ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت فاطمہ زہراء(س) کے یوم ولادت کے موقع پر اہلبیت(ع) کے ذاکرین سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ تمام عزيز بھائیوں کی خدمت میں اس مبارک و مسعود عید میلاد کی مبارکباد پیش کرتا ہوں میں آپ تمام حاضرین کرام کا بہت بہت مشکور ہوں خاص طورسے جن عزیز بھائیوں نے اپنا پروگرام پیش کیا ہے ان کا اورپروگرام کے ناظم کا شکریہ اداکرتا ہوں اسی کے ساتھ جملہ ذاکرین کرام، اپنا کلام سنانے والے شعرااوراپنے عزیزشاعرکا میںخا ص طور سے مشکورہوں میں آپ سب کا مشکور ہوں آپ نے ہمارے دلوں کو تاریخ انسانی کی عظیم ترین خاتون، پیغمبراکرم(ص) کی بیٹی کے فضائل سے منورکردیاہے۔

یہ خود اسلام کا ایک معجزہ ہے یعنی فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا) اپنی مختصر سی عمر میں اس مقام پر فائز تھیں کہ سیدہ نساء عالمین کہلائیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ تاریخ کی تمام مقدس خواتین سے افضل ہیں کیا چیز سبب بنی؟ کون سی طاقت تھی؟ متحول کرنے والی کون سی عمیق باطنی قدرت تھی کہ جس نے اتنی مختصر مدت میں ایک انسان کومعرفت، عبودیت، پاکیزگی اورمعنوی بلندیوں کا ایسا بحر بیکراں بنا دیا یہ خود اسلام کا معجزہ ہے۔

دوسری طرف آپ کی نسل مبارک ہے جناب فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا) کا سورہ کوثرکی مصداق قرار پانا اگرہماری احادیث میں نہ بھی آیا ہوتا تب بھی اس سورہ کی مصداق آپ ہی تھیں خاندان پیغمبر(ص) اورہرامام معصوم پرخداکا اتنا کرم ہے کہ دنیاپاک زبانوں سے نکلنے والے فردی، سماجی اوردنیاوی وآخروی دلنوازنغموں سے بھری ہوئی ہے، آپ ملاحظہ کیجئے کہ حسین ابن علی (ع)، زینب کبری(س)، امام حسن مجتبی(ع)، امام صادق(ع)، امام سجاد(ع) اوردیگرائمہ (ع) کے جملوں اورتعلیمات کا معرفت ومعنویت کی دنیا میں کیا عالم ہے، یہ ہے نسل فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا)!

ہمیں خداکا لاکھ لاکھ شکرادا کرنا چاہئے، ابھی کچھ اشعارمیں بھی یہی بات کہی گئی ہے، صدیقہ کبری فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا) سے تولا رکھنا ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے خداکا شکر کہ ہم نے انہیں پہچانا، خداکا شکر کہ ہم نے خود کوان کی عنایت سے متوسل کیا، خدا کا شکر کہ ہم نے ان کے وجود جیسی نعمت کی قدر پہچانی اوران سے توسل کیا، ان سے معرفت چاہی اوران سے محبت کی، یہ خدا کی بہت بڑی نعمتیں ہیں ہمیں ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔

ہماری اگلی بات آپ مدح خواں حضرات کے اہم نقش سے متعلق ہے دین کی بنیاد اگرچہ عقل،فلسفہ اوراستدلال پر مبنی ہے لیکن احساس اورایمان قلبی کے پانی سے سینچائی نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی فلسفی وعقلی پودا نہ تو رشدونمو کرسکتاہے اورنہ ہی اپنی جڑیں پھیلا کرتاریخ میں محفوظ رہ سکتا ہے ہردین کی یہی خاصیت ہے دین اوردوسرے کسی مکتب فکر، آئیڈیالوجی یا فلسفہ میں فرق یہ ہے کہ دین ایمان کا باعث ہے ایمان اورہے اورعلم اور، ایمان اورہے اوراستدلال اور، ایمان اورہے اورفلسفہ اور ایمان دل سے متعلق ہے ایمان اوراحساسات کا گھرایک ہی ہے ایمان کا مطلب ہے دل بھی دینا اورسربھی دینا لہذا دل کی بھی اہمیت ہے ادیان کی پوری تاریخ میں احساسات نے خود کو اسی طرح محفوظ رکھا ہے۔

یہ سچ ہے کہ فلسفوں کی آپسی جنگ میں کوئی بھی فلسفہ، فلسفہ دین اورفلسفہ توحید خاص طورسے تدوین شدہ اسلامی فلسفہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن بات یہ نہیں ہے ایسے بہت سے لوگ ہیں جواسلامی اصول اورتعلیمات توجانتے ہیں حقیقت سے آگاہ بھی ہیں لیکن اس حقیقیت کے آگے دل نہیں جھکا پائے ہیں کیا آپ سوچتے ہیں کہ صدراسلام میں جن لوگوں نے خود پیغمبراسلام (ص)سے علی ابن ابی طالب (ع)کے بارے میں وہ تمام احادیث سن رکھی تھیں کیاوہ حضرت علی (ع)کی حقانیت کو نہیں جانتے تھے؟ جانتے تھے ہم نے روایات میں دیکھا ہے کہ انہوں نے خود پیغمبر (ص)کی زبان سے سب کچھ سنا تھا علم تھا لیکن کمی یہ تھی کہ اس علم پرایمان نہیں تھا، جس چیز کا علم تھا اس پرایمان نہیں تھا یعنی حقیقت کو دل سے قبول نہیں کرپائے تھے کیا چیز ایمان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے؟ بہت سی چیزیں ہیں اب یہ ایک الگ وسیع موضوع ہے۔

فن، شعر، ادب اورروح ایمانی کی تربیت کے دیگرذرائع نہایت اہم اورمؤثرکرداراداکرتے ہیں اہلبیت(ع) کے ذاکر اور ان کے مدح خواں کی اہمیت کا آپ یہاں سے اندازہ لگائیں یہ لوگ ایمان کی آبیاری، ماحول سازی اورمحب اورمحبوب کے بیچ دلی رابطہ کا کام کرتے ہیں اس طرح کا نقش ہے ان کا! جوکہ نہایت ہی اہم نقش ہے۔

گذشتہ بیس سال کی مدت سےیہ جلسہ منعقد ہوتا آرہا ہے ہرسال مدح خواں حضرات اس نشست میں شرکت کرتے ہیں میرے صدارتی دور یعنی سنہ ساٹھ کی دہائی سے ہرسال یہ نشست ہوتی رہی ہے ہر نشست میں مدح، مدح خواں اور ذاکرین سے متعلق ہم ایک بات کہتے رہے ہیں اس وقت اسے دہرانا نہیں چاہتا بلکہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدح خواں حضرات اپنے کام کی اہمیت کا احساس کریں جب انہیں اس کی اہمیت کا احساس ہوجائے توپھراپنی ذمہ داری کا احساس کریں جتنی اہمیت ہوتی ہے اتنی ہی ذمہ داری اہم ہوتی ہے ذمہ داری یا مسئولیت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ مسئولیت یعنی ہم سے سوال ہوگا، دعائے مکارم الاخلاق میں آپ پڑھتے ہیں " واستعملنی بما تسئلنی غداً" کل روز قیامت تو مجھ سے پوچھے گا اے پروردگار! میری مدد کر تاکہ کل روز قیامت تومجھ سے جو سوال کرے گا اس کا جواب میں آج ہی سے اپنے عمل کے ذریعہ تیار کر لوں، دعا کے اس فقرہ کا یہ مطلب ہے توآپ پر مسئولیت ہے یعنی آپ سے سوال ہوگا توہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے تاکہ ہمارا آج کا عمل کل کے سوال کا جواب بن جائے۔

جب یہ معلوم ہوگیا تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کریں؟ جتنا کچھ ہم نے کہا ہے، جتنا کچھ مدح خواں طبقہ کے بافہم، سمجھدار اورذمہ دار افراد نے کہا ہے، یہ نشست رکھی ہے اورگفتگو کی ہے یہ سب اسی سوال کا جواب ڈھونڈھنے کے لئے ہے کہ کیا جائے؟ کیا کیاجائے؟ ایک جملہ ہے لیکن اس کا جواب ایک کتاب بن جائے گی اگر اس کتاب کے صرف تین جملے عرض کئے جائیں تو ان میں سے ایک یہ ہوگا؛

جب ہم کوئی شعر پڑھیں تویہ بات مد نظر رکھیں کہ اس شعرسے سامعین کے ایمان کو جلا ملنی چاہئے جب معیار یہ ہوگا تو ہم ہر طرح کا شعر نہیں پڑھیں گے پڑھنے کے لئے ہرچیز کا انتخاب نہیں کریں گے اس طرح پڑھیں کہ لفظ معنی اورانداز سب کے سب مؤثر واقع ہوں لیکن کس چیز میں؟ مخاطب کے ایمان میں اضافہ کے! کہنا توآسان ہے انسان میدان کے کنارے بیٹھ جائےاوروہاں سے میدان میں موجود پہلوان کو حکم دینے لگ جائے، تو بہرحال عمل کرنا سخت ہے لیکن آپ لوگ عمل کرسکتے ہیں آپ کی آواز بھی اچھی ہے، حافظہ بھی خوب ہے، شوق بھی کافی ہے آپ لوگ ان تمام چیزوں پر عمل کرسکتے ہیں۔

جوانوں سے میری تاکید ہے کہ وہ اپنے پیشروؤں کے انداز کو یکسرترک نہ کردیں مجھے جدت سے اختلاف نہیں ہے جدت طرازی میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر آپ جدت طرازی میں کمال لانا چاہتے ہیں تواسے گذشتگان کے انداز کے ذیل میں ہی ہونا چاہئے۔

" العلی محظورۃ الاّعلی من بنی فوق بناء السلفی" انہوں نے ایک طبقہ تعمیر کیا ہے آپ اسی پر دوسرا طبقہ بنائیے بعد میں آنے والا اس کے اوپرایک اور طبقہ بنائے گا اس طرح عمارت اونچی ہوتی چلی جائے گی لیکن اگر کسی نے ایک طبقہ تعمیرکیا آپ نے اسے گراکرنیا ایک طبقہ بنا لیا بعد میں آنے والا آپ والا طبقہ گرا کر پھراپنا ایک طبقہ بنائے گا اس طرح یہ عمارت ہمیشہ ایک طبقہ ہی رہے گی آپ سے پہلے کے اساتید وہ لوگ جو اس کام میں آپ سے پیش قدم رہے ہیں ان کی خوبیاں سیکھئے اور اس میں مزید خوبیوں کا اضافہ کیجئے جدید انداز اس طرح سے اپنائے جائیں توبہترہے۔

ماضی میں ہم نے معروف موسیقی دانوں کی زبانی سنا تھا کہ ایران کی اصیل موسیقی کو نوحہ خوانوں اور شبیہ خوانوں نے محفوظ رکھا ہے موافق خوان، مخالف خوان، علی اکبر خوان، قاسم خوان وغیرہ ہر ایک کومخصوص آلہ دیا جاتا تھا، جس میں وہ پڑھتے تھے یہ اس بات کا سبب ہوا کہ ایران کی نا نوشتہ موسیقی جسے نہ لکھا گیا تھا نہ نوٹ کیا گیا تھا محفوظ رہ کر ان ہاتھوں تک پہونچ گئی جنہوں نے اسے جدید طریقوں کے ذریعہ محفوظ کرلیا اب ہمارا کوئی ریڈیو ٹی وی پر پڑھنے والا ہو یا مدح خوانی کرنے والا ہو (افسوس کہ ریڈیو ٹی وی کا حال بھی اس ضمن میں اچھا نہیں ہے) اچانک کسی یوروپی ساز پر اور وہ بھی غلط طریقے سے پڑھنا شروع کردے فرض کیجئے کہ کسی مغربی گلوکار یا اس کے عربی مقلد نے کسی اندازسے کہیں پر پڑھا ہے تو ہم بھی اس سے سیکھ کے اسی طرح پڑھنا شروع کردیں! افسوس کی بات ہے کہ انقلاب سے پہلے یہی کام ہوتا تھا ایران کی اصیل موسیقی جس کی ایک قسم شاید حلال ہوتی اسے بھی ضائع کردیا گیا البتہ ایران کی اصیل موسیقی کی بھی ایک قسم حرام ہے اور ایرانی اورغیرایرانی میں کوئی فرق نہیں ہے انقلاب کے بعد بہتری آگئی تھی اب اگر ہمارا کوئی پڑھنے والا(گلوکار) ریڈیو، ٹی وی پر غلط انداز سے تقلید کرتے ہوئے مغربی یا لہوولعب کے سازپرایمانی اورمعنوی محفل میں پڑھنا شروع کردے تو یہ غلط ہے، درست نہیں ہے جدت طرازی قبول ہے لیکن اس طرح کی نہیں! تویہ ساز سے متعلق تھا اچھی آواز کو بھی برے ساز کے ذریعہ خراب کیا جاسکتا ہے درمیانہ آوازکواچھے ساز کے ذریعہ بہتر بنایاجا سکتا ہے سازکی خودایک حیثیت ہے۔

اب شعر اور کلام کی بات کرتے ہیں یہ کافی تفصیلی موضوع ہے پہلی بات یہ ہے کہ شعرکی لفظیں اچھی ہونی چاہئیں ہرآدمی اچھے شعر کو نہیں پہچان پاتا ایک عام آدمی اگر کسی شعر کو اچھا کہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شعر واقعی اچھا ہے اچھا شعر وہ ہے جسے ایک ماہرفن اچھاکہے اچھے شعر کا فائدہ کیا ہے؟ فائدہ یہ ہے کہ ہم آپ متوجہ بھی نہیں ہوتے ہیں اور وہ مخاطب کومتأثرکردیتا ہے اورکمال یہی ہے فن کا کمال یہ ہے کہ مخاطب چاہے اس کے حسن کوتشخیص نہ دے پائے لیکن دل کی گہرائیوں پراس کا اثر ہوجائے ایک سطحی اوربازاری شعرکے مقابلہ میں اچھے شعر کا فائدہ یہ ہے لفظیں خوبصورت اور اچھی ہوں، مضامین دلچسپ اورنئے ہوں تکراری نہ ہوں اورمواد جوکہ اصل ہے سبق آموز ہو۔

لفظ اورلفظی مضمون کے علاوہ مواد بھی ایک چیز ہے یعنی جو چیز آپ بیان کررہے ہیں اسے سبق آموز ہونا چاہئے، فرض کیجئے ایک واعظ منبرپرجاکرشروع سے آخر تک ایسی تقریر کرے جس سے اس موضوع سے متعلق سامعین کی معرفت وبصیرت میں ذرہ برابراضافہ نہ ہو تواس نے اپنا وقت بھی برباد کیا ہے اور دوسروں کا بھی، مدح خواں کا حال بھی یہی ہے آپ کوئی شعرپڑھیں جس کی لفظیں بھی اچھی ہوں، حضرت زہرا(س)کے بارے میں بھی ہو لیکن اس شعر میں ایسی چیزیں ہوں جن سے سامع کو کوئی فائدہ نہ پہونچے نہ جناب زہرا (س)کے سلسلہ میں اس کی معرفت میں اضافہ ہو، ایسی باتیں ہوں جن سے سامعین کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے نہ حضرت زہرا(س) کے بارے میں ان کی معرفت میں کوئي اضافہ ہو نہ توحیدی درجات کےبارے میں کوئی بات سمجھ میں آئی ہو، نہ حضرت کی مجاہدت اس کی سمجھ میں آئی ہو، نہ حضرت کی سبق آموز رفتاروکردارکے بارے میں کوئی بات واضح ہو توایسا شعرقابل اعتراض ہے کیونکہ حضرت معصومہ ہیں لہذا ان کا ہر عمل انسانیت کے لئے درس ہے ۔

عزیزو! آپ کا کام سخت ہے کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ چارباتیں رٹ لو اورآواز اچھی ہوتوکافی ہے جی نہیں آپ کا کام اس سے کہیں سخت ہے اس میں فن بھی ہونا چاہئے، اثراندازی بھی ہونا چاہئے، ہدایت بھی ہونی چاہئے اوررہنمائی بھی!

اس وقت کتنے مسائل ہمارے سامنے ہیں صرف امریکہ اورجوہری توانائی کا ہی مسئلہ نہیں ہے یہ مسائل تو اہم ہیں ہی، اسی کے ساتھ اس وقت دنیا کے تمام تھنک ٹینک اورپروپگینڈہ مراکزایسا منصوبہ بنانے کی فکر میں ہیں جس سے یہاں کے مؤمن دلوں میں پھیلی ہوئی اسلامی ایمان اوراسلام اورقرآن پرقائم رہنے کی مضبوط وپائدار جڑوں کواکھاڑ پھینکیں آپ یہاں بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ زندگی ایسے ہی چل رہی ہے نہیں صاحب! ایک جنگ چل رہی ہے جس کے ایک خیمہ میں یہاں کا معاشرہ، نطام، نظام کے متفکرین، مختلف شکلوں میں نظام کے لئے کام کرنے والے جن میں آپ کا مدح خوان طبقہ بھی شامل ہے ایک خیمہ میں یہ لوگ ہیں اوردوسرے خیمہ میں وہ لوگ ہیں جواس مقدس سرزمین اوران پاک دلوں سے ایمان کی جڑیں اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں چونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ جس نظام کی بنا ایمان پر رکھی گئی ہے وہ ان کے ظالمانہ، متکبرانہ اوراستحصالی مفادات کے لئے خطرہ ہے یہ کسی صورت میں استکباری دنیا کی توسیع پسندانہ انداز اورمداخلت کو قبول نہیں کرے گا وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی بہانہ سے یہاں کے لوگوں کے دلوں سے توحید، ولایت، محبت اہلبیت(ع)، محبت قرآن، دینی غیرت،ظلم اور ظالم کے خلاف قیام کے پختہ عزم کو نکال دیں اس کام کے لئے مختلف حربے آزما رہے ہیں اورانہیں بیان بھی کرتے ہیں۔

امریکی کانگریس کہتی ہے کہ ہم ایران میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اتنے ملین خرچ کررہے ہیں کہتے ہیں "جمہوریت" کے لئے آزاد ہیں جوچاہیں کہیں حقیقت تو معلوم ہی ہے کہ کیا ہے وہ لوگوں کی ارواح وقلوب میں پیوست ان مضبوط فکری بنیادوں کوہلانا چاہتے ہیں جوصراط مستقیم کی جانب ان کی ہدایت کررہی ہیں ان کا ہدف ومقصد یہ ہے۔

اورجومبلغ خرچ کرنے کوکہہ رہے ہیں وہ زیادہ ترگولی بم پر خرچ نہیں ہوتے بلکہ پروپگینڈہ اورمختلف شکلوں میں انہیں ثقافتی کاموں پر خرچ ہوتے ہیں البتہ ادھرسے بھی مزاحمت ہی نہیں بلکہ حملہ ہورہا ہے توایک جنگ چل رہی ہے لہذا اس دوران جن لوگوں کا تعلق لوگوں کے ایمان و دل اورآئمہ طاہرین اوراہلبیت (علیہم السلام) کے اسمائے مبارکہ سے ہے ان کی ذمہ داری سخت ہے برادران عزیزاس ذمہ داری کوٹھیک سے سمجھیں اوراسے اچھے انداز میں ایفا کریں!

الحمد للہ اچھی چیزیں سننے میں آرہی ہیں کہیں کہیں دوسری طرح کی باتیں بھی ہورہی ہیں جس چیز پر میں خاص طور سے تاکید کرنا چاہوں گا وہ اسلامی یکجہتی ہے ہم نے جو اسلامی یکجہتی کا نعرہ دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے آپ ایسا کوئی کام نہ کیجئے جس سے کسی غیرشیعہ مسلمان کے جذبات مجروح ہوں اوراسے بھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے اس کے خلاف آپ کے جذبات بھڑک اٹھیں اس وقت آپ ملاحظہ کیجئے کہ دوفلسطینی گروہ آپس میں لڑرہے ہیں اسرائیل کے لئے اس سے اچھا کیا ہوگا! ان کی بندوقوں کا منہ بجائے اس کے کہ اسرائیل کی طرف ہو آپس ہی میں لڑ رہے ہیں یہ تواسرائیل کے لئے بڑی اچھی چیز ہوئی ایسی صورتحال پیدا کرنے کے لئے وہ کتنا بھی خرچ کردے کم ہے فرض کیجئے لبنان میں بھی ایک گروہ وجود میں آکردوسرے گروہ کے خلاف لڑنے لگ جائے توامریکہ واسرائیل کے لئے اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی! اس کے لئے یہ بہتر ہے یا یہ بہتر ہے کہ حزب اللہ جیسا ایک گروہ آگے بڑھے سب اس کی پشت پر ہوں کچھ دل سے اورکچھ رائے عامہ کے ڈرسے اورپھریہ لوگ اسرائیل کو شکست دے دیں واضح سی بات ہے کہ آپسی اختلاف والی صورتحال ان کے لئے بہتر ہے عالم اسلام کا حال یہی ہے مصر، اردن، عراق، پاکستان، ہندوستان، ترکی اوردوسری جگہوں کے مسلمان سڑکوں پر آکر اسلامی جمہوریہ کے حق میں نعرے لگائیں یہ بہتر ہے یا یہ بہتر ہے کہ اسلامی جمہوریہ کوئی آواز اٹھائے تو یہ ساری قومیں چپ سادھ لیں یا کچھ اٹھ کر مخالفت بھی کرنے لگیں ظاہر سی بات ہے کہ یہ دوسری صورت کے خواہاں ہیں اب یہ صورت حال پیدا کرنا کیونکر ممکن ہے؟ بہت آسان ہے بس ایسا کچھ کریں کہ جس سے شیعوں اورسنیوں کے جذبات بھڑک اٹھیں انہیں تلقین کریں کہ یہ لوگ شیعہ ہیں یہ صحابہ پر سب کرتے ہیں یہ تمہارے اکابرین کوبرابھلا کہتے ہیں یہ سب کہہ کے دونوں میں جدائی ڈال دیں یہی ان کا مقصد ہے یہ چیزیں جب سے پیدا ہوئی ہیں تب سے شیعہ سنی اتحاد کے منادی کے مد نظرتھیں کچھ لوگ کیوں نہیں سمجھتے ہیں؟ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہمارے عظیم امام (رہ)کی ولایت، عقیدہ اوراہلبیت(علیہم السلام) سے محبت ان تمام بڑے بڑے دعوے کرنے والوں سے زیادہ تھی وہ ولایت کو زیادہ سمجھتے تھے یا عوام الناس کا وہ فرد زیادہ سمجھتا ہے جو خصوصی اورعمومی نشستوں میں بے ربط باتیں کرتا اور ولایت کے نام پرالٹے سیدھے کام کرتا ہے اتحاد کی حفاظت کیجئے۔

اگرآپ کو اپنے درمیاں کچھ افراد اس کے برعکس عمل کرتے نظرآئیں توانہیں اپنے سے الگ کیجئے ان کی مخالفت کا برملا اظہارکیجئے یہ لوگ نقصان دہ ہیں نقصان پہنچاتے ہیں اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں، شیعیت کو نقصان پہنچاتے ہیں اسلامی معاشرہ کو نقصان پہنچاتے ہیں یہ نہایت ہی اہم مسئلہ ہے۔

اس وقت اسلامی اتحاد اسلامی نظام کے نفع میں ہے اسلامی جمہوریہ کے نفع میں ہے اوراس کے برخلاف قدم اٹھانا امریکہ کے مفاد میں ہے، صہیونیوں کے مفاد میں ہے، عالم اسلام کے ان سرکشوں کے مفاد میں ہے جن کی جیبیں تیل کےڈالروں سے بھری ہیں اورچاہتے ہیں کہ ایرانی قوم اوراسلامی جمہوریہ جیسی کسی چیز کا سرے سے وجود ہی نہ ہو بہرحال خدا سے دعا ہے کہ ہم سب کی ہدایت فرمائے!

پروردگارا! ان پاک اورنورانی دلوں اورمدح خواں زبانوں پراپنے لطف وکرم کی برسات فرما! پالنے والے آج ہم سب کی طرف سے، ہمارے شہداء کی طرف سے، ہمارے مرحومین کی طرف سے اورہمارے بزرگ امام(رہ) کی طرف سے فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیھا) کی روح مطہرپربے پایاں درودوسلام نازل فرما۔ پالنے والے! اس ذات گرامی اوراس وجود مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ ہمیں ان کا پیروکار قراردے۔ ہماری قوم کوروزبروز سربلندی عطافرما۔ اورحضرت ولی عصر(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی وخوشنود فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ