ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا تہران میں نماز جمعہ سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین۔ نحمدہ ونستعینھ ونؤمن بھ ونستغفرہ ونصلی ونسلم علیٰ حبیبیہ ونجیبہ وخیرتہ فی خلقہ وحافظ سرہ ومبلغ رسالاتہ بشیر رحمتہ ونذیرنقمتہ سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفیٰ محمد وعلیٰ آلھ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

نماز کے لئے آئے تمام عزیزبرادران وخواہران کواوراپنے آپ کو تقوی وپرہیزگاری کی نصیحت کرتا ہوں اس مبارک مہینے سے حاصل ہونےوالاسب سے بڑا فائدہ یہی ہے ماہ رمضان ایک بار پھراپنی تمام برکتیں اور معنوی جلوے لے کر آگیا ہے ماہ رمضان آنے سے پہلے سرکاردوعالم(صلی اللہ علیھ وآلہ وسلم) لوگوں کو اس بابرکت اورباعظمت مہینے میں وارد ہونے کے لئے تیار کرتے تھے " قداقبل الیکم شھراللہ بالبرکۃ والرحمۃ" ایک روایت کے مطابق آپ نے ماہ شعبان کی آخری نماز جمعہ کے خطبہ میں یہی فرماتے ہوئے لوگوں کو ماہ رمضان کی آمد کی طرف متوجہ کیا اگر ہم ایک جملہ میں اس مہینہ کی تعریف کرنا چاہیں توکہدیں کہ یہ ایک " غنیمت موقع" ہے۔ ہمارے اور آپ کے لئے اس مہینہ میں بہت سارے غنیمت مواقع ہیں اگرہم ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں توآخرت کے لئے ایک عظیم اورگراں قیمت ذخیرہ اکٹھا کر لیں گے اس بات کی میں تھوڑی وضاحت کرنا چاہوں گا یہ پہلا خطبہ ماہ رمضان اوراس بے نظیرموقع سے ہی متعلق ہوگا۔

پیغمبراکرم(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جس خطبہ کا میں نے تذکرہ کیا ہے اس میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں "شھردعیتم فیھ الیٰ ضیافۃاللہ" اس مہینہ میں تمہیں خداکی طرف سے مہمانی میں بلایا گیا ہے یہی جملہ اپنی جگہ قابل غور ہے خدا کی طرف سے دعوت ہے، مجبور نہیں کیا گیا ہے کہ دعوت میں سب کوآناہے۔ فریضہ قراردیا ہے لیکن دعوت میں جانا یا نہ جانا ہمارے اپنے اختیار میں ہے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں دعوت نامہ بھی پڑھنے کا موقع نہیں ملتا اس قدر غافل ہیں، اتنا مادی اور دنیاوی معاملات میں غرق ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ماہ رمضان آیا اور کب چلا گیا ایسے ہی جیسے کسی شخص کوکسی بڑی بابرکت دعوت میں بلایا جائے لیکن وہ کارڈ تک کھولنے کی زحمت گوارانہ کرے یہ تو بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جائیں گے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہیں اتنا تو پتہ چل جاتا ہے کہ انہیں دعوت میں بلایا گیا ہے لیکن وہ شرکت نہیں کرتے۔ خدا کا لطف جن کےشامل حال نہیں ہے، جنہیں اس نے توفیق نہیں دی ہے یا یہ کہ خود ہی معذور ہیں وہ روزہ نہیں رکھ پاتے یا یہ کہ قرآن کی تلاوت اور ماہ رمضان کی دعاؤں سے محروم رہ جاتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو دعوت میں جاتے ہی نہیں جب جاتے ہیں نہیں تو ان کاجو ہونا ہے وہ واضح ہے لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداداورہم جیسے لوگ اس دعوت میں شریک ہوتے ہیں لیکن ہم سب یہاں ایک سا فائدہ نہیں اٹھاتے کچھ اس دعوت میں سب سے زیادہ فوائد حاصل کرلیتے ہیں۔

اس دعوت میں جو ریاضت ہے روزہ رکھنا اوربھوکا رہنا شاید یہ اس خدائی دعوت کا سب سے بڑا فائدہ ہے روزہ میں انسان کے لئے معنوی برکتیں اتنی زیادہ ہیں اور دل میں اتنی نورانیت پیدا کرتی ہیں شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس ماہ مبارک کا سب سے بڑا فائدہ روزہ ہی ہے۔ جولوگ روزہ رکھتے ہیں وہ دعوت میں حاضرہوگئے ہیں اوریہاں انہیں کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا اس ماہ مبارک کی معنوی ریاضت یعنی روزہ رکھنے کے علاوہ کچھ لوگ بہترین انداز میں قرآن بھی سیکھتے ہیں قرآن کی تلاوت غور فکر کے ساتھ کرتے ہیں روزہ کی حالت میں یا روزہ سے پیدا ہوئی نورانی حالت میں رات، آدھی رات میں قرآن کی تلاوت کرنا، قرآن سے انس پیدا کرنا اور خدا کا مخاطب قرار پانا کچھ اور ہی معنوی لذت دیتاہے اس حال میں قرآن کی تلاوت کرنے سے انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ عام حالات میں تلاوت کرنےسے نہیں ملتا کچھ لوگ یہ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اس کے علاوہ یہ لوگ خدا سے کلام کرتے ہیں، اس سے مخاطب ہوتے ہیں اس سے راز ونیاز کرتے ہیں، اس سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں،اپنے راز کی باتیں اسے بتاتے ہیں یہ لوگ یہ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں مطلب یہ کہ یہی دعائیں، دعائے ابوحمزہ ثمالی، دن کی دعائیں، رات کی دعائیں، سحری کی دعائیں یہ سب خدا سے بات ہی کرنا تو ہے اس سے کچھ مانگنا اور دل کو اس کی بارگاہ عزت سے قریب کرنا یہی ہے تو یہ فائدہ بھی یہ لوگ اٹھاتے ہیں اورکل ملا کے ماہ رمضان کے تمام فوائد سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں۔

اس سب سے بڑھ کے بلکہ ایک لحاظ سے ان سب سے افضل چیز گناہوں سے پرہیز ہے یہ لوگ گناہ بھی نہیں کرتے، پیغمبراکرم صلیٰ اللہ علیھ وآلھ وسلم کی طرف سے جمعہ کےخطبہ بیان ہونےوالی روایت میں مزیدآیا ہے کہ امیرالمومنین علیھ الصلاۃ والسلام سرکاردوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ اس مہینہ میں سب سے افضل عمل کون سا ہے آپ جواب دیتے ہیں " الورع عن محارم اللہ" محرمات الہی سے پرہیزتمام اعمال پر مقدم ہے، سب سے افضل عمل قلب وروح کوآلودہ ہونے اورانہیں زنگ لگنے سے بچانا ہے یہ لوگ گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں روزہ بھی رکھتے ہیں، تلاوت بھی کرتے ہیں، ذکرودعا بھی پڑھتے ہیں اور گناہوں سے دور بھی رہتے ہیں یہ ساری چیزیں انسان کو اسلام کی مطلوبہ رفتاروکردارسے نزدیک کردیتی ہیں جب یہ سارے اعمال انجام پا جاتے ہیں تو انسان کا دل کینوں سے خالی ہوجاتاہے اس کے اندرایثاروفداکاری کا جذبہ بیدارہوجاتاہے غریبوں اورمسکینوں کی مدد اس کے لئے آسان ہو جاتی ہے مادی امور میں دوسرے کے فائدہ اور اپنے نقصان میں کوئی قربانی دے دینا اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماہ رمضان میں جرائم کم ہوجاتے ہیں نیکیاں بڑھ جاتی ہیں معاشرہ میں آپسی پیار، محبت زیادہ ہوجاتاہے یہ سب خدا کی اس دعوت کی برکتیں ہیں۔

اس طرح سے کچھ لوگ ماہ رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسا نہیں کرپاتے ایک چیز کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو دوسری چیز سے اپنے کو محروم کرلیتے ہیں ہرمسلمان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اس دعوت الہی سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوکرخداکی رحمت ومغفرت حاصل کرلے استغفار کے لئے میں تاکید کررہا ہوں خطاؤں سے استغفار، گناہوں سے استغفار، لغزشوں سے استغفار، چھوٹے گناہوں سے استغفار، بڑے گناہوں سے استغفارکیجئے ، اس مہینہ میں اپنے دل سے زنگ چھڑانا، اپنے آپ سے آلودگیاں دورکرنا اوراپنے نفس کو دھو ڈالنا بہت ضروری ہے اوریہ استغفارہی کے ذریعہ ممکن ہوگا بہت سی روایات میں آیا ہے کہ بہترین دعا یا سب سے افضل دعا استغفارہے استغفاریعنی خدا سے مغفرت چاہنا استغفار سب کے لئے ہے، پیغمبراکرم(صلیٰ اللہ علیھ وآلھ وسلم) جیسی ذات گرامی بھی استغفار کرتی تھی ہم جیسوں کا استغفار گناہوں کی معافی مانگنا ہے لیکن کچھ لوگوں کا استغفاران عام گناہوں کی وجہ سے جنہیں سب جانتے ہیں یا انسان کے اندرکی حیوانی خصلتوں کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ ترک اولی کی وجہ سے ہوتا ہے کچھ تو ترک اولی بھی نہیں کرتے پھربھی استغفار کرتے ہیں یہ استغفارخداکی ذات مقدس کی عظمت کے مقابلہ میں ممکن الوجود انسان کے فطری نقص کی بنا پر ہوتا ہے خدا کی کامل معرفت نہ ہونے کی وجہ سے استغفار کیا جاتا ہے یہ بزرگان اوراولیاء کا استغفارہے۔

ہمیں گناہوں سے استغفارکرنا چاہئے استغفار کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اپنے سلسلہ میں غفلت سے بازرکھتا ہے ہم بعض اوقات اپنے سلسلہ میں غلطی کرتے ہیں لیکن جب استغفارکرنے بیٹھتے ہیں توگناہ، خطائیں، لغزشیں، جتنی بھی خواہشات نفس کی پیروی کی ہے، جتنا بھی حد سے تجاوز کیا ہے، جتنا اپنے اوپرظلم کیا ہے، جتنا دوسروں پر ظلم کیا ہے سب ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ہمیں سب یاد آجاتا ہے کہ ہم نے کیا، کیا ہے لہذاغرور، تکبراورغفلت میں مبتلا ہونے سے ہم بچ جاتے ہیں استغفار کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے اس کے بعد خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جوشخص استغفارکرے، یعنی حقیقی معنی میں گناہوں کی بخشش کے لئے خدا سے دعا کرے اور گناہوں پر شرمندہ بھی ہو " لوجداللہ تواباً رحیماً" خدائے متعال توبہ قبول کرنے والا ہے اس استغفار کا مطلب خدا کی طرف لوٹ آنا اورخطا وگناہ سے منہ موڑلیناہے۔ اگراستغفارسچاہوتو اسے خدا قبول کرلیتا ہے۔

توجہ کے ساتھ استغفارکیجئےاگرآدمی ایسے ہی زبان سے استغفراللہ استغفراللہ استغفراللہ کہتا رہے اوراس کا ذہن ادھرادھر ہوتو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ استغفار نہیں ہے استغفار دعا ہے استغفار کا مطلب مانگنا اور طلب کرنا ہے انسان کو حقیقی معنی میں خدا سے مانگنا چاہئے اوراس سے عفو ومغفرت طلب کرنی چاہئے میں نے یہ گناہ کیا ہے پالنے والے ! مجھ پر رحم کر میرے اس گناہ کو معاف کر دے ہر گناہ کا اگر اس طرح استغفار کیا جائے تو یقینا غفران الہی حاصل ہوجائے گی خدا نے توبہ واستغفارکا دروازہ کھلا رکھا ہے۔

البتہ دین مقدس اسلام میں دوسروں کے سامنے گناہ کا اقرارکرنا ممنوع ہے بعض دوسرے مذاہب میں ہے کہ عباتگاہ میں جاکر وہاں روحانی یا مذہبی رہنما کے سامنے بیٹھ کر گناہوں کا اعتراف کیا جائے یہ اسلام میں نہیں ہے اس کی اسلام اجازت نہین دیتا اپنا پردہ فاش کرنا، اپنے راز اور گناہ دوسروں سے کہنا منع ہے اس کا فائدہ بھی کچھ نہیں ہے ان تحریف شدہ خیالی مذاہب میں تو کہا جاتا ہے کہ روحانی رہنما گناہ بخش دیتا ہے ایسا کچھ نہیں ہے گناہوں کو معاف کرنے والا صرف خدا ہے خود پیغمبرصلی ٰ اللہ علیھ وآلہ وسلم بھی گنا ہوں کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے قرآن میں ارشاد ہوا ہے : " ولوانھم اذ ظلموا انفسھم جاءوک فاستغفراللہ واستغفرلھم الرسول لوجداللہ تواباً رحیماً" اگر گناہ اور اپنے اوپر ظلم کرنے کے بعد یہ لوگ تمہارے پاس آکر کہیں کہ تم پیغمبر ہوپھر خداسے مغفرت وبخشش طلب کریں اورتم بھی ان کے لئے بخشش طلب کرو تو خدا ان کی توبہ قبول کرلےگا یعنی پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے مغفرت مانگتے ہیں خودمعاف نہیں کرتے گناہ کوصرف خدائے متعال ہی بخش سکتا ہے اسے استغفار کہتے ہیں استغفارکی بہت فضیلت ہے اس ماہ مبارک میں اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے خاص طورسے سحر کے وقت اور رات میں استغفار کیا کیجئے ماہ رمضان کی دعاؤں کوان کے معنی پرتوجہ دے کر پڑھا کیجئے۔

الحمدللہ ہمارا معاشرہ روحانی اورمذہبی معاشرہ ہے دعا، توسل اور ابتہال الیٰ اللہ لوگوں میں رائج ہے لوگ اسے پسند کرتے ہیں ہمارے نوجوانوں کے پاک ونورانی دل ذکرخدا کی طرف مائل ہیں یہ سب اچھے مواقع ہیں ماہ رمضان کی صورت میں ایک غنیمت موقع ہمیں دیا گیا ہے اس ماہ سے، اس سنہرے موقع سے پورافائدہ اٹھانا چاہیے اپنے دلوں کو خدا سے نزدیک کیجئے انہیں خدا سے آشنا کیجئے استغفارکے ذریعہ قلب روح کو پاک کیجئے اپنی دعائیں خدا کے سامنے پیش کیجئے ہماری قوم نے خدا سے معنوی ارتباط کے نتیجہ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں خداسے ارتباط پیدا کرنے کا ماہ رمضان ایک زبردست موقع ہے اس موقع سے فائدہ اٹھائیے۔

خدا وند متعال سےدعاکرتا ہوں کہ وہ ہماری مدد کرے تاکہ ماہ رمضان میں ہم اپنےفرشتہ صفت نفس کوحیوان صفت نفس پرغالب بنا دیں، ہمارا وجودایک رخ سے فرشتہ صفت ہے اوردوسرے رخ سے مادی اورحیوان صفت، نفسانی خواہشات مادی رخ کو فرشتہ صفت رخ پرغالب کردیتی ہیں۔ خداکرے ماہ مبارک رمضان میں ہم مادی رخ پرروحانیت ونورانیت کو غلبہ دینے میں کامیاب ہوجائیں اورپھراس حالت کوایک ذخیرہ کی طرح محفوظ رکھ لیں اس طرح ماہ رمضان میں کی گئی یہ مشق سال بھرہمارے کام آئے گی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والعصران الانسان لفی خسر۔ الاالذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوابالحق وتواصوابالصبر۔

دوسراخطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما علی امیرالمؤمنین وسیدۃ نسآءالعالمین والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ وعلی ابن الحسین ومحمد بن علی وجعفربن محمدوموسی بن جعفروعلی بن موسی ومحمد بن علی وعلی بن محمد والحسن بن علی والخلف القائم المھدی حججک علیٰ عبادک وامنائک فی بلادک وصل علی آئمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وھداۃ المؤمنین واستغفراللہ لی ولکم۔

اس خطبہ میں سب سے پہلے میں مرحوم آیۃ اللہ طالقانی(رضوان اللہ تعالیٰ علیھ) کا تذکرہ کرنا چاہوں گا یہ وہ شخصیت ہیں جن کی اقتدا میں امام (رہ)کے حکم سے تہران کی سب سے پہلی نماز جمعہ قائم ہوئی تھی آپ ایک مجاہد، پارسا، ثابت قدم اورپاک وپاکیزہ عالم دین تھے آپ نے آزمایشیں بھی خوب برداشت کی ہیں جب انقلاب کے لئے جد وجہد چل رہی تھی تب بھی اور انقلاب کامیاب ہوجانے کے بعد پیچیدہ اورسخت سیاسی اورحفاظتی مسائل جب سامنےآئے تب بھی آپ نے خوب سختیاں برداشت کیں نماز جمعہ کا قیام نہایت بابرکت ثابت ہوا تہران سمیت ملک بھرکے چھوٹے بڑے شہروں میں نمازجمعہ آہستہ آہستہ معنویت اورمزاحمت دونوں کا مرکز بن گئی عبادی سیاسی نماز کی اصطلاح ظاہراًامام (رہ)نے ہی سب سے پہلے استعمال کی تھی اس کا مطلب ہے کہ نماز جمعہ عبادت بھی ہے اورسیاسی ومعنوی بصیرت کے حصول کا مرکز بھی ، یہی روحانی و سیاسی بصیرت قوم کی کامیابی، ثابت قدمی اورعدم انحراف کا سبب بنتی ہے۔اقوام عالم سیاسی ناکامیاں جوآپ مشاہد کرتے ہیں اکثرعدم بصیرت کا نتیجہ ہوتی ہیں جوجا بجا ان کے مفادات پر ضرب لگاتی ہیں علم وآگاہی قوم کو نقصانات سے محفوظ رکھتے ہوئے اسے مزاحمت کے لئے تیار کر دیتی ہے۔ نماز جمعہ معنویت کا مرکز بھی ہے اورمزاحمت کا مرکزبھی، عوام بھی اس نماز کی قدر پہچانیں اور ہمارے عزیز نوجوان بھی، اسی کے ساتھ ملک بھر کے آئمہ جمعہ بھی اس کی قدر پہچانیں انہیں بھی اس کی قدر پہچاننے کی ضرورت ہے یہ ایسا اسٹیج ہے جس کا متبادل لایا ہی نہیں جا سکتا انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ نماز جمعہ کی کشش مشتاق جوانوں اورپاک دلوں کو اپنی جانب کھینچ لے اورنتیجہ میں اس مرکز کی رونق میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے۔

اصلی بات تک پہنچنے کے لئے چند جملے مقدمہ کے طورپرعرض کرتا چلوں: ہفتہ دفاع مقدس کی آمد آمد ہے ۱۹۸۰میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف جنگ کا آغاز اگرچہ بظاہرذلیل اوربدقماش صدام کی جانب سے ہوا تھا لیکن اس کےپس پردہ اسلامی تحریک اوراسلامی انقلاب کی نابودی کے لئےپورے عالمی استکبارکی طرف سےبھر پورسازش کارفرما تھی مغربی تجزیہ کاروں نے تجزیے کرنا شروع کردیئے وہ جو سمجھے تھے بالکل صحیح سمجھے تھے کہ یہ انقلاب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس نے ایران میں ایک پٹھو حکومت کی جڑیں اکھاڑ کراس عظیم اوربابرکت ملک کواستکباری چنگل سے چھڑالیا ہے نہیں بلکہ یہ تحریک دوسروں میں بھی روح پھونکے گی عالم اسلام ہل جائے گا اقوام عالم کچھ سوچنے پر مجبورہوجائیں گی ہوا بھی یہی، فلسطین سوچنے لگ گیا، شمالی افریقہ کے ممالک سوچ میں پڑگئے پورے عالم اسلام میں اسلامی شناخت کے حصول کے لئے جوش وجذبہ پیدا ہوگیا جس میں آج تک اضافہ ہوتا آرہا ہے چونکہ سمجھ گئے تھے کہ ایران عالم اسلام میں ایک نئی روح پھونک دے گا لہذا انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کو ہرقیمت پر نیست ونابود کر دینا چاہئے لہذا اگرچہ یہ تیل پیدا کرنے والا بہت اہم علاقہ ہے اور مغربی، تیل اور خلیج فارس کو بہت اہمیت دیتے ہیں یہاں کی سلامتی ان کی اولین ترجیح ہےلیکن اس سب کے باوجود انہوں نے صدام کوصرف اسلحہ ہی نہیں دیا بلکہ جنگ چیھڑنے کے لئے اس کے حوصلے بھی بڑھائے وہ بھی چونکہ ایک نافہم اورنادان اقتدارپرست تھا اس لئے اس نے سوچا کہ وہ دوتین دن یا چند ہفتوں میں کام تمام کرکے مزیدطاقتوربن کرواپس لوٹ آئے گا اس طرح استکباری طاقتوں نے یہ جنگ چھیڑدی اوراسلامی ایران پورے آٹھ سال تک چاروں طرف سےدنیا کی تمام بڑی طاقتوں کا دباؤبرداشت کرتا رہا جواس پرجنگ کو وسیلہ بنا کرڈالا جارہا تھا یہ بہت بڑی بات ہے۔ سابق سوویت یونین نے اسی ذریعہ سے ایران پر دباؤڈالا، امریکہ نے دباؤ ڈالا، نیٹوکے رکن ممالک (یورپی یونین) نے دباؤ ڈالا، خطہ کے بنیادپرستوں نے جنگ کے ذریعہ اسلامی جمہوریہ پر طرح طرح سے دباؤ ڈالا اس طرح کا ایک ہی دباؤ کسی بھی انقلاب یا حکومت کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکرنے اوراسے نیست ونابود کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس ہمہ گير اور وسیع دباؤ سے اسلامی جمہوریہ نہ صرف یہ کہ مٹ نہیں سکا بلکہ ایرانی قوم اورمضبوط اور با بصیرت بن گئی اس کا عزم وارادہ اورراسخ ہوگیا اوراسلامی جمہوریہ کی اسلامی والہی طاقت میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا رہا دفاعی میدان میں استقامت نے اس طرح اپنا اثرڈالا۔

ایران کےمدمقابل کو بھی کافی ہزیمت اٹھانی پڑی یعنی صدام اوربعثی حکومت کوسب سے زیادہ نقصان یہیں ہواامریکہ نے سوچ رکھا تھا کہ وہ اس حکومت کو اپنی اوقات میں لے آئے گا اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ ایک کھوکھلی حکومت ہے جسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس جارح کو اصلی زخم تو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ نے ہی لگایا تھا جس نے ناسوربن کرجوشکل اختیار کی وہ آپ کے سامنے ہے لیکن اسلامی جمہوریہ کی مضبوطی میں اضافہ ہی ہوتا رہا اب ان کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کی آوازیں آپ کے کانوں تک پہنچ رہی ہیں اس طرح کی پابندیاں جنگ کے زمانہ میں آج سے کہیں زیادہ سخت تھیں انہیں پابندیوں ہی کے زمانہ میں تو ہم نے اپنی مسلح افواج کو قوی اور مضبوط بنایا ہے ان پابندیوں کے باوجود علاقہ میں ایران کی فوجی طاقت سب سے زیادہ ہے اسلامی جمہوریہ نے اپنی طاقت، تخلیقی صلاحیت، جوش وجذبہ اورخلاقیت کے ذریعہ جووسائل تیار کئے ہیں انہیں دیکھ کردوسروں کی آنکھیں خیرہ ہو گئی ہیں سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں گوناگوں ترقی بھی اپنی جگہ سب پرعیاں ہے جوہری توانائی کا معاملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے یہ سب ایرانی قوم نے پابندی اوردباؤ کے ماحول میں حاصل کیا ہے مطلب یہ کہ اتنا ہی نہیں کہ پابندیوں کا کوئی اثر نہیں ہوابلکہ الٹا اثرہوا۔ پابندیوں کے اثرسے ملک کے اندر موجودصلاحیتیں حرکت میں آئیں اور انہیں خودقدم اٹھانا پڑا۔

اب جو اصلی بات مختصراً عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انقلاب کی سرکوبی اوراسے ناکام کرنے کی عالمی استکبار نے جو سازش رچی تھی وہ اس علاقہ میں ناکام ہوچکی ہے اس کے برخلاف انقلاب پرحملہ کرنے والے حتی کہ امریکہ جیسی طاقتورحکومت بھی روز بروزشکست اورنابودی کے قریب آتی جا رہی ہے اس وقت ہمیں علاقہ میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیاں صاف نظرآرہی ہیں یہ ہماری قوم، ہمارے جوانوں اور ہمارے تجزیہ کاروں کے لئے اہم موضوع ہے اس پرانہیں خوب غورکرنا چاہئے مطلب یہ کہ "معنویت کے سہارے کھڑی عوامی طاقتوں کا زورزبردستی اوردھمکیوں کے سہارے کھڑی مادی طاقتوں سے مقابلہ" جیسا بڑاموضوع نہایت ہی اہم اورجدید ہے۔ اس پرسماجیات، قوموں کی نفسیات اورسماجی نفسیات کے قواعد کےتحت غوروفکرہونا چاہئے اس سے پوری طرح غفلت برتی جا رہی ہے ہم جیسی قوم جس کے پاس نہ ایٹم بم ہے نہ ہی گذشتہ سو سالوں میں اسے کاروان علم وسائنس کے ساتھ ساتھ چلنے کا موقع ملا ہے اورزیادہ تران سے پیچھے ہی رہی ہے، مالی لحاظ سے بھی دوسرے ممالک کے ہم پلہ نہیں ہے اس سب کے باوجود یہ ملک اورقوم، اسلحے، ٹیکنالوجی، مادی وسائل اورذرائع ابلاغ رکھنے والے تمام طاقتورممالک کوہراہم میدان میں پسپا کرنے اورشکست دینے میں کامیاب ہوگئی ہے اس کا سبب کیا ہے؟ اس پر غوروفکرکی ضرورت ہے سماجیات اورسیاسیات کے ماہرین اس کا تجزیہ کریں اورملاحظہ کریں کہ معنیوت کیا اثردکھاتی ہے جیسا کہ ایران میں اس کا اثرظاہر ہوا ہےیہ ایسا جنگی منظرہے جسکا مشاہدہ درس اورعبرت کا باعث بنے گا یہ استکباری طاقت امریکہ کی شکست کا منظرہےہم ہوا میں کوئی بے دلیل دعوی نہیں کررہے ہیں یہ چیزیں بالکل واضح ہیں اس کا وہ خود اعتراف کررہے ہیں۔

چارپانچ سال پہلے امریکی ۲۰شہریوریعنی ۱۱/ ستمبر کے واقعہ کو بہانہ بنا کرمشرق وسطی میں اپنے مفادات کا حصول چاہتے تھے مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا مشرق وسطی بنا ڈالیں جواسرائیلی مفادات کا تابع ہو یا جیسا کہ اس دور میں ہم نے کہا تھا کہ وہ ایسا مشرق وسطی چاہتے ہیں جس کی راجدھانی اسرائیل ہواس قسم کا پروگرام ان کے مد نظر تھا۔ عراق پرحملہ اوراس پر قبضہ اسی سازش کا حصہ تھا عراق خطہ اورعرب کے امیر ترین ممالک میں سے ہے افسوس اس ملک کے عوام اس وقت اس قدر فقر وتنگدستی کی زندگی گذار رہے ہیں امریکی اس ملک کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتے تھے اس لئے کہ صدام اب کافی نہیں تھا اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا وہ چاہتے تھے کہ یہاں ایسی حکومت بناڈالیں جو ظاہراً تو عوامی ہو لیکن حقیقت میں ان کی مٹھی میں ہو اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینے والے مشرق وسطی کی تعمیر کا یہ ایک اہم قدم تھا پھر اس قسم کا مشرق وسطی اسلامی ایران کو بھی اپنے محاصرہ میں لے سکتا تھا امریکیوں کا مقصد یہ تھا آپ اس نقشہ کے ایک ایک پوائنٹ پر غور کیجئے فلسطین میں یہ پالیسی ناکام ہو گئی فلسطین جوکہ اصلی اور مرکزی جگہ تھی وہاں یہ پالیسی ناکام ہوگئی کیسے؟ اس طرح کہ وہاں اسرائیل کا مقابلہ کرنے والی سب سے بڑی اوراصلی تنظیم حماس عوامی آراء سے برسراقتدارآگئی امریکہ واسرائیل کو اس سے زیادہ کہاں منہ کی کھانی پڑی ہوگی؟! جب سے حماس کی حکومت بنی ہے اسے اقتدار سے برطرف کرنے کی مستقل سازشیں کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے ہیں افسوس کہ انہوں نے اس عوامی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے خود فلسطینیوں سے تعاون لیا ہے لیکن بحمد اللہ ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے ہیں امید ہے کہ آئندہ بھی کامیاب نہ ہوپائیں گے، یہ تھا فلسطین سے متعلق۔

جس صہیونی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا امریکیوں کا مقصد تھا اسے بھی ہزیمت اٹھانی پڑی جو خود امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہواکب اورکیسے؟ پچھلے سال گرمیوں میں بڑے بڑے دعوے کرنے والی فوجی طاقت نے(یہ دعوے کئے جاتے تھےکہ اسرائیلی فوج خطہ کی سب سے طاقتورفوج ہے) اپنی پوری طاقت سے لبنان کے ساتھ جنگ چھیڑدی اوروہ بھی ملک کے ساتھ نہیں حکومت کے ساتھ نہیں کسی باقاعدہ فوج کے ساتھ نہیں بلکہ حزب اللہ اوراسلامی مزاحمت کے چندہزارسپاہیوں کے ساتھ، تینتیس روز تک جنگ چلتی رہی ایسا اس خطہ کے ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا عربوں کے ساتھ اسرائیل نے جو چند ایک جنگیں لڑی ہیں وہ چند دن یا زیادہ سے زیادہ ایک دو ہفتے ہی جاری رہ سکی تھیں یہ جنگ تینتیس دن تک چلتی رہی اورآخرکاراسرائیل کی ذلت آمیزاوربھرپورشکست پر ختم ہوئی اس کا کون تصور کرسکتا تھا؟ امریکی تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن ایسا ہوا یہاں بھی امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی یہ لوگ لبنان کے اندر حزب اللہ سے ہتھیار رکھوانا چاہتے تھے لیکن حزب ا للہ نے نہ صرف یہ کہ ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ اتنی مضبوط اور مستحکم ہو گئی کہ افسانوی انداز میں ناقابل شکست سمجھی جانے والی اسرائیلی فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔

فلسطین میں امریکیوں کی شکست ہوئی، جعلی صہیونی حکومت کو مضبوط کرنے میں یہ ناکام رہے، بافہم لبنانی جوانوں کوفلسطین کی مدد کرنے سے روکنے میں ناکام ہوگئے، عراق میں بھی یہ شکست کھاگئے ہیں عراق پر سب سے پہلے فوجی چڑھائی کی یہ پہلا قدم قدرے آسان تھا اس وقت امریکہ اوراسکے حلیفوں کو عراق پر قبضہ کیے چار سال ہوچکے ہیں اوردنیا میں سب یہی کہہ رہے ہیں کہ عراق میں امریکہ شکست کھا گیا ہے دنیا بھر کے تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اس وقت امریکہ سراسیمگی کے عالم میں ایسا راستہ تلاش کررہا ہے جس کے ذریعہ عزت کے ساتھ عراق سے نکل جائے سب جانتے ہیں کہ امریکہ کو عراق میں آگے گڑھا پیچھے کھائی دکھائی دے رہی ہے امریکہ عراق میں اپنی پٹھو حکومت قائم کرنا چاہتا تھا لیکن عراقی عوام نے جو حکومت بنائی ہے وہ امریکی مفادات سے کوسوں دورہے یہ حکومت امریکیوں کے مقابلہ میں کھڑی ہوجاتی ہے اس کی پٹھو نہیں ہے امریکیوں نے اس عوامی حکومت کو اقتدارسے ہٹاکے اپنی من پسند حکومت قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی لیکن اسے ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے اس وقت تک ناکام ہی ہے اگرعراقی عوام انشا اللہ ایسے ہی ہوشیاررہیں گے توآئندہ بھی امریکہ کو شکست ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزورکرنے اور اس پر پابندیاں لگانے کا معاملہ بھی الٹ گیا ایرانی عوام کی ہمت اور خدا کی توفیق اورامدادسے یہ قوم زینہ بزینہ ترقی کی چوٹیوں کی جانب رواں دواں ہے چارپانچ سال پہلے کے مقابلہ میں جب سے امریکیوں نے اپنے مذکورہ مقصد کے حصولی پر کام شروع کیا ہے ہماری سیاسی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے اس وقت ہم سائنسی ترقی میں اس وقت سے زیادہ آگے ہیں، مالی وسائل کی فراہمی میں بھی آگے ہیں ہماری قوم کے نفسیات اس وقت سے اچھے ہیں آج ہماری قوم بزرگوارامام (رہ)کے اصولوں اورانقلابی اقدار کو حاکمیت دلانے میں پہلے سے کہیں آگے پہنچ چکی ہے ان چارپانچ سالوں میں امریکیوں نے جتنی زیادہ کوششیں کیں ایرانی قوم اس کے برعکس اتنا ہی زیادہ جاندار، ہوشیار، اورپرجوش ہوکرہرمیدان میں حاضررہنے لگی ہے اورکوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں قوم کا ہونا لازمی ہو اوروہاں یہ لا تعلق نظرآرہی ہو۔ امریکہ کو جوکچھ حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے: اپنے اہداف کے حصول میں مکمل ناکامی، اس کے علاوہ اس وقت امت مسلمہ امریکیوں سے جواب مانگ رہی ہے، اس وقت امت مسلمہ کی رائے عامہ میں امریکہ کی مذمت کی جارہی ہے عالم اسلام میںجگہ جگہ کرائے جارہے سروے کے نتائج توآپ نے سن ہی رکھے ہوں گے۔ یہ سارے سروے امریکہ سے نفرت اوراس کی مذمت کی داستاں کہہ رہے ہیں ان چیزوں پرامریکیوں سے سوال ہورہے ہیں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ ایک دن موجودہ امریکی صدراوردیگرحکام کسی انصاف پسند عالمی عدالت کےکٹہرے میں کھڑے ہوں گےاوران پرعراق میں ڈھائے گئے مظالم کا مقدمہ چلے گا امریکیوں کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ وہ عراق پر قبضہ ختم کیوں نہیں کررہے ہیں؟ انہیں جواب دینا چاہئے کہ عراق اس قدربدامنی اوردہشت گردی کی لپیٹ میں کیوں ہے؟ دہشت گردی کو امریکیوں نے لا کرعراق پرمسلط کردیا ہے انہیں جواب دینا چاہئے کہ اتنے امیر ملک کے پچاس فیصد عوام بے روزگار کیوں ہیں؟ کیوں اس ملک میں فلاحی کاموں کا کہیں کوئی نشان نظرنہیں آتا؟ عوام کو بجلی کی پریشانی ہے، ایندھن کی پریشانی ہے، پینے کے صاف پانی کی پریشانی ہے ان کے اسکول تباہ ہوچکے ہیں، یونیورسٹیاں ویران ہیں کوئی ایک بھی اسکول تعمیر نہیں کیا گیا ہے اسپتال قابل استعمال نہیں رہ گئے ہیں لوگوں کو اسپتال کی ضرورت ہے امریکیوں نے کون سا اسپتال تعمیرکروایا ہے؟ کس اسپتال کو وسائل فراہم کئے ہیں؟ کون سی یونیورسٹی بنوائی یا اس کی مرمت کروائی ہے؟ کون سی سڑک تعمیر کروائی ہے؟ کون سی پائپ لائن بچھوائی ہے؟ کون سے پینے کے پانی کے نل لگوائے ہیں؟ یہ سوال جواب طلب ہیں امریکیوں کوان کا جواب دینا ہوگا وہ اپنا دامن چھڑاکے نکل نہیں سکتے ہیں ممکن ہے ان معاملات پربے توجہی کے ساتھ چند دن گذارلیں لیکن ہمیشہ یہی صورتحال نہ رہے گی ان کا گریبان پکڑاجائے گا بہتوں کا گریبان پکڑاجاچکا ہے جن طاقتوروں کے گریبان پکڑے گئے ہیں ان کی تعدادکم نہیں ہے ایک دن ہٹلرکا گریبان بھی پکڑاگیا تھا، صدام کا گریبان بھی ایک دن پکڑاگیا، کچھ یورپی حکام کے بھی گریبان پکڑے گئے ہیں اقوام عالم اس طرز عمل کے مخالف ہیں امریکی قوم بھی مخالف ہے برطانوی قوم بھی برطانوی افواج کی عراق میں موجودگی پر ناراض تھی اورانہیں یہ برالگ رہا تھا جس کے نتیجہ میں برطانوی فوجیوں کوبصرہ چھوڑنا پڑا ہسپانوی اوراطالوی عوام نے بھی عراق جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے والی اپنی حکومتوں کوگرادیا اوردونوں ہی ممالک میں دوسری حکومتیں قائم ہوگئیں دنیا بھرکے عوام اس کیفیت پرنالاں ہیں جوچیز آگے بڑھ رہی ہے وہ عوامی خواہشات اورعوام کی مرضی ہے طاقتوروں کی طرف سے اظہارطاقت کا کھیل زیادہ دیر تک نہیں چلتا کچھ سال قبل مشرق وسطی کے مقصد سے اورہماری نظرمیں اسلامی جمہوریہ کو آخری پڑاؤقراردے کر انہوں نے جس نقشہ کے مطابق چلنا شروع کیا تھا اس میں امریکہ کو شکست ہوگئی ہے نہ من پسند مشرق وسطی ہی بنا سکے اورنہ ہی اسلامی جمہوریہ کو کمزورکرسکے عراق کا جوحال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

امریکی مشکلات کا شکار ہیں میڈیا کے پروپیگنڈہ اوروہاں خودکوحق بجانب دکھانے کی کوئی وقعت نہیں ہے ایران یا کسی دوسرے ملک پرالزام تراشی میں دم ہی نہیں ہے خود ان کی اپنی رپورٹوں میں ان کا کمزوراوردلدل میں پھنسنا صاف نظرآرہا ہے عراق میں تعینات امریکہ کے فوجی وسیاسی نمائندے جب امریکی کانگریس میں عراقی جنگ کی رپورٹ دینے پیش ہوئے تواپنی حصولیابی کے بطوراتنا ہی کہہ سکے کہ عراق امریکہ کے اسلحہ بازارسے ملحق ہوگیا ہے تمہارے سر پہ خاک ہو، ایک ملک پر قبضہ کیا، وہاں کی عوام کو پیروں تلے روندھا، ان کے مفادات کچلے، خوداپنی قوم سے اتنے جھوٹ بولے کہ ہم فلاں ارادہ سے جارہے ہیں ہم فلاں فلاں کام کرنا چاہتے ہیں اوراب اس نتیجہ تک پہنچے ہوکہ عراق میں امریکی اسلحہ فروخت ہوسکتا ہے،یہ سخت ضعیف اورماندہ ہونے کی علامت ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ لوگ واقعاً ناکام ہوچکے ہیں۔

اے عزیز بھائیو بہنو! اے ایران کی عظیم قوم! اپنی قدرپہچانئے اس راہ کی قدر پہچانئے جس صراط مستقیم پر چلنے سے آپ کو قوت ملی ہے اورآپ کے دشمن آپ کے سامنے ذلیل وحقیر ہوئے ہیں اس کی قدرپہچانئے یہ خدا کی راہ ہے انبیائے الہی نے اسی کی دعوت دی تھی یہ اسلام کی حاکمیت کی راہ ہے۔

ہمارے ملک کے اندرونی مسائل کافی ہیں جن پرہم گفتگو کرسکتے تھے لیکن وقت نہیں ہے میں فقط اتنا ہی کہوں گا کہ ہماری قوم بیداررہے، ہوشیاررہے اس بیداری وہوشیاری کی بدولت آپ نے کافی کچھ کیا ہے بہت سارے میدانوں میں کامیاب ہوئےاوربڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں مزید اسی بیداری وہوشیاری ہی کی بدولت آپ نئی چوٹیاں سرکرپائیں گے اسی کی بدولت نقصان اٹھانے سے محفوظ رہیں گے ایسا کچھ کرلیجئے کہ ایرانی قوم کو دھمکی دینے کی بھی کسی میں ہمت نہ رہے۔

اس مہینہ کا آخری جمعہ یوم قدس ہے احتمال ہے کہ اس سال ماہ رمضان کا آخری سے پہلے والا جمعہ یوم قدس رکھ دیا جائے تاکہ تمام اسلامی ممالک شرکت کرسکیں اب اس کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری ان حکام پرہے جوان امورکا انتظام وانصرام کرتے ہیں جمعہ قدس کو یاد رکھئے گا بھولئے گا نہیں خداکرے ہم سب اس ماہ کے غنیمت موقعوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اذاجآء نصراللہ والفتح ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً۔

فسبح بحمدربک واستغفرہ انہ کان تواباً