ یزد میں فعال کردار ادا کررہے ہیں اور میں نے کچھ دن یزد میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا ، میں نے دوسرے شہروں کو بھی دیکھ رکھا تھا لیکن صوبہ یزد اور یزد شہر کی حالت بغیر کسی مبالغہ کے دوسرے شہروں سے الگ تھی ۔ یزد کے عزيز و گرانقدر عوام کے فضائل بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مجھ جیسے افراد نےجو دیکھا یا سنا ہے اس کو یزد اور ایران کے عوام کے درمیان اخلاص کے ساتھ بیان کریں۔

میں ہمیشہ ملک کے دوسرےشہروں کےعوام سےجب مخاطب ہوتا ہوں تو اس مطلب پر تاکید کرتا ہوں کہ ہمارے عوام جو عمیق تاریخی ، ثقافتی ، علمی اور سیاسی سرمایہ سے بہرہ مند ہیں انھیں اپنے اور اپنے شہر کو پہچاننے کے لئے خوب غور و فکر کرنا چاہیے؛ اپنی قدر و قیمت کو پہچاننا چاہیے اگر میں صوبہ یزد یا شہر یزد یا یزد کے عوام کے فضائل بیان کرتا ہوں تو اس کامقصد یہی ہے کہ آپ اپنے شہر کے بارے میں خوب معلومات فراہم کریں اور اس پر غور و خوض کریں۔

میرےعزیزو ! ایرانی قوم کے دشمنوں نے اس قوم کی تاریخی پہچان کو ختم کرنے کے لئے بہت کوشش کی ، دشمن نے ہماری تاریخی شناخت کو مٹانے کی بڑی سعی و تلاش کی، اور دشمن نے ہمیں غیر تاریخی و غیر ثقافتی قوم سمجھ کر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا، دشمن نے ہمیں ان قوموں کے ساتھ منسلک کرکے اشتباہ کیا جنکی نہ کوئي تاریخ ہے اور نہ ان کے ہاں علماء و مفکرین اور ہنرمندوں کی طولانی فہرست ہے ان کی رفتار ہمارے ساتھ بری تھی اور افسوس کہ ہمارے کچھ افراد بھی دشمن کے مکر و فریب میں آگئے اورانھوں نے بھی ایرانی عوام کے بارے میں دشمن کے مکر وفریب پر مبنی فیصلے کو قبول کرلیا۔

جیسا کہ اشارہ کرچکا ہوں ، شہر یزد علم کا شہر ہے،اور علوم کے مختلف شعبوں خصوصاً دینی علوم کے سلسلے میں اس شہر کے علماء کو شمار کرنے میں کئی گھنٹے درکار ہیں اور یہ صرف ماضی سے متعلق نہیں ہے۔ خود ہمارے زمانے اور ہماری تحصیلات کے دور میں ، ہماری ثقافتی سرگرمیوں کے دوران اس صوبے میں ممتاز علماء، عظيم شخصیتیں اور درخشاں چہرے موجود تھے۔آج بھی ہم دیکھتے ہیں ، گذشتہ چودہ سالوں میں صوبہ یزد کے طلباء یونیورسٹی داخلہ امتحانات میں سب سے زيادہ قبول ہوئے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ اس خطے کے دانشمندوں کی علمی، فکری صلاحیتیں روز بروز ترقی وپیشرفت کی جانب گامزن ہیں جن کی بدولت قوم کا مستقبل روشن و تابناک ہے۔ اور یزد کے پیر و جوان اور مردوں و عورتوں کوان عظیم صلاحیتوں کی قدر و قیمت کو پہچاننا چاہیے اور سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نعمت کا شکر اس کو پہچاننے ، کام میں لانے اور اس سے استفادہ کرنے میں ہے ۔

دفاع مقدس کے دوران صوبہ یزد کے عوام کا تجربہ کامیاب تجربہ تھا یزد کے عوام گھروں میں بیٹھ کر فقط سپاہیان اسلام کے لئے دعا نہیں کرتے تھے بلکہ خود میدان جنگ اور محاذ جنگ پر پہنچ گئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے صوبہ یزد کے الغدیر بریگیڈ کی محاذ جنگ پر فوجی کارروائیاں مضبوط ترین ، قوی ترین ، منظم ترین کارروائیاں تھیں میدان جنگ میں صوبہ یزد کے شہداء ، جانباز اور عراقی قید سے آزاد ہونے والے سرافراز افراد صوبہ یزد کے عوام کے جنگ میں حاضر ہونے پر سچے اور جیتے جاگتے گواہ ہیں ۔اور جب بھی ملک کو ان کی ضرورت پڑےگی وہ حاضر ہیں۔

آپ یونیورسٹی میں اچھے، میدان جنگ میں اچھے، صنعت کے میدان میں اچھے، زراعت کے میدان میں بھی اچھے ہیں ۔ایک یزدی اگر کسی گوشے میں پانی کا چشمہ پیدا کرتا ہے جو کئی گھنٹوں میں ایک چھوٹی سی بالٹی کو پر کرتا ہے تووہ اس پانی کی قدر کرتا ہے ،بڑی سخت محنت کے ساتھ اس سے ایک کھیت ، ایک باغ کو سیراب کرکے خود اور دوسروں کو بہرہ مند کرتا ہے ۔

پچاس سال قبل عراق میں کربلا اور نجف کے درمیان کچھ باغات کو دیکھا جو لوگ وہاں تھے ان کا کہنا تھا یہ یزدیوں نے لگائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران سے یزدی لوگ آئے اور انھوں نے اس بنجر علاقے میں یہ باغات لگائے ہیں یزدی ملک کے جس حصے میں بھی گئے ہیں وہاں انھوں نے محنت اور قناعت کے ساتھ عظیم کام انجام دیئے ہیں۔

میں اسراف سے پرہیزکے بارے میں ہمیشہ ایرانی عوام کو سفارش کرتا رہتا ہوں؛ میں نےگذشتہ نماز(1) میں بھی اس مطلب کو بیان کیا ہے، اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ جگہ و مقام جو اسراف سے پرہیز کے لئے نمونہ عمل بن سکتاہے وہ آپ کا شہر اور آپ کا صوبہ یزدہے البتہ یہ بات بھی عرض کردوں کہ یہ بات یزدی عوام کی طبیعت کا حصہ ہے بشرطیکہ بزرگ نمائی اورغرور اور تکبر کی نظر نہ لگ جائے کیونکہ بزرگ نمائی ایک ایسی بیماری ہے، جوجہاں کہيں لگ گئی وہاں اس نے اچھی اور پسندیدہ خوبیوں کو اپنے زير اثر قراردیکر اور آہستہ آہستہ انھیں کمزور بنا کر ختم کردیا ہے ایرانی عوام کو اشرافی گری اور بزرگ نمائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

یزدیوں کی قدرتی خصلت میں قناعت ہے؛ یزدی محنتی لوگ ہیں؛ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا علم ، ہنر جس کے بارے میں بیان کرچکا ہوں یہ خوبصورت عمارتوں کا مجموعہ یزدیوں کے عظیم ہنر کی علامت ہے، امیر چخماق کا مجموعہ ، جامع مسجد اور صوبہ یزد کے تمام مراکز صوبے کے ہنر مندوں کے شاندار ذوق اور شاہکارکی علامت اور تاریخی یادگار ہیں ۔جو اس صوبے اور شہر کی مقامی میراث اور اس کی مقامی شناخت ہیں۔

میں ان تمام مطالب کا نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں اور اس کو اپنی اس مختصر بحث کامقدمہ قراردینا چاہتا ہوں جو ابھی عرض کروں گا۔ اور وہ اپنےنفس پر اعتماد ہے، اور نفس پر اعتماد یزدیوں کی خصوصیات میں شامل ہے۔ یزدیوں کو نفس پر اعتماد حاصل ہے یہ دوسرے شہر میں دوسرے ملک میں جب سفر کرتے ہیں کربلا و نجف یا کسی اور جگہ جب ایک یزدی فرد اپنے پاؤں مضبوط کرسکتا ہے وہاں باغات اور تعمیر و ترقی کاکام شروع کردیتا ہے اور تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہوجاتا ہے اور ایسا نفس پر اعتماد کی وجہ سے ہے۔

میں آج آپ کی اور پوری ملت ایران کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایرانی عوام کے پاس ایسی مؤثر روحی اور فکری دوائیں ہیں جن کواپنے درمیان فروغ دینا چاہیےنفس پر اعتماد دوا ہے اور ایرانی عوام کو نفس پر اعتماد کی اس دوا کی حفاظت کرنا چاہیے کیونکہ یہ دوا ایرانی عوام کی استقامت و پائداری کے نتیجے میں سامنے آئی اور دفاع مقدس کے دوران اس میں مزيد قوت و طاقت حاصل ہوئی اور نفس پر اعتماد کرتے ہوئے ایرانی عوام ہمت و جرات اور شجاعت کے ساتھ اسلامی معاشرے کے اہداف اور اصولوں تک پہنچنے کے لئے اس راستے پر گامزن رہےگی اور نفس پر اعتماد کئے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

میرے عزيز بھائیواور بہنو! ہمارا اسلامي انقلاب کو ئي ايسا انقلاب نہيں تھا کہ جس ميں ايک حکومت کوہٹا کر دوسري حکومت کو بر سراقتدار لايا جائے؛مسئلہ صرف اتنا نہيں تھا۔اگر مسئلہ صرف اتنا ہي ہوتا تو يہ قوم ايثارو فدا کاري کے ساتھ ميدان ميں کيوں قدم رکھتي؟دو مختلف طاقتيں ہيں،جو ايک دوسرے کي حریف ہيں؛ايک طاقت آتي ہے اور دوسری کے خلاف کام شروع کر ديتي ہے ،بالکل دوسرے ممالک کي مانند کہ جہاں آپ ديکھتے ہيں کہ جب سياست ميں قدم رکھتے ہيں تويا ايک دوسرے کے خلاف کا م کرتے ہيں اورايک دوسرے کو قتل کرتے ہيں ياجيت اورفتح کا ہا ر پہنتے ہيں يا شکست اُن کامقدر بنتي ہے۔مگر ايک موقع ايسا آتا ہے جب ايک قوم اپني پوري طاقت و قدرت،اپنے مال و دولت ، اپنے جوانوں کو لیکر ميدان ميں قدم رکھتي ہے تواِس کامعنيٰ يہ ہے کہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ حکومت و اقتدار کا ايک گروہ کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے گروہ کے ہاتھ ميں جانا نہيں ہے بلکہ يہ ايک بنيادي تبديلي اور بنیادی انقلاب ہے جو وقوع پذير ہو رہا ہے اورايک قوم اور اُس کے افراد کي اجتماعي آرزووں اورخواہشات پر مبني ايک عظيم سلسلہ ہے جو تشکیل پا رہاہے۔
ہمارے اسلامي انقلاب نے نئے اہداف و اصولوں کو متعارف کیا ۔جب ہمارے مؤمن عوام نے دين کي راہنمائي کو ديکھا تو وہ متوجہ ہو ئے کہ يہ وہي چيزيں اور اہداف و آرزوئيں ہيں کہ جن کي اُن کو ضرورت ہے تو اُنہوں نے اِس راہ ميں قدم اٹھائے ،اپنے جوانوں کي قربا نياں پيش کيں،اپني جانوں کا نذرانہ پيش کيا ،اِن اہداف کے حصول کي خاطر اُنہوں نے اپنے مال و دولت کو قربان کر ديا اوراِس راہ ميں آنے والي ہر سختي ومشکل کا ثابت قدمي سے مقابلہ کيا۔ہم انقلاب کے ديئے ہو ئے اِن اہداف اورآرزوؤں تک رسائي حاصل کرنا چاہتے ہيں؛يہ اہداف اورآرزوئيں کيا ہيں؟اگر ايک جملے ميں اِن کو بيا ن کرنا چاہيں تو ہم اُسے " اسلامي معاشرے " سے تعبيرکر سکتے ہيں۔ہم آج اسلامي معاشرے کے حصول کي راہ ميں آگے کی جانب گامزن ہیں ۔
اسلامي معاشرہ وہ معاشرہ ہے کہ جس کے ہر شعبے ميں عدالت مکمل طور پر نافذ ہو؛ اسلامی اخلاق عوام کے درمیان فروغ پارہا ہو؛ لوگ اسلامی معاشرے کی اس سطح پر پہنچ جائیں جس سطح پر انبیاء (ع) اسلامي معاشرے کو تشکيل دينا چاہتے تھے؛يعني ہربڑے سے بڑے اور اہم ترين کام کو انجام دينے کي قدرت و توانائي رکھنا اور ہر بڑے سے بڑے چيلنج کو قبول کرنا ،شجاع ہونا، عزت سے زندگي بسر کرنا، زندگي کي مادي و معنوي نعمتوں سے لطف اندوز ہونا ليکن اُس کے ساتھ ساتھ خدا سے عبوديت و بندگي کارشتہ قائم رکھنااورخدا وند عالم کے ارادے کے سامنے سر تسليم خم کرنا۔ ايک قوم اور ايک انسان کيلئے حقيقي آزادي کا تصور يہ ہے کہ وہ اپني مادي زندگي کي فلاح وبہبود اور اِس زندگي کو اپني معنوي زندگي اوراپنے پرودگار کي عبوديت و بندگي کا مقدمہ قرار دينے کيلئے اپنے ارادے،ہمت اور اپني طاقت و توانائي کو کام میں لائے اور ہم اِسي ہدف کے حصول ميں کوشاں ہيں ۔

آج مغربي دنيا کي لیبرل جمہوريت ميں اِنہي چيزوں کا فقدان ہے ؛ انھوں نےمادي زندگي اور اقتصاد و معيشت کو رونق بخشنے کي خاطر ، کارخانوں اور فيکٹريوں کي تعداد میں اضافہ کيا ہے اوردامنِ علم کو وسعت دي ليکن وہ معاشرے میں عدل و انصاف کو برقرارکرنے ميں کامياب نہيں ہوئے ہيں اورمادي ترقي اورٹيکنالوجي کي پيش رفت کے باوجود اُن کے معاشرے ميں اخلاق اور اخلاقي اقدار روز بروز رُو بہ زوال ہيں،؛يہ کوئي ايسي باتيں نہيں ہيں کہ جو ہم اپني زبان سے کہہ رہے ہيں۔کيا ايسا ممکن ہے کہ بين الاقوامي ذرائع ابلاغ پر آج جو باتيں دنياميں نشرکي جا رہي ہيں، اُن ممالک کے لوگوں کے احساسات کے بر خلاف زبان پر لائي جا سکیں يہ وہ با تيں اور حقائق ہيں کہ جن کا وہ خود اپني زبان سے اعتراف کر رہے ہيں۔
آج مغرب کی لیبرل جمہوریت اخلاقی بحران کا شکار ہے،آج مغرب میں جنسي بحران ، اقتصادی بحران ، اخلاقی بحران ، خاندانی بحران کا لوگ شکار ہیں جو ان ممالک کی پریشانیاں ہیں جنھوں نے علمی میدان میں وسیع پیشرفت حاصل کرکے تاریخ کی چشم کو خیرہ بنادیا ہے ۔

بشر کي سعادت و خوش بختي يہ نہيں ہے کہ وہ علم و دانش میں ترقي کرے ،اگر چہ علم و دانش انساني سعادت کا ايک وسيلہ ہے؛بشر کي سعادت درحقيقت اُس کے فکر و خيال کي آسائش و راحت ،اُس کي روح کے آرام و سکون، اُس کي زندگي کا پريشاني سے آزاد ہونے،اُس کي زندگي اخلاقي ماحول اورمعنوي و روحاني آرام وسکون کے ہمراہ ہونے،مادي امن و امان کے ہمراہ ہونے اورمعاشرے ميں عدل وانصاف کے بر قرار ہونے سے وابستہ ہے۔يہ وہ چيزيں ہيں کہ جو مغرب کے پاس نہيں ہيں؛ نہ یہ کہ ان کے پاس نہيں ہيں بلکہ وہ روز بروز اِن سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔يہ وہ امور ہيں کہ جنہيں ہم نے ايک ہدف اور آرزو کي حيثيت سے دنيا کے سامنے پيش کيا ہے ؛ہم نے نہيں کيا، بلکہ خدا نے کیاہے ۔ اور ایرانی قوم اپنے ايماني تقاضوں کو پورا کرنے کي خاطر اِ س راہ پر رواں دواں ہے۔
ميرے عزيزبھائيو اور بہنو! یزد اور ایران کے لوگو! اگر ہم اِن اہداف تک رسائي حاصل کرنا چاہتے ہيں توہميں نفس پر اعتمادکي ضرورت ہے۔ہميں يہ کہنا چاہئے؛ ہم يہ کا م کر سکتے ہيں اور ہم ميں اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحيت و توانائي ہے،جيسا کہ ہم نے آج تک قومي ہمت وحوصلے اورارادوں سے متعلق اجتماعي امور کو انجام ديا ہے۔ کيا استعماری اور استکباری طاقتوں کے پنجوں ميں جکڑے ہوئے ا يک ملک وقوم کو آزاد کرانا معمولی کام ہے؟ جس پردنيا کي بدترين حکومتوں ميں سے ايک حکومت مسلط تھي اور مشرق و مغرب کی تمام طاقتیں اپنے مفادات کے لئے اس منحوس حکومت کی حمایت پر کمر بستہ تھیں، لیکن اس کے باوجود ایرانی قوم نے اس کو تخت سے اتار دیا ، اور موروثی سلطنت کی مکمل طور پر بنیادیں اکھاڑ کر پھینک دیں اور ستم دیدہ ملک ميں ايک قوم کي خواہشات اور اُس کے حق رائے دہي کي بنيادوں پر ايک عوامي حکومت و نظام قائم کیا یہ کوئي مذا ق اور آسان کام نہیں ہے لیکن یہ کام ايراني قوم نے کر دکھایا اوراِس خطے کي کو ئي بھي حکومت اپني عوام کي آراء اور خواہشات کي بنياد پرقائم نہیں اور نہ ہی اسلامي جمہوريہ ايران کا مقابلہ کرسکتي ۔

کبھی انسان کودکھ پہنچتاہے جب یہ دیکھتا ہے کہ بعض لوگ سياسي اعتبار ،سياسي وابستگيوں اور پارٹي بازی کي وجہ سے اِس قسم کي باتيں کرتے ہيں کہ گويا اِس ملک ميں جمہوريت اور عوامي حکومت کا کوئي نام ونشان نہيں ہے،يہ بہت بڑ ي نا انصافي ہے۔28سالوں سے يہ قوم تقريباً ہر سال ايک اليکشن میں شرکت کرتی چلی آرہی ہے؛ آزادانہ انتخابات،بھر پور عوامي شرکت والے انتخابات اورمنصفانہ انتخابات۔ جس میں مختلف پارٹیوں اور نظریات کے لوگ حصہ لیتے رہے ہیں تواِن سب کے باوجود ، دشمنو ں کے دلوں کو خوش کرنے والي بات کيوں کرتے ہیں جو اسلام کے سائے ميں پرورش پا نے والي اسلامی جمہوري حکومت کے حصول کا مسلسل انکار کرتے ہیں کیا ہمیں بھی دشمنوں کی باتوں کو دہرانا چاہیے؟
ایرانی عوام نے اپنے اعتماد ِ نفس کے ساتھ اِس عمارت کي بنيادرکھي ہے؛ اور عوامی حکومت کو ایک نئی اور تازہ اور دینی روش کے مطابق وجود میں لانے میں کامیاب ہوگئی۔دنيا ميں جہاں بھي جمہوري نظام قائم ہے اُس کي اپني ايک خاص شکل ہے اور اُس کے اپنے مخصوص اُصول وقوانين ہيں ۔کہيں بھي ايسا نہيں ہے کہ جمہوري نظام ہو لیکن وہ خاص ُاصول و قوانين کے دائرے اور طے شدہ ہدف کے مطابق نہ ہو۔يہ جمہوري نظام يا سياسي جماعتوں کے ذريعہ يا عدليہ کے ذریعہ اس کو چلایا جاتا ہےیا عدلیہ اور مجریہ کے علاوہ دیگر اداروں کے ذریعہ اس کا نظام چلتا ہے ؛پوري دنيا ميں ایسا ہی ہے ۔ہم نے اپنے جمہوری نظام کے لئے جو دائرہ کار انتخاب کیا ہے وہ " اسلام" ہے،اِس لئے کہ ہماري قوم ايک مسلمان اور مؤمن قوم ہے؛ اور اسنے اسلامی عوامی حکومت یا دینی عوامی حکومت کو منتخب کیا ہے۔
دوسري مسلمان اقوام جو ايراني عوام کو عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اس کي اصلی وجہ یہي ہے کہ ايراني قوم نے جرات وشجاعت کے ساتھ ميدانِ عمل ميں قدم رکھا اور ايک اسلامي حکومت کي داغ بيل ڈالي اور اِس حکومت نے اپني عوام کو يہ موقع فراہم کيا کہ وہ بين الاقوامي سياسي ميدان ميں داخل ہواور ايک خاص شکل و صورت ميں دینی عوامي حکومت کو دنيا کے سامنے پيش کرے ، جس کواِ س سے قبل کوئی نہیں پہچانتا تھا اور ایرانی عوام نے دینی عوامی حکومت کو پرچم کی مانند اپنے ہاتھوں پر بلند کررکھا ہے۔

دنيا ميں ہر جگہ مختلف اقوام اور حکومتیں دشمن کے پرو پيگنڈے اور ذرائع ابلاغ کا شکار ہو کر اُس کے ہاتھوں کا کھلونا بن جا تي ہيں؛ ليکن دشمن کی ہزار کو ششوں کے با وجود ايراني قوم اُن کے ہاتھ کا کھلونا نہیں بني۔دینی عوامي حکو مت کا مسئلہ ہو يا ديگر مسائل؛خواتين کے حقوق کا مسئلہ ہو يا خارجہ پالیسی ميں ہماري روش اور طريقہ کار کا مسئلہ ہو،يا پھر بين الاقوامي طاقتوں سے ہمارے تعلقات کا مسئلہ ہو؛اِن تمام مسائل ميں سے کسي ايک ميں بھي ايراني قوم دشمن کے پروپيگنڈے کا شکار ہو کر گوشہ نشين نہيں ہوئي اورنہ ہي اُس نے اپنے راستے کو کسي بھي صورت ميں بدلااورنہ آئندہ ايسا ہوگا۔اور ایرانی عوام کو نفس پر اعتماد کی حفاظت کرنی چاہیے۔
اعتماد ِ نفس کي ايک واضح علامت اور نشاني ،ايراني قوم کا علمي اکتشافات کے ميدان ميں قدم رکھنا ہے،اِس اعتماد ِنفس کي ايک اور علامت ايٹمي توانائي کے ميدان ميں ہماري قوم کي عظيم کاميابي ہے کہ جس کے چرچے زبان زدِ خاص وعام ہيں ۔بات صرف يہيں نہيں ختم ہوجاتي؛ بلکہ زندگي کے اور بہت سے حساس اور اہم نوعيت کے جدید اور نئے شعبے ہيں کہ جن ميں ہمارے نوجوان سائنسدانوں اورہمارے اعليٰ تعليم يا فتہ افراد نے قدم رکھا ہے اور بڑي بڑي کاميابيوں نے اُن کے قدم چومے ہيں مثلاًحيات کے بنيادي خليوں کي افزايش و توليد اوربعض صعب العلاج بيماريوں کي دوا تيار کرنا ، جن ميں سے بعض کا اعلان کر ديا گياہے اور بعض کا بعد ميں انشاء اللہ اعلان کيا جائے گا۔اِسي طرح کے اور ديگر مسائل ميں ہماري قوم نے اپنے نفس پر اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپني استعداد و صلاحت کا لوہا منوايا ہے اوراِ س کے بعد بھي ترقي کی شاندار منازل کی طرف گامزن رہےگی۔
گذشتہ کئی سالوں کے دوران دشمن کی سازشوں اور حکام وقت کی وابستگیوں کی وجہ سے علمی ترقی اور پیشرفت کےاعتبار سے دنیا کے ساتھ ہمارا علمی فاصلہ بہت زیادہ ہوگياتھا؛لیکن خداوند متعال کے فضل و کرم سے ہم اس فاصلے کوکم کر ديں گے اور ہم صرف علم کے ميدان ميں اکتفا نہيں کريں گے بلکہ معنوي اوراخلاقي اقدار کي بالا دستي اوراپني ذاتی تعمير پر بھی خاص توجہ رکھیں گے اور اِسے اپنے لئے ايک ذمہ داري اور وظيفہ سمجھنا چاہیے۔انتخابات اور آپکے صوبہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتاہوں ۔

انتخابات کا مسئلہ اِس سال ايراني قوم کيلئے ايک بہت ہي اہم مسئلہ ہے ۔البتہ اہم مسائل اس سے قبل بھی پیش آتے رہے ہیں اس سال کے آخر میں ملک کا سب سے اہم مسئلہ پارلیمنٹ کے انتخابات ہیں البتہ ابھی کافی وقت ہے اور ابھی اس موضوع پر گفتگو کرنے کا اچھا خاصا وقت ہے اور میں بھی اس سلسلے میں کسی اور وقت میں انشاء اللہ کچھ اہم باتیں ایرانی عوام کے سامنے پیش کروں گا جو بات آج میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایرانی عوام انتخابات کی قدر قیمت کو پہچان لے۔ انتخابات ایرانی عوام کے پختہ قومی عزم و ارادے ، ایرانی عوام کی استقامت و پائداری ، بیداری اور آگاہی اور ایرانی عوام کے دینی جمہوری نظام کی ایک عظيم نمائشگاہ ہے ۔

ميں گذشتہ تمام انتخابات کے دوران جس بات پر تاکيد کرتا رہا ہوں اورجسے آج بھي سب سے پہلے بيان کر رہا ہوں،وہ عوام کی طرف سے انتخابات میں وسیع پیمانے پر شرکت اور قدردانی ہے یہاں ميں اجمالي طور پر آپ کي خدمت ميں يہ عرض کرتا چلوں کہ اس ملک میں انتخابات کا دروازہ بند کرنے کی بڑی کوشش کي گئي ہے تا کہ ہمارے دشمن يہ بات کہنے ميں کا مياب ہو سکيں کہ اسلامي جمہوريہ کا نظام ،عوامي بنيادوں پر قائم نہيں ہے۔ ليکن خداوند عالم نے اُن کي تمام سازشوں کو ناکام بناديا، مذموم مقاصد رکھنے والوں پرخداوند عالم کا ارادہ غالب آگيا اور ہمارے عوام کے دل انتخابات کي جانب کھنچتے چلے گئے، عوام نے مختلف انتخابات میں وسیع پیمانے پر شرکت کی اور یہ انتخابات بھی ویسے ہی ہیں۔
انتخابات میں عوام کاحضور سب سے اہم مسئلہ ہے اور اس کے بعد لائق ، شائستہ اور سب سے باصلاحیت نمائندے کا انتخاب ہے جن لوگوں کی گارڈین کونسل کی طرف سے تائید ہوتی ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ ان لوگوں میں انتخابات میں شرکت کرنے کی کم سے کم صلاحیت موجود ہے۔جن لوگوں کی تائید ہوتی ہے ان میں بعض اچھی صلاحیتوں اور عظیم توانائیوں اور بعض کم صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں، ایرانی عوام کا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ وہ ایسے افراد کو تلاش کرکے انتخاب کریں جو سب سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہیں جو ایمان ، اخلاص ، ایمانداری ، امانتداری اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اور عوامی درد سے آشنا ہوں ۔ ہمارے عوام کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے اور ایرانی عوام آگاہی اور بصیرت کے ساتھ اچھے افراد کو تلاش کریں اور اپنے ووٹ کے ذریعہ ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں روانہ کریں جو پارلیمنٹ کے لائق ہوں ۔

البتہ عوام کو اس بات پر خاص توجہ رکھنی چاہیے کہ مختلف قسم کی رنگین تبلیغات ملاک و معیار نہیں ، غیر عملی وعدے ملاک نہیں ، میں نے مختلف مواقع پرجب بھی نمائندوں سے ملاقات کی تو میں نے ان سے واضح الفاظ میں کہا: نمائندہ خواتین و حضرات! پارلمینٹ کے نمائندے کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے انتخاباتی حلقے میں فلاں پروجیکٹ کی تکمیل کا وعدہ کرے؛ یہ کام اجرائی امور سے متعلق ہے یہ کام حکومت سے وابستہ ہے۔ نمائندے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایسے قوانین وضع کرے جن کی ملک کو اس وقت ضرورت ہے جب قانون بن جائے گا تو قوا مجریہ اور عدلیہ اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوجائيں گی، بڑے وعدے دینا ، غیر عملی وعدے دینا ملاک و معیار نہیں ہے؛ عوام کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے؛ اور انتخابات کے دوران اپنے نمائندوں کی حمایت کے لئے دوسرے نمائندوں کے ساتھ بدرفتاری اور بد اخلاقی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسا ایرانی عوام کے شایان شان نہیں ہے آپ اپنے نمائندے کی مثبت صفات بیان کریں اور دوسروں کی ذات اور شخصیت کو خراب کرنے سے پرہیز کریں دوسروں پر تہمت و الزام تراشی سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا دینی اور اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔

يہاں انتخابي اميدواروں کے طرفداروں اورحامیوں سے نہايت سنجيدگي سے عرض کرتا ہوں کہ وہ اميدوارو ں کي شخصيت کو خراب کرنے ،دوسروں کي توہين وتذليل کرنے اوراُن پر تہمت لگانے کے ذريعہ اپنے انتخابي اميدوار سے اپني حمايت و طرفداري کو ثابت نہ کريں۔آپ اپنے انتخابي اميدوار کي جتني تعريف کرنا چاہتے ہيں ،بيان کيجئے،اُس کي خوبيا ں اور صفات بيان کيجئے ليکن دوسروں کي شخصيت کو خراب نہ کيجئے؛ يہ ايک بري خصلت ہے۔
دنيا ميں بعض جگہ يہ بات معمول ہے کہ وہ ايک دوسرے کي خانداني باتوں اور اسرار کو فاش کرتے ہيں ،ايک دوسرے کي چھپ کر تصاوير ليتے ہيں اور اُنہيں انتخابي مہم ميں شايع کرتے ہيں۔جب يہي لوگ اسمبلي ميں قدم رکھتے ہيں توآپ نے خود ٹيليويزن ميں ديکھا ہے کہ ايک مسئلے پر ايک دوسرے سے دست وگريباں ہو جاتے ہيں اورہاتھوں اور لاتوں سے ايک دوسرے کو مارتے ہيں۔يہ کسي بھي صورت ميں ايک پارلیمنٹ رکن کيلئے اچھي بات نہيں ہے۔چنانچہ جو بات ہماري عوام کو انتخابات کے سلسلے ميں ياد رکھني چاہئے،وہ يہ ہے کہ وہ اپني بھر پور عوامي شرکت کے ساتھ انتخابات ميں حصہ ليں ، اوربہترین و لائق ترین افراد کی شناخت کرکے انھیں منتخب کریں انتخابي ضابطہ اخلاق پر عمل کريں۔

اب صوبہ یزد ، شہر یزد کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں البتہ یزد کے کچھ احباب و دوست ہمیشہ مجھ پر اعتراض کرتے تھے کہ یزد کا سفر مؤخر ہورہا ہے اور میں بھی اس بات کی تائید کرتا ہوں لیکن چونکہ الحمد للہ اب حکومت نے صوبائی سفر شروع کئے ہیں اور عوام کی موجودہ مشکلات و ضروریات کو درک کرنے کے لئے یہ سلسلہ جاری ہے میں نے بھی ابھی تک کئی صوبوں کا سفر نہیں کیا ہےصوبہ فارس کا سفر ابھی نہیں کیا ہے جو آپ کے پڑوس میں ہے۔کردستان ، کرمانشاہ اور بعض دیگر صوبے ہیں جنکا میں نے ابھی تک دورہ نہیں کیا ہے انشاء اللہ اگر خداوند متعال نے زندگی بخشی تو ان صوبوں کا بھی دورہ کروں گا خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے آپ سے ملنے کی توفیق عطا کی اور سب سے اہم یہ ہے کہ یہ صوبہ اپنی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے اس سلسلے میں حکومتی اور غیر حکومتی اداروں اور اقتصادی اور ثقافتی شعبوں کو بھی اپنا وسیع تعاون پیش کرنا چاہیے ۔

حکومت کو اس صوبہ سے متعلق تمام مصوبات اور منظور شدہ قوانین کو انشاءاللہ عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا چاہیے البتہ حکومت کے صوبائی دورے ایک اچھا اور مبارک قدم ہے اور میں حکومت کے اس عمل کی تعریف و قدردانی کرتا ہوں جو دور و دراز کے لوگوں کی مشکلات کا قریب سے جاکر مشاہدہ اور انھیں بر طرف کرنے کی کوشش کرتی ہے بعض جگہ کے لوگ حتی صوبے کے کسی ڈائریکٹر کو بھی نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن آج الحمد للہ صدر کو دیکھ رہے ہیں وزراء کو دیکھ رہے ہیں اپنی مشکلات ان کے سامنے بیان کررہے ہیں یہ ایک اچھا اور گرانقدرقدم ہے ممکن ہےکسی صوبے میں منظور شدہ کوئی کام انجام نہ پاسکا ہو لیکن جو کام ہوا ہے سو اچھا ہوا ہے۔

پانی کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گيا ہے، میں جانتا ہوں کہ صوبہ یزد کا سب سے اہم مسئلہ پانی کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ملازمت اور مہنگائی کا مسئلہ بھی آپ کی توجہ کا مرکز ہے۔اور اس سلسلے میں تینوں قوا کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے میں نے بھی اس بارے میں تاکید کی ہے مزيد تاکید کرتا ہوں ؛ لیکن کام کو آگے کی سمت بڑھانا آسان کام نہیں ہے حکام تلاش و کوشش کررہے ہیں اور اب تک کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان جو اعتماد کی فضا قائم ہے اس کی حفاظت بہت ہی ضروری ہے۔

البتہ دشمن، عوام اور حکومت کے درمیان عاطفی اور قلبی رابطے کو کمزور بنانےکی تلاسش و کوشش میں ہے ایک دن قوہ مجریہ کو ایک دن عدلیہ اور ایک دن قوہ مقننہ اور کبھی دیگر اداروں پر غلط الزامات عائد کرتا ہے تاکہ عوام اور حکومت کے رابطے کو ضعیف بنادے لیکن ایرانی عوام بصیر اور آگاہ ہیں ، مسائل کا محاسبہ اور ان کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا حکومت اور عوام کے درمیان مضبوط اور مستحکم رابطہ قائم ہے اور انشاء اللہ یہ رابطہ روز بروز مضبوط تر اور مستحکم تر ہوتا چلاجائے گا اور عوام جان لیں کہ حکومت دردمندانہ طور پر ان کی خدمت میں مشغول ہے اور یقیناًایرانی حکام کام کو آگے بڑھانے کی طاقت و قدرت سے بہرہ مند ہیں.

میں آپ لوگوں کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے سخت سردی میں اس وسیع میدان اور آس پاس کی سڑکوں پر کھڑے ہو کر اپنے عظیم اجتماع کے ذریعہ اپنی والہانہ محبت کے ساتھ مجھے نوازا ۔ خدا وند متعال کی بارگاہ سے آپ کے لئےتوفیقات کا طلبگار ہوں اور جب تک صوبہ میں ہوں بعض دیگر مطالب کی طرف آئندہ اشارہ کروں گا۔

خداوندا! اِس قوم پر اپني رحمتیں ، برکتیں اور نعمتیں اور فضل و کرم نازل فرما، جس طرح ان لوگوں کی روح و جان تیرے سامنے خضوع و خشوع سے سرشار ہے اسی طرح تو ان کے دلوں کو اپنے انوار سے منور فرما،خدایا! اس صوبہ کے شہیدوں کو صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور فرما، خداوندا ! اس صوبہ کے بزرگ علماء مرحوم شہید صدوقی، مرحوم آیت اللہ خاتمی ، مرحوم آیت اللہ اعرافی اور دیگر علماء کے درجات کو بلند فرما جنھوں نے اس صوبہ کے عوام کی خدمات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور جن کی سرگرمیوں کو ہم نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے، خدایا ! اس صوبے کے اچھے جوانوں ، اچھے اور مؤمن والدین پر اپنی ہدایت و توفیقات کو شامل فرما؛ صوبہ کے عوام کی روزبروز ترقی اور معنوی اور مادی میدان میں پیشرفت میں اضافہ فرما، اور اس عظیم تحریک کے عظیم بانی حضرت امام خمینی(رہ) کی روح کو انبیاء(ع) اور اولیاء کے ساتھ محشور فرما ۔

والسّلام عليكم و رحمۃ اللّہ و بركاتہ

2/جنوري/ 2008ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ خطبہ نماز عيد فطر؛ 21/7/1386.