ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت علی (ع) کی ولادت کے موقع پر عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم‏اللَّہ‏الرّحمن‏الرّحيم‏

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یوم ولادت رجب کے مہینے کا بہت بڑا مبارک اور اہم دن سمجھا جاتا ہے، میں آپ عزیز بھائیوں ، عزيز بہنوں اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو جو حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے بلند مقام اور شان و منزلت کے قائل ہیں اسی طرح دنیا کے تمام مظلوموں، حریت پسندوں اور انصاف کے حامیوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کے کانوں تک علوی عدل وانصاف کی شہرت پہنچی ہے ۔ خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ہمیں حقیقی معنی میں علی علیہ السلام کا شیعہ اور ان کا تابع و پیروکار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک جملہ اس میلاد مسعود کی مناسبت سے عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے خالص ایمان کی تابندگي و درخشندگی اور عظمت ، آپ کا وہ سخت ودشوار جہاد جو اسلام کے آغاز سے لیکر زندگي کے آخری لمحات تک آپ نے انجام دیا ، آپ کاوہ بے نظیر عدل و انصاف جس نےمسلمانوں کوہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنی طرف مجذوب کردیا۔ آپ کا وہ تضرع و زاری اور خضوع و خشوع و خلوص میں ڈوبی ہوئی عبادت آپ کی ایسی ممتاز اور برجستہ صفات ہیں جن کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان کوئي اختلاف نہیں ہے خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔


امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی وہ عظیم شخصیت ہے جن کی عظمت اور خصوصیات، اور شان و منزلت کے بارے میں تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتفاق نظر پایا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اشتراک و اتحاد قرار پا سکتے ہیں۔ ہر زمانے اور دور میں تمام مسلم فرقے سوائے نواصب کے جو اسلامی فرقوں میں شامل نہیں، امیر المومنین علیہ السلام کی اسی شان و منزلت کے قائل رہے ہیں جو آج آپ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں دیکھتے ہیں۔ بنابریں امیر المومنین علیہ السلام تمام مسلم فرقوں کا نقطہ اشتراک اور سنگم ہیں اور آپ کی ذات اتحاد بین المسلمین کا سرچشمہ قرار پا سکتی ہے۔
عالم اسلام کو آج اس چیز کی سخت ضرورت بھی ہے۔ آج اسلام دشمن طاقتیں، جو نہ تو اس فرقہ کی ہمدرد ہیں اور نہ اس فرقہ کی، کبھی ایک فرقہ کے خلاف دوسرے فرقہ کی حمایت کر دیتی ہیں اور کبھی اس کے بر عکس عمل کرتی ہیں، ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کیا جائے، خلیج پیدا کی جائے، انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا جائے۔ ایسے شرائط میں مسلمانوں کو اتحاد کی شدید ضرورت ہے اور امیر المومنین علی علیہ السلام اس اتحاد کا مظہر بن سکتے ہیں۔ اس عظیم ہستی کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں جس کی عظمت کے سب معترف اور قائل ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امیر المومنین علیہ السلام بس ہمارے ہیں۔ ہم شیعہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں کہ " معروفین بتصدیقنا ایاکم" ہم امیر المومنین اور خاندان پیغمبر اسلام (ص)سے عشق و مودت کے لئے معروف ہیں لیکن ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ امیر المومنین علیہ السلام صرف ہمارے ہیں۔ نہیں، دنیا کے تمام مسلمان، مختلف فرقے امیر المومنین علیہ السلام کےبارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ عظیم ہستی، یہ بے مثال شخصیت، یہ اسلام کا کامل مظہر ، ایک لمحے کے لئے بھی پیغمبر اسلام کی پیروی اور اتباع سے غافل نہیں ہوا، حضرت علی (ع) نے بچپن سے لڑکپن، نوجوانی سے جوانی اور پھر زندگی کے آخری لمحہ تک، اللہ تعالی، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے مجاہدت کے سلسلے میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئي کوتاہی نہیں کی۔

یہ ایک نکتہ ہے جسے ہم سب شیعہ سنی یا ان دونوں فرقوں کے درمیان پائے جانے والے دیگر فرقے اتحاد و یکجہتی کا محور و مرکز بنا سکتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام سب کے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں ان نعروں اور روشوں کو اختیار کیا جو تمام انسانوں سے متعلق ہیں۔ میں اس کے متعلق بعد میں کچھ وضاحت کروں گا ، تو یہ رہا ایک نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی محبت بہت اہم قیمتی اور گرانقدر ہے۔ روایت میں ہے کہ جس شخص کے دل میں کسی کی محبت ہو وہ قیامت میں اسی کے ساتھ محشور کیا جائے گا۔ محبت کی بڑی قدر وقیمت ہے لیکن محبت ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ پیروی اور اتباع ضروری ہے۔ ہم دنیا میں شیعہ کہلاتے ہیں، شیعہ کی تعریف اس طرح کی گئي ہے " الشیعۃ من شايع علیا" علی کے نقش قدم پر چلنے والے شیعہ ہیں توان کے نقش قدم پر ہمیں چلنا چاہئے، یہ تو معلوم ہے کہ ہم کچھ بھی کر لیں مولائے کائنات کے مقام تک نہیں پہنچیں گے لیکن اس عظیم بلندی کی طرح بڑھنا تو چاہیئے۔
آپ توجہ اور غور کیجئے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی با برکت، با معنی اور سبق آموز زندگی میں سب سے زیادہ کس چیز کو اہمیت دی ہے ایک تو عدل و انصاف کا مسئلہ ہے، جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی سیرت کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔
ظالم سے کوئي سمجھوتہ نہ کرنا، مظلوم سے ہمدردی، مظلوم کو انصاف دلانے کے لئے مدد، یہ وہ امور ہیں جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حیات طیبہ، آپ کے اقوال اور نہج البلاغہ کےخطبوں میں موجود ہیں۔ مولائے متقیان کے ان جملوں پر توجہ فرمائیے " و اللَّہ لان ابيت على حسك السّعدان مسہّدا او اجرّ فى‏الاغلال مصفّدا احبّ الىّ من أن القى اللّہ ... ظالما لبعض العباد و غاصبا لشئ من الحطام" ملاحظہ کیجئے! حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کی پہچان، یعنی اگر زندگی کے دشوار ترین موڑ پر پہنچ جاؤں تو بھی نا ممکن ہے کہ کسی بھی مخلوق کے ساتھ کوئي نا انصافی کروں اور اپنے لئے دنیوی حطام و ذخائر حاصل کروں۔
دنیا امیرالمومنین علیہ السلام کی نظر میں" اس معنی میں جو ایک انسان اپنی زندگی کے لئے قائل ہے" مکمل طور پر مردود و متروک ہے ۔آپ کا دنیا سے خطاب ہے "غری غیری" دنیا کسی اور کو فریب دے، علی کو فریب نہیں دے سکتی، یہ امیر المومنین علیہ السلام کا نعرہ ہے۔
آج اسلامی نظام جو اسلام کے نام پر ہمارے ملک میں تشکیل پایا ہے، کون سی چیز سب سے زیادہ اہم اور نمایاں خصوصیت کی حامل ہے اور کس چیز کے متعلق خاص حساسیت اور توجہ کی ضرورت ہے؟ انصاف، یعنی اگر حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہمارے اس زمانے میں، اس معاشرے میں اور ان لوگوں کے درمیان ہوتےجو آپ سے خاص عقیدت و مودت رکھتے ہیں، تو کس چیز پر حضرت خاص طور پرتاکید فرماتے؟ یقینا عدل و انصاف پر۔
عدل و انصاف، کسی خاص گروہ، عوام یا کسی ایک ملک اور قوم کا مطالبہ اور خواہش نہیں ہے۔ یہ تو پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی دلی آرزو رہی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی جستجو آج بھی انسانیت کو ہے اور انبیاء الہی یا امیر المومنین علیہ السلام جیسے اولیاء کے ادوار حکومت کے علاوہ، جو کبھی کبھی دیکھنے میں آئے، عدل و انصاف پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہو سکا۔
دنیا پرست افراد اور وہ لوگ جن کے دل مادی اور دنیوی چیزوں کی ہوس سے لبریز ہیں، کبھی بھی عدل و انصاف قائم نہیں کر سکتے۔ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ایک بے نیاز دل، قوی ارادے اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ ہماری بھرپور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس راہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلیں، ہمیں اعتراف ہے کہ ہم مولائے کائنات کی مانند عدل و انصاف قائم نہیں کر سکتے۔ یہ ہم مانتے ہیں کیونکہ کہاں ہم اور کہاں وہ حضرت جو فولادی اور آہنیں ارادے کے مالک ہیں، غول پیکر لہروں کے سامنے ہم کہاں ٹک سکتے ہیں؟! لیکن پھر بھی ہمیں اپنی بساط بھر کوشش تو کرنی چاہئے۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے گماشتہ افراد کو عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیتے تھے، حالانکہ وہ امیر المومنین علیہ السلام کے درجےپر فائز نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری ہمارے دوش پربھی ہے اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہوگی۔ عوام کو بھی اس چیز کا مطالبہ کرنا چاہئے یہ چیز عوامی سطح پر رائج ہو جانی چاہئے، ہمارے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ، عدل و انصاف ہونا چاہئے، داخلی امور میں بھی اور عالمی مسائل کے متعلق بھی۔ یہ بے انصافی جو آج دنیا میں پائی جاتی ہے اور بڑی طاقتوں کی جانب سے جوعالم انسانیت اور اقوام عالم پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اس بڑے منکر سے مقابلہ ہر مسلمان کا فرض ہے جو اسلام کی حاکمیت کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہماری زندگی کا اہم ترین نعرہ ہونا چاہئے اندرونی اور بیرونی تمام مسائل میں اس کو اہمیت دینی چاہیے۔
اگر ہم عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے خدا وند ومتعال کی مدد و نصرت پر یقین رکھنا چاہیےاور اللہ تعالی سے اپنے قلبی رابطے کو مضبوط ومستحکم کرنا چاہیے۔ یہیں پر دعا و عبادت و خضوع و خشوع اور مناجات و توسل کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ رجب کا مہینہ خدا وند متعال کی عبادت ، بندگي و مناجات تضرع و توسل کی بہار کا مہینہ ہے۔ ماہ رجب، ماہ شعبان اورسب سے بڑھ کر ماہ مبارک رمضان المبارک میں عبادت کی اہمیت کا ادراک ضروری ہے۔
اگر ہم زندگی کے میدان میں اس صراط مستقیم کے راہرو بننا چاہتے ہیں جسے اسلام نے متعارف کروایا ہے تو خداوند متعال سے ہمارا رابطہ مضبوط و مستحکم ہونا چاہئے۔ یہ رابطہ دعا و نماز کے ذریعے اور گناہوں سے دوری کے ذریعے مضبوط ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام جن کی شجاعت زبان زد خاص و عام ہے جو شجاعت کے پیکرہیں اور کسی کو بھی اس میں کوئي اختلاف نہیں ہے، جب وہ محراب عبادت میں پہنچتے ہیں تو " یتململ تململ السلیم" ایسے شخص کی مانند تڑپتے ہیں، گریہ کرتے، پیشانی زمین پر رگڑتے ہیں جسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ دعای کمیل اور یہ مناجات شعبانیہ جو امیر المومنین علیہ السلام سے منسوب ہیں ان پر آپ غور کیجئے، پروردگار کی بارگاہ میں اس عظیم انسان کے گریہ و زاری اور تضرع و توسل کا کیا انداز ہے؟! یہ ہمارے لئے سبق آموزہے۔
خدا وند متعال کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے عوام خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کے دل اللہ تعالی، روحانیت اور دعا و مناجات کی طرف مائل ہیں۔ آج تیرہ رجب ہے، اعتکاف کا پہلا دن ہے۔ آپ دیکھئے ہمارے ہزاروں نوجوان آج ملک بھر میں مختلف مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئےہیں۔ روزے کے عالم میں، خالی پیٹ اور سوکھے ہونٹوں کے ساتھ، اس گرمی کے موسم میں، اللہ تعالی سے مناجات اور راز و نیاز میں مصروف ہیں۔ اس کی قدر وقیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ہماری قوم کو چاہئیے کہ اس اعتکاف کی قدر کرے۔ میں یہیں پر متعلقہ حکام سے ایک سفارش بھی کرنا چاہوں گا کہ اگرچہ مختلف جگہوں پر ہزاروں افراد کا اجتماع بڑا اچھا موقع ہوتا ہے، ہم نے سنا ہے کے بعض مساجد کے منتظمین اجتماعی پروگرام رکھتے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں لیکن میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اعتکاف کے یہ ضمنی اجتماعی پروگرام اس طرح منعقد نہ کئے جائيں کہ معتکف حضرات کی خلوت اور خدا کی بارگاہ میں ان کی تنہائي میں کوئي خلل واقع ہو۔ یہ نوجوان جو اعتکاف میں بیٹھے ہیں در حقیقت اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے کے لئے خلوت کے متمنی ہیں۔ اعتکاف انفرادی عمل ہے۔ اللہ تعالی سے لو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اعتکاف کے مراکز کے اجتماعی اور گروہی پروگراموں سے خلوت کی حالت اور اللہ تعالی سے برقرار ہونے والا قلبی رابطہ متاثر ہو۔ ان نوجوانوں کو قرآنی وادیوں میں اتر جانے کا موقع ملنا چاہئے انہیں نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کو پڑھنے کا موقع فراہم ہونا چاہیئے۔
میں ان ایام اعتکاف میں صحیفہ سجادیہ پڑھنے کی سفارش کرتاہوں۔ صحیفہ سجادیہ واقعی ایک معجز نما کتاب ہے۔ خوش قسمتی سے اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے بلکہ کئي ترجمے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال مجھے صحیفہ سجادیہ کا ایک ترجمہ دکھايا گيا میں نے پڑھا، بہت اچھا ترجمہ تھا۔ صحیفہ سجادیہ میں مذکور حضرت علی ابن الحسین علیھما السلام کی دعاؤں سے استفادہ کیجئے، انہیں پڑھئے اور ان کے معانی پر غور کیجئے۔ یہ صرف دعا نہیں ہے، درس ہے۔ سید سجاد علیہ السلام کے یہ کلمات اور آئمہ اطہار(ع) سے منقول جملہ دعائيں معرفتوں اور تعلیمات کا خزانہ ہیں۔
تو رجب کا مہینہ ہے، عبادت کا مہینہ ہے، پروردگار کی بارگاہ میں مناجات کا مہینہ ہے، تضرع کا مہینہ ہے اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالی سے اپنا قلبی رشتہ مضبوط کریں تاکہ میدان زندگی میں مضبوط قدم، محکم ارادے اور اور روشن ذہن کے ساتھ آگے کی سمت گامزن رہیں۔ اگر ایک قوم اپنی عزت و وقار کو حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے ارادوں میں استحکام ضروری ہے، اس کی نظر میں اس کا ہدف واضح ہونا چاہیےاور اس کا دل اللہ تعالی کی ذات پر ایمان سے لبریز ہونا چاہئے۔
آج ہماری قوم کو اسلام کی پیروی کی وجہ سے عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اگر صراط مستقیم کا راہرو بننا ہے، اگر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنا ہے تو خود کفیل اور آزاد ہونا ضروری ہے۔ ظالم و ستمگر طاقتوں سے خوفزدہ نہیں ہونا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ملت ایران اور دشمنوں کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا ہے۔ اختلاف کی جڑ یہی ہے۔ ملت ایران سامراجی طاقتوں کے رعب و دبدبہ میں آنے کو تیار نہیں ہے، اپنے مفادات سامراجی مفادات پر قربان کرنے پر راضی نہیں ہے اور عالمی سامراج جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے اس کی چاہت کے خلاف اور برعکس عمل کی خواہاں ہے۔
سامراج کی خواہش بھی قوموں کے ذخائر، ان کی زندگی کے تمام وسائل کی لوٹ و کھسوٹ پر مبنی ہے۔ بظاہر انسانی نظر آنے والے ان کے تمام دعوے اور نعرے مکر وفریب اورجھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ان کا اصل ہدف یہی ہے۔ لہذا اگر کوئي قوم واقعی آزاد اور خود مختار رہنا چاہتی ہے اور خود مختاری کے فریب کا شکار نہیں ہونا چاہتی، جیسا کہ آج بعض ممالک بظاہر آزاد اور خود مختار ہیں لیکن در حقیقت خود مختاری کے فریب میں ہیں اور بڑی طاقتوں کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، تو سامراجی طاقتوں سے اس کی بننے والی نہیں ہے۔ ملت ایران کے سامنے یہی چیلنج ہے۔ اگر قوم اس چیلنج کے مقابلے میں کامیابی اور اپنے وقار اور آزادی و خود مختاری کی حفاظت چاہتی ہے تو اسے محکم ارادے اور ثبات قدم کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے ان دو تین عشروں میں ملت ایران نے جارح اور تسلط پسند طاقتوں کے مد مقابل استقامت و پائداری کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ پائداری و استقامت ملت ایران اور اسلام کے لئے عزت و فخر کاباعث ہےاور اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اس کی مدد و نصرت کا نتیجہ ہے۔ بڑی طاقتوں کا مزاج یہ ہے کہ قوموں کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے میدان عمل سے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ قوموں سے ٹکر لینا ان کے بس کی بات نہیں ہےـ
سامراجی طاقتیں ان حکومتوں کو آنکھ کےاشارہ سے کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں جنہیں قوموں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی، بہت سے مقامات پر یہ صورت حال نظر آتی ہے، اکثر ان کی دھمکیاں کارگر ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ حکومت جس کی بنیادیں، عوام کے ایمان، پختہ ارادے اور جذبات پر استوار ہوں سامراجی طاقتیں اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتی ہیں کیونکہ اس حکومت سے مقابلہ کرنے کا مطلب خود قوم سے مقابلہ کرنا ہے۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک امریکہ جسے اسلامی انقلاب نے ایران سے نکال باہر کیا، اسلامی جمہوری نظام اور ملک کے حکام کو اپنی دھونس میں لینے اور انہیں میدان سے ہٹ جانے پر مجبور کرنے کی بارہا کوشش کر چکا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہی آئندہ اسے کامیابی ملنے والی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس اسلامی جمہوری نظام سے عوام کا جذباتی لگاؤ ہے اور یہ نظام عوامی حمایت پر استوار ہے۔ یہ بڑی طاقتیں اور ساری دنیا کو ہضم کر جانے کی خواہش رکھنے والے سیاستداں بسا اوقات اتنی بڑی حماقتیں کر دیتے ہیں کہ واقعی تعجب ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک نیا پروپیگنڈہ شروع کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف عوام کو متحد کرنا ہے تاکہ وہ اسلامی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں، دسیوں لاکھ ڈالر منظور کئے جا رہے ہیں۔ اس لئے کہ عوام کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف بغاوت کے لئے تیار کیا جائے۔ یہ تو سراسر حماقت ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب عوام کو خود عوام ہی کے مقابلے میں کھڑا کر دینا ہوگا۔ یہ کیا بات ہوئی؟! اسلامی جمہوری نظام، اسی ملت ایران ہی کا دوسرا نام ہے تو کیا ملت ایران کو ملت ایران کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے؟! اگر کسی نظام کا عوام سے رشتہ ٹوٹ جائے تب تو وہ نظام واقعی خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام تو عوامی رای، عوامی جذبات، عوامی حمایت اور عوامی ایمان پر استوار ہے۔ ایسے نظام کا ان حربوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بہانہ تراشی کی جاتی ہے، دھمکی دی جاتی ہے کبھی ایٹمی مسئلے کو بہانہ بنایا جاتا ہے، کبھی دیگر مسائل پیدا کئےجاتے ہیں۔ ایٹمی مسئلے کے سلسلے میں بھی چند جملے عرض کرتا چلوں؛ میں بارہا ملت ایران کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں اور بار بار اسے دہراتا رہوں گا کہ ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے میں ملت ایران کو جو عظیم کامیابی ملی ہے وہ ایک تاریخی کامیابی ہے اور اس سلسلے میں ملت ایران کسی کی بھی احسان مند نہیں ہے۔ یہ ایک مقامی اور قومی ٹکنالوجی بن چکی ہے، یہ تحفہ آپ کے نوجوانوں کی مہارتوں اور حکام کی فہم و فراست سے ملت ایران کو ملا ہے۔ یہ ملت ایران کا حق ہے اور کوئي بھی طاقت یہ ٹکنالوجی اور یہ حق ملت ایران سے چھین نہیں سکتی۔ خوش قسمتی سے حکام پوری سنجیدگی سے اس مسئلے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ جو حکومتیں معاندانہ رویہ اپناتے ہوئے ملت ایران کو اس حق سے محروم کر دینا چاہتی ہیں مثلا امریکہ جو ایرانی قوم کو اس کے اس حق سے محروم کرنے کی سرتوڑ کوشش میں لگا ہوا اور چاہتا ہے کہ ملت ایران کو یہ درجہ حاصل نہ ہو، البتہ ہم ان کے اور ان حکومتوں کے درمیان فرق رکھنے کے قائل ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ نہیں، ایران سے ایٹمی مسئلے سمیت تمام مسائل کے سلسلے میں گفتگو کرنی چاہئے تاکہ اگر کوئي تشویش ہے تو اسے دور کرنے کا راستہ نکالا جا سکے۔ یہ ٹھیک ہے، اس پر ہمیں کوئي اعتراض نہیں، ہم نے یورپی ممالک سے گفتگو کے لئے رضامندی ظاہر کی ہے۔ پہلے ان سے بھی گفتگو میں ہماری دلچسپی نہیں تھی لیکن جب ہم نے محسوس کیا کہ وہ ملت ایران کا احترام کر رہے ہیں، عزت دے رہے ہیں، واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم ملت ایران کا حق تسیلم کرتے ہیں اور ملت ایران کی ریڈ لائن کی حیثیت رکھنے والے امور پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں اس پر ہم کوئي بات نہیں کریں گے، تو ہم نے بھی کہا ٹھیک ہے۔ ہمارے حکام تیار ہیں اور مذاکرات کریں گے۔
بہرحال یورپیوں کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے جو مذاکرات میں ملت ایران کے فریق ہیں، کہ مذاکرات اسی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب دھونس اور دھمکی کی فضا کا سایہ ان پر نہ پڑے۔ ایرانی قوم غیور و بہادرقوم ہے، ملت ایران کو یہ پسند نہیں کہ کوئي ان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کرے کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم ویسا کر دیں گے، دھمکی سے تو ہمیں الرجی ہے، ملت ایران کسی بھی دھمکی سے مرعوب ہونے والی نہیں ہے۔
ملک کے حکام، ایٹمی مسئلے میں پوری سوجھ بوجھ اور دانشمندی کے ساتھ فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اعلی قومی سلامتی کونسل کے ہاتھ میں ہے جس کے سربراہ صدر محترم ہیں۔ یہ لوگ فیصلہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ صدر محترم اور دیگر حکام ایٹمی مسئلے میں کہہ رہے ہیں اس پر ملک کے تمام حکام کا اتفاق ہے۔ دشمن اگر کسی بات کو اچھال کر یہ ظاہر کرنا چاہیں کہ اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ ان کی احمقانہ اور بچگانہ کوشش ہوگی۔ تینوں قوا کے سربراہ اور رہبری کے نمایندے سب ایک ساتھ ہیں، ذمہ دار اور ماہر افراد اس مسئلے پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اوربر وقت ضروری اقدامات کر رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بالکل واضح ہے۔
ہماری کچھ ریڈ لائنیں بالکل واضح ہیں، اگر مذاکرات کے ہمارے فریق ملت ایران، اسلامی جمہوری نظام کی شان و منزلت اور ان ریڈ لائنوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو ہمارے حکام مذاکرات کریں گے۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ دھمکی آمیز بات نہ کی جائے، ملت ایران دھمکی برداشت کرنے والی نہیں ہے۔ ہم نے بالکل واضح لفظوں میں اعلان کر دیا ہے کہ اگر کوئي اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں حماقت آمیز اقدام کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کا عملی جواب بڑا تباہ کن اور سنگين ہوگا۔ ہاں اگر امریکہ یا اسرائیل جو بے شمار داخلی مسائل میں گرفتار ہیں، امریکی حکومت، بش انتظامیہ جس کے سر پر انتخابات ہیں اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں روسیاہ صیہونی حکومت ، اپنے داخلی مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لئے بوکھلاہٹ میں کچھ کہیں تو یہ ان کا داخلی معاملہ ہوگا لیکن اگر واقعی انہوں نے کوئي احمقانہ اقدام کیا تو وہ یاد رکھیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف بڑھنے والا ہاتھ ملت ایران کاٹ دے گی۔ کوئي فرق نہیں پڑتا کہ یہ جرائم پیشہ گستاخ ہاتھ سرکاری عہدے سے وابستہ رہتا ہے یا عہدے سے الگ ہو چکا ہے۔ کوئي اس بھول میں نہ رہے کہ موجودہ امریکی صدر اپنے اقتدار کے آخری چند مہینوں میں احمقانہ اقدام کرکے اس کے نتائج آئندہ حکومت کے سر ڈال سکتا ہے اور خود کو الگ کر سکتا ہے نہیں، یہ نہیں ہوگا۔ اگر کسی نے ایسی کوئي حماقت کی تو عہدے سے ہٹ جانے کے بعد بھی ملت ایران اس مجرم کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور اسے اس میں کوئي شک نہیں ہونا چاہئے کہ ملت ایران اسے اس کے کیفر کردار تک ضرور پہنچائےگی۔
اللہ تعالی نے ہمارے دلوں کو اپنی ذات پر توکل کی نعمت سے مالامال رکھا ہے۔ اس نے ہمارے دلوں کو امیدوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ ہم الہی امداد سے ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہیں ہوئے اور امید کرتے ہیں کہ آخری لمحے تک کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے"لا تیئسوا من روح اللہ" اللہ تعالی نے اس قوم کو قوت ارادی، جوش و جذبہ اور امید کی نعمت عطا کی ہے۔
میرے عزیزو! میرے بھائيو! میری بہنو! بالخصوص نوجوانو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ قوی ارادہ اور یہ جوش و جذبہ آپ کے اندر ہمیشہ موجزن رہے تو اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مضبوط کیجئے، اللہ تعالی سے راز و نیاز اور دعا و مناجات کیجئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے اور آفات و بلیات سے اس کی پناہ طلب کیجئے۔ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کیجئے وہ یقینا آپ کی مدد فرمائے گا۔ انشاء اللہ اس ملک کے نوجوان وہ دن دیکھیں گے جو ان کے لئے گزرے دنوں سے زیادہ شیریں اور آرام بخش ہوں گے۔ اسلامی جمہوریہ کا مستقبلدرخشاں و تابناک ہے۔ خدا وند متعال سےدعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدس اور شہداء و امام خمینی (رہ) کی ارواح مطہرہ کو راضی و خوشنود کرسکیں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ