ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا صوبہ فارس کے اساتذہ سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یوم معلم اورہفتہ معلم میرے لئےہرسال ایک بامعنی اورذمہ داری عائد کرنے والا دن اور ہفتہ شمار ہوتا ہے۔

اس سال ایسا اتفاق ہوا ہے کہ ہم یوم معلم کے موقع پر شیراز میں ہیں اورآپ شیرازی اورفارسی اساتذہ سے ملاقات کی توفیق حاصل ہوئی ہے بڑا ہی اچھا اتفاق ہے آپ کے شہر اورصوبہ نے بہت سے مقامات پر دوسروں کے لئے ایک استاد کا کردارادا کیا ہے بہت ہی کم کوئی ایسا عالم مل سکتا ہے جس نے شیراز کے اساتذہ اور دانشوروں سے کسب فیض نہ کیا ہو فقہ ہو یا فلسفہ، ادب ہویا شعر، کوئی فن ہو یا کوئی دوسرا علم ،کسی نہ کسی موضوع میں ممتاز علماء نے شیراز کے اساتذہ ودانشوروں سے ضرور فیض حاصل کیا ہے۔

یوم معلم آپ کا دن ہے اور ایک لحاظ سے پوری ایرانی قوم کا دن ہے اس لئے کہ استاد کی ذاتی شناخت کے علاوہ استاد ہونے کے بطور بھی ایک شناخت ہوا کرتی ہے جس کے ذریعہ ہرشخص علم حاصل کرسکتا اور سیکھ سکتا ہے استاد کی ایک عمومی شناخت ہوا کرتی ہے استاد کی اہمیت بھی اس کے استاد ہونے کی حیثیت سے ہے ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم نے اس بابت میں کم کام کیا ہے اور عملی طور سے ہم بھی اس تہذیب اورماحول میں رنگ گئے ہیں جس کے پیروکاروں کے نزدیک مادی لحاظ سے یعنی پیسہ سے تعلیم کی قیمت لگائی جاتی تھی اس کے علاوہ وہ استاد کی کسی اہمیت کے قائل نہیں تھے مادی ثقافت یہی ہے جس میں کسی بھی چیزکی اہمیت کا معیار اس کے عوض حاصل ہونے والا پیسہ ہے استاد بھی ایسی تہذیب میں اتنا ہی قابل احترام ہے جتنا وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ پیسہ حاصل کرنے کا باعث بن سکے ہم یعنی ملت ایران کے ثقافتی افراد اس غلط تہذیب میں گھل گئے ہیں جبکہ اسلام کی منطق میں بات اس سے کہیں ماوراء ہے تعلیم و تربیت کا مطلب سامنے والے انسان کو زندگی دینا ہے گویا اس کی نئی ولادت ہوئی ہو اسلام اس لحاظ سے دیکھتا ہے زمین کا ایک ٹکڑا جو سوکھا نظر آرہا ہے آپ کوشش کرکے محنت کرکے اسے کھود ڈالیں جس کے نتیجہ میں وہاں سے ایک چشمہ پھوٹ پڑے، آپ ایک زرخیز زمین میں ایک نہایت ہی ناچیز نظر آنے والا بیج بو دیں پھر اسے پانی دیتے رہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک سرسبز پودا اگ آئے بات اصل میں یہ ہے اب اسے پیسہ سے بدلا جا سکے یا بدلا نہ جا سکے۔ اسلام اس لحاظ سے تعلیم و تربیت اور استاد کو دیکھتا ہے میرے کہنے کا مقصد اساتذہ کے گذشتہ اور حالیہ مادی مطالبات سے غفلت برتنا نہیں ہے بات یہ نہیں ہے کچھ توقعات ہیں کچھ مطالبات ہیں اکثر صحیح بھی ہیں ان کے سلسلہ میں ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں اور حکام سے تاکید کرتا ہوں کہ وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

یہ نئے محترم وزیر جن کا بیان آپ نے سنا ہے جیسا کہ میں نے دیکھا اور سمجھا ہے یہ بھی ایک فعال اورمصروف و مشغول شخص ہیں امید ہے کہ اس سلسلہ میں بھی جو فرائض ہیں ان پر عمل ہوگا میری گفتگو اس سے بڑھ کر ہے میری باتیں صرف آپ اساتذہ کے لئے نہیں بلکہ پوری ایرانی قوم کے لئے ہیں میراخطاب ان تمام لوگوں سے ہے جن کے لئے آپ نے تعلیم و تربیت کا دسترخوان بچھا رکھا ہے تاکہ وہ اس سے تناول کر سکیں۔ اس کام، اس پیشہ اوراس شناخت کی جتنی اہمیت سمجھنے کی ضرورت تھی ہمارے خیال سے اس دور میں ابھی تک اتنی اہمیت نہیں سمجھی گئی ہے البتہ ماضی میں کیوں نہیں؟ ماضی میں ہمارے ملک کے اندر مغربی تہذیب کی ریشہ دوانیوں سے قبل یعنی گیارہ سوسال پہلے اسلام کے دوسو سال بعد جب اپنے دور اور وقت کے لحاظ سے ہمارے ملک میں پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ قائم تھا تب استاد روحانی اور معنوی اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا تھا تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں طریقہ کار یہ تھا کہ کبھی یہ دکھائی نہیں دیتا تھا کہ شاگرد استاد کے سامنے پیر پھیلا کے بیٹھے، ہمارا طریقہ کار بھی یہی تھا ہمارے شاگرد بھی جب ہم پڑھاتے تھے تو ہمارے ساتھ یہی برتاؤ کرتے تھے شاگرد کی نظرمیں استاد واقعی قابل احترام ہوا کرتا تھا جس کی مثالیں آج بھی حوزات علمیہ میں موجود ہیں اس لئے کہ حوزات علمیہ پرتہذیب وتمدن کے معاملہ میں مغربی طورطریقہ کا کم اثرہوا ہے لہذا ابھی بھی حوزات علمیہ میں وہی طریقہ رائج ہے اورشاگرد کی نظر میں استاد کی عظمت، اہمیت اور احترام باقی ہے ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ استاد کی عظمت کی وجہ سے شاگرد کے دل میں اس کی ہیبت قائم ہے اب یہ شاگرد درس کے دوران اشکال بھی کرتا ہے دینی تعلیم میں شاگرد جتنا استاد پر اشکال اور اعتراض کرتا ہے اس قدر یہ چیز ہماری یونیورسٹی ماحول میں رائج نہیں ہے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ " استاد اجازت دیجئے گا" نہیں، بلکہ استاد بول رہا ہے ادھر سے کوئی شاگرد اعتراض کرنا شروع کر دیتا ہے استاد بھی اس کا اعتراض سنتا ہے کبھی کبھی سخت کلامی بھی شاگرد کرتا ہے یعنی شاگرد جرأت اورگستاخی سے کسی علمی مسئلہ پر استاد سے بات کرتا ہے لیکن یہی شاگرد اس استاد کے سامنے خضوع وخشوع سے پیش آتا ہے اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیتا ہے اس کے سامنے پیر نہیں پھیلاتا اس سے تم کہہ کے بات نہیں کرتا بارہ تیرہ سو سال سے ہمارے ملک میں استاد وشاگرد کے درمیان اسی طرح کا رابطہ تھا یہاں تک کہ مغربی تہذیب اور اہمیت وعظمت کے مغربی پیمانے ہمارے ملک میں وارد ہو گئے آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس دوران استاد کس حد تک شاگرد کے ہاتھوں پٹا ہے! کس حد تک کلاس میں شاگرد کے ذریعہ استاد کا مذاق اڑایا گیا ہے! اس نےکتنی سخت باتیں سنی ہیں! شاگرد کے ہاتھوں کتنے اساتذہ کا قتل ہواہے صرف اس لئے کہ استاد نے نمبر کم دئے ہیں ایسا تھا۔ اب ہمارے ملک میں اس ماضی کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں کمزور ہو گئی ہیں کہیں کہیں زیادہ شدومد اوربرے انداز سے موجود ہیں اوریہ وہیں ہے جہاں مغربی تہذیب کے مراکز ہیں۔

میرا زور اس بات پر ہے کہ استاد کی اہمیت وہی اسلامی اہمیت ہونی چاہئے ہمارے معاشرہ کو اس بات کی ضرورت ہے کہ استاد کا اکرام واحترام کرے پڑھنے والے بچہ کا سرپرست حقیقی معنی میں استاد کے احترام کا قائل ہو جائے تویہ بچہ بھی کلاس میں اور کلاس سے باہراستاد کے تئیں انہیں احساسات کا مالک ہو جائے گا ہمیں اس کی ضرورت ہے یہ آپ کے لئے ہرقسم کی مادی اہمیت سے بڑھ کر ہے ہمارے عظیم الشان امام (رہ) صاحب حکمت تھے امام قرآنی معنی میں صاحب حکمت تھے حکیم سے مراد وہ شخص ہے جو ان حقائق کو دیکھتا ہے جو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں ان کے کلمات پوشیدہ ہیں ممکن ہے ظاہراً سادہ سے نظر آتے ہوں لیکن جتنا آپ ان کی تہ میں جائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان میں مزید گہرائی ہے امام (رہ)اس طرح کے تھے آپ قرآن میں دیکھئے جہاں جہاں لفظ حکمت کا استعمال ہوا ہے " ذالک مما اوحی الیک ربک من الحکمۃ" دیکھئے وہ کیا چیز ہے آپ دیکھیں گے کہ ظاہر میں تو عام سی نصیحتیں ہیں وہی باتیں ہیں جو ہم ایک دوسرے سے کہتے رہتے ہیں لیکن جب آپ گہرائی میں جائیں گے تو دیکھیں گے کہ اس میں مزید گہرائي ہے فرض کیجئے کہ ماں باپ کا احترام ایک حکمت ہے ماں باپ کے احترام میں جو فوائد و برکات ہیں ماں باپ کے احترام کے لئے اس کا ثانی نہیں لایا جا سکتا جتنا بھی انسان اس میں غور کرتا جاتا ہے محسوس کرتا ہے کہ بات مزید عمیق ہے حکمت اسے کہتے ہیں امام (رہ)جو صاحب حکمت تھے انہوں نے کہا تھا " تعلیم دینا انبیاء کا پیشہ ہے" یہ بہت بڑی بات ہے۔

" یزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ" کی آیت قرآن میں کئی بار آئی ہے ان قرآنی آیات کے علاوہ کہ جن میں تعلیم کا کام پیغمبر(ص) سے منسوب کیا گیا ہے پیغمبراکرم (ص)کی ایک حدیث ہے " ان اللہ لم یبعثنی معنّتاً ولا متعنّتاً ولکن بعثنی معلماً میسراً" خدا نے مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا ہے معلم میسر یعنی آسانیاں پیدا کرنے والا میں اپنے شاگردوں کی زندگی اپنی تعلیمات کے ذریعہ آسان بناتا ہوں ان کے کام آسان کردیتا ہوں یہ آسان بنانا آسان سمجھنے سے ہٹ کر ہے یعنی سستی نہیں ہے میں معنت اورمتعنت نہیں ہوں نہ خود کو زندگی کے دشوار پیچ وخم میں پھنساتا ہوں اورنہ لوگوں کو! بلکہ اپنی تعلیم کے ذریعہ لوگوں کو سیدھا، صحیح، اور مستقیم راستہ دکھاتا ہوں آسان بنانے کا مطلب یہ ہے کبھی انسان کسی ہدف تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے راستہ کا علم نہیں ہوتا پتھر، گرد وخاک، سانس پھلانے والی چڑھائی مستقل کبھی اوپرجاؤ تو کبھی نیچے آؤ آخرکار یا پہنچے گا یا نہیں پہونچے گا اسے تعنت کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک آشنا اور واقف کار شخص اس کے ساتھ جاتا ہے اورپھر اس سے کہتا ہے صاحب! یہاں سے جاؤ راستہ نزدیک بھی ہے اورہمواربھی اوریقناً آپ کو منزل تک پہنچا دے گا " معلماً میسراً" کا مطلب یہ ہے معلم کی شان یہی ہے یہ ہے ہماری اصلی بات! میں یہ آپ اساتذہ سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اپنی شان ومنزلت اورقدر اچھی طرح پہچان لیں اورلوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں البتہ زیادہ لوگوں ہی سے کہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ استاد تو اکثراپنی قدر پہچانتے ہی ہیں آگاہ استاد وہ استاد کہ جس کے پاس علم ہے اوراسے کسی کو عنایت کررہا ہے وہ سمجھتا ہے کہ کیا کر رہا ہے ایک بند تالا ہے اس کی چابی استاد شاگرد کے ہاتھ میں دے کر کہتا ہے صاحب! اس چابی کو اس طرح تالے میں ڈالنا ہے تعلیم کا یہ مطلب ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جسے کسی بھی قیمت پرکسی دوسری چیزسے حل نہیں کیا جاسکتا اس کا راہ حل یہی ہے استاد راہ حل کا پتہ دیتا ہے ہر شعبہ میں استاد کا کام یہی ہے لہذا استاد اپنے لحاظ سے خود جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے میرا خطاب زیادہ تر عام لوگوں سے ہے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرہ میں تعلیم و تربیت کی شان وہی ہو جو اسلام نے قرار دی ہے یہ جو ارشاد ہواہے کہ " من علمنی حرفاً صیرنی عبداً" مجھے نہیں معلوم اس روایت کی سند کیا ہے کیسی ہے کتنی مضبوط ہے لیکن بات بالکل صحیح ہے یہی ہے کہ انسان کسی سے کچھ سیکھ کر درحقیقیت ایک مرحلہ سے گذرجاتا ہے تو اب مناسب ہے کہ اس مرحلہ کی وجہ سے یہ شخص خود کو اس ہدایت دینے والے رہنماکا غلام اور خادم سمجھے اور حقیقت بھی یہی ہے۔

یہاں ایک اوربات بھی ہے جوبڑی اہمیت کی حامل ہے وہ بھی میں عرض کردوں اب یہ آپ اساتذہ کے لئے ہے اسلامی نقطہ نظرسے جس طرح استاد قابل احترام ہے اوراس کا احترام ہونا چاہئے اسی طرح شاگردکا بھی احترام ہونا چاہئے شاگرد کی توہین نہیں ہونی چاہئے اس میں نہایت عمیق تربیتی پہلو ہے یہاں بھی ایک روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے " تواضعوا لمن تعلمون منہ وتواضعوا لمن تعلمونہ" جس سے آپ سیکھتے ہیں اس کے سامنے تواضع اختیار کیجئے اورجسے آپ سکھاتے ہیں اس کے سامنے بھی تواضع اختیار کیجئے " ولا تکونوا جبابرۃ العلماء" جابردوطرح کا ہوتا ہے سیاسی جابر اورعلمی جابر، علمی جابر نہ بنئے جابر علماء نہ بنئے جیسے فرعون ہو کئی سال پہلے شاید تیس چالیس سال پہلے میں نے ملک کی ایک یونیورسٹی میں اس طرح کا استاد دیکھا تھا وہ اس طرح اپنے شاگردوں سے بات کرتا تھا پڑھاتا تھا پیش آتا تھا! اسکا برتاؤ باپ بیٹے جیسا نہیں فرعون جیسا تھا استاد ممکن ہے سختی بھی کرے لیکن سختی توہین سے ہٹ کر ہے تحقیرسے ہٹ کرہے شاگرد کا احترام کیا جانا چاہئے آپ سب کو اچھے تجربے ہوں گے کہ جن شاگردوں کا آپ نے احترام کیا اس کا اچھا نتیجہ نکلا اوران کی تربیت آسان ہوگئی برابھلا کہنا، توہین کرنا یہاں تک کہ مارنا صحیح نہیں ہے اب " الضرب للتادیب" پرانے زمانہ سے چلا آرہا ہے رائج بھی تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ مارنا صحیح نہیں ہے میرابھی یہی ماننا ہے شاگرد کو موم کی طرح ہاتھ میں گھمانے اوراس کی کوئی شکل تیار کرنے کی ضرورت ہے لیکن نرمی سے استاد کا کمال یہی ہےاہمیت معلم کے سلسلہ میں یہ بھی ایک پہلوہے۔

تعلیم وتربیت کے مسائل بہت زیادہ ہیں میں نے اسی یوم معلم کی مناسبت سے اساتذہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران کئی سال تک کچھ باتیں کہی ہیں اسی طرح ثقافتی انقلاب کی اعلی کمیٹی تعلیم وتربیت کے وزراء سے ملاقات کے موقع پر بھی کچھ باتیں ان کے سامنے رکھتا رہا ہوں اوریہ باتیں صرف میری ذاتی دلچسپی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان سب کی بلا استثنا ماہرین حمایت کرتے ہیں تعلیم وتربیت کے متعلقہ افراد نے بھی اس کی تائید کی ہے یہ ہم نے مطالبہ کیا ہے اب خوش قسمتی سے وزیر صاحب نے ابھی جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں اشارہ کیا ہے کہ ان میں سے بہت سے کاموں کا آغاز ہوچکا ہے بہت سے اگلے مرحلہ میں داخل ہوچکے ہیں اور بہت سے امور کے سلسلہ میں قدم اٹھایا جا چکا ہے اچھا ہے البتہ اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا بلکہ تعلیم و تربیت میں ہمیں ایک عمیق کام کی ضرورت ہے۔

میں نے پچھلے سال بھی اساتذہ کے ساتھ ملاقات میں تعلیم وتربیت کے شعبہ میں عمیق تبدیلی لانے کی بات کی تھی اس گہری تبدیلی کا مطلب کیاہے؟ میں نے کئی بار کہا ہے کہ ہم دوسروں سے کچھ سیکھنے میں شرم محسوس نہیں کرتے پیچھے بھی نہیں ہٹتے بلکہ ان کے پیچھے جاتے ہیں شاگردی اختیار کرتے ہیں لیکن یہاں اس شاگردی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دوباتیں قابل غور ہیں افسوس کہ خراب تہذیبی دوریعنی پہلوی دورمیں پہلوی دور ہمارے ملک کا خراب تہذیبی دور ہے ان دوباتوں کا خیال نہیں رکھا گیا انہوں نے آنکھیں بند کرکے آغوش پھیلا دی جوآیا دے کے چلا گیا انہوں نے لے لیا، ان دو باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی لیں اسے جانچیں اور پرکھیں دیکھیں کہ وہ ہمارے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں اگر سو فیصد ہمارے فائدہ میں ہے تو سو فیصد اسے اخذ کر لیں گے اگر سو فیصد ہمارے نقصان میں ہے تو ہم سو فیصد اسے مسترد کر دیں گے اگر ان دونوں کے درمیان ہے تو جتنا ہمارے لئے مفید ہے اتنا لے لیں اورباقی والا حصہ مسترد کر دیں۔ یہ پہلی بات ہوئی۔

میں نے مثال دی تھی کہ ایک آدمی ایک چیز، پھل، غذا یا دوا دیکھتا ہے پہچانتا ہے پھراسےاپنی مرضی سے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ میں ڈالتا اورنگل جاتا ہے اورایک دوسرا آدمی ہے کہ جس کے ہاتھ پیر باندھ کے کوئی چیز سرینج کے ذریعہ اس کے بدن میں منتقل کر دی جاتی ہے ان دونوں میں فرق ہے پہلی قسم صحیح ہے دوسری قسم غلط ہے انجیکشن کے ذریعہ کوئی ہم میں کچھ منتقل نہ کرے بلکہ ہمیں خود انتخاب کرنا چاہئے اس بات پر توجہ نہیں دی گئی جوکچھ تھا لاتے گئے۔ ہم ان افراد کے مانند نہ ہوں جو بے حس، بے حال اور بے ہوش پڑے ہوئے ہیں اورایسے ہی کوئی چیز ان کے جسم میں منتقل کی جارہی ہے یا منہ کے راستہ حلق میں ڈالی جا رہی ہے خراب تہذیبی دور میں ہمیں انتظار رہتا تھا کہ وہ لوگ ہمارے منہ میں کچھ ڈالیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ استاد شاگرد کی کہانی ہمیشہ کے لئے نہ چلے ہم جو نہیں جانتے ہیں اس کے سلسلہ میں اس شخص کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنے کے لئے تیار ہیں جو جانتا ہے لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسان کو شاگرد بن کے نہیں رہنا چاہئے بلکہ ہمیں خود استاد بن جانا چاہئے ان دو باتوں پر توجہ نہیں کی گئی۔

ہم نے ایک چیز سیکھی وہ یہی تعلیم تربیت تھی ان کے پاس تعلیم وتربیت کے اچھے طریقے تھے تو ہم نے بھی ان سے سیکھ لیا یہ کہ اسکول پرانے مکتب سے بہتر ہے اسکول، ہائر سکینڈری اسکول اس طرح کی درجہ بندی ٹھیک تھی اسے ہم مسترد نہیں کرتے یہ فائدہ مند ہے لیکن کتنا ہو کیا ہو کس رجحان کے تحت ہو اس پر ہم نے غور نہیں کیا اور سب کچھ ایک ایک کرکےلے لیا انہوں نے کہا چھ کلاسیں ایسی ہوں چھ ایسی ہوں ہم اسی چیز کو لے آئے پھر انہوں نے اپنا طریقہ بدلا تین کلاسیں ایسی ہوں تین ویسی تو ہم نے بھی وہی سیکھا اوراختیار کرلیا۔ ٹھیک! تو یہ کوئی بات نہیں ہوئی۔ ان کے پاس مختلف نصابی کتابیں اورمختلف دروس تھے تو کہنے لگے کہ تم بھی یہی تعلیم دو تو ہم نے بھی انھیں موضوعات کا انبار لگانا سیکھ لیا ہمارا تعلیمی نظام شکل صورت اور نصاب کے لحاظ سے پورے کا پورا تقلیدی ہے یہ صحیح نہیں ہے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے یہ جوطریقہ ہے اس میں کہاں عیب ہے اس طریقہ میں جو نقائص ہیں ان میں سے ایک فکروتدبرکے بجائے رٹ لگانے پر زور ہے ہمارا تعلیمی نظام رٹ لگانے پر زوردیتا ہے بچے بس مستقل رٹتے ہی رہیں۔

بریکٹ میں آپ سے عرض کردوں کہ یاد کرنے کے لئے حافظہ کوئی بری چیز نہیں ہے بچوں کے یاد کرنے ،کتاب پڑھنے اورزیادہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے یہ اچھی بات ہے اس لئے کہ یہ یاد کی ہوئی چیزیں باقی رہتی ہیں ممکن ہے سارا ان کی سمجھ میں نہ آئے ہم جب اسکول جاتے تھے ایک اسکول تھا جس کا نظام شعبہ تعلیم کے نظام سے مختلف تھا ہمیں وہاں گلستان پڑھاتے تھے ہم اس کےمعنی نہیں سمجھتے تھے بعدمیں آہستہ آہستہ ہم ان اشعار اور ان جملوں کے معنی سمجھ گئے یہ اچھی بات ہے ممکن ہے انسان کچھ چیزوں کو اچھی طرح نہ سمجھے لیکن یہی یاد کرنا ذہن کوفعال بنانے میں معاون ہوتا ہے یاد کرنا اچھی چیز ہے لیکن رٹے کو اصل مقصد بنانا ساری کوششوں کا ماحصل رٹا ہو یہ غلط ہے کوششوں کا ماحصل غوروفکر ہونا چاہئے چاہے ساتھ میں زبانی بھی یادکرایاجائے۔ تو یہ ایک بہت بڑا عیب ہے اسے دور ہونا چاہئے۔

ہم اگر آج اس چیز کی اصلاح نہیں کریں گے تو کون اصلاح کرے گا؟ خراب تہذیبی دور، مرحوم آل احمد کے بقول غرب زدگی کا دور، مغربی تمدن کے سامنے خیرہ ہونے کا دور گذر چکا ہے آج اس سجے سجائے گاڑھی میک اپ کئے چمکتے چہرے کی حقیقت ہمارے لئے اور دنیا کے اکثر لوگوں پرواضح ہو چکی ہے اس کی برائیاں، بری صفات اوربدصورتی عیاں ہوچکی ہے آج ہم وہ بہت کچھ جانتے ہیں جسے پچاس سال قبل نہیں جانتے تھے ایرانی قوم آج اس قسم کے بہت سے حقائق سے آشنا ہے۔

آج ہمیں اس کام کی اصلاح کرنی ہوگی کون اصلاح کرے گا؟ اصل ذمہ داری شعبہ تعلیم کی ہے البتہ میں یہ کہہ دوں کہ صحیح ہے کہ شعبہ تعلیم کے اندر ایک سینٹر قائم کیا گیا ہے اورضروری بھی ہے کہ شعبہ تعلیم اس کام کے لئے کمر ہمت باندھ لے لیکن شعبہ تعلیم کے ذمہ دارحضرات! اصل کام ماہرین کا ہے آپ اپنے آپ کو ثقافتی انقلاب کی اعلی کمیٹی یا دوسری جگہوں پر مصروف عمل صاحب نظرافراد سے الگ نہ رکھئے ان کی خدمات لیجئے اورایک مضبوط نپاتلا کام ایرانی قوم اور آنے والی نسلوں کے حوالے کیجئے تاکہ یہ باقیات الصالحات کے طورپر باقی رہے میری نظر میں یہ نہایت اہم مسئلہ ہے۔

دوسرا مسئلہ شعبہ تعلیم کے ماتحت تعلیمی مراکز کے اساتذہ و معلیمین کی ٹریننگ ہے جوبہت اہم ہے یہاں بھی میرا ماننا ہے البتہ وزارت تعلیم میں اس وقت خوش قسمتی سے اساتذہ کی تربیت کے لئے اچھی سہولت ہے اس سہولت سے زیادہ زیادہ فائدہ اٹھایا جا نا چاہئے یونیورسٹی کی سہولیات سے بھی فائدہ اٹھائے باہر کا دروازہ بند نہ کیجئے ہر سہولت سے فائدہ اٹھایئے۔

کبھی ممکن ہے کسی شخص کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نہ ہو لیکن وہ کسی شعبہ میں کسی کام میں اہل نظر ہو مشہد میں کچھ اہل شعر و ادب تھے جن کے پاس کوئی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی بلکہ بعض کے پاس تو یونیورسٹی سے پہلے کی بھی ڈگری نہیں تھی لیکن اپنے فن میں استاد تھے ناصر خسرو شناس، مسعود سعد سلمان شناس، سعدی شناس، حافظ شناس اور صائب شناس شعبہ ادب میں یونیورسٹی کے پڑھے کئی اساتذہ سے بہتر تھے یہی چیز شاید اور بھی بہت سے شعبوں میں پائی جاتی ہو لہذا اس قسم کے افراد سے خود کوالگ نہیں رکھنا چاہئے۔

اسی طرح میں دوسری طرف سے کہنا چاہوں گا کہ ہرشعبہ میں مفید اور پڑھے لکھے افراد قوم کے حوالے کرنا بھی شعبہ تعلیم کی ذمہ داری ہے یہ سوچنا غلط ہے کہ شعبہ تعلیم یونیورسٹی کے لئے مقدمہ ہے نہیں! بعض نے تو اپنی دنیا وآخرت کو یونیورسٹی میں داخلہ ملنے پر منحصر کررکھا ہے آپ نے اس طرح کی خبریں سنی ہوں گی کہ یونیورسٹی داخلہ ٹیسٹ میں فیل ہونے والے نوجوان نے فرض کیجئے اپنے لئے کوئی مصیبت کھڑی کر لی، ڈپریشن کا شکار ہو گیا، یا ماں باپ نے اس کے سرپر کوئی چیزدے ماری۔ نہیں صاحب! یونیورسٹی علمی ترقی اور ریسرچ کا ایک راستہ ہے بہت اچھا یہ ملک کے لئے ضروری بھی ہے میں علم میں گہرائی وگیرائی کے رواج کا خواہاں ہوں اور اس بات پر تاکید کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں ایک اچھا دکاندار بھی نہیں چاہئے ایک اچھا ڈرائیور بھی نہیں چاہئے ایک اچھا تاجر نہیں چاہئے اچھا ٹیکنیشن نہیں چاہئے ملک میں ہرمردو عورت کے لئے یونیورسیٹی جانا ضروری تو نہیں لیکن شعبہ تعلیم کی تعلیمات کی ان سب کو ضرورت ہے تو ایسا نہیں ہے کہ شعبہ تعلیم یونیورسٹی کے لئے مقدمہ ہے جو یونیورسیٹی کے لئے خام مال تیار کرتا ہے نہیں! یونیورسیٹی بھی بہت اچھی چیز ہے یونیورسیٹی بھی ضروری ہے لیکن شعبہ تعلیم کا دائرہ یونیورسیٹی سے کہیں زیادہ وسیع ہے آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ شعبہ تعلیم کی وساطت سے ایسے افراد تیار کیجئے جن کے پاس ضروری حد تک فکر اورمعلومات ہوں تاکہ جہاں کہیں بھی انسان کسی کام میں مشغول ہو اس حد تک علم رکھتا ہو اب کچھ کے اندر شوق ہے صلاحیت ہے تو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں گے لیکن کچھ ایسے ہیں کہ جن کے پاس یا شوق نہیں ہے یا صلاحیت نہیں ہے تو وہ یونیورسٹی نہیں جائیں گے۔

البتہ یہ بات انصاف کا خیال رکھنے سے الگ ہے ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے جس سے انصاف قائم رہے یعنی اگر کسی میں شوق ہے صلاحیت بھی ہے صرف مادی وسائل نہیں ہیں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ بھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکے یہ انصاف کا تقاضا ہے یعنی سہولت ہر ایک کو فراہم ہونی چاہئے جب میں نے ایک ایسے جوان سے جس نے پڑھائی چھوڑ دی تھی حسب عادت پوچھا کہ کیوں تم نے تعلیم جاری نہیں رکھی اورکام میں لگ گئے؟ تو اس نے سطحی جواب دیا لیکن جب میں نے اصرار کیا تو اس کا پیشہ اچھا تھا تو اس نے اسی مشہدی لہجہ میں کہا "یہ کام میرے خون میں ہے" وہ کام اس کے خون کا جزء ہے اس کے وجود کا جزء ہے بہت اچھا جس شخص کے وجود میں کوئی پیشہ رچ بس گیا ہے دکانداری مثلاً وجود کا حصہ بن گئی ہے تو جائے وہی کام کرے کیا ضرورت ہے ہر صورت میں یونیورسیٹی ہی میں داخلہ لے، میرا کیوں اصرار ہو کہ یہ شخص ہر صورت میں یونیورسیٹی میں داخل ہونا چاہئے؟ اس مسئلہ کو صحیح نظر سے دیکھنا ہے۔

دوسرا مسئلہ تربیتی سرگرمیاں ہیں کہ جن کی طرف میں نے اشارہ کیا انقلاب کے بعد اس ملک میں جو بہترین سنتیں قائم کی گئیں ان میں سے شہید باہنر کا قائم کردہ تربیتی شعبہ ہے خدا ان پر رحمت نازل کرے کچھ بہانے بنا کے اسے بند بھی کیا گیا اب ہم اسے بدگمانی سے نہیں دیکھنا چاہتے بہرحال کچھ الٹا طریقہ کار تھا یہ کہا گیا کہ تربیت کلاسوں کے اندر ہی مختلف اساتذہ کے ذریعہ ہونی چاہئے اور الگ اسے اس کے لئے کوئی شعبہ نہیں ہونا چاہئے اس طرح یہ مرکز جس کا کام صرف تربیتی امور تھے بند کر دیا گیا جی ہاں میرا بھی یہی ماننا ہے کہ آپ فزکس کے استاد ہیں، حساب کے استاد ہیں، جیومیٹری کے استاد ہیں، ادب کے استاد ہیں یا کسی اور شعبہ میں استاد ہیں آپ اپنے شاگرد کے لئے دینی استاد، اخلاق کے استاد بھی بن سکتے ہیں اپنے طالب علم کی اخلاقیات بھی بہتر بناسکتے ہیں کبھی کبھی حساب کا استاد حساب کا کوئی مسئلہ حل کرتے وقت ایک لفظ کہتا ہے تو وہ لفظ شاگرد کے ذہن میں ایسا اثر قائم کردتا ہے جو ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ اسے ہر استاد کو اپنا فرض سمجھنا چاہئے میں یہاں موجود آپ عزیزوں اورتمام اساتذہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جو بھی پڑھاتے ہیں اس بات سے غافل نہ رہئے تربیت بھی آپ کے کام کا جزء ہے اس سے اچھا کیا ہوگا کہ آپ اپنے استادانہ اثرورسوخ اور شاگرد پر استاد کے روحانی اثر کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے طالب علم کے دل میں ایک چراغ جلا دیجئے خدا کے بارے میں ایک بات، پیغمبراسلام (ص) کے بارے میں ایک بات، قیامت سے متعلق ایک بات خدا سے محبت، معنویت اور سلوک الی االلہ سے متعلق ایک بات جوممکن ہے حساب یا ادب کے استاد یا سیکنڈری اسکول کے سال اول یا سال دوم کے استاد کی حیثیت سے آپ کی زبان سے نکلے اوراس کے نتیجہ میں آپ کے مخاطب طالب علم یا جوان کی اچھی شخصیت بن جائے تو یہ چیز دوسرے لحاظ سے سوسو گھنٹے بولنے سے زیادہ اثررکھتی ہے یہ اپنی جگہ ! یہ ایک فرض ہے لیکن اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ شعبہ تعلیم کے اندر ہمارے پاس ایک شعبہ ہو جس کا کام تربیتی امور کی نگرانی ہو اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم بلا تربیت منزل تک نہیں پہنچائے گی بغیر تربیت کے تعلیم انسانی معاشرہ کو انہیں مصیبتوں میں مبتلا کرے گی جن کا سو ڈیڑھ سو سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے بعد مغربی معاشرہ احساس کررہا ہے یہ وہ چیزیں ہیں جن کا اثردس بیس سال میں ظاہر نہیں ہوتا جب آنکھ کھولئے گا توپتہ چلے گا کہ ایک نسل برباد ہو چکی ہے اوراس کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا ایک نسل! مایوس کن بات ہے اس ضمن میں میرے پاس ہلا کے رکھ دینے والی معلومات اور اعدادوشمار ہیں اب ذکرکرنے کی گنجائش نہیں ہے البتہ بعض موقعوں پر میں نے تذکرہ کیا ہے صاف صاف اعتراف کیا گیا ہے یہ ذہن میں نہ آئے کہ ہم یہاں بیٹھ کر دور سے یہ ساری باتیں کر رہے ہیں نہیں بلکہ یہ ان کے خوداپنے بیانات ہیں یہ وہ وارننگ ہے جو وہ خود اپنے آپ کو دے رہے ہیں مغرب میں یہ ہوا ہے یہ وہی سیلاب ہے جو گھرکی بنیادکو جڑسے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے علم بلا تربیت کا یہ حشر ہوتا ہے جب کسی معاشرہ میں علم ترقی کرتا ہے لیکن تربیت نہیں ہوتی تو ایٹم بم کو جانے دیں، سیاسی گندگیوں کو جانے دیں، دروغ گوئی کو جانے دیں، کارٹلوں اورٹراسٹوں کی منفعت پسندی اپنی جگہ، یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے البتہ یہ سب بھی اسی کا نتیجہ ہے لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ ایک انسانی نسل برباد ہو جاتی ہے لہذا تربیتی امورکا مسئلہ بہت اہم ہے صرف ظاہری طورسے نہیں بلکہ اسے ایک منظم، اچھے اورمضبوط شعبہ کے بطور ہونا چاہئے۔

ایک مسئلہ پڑھنے، لکھنے اور سکھانے کا بھی ہے آخرکارہمیں ملک سے جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا پہلی بات یہ دیکھی جا رہی ہے کہ ملک کے بہت سے علاقوں میں بچے لازمی طورسے اسکول جانے کی عمر میں ہیں لیکن اسکول نہیں جا رہے ہیں یہ بہت خطرناک بات ہے بہت بری چیز ہے کوئي ایسی اسکیم تیار کی جائے کہ جس کے تحت پرائمری تک تعلیم سب کے لئے ضروری ہوکم سے کم پرائمری تک کا سرٹیفکیٹ ہونا شناختی کارڈ اورڈرائیونگ لائسنس کی طرح لازمی سمجھا جائے سب کے پاس یہ ہو یہ بہت اہم بات ہے اس کے سلسلہ میں غفلت برتی جا رہی ہے ملک کے بعض حصوں میں یہی غفلت کبھی کبھی غلط فائدہ اٹھانے کا سبب بن جاتی ہے بچوں کوشعبہ تعلیم میں آکراتنا پڑھنا ہوگا اس کے بعد چاہے جو کریں یہ الگ بات ہے لیکن اس حد تک ضروری ہونا چاہئے۔

ضروری ہے کہ شعبہ تعلیم اورتعلیمی ادارے سے منسلک افراد بیٹھ کرایک حد کا تعین کریں مثلاً پچاس سال سے کم کے افراد یا پچپن ساٹھ سال کے افراد کے لئے فرض کیجئے ایک مدت معین کی جائے مثلاً کہیں کہ یہ لوگ اتنی مدت تک مثلاً پانچ سال تک پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں جن لوگوں کی عمر اس سے زیادہ ہے ان کے لئے اس سے کم پابندیاں رکھی جائیں لیکن بالکل سے چھوڑ نہ دیا جائے مگر پچاس پچپن سال سے کم کے تمام مرد اور عورتیں لازمی طورسے پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں تاکہ ملک میں اس طرح سے ان پڑھ لوگوں کا وجود نہ ہو۔

جتنے اہم مسائل ہمارے ذہن میں تھے ہم نےعرض کردیئے ہیں ہماراماننا ہے کہ ہماری یہ موجودہ نسل جن کے بعض افراد نے انقلاب کا دور دیکھا ہے دفاع مقدس کا دور دیکھا ہے اوربعض نے اس دور کے ماحول کو کسی حد تک محسوس کیا ہے ہم اس ماحول سے دورنہیں ہوئے ہیں اس نسل میں نہ ختم ہونے والی صلاحیتیں ہیں یہ نسل بہت سارے کام کرسکتی ہے ابھی ہمیں اپنے کاموں میں امام (رہ)کی پشت پناہی کا احساس ہوتا ہے وہ قوی ارادہ، وہ عزم راسخ، وہ ملک اورمعاشرہ کے مسائل پرخدائی اورحکمت آمیزنظر ابھی ہمارے درمیان زندہ ہے اورایک لحاظ سے خود امام (رہ)زندہ ہیں ہم نے جو امام (رہ)سے بیعت کی ہے، انقلاب سے بیعت کی ہے ہمیں اس بیعت کا پاس رکھنا ہوگا جولوگ امام (رہ)سے کی ہوئی، انقلاب سے کی ہوئی، اسلامی جمہوریہ سے کی ہوئی بیعت توڑتے ہیں وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں " فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاھدعلیہ اللہ فسیؤتیہ اجراً عظیماً" ہمیں اس بیعت کی حفاظت کرنا ہوگی خوش قسمتی سے ہمارا ملک جوانوں اورجوانی کی شادابی سے چھلک رہا ہےاورموجودہ نسل کی اس بیعت کی برکت سے ہم بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں اس کی ایک مثال یہی جوہری توانائی کا مسئلہ ہے آپ ملاحظہ کیجئے کہ ایرانی قوم نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب موڑ رکھی ہے صحیح ہے کہ سیاست داں اورپروپیگنڈہ کرنے والے برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن آپ یہ جان لیجئے کہ قومیں تعریف کر رہی ہیں خود سیاست داں بھی دل ہی دل میں ایران کی تعریف کرتے ہیں آئی اے ای اے یا کسی سیاسی محفل میں ہمارے لئے مذاکراتی پروگرام رکھتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ ایرانی قوم کی مستقل مزاجی، حصول علم کے شوق اوراس قومی وعلمی قابل فخر کام پرایران کی تعریف کرتے اورتعجب کا اظہارکرتے ہیں ہمارے پاس جتنی رپورٹیں ہیں وہ اس کی نشان دہی کرتی ہیں یہ ایک نمونہ ہے۔

اگرآج سے بیس سال پہلے کوئی یہ کہتا کہ ایک دن آئے گا جب ایرانی نوجوان بغیر کہیں سے مدد لئے اپنی پراکندہ صلاحیتوں اوراپنی ذہنی خلاقیت اورسرگرمی کے ذریعہ سینٹریفیوجز بنا لیں گے یورینیم کی افزودگي کا کام شروع کردیں گے اوریورینیم سے بجلی بنا لیں گے توہزارلوگوں میں ایک آدمی کو بھی یقین نہ آتا اوراس بات کا انکارکرنے والوں میں ماہرین اورپڑھے لکھے لوگ سب سے آگے ہوتے سب سے پہلے کہتے کہ صاحب نہیں ہوسکتا ایسا کہاں ممکن ہے؟ کوئی حلوہ تھوڑی ہے ایرانی قوم نے ثابت کردیا کہ وہ ایسا کر سکتی ہے ہر شعبہ میں یہی کیفیت ہے اس شعبہ میں یہ چیز سامنے آچکی ہے، ایرانی قوم نے پوری دنیا کواپنا کمال دکھادیاہے ہرشعبہ میں قوم کے پاس ایسی ہی صلاحیت اورایسا ہی شوق ہے اتنی ہمت وشجاعت بھی ہے کہ اس طرح کے میدانوں میں وارد ہوجائے۔ ۔ ۔ تو یہ طے شدہ بات ہے اس کا انکار کرنے والے پر لعنت ہو اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں آپ کا مسلمہ حق ہیں۔

ہم نے جو خلاقیت کا ذکر کیا تھا اس کے معنی یہ ہیں کہ خلاق فکر، خلاق طرز عمل اورخلاق عزم وارادہ کے ساتھ ہمارے جوان، ہماری قوم، ہمارے اہل فکرلوگ جو فکری وذہنی کاموں میں مشغول ہیں خاص طورسے آپ اساتذہ حضرات آگے بڑھتے رہیں خدا بھی انشا اللہ مدد کرے گا۔

پروردگارا! اس قوم پر اپنی امداد اورتوفیق نازل فرما، پالنے والے! ہماری رفتار، ہماری نیت اورہمارے عمل سے ولی عصر(ارواحنا فداہ) کو راضی وخوشنود فرما خداوندا! ایرانی قوم کی نشاط وشادابی میں روزبروز اضافہ فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ