ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کےاٹھارہ رمضان المبارک کوتہران کی نماز جمعہ میں اہم خطبے

پہلا خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونتوکل علیہ ونسلم علی حبیبہ ونجیبہ وخیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ ومبلغ رسالاتہ سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین وصل علی آئمۃ المسلمین وھداۃ المؤمنین وحماۃ المستضعفین۔

عزیزبھائیواوربہنوجمعہ کے دن، شب قدرکے موقع، رمضان کے مہینہ اورروزہ کی حالت میں نماز جمعہ سے قبل کی یہ مختصرگفتگو دلوں کوالہی فضل وکرم کے سرچشمہ سے نزدیک کرنے اوردل میں تقوی پرہیزگاری کا پودا اگانے کے لئے زمین ہموارکرنے کا نہایت ہی بہترین موقع ہے۔

شب قدردعا، تضرع اورخدا کی طرف توجہ کی شب ہے بلکہ پوراماہ رمضان اورخاص طورسے شبہائے قدرتوجہ الی اللہ، ذکر، خضوع وخشوع اورتضرع کی بہار ہے اسی کے ساتھ یہ امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) اورامام المتقین سے آشنائی اوران کی زندگی سے درس حاصل کرنے کا موقع بھی ہے ماہ رمضان کے جتنے بھی فضائل اوراس ماہ میں جتنی بھی بندگان صالح کی ذمہ داریاں بیان کی جا سکیں امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) ان سب کا مجسمہ اوراس ذیل میں بہترین نمونہ عمل ہیں۔ میں پہلے خطبہ کا آغازامیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے ذکرسے کرنا چاہوں گا تاکہ آپ کی معرفت سے کچھ قریب ہوا جا سکے جوکچھ اب تک آپ سے متعلق بیان ہوا ہے جوکچھ ہم نے بیان کیا اورسنا ہے وہ آپ کے فضائل وکمالات کے پیش نظرہیچ ہے ہم میں ان کا جہاد بیان کرنے کی سکت نہیں ہے، تقرب الہی کے حصول کے لئے ان کی کوششیں بیان کرنے سے ہم عاجزہیں، ان کے مصائب وآلام ہم نہیں بیان کرسکتے ان کے رفتاروکردارکی عظمت پہ روشنی ڈالنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔

امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) سے درس حاصل کرنے کی غرض سے آج میں آپ کی جامع سرگرمیوں کا ایک گوشہ ذکرکرنا چاہتا ہوں اوروہ تربیتی گوشہ ہے جب امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) نے اسلامی معاشرہ کی زمام اپنے ہاتھ میں لی تواس وقت کا ماحول اس ماحول سے کا فی مختلف ہوچکا تھا جب سرکار دوعالم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رحلت فرمائی تھی سرکار دوعالم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت اورامیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے خلافت سنبھالنے تک پچیس سال کے عرصہ میں بہت کچھ ہوچکا تھا جس سے اسلامی معاشرہ کے افکار واذہان متأثر تھے ایسے ماحول میں آپ نے حکومت اورسماج کی باگ ڈور سنبھالی۔

پانچ سال تک اتنے بڑے اسلامی ملک پر امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی حکومت رہی ان پانچ سال کا ہر دن ایک سبق ہے اس دوران آپ کا ایک کام مستقل عوام کی اخلاقی تربیت میں مشغول رہنا تھا ہمارے سماج میں جتنے بھی انحرافات رونما ہوتے ہیں ان سب کی بازگشت اخلاقیات کی جانب ہوتی ہے انسان کا اخلاق اوراس کی اخلاقی صفات ہی اس کے عمل کا نقشہ تیار کرتی ہیں اگر ہمیں اپنے سماج یا دنیا میں بداعمالیاں نظرآتی ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس کی جڑبری اخلاقی خصلتیں ہیں اورامیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) نے انسان کی اکثر ناپسندیدہ وبری باطنی خصلتوں کی وجہ دنیا پرستی کو قراردیا ہے آپ فرماتے ہیں" الدنیا رأس کل خطیئہ" دنیا پرستی ہماری ہر غلطی کی بنیاد ہے اورپھریہی غلطیاں ہماری سماجی وانفرادی زندگی پر اثرڈالتی ہیں تودنیا پرستی کا مطلب کیا ہے دنیا ہے کیا؟

دنیا یہی عظیم خلقت ہے جسے خدائے متعال نے خلق کیا اورانسانوں کے حوالہ کیا ہے دنیا یہی ہے الہی خلقت کی یہ جتنی بھی موہبات ہیں دنیا انہیں کا نام ہے جن میں سب سے پہلی چیز ہماری زندگی ہے تمام دنیاوی فوائداوردنیاوی محنتوں کے نتائج دنیا کے زمرے میں آتے ہیں مال دنیا ہے، علم دنیا ہے، قدرتی وسائل دنیا ہیں اولاد دنیا ہے یہ ساراہست وبود جوہمیں دکھائی دیتا ہے سب دنیا ہے مطلب یہ کہ ہماری مادی ودنیاوی زندگی کوتشکیل دینے والی تمام چیزیں! توان میں کون سی برائی ہے؟ بہت ساری اسلامی تعلیمات میں ہم سے کہا گيا ہےکہ دنیا آباد کرو"خلق لکم مافی الارض جمیعاً" جاؤ دنیا بناؤ، دنیا کوآباد کرو، دنیاوی نعمتوں کواپنے اوردوسروں کے فائدہ کے قابل بناؤ کچھ روایتوں میں اس طرح کی چیزیں بیان ہوئی ہیں " الدنیا مزرعۃ الآخرہ" " متجر عباداللہ" اس طرح کی عبارتیں موجود ہیں جن میں دنیا کو مثبت نظر سے دیکھا گیا ہے۔

کچھ دیگراسلامی تعلیمات کے اندردنیا کو خطاؤں وگناہوں کی جڑ قراردیا گیا ہے لیکن ان دونوں طرح کی تعلیمات سے ایک واضح نتیجہ نکلتا ہے اوروہ یہ ہے کہ (البتہ اس ذیل میں عمیق تجزیہ وتحلیل ہونا چاہیے یہ ضروری ہے۔ اس سے قبل البتہ تجزیہ ہوتا رہا ہے اچھی بحثیں کی گئی ہیں) خداوند متعال نے تمام انسانوں کے لئے اپنی دنیاوی نعمتوں کا دسترخوان بچھا رکھا ہے اورحکم دیا ہے کہ جتنا بھی ممکن ہوخدا کے اس قدرتی دسترخوان کومزید آمادہ اوررنگ برنگا کرکے لوگوں کے سامنے پھیلا دیں خود بھی تناول کریں لیکن کچھ قواعد ضوابط کی رعایت ضروری ہے یہاں ایک ممنوعہ علاقہ ہے ممدوح دنیا یہ ہے کہ انسان خداکےاس قدرتی دسترخوان پر بیٹھ کرخدا کی نعمتوں سے اس کے بنائے ہوئے قواعدو ضوابط کے مطابق لطف اندوز ہو قواعد وضوابط کے دائرہ سے باہر نکل کرممنوعہ علاقہ میں قدم نہ رکھے۔ اورمذموم دنیا یہ ہے کہ انسان خدا کی دی اس متاع عظیم کو صرف اپنےلیے چاہے، اپنے حصہ سے بڑھ کر حاصل کرنا چاہے دوسروں کا حصہ چٹ کر جائے دنیا کا دلدادہ ہوجائے جب دلدادہ ہوجائے گا تو" حب الشیء یعمی ویصم" کے قاعدہ کے تحت یہ دلدادگی اسے اندھا بہرہ کر دے گی جب انسان کسی چیز کا عاشق ودلدادہ ہوجاتا ہے تواسے حاصل کرنے کے لئے کسی حدومرز کا قائل نہیں رہ جاتا یہ ہے دنیائے مذموم! دنیا کی دلدادگی، اپنے حق اورحصہ سے زیادہ چاہنا دوسروں کے حصہ سے چھیڑچھاڑکرنا، دوسروں کے حقوق پامال کرنا وغیرہ مذموم دنیا ہے مال ودولت دنیا ہے، مقام ومنصب دنیا ہے قدرت واقتداردنیا ہے، ہردلعزیزی دنیا ہے دنیاوی نعمتیں دنیاوی لذتیں وغیرہ سب دنیا ہیں اسلام اوردیگرالہی ادیان نے مجموعی طورپراس دنیا سے فائدہ اٹھانے کو مباح قرار دیا ہے لیکن دوسروں کے حقوق کی پامالی، دنیا پر حاکم قوانین فطرت سےسرکشی، دوسروں پر ظلم، خود کومتاع دنیا میں غرق کرنے اوراپنے اصلی وآخری ہدف سے غفلت برتنے کوممنوع قراردیا ہے اس کی مذمت کی ہے یہ دنیا کمال تک رسائی کا وسیلہ ہے لہذا اسی کو ہدف نہیں بنایا جانا چاہیے اگراس بات کی طرف توجہ نہ رہی تودنیا مذموم قرارپائے گی۔

جس وقت امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) نے خلافت سنبھالی اس وقت عالم اسلام اسی مشکل سے دوچارتھا اسی بناپرحق صریح یعنی امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی ذات گرامی پرحملے اوربحثیں ہونے لگیں کچھ لوگ ان کی عظمت، روحانیت، بے مثال گذشتہ کارناموں اوراسلامی معاشرہ کے انتظام وانصرام کی ان کی بے نظیر صلاحیتوں سے نظریں چراکر آپ کی مخالفت اورجنگ پر اترآئے نہج البلاغہ ان انحرافات کے بیان سے مملوہے امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے ساتھ جوظالمانہ اور غیر منصفانہ حرکتیں روا رکھی گئیں ان کا رازدنیا پرستی تھی آج بھی آپ دنیا کو دیکھیے توآپ کو یہی نظرآئے گا جب دنیا پرست، موقع پرست اورجارح عناصر دنیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں تووہی ہوگا جو اس وقت آپ ملاحظہ کر رہے ہیں پہلے یہ کہ انسانوں کے حقوق پامال ہوں گے دوسرے یہ کہ خداکے اس عظیم فطری دسترخوان اوراس کی نعمتوں کے سلسلہ میں دوسروں کے حق سے چشم پوشی کی جائے گی تیسرے یہ کہ یہ دنیا پرست اپنے مفادات کے حصول کے لیے سماج میں فتنہ وفساد پھیلائیں گے جنگیں ہوں گی، جھوٹے پروپیگنڈے ہوں گے، بزدلانہ سیاستیں کھیلی جائیں گی اوراس سب کی وجہ دنیا پرستی ہے جب فتنہ برپا ہوگا برپا ہونے کا مطلب جب فتنہ کی دھول اڑنے لگے گی جب سماج میں کوئی فتنہ کھڑاہوجاتاہے تولوگوں کی ذہنیت غبارآلود اوردھندلی فضا کی مثل ہوجاتی ہے جس میں انسان کودومیٹر کے فاصلہ پر بھی کچھ نظرنہیں آتا ایسا ماحول بن جائے گا ایسے ماحول میں بہت سے لوگ غلطیاں کرتے ہیں اپنی بصیرت کھو بیٹھتے ہیں بیجا تعصب اوردورجاہلیت کی ذہنیتیں پروان چڑھنے لگتی ہیں تب آپ دیکھیں گے کہ دنیا پرست لوگ ہی اس سب کے کرتا دھرتا ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی جگہ دنیا پرست تو نہیں ہوتے لیکن فتنوں کے اندھیروں میں دنیاپرستوں ہی کےنشان قدم پر چلنے لگتے ہیں دنیا کا یہ حال ہوجاتا ہے لہذا "الدنیا رأس کل خطیئۃ" دنیا کی محبت، دنیا سے وابستگي ہرخطا اورگناہ کی جڑہے امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) اسی بات کی طرف توجہ مبذول کرا رہے ہیں آپ کا یہی اخلاقی تربیت کا طریقہ کار ہے۔

آپ شروع سے لے کر آخر تک نہج البلاغہ کو ملاحظہ کیجیے آپ کو نظر آئے گا کہ دنیا سے بے رغبتی، دنیا سے عدم وابستگي اورزہد سے متعلق آپ کے فرمودات دوسرے ہر موضوع سے زیادہ ہیں اس کی وجہ یہی ہے وگرنہ امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) دنیا سے کنارہ کشی اوررہبانیت اختیار کرنے والی ذات نہیں تھے جی نہیں دنیا کو آباد کرنے کے سلسلہ میں آپ بہت فعال تھے خلافت اورخلافت سے پہلے کے دور میں آ پ ان میں سے نہیں تھے جو کام ومحنت نہیں کرتے اس لیے کہ معروف ہے کہ خلافت سے پہلے آپ جب مدینہ میں رہ رہے تھے توآپ نے بہت سے باغ لگائے بہت سے کنویں کھودے اورکھجورکے درخت لگائے۔ دنیا اور خدا کی طرف سے انسان کے اختیار میں دی گئی قدرت کا استعمال، لوگوں کے لیے معاشی مواقع کی ایجاد، ان کی معیشت کا انتظام، معاشی ترقی کے وسائل کی فراہمی وغیرہ نیک اورضروری کام ہونے کے ساتھ ساتھ ہرمسلمان اورخاص طورسے مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی شخصیت ایسی تھی لیکن ان میں ہرگز دنیا کی دلدادگی نہیں تھی۔ یہ ہے آپ کا اخلاقی تربیت کا طریقہ کار۔

دنیا پرستی کا علاج بھی آپ نےخطبہ متقین میں بیان فرمایا ہے "عظم الخالق فی انفسھم فصغرمادونھم فی اعینھم" دنیا سے عشق ودلدادگی کا علاج یہ ہے کہ انسان تقوی اختیار کرے اورتقوی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ "عظم الخالق فی انفسھم" خداانسان کے دل وجان میں اس مقام پر ہوتا ہے کہ اس کی نظرمیں باقی ساری چیزیں ہیچ ہوجاتی ہیں یہ دنیاوی مقام ومنصب، یہ مال ودولت، یہ زیبائیاں، یہ مادی زندگی کے جلوے اوریہ رنگ برنگی لذتیں وغیرہ اس کی نظرمیں بے قیمت ہوجاتی ہیں خداکی یاد کی عظمت کے نتیجہ میں ان چیزوں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے تقوی وپرہیز گاری کی خاصیت ہی یہی ہے امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) اس کا مجسمہ تھے اس معروف خطبہ میں نوف بکالی کہتے ہیں( اس خطبہ کا ایک فقرہ میں آگے چل کر بیان کروں گا) حضرت ایک پتھر پھرکھڑے ہوئے، آپ ایک کم قیمت سادہ اورپشمی لباس زیب تن کیے ہوے تھے آپ کی نعلین کھجور کے پتوں یا درخت خرما کے چھلکے کی تھی اتنے عظیم اسلامی ملک کے حاکم اورمنتظم کی یہ فقیرانہ وزاہدانہ حالت تھی آپ اس طرح سے زندگی گذاررہے تھے اوراس طرح کے حکمت پارے بیان فرما رہے تھے۔

اپنے دور کے سیاسی حالات میں جب جنگ صفین چل رہی تھی توایک آدمی نے آکر آپ سے سقیفہ وغیرہ سے متعلق کچھ پوچھا توآپ نے سخت لہجہ میں اسے جواب دیا آپ نے فرمایا" یا اخا بنی اسد انک لقلق الوضین ترسل فی غیرسدد"(۱) تمہیں بات کرنے کے موقع ومحل کی خبر نہیں ہے تمہیں پتہ ہی نہیں کہ کیا کہنا ہے اورکہاں کہنا ہے اس سخت فوجی وسیاسی معرکہ کے دوران تم ماضی سے متعلق آکر سوال کر رہے ہو کہ سقیفہ میں کیا ہوا تھا لیکن پھر بھی ایک لفظ میں آپ اس کا جواب دے دیتے ہیں فرماتے ہیں لیکن تمہیں پوچھنے کا حق تھا اب جب تم نے پوچھ لیا ہے تو تمہارا حق ہے کہ میں جواب دوں" فأنھا کانت اثرۃ شحت علیھا نفوس قوم وسخت علیھا نفوس آخرین"(۲) وہاں اپنے لیے امتیاز چاہا جا رہا تھا کچھ نے آنکھیں موڑ لیں اورکچھ اس میں گرفتارہوگئے ایسی چیزسےچشم پوشی ضروری ہے یعنی اقتدارپرستی، مقام ومنصب کی تلاش اورکسی بھی قسم کی دنیا کے پیچھے بھاگنا امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی نظرمیں ہردورمیں مذموم ہے امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) اپنے ایسا سبق ہمیں بھی سکھانا چاہتے ہیں ہمیں آپ سے درس لینا چاہیے خدا کی یاد اس کے ذکر اوراس سے مناجات کی طرف توجہ ہی دنیا پرستی سے چھٹکارے کا امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کا تجوزکردہ اہم ترین نسخہ ہے۔

ہمیں ان راتوں، ان دنوں اوران دعاؤں کی قدر پہچاننی چاہیے ان دعاؤں کی طرف توجہ، دعاؤں کے مطلب ومعنی کی طرف توجہ کی بہت اہمیت ہے اگر ہم ان کی قدردانی کریں گے تو یہ ہمارے اندرونی درد کی دوا بن جائیں گی افسوس کہ انسان ہردور میں ان روحانی امراض میں مبتلا رہا ہے جتنا ممکن ہو ہمیں اپنے اندرسےاس بیماری اوراس درد یعنی دنیا کی دلدادگی کوکم کرنا چاہیے خداوند متعال کی طرف توجہ اوراس کی عظمت کی یاد اس کا ایک طریقہ ہے آپ امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی دعائیں ملاحظہ کیجیئے سب سے زیادہ پرجوش امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) ہی کی دعائیں ہیں معصومین(علیھم السلام) سے منقول دعائیں بھی عاشقانہ وعارفانہ درد والم کا پیکراوربہترین ہیں لیکن بہترین دعاؤں میں سے یا بہترین دعائیں امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) سے ہی منقول دعائیں ہیں دعائے کمیل، دعائے صباح دعائے مناجات شعبانیہ! ایک بارمیں نے امام (رضوان اللہ علیہ ) سے پوچھا کہ آپ کو دعاؤںمیں کون سی دعا سے سب سےزیادہ محبت ہے توانہوں نے کہا دعائے کمیل اورمناجات شعبانیہ سے، دونوں ہی امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) سے منقول ہیں امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی خدا کے ساتھ راز ونیاز کی باتیں اوراس کے سامنے آپ کی آہ وبکا واقعاً اس شخص پر بہت اثرکرتی ہے جوغورکرے۔

میری سفارش ہے کہ عزیزجوان ان دعاؤں کے کلمات اورفقروں پر غورکریں دعا کے الفاظ فصیح اورخوبصورت ہیں لیکن معنی بھی بلند ہیں ان شبوں میں خدا سے باتیں کیجیئے اس سے مانگیئے اگرانسان ان دعاؤں کے معنی جان لے توبہترین کلمات اوربہترین دعائیں ہیں، ماہ رمضان کی شبوں، شبہائے احیاء، دعائے ابوحمزہ اوردعائے شبہائے قدر میں ان کے ذریعہ خدا سے اپنی حاجات طلب کریں لیکن اگرآپ کو ان دعاؤں کا مطلب پتہ نہیں ہے تو آپ اپنی زبان میں دعا کیجیے خدا سے باتیں کیجیئے ہمارے اورخدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے خدا ہم سے نزدیک ہے ہماری بات سنتا ہے ہمیں اس سے باتیں کرنا چاہییں اس سے مانگنا چاہیے خداوندمتعال سے انس، اس کے ذکر، استغفاراوردعا کا ہمارے دل پر معجزاتی اثر ہوا کرتا ہے مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں۔

آپ کی شہادت کا بھی ذکر کردوں امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی مناجات رلاتی ہیں آپ کے شکوے بھی رلاتے ہیں آپ کا درد دل بھی رلاتا ہے اپنے ساتھیوں کے ختم ہوجانے کا تذکرہ کرتے ہیں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جنگوں کے دوران جو لوگ ان کے ساتھ تھے عظیم جہاد میں حصہ لے رہے تھے انہیں یاد کرتے ہیں خود اپنے ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں جو آپ کی خلافت کے دور کی جنگوں صفین و جمل میں شریک تھے اورشہادت سے ہم آغوش ہوگئے آپ فرماتے ہیں " این عمار، أین ابن التیھان، أین ذوالشھادتین، وأین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ" وہ عظیم لوگ کہاں ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا تھا راہ خدا پر ثابت قدم اوررواں دواں رہے "وأبردبروؤسھم الیٰ الفجرۃ" کہاں ہیں وہ لوگ جو شہید ہوگئے اور ان کے سر قلم کر کے فاسق فاجر حکمرانوں کے پاس بطورتحفہ بھیج دیے گئے۔ آپ نے ساتھیوں اور دوستوں کے فراق میں آنسو بہائے آپ نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے فراق اوران کی یاد میں آنسو بہائے انہیں اکثریاد کرتے رہتے تھے یہ آپ کے بعض شکوے ہیں یہ شکوے، یہ مناجات یہ سوزوگدازآج یعنی انیس رمضان کی شب امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے سر پر ضربت لگنے کے بعد ختم ہو گیا مسجد کوفہ کے درودیواراوروہاں آنے والے لوگوں نے بارہا امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی مناجات، دعائیں اور خدا سے رازو نیاز سنا تھا آپ کے آنسو دیکھے تھے آپ کی مخلصانہ عبادت، عارفانہ بیانات، اوربعض دفعہ گریہ وبکا اوربین سنے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب اچانک ان کے کانوں میں امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی آواز آئی" فزت ورب الکعبۃ" دست ظلم نے تاریک شب میں آپ پر حملہ کیا دن میں علی(علیہ السلام) کے سامنے آنے کی کسی میں ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کوئی ان سے لڑ ہی نہیں سکتا تھا دن کے اجالے میں کون آپ پر جان لیوا حملہ کر سکتا تھا رات میں نماز کی حالت میں محراب عبادت میں آپ پر حملہ ہوالوگوں نے ایک منادی کی آواز سنی جوامیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) پر ہوئے حملہ کی خبر دے رہا تھا لوگ مسجد کی جانب بھاگے وہاں امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کا پیکر خوں میں غلطاں تھا صلی اللہ علیک یا امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام)!

پروردگارا! تجھے امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے حق کا واسطہ ہمیں آپ کے دوستوں اور اطاعت گذاروں میں قرار دے، پالنے والے! امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے عظیم درس تقوی وپرہیز گاری پر ہمیں قائم رکھ ، پالنے والے! ہم ملت ایران کواخلاق فاضلہ عنایت کر،پالنے والے! ہمیں بری اخلاقی بیماریوں سے نجات دے، پالنے والے ! ہمیں راہ حق اور جو کچھ تو نے اپنے بندگان صالح سے چاہا ہے اس پر صبر واستقامت کے ساتھ قائم رکھ ، پروردگارا! ملت ایران کو اپنے تمام مقاصد کے حصول میں کامیاب وکامران کر، پالنے والے! شہدا کی ارواح طیبہ اور امام (رہ)کی روح مطہر کو ملک میں اورہمارے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے اس پر راضی وخوشنود رکھ ان پر اورہمارے جملہ گذشتگان پراپنی رحمت ومغفرت نازل کر ولی عصر(ارواحنا فداہ) تک ہماراسلام پہنچا دے ان کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال فرما۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قل ھواللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یو لدولم یکن لہ کفواً أحد

دوسرا خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین المکرمین سیما علی امیرالمؤمنین(علیہ الصلاۃ والسلام) والصدیقۃ الطاھرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ وعلی بن الحسین ومحمد بن علی وجعفربن محمدوموسی بن جعفروعلی بن موسی ومحمد بن علی وعلی بن محمدوالحسن بن علی والخلف القائم المھدی حججک علی عبادک وامنائک فی بلادک وصل علی آئمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وھداۃ المؤمنین۔

اس دوسرے خطبہ میں، میں سب سے پہلے ان عزیز جوانوں کو مبارک باد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس سال پہلی بار روزہ رکھ رہے ہیں اورانہیں یہ شرف حاصل ہورہا ہے کہ خدا نے انہیں مخاطب کیا ہے اور ان پر ذمہ داری عائد کی ہے خاص طور سے جو بچیاں کم عمری میں الہی آزمائش کا تجربہ کررہی اوران نسبتاً گرم اورلمبے ایام میں روزہ رکھ رہی ہیں مبارکباد کی مستحق ہیں ہماری ملت اورعوام کی یہ بھی ایک بہترین آزمائش ہے ہمارے جوان روزہ جیسی شرعی ریاضت کا جوانی میں تجربہ کرتے ہیں۔ ایک ماہ تک بھوکے رہنا، دنیاوی لذتوں سے دور رہنا ،حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہونا ، ہمارے عوام خاص طور سے جوانوں کے لئے نہایت گراں قیمت شئی ہے نوجوانی میں یعنی بالغ ہونے کے بعد لڑکے اورلڑکی کے لیے یہ تقوی اختیار کرنے کی مشق ہے میں سبھی جوانوں کو خاص طور سے ان پہلے سال روزہ رکھنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ہمارے معاشرہ کی فضا الحمد للہ روحانی فضاہے اس فضا میں ماہ رمضان کے دوران اوررونق آجاتی ہے آہستہ آہستہ لوگوں میں اچھی عادتیں رائج ہوجاتی ہیں غربا کی امدادکرنا، احسان اورنیکی کا ہفتہ منانا، نیزمختلف شہروں میں کچھ نیک لوگوں کی جانب سے افطاری کے انتطامات کی جو خبریں مل رہی ہیں لوگوں کے لئے افطاری کا انتظام کیا جاتا ہے لوگ وہاں آکے روزہ افطار کرتے ہیں یہ سب بہت ہی اچھے کام ہیں ماہ رمضان کے حق کی ادائیگی ہی درواقع صدق وصفا اورایک دوسرے سے قربت کی موجب ہے رمضان کا ایک حق یہی ہے کہ اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی کی جائے، اعزا واقربا کے ساتھ میل جول رکھا جائے مسلمان بھائی ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیںیہ بہت اچھی چیزیں ہیں اورپہلے سے چلی آرہی ہیں آجکل یہ چیزیں زیادہ رائج ہو گئی ہیں محافل وعظ ، دعائیہ نشستیں، قرآنی جلسات وغیرہ اچھی عادتیں ہیں انہیں آئے دن بڑھاوادینے کے ساتھ ان میں گہرائی وگیرائی بھی لانی چاہیے خالی جلسات کا انعقاد ہی کافی نہیں ہے بلکہ دعائیہ نشست، محفل وعظ اورقرآنی نشتوں سے مستفید بھی ہونا چاہیے اس ذیل میں ہم میں سےہر ایک کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمہ لے لے۔

ایک دو باتیں عرض کرنا ہیں یوم قدس بھی آرہا ہے اس لئے یوم قدس اورمسئلہ فلسطین پر بھی مختصراً روشنی ڈالنا ہے عرب بھائیوں کے لئے گفتگو کا ایک حصہ عربی زبان میں بھی تیار کیا گیا ہے وہ بھی عرض کیا جائے گا۔

الحمد للہ ایرانی قوم انقلاب کے بعد سے اب تک ایک سیدھے راستہ پر چلتی رہی ہے اور یہ اسلامی اصولوں پرقائم رہنے کا راستہ ہے ملت ایران قدامت پرست بھی نہیں یہ وقت کے تقاضوں کو سمجھتی ہے یہ علم، تحقیق وجستجواورفہم وفراست والی قوم ہے ہماری قوم اس طرح کی ہے، ہر وقت اور ہر دور کا ایک تقاضا رہا ہے اور ہماری قوم نے اس تقاضے کے مطابق عمل کیا ہے دفاع مقدس کا دور بڑا ہی سخت دور تھا قوم مل کر دفاعی میدان میں کود پڑی جوان محاذ جنگ پر روانہ ہو گئے ماں باپ نے بھی کسی نہ کسی طرح تعاون کیا جوانوں نے بھی اپنا تعاون پیش کیا سماج کے ہر طبقہ نے اس عظیم کام میں حصہ لیا علم وتحقیق اور ملک کی تعمیر نو کی باری آئی تب بھی عوام نے ہر دور میں جو کچھ ضروری تھا کیا جب ہم پر غیر ملکی دشمنوں کےسیاسی حملوں میں تیزی آگئی اورانہوں نے ملک میں جاری مختلف لہروں کو مختلف انداز سے ہوا دینی چاہی تو تب بھی جہاں ضرورت تھی وہاں ہماری قوم حاضر ہو گئی جب ملک کے اندر غیرملکی ایجنٹوں نے لوگوں میں اختلاف ڈالنا چاہا تو لوگوں نے اتحادو اتفاق کے نعرے لگا کر مختلف شکلوں میں اپنی یکجہتی کا اعلان کیا جب دشمنوں نے اپنے سیٹلائٹ چینلوں کے ذریعہ تہران اور دیگر اضلاع کی سڑکوں پر کچھ شر پسندوں کی بھیڑ اکٹھا کرنا چاہی توتب بھی عوام اٹھ کھڑے ہوے اورقبل اس کے کہ سلامتی دستے کوئی کاروائی کرتے خود عوام نے ان سے نپٹنا شروع کر دیا جب مختلف چیزوں مثلاً جوہری توانائی کے سلسلہ میں دشمن کا پروپگینڈہ زورپکڑنے لگا (آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ کس طرح انہوں نے دنیا بھر میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپگینڈہ کرنا شروع کردیا) اورعوامی رد عمل ضروری ہو گیا تھا توواقعاً ہمارے عوام نے ہر میدان میں اپنا رد عمل ظاہر کیا عوام کی اکثریت اور ان کے سرگرم طبقوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات یعنی جسے ہم قومی تحریک کا نام دے سکتے ہیں اگر اسے ملاحظہ کیا جائے تو ہمیں نظرآئے گا کہ انقلاب کے بعد کے ان تیس سالوں میں اس زندہ قوم نے ہر وقت اور ہردور میں نہایت ذوق و شوق سے وہ کیا جس کی ملک کو ضرورت تھی اور انہیں یہ احساس ہو چلا تھا کہ ملک کو اسی چیز کی ضرورت ہے انصاف کی بات کرنا چاہیے ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے امید ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا اسی سبب سے ہمارے دشمن ایرانی قوم اور حکام پردباؤ ڈال کر کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں بیان دیتے رہے ہیں لیکن دھمکیاں دینے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے ہماری قوم الحمد للہ اپنی راہ پر گامزن رہی ہے اوراس کی راہ ترقی وپیشرفت کی راہ ہے ہم یہ دعوا نہیں کرتے کہ ہم اس انقلاب کےاعلی اہداف یعنی اسلام کے جملہ حقیقی تعلیمات تک پہنچ گئے ہیں جی نہیں ہمارا یہ دعوا نہیں ہے لیکن ہم اس راہ پر گامزن ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ انقلاب کی چوتھی دہائی جس کے ہم قریب ہوتے جارہے ہیں خدا کی توفیق اور اس کے اذن سے یکجا عدل وترقی کی دہائی ہوگی یعنی ملک بھر میں عدل اور ترقی محسوس کی جائے گی اس طرح سے ہمیں اپنے منصوبے ترتیب دینا ہوں گے اس سے ہمارا ملک اور قوم ناقابل شکست بن جائیں گے۔

البتہ دشمن ہمیشہ دشمن ہی ہوتا ہے جن دشمنوں نے اسلام سے چوٹ کھائی ہے جن کے منہ پر طمانچے لگے ہیں ان سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کے مقابلہ میں خاموش اورمطمئن بیٹھے رہیں گے دشمن ہمیشہ دشمنی ہی ہواکرتا ہے لیکن علم وآگاہی کے ساتھ قومی وعوامی مفادات مدنظررکھ کردشمن کے مقابلہ کے لیے بہترین طریقہ کار اپنانا پڑتا ہے۔

ہمیشہ ہی کی طرح آج میں جس چیز کواپنے ملک کے لئے سب سے زیادہ ضروری سمجھتا ہوں وہ قومی یکجہتی اورممتاز لوگوں اور حکام کے درمیان اصولی بنیادوں پر اتحاد ہے ہمارے ملک کے لئے واقعاً ایک اہم چیز یہ ہے کہ لوگ سیاسی ونفسیاتی تحفظ کا احساس کریں ملک کی نفسیاتی فضا پرآشوب نہ ہوپرآشوب فضا بنانے کی کوشش ہو رہی ہے یہ کوشش کی جا رہی ہے یہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین کی پالیسی ہے لیکن ہم بھی بعض دفعہ نادانستہ طور پر فضا کو پر آشوب بنا دیتے ہیں میں تاکید کرنا چاہوں گا الحمد للہ اس باب میں بہت کچھ جو دکھائی دے رہا ہے اس سے ہمارے عزیز عوام دور ہیں ممتازسیاستدانوں کے درمیان بعض دفعہ جوبے جا بحث وتکرارنظر آتی ہے لوگ اس پر راضی نہیں ہیں عوام سے ملنے والے پیغامات میں یہ چیز ہمیں بخوبی نظر آرہی ہے دو تین چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم مسائل کا سہارا لے کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے میں کچھ عرض کر دوں تاکہ ان بحثوں کا سلسلہ ختم ہو۔

ایک آدمی کھڑا ہوکر اسرائیل میں مقیم عوام سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے یہ رائے غلط ہے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے دوسرے عوام کی مثل اسرائیلی عوام کے بھی دوست ہیں یہ غیر منطقی بات ہے اسرائیلی عوام کون ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کے توسط سے فلسطینیوں کےگھر، زمین، کھیت اورتجارت غصب کی جا رہی ہے صہیونی لشکر کی سیاہی انہیں کی دم سے ہے عالم اسلامی کے بنیادی دشمنوں کے ان ایجنٹوں کے سلسلہ میں کوئی مسلم قوم لا تعلق نہیں رہ سکتی ہے ہمارا یہودیوں کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے دنیا میں دیگر ادیان کے پیروکاروں سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن فلسطینی سرزمین کے غاصبوں کے ہم مخالف ہیں اورغاصب صرف اسرائیلی حکومت ہی نہیں ہے یہ ہمارے نظام کا موقف ہے یہی انقلاب اور عوام کا موقف ہے لیکن اب اگر کوئی غلط بیان دے دیتا ہے اس پر رد عمل بھی ظاہر ہوتا ہے تو بات کو وہیں ختم کردینا چاہیے ایک دن ایک طرف سے بیان آئے دوسرے دن دوسری طرف سے بیان آئے کوئی ایسے استدلال کرے کوئی ویسے، یہ سب ماحول خراب کرنے والی بات ہے کوئی بیان سامنے آیا غلط تھا ختم کیجیئے اسلامی جمہوریہ کا یہ موقف تو نہیں ہے دوسرے ممالک کے عوام میں اور ان میں فرق ہے یہ لوگ غصبی زمین پر مقیم ہیں یہی جنہیں اسرائیلی عوام کہا جا رہا ہے انہیں کے ذریعہ یہودی بستیاں بسی ہیں جعلی صہیونی حکومت نے انہیں فلسطینی مسلمانوں کے خلاف مسلح کر رکھا ہے تاکہ فلسطینی ان کی بستیوں کے نزدیک بھنک بھی نہ سکیں یہ بیان غلط تھا صحیح نہیں تھا لیکن اس کے ذریعہ ماحول خراب نہیں کیا جانا چاہیے میری ہر ایک سے درخواست ہے کہ اس طرح کی چھوٹی سی بات کہ کسی کی زبان پر کچھ جاری ہوگیا ہے اس نے کچھ کہہ دیا ہے اسکو وسیلہ بنا کہ عرصہ درازکے لئےتنازع نہ کھڑاکیا جائے کچھ مخالف کچھ حامی اوروہ بھی ایک کھوکھلے مسئلہ پر جب نظام کا مؤقف پتہ ہے توبات ختم ہو گئی۔

ایک اور چیز جو آج کل نظر آرہی ہے اس سے متعلق بھی میں خاص طور سےاہم اورممتاز لوگوں سے ایک درخواست کرنا چاہوں گا اور وہ ہے حکومت اورحکومتی کاموں پراپنے نظریات قائم کرنا البتہ یہ الیکشن کی آمدآمدکی نشانیاں ہیں جبکہ الیکشن کا وقت ابھی بالکل نزدیک نہیں آیا ہے ابھی الیکشن میں نومہینے کا وقت ہے لیکن الیکشن کی خاصیت ہی یہی ہے کہ کچھ لوگ پہلے سے سرگرم ہوجاتے ہیں بیان دینے لگتے ہیں بیان دیں اب الیکشن سے متعلق کہنے کو بہت کچھ ہے جوانشا اللہ مناسب موقع پر ملت عزیز سے عرض کیا جائے گا ابھی جلدی ہے لیکن یہ چیز نظرآرہی ہے کہ ابھی جو بیانات سامنے آرہے ہیں نا انصافی پر مبنی ہیں اگر کسی کے پاس ملکی مستقبل اور مبینہ ملکی مشکلات سے متعلق کوئی پالیسی ہے کچھ کہنا ہے تو کہے اگراسے موجودہ مشکلات مثلاً مہنگائی کا کوئی راہ حل دکھائی دے رہا ہے تو اسے بیان کرے حکام پرلفظی حملے اورحکومت پرسوالیہ نشان لگانے میں کوئی مصلحت نہیں یہ صحیح اوراسلامی عمل نہیں ہے دوسری جگہوں پر دیگر ممالک میں جمہوریت اورآزادی کے نام پر دوسروں کی تذلیل اورکردارکشی کی جاتی ہے لیکن یہ اسلامی عمل نہیں ہے یہ بھی ان کے دوسرے کاموں کی مثل ہی ایک کام ہے معاشی یا غیر معاشی مسائل کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اسے سب سے پہلے ماہرین کی نشست میں بیان کرنا چاہیے نہ کہ منبروں اور دیگر عوامی اسٹیجوں سے، بعض دفعہ دکھائی دیتا ہے کہ ایسی باتیں کہی جارہی ہیں جو نا انصافی ہے ہمارے معاشرہ میں نا انصافی جیسی مذموم چیز رائج نہیں ہونی چاہیے ہمیں نا انصافی نہیں کرنی چاہیے خاص طورسے اہم اورممتاز شخصیات سوچ سمجھ کر انصاف کی بات کیا کریں ہم نے عرض کیا ہے کہ کردارکشی صحیح نہیں ہے جو لوگ کسی کے حامی ہیں اورجو لوگ اس کے مخالف ان کے درمیان مقابلہ کردار کشی پر مبنی ہونا کوئی ضروری نہیں ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے منطقی بات کہیں اگر کسی چیز پر تنقید کرنا ہے تو تنقید کریں خدا کا شکر ہے کہ اسلامی نظام کی بدولت ہمارے ملک کا ماحول آزاد اورکھلاہے ہر کوئی اپنی بات کہہ سکتا ہے اہم اور ممتاز لوگ بھی اپنی بات کہہ سکتے ہیں لوگ بھی سنیں گے اور سننے کے بعد ان کی باتوں کا آپس میں موازنہ کریں گے جو انہیں صحیح لگے گی اسے قبول کر لیں گے مان لیں گے۔

مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ کوئی بیان سامنے نہ آجائے کسی پر تنقید نہ ہو جائے ایک تنقید کرے گا تو دوسرا اس کا جواب دے گا مجھے خوف یہ ہے کہ سماج میں نا انصافی پر مبنی بیانات دینے کا ماحول نہ بن جائے اتنی زیادہ خدمتیں کی جا رہی ہیں انسان ان سب کو الگ رکھ کرکسی ایک بات سے چپک کر بیٹھ جائے یہ صحیح نہیں ہے میں یہ سب سے کہہ رہا ہوں یہ ہم کسی خاص شخص پارٹی یا گروہ سے نہیں عرض کر رہے ہیں یہ ہم سب سے عرض کر رہے ہیں سب اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک دوسرے کی کردار کشی نہ ہونے پائے کردارکشی کا ماحول صحیح نہیں ہے یہ لوگوں کو بھی اچھا نہیں لگتا یہ میں آپ عوام کے سامنے ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اگرآپ کسی عہدہ داریا کسی پارٹی کی مذمت کریں گے تو یہ لوگوں کواچھا لگے گا تو آپ غلطی پر ہیں لوگوں کو کردارکشی کا ماحول اچھا نہیں لگتا۔

ہمارے علاقہ کا اس وقت کا بنیادی مسئلہ وہی فلسطین کا قدیمی مسئلہ ہے مسئلہ فلسطین نہایت ہی بنیادی اوراہم مسئلہ ہے قابض اورغاصب حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف کاروائیاں تیز کردی ہیں اوریہ ان کا اپنی اندرونی کمزوری اورپے درپے ناکامیوں کا رد عمل ہے خودساختہ دیو ان سے بچایا نہ جا سکا عرب اقوام کے دل میں انہوں نے جو رعب طاری کر رکھا تھا وہ جذبہ قربانی سے سرشارلبنانی وفلسطینی مجاہدوں کے ذریعہ اٹھ گیا ہے فلسطینی عوام پر دباؤ ڈال رہے ہیں غزہ کی موجودہ حکومت قانونی حکومت ہے حماس کی حکومت قانونی ہے عوامی مینڈیٹ سے بننے والی اس حکومت کو پوری دنیا کو تسلیم کر لینا چاہیے تہذیب وتمدن کے مدعی وہ ملک کہ جو خود کو مہذب سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے تہذیب وانسانیت کی بو تک نہیں سونگھی ہے تماشا دیکھ رہے ہیں غزہ کے عوام کے خلاف صہیونی غاصبوں کی کاروائیاں اوریہ شدید محاصرہ دیکھ رہے ہیں (غزہ تو ایک مثال ہے مغربی کنارے کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے محاصرہ تو نہیں ہے لیکن مغربی کنارے کے شہروں میں صہیونی کاروائیاں اتنی ہی تیز ہیں ہرجگہ مظلوم فلسطینی عوام پر دباؤ ہے) لیکن ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں دفاع بھی کر رہے ہیں صہیونیوں کی حمایت بھی کر رہے ہیں عالم اسلام کو اس تلخ واقعہ کے جواب میں اپنی بات کہنی چاہیے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے اپنی پوزیشن کا تعین کرنا چاہیے اوراس کے لئے یوم قدس مناسب دن ہے۔

ہمارے بزرگوار امام (رہ) پر خداکی رحمت ہو جنہوں نے اس دن کو فلسطینی عوام کی حمایت کا دن قراردیا ہے انشا اللہ یوم قدس کے موقع پر ہمارے عوام اوردیگراسلامی ممالک کے عوام کی ایک بڑی تعداداس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی عوام کا حق ادا کرے گی انشا اللہ مسلمان حکومتیں بھی فلسطینی قوم کی امداد اورحماس کی حکومت کے ساتھ تعاون کے اپنے عظیم فرض پر عمل کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والعصران الانسان لفی خسر۔الاالذین آمنواوعملواالصالحات وتواصوابالحق وتواصوابالصبر۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

...........................................

(1)نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۲

(۲) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۲