ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کا اہلیبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کےذاکرین اورشعراء کےاجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں سب سے پہلےعشق و محبّت سے سرشار اس صمیمی اور گرم محفل میں شریک ہونے والے افرادکی خدمت میں دل کی گہرائی سے مبارکباد پیش کرتا ہوں جو کہ معصومہ کونین ،صدّیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور آپ کے پر افتخار اور سربلند فرزند امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) کی ولادت با سعادت کے سلسلے میں منعقد کی گئی ہے اور میں اپنے ان عزیز بھائیوں کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے اپنی ہنر نمائی اور پروگراموں کے ذریعہ ہمارے دلوں کو محبّت اہلیبیت (علیہم السلام )کے کوثر سے سیراب کیا خواہ وہ شعراء کرام ہوں یا دوسروں کا کلام پڑھ کر سنانے والے حضرات ۔

یقیناّ محبّت اہلیبیت کا میدان ،فن کا مظاہرہ کرنے کے لئیے بہترین موقع ہے ،انصاف اور حقیقت کی رو سے نور کے اس مجموعے کے مابین معصومہ کونین حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا ) کی محبّت ،ظرافت طبع ،ذوق اور ہنر کے اظہار کا بہترین مقام ہے ۔حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا ) پرمعناکلمہ الٰہی اورایک اتھاہ اور عمیق سمندر کے مانند ہیں ۔اس سلسلے میں انسان کا طائر فکر ،اسکا ذوق اور صاحبان طبع کی ظرافت فکر جس قدر پرواز کرے ،اس میں غور و فکر کرے ،اتنے ہی زیادہ موتی اس کے ہاتھ لگتے ہیں۔البتّہ ہم نے ہمیشہ ہی اس بات پر تاکید کی ہے کہ نور و معنویّت کے اس عظیم سمندر میں غوطہ خوری کے لئیے احادیث اہلیبیت(ع) کا سہاراضروری ہے جیسا کہ ایک شاعر کے اشعار میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا،کہ اس خاندان (ع) کی معرفت بھی اسی خاندان (ع) کے پاس ہے ؛ہمیں ان سے سیکھنا چاہئیے ، ان کو خود ان کا معرّف قرار دیں ۔دقّت اور غور و فکر کریں تاکہ ان کلمات کے عمیق اور گہرے مطالب کو سمجھ سکیں
ہمارے عزیز شعراء اور اہلیبیت (علیہم السلام )کے مدّاح و ثناخواں حضرات کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ اہلیبیت (علیہم السّلام ) کی احادیث و روایات کی طرف رجوع کریں اور ان میں غور و فکر کریں اور ان کے عمیق اور گہرے معانی کو سمجھنے کے لئیے صاحبان بصیرت ومعرفت سے مدد لیں اور اس وقت اپنے ذوق ،لطیف طبع، دّقت نظر اوراپنےبہترین لب و لہجے کو اس کی خدمت کے لیئے وقف کریں تو یہ ایک نہایت ہی اچھا اور با شرافت کام ہے ۔

اہلیبیت (علیہم السّلام ) کی مدّاحی اور ان انوار مقدّسہ اور طیّبہ کی ثناخوانی کے بارے میں ،میں نےگذشتہ کئی برسوں سے منعقد ہونے والی اس محفل میں کافی مطالب پیش کئیے ہیں جن کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اتناضرور عرض کردوں کہ ہم جس قدر آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں ارتباط کی برقراری میں ہنر کانقش و کردار اتنا ہی واضح ہوتا جا رہا ہے ،ہنر جیسے کارآمد وسیلے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخاطب کے دل و دماغ اور عوام تک کسی بات کو پہنچانا انتہائی آسان ہے۔ آج جو لوگ دوسروں کے لئیے پیغام کے حامل ہیں اسے پہنچانے کے لئیے ہنر کا سہارا لیتے ہیں اس میں کوئی فرق نہیں خواہ وہ پیغام رحمانی ہو یا شیطانی ، وہ بہترین وسیلہ جسے بروے کار لاتے ہیں ہنر کا وسیلہ ہے ۔ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آج دنیا میں ہنر کی مدد سے بالکل بےبنیاد اور باطل باتوں کو لوگوں کی ایک عظیم تعداد کے اذہان تک، حق کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے جو ہنرکی مدد کےبغیر ممکن نہیں تھا لیکن ہنر اور ہنر کے وسیلہ کو بروئے کار لا کر یہ کام انجام دے رہے ہیں ۔ سنیما ہنر ہے ، ٹیلیو یژن ہنر ہے،مختلف اقسام و انواع کے فنون سے فائدہ اٹھاتے ہیں تا کہ ایک باطل اور نا حق پیغام کو حق کی صورت میں پیش کر سکیں ،اسی وجہ سے ہنر وفن نے بہت اہمیّت اختیار کر لی ہے لیکن ہم مسلمانوں بالخصوص شیعوں کو وہ امتیاز حاصل ہے جو دنیا کی دیگر اقوام ومذاہب کو حاصل نہیں اور وہ ہیں ہمارے دینی اجتماعات جو رو برو ،آمنے سامنے منعقد کئیے جاتے ہیں جو دنیا کے دیگر مقامات اور مذاہب میں میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں ،ہاں پائے جاتے ہیں لیکن ان میں ایسی وسعت اور قوّت نہیں پائی جاتی اور نہ ہی یہ تاثیر اوربلند و بالا مفاہیم و مضامین ،فرض کیجئیے اگر ایسے افراد کے سامنے اچھی آواز سے آیات الٰہی کی تلاوت کی جائے جو قرآن کے مفاہیم سے آشنا ہوں تو یقیناّبہت زیادہ مؤثر واقع ہوں گی ،اہلیبیت کے مدّاحوں اور ثناخوانوں کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے ؛ بلند و بالا مضامین اور مفاہیم کو دل کی گہرائیوں میں اتارنے کے لئیے فن و ہنر سے فائدہ اٹھانا انتہائی اہمیّت کا حامل ہے ۔یہ ایک انمول وسیلہ ہے، ایک وسیلہ ہے لیکن کبھی کبھی اس میں وہ وزن پیدا ہو جاتا ہے کہ معنا و مفہوم کے برابر اہمیّت اختیار کر لیتا ہے ؛چونکہ اگر یہ ہنر اور فن نہ ہو ان مفاہیم کو دلوں تک پہنچانا ممکن نہیں ہو گا ،آپ کی مدّاحی اور ثنا خوانی کچھ ایسی ہی ہے اس میں فن و ہنر ، بہترین آواز اور لب و لہجہ سے جس قدر زیادہ استفادہ کیا جائے اتنا ہی اچھا ہے ، اشعار کے مضامین و مفاہیم جس قدر سبق آموز ،قابل فہم اور آپ کے مخاطبین کے لئیےطراوت وتازگی سے سرشار ہوں اتنی ہی ان کی اہمیّت بڑھ جاتی ہے البتّہ ان مطالب کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے شروع میں بیان کئیے یعنی اہلبیت (علیہم السلام ) کی تعلیمات کے دائرے میں ۔لہٰذا مدّاحی کے مسئلے سے کھیلنا صحیح نہیں ہے۔ مدّاحی کو صرف ایک سطحی اور ظاہری کام کی شکل دینا یا دوسرے لفظوں میں مدّاحی میں مغرب کی بے روح اورغیر اخلاقی موسیقی کی تقلید کرنا ہر گز جائز نہیں ، اس کی طرف توجّہ دیں ،بالخصوص وہ نو جوان جو تازہ اس میدان میں وارد ہو رہے ہیں ،البتّہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ اشعار میں عوام کی زبان استعمال ہو ،لیکن معنا و مفہوم صحیح ہونا چاہئیے ،اگر اہلبیت (علیہم السلام) کے شعراء اورثنا خواں ،ان لوگوں کی تقلید کریں جو خود حیرت اور سرگردانی کے بھنور میں گرفتار ہیں، اور اس مقدّس اور پاکیزہ کام میں مغربی موسیقی کی تقلید کریں جو ایک بے روح اور غیر اخلاقی موسیقی ہے اور شیطانی وادی میں سرگردان و حیران ہے ، تو یہ کام یقیناّ ایک غلط کام ہے ۔

ایک دوسرا نکتہ کہ جسے میں نے ہمیشہ ہی یاد دلایا ہے،اور آج بھی عر ض کر رہا ہوں،وہ یہ ہے کہ اپنے اشعار کے معانی اور مفاہیم کو اس سطح پر لائیے کہ آپ کے مخاطب ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں،آپ کے اشعار کو اہلبیت(علیہم السلام ) کی کسی قابل فہم منقبت یا کسی برجستہ فضیلت پر مشتمل ہونا چاہئیے تا کہ انسان کے اعتقاد و ایمان کو مضبوط کر سکے ۔آپ جائزہ لیں کہ آئمہ معصومین (علیہم السلام ) کے دوران کے مدّاح اپنے اشعار میں کس چیز پر زیادہ توجّہ دیتے تھے۔دعبل ،کمیت اور فرزدق کے اشعار کا مطالعہ کیجئیے اور ان اشعار کے مضامین کا جائزہ لیجئیے جن کوخود اہلبیت (علیہم السلام ) نے خراج عقیدت پیش کیا ہے ان شعراء کا کلام یا تو اہلبیت (علیہم السلام ) کی حقّانیت کے اثبات پر مشتمل ہوا کرتا تھا اور وہ بھی دلیل اور استدلال کے ساتھ ، ایسا استدلال جو شعرکے لطیف اور خوبصورت لباس میں خود نمائی کرتا تھا، اس سلسلے میں دعبل کے اشعار کو دیکھئیے ۔یا ان کا کلام اہلبیت(علیہم السّلام ) کے فضائل پر مبنی ہوتا تھا جیسا کہ آج بھی ہمارے شعراء کے کلام میں یہ عمل کئی بار تکرار ہوا ،کبھی واقعہ ھل اتیٰ کا ذ کر ہوا تو کبھی مباہلہ کا تذکرہ اور کبھی معصومہ کونین حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا ) کے ان فضائل کی طرف اشارہ جو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم )نے بیان فرمائے ہیں ،یا ان کا کلام ایسے دروس و اسباق پر مشتمل ہوتا تھا جو ان حضرات کی زندگی سے حاصل ہوتے ہیں جس کا ایک بہترین اور جامع نمونہ وہ اشعار ہیں جو انقلاب کی تحریک کے دوران ۱۳۵۶ اور ۱۳۵۷شمسی ہجری کے ماہ محرّم میں ہمارے ماتمی دستوں ،نوحہ خوانوں کی زبان پر جاری تھے ، ماتمی دستے سڑکوں اور بازاروں میں سینہ زنی اور نوحہ خوانی میں مشغول تھے لیکن جو بھی انہیں سنتا تھا وہ فوراّ متوجّہ ہو جا تاتھا کہ آج اس کا فریضہ کیا ہے اور اسے کس سمت میں حرکت کرنا چاہئیے ۔

جب آپ اس فن کو، جو خود بھی اچھے انداز، بہترین لب ولہجے ، خوبصورت آہنگ اوربھترین اشعار غرض متعدّد فنون کا مجموعہ ہے ، ایسے معانی اور مفاہیم کے سانچے میں ڈھالتےہیں کہ جس سے یا تو اہلبیت (علیہم السّلام) کی حقّانیت کا اثبات ہوتا ہے اور یا ان کے فضائل و مناقب بیان ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ فن ،سامعین کے قلوب کو منوّر کرتاہے یا انہیں اہلبیت (علیہم السّلام) کی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے اور آپ کے مخاطب کے لئیے زندگی کے راستے کا تعیّن کرتا ہے ،ایسی صورت میں آپ کے کام کی اہمیّت اپنے نقطہ عروج کو جا پہنچتی ہے اور آپ کی مدّاحی اور ثنا خوانی ،کئی گھنٹے پر محیط تقریر اور استدلالی درس و بحث کے برابر اہمیّت اختیار کر لیتی ہے ۔

مسئلہ صرف احساسات و جذبات کی تحریک کا نہیں بلکہ ذہنوں کی ہدایت کا ہے ۔ اور خوش قسمتی سے ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ الحمد للہ ان چند سالوں میں اس مسئلہ کی طرف کافی توجّہ دی گئی ہے چاہے وہ آج کی محفل ہو یا دیگر منعقد ہونے والی محافل و مجالس ،لیکن میدان بہت وسیع اور عظیم ہے۔آپ اشعار کہنے والے ، پڑہنے والے اور فضائل و مصائب بیان کرنے والے جوان حضرات، اسلامی معاشرے کی موجودہ ضرورتوں کا جائزہ لیجئیے اور دیکھئیے کہ ہماری قوم ،ہمارا معاشرہ اور ہمارے جوان، آج مختلف سیاسی ،ثقافتی یلغاروں اور دیگر طرح طرح کے پروپیگنڈوں کے طوفانوں کے تلاطم میں کس قدر گرفتار ہیں ، نئی نگاہ ،امّید سے سرشار جذبہ اور آئندہ کے اطمینان سے بھر پور دل ، روشن راہوں کے معلوم کرنے کے لئیے ضروری ہے ۔یہ سب کا فریضہ ہے ؛ہر کوئی اپنے طریقے سے انجام دے ۔آپ بھی اس سلسلے میں اپنا ممتاز کردار ادا کر سکتے ہیں ۔بہرحال مدّاحی کے اساتذہ اور اس میدان کے پیشگام افراد اس سلسلے میں خوش اسلوبی سے اپنا کردار نبھا سکتے ہیں اور ہمیں امّید ہے کہ وہ ایسا ضرور کریں گے۔

ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر اسلامی انقلاب کی موجودہ صورت حال کو ہمیشہ ہی زندہ رکھنا چاہئیے،اور اسے گفتاری شکل بھی دینا چاہئیے اور اپنے جذبات کو دوسروں تک منتقل کرنا چاہئیے۔میرے عزیزو ! اسلامی انقلاب ،صرف ایرانی تاریخ کا ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ واقعہ ، تاریخ عالم اور تاریخ بشریّت کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ میں اس نکتے پر تاکید کرتا ہوں ،یہ کوئی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ یہ انقلاب تاریخ بشریّت کا ایک انوکھا واقعہ ہے ،وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ہم پر زیادہ عیاں ہو گی ۔صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ ایک ملک پر فاسد اور طاغوتی نظام حاکم تھا اور وہ اسلامی نظام میں تبدیل ہو گیا ۔البتّہ یہ بھی ہوا؛لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہوا ۔صدیوں سے ، جان بوجھ کر اس دنیا کو مادی زاویہ فکر اور مادی زندگی میں محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی،اور آج بھی کی جاری ہے، اس انقلاب نے ایسی عظیم لہر کو للکارا، اس کا راستہ روکا اور اسے نقصان پہنچایا کہ جسے ہمیشہ سے تمام مادی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔انقلاب نے معنویّت کا جھنڈا لہرا کر ان کی اس پیش قدمی کو نقصان پہنچایا اور اس کی رفتار کند کردی کہ جسے وہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ آگے بڑھا رہے تھے ۔ جیساکہ آپ مشاہدہ کررہے ہیں آج ان ملکوں میں بھی مختلف شکلوں میں معنویّت کا رجحان ظاہرہو رہا ہے جو مادیت کا گہوارہ شمار ہوتے تھے ۔ان ملکوں کے جوانوں میں ، معنویّت کا عشق ،معنویّت کی چاہ اور اس سے لگاؤ پایا جاتا ہے ،لیکن جب وہ اس رجحان کو صحیح راستے پر لانے پر قادر نہیں اور اس کی صحیح، مدیریّت نہیں کر سکتے تو اکثر و بیشتر یہ رجحان انحراف کا شکار ہو جاتا ہے ،اور نقلی عرفان اور جھوٹی معنویّت کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے، ان شرائط میں اگر اسلام اور مکتب اہلبیت (علیہم السّلام) اپنے آپ کو مغرب کی مادی سلطنت کے مرکز تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے ، تو یقیناّ وہاں اس کے طالب، سامع اور چاہنے والے موجود ہیں اور آج یہ بات،ایک حقیقت ہے جو سب پر عیاں ہے۔ اور آج جو آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اسلام پر مختلف طریقوں سے حملہ کر رہے ہیں بالخصوص پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)کی ذات گرامی کو نشانہ بنا رہے ہیں مولوی کے اس قول کے حقیقی مصداق ہیں :

مہ فشاند نور و سگ عو عو کند ھر کسی بر طینت خود میتند

(چاند نور افشانی کر رہا ہے اور کتّا بھونک رہا ہے ہر کوئی اپنی سرشت اور طینت کے مطابق عمل کر رہا ہے)

پیغمبر اسلام کی ذات مقدّس سے اپنے بغض و کینہ کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ حادثہ دنیا میں اس نام کے روز افزوں نفوذ کا باعث بنا ہے ؛اس نام کی موجودگی روزبروز بڑھتی جا رہی ہے ؛اس کا جاذبہ جوان دلوں کے لئیے دن بدن بڑھ رہا ہے ۔اسی وجہ سے عالمی استکبار حواس باختہ ہے ، وہ اور اس کے مزدور ہر روز رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہیں یہ ان کی شکست کی علامت ہے ،یہ معنوی اعتبار سے اس انقلاب کی تحلیل تھی۔

سیاسی پہلو سے اس انقلاب کی افادیّت یہ ہے کہ جب سے استعمار کا مسئلہ سامنے آیا ہے یعنی انیسویں صدی عیسوی سے ، تقریباّ دو سو سال پہلے آہستہ آہستہ استعمار یعنی دوسرے ممالک میں مداخلت کا آغاز ہوااور طاقتور ممالک ،جن ممالک میں مداخلت کر سکتے تھے انہوں نے مداخلت شروع کی اور تسلّط کا نظام بر سر اقتدار آیا؛اور دنیا عملی طور پر دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی؛ کچھ ممالک ،طاقتور ،من مانی کرنے والے اور دوسروں پر دھونس جمانے والے قرار پائے اور کچھ ممالک ، کمزور و ناتوان قرار پائے ۔آپ کے اسلامی انقلاب نے اس سیاست کا بھر پور مقابلہ کیا جو سیاست کی دنیا میں ایک معمول کی چیز بن چکی تھی ۔آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آج دنیا کے بہت سے ممالک میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے، یہ نئی چیز ہے؛ یہ ایرانی قوم کی تحریک کا نتیجہ ہے ،یہ چیز پہلے نہیں پائی جاتی تھی ، اور یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج اسلامی ممالک میں حتّیٰ یورپی ممالک میں ،امریکی سیاست اور سیاستدانوں کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، یہ عظیم ایرانی قوم کی جدّو جہد کا نتیجہ ہے ۔ یہ پہلا مقام ہے جہاں سپر طاقتوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ، انہیں للکارا گیا؛آخر! امریکہ جیسے ممالک کو ،کمزور اور ترقّی پذیر ممالک کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کا کیا حق ہے ؟ خود ہمارے ملک میں طاغوتی حکومت کے ذلیل و رسوا زمام داران حکومت، کوئی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے امریکہ اور برطانیہ کے سفراء سے مشورہ کیا کرتے تھے ایسا کیوں تھا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک قوم ثقافتی ،مادی اور معنوی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود کسی بیرونی طاقت کی تابع اور پیرو ہو؟آخر کیوں ؟ یہ سوال سب سے پہلے اسلامی انقلاب نے پوچھا۔

آپ کے اسلامی انقلاب نے مادی اور معنوی اعتبار سے دنیا پر جو گہرا نقش چھوڑا ہے یہ اس کے دو نمونے تھے ،دوسرے نمونے بھی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ۔

یہ عظیم قدم اٹھایا گیا ،عداوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا؛ بالمقابل پائداری کابھی آغاز ہوا،امام (رضوان اللہ علیہ ) کی مدبرانہ رہبری نے ،بہت مشکل گھڑی میں اس انقلاب کی پاسداری کی اور اسے پوری قوّت سے آگے کی طرف بڑھایا۔ ایرانی قوم ،اس ملک کے جوانوں نے دل و جان سے امام (رہ) کی آواز پر لبّیک کہااور اسے اچھی طرح سمجھا اور اس کا تعاقب کیا ۔لوگوں کو منحرف کرنے کی بہت کوشش کی گئی ، روکنے کی کوشش کی گئی ،راستہ بدلنے کی کوشش کی گئی ، اعتقادات کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ،اب تک کامیابی نہیں ملی اور انشاءاللہ آئندہ بھی منہ کی کھانا پڑے گی ۔انقلاب کا کارواں آگے بڑھ رہا ہے اور عداوتیں بھی دن بدن مختلف طریقوں سے اپنے وجود کا احساس کراتی ہیں ۔ ہماری مثال اس دوڑ لگانے والے کی سی ہے جو پوری رفتار سے اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ وہ ہدف تک پہنچے اور لگاتار اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں ،وہ جیسے ہی کود کر رکاوٹوں کو پار کرتا ہے ،اس پر پتھّر پھینکے جاتے ہیں،اس کی سرزنش کی جاتی ہے ،اطراف سے فقرے کسے جاتے ہیں، ہنگامہ مچایا جاتا ہے ،نہ جاؤ،نہیں پہنچو گے، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، زخموں کو برداشت کرتا ہے ، درد جھیلتا ہے ؛ لیکن اپنے راستے کو جاری رکھتا ہے اور منزل مقصود کو پا لیتا ہے ۔ایرانی قوم نے آج تک اسی چیمپئن کی طرح مظاہرہ کیا ہے ،اور آگے کی سمت قدم بڑھایا ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک و قوم کا درد رکھنے والے ،انقلاب ،اسلام اور مکتب اہلبیت(ع) سے قلبی لگاؤ رکھنے والے افراد کا موجودہ حالات میں کیا فریضہ ہے؟سب کا فریضہ ہے کہ اس راہ کو اس پر چلنے والوں کے لئیے یعنی ایرانی عوام کے لئیے ہموار کریں ۔ہر کوئی اپنے طریقے سے یہ کام انجام دے ،سیاستدان اپنے طریقے سے ،حکومتی اہلکار اپنے طور پر ،علمائے دین اپنے انداز میں ،یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے طریقے سے،روشن فکر حضرات اپنے طور پر ،عام لوگ اپنے انداز میں، ان میں سے ایک مؤثر ترین جماعت ،مذھبی شعراء ،مدّحوں اور ذاکریں کی ہے جو عشق اہلبیت (ع)کا پرچم ہاتھوں میں لئیے ہیں اور اہلبیت(ع) کی ہر خوشی اور غم کے موقع پر دلوں کو ان سے قریب کرتے ہیں ۔

آج سب سے زیادہ اہمیّت اس بات کی ہے کہ سب اپنے فرائض کو پہچانیں ،اور سمجھیں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں ؟ کچھ افراد غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس قدر پیشرفت کر چکے ہیں ؟اتنا آگے بڑھ چکے ہیں ؟ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ابھی ہمیں بہت طولانی راستہ طے کرنا ہے ؛وہ متوجہ نہیں ہیں کہ ہمارے دشمن بھی ہیں جو ہماری سستی ،غفلت اور اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔میرے اس خطاب کے زیادہ تر حصہ کے مخاطب معاشرے کی ممتازثقافتی ،سیاسی اور دیگر میدانوں کی نمایاں شخصیّات ہیں ،انہیں اپنی تحریر و تقریراور مؤقف کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہئیے ،آج اس ملک کے لئیے اتّحاد و اتّفاق سب سے زیادہ ضروری ہے جو تمام پیشرفتوں اور کامیابیوں کی رمز ہے ۔ملک کے ذمّہ دار افراد یقیناّاپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں ،حکومت ،اس کے اہلکار اور مختلف اداروں کی انتظامیہ پوری کوشش کر رہی ہے ۔اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے بھی تو اسے اس طرح پیش نہ کرے کہ جس سے اس مدیر کی پوزیشن کمزور ہو جو اپنے فریضہ کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کےلئیے کوشاں ہے۔ اختلافات ،عام طور پر خواہشات نفسانی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کا کوئی عمل تفرقہ اور اختلاف کا باعث بنے اور وہ یہ دعویٰ کر ے کہ میں نے اس کام کو صرف خوشنودی الٰہی کے مد نظر انجام دیا ہے تو ہرگز یقین نہ کیجئیے ۔مؤمنین کے درمیان اختلاف ڈالنا ، خدائی کام نہیں ہے ،خدائی ہدف و مقصد کے تحت انجام نہیں پاتا،یہ شیطانی کام ہے ،مؤمنین کے درمیان ، بغض وعناداور اختلاف کی فضا پیدا کرنا یہ شیطانی کام ہے ، خدائی کام نہیں ۔ خدائی کام، ہمدردی ہے ۔اگر کسی کے پاس کوئی عہدہ و مقام ہے تو دوسروں کو اس کی مدد کرنا چاہئیے تاکہ وہ اپنی ذمّہ داری ،خوش اسلوبی سے انجام دے سکے اور اگر کہیں کوئی نقص پایا جاتا ہے تو اس کی راہنمائی کریں ؛ لیکن اس کی پوزیشن کو کمزور ہونے سے بچائیں ۔ اس شخص کی سب کو مل کر مدد کرنا چاہئیے جس نے اپنے کندھوں پر یہ علم اٹھا رکھّا ہے ،کوئی اس کا پسینہ صاف کرے ،کوئی اسے ہوا دے ،اور اگر مشاہدہ کریں کہ علم کوٹھہرانے میں اس کے اندرلغزش پائی جاتی ہے تو اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس کی پیٹھ کو تھپتپائیں نہ یہ کہ اسے اور علم، دونوں کو سرنگوں کریں ۔اس کا واحد راہ حل یہ ہے کہ سب اس کی مدد کریں تا کہ یہ مشکل دور ہو ،سب ،اس نکتہ کی طرف توجہ دیں ، خاص کر وہ لوگ جو سیاست ، ثقافت ،میڈیا اور مختلف دیگر میدانوں میں کردار ادا کر رہے ہیں ۔

خداوندا!تجھے محمّد اور آل محمّد کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہمیں اہلبیت (علیہم السّلام ) کی معرفت رکھنے والوں اور ان کے چاہنے والوں میں قرار دے؛ ہمیں اس ایمان و اعتقاد پر زندہ رکھ اور اسی پر موت دے؛ہمیں دنیا اور آخرت میں ان سے جدا نہ کر ؛خداوندا!ہمارے فرائض اور وظائف کی ادائیگی کوہمارے لئیے آسان بنا؛کل روز محشر جن کی باز پرس ہم سے ہو گی ہمیں ان فرائض کی ادائگی کی توفیق عنایت فرما،امام زمانہ حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ