بسماللَّہ الرّحمنالرّحيم
ہماری آج کی ملاقات صوبہ فارس کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والےعزیزعہدیداروں سے ، جو شیراز میں میرے قیام کے آخری دن انجام پا رہی ہے، آپ حضرات کے لئے میری طرف سے نصیحتوں اور سفارشوں کے ساتھ ساتھ اس میں تشکر اور قدردانی کا پہلو بھی ہے ۔
سب سے پہلےضروری ہے کہ میں شیراز اور صوبے کے دیگر شہروں کے عزیز عوام کا ان کی مہمان نوازی اور ان کی والہانہ محبت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس علاقہ کے باشندوں کی معروف خصلتوں میں شمار ہوتی ہے۔ دوسرے میں آپ عزیز بہنوں اور بھائیوں کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں جو مختلف محکموں میں سرگرم عمل ہیں، اور ہمارے اس دورے کے اہتمام کی زحمتیں آپ کے محکموں نے برداشت کی ہیں اس سلسلے میں عمدہ تعاون پیش کیا ہے ۔
میں ان شہروں کے باشندوں سے معذرت چاہتا ہوں جہاں جانے کا مجھےموقع نہیں مل سکا اور میں نے وہاں اپنے نمایندوں کو بھیجا۔ ماشاء اللہ کافی بڑا صوبہ ہے۔ اس میں بہت سے اضلاع ہیں۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں سے آمنے سامنے ملاقات کی جائے۔ لیکن " ما کل ما یتمنی المرء یدرکہ" بہت سی آرزوئيں ہیں جن کی تکمیل پر انسان قادر نہیں۔ بہرحال ہمارے عزیز بہنوں اور بھائیوں نے زحمت فرمائي اور خود ہی اپنے شہروں سے شیراز تشریف لائے، پہلے دن کے اجتماع اسی طری بعد کی ملاقاتوں میں شریک ہوئے، ظاہر ہے انہیں زحمت ہوئي، میں ان کا بھی شکر گزار ہوں۔
صوبہفارس بے پناہ صلاحیتوں سے سرشار ہے جن کی جانب گورنر محترم نے اشارہ فرمایا۔ صوبہ فارس سے متعلق رپورٹوں میں بھی اس کا ذکر کیا گيا ہے۔ قدرتی وسائل اور صوبے کے جنوب و شمال میں آب و ہوا کے اختلاف سے پیدا ہونے والے گوناگوں مواقع اور سب سے بڑھ کر افرادی قوت اور انسانی صلاحیتیں جو اس صوبے میں واقعا صاف نظر آتی ہیں۔
ایک اہم نکتہ یہ کہ جو شخص بھی جس سطح پر بھی اس صوبے کے عوام کی خدمت کر رہا ہے اسے اللہ تعالی کا شکر بجا لانا چاہئے۔ واقعی یہ عوام، یہ دانشمند لوگ اور یہ باذوق انسان خدمت کے لائق ہیں۔ واقعی ان لوگوں کی خدمت لذت بخش ہے۔ البتہ آپ کی اکثریت کا تعلق بھی یہیں کے رہنے والوں سے ہے۔ جب انسان شہر شیراز اور صوبہ فارس کے عوام کی خصوصیات اور ان کےاخلاق سے آشنا ہو جاتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ان باذوق، خوش اخلاق، نکتہ سنج اور صلاحیت مند عوام کی خدمت ایک انسان کے لئے کتنی بڑی خوش قسمتی کی بات ہے ایک سنہری موقع ہے، اس کی قدر کیجئے۔ آپ جس عہدے پر بھی اور مجریہ، مقننہ یا عدلیہ کے شعبوں میں سے جس شعبہ سے بھی وابستہ ہیں اس موقع کی قدر کیجئے اور اس پر اللہ تعالی کا شکر بجا لائیے۔ عوام کی بھرپور خدمت کیجئے اس کے لئے اپنا پورا وقت دیجئے۔ عوام اور مراجعہ کرنے والے لوگوں کو عزت دیجئے۔ ہر جگہ ہر شخص قابل احترام ہے تاہم جب انسان کسی آبادی کی اخلاقی اور انسانی خصوصیات سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں وہاں کے لوگوں کا احترام دو بالا ہو جاتا ہے۔ آپ عزیزوں کے لئے یہ میری سب سے اہم اور بنیادی نصیحت ہے۔
اس سفر کے دوران صوبے کے متعدد امور کے سلسلے میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ حکومت نے ان فیصلوں اور منظور شدہ منصوبوں کے لئے اچھا بجٹ مخصوص کیا ہے۔ حکومتی اعلی عہدہ دار بھی آج آئيں گے اور بیٹھ کر ان منصوبوں کو حکومتی بل کی حیثیت سے منظوری دیں گے، جتنی جلد ممکن ہو ان منصوبوں کو پوری طاقت و توانائی کےساتھ عملی جامہ پہنائیے تاکہ عوام ان سے بہرہ مند ہو سکیں۔
میری نظر میں شیراز کی جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ اس روضہ اقدس کی مرکزیت ہے، ہمارے ملک میں بہت کم ہی شہروں کو یہ خصوصیت حاصل ہے۔ شیراز میں خاندان رسالت (ص)سے تعلق رکھنے والے تین عالی مرتبت امامزادوں، اسی طرح خاندان رسالت (ص)سے نسبت رکھنے والے دیگر امامزادوں کی قبریں، اس شہر کے تقدس اوراہل بیت اطہار علیہم السلام سے اس کی وابستگی کو واضح اور نمایاں کرتی ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے، دیگر ذرائع ابلاغ کے تبلیغاتی پروگراموں اور اقتصادی اور ترقیاتی پروگراموں میں اس پہلو کو جو صوبہ فارس کے عوام کی ولائے اہل بیت اطہار کا مظہر ہے سامنے لایا جائے۔ ایران میں مشہد اور قم کے بعد یہ شہردر حقیقت اہل بیت علیھم السلام کا تیسرا آشیانہ ہے۔ اس روضہ اقدس کے زائرین کو سہولیات مہیا کرانے، روضے کے تعارف اور اندرون و بیرون ملک مشتاقان اہلبیت علیھم السلام کو اس عظیم بارگاہ کی جانب متوجہ کرانے کے سلسلے میں کچھ اہم کام انجام دینے کی اہم ضرورت ہے۔
اس صوبے میں یہ چیز واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ عظیم اور ممتاز صلاحیتوں سے سرشار یہ صوبہ کچھ محجوب اور باحیا ہے؛جیسے بہت سے علم و فضل سے آراستہ افراد ہوتے ہیں جو اپنے مرتبے کے اظہار سے گریزاں رہتے ہیں، یہ چیز یہاں نظر آتی ہے۔ ماضی و حال کی یہ قابل فخر شخصیات! کل ممتاز شخصیات اور دانشوروں کے ساتھ ملاقات میں علمی اور ادبی شخصیات، صنعتکاروں اور معاشرے کے لئے اہم اور مفید افراد سے آشنائي بہت لذت بخش رہی۔ شیراز کی صلاحیتوں کو متعارف کرانے کے لئے جس طرح کی تبلیغات کی ضرورت ہے وہ اب تک نہیں کی گئي ہے۔ صوبہ فارس کے لوگ اپنے منہ سے کہنے والے نہیں ہیں یہ تو دوسرے افراد خود محسوس کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے فارس کے عوام اہل "حال" ہیں یعنی کام والے لوگ نہیں ہیں لیکن میں کہوں گا کہ نہیں یہ اہل حال تو ہیں لیکن قال اور باتیں بنانے والے نہیں ہیں ورنہ جہاں تک محنت و مشقت کا تعلق ہے تو یہاں کے لوگ بہت پیش قدم ہیں۔ صنعت و زراعت کے شعبوں میں علمی اور عملی کوششیں قابل ستائیش ہیں۔ فارس کے لوگ باتیں بنانے والے اور اپنی تعریف کرنے والے نہیں ہیں۔ اس چیز کا خیال رکھا جانا چاہئے۔
ماضي میں حافظ نے کہا تھا کہ
من كه ملول گشتمى از نفس فرشتگان
قال و مقال عالمى ميكشم از براى تو
فرشتوں کے نفس سے ملول بھی ہوتے ہیں، دنیا والوں کی باتیں بھی برداشت کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جذبہ آج بھی شیرازیوں میں موجود ہے۔ اپنی تعریفیں کرنے والے نہیں ہیں جبکہ صلاحیتوں سے مالامال ہیں، ان صلاحیتوں سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔
کل جن حضرات نے گفتگو فرمائي ان میں ایک صاحب نے یہاں فن و ہنر کی تقویت کے لئے آرٹ کالج کی تجویز پیش کی۔ بعض لوگوں کا یہ تصور ہے کہ فن و ہنر، دین و مذہب سے دوری کے مترادف ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ ہنر تو انسان میں خلقت الہی کا حسین جلوہ ہے۔ اس سلسلے میں جس چیز سے اہل بصیرت نے روکا ہے وہ غلط سمت کا انتخاب ہے۔ لوگوں کو بے راہ روی کی جانب منحرف کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مذموم ہے ورنہ اگر ہنر میں روح ایمانی شامل ہو جائے اور دینی رجحان سے متاثر ہو تو وجود انسانی کی بڑی ممتاز اور عدیم المثال خصوصیت ہے۔ آج بحمد للہ یہی صورت حال ہے۔ آج ہمارے شعرا، ہمارے مصورین، اور فن و ہنر کے دیگر شعبوں کے لوگ دین و ایمان کے جذبے کے زیر اثر اپنے شاہکاروں کی تخلیق کرتے ہیں۔ اس میں کیا برائي ہے؟ اگر ہم اس صحیح رجحان کے ساتھ یہاں فن و ہنر کا ایک مرکز قائم کریں تو یہ بہت اچھی بات ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔اس میدان میں بھی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا جائے یہ بہت اچھا ہے۔
اس صوبے میں جن چیزوں پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ان میں ایک سیاحت کا شعبہ ہے۔ یہاں خاندان رسالت(ص) کے چشم و چراغ حضرت احمد بن موسی (علیہ وعلی ابیہ و اخیہ السلام) کا روضہ اقدس واقع ہے، یہ زیارت گاہ ہے۔ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ملک اور صوبے کے متعلقہ حکام سیاحت کے مسئلے پر صحیح انداز میں توجہ دیں اور مناسب انداز میں اس کا تعارف کروائيں تو سیاحت سے ہونے والی آمدنی صوبے کو بہت سی چیزوں سے بے نیاز کر دے گی۔ سیاحت کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
میں یہاں اسلام سے قبل کی تاریخی عمارتوں کی جانب اشارہ کروں گا، تخت جمشید اور دیگر آثار جو یہاں واقع ہیں انسان انہیں دو زاویوں سے دیکھتا اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جانا چاہئے۔ ایک زاویہ نگاہ یہ ہے کہ یہ تو وہ آثار قدیمہ ہیں جن کا تعلق تاریخ کے جابراور ظالم لوگوں سے ہے جس عمارت کو بھی دیکھئے تاریخ کے کسی ظالم حاکم سے اس کا تعلق ہے۔ یہ ان عمارتوں کا منفی پہلو ہے۔ دیندار اور مذہبی افراد جو ظلم و ستم سے فطری طورپر بیزار ہیں جب اس زاوئے سے ان آثار قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو ان میں ان کے لئے کوئي کشش نہیں ہوتی ہے تاہم ان آثار قدیمہ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ایرانی فنکاروں کے خون پسینے اور زحمتوں کا شاہکار اور اعلی ایرانی فکر و خیال کا نتیجہ ہیں۔ یہ ان عمارتوں کا مثبت پہلو ہے۔ یہاں، اصفہان میں اور اسی طرح دیگر مقامات پر جو تاریخی عمارتیں ہیں انہیں خصوصیات کی حامل ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہیں جابر حاکموں نے استعمال کیا ہے لیکن ان شاہکاروں کا خالق کون ہے؟ ظاہر ہے کہ ایرانی ذہن، ایرانی فنکار کی مشاق انگلیاںاور ان کی تخلیق میں ایرانی ذوق و نظر شامل ہے۔ جب ہم اس زاویہ سے دیکھتے ہیں تو ان کا مثبت پہلو سامنے آتا ہے۔ خواہ وہ تخت جمشید ہو یا دیگر عمارتیں، ان کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں بہت سی ایسی چیزوں کو جن کا کوئي پر افتخار پہلو نہیں ہے کبھی کبھی تاریخی یادگار کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ جن کے پاس تاریخی یادگار نہیں ہیں وہ ان کی نقل اتارتے ہیں۔ ہمارے پاس تو کتنے گرانقدر آثار قدیمہ ہیں! یہ تاریخی چیزیں جوملت ایران کے لئے مایہ فخر اور اس کی خود اعتمادی میں اضافے کا موجب ہیں، ہم انہیں متعارف کیوں نہ کرائيں؟
ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ یونان گئے تھے ، ان لوگوں کو مختلف سیاحتی مقامات پرلے جایا جاتا تھا اور یہ مقامات دکھائے جا رہے تھے۔ ایک ایسی جگہ بھی لے جایا گيا جس کے بارے میں یہ اطلاع دی گئي کہ یہاں ایرانی فوج آئي تھی اور اسے ہم نے شکست دی تھی۔ ایک لق و دق میدان میں لے جاکر بتایا جا رہا تھا کہ یہاں ایرانی فوج نے چڑھائي کی تھی اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کسی بھی قسم کی نشانی سے خالی ایک جگہ دکھا کر اسے کسی تاریخی چیز کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے۔ تو یہاں جو کازرون کے علاقے کے نزدیک شہنشاہ روم والرین کا مجسمہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے جس نے بادشاہ ایران کےسامنے گھٹنے ٹیکے ہیں، اس کے پروپیگنڈے کی ضرورت ہے یہ ہمارے ماضی کے اہم واقعات کی نشاندہی کرنے والی چیزیں ہیں۔
ویسے میں یہ ضرور کہوں گا اور اس پر میرا پورا یقین ہے اور میں اپنے مطالعہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام کی آمد کے بعد ایران نے جو کارنامے انجام دئیے ہیں ان کے مقابلے میں اس سے قبل کی تاریخ میں جو کچھ بھی انجام پایا وہ کچھ نہیں ہے۔ اسلام کے زمانے میں، تیسری چوتھی اور پانچویں ہجری قمری میں ایران، دنیا میں علم و ادب اور اقتصادی و سیاسی میدان میں اوج پر تھا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک، ایشیاء سے لے کر یورپ تک دنیا کا کوئي بھی علاقہ اس حد تک ترقی یافتہ نہیں تھا۔ یہ اسلام کی برکت تھی۔ اس سے قبل ایران کو کبھی یہ مقام حاصل نہیں ہوا۔ آل بویہ کے دور سے لے کر غزنویوں، سلجوقیوں اور صفوی دور تک ایران جس مقام پر رہا اس کا کسی اور زمانے سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ تاریخ ایران کا وہ دوسرا حصہ بھی ہماری ہی تاریخ ہے۔ اب یہ ہے کہ اس دور میں کسی ظالم بادشاہ کے ہاتھ میں زمام اقتدار تھی اور اس نے غلط طور طریقے رائج کر رکھے تھے یہ اپنی جگہ لیکن ایرانی فن و ہنر تو بہرحال ہے۔ تو سیاحت کے مسئلے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ زیارتگاہیں ہوں یا ادبی اور فنی میدان کے شاہکار آپ کے پاس ان کے بہترین نمونے "حافظ و سعدی" ہیں۔
ایک اور چیز جس پر یہاں توجہ مبذول کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ علاقہ زراعتی شعبے کے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ خشکسالی سے مقابلے کے لئے طویل المیعاد تحقیقات انجام دی جائيں کہ جو کافی طویل اور وسیع عمل ہے اور اس کے متعدد پہلو ہیں اور ان تحقیقات کا مرکز اسی شہر میں قائم کیا جائے۔ یہاں مرکزی حیثیت کے حامل جس ادارے کا قیام عمل میں آ سکتا ہے، میری نظر میں یہی ادارہ ہے، انشاء اللہ اس سلسلے میں اس دورے سے متعلق موضوعات کی درجہ بندی کے وقت متعلقہ افراد اس موضوع کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے اور ضروری اقدامات انجام دیں گے۔ جیسا کہ آپ حضرات نے بیان فرمایا کہ طبی شعبہ میں آپ کی کچھ خاص خصوصیات ہیں، اس شعبہ میں بھی آپ ایک بے مثال کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ البتہ دوسرے بہت سے اہم کام بھی اس صوبے میں انجام دئے جا سکتے ہیں۔ انشاء اللہ خداوند متعال حکام کی مدد فرمائے اور وہ ضروری اقدامات انجام دیں۔ انشاء اللہ آپ سبھی، اللہ تعالی کی عنایات کے زیر سایہ جہاں بھی ہیں اور جس عہدے پر بھی فائز ہیں اس پروگرام کو آگے بڑھانے میں تعاون کریں۔
عوامی خدمت کے اس موقع کو غنیمت تصور کیجئے۔ عوام کے اس تعاون کی اہمیت کو درک کیجئے۔ عوام کے جوش و جذبے اور اس آمادگی کی قدر کیجئے اور اللہ تعالی سے مدد مانگئے۔ ہدایت و رہنمائي کی دعا کیجئے۔ انشاء اللہ خدا وند عالم آپ کی مدد فرمائے گا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دست دعا بلندکیجئے کہ آپ کے ذریعہ اور ملک کے دیگر حکام کے ذریعہ اس ملک کی روز افزوں ترقی کے اسباب فراہم کرے اور اس صوبے اور اس ملک کے مستقبل کو ماضی سے زیادہ بہتر اور درخشاں و تابناک بنائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته