بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ تمام عزیز جوانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں، امید ہے کہ آپ کے پاک، نورانی اور روشن دل جوکہ الطاف الہی کی جلوہ گاہ ہیں، مستقبل میں یعنی آپ کی بابرکت طولانی عمر کے ہرموڑپر، انشا اللہ آپ کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
میرے عزيزجوانو!میرےفرزندو! آپ اسکولی اور یونیورسیٹی طلبہ سے یہ ملاقات چارنومبر(تیرہ آبان)کے نہایت اہم دن کی مناسبت سے ہے چارنومبرحقیقت میں جوانوں کا دن ہے اسکولی اور یونیورسیٹی کےجوان طلبہ کا دن ہے۔
آپ لوگوں کی ولادت سے سالہا قبل چارنومبرسنہ ۱۹۶۴(۱۳/ آبان سنہ ۱۳۴۳ہجری شمسی) کے دن سے متعلق ہماری قوم کے اذہان میں جو سب سے پہلی یاد ہے وہ یہ ہے کہ جس وقت برسہا برس تک اس ملک پر بدقسمتی سے امریکی کارندوں کی حکمرانی تھی اس وقت انہوں نےہمارےبزرگوارامام (رہ) کو کیپیٹولیشن( (capitulation نامی امریکی قانون کی مخالفت کے جرم میں قم سے گرفتار کرکے ملک بدر کردیا لیکن کئی سال بعد ٹھیک اسی دن جوانوں کی طرف سے اہم تاریخی واقعات رقم کرنے کی باری آگئی اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔
چارنوبر۱۹۷۸کو ایک اور تلخ تاریخی واقعہ یہ پیش آیا کہ ملک پر مسلط انہیں امریکی کارندوں کے ہاتھوں ہمارے اسکولی طلبہ کی جانیں لی گئیں، ان کا قتل عام کیاگیا امریکہ نے اپنے کارندوں کے ہاتھوں ہمارے ملک وقوم کو یہ دوسرا نقصان پہنچایا لیکن اس کے بعد اسی تاریخ کو تیسرا واقعہ پیش آیا یعنی اسی کے اگلے سال چارنوبر۱۹۷۹کو ایرانی جوانوں کی طرف سے امریکہ کے منہ پر طمانچہ لگا۔
کئی برسوں سے امریکی اس تیسرے واقعہ کو ایران کی طرف سے جارحیت کے بطور پیش کر رہے ہیں، اس پر واویلا مچا رہے ہیں لیکن (ٹھیک اسی دن پیش آئے) پہلے دو واقعات فراموشی کی نذر کرکے اسے تاریخ سے مٹا رہے ہیں اس قسم کی تاریخی خیانتیں بہت ہوئی ہیں البتہ حقیقت یہی ہے کہ امریکی سفارت خانہ یعنی جاسوسی اڈہ پر قبضہ اس مغروراوراندرونی معاملات میں مداخل طاقت اورحکومت کے منہ پرایرانی جوانوں کی طرف سے زوردارطمانچہ تھا جس نے سالہا سال سے ہمارے ملک ، ہماری قوم اورہمارے قدرتی وسائل کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔
پوری تاریخ میں قوموں کا یہی حال رہا ہے تاریخ پرنظرکرنے سے ہمیں قوموں اورانسانی اکائیوں کی عام تقدیر کا پتہ چلنا چاہئے یہ ایک سبق ہےجو راستہ دکھاتا ہے یہ قوموں کی تقدیر ہے قوموں کی عام تاریخ ہے۔ جوقوم ظالمانہ عالمی سیاسی قوانین کے تحت مظلوم واقع ہوئی ہے وہ یا تو مٹ جاتی ہے یا بن جاتی ہے یابرداشت کرتی رہتی ہے یا جواب دینے پرآمادہ ہوجاتی ہے یہی دو صورتیں ہیں اوران میں سے قوم جس کا انتخاب کرتی ہے اسی کی بنیاد پر اس کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے اس بات پر آپ جوان خوب غوروفکر کریں اس سے ہمیں راستہ کی نشان دہی ہوتی ہے تسلط پسند طاقتوں کے تحت تسلط پذیر ممالک سے ظالمانہ تعلقات کی تاریخ ہمیشہ سے ہے یہ آج اور کل کی بات نہیں ہے۔
کچھ طاقتیں اپنی فوجی واقتصادی برتری کی وجہ سے دوسری قوموں پرظلم وستم کرنا اپنے لئے جائز سمجھتی ہیں کسی ملک میں گھس کروہاں قتل عام مچانے اور اس ملک کے وسائل کو لوٹ لینے کانام ظالمانہ تعلقات ہیں اسی کا نام ہم نے" تسلط پسند نظام " رکھ رکھا ہے تسلط پسند نظام یعنی ایک طرف تسلط پسند طاقت اوردوسری طرف تسلط پذیر۔
یہ تسلط میں دبی ہوئی قوم کیا فیصلہ کرے گی؟ کیا کرے گی؟ اس سوال کا جواب اس کی تقدیر کا تعین کرے گا اگر وہ پہلا راستہ انتخاب کرتی ہے کہ جلنا اورکسی طرح جینا ہے توواضح ہے کہ جل جل کے جینا، برداشت کرنا، سرنہ اٹھانا، ذلت بھری زندگی گذارنا اوردوتین روزجینا جس قوم کا انتخاب ہے اس کا مقدر کیا ہوگا؟ اس کا مقدردشمن کے سامنے دب کر رہناہوگا ۔ اگرآپ ایسی اقوام کی زندہ مثال دیکھنا چاہتے ہیں توحالیہ دوصدیوں کے اندرامت مسلمہ کو دیکھئے۔
ان آخری دوصدیوں میں اسلامی ممالک نے اسی راستہ کا انتخاب کیا ہے یعنی جل جل کے جینے کا، سرنہ اٹھانے کا انتخاب کیا ہے ان حالات میں قصورکس کا ہے؟ پڑھے لکھے لوگوں کا، علماء کا، جن جوانوں کی معاشرہ کوضرورت ہے اور ان سے امیدیں وابستہ ہیں ان کا قصور ہے ایسی قوموں کا حال یہی ہوا کرتا ہے جو ہوا ہے۔ اتنی غنی ثقافتی میراث اوراتنے درخشاں سیاسی ماضی کے باوجود نوبت یہ آجاتی ہے کہ ان دو صدیوں میں تقریباً تمام اسلامی ممالک سامراج کے ماتحت تھے کچھ بھرپورسامراجی قبضہ میں تھے جیسے بہت سارے عرب ممالک اور کچھ بالواسطہ طورپر، گویاجدید سامراج کے ماتحت تھے جیسے طاغوتی دورمیں خود ہمارا ملک، تو پہلے راستہ کے انتخاب کا نتیجہ یہی ہے سائنس میں پیچھے رہ جاتے ہیں، بین الاقوامی سطح پر کوئی وقار نہیں رہ جاتا، عام زندگی میں غربت روز بروزبڑھتی رہتی ہے قوت افرادی بے کار ہوجاتی ہے، قدرتی وسائل لٹ جاتے ہیں یہ انجام ہوتا ہے یعنی پورے پورے ممالک برباد ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف تسلط پسند طاقتیں انہیں کے وسائل استعمال کرکے خود کودن بدن مضبوط کرتی اورمزید قابض ہوتی جاتی ہیں، ان پرمزید زورآزمائی کرتی ہیں۔
لیکن دوسرا راستہ قوم کی تقدیر بدل دیتا ہے " ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرواما بانفسھم" اب کون سا راستہ انتخاب کرنا ہے یہ خود قوم کا کام ہے اگر اس طرح کی مظلوم قوم کے بیچ سے کچھ بزرگ ہستیاں وجود میں آجائیں، کچھ آزاد لوگ پیدا ہوجائیں، سرکردہ علماء شجاعت سے میدان میں وارد ہوجائیں اورعوام کی اکائیاں بھی سامنے آجائیں اورزودگذر لذتوں اورناچیزآرام وآسائش سے کنارہ کشی کرکے جدوجہد کا راستہ اختیارکرتے ہوئے شہادت سے لولگا لیں تواس طرح وہ خود کوزیر تسلط رہنے کی ذلت سے نجات دلاسکتے ہیں اسلامی انقلاب کے ذریعہ ایرانی قوم نے اسی راستہ کا انتخاب کیا ہے۔
اس میں بنیادی کردارامام(رہ) اور امت کا ہے، ہمارے ملک کی بے نظیر اورناقابل فراموش تاریخی شخصیت ہمارے بزرگوارامام (رہ) کی طرف سے اس تحریک کو آگے بڑھانے کے کام اوران کی آواز پر امت کی طرف سے لبیک کہنے نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہم نے طمانچہ کھایا تھا تو جواب میں طمانچہ ماردیا۔ اسلامی انقلاب، استکباری طاقت امریکہ کی کئی سالوں سے چلی آرہی ظالمانہ تسلط پسندی، گھمنڈ، جارحیت، مداخلت، اور قوم کی اہانت کےجواب میں ایک زوردار طمانچہ تھا۔ اس کا ایک نمونہ چارنومبرکا واقعہ ہے جوکہ جوانوں کا کارنامہ ہے، انقلاب میں ہر طبقہ نے کردارادا کیا ہے، خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے، مردوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، ہرطبقہ میدان میں وارد ہوا اوریہ عظیم واقعہ رونما ہوا۔
واضح سی بات ہے کہ تسلط پسند طاقت جلدی اور آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالتی، آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتی، قوم کو اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کے لئے جنگ جاری رکھنا پڑتی ہے آپ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اس جنگ کے لئےہمیشہ میدان کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہاں اس جنگ کا میدان انسانی ظرف اورارادے ہیں قوم اگر آزادی اورعزت کی راہ پر گام زن رہنے کے لئے پرعزم ہو توآگے بڑھے گی اور اسی بات نے ایران میں حقیقت کا روپ دھارا ہے عزیزجوانو! آپ اس ملک کی ایک عظیم حقیقت کے وارث ہیں۔
ایک دورمیں ہمارا ملک خطہ پراستکباری تسلط کا حساس اور بنیادی مرکز تھا، خائن حکمراں، منحوس پہلوی خاندان، رشوت خورفریب خوردہ افراد، خاموش پڑھے لکھے لوگ، لاتعلق علماء وغیرہ سب کے اشتراک سے قوم کا حال ایک ٹھہرے ہوئے پانی کی مثل ہو گیا تھا تسلط پسند جو چاہتے تھے اس قوم کے ساتھ کرتے تھے اس کی ایک مثال کیپیٹولیشن(capitulation) ہے جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے ایرانی پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا کہ ایران کے اندر امریکی مجرم کے خلاف ایرانی کورٹ میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، اس وقت امام (رہ) نے آواز اٹھائی، لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیا، اگر ایک نچلی سطح کا امریکی فوجی اہلکار، ایک امریکی میجر، ایک امریکی باورچی ہمارے ملک کی بزرگترین علمی، مذہبی اور سیاسی شخصیت کی توہین کرے تو ایرانی قوم کو اس کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں تھی، وہی حرکت جو اس وقت ان ممالک میں ہو رہی ہے جہاں امریکی ظلم کررہے ہیں آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہی " یلک واٹر" نامی امریکی کمپنی بغداد میں بے گناہ لوگوں پر گولیاں برسا دیتی ہے تو کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے جو ان پر مقدمہ چلا سکے، ان سے پوچھ سکے کہ تم نے کیوں ایسا کیا ہے؟ اس طرح کے حالات ایران کے اندرپیدا کرنا ان کی کوشش تھی یہ جس قوم پر قبضہ کرتے ہیں اس پر ذرہ برابر رحم نہیں کرتے اس قوم کو ہوش میں آنا ہوگا، ہوشیار رہنا ہوگا اور اپنا راستہ ڈھونڈھنا ہوگا ایرانی قوم نے اپنا راستہ ڈھونڈھ لیا ہے۔
البتہ ہمارا سرمایہ بھی بہت لگا ہے، انہیں میں سے ایک آٹھ سالہ جنگ تھی جس کا تاوان ایرانی قوم کو ادا کرنا پڑا لیکن اس کے مقابلہ میں آزادی اورعزت حاصل کرلی اس وقت ایرانی قوم، ایرانی جوان، عالم اسلام اور دوسرے بہت سے ممالک کے لئے، قوموں کے لئے، پڑھے لکھے لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں پورے عالم اسلام کی یونیورسٹیوں میں ایران کی اہمیت دوسرے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے اس کی وجہ ایرانی قوم کی طرف سے اپنے انہیں ارادوں کا اظہاراوراپنے مقدرکی تبدیلی ہے۔
اسی راستہ پر گامزن رہنا چاہئیے آپ جوانوں سے امیدیں وابستہ ہیں خود کو تیار کیجئے صرف فوجی جنگ ہی کا مسئلہ نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ خود کو فوجی جنگ کے لئے تیار کیجئے اگراس ملک میں فوجی جنگ کا موقع آجائے توان کروڑوں جوانوں، ان بچوں، ان بچیوں اور ان والدین نے اس امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ماضی میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ کیا کریں گے مستقبل میں بھی وہی کریں گے لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے، سائنس، قوت ارادی، خلاقیت، تعمیرنو اوررشد ونمو بھی ایرانی جوان کو حاصل کرنا ہے جس قدر ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جائیں گے، کوشش اور تگ ودو ترک کردیں گے اتنا ہی نقصان اٹھائیں گے اتنا ہی موت وزندگی کی اس تاریخی جنگ میں پسپائی اختیار کرنا پڑے گی، نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ایرانی قوم کو سائنسی میدان میں آگے بڑھنا چاہئیے، اقتصادی میدان میں تگ ودو کرنا چاہئیے، حکومت اورعوام کے درمیان اتحاداور یکجہتی کومحکم کرنا چاہئے نیز پوری قوم خصوصاً جوانوں میں معرفت، آگاہی اورروحانی وفکری صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔
ہماری یونیورسٹیوں میں یہ علم وسیاست کے مجسمے، مختلف انجمنیں، اسلامی انجمنیں، اسلامی سوسائٹیاں، انصاف پسند تحریک اوررضاکار طلبہ کے علاوہ دسیوں تنظیمیں جو مختلف ناموں سے یونیورسٹیوں اورکالجوں میں سرگرم ہیں یہ سب کی سب ایرانی قوم کی کوششوں کا نتیجہ ہیں انہیں اورمضبوط کرنا چاہئے اس طرح پوری قوم رضاکار بن جائے گی اس قوم کے بد خواہ رضاکارکا غلط مطلب بیان کرتے ہیں لیکن رضاکار کے معنی یہ ہیں۔
رضاکار کا مطلب ہے کہ ہرجوان یہ جان اور سمجھ لے کہ اس کا ملک مستقل، آزاد اور آباد ہونا چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرے، اپنے ذمہ کوئی کام لے لے کوئی ذمہ داری اٹھا لے تو یہ ہوگی رضاکاری، رضاکار ایک مقدس لفظ ہے ایک قوم کی رضاکاری کا مطلب ہے اس قوم کی ہمیشہ آمادگی اورہوشیاری خاص طور سے جو جوان حصول علم میں مشغول ہیں، اسکولی اور یونیورسٹی طلبہ اور ان کے ساتھ ساتھ ملک کے حکام بھی انہیں معنی میں رضاکار بن جائیں جب یہ ہوجائے گا تو قوم کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اوریہ روز بروز ترقی کرے گی ایسا ہمارے ملک میں ہوا ہے اس لئے ہمارے ملک نے ترقی کی ہے۔
آپ عزیزجوان یہ جان لیجئے کہ اس وقت ملک کی حالت سیاسی، سائنسی، اقتصادی اوراسلامی وانقلابی جذبوں کی رشدونمو کے لحاظ بیس سال پہلے کے مقابلہ میں کافی بدل چکی ہے ہم نے کافی ترقی کی ہے جو چیز سامنے دکھائی دے رہی ہے، محسوس ہورہی ہے، اندازہ لگانے کے قابل ہے وہ ہماری سائنسی ترقی ہے جوہری پروگرام اس کی ایک مثال ہے دوسری بھی بہت سی مثالیں ہیں البتہ ہمارے دشمن اس ترقی کے مخالف ہیں۔
آج ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ جیسے ملک کی خارجہ سیاست کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے کیوں؟ اس لئے کہ یہ ایسی قوم کی ترقی کی علامت ہے جس کی ترقی کے وہ مخالف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ یہ قوم طاقتور بنے، سائنسی طاقت حاصل کرلے، نفسیاتی طاقت حاصل کرلے، خوداعتمادی پیدا کرلے تاکہ وہ پھر سے تسلط قائم کر سکیں اسی وجہ سے مخالف ہیں۔
آج جب امریکی کچھ نہیں کر پارہے ہیں تو اپنے ذرائع ابلاغ میں ان کے سیاست داں یہی بات لے کے بیٹھے ہوئے ہیں کہ عراق میں ایرانی ہمارے سپاہیوں کو مار رہے ہیں جوصاف جھوٹ ہے، ان پر سوال اٹھ رہے ہیں اس وقت امریکی حکومت پرعراق میں ان کی احمقانہ اورظالمانہ پالیسی کی وجہ سے خود وہاں کی عوام کی طرف سوال اٹھ رہے ہیں ہمارے جوانوں کو عراق بھیج کر قتل کر رہے ہو؟ تو اپنی عوام کو انہیں جواب دینا ہے تو کیا جواب دے رہے ہیں کہ ہم نہیں بلکہ انہیں ایرانی مار رہے ہیں جوصاف اور سفید جھوٹ ہے، ان کے اپنے ہاتھ اپنے جوانوں اور فوجیوں کے خون سے رنگے ہیں یہ عراق میں کیا کر رہے ہیں؟ ہزاروں کیلومیٹر کے فاصلہ سے انہوں نے اپنے فوجیوں کو کس کام کے لئے عراق بھیج رکھا ہے؟ کس لئے لڑ رہے ہیں؟ اس وقت مشرق وسطی میں بدامنی کی اصل وجہ امریکیوں کی موجودگی اور ان کی مداخلت ہے عراق، لبنان اور فلسطین میں بدامنی انہیں کی وجہ سے ہے، انہیں کی وجہ سے ان ممالک میں غیریقینی صورتحال ہے دنیا آج یہ بات سمجھ رہی ہے خوش قسمتی سے قومیں بیدار ہو چکی ہیں آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ امریکی صدر اور دیگر حکام کسی بھی حال میں دنیا کے کسی گوشہ میں قدم رکھتے ہیں تووہاں عوامی رد عمل سامنے آتا ہے، لوگ امریکی پرچم نذرآتش کرتے ہیں، بش کا پتلاجلاتے ہیں اسے کہتے ہیں تنہا ہو جانا۔
اس وقت امریکی طاقت، اس کے سپرپاور ہونے کا دبدبہ اقوام عالم کی نگاہ میں ختم ہو چکا ہے، قومیں بیدار ہو چکی ہیں اب ان میں جرأت وہمت آ گئی ہے اور اس سب کی اصل وجہ آپ ہیں آپ ایرانی قوم، آپ جوانوں نے قیام کیا، انقلاب لائے، حق بات کہی، اس پرقائم رہے " ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا" آپ ثابت قدم رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا آپ پر اپنی رحمت و برکت نازل کر رہا ہے " تتنزل علیھم الملائکۃ الا تخافواولا تحزنوا" ایرانی جوان کے دل میں دشمن کا خوف وہراس نہیں ہے ہمارے جوان دشمن سے نہیں ڈرتے دشمن کے تسلط میں ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں ڈر نہیں ہے" الا تخافواولاتحزنوا" ڈرنہیں ہونا چاہئے، حزن وغم نہیں ہونا چاہئے خدا کے ملائکہ اورفرشتوں کا آپ سے یہی پیغام ہے۔
عزیزجوانو! میری سفارش یہ ہے کہ آپ اس راستے پر گامزن رہیں ملک کا مستقبل روشن ہے، افق بالکل روشن ہے لیکن منحصر ہے آپ کے ارادوں پر، آپ کی کارکردگی پر، آپ کی خودسازی پر، سائنسی پیشرفت پر، دینی خودسازی پر، خدا نے جوآپ کو دل وروح دیا ہے اسے ہرجگہ پاک رکھنے پر! تلاش وکوشش اورخودسازی وہ چیز ہے جوآپ کے ملک کوانشا اللہ قدرت وعزت کی بلندیوں تک پہونچا دے گی۔
دعا کرتا ہوں کہ شہدا کی ارواح مطہرہ اورامام (رہ) کی روح مطہرہمیشہ آپ کی حامی رہے، حضرت ولی عصر(اروحنا فداہ) کا قلب مقدس آپ سے راضی و خشنود رہے، اور انشا اللہ آپ وہ درخشاں دن اوروہ خوبصورت مستقبل دیکھیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ