بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے یہ مسرت آفریں اور امید بخش عید سعید تمام مؤمن انسانوں، اہلبیت (ع) کے دوستداروں ، آگاہ و ہوشیار ، حریت پسندوں اورظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والے انسانوں اور آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو مبارک ہو۔
پندرہ شعبان کا دن امیدکا دن ہے ، یہ امید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں حتی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے در حقیقت عالم بشریت کے تابناک و درخشاں مستقبل کی امید، ایک موعود و منجی کے ظہور کی امید ہے اور پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے والے کے ظہور پر تمام ادیان متفق ہیں جو دنیا میں موجود ہیں دین اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتی ہندوستان میں پائے جانے والے ادیان اور اس کے علاوہ ایسے کئي ادیان ہیں جن کے نام بھی لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ہیں انھوں نے اپنی تعلیمات میں ایک روشن و تابناک مستقبل کی بشارت دی ہے۔ یہ درحقیقت طویل تاریخ کے دوران تمام انسانوں کو امید بخشنا اور اس امید کے بارے میں انسانی ضرورت کے مطابق جواب دینا ہے کہ اس کے ساتھ حقیقت کا بیان بھی شامل ہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے آسمانی ادیان جن میں سے اکثر کی جڑیں الہی اور آسمانی ہیں انھوں نے لوگوں کو غلط اورجھوٹی امیدیں نہیں دی ہیں؛ بلکہ انھوں نےحقیقت کو بیان کیا ہے انسان کی خلقت اور بشریت کی طویل تاریخ میں ایک حقیقت موجود ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان یہ مقابلہ آرائی ایک دن حق کی فتح اور باطل کی شکست پر ختم ہوگی اور اس دن کے بعد انسان کی حقیقی دنیا اورانسان کی منظور نظر زندگی کا آغاز ہوگا اس وقت مقابلہ آرائی کا مطلب جنگ و جدال نہیں بلکہ خیر و خیرات میں سبقت کا مقابلہ ہوگا ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو تمام ادیان و مذاہب میں مشترک ہے ۔
ہم شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک ذہنی امر سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ شیعہ جب مہدی موعود (عج)کے منتظر ہیں اس نجات دہندہ ہاتھ کے منتظر ہیں تو اس وقت وہ ذہنی دنیا میں غوطہ زن نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسی ذات اورحقیقت و انسان کی تلاش و جستجو کرتے ہیں جو موجود ہے؛ عوام کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے ان کے ساتھ ہے ان کے درد و آلام و مصائب کو محسوس کرتا ہے جن لوگوں کے پاس ظرفیت ہے جن کوسعادت نصیب ہے وہ اس کی ناآشنا طور پر زیارت کرتے ہیں، وہ موجود ہے ایک حقیقی انسان، معلوم و مشخص انسان، ان کا نام معین ہے ان کے ماں باپ کا نام معلوم ہےوہ لوگوں کے درمیان موجود ہے ان کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے یہ خصوصیات ہم شیعوں کا عقیدہ ہیں ۔
دوسرے مذاہب کے لوگ بھی جو اس عقیدہ کے قائل نہیں ہیں وہ آج تک کوئی ٹھوس ، منطقی اور عقلی دلیل اس حقیقت کے رد میں پیش نہیں کرسکے ہیں، تمام راسخ اور ٹھوس دلائل جن کی بہت سے اہلسنت حضرات نے بھی تائید کی ہے اس بات کا کامل و محکم اورواضح ثبوت ہیں کہ یہ کامل انسان ، یہ حجت خدا ، یہ روش و تابناک حقیقت اسی خصوصیت کے ساتھ موجود ہے جنھیں ہم اور آپ پہچانتے ہیں اور آپ بہت سے غیر شیعہ مآخذ میں اس چیز کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ و السلام کے پاک و پاکیزہ فرزند ہیں ان کی تاریخ ولادت معلوم ہے ان سے متعلق تمام تفصیلات معلوم ہیں ان کے معجزات معین و مشخص ہیں خدا نے ان کو طولانی عمر دی ہے اور دے رہا ہے اور یہی ذات دنیا کی تمام امتوں ، تمام قبیلوں ، تمام مذہبوں ، تمام نسلوں اورتمام زمانوں کی بڑی تمناؤں کا آئینہ رہی ہے اور اس اہم مسئلے کے بارے میں مذہب شیعہ کی یہ خصوصیت ہے ۔
مہدویت کے سلسلے میں ایک مسئلہ یہ ہے جو آپ اسلامی آثار میں، شیعی آثارمیں ملاحظہ کریں گے کہ حضرت مہدی موعود ( عج ) کو انتظار ظہور اور انتظار فرج سے تعبیر کیا گيا ہے ، اس فرج کا کیا مطلب ہے ؟ فرج یعنی گرہ کھولنے والا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے ؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے ؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو ، کہیں کوئی گرہ لگي ہوئی ہو ، جب کوئی مشکل سامنے ہو ، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کردے ۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے ۔
انتظار فرج یا دوسرے الفاظ میں ظہور کے انتظار کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا ،اس دنیا کی صورتحال اور اس میں لگی ہوئي گرہوں کو جانتا ہے حقیقت امر بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ لگی ہوئي ہے ، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے وہ رکاوٹ برطرف ہوجائے ، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی امور میں رکاوٹ اور گرہ پڑجانے کا نہیں ہے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کےلئے ظہور کریں گے اور پریشانیوں میں مبتلا تمام انسانوں کو نجات دلائیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے ۔
مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آج ہورہا ہے اور اس وقت انجام پا رہا ہے یہ انسان کے بنائے ہوئےغیر منصفانہ نظام کی وجہ سے ہے جس میں بے شمار انسان ظلم وستم کا شکار ہیں بے شمار افراد کو گمراہ کیا جا رہا ہے بے شمار انسانوں کو خدا کی بندگی اور اس کی عبادت سے دور کیا جارہا ہے اس صورت حال پر ان لوگوں کو اعتراض ہے جو امام زمانہ (عج)کے ظہور کے منتظر ہیں ۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس ظالمانہ صورت حال کو مسترد کردینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور بشری اغراض و مقاصد کے تحت دنیا میں انسانی زندگی پر مسلط کردی گئی ہے،انتظار فرج کا مفہوم یہی ہے ۔
آپ لوگ آج دنیا کے حالات ملاحظہ کریں؛ وہی چیز جو حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں ، آج دنیا پر حکمراں ہیں ، دنیا کا ظلم و جور سے بھرجانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھرگئی ہے ولی عصر (ارواحنا فداہ) سے متعلق روایتوں ، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا" " جیسا کہ ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی ، جس طرح دنیا میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہوگا اسی طرح خداوند عالم ان (عج) کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کردے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا ۔وہ وقت یہی ہے ؛ اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب،انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے شمار مشکلات میں گرفتار ہے ۔آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور لاکھوں انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے ظلم وستم کے سائے میں زندگي بسر کررہے ہیں ، حتی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار اقوام اور ایران جیسی قوم پر دباؤ جس نے عدل و انصاف کا پرچم ایک محدود اور مشخص جگہ پر بلند کیا اس کے خلاف دباؤ یہ سب ظلم و ستم کی علامتیں ہیں ۔انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات کا مظہر ہے ۔
آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب عدل و انصاف قائم کرنے والے قدرت کے قوی و توانا ہاتھ کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو ختم کردے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے ، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کردے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سےتر و تازہ کردے تا کہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو یہ ایک آگاہ ، باخبر اور زندہ و بیدارانسان کی دائمی ضرورت ہے ہر وہ انسان جو اپنی فکر میں نہ بیٹھاہو، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو ، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو ، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی ،انتظار کا یہی مطلب ہے ۔انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا؛ چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال؛ ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی صاحب الزمان "صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ" کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنےگی۔ لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے ۔
انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائےاور کوئی کام انجام نہ دے کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں ۔ یہ تو انتظار نہ ہوا ۔انتظار کس کا ہے ؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کردے؛ حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو قائم کردے ، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنادے ، اس کام کے لئے آمادگي ہونی چاہئے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے عدل و انصاف کے قیام کے لئے اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے انتظار کا مطلب یہ ہے ، انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں ، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اورحقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے ،انتظار فرج کا یہی مطلب ہے ، انتظار فرج یعنی کمربستہ ہوجانا ، تیار ہوجانا ، خود کو ہر اعتبارسے اس ہدف کے لئے آمادہ رکھنا جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہوگا وہ عدل و انصاف کا قیام ہے ، انسانی زندگي کو الہی زندگي میں ڈھالنے اورخدا کی بندگي کوفروغ دینے کے لئےہوگا اس کے لئے آمادہ و تیار رہنا چاہیےاور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
بحمداللہ آج ہماری قوم مہدویت اور امام مہدی سلام اللہ علیہ کے وجود اقدس کی طرف ہمیشہ سے زیادہ متوجہ ہے روزبروز ہر انسان محسوس کرسکتا ہے جوانوں کے دلوں میں ،قوم کی ہر فرد میں ، حضرت حجت علیہ السلام کے وجود اقدس کے سلسلے میں عشق و محبت ، اشتیاق اور ذکر و یاد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔یہ بھی خود ان ہی حضرت کی برکتوں میں سے ہے ہماری اس قوم پر ان کی نگاہ لطف و رحمت کا نتیجہ ہے جس نے ان کے قلوب اس روشن و تابناک حقیقت کی طرف جھکادیئے ہیں خود یہ چیز بھی امام ( ع ) کی خصوصی توجہ کی نشانی ہے اور اس کی قدر کرنی چاہئے ۔
البتہ تمام حقائق کی طرح ، جو مختلف ادوار میں مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہے ہیں اس حقیقت کوبھی کبھی کبھی مفاد پرست لوگ اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنا لیتے ہیں یہ لوگ جھوٹے اور خلاف واقعہ دعوے کیا کرتے ہیں ، حضرت کو دیکھنے یا ان سے ملاقات کے دعوے ، یا ان کی اقتدا میں نماز ادا کرنےکے دعوے ؛جو حقیقت میں بڑے ہی شرم آور دعوے ہیں ، یہ سب وہی باطل طریقے اور راستے ہیں جو اس روشن حقیقت کو ممکن ہے اچھے انسانوں کے دل و نگاہ میں مخدوش کردیں لہذا اس قسم کے جھوٹے افراد کو اس کی اجازت نہیں دینا چاہئے ۔اور سبھی لوگوں کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ امام (عج)کو دیکھنے ، ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے، ان سے ملاقات کرنے اور ان سے حکم لینے کے تمام دعوے قابل تصدیق و تائید نہیں ہیں ہمارے بزرگوں ، اور ممتاز و باوقار انسانوں نے کبھی اس طرح کا دعوی نہيں کیا ہے کہ جن کی حیات کا ایک لمحہ، ہم جیسے انسانوں کی زندگي کے دنوں ، مہینوں اور برسوں کی زندگي اور پوری عمر سے زیادہ قیمتی ہے ممکن ہے کسی خوش نصیب انسان کی نگاہ اور دل میں وہ ظرفیت و صلاحیت پیدا ہوجائے کہ آپ کے جمال مبارک سے اس کی آنکھیں منور ہوجائیں لیکن اس طرح کے لوگ دعوے نہیں کرتے وہ دوسروں سے نہیں کہتے ، اپنی دکان نہیں چمکاتے ، یہ لوگ جو اس وسیلے سے اپنی دکانیں چلارہے ہیں ، ان کے لئے انسان پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور افترا سے کام لیتے ہیں لہذا اس روشن و درخشاں عقیدہ کو اس قسم کے غلط اعتقادات سے دور و محفوظ رکھنا چاہئے ۔
آج خوش قسمتی سے ہماری اس بزم میں ثقافت سے متعلق بعض افراد اور سفارتی اہلکار، تعلیم وتربیت سے متعلق بعض افراد ، جوانوں سے متعلق ادارہ کے بعض ممتاز و منتخب افراد اور مہدویت سے متعلق مجموعہ کے بعض افراد بھی موجود ہیں چنانچہ علم و ثقافت سے وابستہ بیدار و آگاہ تمام بھائیوں اور بہنوں سے اس مناسبت کے تحت جو کچھ میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے اسلامی عقائد خاص طور پر شیعی عقائد سب سے پاکیزہ ، سب سے زیادہ منطقی اور سب سے زیادہ مضبوط ومستحکم عقائدہیں وہ توحید جو ہم پیش کرتے ہیں نبی (ص) کی شخصیت جو ہم پیش کرتے ہیں ، امامت جو ہم پیش کرتے ہیں ، اعتقادی مسائل اور دینی معارف جو آئین تشیع میں ہم پیش کرتے ہیں ایسے روشن و واضح اور ٹھوس منطقی دلائل پر استوار ہیں کہ کوئی بھی ذہین اور باشعور انسان اور تحقیق و تلاش کرنے والا انسان شیعہ عقائد کی حقانیت ، صحت و درستی اور باریک بینی کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے شیعہ عقائد بہت ہی مستحکم عقائد ہیں اور تاریخ کے ہر دور میں شیعہ عقائد کے سلسلے میں یہی تصور رہا ہے حتی مخالفین نے مقام احتجاج اور مقام استدلال میں ، کلامی بحث و گفتگو میں ، آئمہ علیہم السلام سے ماخوذ عقائد امامیہ کے استحکام کا اعتراف کیا ہے اور آئمہ علیہم السلام نے قرآن کریم کے حکم کے مطابق ہم کو غور و فکر اور تامل و تدبر اور عقل و خرد سے کام لینے کا حکم دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان عقائد میں غور وفکر اور تعقل و تدبر واضح ہے اس کے علاوہ آئمہ علیہم السلام کی ہدایات بھی غلطیوں سے دور رہنے کے لئے بہترین راہنما ہیں ۔
ان عقائد کو پہلے صحیح طور پر سمجھنا چاہئے پھر دوسرے مرحلے میں غور و فکر کے ذریعہ اس میں گہرائی پیدا کرنی چاہئے اور اس کے بعد تیسرے مرحلے میں درست انداز میں دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے تمام ثقافتی مجموعوں کو یہی روش اختیار کرنا چاہئے تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک معلم کو ،تعلیمی اور تربیتی اداروں کے منتظمین کو بہترین انداز میں اس سنہرے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ ہمارے نوجوان کی عمر کا بہترین حصہ ان کے اختیار میں ہے ، دینی اور مذہبی عقائد ، نہ صرف دینی تعلیمات کے گھنٹوں میں بلکہ تمام موضوعات کا درس دیتے وقت جہاں کہیں بھی موقع مناسب ہو عقل و ہوش اور دقت نظر سے کام لے کر اپنے شاگرد کے دل و جان میں پوری سنجیدگي سے اتار دینا چاہئے تا کہ طالبعلم کو اپنے عقائد دل و دماغ میں پروان چڑھانے کا موقع مل سکے ۔
دوسری اقوام اور دوسرے ممالک میں مشغول ثقافتی اداروں کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ ان حقائق کو مختلف انداز و طریقوں سے دوسروں کے سامنے پیش کریں اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مہدویت کے مسئلہ سےواقف ہوجائیں ۔اسی مہدویت کے مسئلے میں ، اہلسنت کے وہ حضرات یا حتی غیر مسلم ماہرین اور دانشوروں کے درمیان کہ جنہوں نے مہدویت سے متعلق شیعہ عقائد کا مطالعہ کیا ہے اور معلومات حاصل کرنے کے بعد تصدیق و تائید کی ہے کہ تورات و انجیل اور دیگر مذاہب میں بھی جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں اسی مہدویت سے مطابقت رکھتی ہیں جو شیعوں کے یہاں پائي جاتی ہیں، اس کا اعتراف کرتے ہیں اور وہ لوگ جو شیعہ عقائد سے ناواقف ہیں یا اس کی بگڑی ہوئي شکل ان تک پہنچی ہے، وہ اس سلسلے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے ، ان تک صحیح عقیدہ پہنچانا چاہئے اس وقت آپ دیکھیں گے کہ باخبر علماء اور پڑھے لکھے دانشوروں کا فیصلہ اس عقیدہ کے حق میں ہوگا اور وہ سب اس کی تائید و تصدیق کریں گے اور اس کی طرف مائل ہوں گے ۔
اس بات پر ہمارے جوانوں ، ہمارے ممتاز جوانوں ، اسکول اور کالج کے طلباء، یونیورسٹیوں اور حوزات کے فاضل طلاب اور محققین ، مبلغین اور تعلیم اور تربیت سے متعلق اداروں کو توجہ دینی چاہئے کہ اپنے مخاطبین کے سامنے اس روشن حقیقت کو پیش کریں جو مذہب امامیہ اور اہل بیت (ع) کےپیروکاروں کے پاس ہے حقیقت کو بیان کرنا چاہیے اور یہ اسی وقت مفید ہوگا جب وہ مخاطب کو قبول کرنے پر آمادہ کرسکے اور مخاطب اس کی تائید و تصدیق کرسکے ۔حقیقت کو دکھانا چاہئے لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ حقیقت صاف و شفاف بیان کی جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کے جھوٹےخرافات ، اانحرافات ، کج فہمی اور اس قسم کی دوسری غلط باتیں نہ ہوں ،اس سلسلے میں علمائے دین ، ممتاز مبلغین اور روشن فکر محققین و دانشوروں کا کردار قطعی طور پر بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری قوم نے اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات اور قرآنی ہدایات پر عمل کرکے انقلاب کے دوران ، آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران اور ہمارے ملک کو در پیش طرح طرح کے حوادث کے مواقع پر اہلبیت (ع) کی تعلیمات کی حقانیت کو ثابت کیا ہے ۔دنیا کے بہت سے لوگ مقدس دفاع کے دوران تشیع کی حقانیت سے آشنا ہوئے اور اس کی طرف قلبی رجحان پیدا کیا اور اسے قبول کیا ہے چنانچہ بہت سے عالمی مندوبین نے دفاع مقدس کے دوران اور اسلامی انقلاب کے دوران ، ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اور ان کے ساتھیوں کے طرز عمل کو دیکھ کر، جو یہی راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہد و سرفروش جوان تھے ، اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں بہت سی وہ ملتیں جو مسلمان تھیں لیکن اسلام کی حقیقت سے غافل تھیں، بیدار ہوئي ہیں ، دین و مذہب کی صحیح حقیقت کو پیش کرنا اور مذہبی حقائق کو خاص طور پر عمل کے ذریعہ پیش کرنے سے اسی طرح کی معجز نما خصوصیت کا ظہور ہوتا ہے۔
امیدوار ہوں کہ ملت عزیز حضرت بقیۃ اللہ "ارواحنا فداہ " کی پاکیزہ و مقبول دعاؤں کی مستحق قرار پائے اور انشاء اللہ حضرت (عج)کے ظہور کے انتظار کے سلسلے میں اس ملت کے عشق و محبت اور شوق ونشاط میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے اور انشاء اللہ دلوں اور نگاہوں کی ظرفیت اور دنیا کی ظرفیت اس عظیم الہی انقلاب کے لئے آمادہ و تیار ہوجائے ۔
والسّلام عليكم و رحمۃ اللَّہ و بركاتہ