ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرِ معظّم کا عدلیہ کے سربراہ اور اعلیٰ عہدیداروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیزبھائیواور بہنو!عدلیہ کے اراکین اور سات تیر کے عالیمقام شہداء کے صابر اور عزیز خاندانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔یہ خود ایک نکتہ ہے کہ عدلیہ کا دن یا عدلیہ کا ہفتہ ایک عظیم شھادت کے نام اور یاد سے پہچانا جاتا ہے۔

اسلامی جمہوری نظام کی ممتاز شخصّیات کی شھادت کہ جن کے درمیان مرحوم شھید بھشتی جیسی ممتاز اور بر جستہ شخصیّت کے علاوہ عدلیہ کے بعض دیگر ذمّہ دار افراد بھی موجود تھے۔ یہ اچھی فکر ہے کہ عدلیہ کی سالانہ رپورٹ ان عظیم شہداء کی برسی کے موقع پر پیش ہو ۔یہ شھادتیں قومی تحریک کاسر مایہ ہیں۔ سات تیر کے واقعہ اور مظلوم شھید بھشتی اور ان کے با وفا ساتھیوں کی شھادت نے ایک ایسے موقع پر اس انقلاب کے قافلے کو صحیح سمت و سو عطا کی جب کچھ لوگ اسے منحرف کرنے کے در پے تھے۔

یہ شھادتیں سرمایہ ہیں ؛ حرکت کا سرمایہ ہیں ۔ لھٰذاہمیں اپنے اقدامات میں اور اپنی ذمّہ داریوں میں ہمیشہ ان عظیم قربانیوں کو یاد رکھنا چاہئیے،اور اچھی طرح جان لینا چاہئیے کہ اگر آج ہمیں عدلیہ ، حکومت ،قانون سازی یا دیگر ملکی اداروں میں ،اسلامی جمہوریہ کے نظام اور ایرانی قوم کی خدمت کا موقع نصیب ہوا ہے تو یہ انہیں شھادتوں کی بدولت ہے ،یہ انہیں قربانیوں کے زیر سایہ ہے،ہمیں سمجھنا چاہئیے کہ آج جو بھی ہمارے پاس ہے وہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوا ،بہت سی قیمتی جانیں گئیں، بہت سے عظیم لوگوں نے قربانیاں دیں،بہت سا قیمتی خون زمین پربہا، یہ نظام حکومت ان کے بل بوتے پر دن بدن اپنی عزّت و اقتدار کو بڑھا رہا ہے ۔ان ذمہ داریوں ،کام کرنے کی توانائی اور مواقع کو غنیمت جانیں اور کام کریں۔ لہذا ان دو مناسبتوں کے کے ایک ساتھ جمع ہونے کو میں ایک اچھا شگون سمجھتا ہوں اور سات تیر ، اسلام اور مقدّس دفاع کے تمام عزیز شھداء (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم )کی پاک روح پر دل کی گہرا ئی سے درود و سلام بھیجتا ہوں اور خدا سے دعا گو ہوں کہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت ، ان کے اعمال کی پیروی اورقیام کی توفیق عنایت فرمائے۔یہ وہ چیز ہے جسے ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہنا چاہئیے۔اس مؤثر نظام کی اہمیّت اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور وہ راہ حل جن پر غور کیا جاسکتا ہے تا کہ ان سے ان مشکلات کے حل میں استفادہ کیا جاسکے، اور اس کے بارے میں ہم نے اب تک بہت سے مطالب بیان کیے ہیں، عدلیہ کے ذمّہ داروں اورمختلف صاحب نظر افراد نے بھی بہت سے مطالب پیش کیے ہیں؛جو چیز زیادہ اہمیّت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ اسلامی نطام حکومت میں عدلیہ کے قیام کا مقصد کیا ہے ؟ اور اس سے کیا امّیدیں وابستہ ہیں ؟ اس کا موجودہ حالات سے ہمیشہ موازنہ کرتے رہیے؛ کاموں کی پیشرفت ،جدید امور کی انجام دہی ، انجام پانے والے مؤثر اور شایستہ اقدامات کا موجودہ ضرورتوں اور توقّعات سے موازنہ ہونا چاہئیے ،اور یہ ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے؛یعنی ہمیں قناعت نہیں کرنا چاہئیے ؛ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان چند سالون کے دوران عدلیہ میں کچھ اچھے اقدام اٹھائے گئے ہیں،عظیم کام ،اہم کام ، ان میں سے بعض اقدام بالکل بنیادی اور مؤثر اقدام ہیں جو مستقبل کی ترقّی اور پیشرفت کی خوشخبری دے رہے ہیں کل ہی عدلیہ کے سر براہ نے مجھے ایک تحریر پیش کی جس میں بعض ان اقدامات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جو اس ادارے کی کلی سیاست اورتوسیع کے دوسرے منصوبہ کی منظوری کے بعد گذشتہ چند برس میں انجام پائے ہیں واقعاّ عظیم اور قیمتی کام ہیں ۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان کاموں کی تکمیل تک انہیں جاری رکھنا چاہئیے۔ایک بہت بڑا عیب جو اکثر انسانوں کی طبیعت میں پایا جاتا ہے یہ ہے کہ ایک کام کو پورے جوش و ولولہ سے شروع کرتے ہیں لیکن جیسے ہی اس کام میں تھوڑی بہت پیشرفت ہوتی ہے ان میں وہ پہلا سا ولولہ باقی نہیں رہتا اور اس پر کام جاری نہیں رکھتے،ایسا نہیں ہونا چاہئیے ۔فرض کیجئیے یہی پرانے مقدّمات کی فائلوں کی جمع آوری اور عدالتی نظام میں موجود معلومات کو کمپیوٹرز میں جمع کرنا ،یا وہ کام جو آجکل انجام پا رہے ہیں :عوام کا عدالتوں کی طرف رجوع،مقدّمات کا نمٹانا، ان مسائل میں تیزی لائیں، وہ قوانین جو فیصلوں کا مآخذ ہیں اور خود قوانیں کی تدوین کریں ،انہیں کمپیوٹر ی نظام کےتحت لائیں، اور عوام کے اختیار میں قرار دیں، اور ان تک رسائی کو آسان بنائیں۔اس کام کا آغاز ایک با برکت اقدام ہے؛لیکن اس پر مطلوبہ اثرات تبھی مرتّب ہوں گے جب اسے آخر تک جاری رکھّا جائے ،اگر پچّاس فیصد یا ساٹھ فیصد پر کام رک جائے تو گویا اس کام کوسرے سے انجام ہی نہ دیا گیا۔اس کام کو منزل تک پہونچانے کی ضرورت ہے ۔یا فرض کیجئیے وہ اقدامات جو مختلف مسائل کے سلسلے میں موجودہ عدالی نظام میں اٹھائے گئے ہیں : جیسے چھان بین اور پوچھ تاچھ نیز مقدّمات کی مدّت میں کمی ، فیصلوں میں استحکام ؛جیلوں کا مسئلہ اور دیگر مسائل جو عدلیہ کے اہم مسائل شمار ہوتے ہیں ،اس سلسلے میں کچھ تدابیر بروئے کار لائی گئی ہیں جو اپنی جگہ مناسب ہیں ،ان میں بعض پر کام شروع ہو چکا ہے،لیکن انہیں منزل تک پہونچانے کی ضرورت ہے ، ان کاموں کو جاری رکھنا اور ایک دوسرے سے ملا کر دیکھنا نہایت ضروری ہے،یہ ایک ایسا نکتہ ہے جسیے عدلیہ سے مربوط تمام اداروں کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئیےخواہ وہ ایک دوسرے کے طول میں کام کر رہے ہوں یا عرض میں ، اوراہم نکتہ یہ ہے کہ کاموں کو ادھورا نہ چھوڑیں انہیں ان کی اصلی منزل تک پہونچانے تک جاری رکھیں ۔

اسی کے ساتھ ایک دوسرا نکتہ بھی پایا جاتا ہےاور وہ یہ ہے کہ عدلیہ سے وابستہ افراد ان تمام اقدامات کو اس لئیے اٹھا رہے ہیں تا کہ اسلامی معاشرے ،عوام کے رفتار و کردار ،روز مرّہ کی زندگی اور لوگوں کے ذہنوں میں عدلیہ کو اس کا مناسب مقام دلا سکیں ۔ میں نے گذشتہ سالوں میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور شاید اس سلسلے میں مفصّل تقریر بھی کی ہے کہ عوام ، عدلیہ کے زیر سایہ سلامتی کااحساس کریں۔میں ایک بار پہلے بھی گوش گذار کر چکا ہوں کہ عملی میدان میں عدلیہ کو اس مقام تک رسائی حاصل کرنا چاہئیے کہ اگر اس ملک اور اسلامی معاشرے میں کسی کو یہ احساس ہو کوئی اس سے نا انصافی کر رہا ہے یا اس پر ظلم و تجاوز کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ ڈہارس ہو کہ عدالت سے رجوع کروں گا اور مشکل حل ہو جائے گی۔ عوام میں یہ احساس جا گنا چاہیے ، ہر ایک میں یہ احساس جاگنا چاہیے کہ عدالت سے رجوع کے ذریعہ وہ اپنا حق حاصل کر سکتا ہے، یہ حالت پورے اسلامی معاشرے میں پائی جانی چاہیے۔

اگر ان مقدّمات کے حل و فصل میں جن کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ،سو فیصد نہ سہی بلکہ اسّی فیصد دقیق چھان بین اور انصاف سے کام لیا جائے تو کافی حد تک لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ عدلیہ کو اپنی پناہگاہ سمجھیں ۔لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے ؛ یعنی لوگ یہ سمجھیں کہ عدلیہ، انصاف قائم کرنے کی ذمّہ دار ہے،یہ مقصد حاصل ہونا چاہیے ،یہ سب مقدّمات اس لئیے ہیں کہ معاشرے میں یہ کیفیّت پیدا ہو۔اگر ہم نے چارہ جوئی کی اور محنت و لگن سے کام لیا لیکن پھر بھی مشاہدہ کیا کہ معاشرے کی عمومی ذہنیت عدلیہ کو ایک پناہگاہ کے طور پر نہیں دیکھتی تو جان لیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی عیب ضرور پایا جاتا ہے ،ہمیں اسے تلاش کرکے دور کرنے کی کوشش کرنا ہو گی ۔یہ وہ چیز ہے جو ہمارے کام کا معیار و ملاک ہونا چاہیے اور اس کے لیے سب کو کوشش کرنا چاہیے ۔ البتّہ اس کے لئیے با ایمان ،مفید اور پڑھے لکھّے افراد کی ضرورت ہے کہ الحمد للہ عدلیہ میں ایسے افراد کی بہتات ہے ، عدلیہ میں مختلف سطوح پر ہمدرد، مومن ، عالم ، کام کرنے کے مشتاق، فرض شناس افراد کی کوئی کمی نہیں ۔

خوش نصیبی سے آج عدلیہ کا نظام جناب شاہرودی صاحب کے ہاتھ میں ہے جو ایک عالم ، مجتھد اور فاضل نیز قواعد اور مباحث پر مسلّط شخصیّت کے حامل ہیں ؛یہ ایک انتہائی غنیمت موقع ہے ،عدلیہ میں ان جیسی شخصیّات کا وجود ایک اچھا موقع ہے۔

اگر قانوں کی کمی ہے تو اسے دور کیجئیے ؛اگر کچھ ایسے ادارے پائے جاتے ہیں جن کی صلاحیّتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا تو ان سے فائدہ اٹھائیے۔ گذشتہ برس موصوف کے مشورے اور تعاون سے عدلیہ کے ارتقاء کی راہیں معلوم کرنے کے لئیے ایک کمیٹی تشکیل پائی ، موصوف کے حکم سے چند اچھے افراد نے عدلیہ میں تحقیق و جستجو کی اور اس کے ارتقاء اور موانع کی راہوں کو معلوم کیااور اس سلسلے میں اپنی رپورٹ عدلیہ کے سربراہ کو پیش کی ، اس کی ایک کاپی مجھے بھی دی گئی ، بہت ہی اچھّی تجاویز پیش کی گئی تھیں ،میں نے بھی ان تجاویز کے تعاقب میں کچھ نکتوں کی طرف اشارہ کیا تھا جن میں سے ایک یہی تھا کہ ہمیں جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کلّی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں کتنی پیشرفت کی ہے۔یہ وہ کام ہے جسے عدلیہ میں انجام پانا چاہیے ۔ ہم نے عدلیہ کے سلسلے میں بہترین پالیسیوں کی منظوری دی ہے جن میں سے ا کثر خود عدلیہ کی تجویز کردہ تھیں جنہیں مزید بحث و مشورے کے لئیے تشخیص مصلت نطام کونسل میں بھیجا گیا اور منظوری کے بعد ان کا اعلان و ابلاغ کیا گیا ؛یہ بہترین پالیسی پر مبنی اقدامات ہیں ۔ہم ہمیشہ کنٹرول کرتے رہیں اور جائزہ لیں کہ کلّی پالیسیوں پر عمل درآمد میں کتنی پیشرفت ہوئی ہے ؛ یہ ہمارے آگے کی سمت بڑھنے کا معیار و ملاک ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ عدلیہ کے کم مدّتی اہداف پر کس قدر عمل درآمد ہوا ہے ؟ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ یہ کنٹرول اور حسّاسیّت ہماری راہ میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی انسان یہ سوچتا ہے کہ سو کلو میٹر راستے میں سے ساٹھ ،ستّر کلو میٹر طے کر چکا ہے ،اور وقت کی وسعت کو دیکھتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ تھوڑا آرام کر لیں ، ایک کپ چائے پی لیں۔ لیکن اگر آب کی گاڑی کا کلو میٹر شمار صحیح کام کر رہا ہو اور آپ کی نگاہ اس پر پڑے اور آپ متوجّہ ہوں کہ آپ کا اندازہ غلط تھا آپ نے ساٹھ کلو میٹر طے نہیں کئیے بلکہ پندرہ ، بیس کلو میٹر کا راستہ طے کیا ہے اور جب ہم اس بات کی طرف متوجّہ ہو گئے کہ ہم نے زیادہ راستہ طے نہیں کیا تو یقیناّ آپ اپنی رفتار میں تیزی لائیں گے اور راستے میں ٹھہرنے سے اجتناب کریں گے۔ پس یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ ہم ان پالیسیوں کے اہداف کی شاہراہ پر کس منزل تک پہونچے ہیں ؟ اور یہ بہت اہم ہے؛ اور ہم نے تر جیحی بنیادوں پر عدلیہ سے اس کا مطالبہ کیا ہے ؛ خصوصاّ مقدّمات نمٹانے میں تاخیر کامسئلہ ،با لاخص اقتصادی بدعنوانیوں جیسے اہم مقدّمات کے نمٹانے میں تاخیر کا مسئلہ ۔

میں اقتصادی بد عنوانیوں کے مقدّمات میں کسی جنجال اور شور و شرابے کا قائل نہیں ہو ں، لیکن ان کی رفتار میں تیزی اور پختہ عزم کا معتقد ہوں ۔تیزی کا مطلب عجلت نہیں ہے ؛ سرعت عمل اور عجلت میں بہت فرق ہے۔ وہ مقدّمات جن پر عوام کی توجّہ ہے بالخصوص عمومی مقدّمات میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے مسئلہ پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جو رپورٹیں مجھے پیش کی گئی ہیں وہ اس بات کی غمّاز ہیں کہ مقدّمات کے حل و فصل کی مدّت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔لیکن اس کا موازنہ ماضی کے بجائے مطلوبہ ہدف سے کرنا چاہیے تا کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور مطلوبہ ہد ف کو حاصل کرنے کے لئیے مزید کس قدر کام کی ضرورت ہے۔

ایک اور مسئلہ جو عدلیہ کی ترجیحات میں ہے، اور میں نے بھی اس پر تاکید کی اور تحریری طور پر عدلیہ کو بھی بھیجا، فیصلو ں میں دقّت اور اتقان اور ان کی بار بار منسوخی کا معاملہ ہے ۔ میں نے گذشتہ سال بھی اسی ملاقات میں یہ بات رکھّی تھی کہ خواہ سیشن عدالتیں ہوں یا نظر ثانی کی عدالتیں اور یا سپریم کورٹ ، فیصلوں کی منسوخی کے عمل کو کم سے کم کیا جائے یعنی فیصلوں میں اس درجہ اتقان و استحکام پایا جاتا ہو کہ منسوخی کے قابل نہ ہوں ۔ہم اگر یہ مشاہدہ کریں کہ ایک نا قابل قبول فیصد کی مقدار میں فیصلے تبدیل کئیے جا رہے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہئیے کہ کہیں نہ کہیں کوئی اشکال ضرور موجود ہے ۔ یہ بھی ترجیحات میں ہے ۔

ایک دوسرا نکتہ جیلوں کی مشکلات کے حل کا مسئلہ ہے ۔اس مسئلہ کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے البتّہ قید کی سیا ست کا خا تمہ ایک اچھا اقدام ہے جو عدلیہ کے سربراہ کی پالیسی کا حصّہ ہے اور جس پر کام جاری ہے لیکن جیل اور قید بھی زندگی کی ایک نا قابل تردید حقیقت ہے ۔جیل کی مدیریّت کو ایسا کردار پیش کرنا چاہئیے کہ ہماری جیلیں حقیقی معنی میں اچھا ئیوں کی درسگاہ ثابت ہوں ، اسے عظیم کار ناموں میں شمار کرنا چاہیے ، اہم مسائل کا حصہ سمجھنا چاہیے ۔یہ وہ چیزیں ہیں جو براہ راست عدلیہ سے مر بوط ہیں ۔متعلقہ مدیریتوں کو اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرنا چاہیے ،بخشش اور چھٹی کے ذریعہ قیدیوں کی تعداد میں کمی کے مسئلہ کو ہم نے عدلیہ کے اعلیٰ عہدیداروں اور اس کے سربراہ کے سامنے پیش کیا اور اس پر بحث و گفتگو جاری ہے ۔بہر حال ان امور کے لئیے حقیقی علاج ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان ترجیحات میں سے ہے جو عدلیہ کے مقام کے ارتقاء کے لئیے میرے ذہن میں آئیں اور بیان کی گئیں ۔

ایک مسئلہ بعض صلا حیتوں کو نکھارنے اور ان سےفائدہ اٹھانے کا ہے ، ان میں سے ایک وزارت انصاف ہے ۔ قانون نے وزارت انصاف کو وسیع اختیارات د یئے ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں عدلیہ کے عظیم اختیارات اور مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے؛بالکل ویسے ہی جیسے انسان کا پھیپھڑہ اسے پاک و صاف ہوا فراہم کرتا ہے اور اس کے بدن کی تندرستی کا ضامن ہے اسی طرح ہمیں عدلیہ کے تمام اختیارات اور مواقع سے استفادہ کرنا چاہیے یہ بھی ترجیحات میں سے ہے اور خوش قسمتی سے ہماری عدلیہ قوانین اور ساخت کے اعتبار سے ایک پیشرفتہ، منطقی ، مضبوط ،عصری تقاضوں کے مطابق مجموعہ ہے ۔

آج جو مطالب میں نے بیان کیے ان کے ساتھ ساتھ میں ایک اور چیز پر بھی تاکید کرنا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ ہے مالی و اقتصادی بدعنوانیوں کے تعاقب کا معاملہ، اس معا ملہ کو فقط ایک غیر قانونی اور معمولی جرم کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔اگر اس کام کا پیچھا اور تعاقب نہ ہو،اس کی اصلی وجہ معلوم نہ کی جائے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیئے تمام طاقتیں مل جل کر کام نہ کریں تو یہ مسئلہ اس ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔اقتصادی بد عنوانیاں ، ثقافتی اور اخلاقی برائیوں کو ساتھ لاتی ہیں۔اقتصادی بد عنوانیوں کا وجود اور ان کا رائج ہونا ملکی اداروں کے اچھے عناصر کے لئیے شدید خطرہ ہے ۔ان کے قدموں میں لغزش کا باعث بنتا ہے ، کچھ خاص اقتصادی بدعنوانیوں کے بارے جو رپورٹ ہمیں دی گئی ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے اس سے ان افراد کا یہ طریقہ کار سامنے آیا ہے کہ اقتصادی بدعنوان عنصر اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لئیے کسی ادارے میں پہلے اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا ہے ،وہاں کام کرنے والے عملے کے بعض افراد کو اپنا ہمنوا بناتا ہے ، وہاں کام کرنے والے افراد اگر چہ با ایمان ہوتے ہیں؛ لیکن ہوس اور پیسے کی لالچ کا شکار بناتا ہے، سب تو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، بعض افراد ان کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اوران کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں ؛ یہ اقتصادی بدعنوانیوں کا بہت بڑا خطرہ ہے ۔

اقتصادی بدعنوانیاں ، معاشرے میں صحیح و سالم سرمایہ کاری کو پنپنے نہیں دیتیں ۔میں نے سات سال پہلے ۱۳۸۰میں جو خط تینوں قوا کے سربراہوں کو تحریر کیا تھا اس میں ان موارد کی وضاحت کی تھی ؛اقتصادی بدعنوانیاں ، سالم اقتصادی سرگرمیوں کی راہ میں رکا وٹ ہیں ،اور ان با ایمان افراد کو مایوس کرنے کا باعث ہیں جو صحیح اقتصادی سرگرمی انجام دینا چاہتے ہیں ،یہ ایک مصیبت ہے،ایک بہت بڑی بیماری ہے ؛اس وبا کے مانند ہے جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ،مسری بیماری کی طر ح ہے کہ جیسے ہی پھیلنا چاہتی ہے ،حکومت ، عدلیہ اور پارلیمینٹ اپنی پوری طاقت سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئیے الرٹ ہو جاتی ہیں ۔

البتّہ اس سلسلے میں عدلیہ کا کردار نمایاں ہے ؛ حکومت کو بھی ہم نے بارہا اس کی ذمّہ داریوں کا احساس دلایا ہے اور اس سے مطالبہ کیا ہے ؛وہ اپنی جگہ محفوظ ۔ لیکن آپ بھائی ،بہن جو یہاں تشریف رکھتے ہیں اور جن کا تعلّق عدلیہ سے ہے ،آپ یہ جان لیں کہ اقتصادی بدعنوانیوں کا قلع قمع کرنے کے لئیے آپ پر بہت سنگین ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔

جرم اور برائی کی روک تھام اور مما نعت بھی عدلیہ کی ذمّہ داری ہے ۔بنیادی آئین کا جائزہ لیجئیے ،اسے مشاہدہ کیجئیے ، بنیادی آئین میں عدلیہ کی ایک ذمّہ داری یہی جرائم کی روک تھام ہے ۔ روک تھام کے لئیے مناسب اسباب و عوامل اور اداروں کی ضرورت ہے ، روک تھام ،کبھی عدلیہ کے اہلکاروں کے ذریعہ انجام پائے گی اور کبھی پولیس اور خفیہ اداروں کے توسّط سے ۔ان سب سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اجازت نہیں دینا چاہیے کہ ملک میں فقیر و ناتواں افراد کی موجودگی کے باوجود کچھ بدعنوان ، نا جائز فائدہ اٹھانے والے ،لالچی اور چالاک قسم کے افراد اس قوم کے وسائل اور ذخائرسے ناجائز فائدہ اٹھائیں اور بلا کسی حساب و کتاب کے ان کے مالی وسائل کا استحصال کریں ۔اس کا مقابلہ ہونا چاہیے ، ہمیں معلوم ہے کہ عدلیہ ،حکومت اور پارلیمنٹ میں اس تحریک کا رد عمل سامنے آئےگا وہ لوگ آرام سے نہیں بیٹھیں گے ،خاموش نہیں رہیں گے ،بعض لوگ مسئلہ کو منحرف کرنے کے در پے ہیں ،اس کی شکل کو بگاڑنا چاہتے ہیں ؛ جیساکہ کچھ عرصہ پہلے پیش آیا ؛ یہ مسئلہ کی حقیقت میں تبدیلی ہے ؛ یہ ہدف سے منحرف کرنے کی سازش ہے؛یہ ایک حربہ ہے ۔ دوسرے حربے یہ ہیں دباؤ ڈالنا، ٹیلیفون کرنا رابطہ قائم کرنا ،سفارش کرنا، طاقت کا استعمال کرنا اور افراد کو ایک دوسرے کے پاس و لحاظ کے مخمصہ میں ڈالنا ۔ان سب کا ڈٹ کر مقا بلہ ہونا چاہیے اور یہ واقعاّ بہت عظیم کام ہے ۔

ہمارا خط اور ہمارا مطالبہ اگر چہ ۱۳۸۰ ہجری شمسی سے مربوط ہے ؛ اور اس پر اس دن کی تاریخ درج ہے ؛لیکن یہ مطالبہ آج بھی باقی ہے اگر آپ آج بھی معاشرے کی حالت کا مطالعہ کریں تو تینوں قوا سے ہمارا وہی دیرینہ مطالبہ اپنی جگہ باقی ہے ،اسے عملی جامہ پہنائیے ۔اس کی اہمیّت کو کم نہ سمجھیں ۔ اور اس سے بدتر یہ ہے کہ خدا نخواستہ یہ بدعنوان عناصر کہیں ان اداروں میں اثر و رسوخ پیدا نہ کر لیں اور وہاں کے افراد کو اپنے رنگ میں نہ رنگ دیں اور انہیں اپنا ہمنوا نہ بنا لیں جن پراقتصادی بد عنوانیوں سے پیکار کی ذمّہ داری ہے۔یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے ،جس کا پختہ عزم اور پوری طاقت سے سامنا اورمقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

بہر حال اگر یہ عظیم کام انجام پائیں کہ جنہیں یقیناّ انجام پانا چاہیے تو اس وقت وہ ہدف حاصل ہو گا جو ہم نے آپ کے سامنے بیان کیا ، یعنی عدلیہ، ملک کے محروم اور مظلوم عوام کی پناہگاہ میں تبدیل ہو گی یہ مظلوم عوام کسی بھی طبقے سے ہو سکتے ہیں ۔تا کہ اگر کوئی کسی پر ظلم کا مرتکب ہو یا ظلم کرنا چاہے تو مظلوم واقع ہونے والےشخص کو یہ ڈہارس ہو کو وہ عدالت سے رجوع کر کے انصاف حاصل سکے گا، اس کیفیّت کو معرکہ وجود میں آنا چاہیے ،آپ جائزہ لیں کہ آیا معاشرے میں یہ کیفیّت پائی جاتی ہےیا نہیں ۔ اگر نہیں ہے تو اسے وجود میں لانے کی کوشش کیجئیے ۔خوش قسمتی سے گذشتہ چند برسوں میں کچھ اچھے کام انجام پائے ہیں ، کچھ پیشرفت حاصل ہوئی ہے ،لیکن ہم اس پر قانع نہیں ہیں جب ہم ہد ف اور منزل مقصود سے اپنے فاصلے کو دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ابھی بہت چلنے بلکہ دوڑ لگانے کی ضرورت ہے ۔

ان امور میں پیشرفت کے لئیے خداوند متعال کی مدد و نصرت درکار ہے ، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں اپنی پوری توانائی اور کوشش کو بروے کار لائیں اور خدا سے دعا کریں کہ ہماری اس حرکت میں برکت عنایت فرمائے اور اطمینان رکھیے کہ ایسا ہی ہو گا ۔اگر ہم کسی کام کو پورے اخلاص، جذبہ اورولولے سے شروع کریں تو یقیناّ خداوند متعال اس کام کو آسان بنا دے گا اور ا س میں خاطر خواہ پیشرفت حاصل ہوگی،جیسا کہ اب تک ہم نے بہت سے ترقیاتی زینے طے کیے ہیں اور انشاء اللہ مستقبل میں مزید پیشرفت کریں گے۔ہم امّید کرتے ہیں کہ خداوند متعال آپ ،آپ کی خدمات ، آپ کی کاوشوں ،آپ کی ہمدردانہ محنت و لگن کا صلہ دے اور یہ زحمتیں امام زمانہ حضرت بقیّۃ اللہ (ارواحنا فداہ ) کی منظور نظر قرار پائیں اور ان کے دعائیں آپ کے شامل حال ہوں اور امام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ )اور شہداء بالخصوص سات تیر کے شہداء کی ارواح ہم سےراضی و خوشنود ہوں ۔

والسلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ